تبسم سکونِ قلب و شکیبِ نظر کی بات کرو ۔ صوفی تبسّم

فرخ منظور

لائبریرین
سکونِ قلب و شکیبِ نظر کی بات کرو
گزر گئی ہے شبِ غم، سحر کی بات کرو
دلوں کا ذکر ہی کیا ہے، ملیں، ملیں، نہ ملیں
نظر ملاؤ، نظر سے نظر کی بات کرو
شگفتہ ہو نہ سکے گی فضائے ارض و سما
کسی کی جلوہ گہِ بام و در کی بات کرو
حریمِ ناز کی خلوت میں دسترس ہے کسے
نظارہ ہائے سرِ رہ گزر کی بات کرو
بدل نہ جائے کہیں التفاتِ حُسن کا رنگ
حلاوتِ نگہِ مختصر کی بات کرو
جہانِ ہوش و خرد کے معاملے ہیں دراز
کسی کے گیسوئے آشُفتہ سر کی بات کرو
نگاہِ ناز ہے ایک کائناتِ راز و نیاز
جدھر کرے وہ اشارہ، اُدھر کی بات کرو
سرورِ زیست ہُوا جس کے دم قدم سے نصیب
اُسی ندیم، اُسی ہم سفر کی بات کرو
وہ جس سے تلخیِ زہرابِ غم گوارا ہے
اسی تبسّمِ شیریں اثر کی بات کرو
(صوفی تبسّم)
 
Top