شریر بیوی صفحہ 56

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200056.gif
 

کاشفی

محفلین
پر انہوں نے مفصل طور پر روشنی ڈالی ۔ اور پھر سارا الزام دہی بڑے والے پر رکھا کہ اگر وہ اپنا ہاتھ خواہ مخواہ پاؤں میں حائل نہ کردیتا تو وہ قطعی اس کو پھاند گئے ہوتے۔ غرض خوب جھائیں جھائیں ہونے کے بعد دہی بڑے والا پانچ روپے لے کر ٹلا۔ ریل چلی اور ذرا اطمینان ہوا تو پریشانیوں کی پوری تفصیل سننے میں آئی۔ اب غور سے دیکھتے ہیں تو پتلون کے پائینچوں اور موزوں پر دہی اور سونٹھ کی چٹنی کے جگہ جگہ دھبے تھے۔ لہذا ان کو رومال تر کر کے چھڑانے کی کوشش کر کے خوب پھیلایا۔

ذرا غور سے دیکھئے کہ جتنا اسباب ان کے ساتھ تھا اس سے چوگنا ہمارے ساتھ پاس تھا۔ سفر کرنے والے دو میاں بیوی وہ اور وہی ہم دو میاں بیوی تھے۔ مگر وہ ایک مصیبت میں گرفتار تھے اور ہم آرام سے تھے۔ ان کی بیوی اگر باعثِ مصیبت تھیں تو ہماری بیوری باعث آرام و تفریح۔ اگر وہ واقعی مذہب کے پابند تھے اور ہم اس سے آزاد تھے۔ تو کیا یہ صحیح ہے کہ یہ مذہب اس زمانہ اور معاشرت کے لئے ناموزوں ہے۔ یا ہمارا دعوی کہ ہمارا مذیب دین فطرت ہے، صحیح ہے۔ ذرا پھر سوچئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تین چار اسٹیشن بعد اصغر نے اتر کر بیوی کی خبر لی کہ کس حال میں‌ ہیں وہاں دیکھتے کیا ہیں کہ سب کھڑکیاں جو بند کر کے گئے تھے کھلی ہیں۔ فوراََ ان کو چڑھایا۔ بیوی نے یہ خبر وحشت اثر سنائی کہ کوئی شخص کالی اچکن پہنے ان کے چلے جانے کے بعد زنانہ درجہ میں آیا اور ایک قلی پر ان کا ایک ٹرنک دن دہاڑے رکھوا کر چلتا بنا۔
 

کاشفی

محفلین
ان کی بیوی بیچاری پردہ نشین ناتجربہ کار عورت تھیں۔ انہوں نے جو یہ دیکھا تو بجائے اس کے خود کچھ کہتیں یا روکتیں ایک قریب والی بی بی کے کان میں‌کہا مگر یہ تیسرا درجہ تو تھا نہیں سب پردہ نشین بیویاں تھیں۔ انہوں نے کہا پھر روکتی کیوں نہیں‌ہو یہ بھلا کیسے روکتیں وہ لے کر چل بھی دیا۔ اور گاڑی چل دی۔ اس ٹرنک میں علاوہ قمیتی کپڑوں کے ڈیڑھ دو ہزار کی مالیت کا اور بھی سامان تھا۔

فوراَََ دوڑ دھوپ کر کے پولیس کو اطلاع کی اور نار دلوائے چاندنی نے ان سے کہا معاف کیجئے گا۔ اس میں آپ کی بیگم صاحبہ کی غلطی ہے۔ اول تو ان کو فوراََ اس آدمی کو وہیں روکنا تھا اور پھر اگر یہ نہ ہوسکا تو ان کو زنجیر کھینچ کر گاڑی روکنی تھی۔ اور نہ سہی یہ ہی کہ کم از کم پہلے ہی اسٹیشن پر اطلاع کرتیں۔"

"معاف کیجئے" اصغر نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔ "اس آدمی کا ہاتھ پکڑ لیتیں۔" آخر کیوں نہ پکڑلیتیں۔ میں ہوتی تو اپنا ٹرنک ہرگز اس طرح نہ لے جانے دیتی۔" چاندنی نے کہا۔ اصغر بولے۔" جناب ایک ٹرنک کے پیچھے ہمارے یہاں کی عورتیں نہ تو پردہ توڑتی ہیں اور نہ مردوں سے الجھتی ہیں۔" یہ الفاظ اصغر نے کچھ فخریہ لہجے میں کہے۔

چاندنی نے کہا۔ "محض اس بنا کر شاید انہوں نے اس کے متعلق اطلاع بھی نہ دی ۔"

"بیشک" اصغر بولے۔ "یہ تو ایک ٹرنک ہے۔ اگر لاکھوں کی چیز ہوتی
 
Top