شریر بیوی صفحہ 51

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200051.gif
 

کاشفی

محفلین
بدمعاش، پاجی، لچا، دن دھاڑے۔ کانپتے ہوئے وہ بولے۔ "ذرا سُنئے تو، سنئے تو، ہم نے کہا۔

ٹہر جائیے، صبر سے کام لیجئے۔ " ایک بڑے میاں بولے۔ "کیا معاملہ ہے ۔" ہم نے عذر کیا۔ "بدقسمتی سے میں بجائے برابر والے مکان کے ان کے مکان میں داخل ہو گیا۔ اور میں سخت شرمندہ ہوں۔ "

اس پر وہ بولے ۔ " بے ایمان، بدمعاش، جھوٹا ہے ۔ جان بوجھ کر۔۔۔۔"
"نہیں صاحب ایسا ہو ہی جاتا ہے ۔ جانے دیجئے۔" بڑے میاں بولے۔جانے دیجئے۔!" وہ حضرت بولے۔ "میں تو پولیس میں دے دیتا۔"

غرض لوگوں نے معاملہ رفع دفع کیا۔ ہم پٹے پٹائے سخت شرمندہ کھڑے تھے اور اصلی جگہ جانے کا ارادہ فسخ کر کے گردن نیچی کر کے لوٹ آئے چراغ جل چکے تھے کہ گھر پہنچے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ا۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج صبح نہ معلوم کس منحوس کا منہ دیکھا تھا۔ ہم نے چاندنی سے کہا۔ "کہیں تو تو سامنے نہیں‌آگئی۔"

چاندنی نے ہنس کر کہا۔ کیا ہوا۔ ہم کہتے تھے کہ رات کو تکئے کے پاس بیٹح کر آئینہ مت دیکھو۔ منحوس ہوتا ہے۔ تم بھول گئے اور وہ وہیں رکھا رہ گیا۔ اور صبح ہی شاید تم نے دیکھ لیا۔ "

ہم کو ہنسی آگئی۔ کیونکہ بیشک ہم نے رات کو بدقسمتی سے آئینہ دیکھ کر وہیں رکھا رہنے دیا تھا۔ اور چاندنی کی بن آئی ۔ اُس نےت مفصل قصہ پوچھا۔

ہم نے بتایا کہ کس طرح ہم نے آج ایک جگہ دھوکہ سے پردہ نشین بیوی کے گھر میں‌گھس گئے اور مارے گئے۔ قصہ گیا آیا ہوا۔ یہ قصہ لکھنؤ کا تھا۔ اور اس واقعہ کے چار روز بعد ہم یہاں سے لدگئے۔

ہم ویٹنگ روم میں آرام کرستی پر لیٹے ہوئے مزے میں‌اخبار پڑھ رہے تھے کہ ذرا باہر نکلے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بند گاڑی آکر رُکی۔ لوگوں نے چادریں پردہ کے لئے تانیں۔ اور کوئی بیگم صاحبہ زنانہ ویٹنگ روم میں اُتریں۔ ہم لوٹ آئے اور بدستور اخبار پڑھنے لگے۔ کھٹ پٹ کی آواز آئی۔ ہم نے اخبار ہٹا کر دیکھا۔ ایک صاحب نہایت باوضع جنٹل مین۔ "افوہ" کر کے کرسی پر بیٹھ گئے۔ اور ہماری طرف دیکھنے لگے۔ یہ وہی حضرت تھے۔ جنہوں نے ہماری حقہ کی نے سے مرمت کی تھی۔ یہ اپنی بیگم صاحبہ کو زنانہ ویٹنگ روم میں اتروا کر آرہے تھے۔

"خدا کی پناہ" ٹوپی اتار کر بولے۔ "جناب کہاں تشریف لے جائیں گے!" ہم نے غور سے دیکھا اور ہم خوش ہوئے کہ چلو اچھا ہے کہ انہوں نے ہمیں پہچانا نہیں اور پھر بتایا کہ آگرہ تشریف لے جارہے ہیں۔" یہ کہہ کر جو انہوں نے سلسلہ شروع کیا تو دنیا بھر کی باتیں پوچھ کر پھر وہی پرانی باتیں شروع کیں۔ سفر کی خرابی، عورتوں کا ساتھ وغیرہ وغیرہ کہتے کہتے بولے۔ "کیا بتاؤں‌صاحب میں تو پریشان ہو جاتا ہوں، عورتوں‌کا ساتھ ہونا سفر میں واقعی مصیبت ہے۔ چار گھنٹہ تو عورتوں کو سوار کرانے میں گئے۔ " وہ کیسے؟ ہم نے پوچھا تو وہ بولے۔
 
Top