شریر بیوی- صفحہ 13

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200013.gif
 

فہیم

لائبریرین
اور نیچے نام وغیرہ تحری کرنے والی کا نہ لکھا۔ بلکہ صرف لفظ فقط لکھدیا۔ ہم نے جاکر خط سوراخ سے اپنی دوست کو دیا۔ اس نے پڑھ کر بہت پسند کیا اور کہا کہ اس کو دروازہ کی چوکھٹ کے پاس اینٹ سے دبا کر رکھ دو جیساکہ انہوں نے اپنے خط میں لکھا تھا انہوں نے چالاکی یا بے وقوفی سے اپنا نام نہ لکھا تھا۔ لیکن خط کی عبارت سے پتہ چلتا تھا کہ ہمارے ساتھی ہیں کیونکہ بورڈنگ اور اسکول کا ذکر تھا۔ ہم اس فکر میں تھے کہ کسی طرح ہم کو نام معلوم ہو تو اچھا ہے ۔ اور اس لئے ہم نے وہ خط اپنے پاس رکھ لیا کہ شاید تحریر سے ہم کچھ نام کا پتہ لگانے میں کامیاب ہوجائیں۔
تیسرے روز ہماری دوست نے ہم کو کھڑکی سے دس روپے کا نوٹ دیا اور کہا کہ، الو پھنس گیا۔ ہم نے کہا ہم کو نوٹ نہیں چاہیے۔ اس کا جواب ہم کو یہ دیا کہ اس کو رکھ لو میں نہیں رکھوں گی، ہم نے نوٹ رکھ لیا۔ اور آخرش ہم نے اور ہماری دوست نے خوب مزے سے مہینہ بھر تک میوے کھائے۔
اس دوران میں ہم نے کوشش کرکے یہ بھی پتہ لگالیا کہ ہماری محسنہ کے بدتمیز شیدائی کون ہیں۔ ہم نے ان کو اپنی شریر محسنہ سے سازش کرکے اس بری طرح لوٹا کہ یہ بورڈنگ کے بہت سے لڑکوں کے قرضدار ہوگئے۔ حتٰی کہ عشق کو رخصت کرنے پر مجبور ہوگئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حالانکہ اس لڑکی کی اور ہماری بہت گہری دوستی ہوگئی تھی۔ مگر ہمارے ساتھ وہ شرارت سے نہ چوکتی تھی ایک روز تو اس نے ہماری انگلی میں جو ہم نے شرارتاً سوراخ میں دی تھی۔ ایسا کاٹا کہ اس میں دانتوں کے نشان بن گئے اور وہ سوج گئی اور پھر یہ ستم کیا کہ تیسرے روز جو ہم خفا ہوکر پھر واپس اس ظالم کو انگلی دکھانے آئے تو اس نے اس میں اس طرح سوئی بھونک دی کہ ہم نے زور سے ہاتھ جو جھٹکا تو سوئی کی نوک انگلی میں ٹوٹ کر رہ گئی۔
ہم جل کر واپس آئے اور وہ حسب معمول ہنستی ہوئی چلی گئی۔ ہماری انگلی میں سخت درد ہوا۔ اور شام تک سوج آئی۔ رات بھر ہم تڑپا کئے اور اس ظالم کو دعائیں دیا کئے۔ تیسرے روز یہ بری حالت ہوئی کہ انگی بالکل پھوڑا ہوگئی۔
ایک روز ہم اسی دوران میں گئے اور اپنا حال سنایا۔ مگر اس کے دل پر کچھ اثر نہ ہوا۔ وہ یہی کہا کی، اچھا ہوا۔ اچھا ہوا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ انگلی پک گئی اور چیری جانے کوئی ہوئی۔ ہسپتال جاتے وقت یہ کہتے گئے کہ ہماری انگلی کی حالت تو نے یہ کردی ہے۔ ہم کبھی اب تیرے پاس نہ آئیں گے اور یہ کہکر انگلی کھول کر جو دکھائی تو وہ بہت گبھرائی اور کہنے لگی، معاف کرنا مجھ کو نہیں معلوم تھا کہ تمہاری انگلی کی یہ حالت ہے۔ مگر ہم یہ کہکر چلے آئے کہ، ہم اب تمہارے پاس نہ آئیں گے۔
قصہ مختصر ہماری انگلی پندرہ بیس روز میں اچھی ہوئی اور اس دوران میں ہم کھڑکی کے پاس تک نہ گئے۔ دو ایک مرتبہ جب ہم گزرے تو کھڑکی پر اس نے ہم کو متوجہ کرنے کے لئے ہاتھ بھی مارا۔ مگر ہم چونکہ واقعی خفا تھے۔ ہم نےکچھ بھی پروا نہ کی ایک روز ہم گزر رہے تھے کہ سوراخ میں سے کاغذ کی بتی نظر
 
Top