سوانح عمری فردوسی صفحہ 35

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سوانح عمری فردوسی

صفحہ
35


2mng3tx.jpg
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ٹائپنگ از نیرنگ خیال

یورپ کے فضلا بھی جو زبان فارسی سے واقف ہیں۔ عموما فردوسی کی کمال شاعری کے معترف ہیں۔ سرگوراُوسلی نے تذکرۃ الشعراء میں فردوسی کو ہومر سے تشبیہ دی ہے اگرچہ ساتھ ہی یہ ناتوان بینی بھی ظاہر کی ہے کہ "وہ اگرچہ دراصل ہومر کا ہمسر نہیں ہو سکتا, لیکن ایشیا میں اگر کوئی ہومر ہو سکتا ہے تو وہی ہے۔"
لیکن تعجب اور سخت تعجب ہے کہ مسٹر براؤن جو آجکل فارسی دانان یورپ میں سب سے ممتاز ہیں۔ فردوسی کے کمال شاعری کے منکر ہیں۔ وہ اپنی کتاب لٹریری ہسٹری آف پرشیا میں لکھتے ہیں۔ کہ "فردوسی کے بعد جو شعراء پیدا ہوئے وہ شاعرانہ خیالات اور شوکت الفاظ دونوں حیثیت سے فردوسی سے بالاتر ہیں۔ شاہنامہ سبعہ معلقہ کی بھی برابری نہیں کر سکتا۔ صاحب موصوف کو اسپر حیرت ہے کہ شاہنامہ تمام اسلامی دنیا میں اس قدر کیوں مشہور عام ہوگیا۔ پھر خود اُس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ شاہنامہ میں مسلمانوں کے اسلاف کی فخریہ داستانیں ہیں۔ اس لئے حُب قوم نے اس کا سکّہ جما دیا۔"
ہم ان سب باتوں کہ جواب میں صرف یہ کہتے ہیں۔
حریفِ کاوش مژگان خون ریزش نہ زاہد بدست آورگ جانی و نشرراتماشاکن
اب ہم شاہنامہ کے اوصاف کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
1- اسلام کا خاصہ ہے کہ جہاں جہاں گیا ملک کی زبان سرے سے بدل دی یا اسقدر اس کو مغلوب کر لیا کہ وہ مستقل اور آزاد زبان نہیں رہی اسلام سے پہلے مصروشام میں قبطی اور سریانی بولی جاتی تھی، اسلام کے ساتھ تمام ملک کی زبان عربی ہوگئی۔ یہاں تک کہ آج عیسائی یہودی وغیرہ بھی عربی زبان کے سوا اور کوئی زبان نہیں بول سکتے، ایشیائے کوچک اور قسطنطنیہ میں ترک گئے تو ملکی زبان ترکی ہوگئی، کابل اور قندھار کی اصلی زبان پشتو ہے لیکن خواص فارسی بولتے ہیں۔ جو اسلامی حکمرانوں کی زبان تھی۔ ایران اور ہندوستان سخت جان تھے جہاں ملک کی اصلی زبان قائم رہی۔ لیکن عربی الفاظ اس کثرت سے داخل ہوگئے کہ اُن کی آمیزش کے بغیر فارسی یا اردو لکھنا چاہیں تو لزوم الایلزم کی محنت اٹھانی پڑتی ہے۔
ایران ابتدا ہی سے عربی نہات شدّت سے مخلوط ہوگئی تھی، عباسی مروزی لئے
 
Top