شریر بیوی صفحہ 15

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200015.gif
 

فہیم

لائبریرین
ہم درازے پر کھڑے ہی دیکھ رہے تھے کہ یہ حضرت کھانستے ہوئے باہر نکلے اور ہماری معلومات میں اتنا اضافہ ہوا کہ ان حضرت کو دمہ بھی ہے۔ ہم دیکھ بھال کر چلے آئے اور یہ سب باتیں اپنی عزیزہ دوست کو بتاکر وجہ دریافت کی۔ بجائے شرارت آمیز باتیں کرنے کے وہ چپ تھی۔ ہم حیرت میں تھے کہ اس نے ہم سے کہا، مجھکو تم اس مصیبت سے بچاؤ۔ ہم کو شبہ تو پیشتر ہی ہوگیا تھا کہ کچھ دال میں کالا ہے۔ اب ہم اصل بات سمجھ گئے حالانکہ ہم کو کوئی وجہ نہ تھی کہ افسوس ہو۔ لیکن نہ معلوم کیوں ہم خودبخود بے حد متفکر ہوگئے اور ہم نے بھی مذاق کو رخصت کرکے نہایت سنجیدگی سے دریافت کیا کہ کیا سب معاملات طے ہوگئے ہیں۔ اس پر اس نے کہا کہ تاریخ تک مقرر ہوگئی ہے۔ اور اب صرف ڈیڑھ مہینہ رہ گیا ہے۔ ہم وعدہ کرکے آئے کہ اگر ہماری جان میں‌ جان ہے تو ہم تم کو اس مصیبت سے بچائیں گے۔ مگر چلتے وقت ہم نے ازراہ شرارت اتنا ضرور کہدیا کہ، چڑی کے بادشاہ تم کو سلام کہتے تھے۔ مگر وہاں تو مذاق رخصت تھا۔
ہم گھر پر آئے تو عجیب خلجان میں‌ تھے۔ عقل نہ کام کرتی تھی کہ آخر کیا کریں ایک غیر شہر میں جہاں ہم بحثیت ایک طالب علم کے رہتے تھے۔ نہ کسی کو پہچانتے تھے۔ وہ دوبارہ ملنے آئے تو ہم نے قبال کیا کہ ہماری عقل کام نہیں کرتی کہ کس طرح مدد کریں۔ تیسرے روز عاجز آکر ہم نے یہ صلاح دی کہ تم اپنے والد سے کیوں نہ صاف صاف کسی دن کہلوادو۔ مگر یہ کہنا بھی گویا ستم تھا۔ اس نےکہا کہ، میں‌ مرنا بہتر خیال کرتی ہوں۔ اس نے چلتے وقت ہم سے یہ کہا کہ، اگر تم کچھ نہ کرسکو تو اتنا ضرور کردینا کہ جب جانے لگو تو مجھ کو بازار سے زہر لادینا۔ میں سناٹے میں آگیا کہ الٰہی میں‌ کیا کروں جو اس کو اس مصیبت سے نکالوں جب ہمارے جانے میں چند روز رہ گئے تو ہم کو ایک ترکیب سوچھی۔

ہم نے اپنا بہترین سوٹ نکالا اور کالر اور ٹائی سے درست ہوکر جنٹلمین بن کر دوسرے روز ہی صبح کو جج صاحب مسٹر کلارک کے پاس پہنچے۔
جج صاحب نے ناشتہ کے بعد طلب کیا۔ ہم بہت باقاعدہ سلام کرکے بیٹھ گئے اور ہم نے جج صاحب سے کہا کہ ہم آپ کے پاس ایک ایسے کام سے آئے ہیں، جو آ کو کرنا ہی پڑے گا اور آپ کا فرض ہے۔ جج صاحب نے متعجب ہوکر پوچھا تو ہم نے یہ کہا اس سے کہ، آپ کے دفتر میں کوئی منشی حامد علی ہیں۔ آپ ان کو جانتے ہیں۔ جج صاحب نے کہا۔ ہم جانتے ہیں۔



نوٹ اس کے بعد صفحہ پھٹا ہوا تھا اس لیے نہیں لکھا جاسکا۔
 
Top