شریر بیوی صفحہ 62

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200062.gif
 

کاشفی

محفلین
صبح چار بجے ہی آکر حامد نے کھٹکھٹایا ۔ بیرسٹر صاحب سے ہماری تو ملاقات کئی مرتبہ ہو چکی تھی۔ مگر ہماری بیوی کی اور ان کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ بہت جلد ہم نے چائے تیار کرائی۔ اور فارغ ہو کر حامد کی موٹر میں روانہ ہو گئے۔ حامد موٹر خود چلا رہے تھے اور آگے ان کے پاس ہماری بیوی بیٹھی تھی اور ہم بیرسٹر صاحب پیچھے بیٹھے تھے۔

بارہ پندرہ میل پختہ سڑک کا راستہ طے کر کے کچی سڑک آئی اور پھر دو چار میل چل کر گڑھے اور اونچی نیچی زمین سے سابقہ پڑا یہ مشکل بھی آسانی سے طے ہوگئی اور جھیل آگئی۔ ہم لوگ اُتر پڑے اور جھیل کی طرف چلے ۔ جھیل میں‌ مرغابیاں اور قازیں بھری پڑی تھیں۔ ہم نے چاندنی کو ایسی جگہ بٹھا دیا جہاں سے وہ تماشہ دیکھ سکے۔ اور ہم تینوں جھیل کی طرف چلے۔ ہم لوگ الگ الگ چلے گئے۔ اور جھیل کو تین طرف سے گھیر لیا۔ حامد نے پہلے بندوق چلائی اور پھر اڑنے پر بیرسٹر صاحب اور حامد نے بہت فائر کئے۔ ہم نے بھی طبع آزمائی کی ہم نے تو ایک پر تک نہ مارا مگر حامد اور بیرسٹر صاحب نے مل کر سات بڑی قازیں اور تین چھوٹی مرغابیاں ماریں ۔

یہاں سے فراغت پا کر اب ہرن کے شکار کا ارادہ کیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد بیرسٹر صاحب ہم سے اور ہماری بیوی سے بھی بے تکلف ہو گئے اور شکار میں‌ خوب لطف آیا۔ حامد سے اور بیرسٹر صاحب پرانا شکار کا یارانہ تھا۔ اور دونوں پرانے شکاری تھے۔
 

کاشفی

محفلین
قصہ مختصر ہم لوگ 12 بجے کے قریب لوٹے ۔ علاوہ ان آبی جانوروں کے دو ہرن قتل کئے گئے اور چاندنی نے بھی شکار کا خوب لطف اٹھایا چونکہ کھانا تیار ہی تھا۔ حامد اور بیرسٹر صاحب نے بھی ہمارے ہی ہاں کھانا کھایا۔ قصہ مختصر دن مزے سے کٹا۔ بیرسٹر صاحب ہم سے اور چاندنی سے مل کر بہت خوش ہوتے تھے اور چاندنی نے بھی ان کے بارے میں قطعی فیصلہ دیا تھا کہ یہ بہت معقول اور اچھے آدمی ہیں اور واقعی وہ تھے بھی ایسے ہی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیرسٹر صاحب ہماری بیوی سے پہلی مرتبہ ملے تھے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ کسی سے ملو تو اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے میں جلدی نہ کرنا چاہئیے۔ وہ یورپ کی ایک جھلک دیکھے ہوئے تھے۔ عموماََ جو ہمارے نوجوان انگلستان جاتے ہیں اور جن کی وسعت تین چار سو روپے ماہوار سے زائد نہیں ہوتی وہ عموماََ افضل ترین سوسائٹی میں وہاں بسر کرتے ہیں اور وہاں کی عورتوں کے طباح اور روشن خیالات کو دیکھ کر عالم نسواں کے بارے میں ایک عام رائے قائم کر لیتے ہیں اور اپنے آپ کو ماہر نسانیات سمجھنے لگتے ہیں۔ ہمارے بیرسٹر صاحب کا یہی‌حال تھا۔ حامد نے جب ان سے ہماری بیوی کے بارے میں‌گھر واپس جاتے ہوئے تذکرہ کیا تو انہوں نے ایک تمسخر آمیز اور طنزیہ طریقہ پر کہا۔ " آپ کو ان سے اس قدر کیوں دلچسپی ہے"۔
"اس لیئے کہ وہ میرے دوست کی بیوی ہیں۔"
 
Top