سید الشہداء حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ایک شعر

متلاشی

محفلین
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یذید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کر بلا کے بعد
(اقبال)
ذرا سی بات تھی ، اندیشہء عجم نے جسے
بڑھا دیا ہےفقط زیبَ داستاں کے لئے
(اقبال)
 

شاکرالقادری

لائبریرین
غم حسین میں رونا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے
======
بیہقی نے روایت کی ہے کہ ام الفضل نے بیان کیا کہ میں امام حسین علیہ السلام کو گود میں لئے ہوئے ایک روز جناب رسول خدا (ص) کے حضور گئی اور میں نے ان کو حضور کے گود میں رکھ دیا ۔ پھر مجھے ایک کام پیش آیا اور جب میں اس سے فارغ ہوئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ حضور(ص) کی چشم مبارک اشکبار ہیں پس آنحضرت (ص) نے فرمایا میرے پاس جبرئیل تشریف لائے ہیں اور خبر دی ہے کہ میرے اس بیٹے کو میری امت قتل کردے گی ۔ اور مجھ کو سرخ مٹی لاکر دکھائی ہے۔
=========
 

شاکرالقادری

لائبریرین
ترمذی اور دیلمی تحریر کرتے ہیں کہ ام سلمیٰ فرماتی ہیں کہ میں نے جناب رسول خدا (ص) کو خواب میں دیکھا کہ رورہے ہیں اور سر اقدس اور پیشانی مبارک غبار آلود ہے میں نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا ہم ابھی قتل حسین کے بعد کربلا سے آرہے ہیں ۔
 

متلاشی

محفلین
میرے محترم شاکر القادری صاحب۔۔۔!
اس شعر کے پہلے مصرعہ میں ’’رونے ‘‘ کو ’’ماتم کرنے ‘‘ کے معنی میں لیا گیا ہے ۔۔۔ جیسا کہ اگلے مصرعہ میں تصریح موجود ہے۔۔۔۔۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
متلاشی بھائی! ویسے بھی یہ شعر نہ تو فن شعر کے مطابق درست ہے ۔ ۔ ۔ اور نہ ہی اس شعر کا خالق شاعر معلوم ہے ۔ ۔ ۔ بس ایسے ہی عوامی سطح کا بے وزن شعر بلکہ ایک نعرہ ہے جو ایک فرقہ کے جذبات کو مجروح کرنے کے لیے کسی نے گھڑ لیا ہے ۔ ۔ یاد رہے کہ ایام محرم میں اس قسم کی عوامی نعرہ بازی عقیدہ کی اصلاح کا موجب نہیں بلکہ فتنہ پردازی کو ہوا دینے کا باعث بنتی ہے جس کے نتائج آپ اور ہم سب پر واضح ہیں
 

شاکرالقادری

لائبریرین
شکریہ متلاشی! لیکن ایک بات بتایئے یہ دوسرا شعر آپ نے کس تناظر میں پوسٹ کر دیا ہے ۔۔ ۔ کیا اقبال کے اس شعر کا شہادت امام حسینؑ سے کوئی تعلق بنتا ہے ۔ ۔ ۔ اقبال نے امام حسین اور کربلا کے تناظر میں جو اشعار کہے ہیں کیا وہ آپ کے مطالعہ سے گزرے ہیں میں یہاں اقبال کی پوری غزل پوسٹ کر رہا ہوں اگر کوئی قرینہ ایسا موجود ہو جو اس شعر کو کربلا کے واقعہ سے متعلق بنا رہا ہو تو بتایئے گا۔
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے ، تو نہیں جہاں کے لیے
یہ عقل و دل ہیں شرر شعلہ محبت کے
وہ خار و خس کے لیے ہے ، یہ نیستاں کے لیے
مقام پرورش آہ و نالہ ہے یہ چمن
نہ سیر گل کے لیے ہے نہ آشیاں کے لیے
رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک
ترا سفینہ کہ ہے بحر بے کراں کے لیے!
نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے
نگہ بلند ، سخن دل نواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
ذرا سی بات تھی ، اندیشہ عجم نے اسے
بڑھا دیا ہے فقط زیب داستاں کے لیے
مرے گلو میں ہے اک نغمہ جبرئیل آشوب
سنبھال کر جسے رکھا ہے لامکاں کے لیے
=======
کیا اقبال واقعہ کربلا کو "ذرا سی بات" قرار دیتے ہیں اور کیا واقعی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اندیشہ عجم کی داستان طرازیوں کے علاوہ اس واقعہ میں کچھ نہیں
اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر اقبال یہ کیا کہہ رہے ہیں:

هر که پیمان با هوالموجود بست
گردنش از بند هر معبود رست
مؤمن از عشق است و عشق از مؤمنست
عشق را ناممکن ما ممکن است
عقل سفاک است و او سفاک تر​
پاک تر چالاک تر بیباک تر​
عقل در پیچاک اسباب و علل​
عشق چوگان باز میدان عمل​
عشق صید از زور بازو افکند​
عقل مکار است و دامی میزند​
عقل را سرمایه از بیم و شک است​
عشق را عزم و یقین لاینفک است​
آن کند تعمیر تا ویران کند​
این کند ویران که آبادان کند​
عقل چون باد است ارزان در جهان​
عشق کمیاب و بهای او گران​
عقل محکم از اساس چون و چند​
عشق عریان از لباس چون و چند​
عقل می گوید که خود را پیش کن​
عشق گوید امتحان خویش کن​
عقل با غیر آشنا از اکتساب​
عشق از فضل است و با خود در حساب​
عقل گوید شاد شو آباد شو​
عشق گوید بنده شو آزاد شو​
عشق را آرام جان حریت است​
ناقه اش را ساربان حریت است​
آن شنیدستی که هنگام نبرد​
عشق با عقل هوس پرور چه کرد​
آن امام عاشقان پور بتول​
سرو آزادی ز بستان رسول​
الله الله بای بسم الله پدر​
معنی ذبح عظیم آمد پسر​
بهر آن شهزاده ی خیر الملل​
دوش ختم المرسلین نعم الجمل​
سرخ رو عشق غیور از خون او​
شوخی این مصرع از مضمون او​
در میان امت ان کیوان جناب​
همچو حرف قل هو الله در کتاب​
موسی و فرعون و شبیر و یزید​
این دو قوت از حیات آید پدید​
زنده حق از قوت شبیری است​
باطل آخر داغ حسرت میری است​
چون خلافت رشته از قرآن گسیخت​
حریت را زهر اندر کام ریخت​
خاست آن سر جلوه ی خیرالامم​
چون سحاب قبله باران در قدم​
بر زمین کربلا بارید و رفت​
لاله در ویرانه ها کارید و رفت​
تا قیامت قطع استبداد کرد​
موج خون او چمن ایجاد کرد​
بهر حق در خاک و خون غلتیده است​
پس بنای لااله گردیده است​
مدعایش سلطنت بودی اگر​
خود نکردی با چنین سامان سفر​
دشمنان چون ریگ صحرا لاتعد​
دوستان او به یزدان هم عدد​
سر ابراهیم و اسمعیل بود​
یعنی آن اجمال را تفصیل بود​
عزم او چون کوهساران استوار​
پایدار و تند سیر و کامگار​
تیغ بهر عزت دین است و بس​
مقصد او حفظ آئین است و بس​
ماسوی الله را مسلمان بنده نیست​
پیش فرعونی سرش افکنده نیست​
خون او تفسیر این اسرار کرد​
ملت خوابیده را بیدار کرد​
تیغ لا چون از میان بیرون کشید​
از رگ ارباب باطل خون کشید​
نقش الا الله بر صحرا نوشت​
سطر عنوان نجات ما نوشت​
رمز قرآن از حسین آموختیم​
ز آتش او شعله ها اندوختیم​
شوکت شام و فر بغداد رفت​
سطوت غرناطه هم از یاد رفت​
تار ما از زخمه اش لرزان هنوز​
تازه از تکبیر او ایمان هنوز​
ای صبا ای پیک دور افتادگان​
اشک ما بر خاک پاک او رسان​
========================​
 

شاکرالقادری

لائبریرین
%DB%81%D9%88-%D8%A8%DB%81%D9%88-%D8%B3%D8%AC%D8%AF%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DB%81%DB%92.png
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بھئی یہ شعر اقبال کا کب سے ہوگیا۔
جہاں تک ہمیں معلوم ہے یہ شعر "مولانا محمد علی جوہر" کا ہے۔

میری یاد داشت میں بھی یہی تھا لیکن اقبال کا نام دیکھ کر انٹرنیٹ پر تلاش و تصدیق شروع کی کیونکہ کلیات اقبال سردست موجود نہیں ۔ بیشتر سائٹس پر اس شعر کے خالق مولانا جوہر کو بتایا گیا ہے ایک جگہ اقبال کا نام بھی ملا ۔ ان کی کلیات پر کام کرنا چاہیے تاکہ مستند ذریعہ موجود رہے ۔

مولانا جوہر کا ایک شعر یہ بھی ہےمیری یاد داشت میں ۔

انسان کو بیدار توہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
 

نبیل

تکنیکی معاون
حوالہ تو نہیں ہے میرے پاس۔ مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے میں نے خود ایک مرتبہ ٹی وی میں جوش کو یہ اشعار پڑھتے سنا تھا۔

ایڈٹ: یہ ربط اور یہ ربط ملے ہیں، اگرچہ یہ بھی ویب روابط ہیں، کوئی مستند حوالے نہیں۔
 
آخری تدوین:

متلاشی

محفلین
مگر میں نے سنا تھا کہ یہ شعر اقبال کا ہے۔۔۔خیر۔۔۔ درست معلومات دینے کا شکریہ۔۔۔۔
اور دوسرا شعر بھی میں نے کسی جگہ اس کی تشریح پڑھی تھی ۔۔۔کہ یہ شعر واقعہ کربلا کے متعلق ہے۔۔۔ اب حوالہ یاد نہیں۔۔۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
اوپر پوسٹ کیے گئے اقبال کے فارسی اشعار میں سے کچھ کا اردو ترجمہ پیش ہے
آل امام عاشقاں پور بتول
سروآزادے زبستان رسول
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر
بہرآں شہزادہ خیر الملل
دوش ختم المرسلیں نعم الجمل
موسیٰ  و فروعون، شبیرو و یزید
ایں دو قوت از حیات آید پدید
زندہ حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است
خاست آں برجلوہ خیر الامم
چوں سحاب قبلہ باراں در قدم
برزمین کربلا با رید و رفت
لالہ در ویرانہ ہا کارید و رفت
تاقیات قطع استبداد کرد
موج خون اوچمن ایجاد کرد
بہرحق درخاک و خوں غلطیدہ است
پس بنائے لا الہ گردیدہ است
عزم او چوں کوہساراں استوار
پائیدار و تند سیر و کامگار
تیغ بہر عزت دین است وبس
مقصد او حفظ آئین است وبس
ما سواللہ را مسلماں بندہ نیست
پیش فرعونے سرش افگندہ نیست
خون او تفسیر ایں اسرار کرد
ملت خوابیدہ رابیدار کرد
نقش الااللہ بر صحرا نوشت
سطر عنوان نجات ما نوشت
شوکت شام و فر بغداد رفت
سطوت غرناطہ ہم از یاد رفت
تارما از زخمہ اش لرزاں ہنوز
تازہ از تکبیر او ایماں ہنوز
اے صبا اے پیک دور افتادگاں
اشک ما بر خاک پاک او رساں
]”وہ کہ عاشوں کے امام و پیشوا، حضرت فاطمةالزہرا کے فرزند ارجمند اور نبی کے باغ کا سرو آزاد تھے۔ اللہ اللہ! کیا شان تھی کہ آپ کے والد بزرگوار (حضرت علی) بسم اللہ کی ”ب“ کا درجہ رکھتے تھے اور بیٹا ذبح عظیم کے معنی و تفسیر بن کر آیا۔ امت مسلمہ کے اس حسین شہزادے کے لئے رسول کریم کے مبارک کندھے سواری تھے۔ زندگی کے بطن سے متضاد قوتوں نے جنم لیا۔ جیسے موسیٰ  اور فرعون، جیسے شبیر (امام حسین) اور یزید ۔حق بہرحال قوت شبیری کے زور پر ہی زندہ رہتا ہے اور آخر کار داغ حسرت لے کر فنا ہو جانا، باطل کا مقدر ہے۔ وہ بہترین امت کا بہترین جلوہ تھا جو یوں اٹھا جیسے بارش سے بھرا ہوا بادل قبلہ کی سمت سے اٹھتا ہے یہ بادل کربلا کی زمین پر برسا اور کھل گیا۔ دشت میں گل ہائے لالہ کی فصل کاشت کی اور آگے بڑھ گیا۔ اس نے قیامت تک کے لئے جبر و استبداد کی جڑیں کاٹ دیں۔ اس کے لہو کی موجوں سے ایک نیا چمن لہلہا اٹھا۔ وہ حق و صداقت کیلئے خاک و خون میں مل گیا لیکن اس اصول کی بنیاد رکھ گیا کہ اللہ کے سوا کسی کے سامنے نہیں جھکنا۔ اس کا عزم جواں پہاڑوں کی طرح مضبوط و سر بلند تھا، مستحکم، پائیدار اور آمادہ عمل۔ اس نے بتایا کہ تلوار فقط دین کی عزت و آبرو اور آئین اسلام کی حفاظت کے لئے ہے مسلمان اللہ کے سوا کسی کی غلامی قبول نہیں کرتا اور اس کا سر کسی فرعون کے سامنے نہیں جھکتا۔ اس کے لہو نے یہ راز آشکارا کردیا اور سوئی ہوئی ملت کو بیدار کردیا۔ اس نے صحرا کی ریت پر الا اللہ کا نقش لکھا اور دراصل ہماری نجات کے عنوان کی سطر تحریر کردی۔ آج شام کی شان و شوکت جاتی رہی۔ بغداد کا کرو فر بھی تمام ہوگیا۔ غرناطہ کی شان بھی مٹ گئی لیکن ہماری زندگی کا ساز حسین کے مضراب سے زندہ ہے اس کے نعرہ تکبیر سے ہمارا ایمان تازہ ہے۔ اے باد صبا! اے بہت دور بسنے والوں کی قاصد! جا اور حسین کی قبر کی خاک پاک تک ہمارے آنسوؤں کا نذرانہ پہنچا دے۔“
 
سید الشہداء حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ایک شعر

خاتم النبيين حضرت محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى لسان اطہر سے "سيد الشہداء " كا لقب معین طور پر ، عم رسول شہید اُحد حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضى اللہ عنہ کے ليے ادا ہوا ہے ۔

محترم قادرى صاحب ناگوار خاطر نہ ہو تو ان روايات كا درجہ استناد بھی ذكر فرما ديجيے ۔
غم حسین میں رونا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے
======
بیہقی نے روایت کی ہے کہ ام الفضل نے بیان کیا کہ میں امام حسین علیہ السلام کو گود میں لئے ہوئے ایک روز جناب رسول خدا (ص) کے حضور گئی اور میں نے ان کو حضور کے گود میں رکھ دیا ۔ پھر مجھے ایک کام پیش آیا اور جب میں اس سے فارغ ہوئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ حضور(ص) کی چشم مبارک اشکبار ہیں پس آنحضرت (ص) نے فرمایا میرے پاس جبرئیل تشریف لائے ہیں اور خبر دی ہے کہ میرے اس بیٹے کو میری امت قتل کردے گی ۔ اور مجھ کو سرخ مٹی لاکر دکھائی ہے۔
=========
ترمذی اور دیلمی تحریر کرتے ہیں کہ ام سلمیٰ فرماتی ہیں کہ میں نے جناب رسول خدا (ص) کو خواب میں دیکھا کہ رورہے ہیں اور سر اقدس اور پیشانی مبارک غبار آلود ہے میں نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا ہم ابھی قتل حسین کے بعد کربلا سے آرہے ہیں ۔
 
Top