شراکتی جمہوریت؛ Participatory democracy

الف نظامی

لائبریرین
پاکستان کا موجودہ نظام حکومت 1850ء میں انگریز کا قائم کردہ نظام ہے جس میں اِختیارات صرف چند اَفراد کے ہاتھوں میں محدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ہم ایسا نظامِ حکومت چاہتے ہیں جس کا ماڈل حضور نبی اکرم نے دیا تھا۔ پاکستان کے لیے ہمارا role model مدینہ ہے۔ جب آپ نے ہجرت فرمائی اور مدینہ کو ریاست بنایا تو participatory democracy (شراکتی جمہوریت) دی اور devolution of power کے ذریعے اِختیارات کو نچلے درجے تک منتقل کیا۔ دس دس آدمیوں کے یونٹس پر اُن کا سربراہ نقیب بنایا، دس دس نقیبوں کے اوپر پھر اُن کا سربراہ عریف بنایا اور پھر سو سو عرفاء پر مشتمل پارلیمنٹ بنائی اور تمام اِختیارات آقا نے نیچے منتقل کر دیے۔ عام آدمی کی براہِ راست حکمرانوں تک رسائی تھی اور حکمرانوں کا براہِ راست عوام سے رابطہ تھا اور لوگوں کے مسائل فوری حل ہونا شروع ہوگئے تھے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ پاکستان کو اُس مدینہ ماڈل کے مطابق بنایا جائے۔

میں اہم تبدیلیاں suggest کر رہا ہوں۔ ان کے بغیر پاکستان کا مستقبل روشن نہیں ہو سکتا۔ ہمیں اس نظام کو چھوڑنا ہو گا، اس نظام سے نکلنا ہو گا۔
اتنا بڑا شرم ناک تماشا اختیارات کو جمع کرنے کا دنیا میں کہیں نہیں۔
میں نے ساری دنیا کا حکومتی نقشہ آپ کے سامنے رکھ دیا۔ دنیا کے سارے ممالک نے اختیارات چالیس چالیس، پچاس پچاس، ستر سترصوبے بنا کے نیچے تقسیم کر دئیے، مرکز کے پاس امریکہ جیسا ملک صرف 15 وزیر، ساڑھے انیس ہزار لوکل گورنمنٹس پورا امریکہ 1900 مئیر، ناظم چلا رہے ہیں؛ اوبامہ نہیں چلا رہا۔ اوباما امریکہ کے اوپر کے معاملات کو دیکھتا ہے، ملک عوام کے حقوق کو مئیر چلاتے ہیں۔ یہی نظام ترکی کا، یہی نظام جاپان کا، یہی چائنہ کا، یہی ایران کا، یہیں ملائشیا کا سب ملکوں کا یہی نظام۔ ہمارے چار صوبے تا کہ گردنیں اکڑی رہیں، اختیارات بڑھیں۔ میں یہ عرض کر رہا تھا کہ پاکستان واحد ملک ہے جس نے تماشا بنا رکھا ہے اور اختیارات یا مرکز کے پاس یا بڑے بڑے چار صوبوں کے پاس، عوام کلیتاً محروم۔ جس نے رحیم یار خان اور صادق آباد سے چلنا ہے وہ عدل و انصاف لینے کے لیے لاہور آئے، ظلم کی انتہا ہے۔ راجن پور سے چلنے والا لاہور آئے۔ بلوچستان کے اندرون سے چلنے والا کوئٹہ جائے، اندرون سندھ سے جانے والا کراچی جائے۔

میں جو ویژن دینا چاہتا ہوں پاکستان کیا نیا ماڈل اس میں پاکستان کے کم سے کم 35 صوبے ہونے چاہئے۔ جب تک 35 صوبے، مطلب ہر ڈویژن صوبہ ہو گا اور فاٹا بھی صوبہ بنے گا، پانا بھی صوبہ بنے گا۔ ہر ڈویژن کو صوبہ اور کمشنر کا فنڈ اس صوبے کے گورنر کو دے دیا جائے، دنیا کے کسی ملک میں انڈیا کے سوا، کسی صوبے میں وزیر اعلیٰ نہیں ہوتا۔ کسی صوبے میں صوبائی وزراء نہیں ہوتے پاکستان کے صوبوں سے وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزارتوں کو ختم کرنا ہوگا تا کہ ارب ہا روپے کے فنڈ جو حرام خوری، عیاشی اور سرکاری پروٹوکول پہ جاتے ہیں وہ براہ راست غریبوں میں تقسیم ہو سکیں اور صوبے کا گورنر کمشنر کی جگہ اور ضلعے پر مئیر ہو گا، وی سی کمشنر ختم کر دئیے جائیں اور تحصیل پر ڈپٹی میئر ہوگا۔ عوام کے منتخب نمائندے ان کے حکمران۔

اور مرکز کے پاس صرف پانچ محکمے ہونے چاہیے تا کہ مرکز کی عیاشی بھی ختم کی جائے: صرف سٹیٹ بینک اور کرنسی، دفاع، خارجہ پالیسی، ہائیر ایجوکیشن، اِن لینڈ سکیورٹی اور کاؤنٹر ٹیررزم تاکہ پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم ہو۔ اس طرح کے چند محکمے، پانچ سے سات محکمے مرکز کے پاس باقی سارے محکمے صوبوں کو منتقل کر دئیے جائیں اور صوبوں کے بعد پھر وہ سارے محکمے ضلعی حکومتوں کو منتقل کر دئیے جائیں۔ ٹرانسپورٹ بھی ضلعی حکومت کے پاس، پانی، بجلی، سوئی گیس، واٹر، فوڈ، ایجوکیشن، میڈیکل، سکیورٹی، سڑکیں، پولیس سب اختیارات ضلعی حکومتوں کو دے دئیے جائیں تا کہ وہاں کے ٹیکس وہاں لگیں اور لوگوں کو براہ راست داد رسی مل سکے۔ اور یہ فراڈ بڑے بڑے حکمرانوں کا ختم کر دیا جائے، ان بتوں کو پاش پاش کر دیا جائے۔
 
آخری تدوین:

گستاخی معاف ۔۔ کوئی مستند حوالہ عنایت فرمائیے گا؟
 

الف نظامی

لائبریرین
@ محمد یعقوب آسی

’’نقیب‘‘ اور ’’عریف‘‘ کے الفاظ بھی ہمارے شرعی مصادر ہی میں آتے ہیں:
» نقیب: سیرت کی کتب نیز مسند احمد (رقم 1579، مستدرک (5100)، میں بیعتِ عقبہ کے ضمن میں آتا ہے:
وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَخْرِجُوا إِلَيَّ مِنْكُمْ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا يَكُونُونَ عَلَى قَوْمِهِمْ» ، فَأَخْرَجُوا مِنْهُمْ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا مِنْهُمْ تِسْعَةٌ مِنَ الْخَزْرَجِ، وَثَلَاثَةٌ مِنَ الْأَوْسِ
’’نبیﷺ نے فرمایا: میرے لیے اپنے میں سے بارہ نقیب نکال دو جو اپنی اپنی قوم پر (ذمہ دار) ہوں۔ تب انہوں نے اپنے میں سے بارہ نقیب نکالے، جن میں سے نو خزرج سے تھے اور تین اوس سے‘‘


---
۔دنیا کے سب سے عظیم مصلح جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے خود اسی طرز کا نظم اپنے زمانہ میں قائم کیا تھا۔ڈاکٹر حمید اللہ صاحب ماہنامہ صراطِ مستقیم برمنگھم میں رقمطراز ہیں کہ ”انتظام مملکت اور سیاست مدن کے لئے جہاں بہت سے عام ادارے (گورنری،عدالت ،تحصیل ،مالگزاری وغیرہ) قائم ہوئے وہیں شہروں اور قبیلوں کا اندرونی نظام بھی درست کیا گیا ہر گاوں یا ہر شہر کے ہر محلہ میں دس دس آدمیوں پر ایک عریف مقرر ہوتا تھا اورجملہ مقامی عریفوں کا ایک نقیب ہوتا تھا جو براہ راست عامل(گورنر) کے پاس جوابدہ ہوتا تھا۔
---
آپ ﷺ نے فرمایا: ''عرافت تو ضروری ( حق ) ہے، اور لوگوں کو عرفاء کے بغیر چارہ نہیں لیکن ( یہ جان لو ) کہ عرفاء جہنم میں جائیں گے (کیونکہ ڈر ہے کہ اسے انصاف سے انجام نہیں دیں گے اور لوگوں کی حق تلفی کریں گے)
---
حضرت رافع بن مالک رضی اللہ عنہ ایک صحابی رسول تھے۔ کنیت ابو ملک و ابورفاعہ ۔ قبیلہ خزرج ، انصار مدینہ میں سب سے پہلے جس گروہ نے آنحضرت کی قیام گاہ پر حاضر ہو کر اسلام قبول کیا ان میں سے سے پہلے شخص حضرت رافع تھے۔ آپ بنو زریق کے نقیب مقرر کیے گئے
---
صحابی ۔ نام اسعد ، کنیت ابوامامہ قبیلہ بنو خزرج کے خاندان نجار سے تھے۔ عقبہ اولیٰ میں دیگر افراد کے ساتھ مسلمان ہوئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں بنو نجار کا نقیب مقرر کیا تھا
---
بلاشبہ حضور صلى الله علیہ وسلم نے بیعۃعقبہ میں بارہ قبائل میں بارہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے نقیب مقرر کرکے مرکزیت پیدا کرنے کی کوشش فرمائی تھی
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
جب بیعت ہوچکی اور اس امر کا فیصلہ ہوگیا کہ اب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فروغ دعوت حق کے لئے مدینہ منتقل ہونگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں سے بارہ نقیب منتخب فرمائے تھے اسی طرح میں بھی جبریل کے اشارہ سے تم میں سے بارہ نقیب منتخب کرتا ہو ں تاکہ یہ لوگ اپنی اپنی قوم کے کفیل اور ذمہ دار ہوں۔ جس طرح حواری عیسیٰ علیہ السلام کے کفیل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہ اشخاص کا انتخاب فرمایا جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں:۔

قبیلہ خزرج

  1. اسعدبن زرارہ رضی اللہ عنہ
  2. سعد بن الربیع رضی اللہ عنہ
  3. عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ
  4. سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ
  5. منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ
  6. براء بن معرور رضی اللہ عنہ
  7. عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ
  8. عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ
  9. رافع بن مالک رضی اللہ عنہ

قبیلہ اوس

  1. اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ
  2. ابو الہیثم بن تیہان رضی اللہ عنہ
  3. سعد بن خثیمہ رضی اللہ عنہ

بیعت عقبہ ثانیہ ان امور کے حوالے سے جن پر بیعت کی گئی بیعت عقبہ اولیٰ سے کلیتہ مختلف تھی۔ بیعت عقبہ اولٰی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاست مدینہ میں ایک اخلاقی اور معاشرتی انقلاب کی بنیاد رکھی تھی۔ جبکہ اس بیعت کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف اہل وفد سے اسلام کے لئے کٹ مرنے اور دین حق کی حمایت میں جان تک لڑا دینے کا عہد لے لیا بلکہ ہر موثر گروہ پر اپنا نقیب بھی مقرر کردیا دراصل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ اقدام بالواسطہ طور پر مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقتدار کے قیام کی علامت تھا۔

 

الف نظامی

لائبریرین
2008 میں جب الیکشن کے بعد پاکستان میں جمہوریت کی واپسی ہوئی تھی تو جمہوریت کی علمبردار جماعتیں 'انیس ٹھیس نہ لگ جائے ان آبگینوں کو' گنگناتی پھرتی تھیں. جمہوریت کا نام آتے ہی ان جمہوری رکھوالوں پر رقت طاری ہو جاتی تھی اور اس 'جمہوریت کی واپسی' کا تاج چاہے سر پر پورا آ رہا ہو یا نہ آ رہا ہو زبردستی جما لیا جاتا تھا.


اصل میں جمہوریت کا تو صرف نام لیا جا رہا تھا اختیارات اور طاقت کو اپنی مٹھی میں دبوچے رکھنے کے لئے تاکہ یہ 'ہما' کہیں عوام کے سروں پر نہ بیٹھ جائے. تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے مگرمچھ کے آنسو بہا کر ٹائم پاس کیا اور عوام کو بلدیاتی انتخابات کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنے دیا کہ خدا نخواستہ کہیں جمہوریت اپنا قدرتی راستہ بناتی بناتی ملک کی بنیادوں تک نہ پہنچ جائے۔
یہاں تو بس جو اقتدار میں آ گیا وہ اپنے اختیارات کو مقدس گائے کا درجہ دے کر اس کی تقسیم کو حرام قرار دے دیتا ہے. بلدیاتی انتخابات اور بنیادی جمہوریت عوام کا حق ہیں جنھیں زیادہ تر مختلف حیلے بہانوں سے اس سے محروم رکھا گیا اور زیادتی کی گئی.
 

الف نظامی

لائبریرین
22 اکتوبر 2014
سپریم کورٹ نے سندھ اور پنجاب حکومتوں کو اپنے اپنے صوبوں میں بلدیاتی الیکشن کیلئے تمام متعلقہ قانونی عمل مکمل کرنے کیلئے 30 اکتوبر تک مہلت دیتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کی تیاری کیلئے خیبر پی کے حکومت کی جانب سے ایک ماہ کی مہلت کی استدعا قبول کرلی ہے۔
گراس روٹ لیول تک اقتدار کی منتقلی کیلئے بلدیاتی اداروں کا فعال ہونا ضروری ہے۔ اس سے عوام کے بنیادی مسائل آسانی سے حل ہو جاتے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کی عدم موجودگی میں یہی کام ایم این ایز اور ایم پی ایز سے لیا جاتا ہے۔ ان کیلئے فنڈز میں بڑی کشش ہے۔ جس کو حکومت فنڈز دیتی ہے وہ فرمانبردار بھی رہتا ہے‘ اس لئے ’’جمہوری حکمرانوں‘‘ کو بلدیاتی الیکشن سوٹ نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ چار سال سے بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے گئے۔
سندھ اور پنجاب کی حکومت بار بار مہلت مانگتی رہیں۔ آخری بار نومبر میں انعقاد کا وعدہ کیا تھا۔ نومبر سر پر آیا تو سارا بوجھ الیکشن کمیشن پر ڈال دیا جہاں بھی ’’جمہوری حکومتوں‘‘ کے نمائندے بیٹھے ہیں۔ اب الیکشن کمیشن 6 ماہ کی مدت مانگ کر حکمرانوں کے دل کی بات کہہ رہا ہے۔ ایسے اقدامات عوام کے ساتھ ساتھ جمہوریت سے دشمنی کے سبھی مترادف ہیں اور آئینی تقاضے سے روگردانی الگ سے ہو رہی ہے۔ حکمران جمہوریت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق جلد از جلد بلدیاتی الیکشن کرانے میں الیکشن کمیشن سے تعاون کریں الیکشن کمیشن بھی ٹال مٹول سے کام نہ لے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
04 مارچ 2015
سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے حسب روایت عدلیہ کو ایک اور فریب دینے کیلئے الیکشن کمشن کو خط لکھ دیا ہے کہ پنجاب میں نومبر 2015ء اور سندھ میں 2016ء میں بلدیاتی انتخابات کرائے جائینگے۔
بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا کردار افسوسناک اور شرمناک رہا ہے اور حکومت کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو بھی عدلیہ کے سخت ریمارکس کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کو جان لینا چاہیئے کہ عادی مجرم عجز و نیاز سے کبھی راہ راست پر نہیں آیا کرتے۔ عدلیہ کو اب اس شعر پر عمل کرنا پڑیگا۔
عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچئے
 

الف نظامی

لائبریرین
حکومت بلدیاتی نمائندوں کو اختیار کیوں نہیں دیتی؟
جب یہ سوال میں نے بلدیاتی نمائندوں سے پوچھا تو جواب آیا کہ اگر حکومت نے اختیارات چیئرمینوں اور کونسلروں کو دے گی تو شاید صوبائی اور قومی اسمبلی کے نمائندگان کی کرپشن کےلئے بجٹ کم پڑجائے۔ یہی وجہ تھی کہ پیپلزپارٹی نے اپنے دورِ حکومت میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی بھی زحمت نہیں کی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پی ٹی آئی کے چیئرمین اقتدار میں آنے سے قبل بااختیار بلدیاتی نظام کے حامی تھے مگر ان کی پنجاب حکومت نے اپنے سیاسی مخالف مسلم لیگ (ن) کے تمام بلدیاتی عہدیداروں کو قبل از وقت ختم کردیا جس کے خلاف عدلیہ سے بھی متاثرین نے رجوع کیا مگر ڈیڑھ سال میں ان کی درخواستوں پر فیصلہ نہ آیا اور ان کی مدت ہی ختم ہوگئی۔

ہر حکومت بلدیاتی اداروں پرکنٹرول برقرار رکھنے کے لیے سرکاری افسروں کا تقرر چاہتی ہے یا اپنی پارٹی کے بلدیاتی عہدیداروں کا انتخاب تاکہ بلدیاتی اداروں میں من مانیاں کی جاسکیں۔ سیاسی حکومتیں اپنے ارکان اسمبلی کے دباؤ پر بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیارکرتی آئی ہیں۔ 2015 کے بلدیاتی انتخابات بھی سپریم کورٹ کے حکم پر ہوئے تھے جن کی تکمیل میں ایک سال کی تاخیرکی گئی تھی۔
سیاسی حکومتوں کی ترجیح بلدیاتی انتخابات ہوتے ہی نہیں حالانکہ آئین کی دفعہ 140اے کے تحت وقت پر بلدیاتی انتخابات نہ کرانا آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے جس پر متعلقہ حکومتوں کر برطرف کیا جانا چاہیے۔

آئین پر عمل کرنا حکومت اورکرانا عدلیہ کا کام ہے صوبائی حکومتیں یہ خلاف ورزی مسلسل کر رہی ہیں مگر ان کے خلاف کبھی کارروائی نہیں ہوئی۔ اس آئینی خلاف ورزی پر عدلیہ کارروائی کا اختیار رکھتی ہے اور بلدیاتی اداروں کو آئین کے تحت بااختیار بھی بناسکتی ہے مگر جنرل پرویز مشرف کے بااختیار بلدیاتی نظام کو 2008 میں آنے والی سیاسی حکومتوں نے ختم کرا دیا تھا جو آئین کی خلاف ورزی تھی۔گزشتہ 12 برسوں میں صرف ایک بار سپریم کورٹ کے حکم پر ہی بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے جو ہر چار سال بعد ضرور ہونے چاہیئیں مگر نہیں کرائے جاسکتے۔

الیکشن کمیشن کو اس کا پتا بھی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 140 اے کے تحت مقررہ وقت پر بلدیاتی انتخابات ضروری ہیں مگر ایسا کرانا الیکشن کمیشن کے اختیار میں نہیں اور وہ حکومت کا محتاج ہے۔ الیکشن کمیشن کی ہدایت پر حکومت مردم شماری کے سرکاری نتائج جاری نہیں کر رہی تو بلدیاتی حلقہ بندیاں بھی نہیں ہو رہیں اور الیکشن کمیشن واضح کر چکا ہے کہ مردم شماری کے نتائج جاری نہ ہونے سے بلدیاتی حلقہ بندی ہو سکے گی نہ بلدیاتی انتخابات ہوں گے بلکہ عام انتخابات بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ لگتا ہے کہ موجودہ حکومت بھی نہیں چاہے گی کہ عام انتخابات سے قبل بلدیاتی الیکشن ہوں، اس لیے کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ اپریل میں بلدیاتی الیکشن وزیر اعظم کے اعلان کے مطابق ہوسکیں۔

پی ایس پی نے اعلان کردیا ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات نہ کرا کر حکومت نے آئین کی جو پامالی کی ہے اس پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا اور آئین کے آرٹیکل 6 کی صریحاً خلاف ورزی پر عدالتی فیصلہ حاصل کیا جائے گا۔ پی ایس پی کے مطابق وزیر اعظم اپنے ایک دستخط سے کراچی کی مردم شماری کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرا کر یہ درپیش مسئلہ بھی حل کرسکتے ہیں۔
 
Top