شریر بیوی۔ صفحہ 14

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200014.gif
 

فہیم

لائبریرین
پڑی۔ ہم لیتے ہوئے چلے گئے۔ یہ پہلا خط تھا، جو اس نے ہم کو لکھا تھا۔ اس میں آداب و القاب وغیرہ کچھ نہ تھے۔ صرف یہ لکھا تھا کہ، معاف کردو آئندہ سوئی کبھی اس طرح نہ چبھوؤں گی کہ انگلی کے پکے بلکہ آہستہ سے چبھوؤں گی۔ ہم کو اس شرارت آمیز معافی کی درخواست پڑھ کر ہنسی آگئی۔ قصہ مختصر ہم پہنچے اور اپنی انگلی اس شریر کو دکھانے کو سوراخ میں ڈالی۔ اس نے دیکھ بھال کر پھر سوئی چبھودی۔ مگر حسبِ وعدہ اس قدر آہستہ سے چبھوئی کہ ہم کو زیادہ تکلیف نہ ہوئی۔ مگر اس کی شرارت کا قائل ہوجانا پڑا۔ ہماری اور اس کی دوستی کی حد بس یہیں تک تھی کہ ہم اپنے گھر کے قصے جب وہ پوچھتی بتادیا کرتے یا وہ خود اپنے گھر کی باتیں بتایا کرتی۔ کھڑکی چونکہ ایسے مقام پر تھی جو سڑک سے ذرا الگ واقع تھا اور سنسان سی جگہ تھی لٰہذا ہمیں کافی موقع ملتا تھا۔ کہ خوب باتیں کریں۔
باپ کی چونکہ اکلوتی بیٹی تھی۔ لٰہذا بات اس کو بہت چاہتا تھا اور وہ زیادہ تر اپنے باپ ہی کے قصے سنایا کرتی تھی۔
ہمارے امتحان کا زمانہ قریب آیا تو ہمارے لئے اس نے بد دعائیں مانگیں تاکہ ہم فیل ہوکر یہیں رہیں۔ آخر وہ دن آیا کہ ہم امتحان دے کر جائیں اور پاس ہونے پر شاید اس شہر میں کبھی نہ آئیں۔ ہم نے اس کو جب خدا حافظ کہا تو اس نے متاثر ہوکر ہم سے صرف اتنا کہا کہ، ہماری شرارتوں کو بھول جانا مگر ہم کو نہ بھولنا۔ ہم چلے گئے مگر یہ جملہ ہم کو یاد رہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب ہم پاس ہوگئے تو علی گڑھ جانے کی ٹھہری۔ کالج میں داخلہ سے پندرہ روز پہلے ہی ہم روانہ ہوگئے۔ کیونکہ ہم کو ہیڈ ماسٹر صاحب سے سرٹیفیکٹ لینا تھا کہ ہم بڑے اچھے کھلاڑی ہیں اور ہونہار اور نیک چلن لڑکے ہیں۔ جس روز ہم آئے اسی روز کھڑکی کے پاس پہنچے اور کھڑکی پر ہاتھ مار کر اپنے دوست کو بلاکر علیک سلیک کیا ہماری دوست بہت خوش ہوئی اور کہا کہ، انتے دن بعد آئے ہو ذرا اپنی انگلی تو لاؤ تاکہ میں تم کو سزا دوں۔ ہم نے اپنی انگلی داخل کردی مگر چونکہ اس کے پاس اس وقت سوئی وغیرہ نہ تھی۔ اس نے محض چٹکی پر اکتفا کی۔
تھوڑی دیر تک باتیں کرتے رہے چلتے وقت اس نے ہم سے عجیب پیرایہ میں کہا کہ، میں نے آج تک تم سے کسی کام کو نہ کہا مگر اب میرا ایک کام ہے، میں نے کہا وہ کیا؟ تو اس نے کہا، شام کو آنا، ہم پہنچے تو اس نے سوراخ میں سے ایک رقعہ دیا۔ ہم نے رقعہ کو جو پڑھا تو اس میں صرف مختصر طور پر یہ لکھا تھا کہ جج صاحب کی کچہری میں جہاں اس کے والد کام کرتے ہیں جاکر چپکے سے کسی طرح منشی حامد علی کو دیکھ آؤ اور مجھ کو مفصل بتاؤ کہ وہ کیسے آدمی ہیں ہم قبل اس کے کہ کچھ دریافت کریں وہ کھڑکی سے جاچکی تھی ہم کو عجیب معلوم ہوا کیونکر ہم جب تک چلے نہ جاتے وہ کبھی نہ جاتی تھی۔ ہم عجیب چکر میں تھے کہ الٰہی ماجرا کیا ہے پہلی دفعہ ہم نے اب کمزوری محسوس کی۔
دوسرے روز ہم کچہری پہنچے اور پتہ لگا کر معلوم کیا کہ یہ حضرت منشی حامد علی کون ہیں۔ عجیب وضع قطع کے آدمی تھے۔ ہم نے دیکھا کہ گویا چڑی کا بادشاہ بیٹھا ہے۔ جس کی داڑھی بوجہ خراب قسم کے خضاب مختلف رنگ پیش کررہی ہے۔ چہرہ پر جھریاں ایسی ہیں کہ پیاز کا شبہ ہوتا ہے۔
 
Top