شریر بیوی۔ صفحہ 12

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200012.gif
 

فہیم

لائبریرین
طرح تبادلہ تحائف ہوا کیا مگر اس ظالم کی آنکھوں میں خاک ڈالنے کی عادت ن گئی۔
ایک روز جو ہم آئے تو کھڑکی کی کنڈی کھلی اور کواڑ ذرا سا کھلا اور اس کے بیچ میں سے کھیر کا ایک پیالہ باہر نکلا۔ ہم نے فوراً لے لیا اور چکھتے ہوئے بورڈنگ چلے آئے۔ ہماری اس عجیب و غریب دوستی کا علم کسی کو نہ تھا اور عرصہ تک اسی طرح ہماری ملاقات جاری رہی۔ ایک روز ہم نے پوچھا کیا تمہارے گھر میں‌ کوئی نہیں ہے۔ تو اس نے کہا کہ بس سوا بیمار ماں کے کوئی نہیں ہے۔
ہم اپنا نام اس کو پیشتر ہی بتاچکے تھے مگر اس نے اپنا نام ہمیں نہ بتانا تھا نہ بتایا۔ ہمارے گھر سے کچھ روز بعد میوے کا حلوہ آیا اور ہم نے سوچا کہ ہم اس کو ضرور کھلائیں گے۔ لٰہذا ہم نے اس سے کھڑکی کھلوا کر ایک کاغذ میں لیپٹ‌ کر رکھ دیا جو اس نے بخوشی قبول کرلیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارا اس سے پان کا بڑا تقاضا رہتا تھا۔ ایک روز اس نے کہا کہ ہم تم کو پان کھلائیں گے۔ چناچہ حسبِ وعدہ اس نے کھڑکی کھولی سامنے ہم کو کچھ نظر نہ آیا۔ ہم نے ہاتھ اندر پھیلادیا اور اس نے ہاتھ پر پان رکھ دیا۔ ہم نے سلام کرکے کھالیا کہ اتنے میں‌ اندر سے کہا کہ “الائچی کھائے گا“ ہم نے “نیکی اور پوچھ پوچھ“ کہکر ہاتھ پھر اندر ڈال دیا۔ مگر اس مرتبہ اس سفاک نے ہماری ہتھیلی پر ایک دہکتا ہوا انگارہ رکھ دیا۔ ہم بیتاب ہوگئے اور تڑپ اٹھے اور ہاتھ فوراً باہر نکال کر جھٹکا اس کا ہنسی کے مارے برا حال تھا اور یہاں آنکھوں سے مارے تکلیف کے آنسو نکل پڑے۔ کیونکر ایسا دھکتا ہوا تھا کہ ہتھیلی کی کھال سے چپک کر رہ گیا تھا اور دو تین جھٹکے دینے سے گرا تھا۔ دو روز تک ہم مارے غصے کے نہ آئے مگر تیسرے روز ہمارا غصہ جاتا رہا اور ہم پھر آئے تو اس شریر نے ہم سے پھر پوچھا الائچی کھائیے گا۔ مگر ہم کو بجائے غصہ کے اس مرتبہ ہنسی آئی۔ عرصہ تک ہماری اس سے ملاقات اسی طرح جارہی رہی مگر کبھی ہم نے سوائے اس قسم کے مذاق کے اور کوئی بات نہ کی اور نہ اس کو کوئی خط لکھا۔ ہاں البتہ روزانہ قریب قریب کہتے تھے کہ تو ہماری کون ہے، چونکہ اس کا جواب اس کے پاس کوئی معقول نہ تھا اس لئے وہ کبھی کچھ کہہ دیتی اور کبھی کچھ کہہ دیتی۔ مگر اکثر یہ کہا کرتی کہ تیری بہن ہوں جس سے ہم سخت نکار کرکے کہتے کہ بہن نہیں بلکہ کچھ اور ہو۔
ایک روز ہماری محسنہ نے ہم سے کہا کہ، دیکھو تو تمہارے ساتھی بھی کتنے کمینے ہیں یہ کہتے ہوئے اس نسے کاغذ کی ایک بتی سوراخ میں سے باہر کی۔ ہم نے اس کو لےکر پڑھا تو ہم کو سخت افسوس ہوا۔ یہ ہمارے اسکول کے ایک لڑکے کا خط تھا۔ جس میں دنیا بھر کے عشق کی داستان اور روپے پیسے کے لالچ کے قصے لکھے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا کہ ہم اس کے ہرگز ذمہ دار نہیں۔ اس نےکہا۔ اگر کہو تو میں اس کو کچھ سزا دوں اور الو بنادوں۔ ہم نے اتفاق کیا۔ ہم سے اس نے کہا کہ تم میری طرف سے اپنا خط بدل کر ایک خط لکھ کر لاؤ۔ علاوہ اور باتوں کے اس خط میں یہ ضرور لکھنا کہ اگر آپ مجھ کو اس وقت دس روپے قرض دے سکیں تو مشکور ہوں گی۔ ہم بورڈنگ آئے اور ہم نے نہایت ہی باتمیز عبارت میں خط کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دس روپے کی ضرورت ظاہر
 
Top