سوانح عمری فردوسی صفحہ 15

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سوانح عمری فردوسی

صفحہ
15
1erxva.jpg
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ٹائپنگ از نایاب
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/سوانح-عمری-فردوسی.73980/page-3#post-1539064

غلط ہے ۔ فردوسی نے خود سبب تصنیف لکھا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو صرف اپنے اسلاف کا نام زندہ کرنا مقصود تھا ۔
ہمی خواہم از داد گریک خدائے
کہ چندان بمانم بہ گیتی بہ جائے
کہ این نامہ شہریاران پیش
بہ پیوندم از خوب گفتار خویش
بسے رنج بر دم درین سال سی
عجم زندہ کردم بدین پارسی
ہمہ مردہ از روزگا دراز
شد از گفت من نام شان زندہ باد
چو عیسی من این مردگان را تمام
سراسر ہمہ زندہ کردم بنام
پے افنگدم از نظم کاخ بلند
کہ از بادو باران نیا بد گزند
تیسرے دفتر میں جہاں دقیقی کے اشعار نقل کیئے ہیں خاتمہ پر لکھتا ہے ۔
من این نامہ فرخ گرفتم بہ فال
ہمی رنج بردم بہ بسیار سال
ندیدم سر افزا زنجشندہ
بہ گاہ کیان برنشینندہ
سخن را نگہداشتم سال بیست 20
بدان تا سزاوار این گنج کیست
جہاندار محمود با فر وجود
کہ اور راکند ماہ کسیوان سجود
ان اشعار میں صاف تصریح ہے کہ سلطان محمود کے دربار میں پہونچنے سے بیس سال پہلے شاہنامہ شروع ہو چکا تھا ۔ دیباچہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کتاب کا آغاز اس نے خود اپنے شوق سے کیا ۔ قرائن سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ۔ فردوسی فطرتا شاعر تھا ۔ اس کے ساتھ نسل کا مجوسی یعنی شاہان ایران کا ہم قوم تھا ۔ دقیقی نے شاہنامہ کی جو بنیاد ڈالی تھی ۔ اور جس قدر شعر لکھ دیئے تھے ۔ اس کے چرچے ہر جگہ پھیل گئے تھے ۔ اور اس سے اندازہ ہو سکتا تھا کہ اس کتاب میں قبولیت کا کس قدر مادہ ہے ۔ ۔ یہ اسباب اس بات کے لیئے کافی تھے کہ فردوسی نے خود اپنے شوق سے شاہنامہ لکھنے کا ارادہ کیا ۔ لیکن چونکہ ایک عظیم الشان کام تھا اور اعانت کے بغیر انجام نہیں پا سکتا تھا ۔ سب سے زیادہ اس بات کی ضرورت تھی کہ تاریخ کا مستند سرمایہ ہاتھ آئے حسن اتفاق کہ فردوسی کے وطن ہی میں ایک شخص کے پاس یہ سرمایہ موجود تھا اور وہ
 
Top