شریر بیوی- صفحہ 17

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200017.gif
 

فہیم

لائبریرین
صاحب آئے جن کو جج صاحب نے بلایا تھا اور وہ اس سے مل کر آرہے تھے۔
جب گفتگو ہوئی تو ہم نے ان سے صاف کہدیا کہ بغیر اپنی والدہ مکرمہ کی شرکت یا مرضی کے کچھ نہیں کرسکتے۔ مگر دوسرے روز ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب نے ہمارے والد مرحوم کے ایک دوست کو جو یہاں ڈپٹی کلکٹر تھے لاکھڑا کیا۔ اور انہوں نے اسی روز کچھ گڑبڑ کرکے ایسا تار دیا کہ ہماری اماں جان دوسرے ہی روز ان کےگھر پر موجود تھیں۔ اور ہمارے دولہا بنائے جانے کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ ہم سے اور ہماری والدہ صاحبہ سے کہا گیا کہ، اس شادی کرنے میں ہماری آئندہ بہبود ہے۔ چوتھے روز ہمارا نکاح اس شریر لڑکی سے ہوگیا۔ اور یہ طے ہوا کہ رخصتی جب ہوگی۔ جب ہم تعلیم پوری کرچکیں گے۔ ہم کو معلوم ہوا کہ جج صاحب نے ہماری بیوی سے چچا اور بھتیجی کا رشتہ قائم کرکے اس کو بیس روپے ماہوار دینے کا ارادہ کیا ہے۔ ہماری نیت اس بات کو ہرگز گوارہ نہ کرتی۔ مگر چونکہ معاملہ ہمارے خسر صاحب اور جج صاحب کے درمیان کا تھا۔ لٰہذا ہم کچھ نہ بولے۔
ذرا غور کیجئے کہ اب بعد نکاح جو ہم کھڑکی کے پاس پہنچے تو جواب ندارد بہت کچھ ہاتھ مارا کھٹکھٹایا مگر بے سود۔ ہم جھک مار کر چلے گئے اور چلتے وقت بھی ہماری منکوحہ بیوی ہم سے بات کرنے نہ آئی۔
مگر یہ بے رحمی اور خاموشی زیادہ عرصہ تک نہ رہی۔ ہم کھڑکی کے بجانے کے لئے چپکے سے چھٹیوں میں‌ علی گڑھ سے بھاگ بھاگ کر آتے تھے اور اپنی شریر بیوی سے مل کر چلے بھی جاتے تھے اور ہمارے خسر صاحب یا کسی دوسرے کو پتہ بھی نہ چلتا۔ شرارتیں ہماری بیوی کی اس طرح‌ جاری ہوگئیں، ہم کبھی نہ بھولیں گے کہ کیسی کیسی خوشامدیں کرواتی تھی۔ جب جاکر اور وہ بھی انگلی میں‌ خوب سوئی بھونکنے کے بعد ہم کو اپنی شریر صورت کی بس ایک جھلک دکھاتی تھی۔
بجائے تعلیم ختم ہونے پر رخصتی کے ہماری اماں جان ہماری بیوی کو ڈیڑھ سال بعد ہی گھر لے آئیں۔ جب ہم سے ہمارے بیوی کی پہلی ملاقات ہوئی تب بھی وہ شرارت سے باز نہ آئی۔ ہم جو کمرے میں‌ داخل ہوئے تو کیا دیکھتے کہ لیمپ روشن ہے اور ہماری بیوی خوب اپنے آپ کو کپڑوں میں‌ لپیٹے اور سر منہ سب چھپائے پلنگ پر بیٹھی ہے۔ ہم نے اپنی چہیتی بیوی کے کاندھے پر ہاتھ رکھکر ہلا کر کہا، بندہ پروو السلام علیکم۔ کہیے مزاج تو بخیر ہیں۔
یہ کہتے ہوئے ہم نے رضائی گھیسیٹ کر الگ ڈالڈی۔ مگر وہ نہ بولی اور شرم و حیا کا پشتارہ بن گئی۔ تو ہم نے ازراہِ تمسخر کہا۔ کہیے وہ آپ کی شرارتیں کیا ہوئیں کیا گھر چھوڑ آئیں۔ یہ کہہ کر جب ہم نے جواب نہ پایا تو پلنگ پر بیٹھ گئے اور ہم نے کہا لاؤ ہم اپنی شریر بیوی کو ذرا گلے تو لگالیں۔ یہ کہہ کر ہم نے اس شریر کو گلے لگایا ہی تھا کہ ران میں اس نے ایسی بیدردی سے سوئی چبھوئی کہ ہم بے تاب ہوکر اچھل ہی تو پڑے۔ پھر اس کے بعد اس نے ہم سے یہ مذاق نہیں کیا اور یہ سوئی کا آخری مذاق تھا۔
ہماری اس شریر کے ساتھ خوب نبھی اور مزے سے نبھ رہی ہے اور یہ محض اسی شادی کرنے کا نتیجہ ہے کہ ہماری بیوی کے ساختہ چچا یعنی جج صاحب نے ہم کو تعلیم ختم کرنے کے بعد ہی ایسی ملازمت دلوادی کہ
 
Top