شریر بیوی صفحہ 63

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200063.gif
 

کاشفی

محفلین
"یا اس کے لئے کہ وہ ایک دوست کی خوبصورت بیوی ہیں۔"

"لاحول ولاقوہ تم بھی کیا آدمی ہو۔" حامد نے کہا۔

"مجھ سے زیادہ آپ کو موجودہ روش کی دلدادہ عورتوں کو تجربہ نہیں ہے۔" بیرسٹر صاحب نے کہا۔

"بہتر ہے اگر آپ کوئی دوسرا تذکرہ کریں۔ " حامد نے سنجیدہ ہو کر کہا۔

"اجی جناب آپ مجھ سے۔۔۔۔۔"

"براہِ کرم چپ ہو جاؤ۔ واللہ میں ایک لفظ نہیں سن سکتا۔ " حامد نے ضرورت سے زیادہ سنجیدہ ہو کر کہا۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ اور حامد نے ہم سے کبھی اس کا ذکر بھی نہ کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار کا دن تھا اور ہم نے چاندنی سے کہا کہ آج تو دوست حلوہ کھلاؤ۔ ہماری بیوی کو ہمارے ایسے دوستوں کی خاطر مدارت کی فکر رہتی تھی۔ جن کے گھر عورتیں نہ ہوں۔ وہ طرح طرح کے کھانے پکا کر ایسے دوستوں‌ کو اکثر بھجواتی رہتی تھی۔ ہماری رائے سے ہماری بیوی نے قطعی اتفاق کیا اور کہا کہ ہم آج دو تین طرح کے حلوے پکائیں گے۔ اور مرغ کا قورمہ پکائیں گے۔ اور بیرسٹر صاحب کے یہاں‌ ضرور بھیجیں گے۔

ہم نے دل میں سوچا کہ ہم بھی نہ اپنی بیوی کا ہاتھ بٹائیں۔ جب ہماری بیوی نے یہ سنا تو یہ طے ہوا کہ ایک ہم پکائیں اور ایک ہماری بیوی۔ ہم نے بیوی سے کہا کہ مونگ کی دال کا حلوہ تو پکا اور ہم چنے کا پکائیں گے۔ ارداہ دو قسم کے حلوے کا تھا۔ مگر پھر تین قسم کا طے ہو گیا۔ یعنی سوجی کا بھی۔

ہم نے اپنے بنگلے کے برآمدہ میں بہت جلد اینٹوں کے چولہے تیار کئے اور بہت جلد حلوے پکائے جانے لگے۔ دو مرغ ذبح کئے گئے تھے ان کو دوسرے چولہے پر چڑھا دیا۔ ہماری بیوی چونکہ تمیزدار زیادہ تھی۔ اس لئے وہ مختلف ڈبوں پر ہر چیز مثلاََ نمک اور شکر وغیرہ کے لیبل لگا کر رکھتی تھی۔ نمک بھی اس احتیاط سے پیس کر رکھا جاتا تھا کہ حکم تھا کہ چمچہ ہی سے ڈبہ سے نکال کر ڈالا جائے۔ بدقسمتی کہیے یا خوش قسمتی کہ جب گھی میں دونوں حلوے خوب بھنے اور خوشبو نکلنے لگی تو بجائے شکر کے جو پسی ہوئی تھی ۔ خوب اچھی طرح اس نے نمک ڈالا۔ جلدی سے تیار کر کے حلوے اتارے گئے اور نہایت تکلف سے ان کو زعفران اور کیوڑے کی خوشبو دے کر پلیٹوں میں رکھ کر سنہری ورق لگائے گئے۔ اور میوہ کی افشاں چھڑکی گئی۔ خوش قسمتی سے سوجی کے حلوے میں نمک نہ پڑا۔ اس کو ہم پکا رہے تھے۔ جب شکر وغیرہ پڑ گئی تو وہ بھی اتارا گیا۔ ہم اصل میں اس کو ملائم چاہتے تھے۔ مگر معلوم ہوا کہ وہ تختی حلوہ بن گیا۔ خیر کچھ بھی ہوا۔ اسکو سینی میں جما دیا گیا۔

اب مرغ کے قورمے کا حال سنئیے۔ اس میں بجائے نمک کے نہایت اطمینان سے شکر ڈالی گئی۔ ہم نے مرغ کا نمک بھی چکھا۔ مگر بوجہ گرم گرم ہونے کے کچھ سمجھ میں نہ آیا اور ہم نے یہ سمجھ کر ٹھیک ہے اس کو پاس بھی کر دیا مگر ہماری بیوی نے احتیاطاََ نمک نہ ڈالا۔ کہ کہیں تیز نہ ہو جائے۔
 
Top