شریر بیوی صفحہ 59

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200059.gif
 

کاشفی

محفلین
چاندنی سے کہنے لگے۔" آپ سے آخر کس نے کہا تھا کہ آپ میری بیوی کو منہ ہر کس و ناکس کے دیکھنے کے لئے کھول دیں۔"

چاندنی بولی۔ "میں شرمندہ ہوں۔ مگر یہ تو۔۔۔۔۔"

"اجی صاحب' اصغر نے کہا مگر وگر کو جانے دیجئے۔ آخر شرم و حیا بھی تو کوئی چیز ہے۔ آپ کی طرح سے کوئی نسوانی شرم و حیا کو بالائے ۔۔۔"

اتنا کہنا تھا، کہ جلی تو بیٹھی ہی تھی۔ چھتری لے کر جب تک ہم روکیں روکیں ایک دو تین اصغر صاحب کے اوپر تڑا تڑ بالکل اس طرح لگا دیں جس طرح ہمارے اوپر انہوں نے حقہ کے ہاتھ جڑے تھے۔ اصغر صاحب نے بہت کچھ وار رد کے مگر تین چار بری طرح پڑے۔۔ہیں ہیں کر کرکے ہم نے ڈانٹ کر روکا۔

"بدتمیز بدزبان تم یہاں سے نکل جاؤ" یہ کہکر وہ غصہ میں زنجیر کی طرف لپکی۔ " میں ابھی نکلواتی ہوں۔ " یہ کیا واہیات ہے۔ "ہم نے ہاتھ پکڑ کر گھسیٹا اور پکڑ کر بٹھایا۔ وہ غصہ میں‌ کانپ رہی تھی اور کہہ رہی تھی ۔ "مجھے چھوڑ دیجئے۔ " ہم نے ڈانٹ کر بٹھایا۔ اصغر صاحب کی عجب ہی حالت تھی۔ ہم نے ان سے معافی مانگی۔ اور تھوڑی دیر میں چاندنی سے بھی کہا کہ تم بھی معافی مانگو۔

"بشرطیکہ اصغر صاحب اپنے الفاظ واپس لیں۔ میں اپنی بیوقوفی اور گستاخی پر نادم ہوں اور معافی مانگتی ہوں۔ چاندنی نے بڑی مشکل سے سمجھانے بجھانے پر کہا ۔

"مجھ کو افسوس ہے کہ میں غصہ میں آپ کو نہ معلوم کیا کہہ گیا۔"

یہ ہم نے اصغر صاحب سے کہلوایا۔ اور دونوں سے ہاتھ ملوایا۔ مگر نہ تو چاندنی کا دل صاف تھا اور نہ اصغر صاحب کا اور بقیہ راستہ ادھر وہ منہ پھلائے بیٹھے رہے اور ادھر یہ چپ بیٹھی رہی۔

ہم نے چپکے سے چاندنی کے کان میں‌کہا "دوست تم نے ہمارا بدلا خوب لیا۔ اسی شخص نے اس روز ہماری حقہ سے مرمت کی تھی۔ "

چاندنی نے تعجب سے کہا۔ "اے" تو ہم نے کہا چپ خبردار جو بات نکالی۔ یہ حضرت ہمیں پہچان ہی نہ سکے۔ خواہ مخواہ شرمندہ کرنے سے کوئی نتیجہ نہیں وہ چپ ہوگئی۔ آگرہ پر ہم دونوں جب اترے تو اصغر صاحب سے پھر ملال رفع کرنے کے ہاتھ ملائے۔

بدقسمتی سے اصغر صاحب کی مصیبتوں کا خاتمہ اب نہ ہوا تھا اور ہم آٹھ سات روز کے بعد جب اصغر صاحب کے گھر دوبارہ اپنی بیوی کی بدتمیزی پر معافی مانگنے گئے تو ہمارے تعجب کی انتہا نہ رہی۔ اصغر کا گھر تو خاصا ماتم کدہ بنا ہوا تھا۔ اور ہم سناٹے میں آگئے جب ہم نے سنا کہ اصغر صاحب کی بیوی کھو گئیں۔ آگرہ کے اسٹیشن پر سے وہ اسی طرح چادر تان کر ڈولی میں بٹھا کر لائے۔ یہ تانگے پر تھے اور ڈولی کے ساتھ ساتھ نوکر تھا۔ گھر پر بجائے بیوی کے ایک سن رسیدہ پردہ نشین غریب بی بی اتریں۔ ادھر وہ حیران کہ کہاں آگئی۔ اور ادھر اصغر صاحب کے گھر والے پریشان۔ وہ کہتی تھیں کہ میرا بیٹا کہاں ہے جو ڈولی لے کر آیا تھا۔ اور یہ کہتے تھے کہ ہماری بیوی لاؤ۔ دوڑ کر اسٹیشن پر پہنچے ۔ وہاں سے گاڑی راجہ منڈی کے اسٹیشن پر جاچکی تھی وہاں پہنچے تو اتنا ضرور پتہ چلا کہ گاڑی چونکہ یہاں ختم ہوجاتی ہے ۔ لہذا سوائے ایک
 
Top