شریر بیوی صفحہ 54

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200054.gif
 

کاشفی

محفلین
جانے اور اسباب بتانے اٹھوانے میں‌ برقعہ سے اُلجھ کر گرے یا کوئی بنڈل اُڑوا دے۔ معاف کیجئے میں ایسے پردہ سے باز آیا۔"

"پھر مزہ یہ کہ آپ ان کا نام لے کر پکارتے ہیں۔" اصغر صاحب نے دُوسرا اعتراض کیا۔

"آخر پھر کیسے پکاروں؟ آپ ہی کوئی تدبیر بتائیں۔ مجھ کو تو یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ ارے دیکھنا ۔ اے جی سنو تو، وغیرہ وغیرہ کہہ کر پکاروں، اور خوام مخواہ اسٹیشن پر بیسیوں آدمیوں کو اپنی طرف مخاطب کر لوں۔ "

مگر وہاں تو تیسرا اعتراض موجود تھا۔ "آپ تو مردوں کا کام عورتوں سے لیتے ہیں۔ یہ سب کام جو آپ کی بیگم صاحبہ دوڑ دوڑ کر کرتی پھر رہی ہیں۔ دراصل آپ کے کرنے کے تھے۔ " اصغر صاحب نے کہا۔

ہم نے کہا۔ "بیشک ۔ مگر عرض کیا نا کہ میری طبیعت کچھ خراب ہے۔ گرمی کا موسم ہے۔ ورنہ میں ہر گز اپنی بیوی کو تکلیف نہ دیتا۔ میں تو اس حالت میں بھی ان کو منع کرتا رہا مگر وہ نہ مانیں کہ کہیں میری طبیعت زیادہ خراب نہ ہو جائے! اصغر صاحب کیا کہوں کہ بیوی ایک نعمت ہے اور خصوصاََ سفر میں۔ "

اتنے میں ریل گاڑی کی گھنٹی بجی اور اصغر صاحب بری طرح اپٹھ کر بھاگے۔ ہم اُسی طرح بیٹھے رہے۔ کیونکہ گاڑی یہاں سے بہت دیر ٹھہرتی تھی۔ تھوڑی دیر میں چاندنی آئی اور کہا چلئے ۔ ہم گاڑی میں‌گئے تو وہاں سب اسباب قرینے سے رکھا ہوُا اور بستر بچھا پایا۔ ہم نے چاندنی سے کہا۔ دوست خدا تمہارا سہاگ قائم رکھے۔ بس ایک گلاس شربت اور پلوا دو۔" یہ کہہ کر ہم مزے سے لیٹ رہے۔ چاندنی نے قلی وغیرہ سب رُخصت کردیئے تھے۔ اور تھوڑی ہی دیر میں ہم بیٹھے سرد پانی سے اور اپنی بیوی سے باتیں کر کر کے دل ٹھنڈا کر رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُدھر اصغر صاحب کا حال سنئے۔ ریل کیا آئی کہ مصیبتوں کا دفتر کھل گیا ۔ کہاروں نے پالکی میں ان کی بیگم صاحبہ یا یوں کہئے کہ اسباب جہالت کو اٹھایا اور آگے بڑھے۔ اصغر نے اسباب اور قلیوں کو دیکھا تو ایک قلی غائب پالکی نکلی جاتی تھی۔ ایک دم سے اُدھر دوڑے کہ پھر اِدھر آئے۔ دوسرے قلی سے پوچھا تو اس نے کہا کہ صاحب ابھی تو یہیں تھا۔ شاید آگے بڑھ گیا ہوگا۔ اس کو ساتھ لیا اور تیزی سے آگے بڑھے کہ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ قلی اُن کا اسباب لئے مجمع کے ساتھ ساتھ پھاٹک سے باہر جانا ہی چاہتا ہے۔ غضب ہی تو ہوگیا ۔ اور بے تحاشا اس کی طرف لپکے اور اس ہڑبونگ میں نہ معلوم کس کس سے ٹکرائے کہ آخرش اس جلد بازی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک صاحب سے جو شاید ان سے بھی زیادہ ضروری کام سے جارہے تھے ایسی ٹکر ہوئی کہ یہ گرتے گرتے بچے۔ مگر سنبھلنے جو لگے تو ایک دہی بڑے والے کا خوانچہ سامنے آیا۔ پھاندے جو سہی تو دہی بڑے والے نے ہاتھ سے روکا۔ نتیجہ یہ کہ دہی بڑے والے کے خوانچہ میں قدم پڑا۔ اور بری طرح گرے۔ تڑپ کر اُٹھے کہ دہی بڑے والے نے پکڑا۔ وہاں اسباب نکلا جاتا تھا۔ ہاتھ کو ایک جھٹکا دیا اور چھڑا کر
 
Top