سیدھا پہن لیا کبھی اُلٹا پہن لیا - عُمر سیف

آوازِ دوست

محفلین
مجھ کو پکارتی رہیں رستے کی گردشیں​
پیروں میں گردباد کا جوتا پہن لیا

واہ واہ!!! عمر صاحب آپ تو چھُپے شاعر نکلے۔ زبردست :)
 

عمر سیف

محفلین
مجھ کو پکارتی رہیں رستے کی گردشیں
پیروں میں گردباد کا جوتا پہن لیا

واہ واہ!!! عمر صاحب آپ تو چھُپے شاعر نکلے۔ زبردست :)

اچھی شاعری ہے ۔دیوان مکمل کیجئے گا :)

QUOTE="آوازِ دوست, post: 1861397, member: 9336"]خُدا کرے زورِ قلم اور زیادہ۔[/QUOTE]
بہت شکریہ
واہ واہ

خوبصورت غزل ہے عمر بھائی!

ماشاءاللہ۔ بہت سی داد!
احمد بھائی ❤❤

واہ واہ بہت خوب عمر بھیا ۔۔ زبردست کلام ۔۔ ڈھیروں داد
بہت شکریہ عامر بھائی
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب عمر سیف!! بہت اچھے!!
بیدل حیدری کی یہ غزل مجھے ہمیشہ سے پسند رہی ہے اور یاد بھی ہے ۔ آپ نے اچھے اشعار نکالے ہیں ان کی زمین میں !
 

عمر سیف

محفلین
اس غزل کے آخری دو اشعار میں تبدیلی اور دو اضافی اشعار کے ساتھ غزل دوبارہ پیشِ خدمت ہے۔
اضافی اور تبدیلی جن اشعار میں ہے وہ ہائی لائٹ کردئیے ہیں۔

سیدھا پہن لیا کبھی اُلٹا پہن لیا
اُترا جو اک نقاب تو دُوجا پہن لیا

پِھرتا رہا ہُجوم کی رعنائیوں سے دور
تَن پر اُداسیوں کا لبادہ پہن لیا

صحرا بنا تو پیاس کی چادر لپیٹ لی
گرمی لگی تو اَبر کا سایہ پہن لیا

جینے کی راہ چھوڑ کر آگے نکل گیا
مرنے لگا تو موت کا رستہ پہن لیا

مجھ کو پکارتی رہیں رستے کی گردشیں
پیروں میں گردباد کا جوتا پہن لیا

بیٹھا تمام شب میں یہی سوچتا رہا
کیوں کر لباس زیست کو الٹا پہن لیا

اپنی بیاضِ زندگی پڑھنے لگا مگر
لفظوں نے اضطراب کا چولا پہن لیا

امبر نے آفتاب کا گہنا اُتار کر
اپنے گلے میں چاند کا ہالہ پہن لیا

حیرت سے آئینہ بھی عُمر پوچھنے لگا
تُو نے یہ آج کونسا چہرہ پہن لیا
؟

عُمر سیف
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اس غزل کے آخری دو اشعار میں تبدیلی اور دو اضافی اشعار کے ساتھ غزل دوبارہ پیشِ خدمت ہے۔
اضافی اور تبدیلی جن اشعار میں ہے وہ ہائی لائٹ کردئیے ہیں۔

سیدھا پہن لیا کبھی اُلٹا پہن لیا
اُترا جو اک نقاب تو دُوجا پہن لیا

پِھرتا رہا ہُجوم کی رعنائیوں سے دور
تَن پر اُداسیوں کا لبادہ پہن لیا

صحرا بنا تو پیاس کی چادر لپیٹ لی
گرمی لگی تو اَبر کا سایہ پہن لیا

جینے کی راہ چھوڑ کر آگے نکل گیا
مرنے لگا تو موت کا رستہ پہن لیا

مجھ کو پکارتی رہیں رستے کی گردشیں
پیروں میں گردباد کا جوتا پہن لیا

بیٹھا تمام شب میں یہی سوچتا رہا
کیوں کر لباس زیست کو الٹا پہن لیا

اپنی بیاضِ زندگی پڑھنے لگا مگر
لفظوں نے اضطراب کا چولا پہن لیا

امبر نے آفتاب کا گہنا اُتار کر
اپنے گلے میں چاند کا ہالہ پہن لیا

حیرت سے آئینہ بھی عُمر پوچھنے لگا
تُو نے یہ آج کونسا چہرہ پہن لیا
؟

عُمر سیف
عمر بھائی
مزہ آ گیا
بہت عمدہ
یہ شاید آپ کی ابتدائی غزلوں میں سے ایک تھی مگر اس قدر عمدہ کہ کیا کہیے۔
داد
بہت سی داد
:) :) :)
 
Top