سنّت کیا ہے ؟

باذوق

محفلین
میرے خیال میں تو صرف ایک ہی ایسی کتاب ہے جس کے بارے میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ:
انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون
ترجمہ: یقیناً ہم نے ہی اس ذکر (قرآن) کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت فرمانے والے ہیں۔
لفظی ترجمے سے قطع نظر ۔۔۔ کم سے کم میں نے کسی بھی مفسر سے ایسی تفسیر نہیں پڑھی جس میں لکھا ہو کہ
اللہ نے صرف قرآن یعنی (قرآن میں مذکور تمام الفاظ) کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہو اور حدیث کی ذمہ داری نہ لی ہو۔

ایسا مفہوم خلافِ قرآن بھی ہے اور خلافِ عقل بھی۔ صرف الفاظِ قرآنی کی حفاظت کر کے وہ مقصد قطعاََ حاصل نہیں ہو سکتا جس کا ذکر قرآن بار بار کرتا ہے ۔ یعنی اطیعو اللہ و اطیعوالرسول۔
قرآن میں کئی سو بار نماز کا حکم آیا ہے۔ لیکن پورا قرآن دیکھ جائیے۔ آپ کو کہیں بھی نماز کا طریقہ نہیں ملے گا۔ کس طرح قیام کیا جائے ، کس طرح رکوع اور سجدہ اور کتنی رکعات؟ پھر اللہ بار بار کہتا ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کرو۔
اب رسول کی اطاعت کیسے کی جائے؟ قرآن تو رسول (ص) کا ہر ہر فعل و قول تفصیل سے نہیں بتاتا۔
بتائیے کہ صرف قرآن (جو کہ بقول آپ کے ، صرف ایک ایسی کتاب ہے جو خود اللہ نے محفوظ کر رکھی ہے) کو ہاتھ میں پکڑ کر اب مسلمان کرے تو کیا کرے ؟ نمازوں کی تعداد کا ذکر قرآن میں ملتا نہیں ، طریقہء نماز قرآن بتاتا نہیں ، زکوٰۃ کتنی دینی ، کب دینی کس کو دینی ۔۔۔ اس بارے میں بھی قرآن خاموش !
اب بیچارہ مسلمان حیران پریشان قرآن سے رجوع کرے تو وہاں سے جواب آتا ہے
اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا ! ( البقرہ : 286)

تو کیا یہ آیت دیکھ کر مسلمان نماز پڑھنا چھوڑ دے ؟ کہ نماز کا طریقہ اس کو پورے قرآن میں کہیں ملتا ہی نہیں اور وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا۔
اور اگر حدیث کی طرف وہ رجوع کرے ، تو اس کی گیارنٹی کون دے گا کہ طریقہ نماز والی فلاں حدیث صحیح ہے ؟
یہی وجہ ہے کہ مفسرین درج بحث آیت کی جب تشریح کرتے ہیں تو "الذکر" میں قرآن و حدیث دونوں کو شامل بتاتے ہیں۔
یہ تصور ہی غلط ہے کہ اللہ قرآن کے الفاظ کی تو حفاظت کی ذمہ داری تو لے اور "مفہوم" کی کوئی ذمہ داری نہ لے۔ لہذا ہمارا یہ دعویٰ قطعاََ برحق ہے کہ صحیح حدیث بھی بعینہ اسی طرح محفوظ ہے جس طرح الفاظِ قرآنی !!

میرا خیال ہے بلکہ یقین ہے ، میرے ان الفاظ کی تائید محترم اجمل صاحب بھی ضرور کریں گے ۔ جس کا پیشگی شکریہ۔
 
باذوق صاحب، آپ کا جواب بھی اور خیالات بھی حد درجہ مدلل ہیں اور بتایا ہوا طریقہ کار بھی درست ہے۔

جو آپ کے لئے بہتر ہے کرتے رہئے۔ رسول کی سنت اپنے جگہ درست ہے۔ اور کتابوں میں معیار کی کمی اپنی جگہ درست ہے،

اگر فوکس طباعت و اشاعت میں معیار کی کمی پر ہے تو درست ہے اور آپ کا تجویز کردہ حل بھی اس صورت درست ہے جہاں ایسے ناشر موجود ہوں۔

ایک مخلصانہ عرض:
آپ کی علم حدیث کی واقفیت اور اس سلسلے میں ایک ویب سایٹ کا قیام کافی بڑا کام ہے، آپ رہنمائی فرمائیے اور حدیث میں متعین نماز کے طریقہ کی وضاحت کرنے والی احادیث اگر یہاں نقل کردیں تو عنایت ہوگی۔ اس طرح‌کہ نماز کا طریقہ کار واضح ہو جائے۔ میں سمجھتا ہوں حدیث سے ثابت نماز کا طریقہ کار وقت کی اھم ضرورت ہے،

والسلام۔ منتظر
 

زیک

مسافر
بھائی زکریا ! مجھے تو آپ سے ایسی امید نہیں‌ تھی :eek:
آپ کیسی بات کرتے ہیں ؟ کیا بخاری و مسلم بھی ، خدا عظیم نہیں ہے ، لجا ، شیطانی کلمات وغیرہ زمرے کی کتابیں ہیں کہ اس پر اِس سے اُس سے رائے لے کر کہا جائے کہ ساری امتِ مسلمہ کا اجماع نہیں ہے!
کیا آپ کو نہیں پتا کہ کتبِ احادیث پر رائے ، محدثین کی لی جاتی اور معتبر سمجھی جاتی ہے ، عام مسلمانوں یا علمائے کرام کی نہیں ! اور جب محدثین کا کسی حدیث یا کتابِ حدیث پر اجماع ہو جائے تو عرفِ عام میں یہی کہا جاتا ہے کہ امتِ مسلمہ کا اجماع ہے۔

نہیں باذوق مین اپنے اور آپ جیسے ایرے غیرے نتھو خیروں کی بات نہیں کر رہا۔
 
ہمارا عمل صرف منفی رحجان کی طرف کیوں ہوتا ہے؟ مثبت طریقے ہم کیوں اختیار نہیں کرتے ؟ ممکن ہے چند طباعتوں میں تحریفات راہ پا گئی ہوں لیکن ۔۔۔ کیا یہ ضروری ہے کہ اس انہی تحریفات کی بنیاد پر بخاری و مسلم کو نشانے پر رکھ لیا جائے؟
اسی لیے محترم اجمل صاحب نے بجا طور پر اور بہترین طور پر جو مشورہ دیا ہے وہ یہی ہے کہ
حضور جیسے میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ تصیح یا تصدیق کیلئے ناشر سے رابطہ کرنا چاہئیے ۔
درست سمجھے آپ کہ مقصد نہ بخاری و مسلم جیسے حضرات کو نشانے پر رکھنا ہے اور نہ ہی حدیث رسول سے انکار ہے۔

بات بحث سے بہت آگے ہے۔ جس میں
مسئلہ یہ ہے کہ جن کتب کی غلطیوں کی نشاندہی کے لئے 90 صفحات کی کتاب چاہئیے ہو اور یہ سال ہا سال سے کاپی ہو رہی ہوں‌تو یہ ممکن ہی نہیں‌کے ان تمام ناشرین سے رابطہ کیا جائے اور ان تمام حضرات جن کے پاس یہ کتب موجود ہیں ان سے رابطہ کیا جائے۔ ان کا استعمال نہ صرف ترک کردینا چاہیے بلکہ تمام مسملمانوں‌تک یہ بات کھل کر پہنچا دہنی چاہئیے کہ جب تک ان کتب کا کوئی صاف ایڈیشن نہ آجائے وقت نہ ضائع کریں۔ اور ایسے حضرات جو نادانستگی میں ان کتب کو مزید پروموٹ کررہے ہیں وہ بھی ہشیار ہو جائیں۔

اس سلسلے میں‌ اسلام کے مجرم کی کتاب کا لاہور ہائی کورٹ میں تجزیہ اور اس مقدمے کا فیصلہ، حسب وعدہ :
اس فیصلے کی نقل دیکھئے

میں اس فیصلہ کا مزید ایک کاغذ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ جس میں‌ اس کیس کو فائل کرنے والے علماء سے خصوسی اپیل کی گئی ہے کہ ان کتب کو اہانت رسول سے اور قران کے خلاف پائے جانے والے مواد سے پاک کیا جائے۔ اس فیصلے کہ بعد جب تک ان کتب کے درست اور علماء‌کے تصدیق شدہ ایڈیشن منظر عام پر نہ آجائیں، عوام کو ان کتب کے بارے میں‌بتانا بہتر ہے کہ ان میں‌اہانت رسول اور قران کے احکامات کی خلاف ورزی موجود ہے، تاکہ وہ ان کتب سے دور رہیں۔ انشاء اللہ

والسلام
 

باذوق

محفلین
نہیں باذوق مین اپنے اور آپ جیسے ایرے غیرے نتھو خیروں کی بات نہیں کر رہا۔
یہ اچھی زبردستی ہے کہ آپ اپنے اور اپنے ہمخیالوں کے حلقے میں مجھے بھی شامل کرنے کے آرزومند ہیں۔ براہ مہربانی خاکسار کو معاف رکھئے، شکریہ۔ :)
 
پہلا سوال ۔ کیا قرآن شریف میں مرقوم اللہ سبحانُہُ و تعالٰی کے باقی احکام سنّت میں شامل نہیں ہیں ؟

بھائی اجمل صاحب، میری ذاتی ناقص رائے اس سلسلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
ہمارے رسول پاک (ص) چلتا پھرتا قرآن ہیں۔ یہ رائے تاریخی بیانات ‌سے حضور کے بارے میں ثابت ہے۔ ہمارے رسول پرنور (ص) نے قران کے ہر حکم کو اپنی زندگی میں نافذ کیا۔ اس لحاظ سے قرآن میں مرقوم اللہ سبحانُہُ و تعالٰی کے تمام احکامات سنت رسول سے بھی ثابت ہیں۔ اس میں ایسے احکامات جو اللہ کی طرف سے انفرادی نوعیت کے ہیں جن پر رسول اللہ اور صحابہ کرام کے اعمال مختلف نوع تواریخ اور احادیث کی کتب سے ثابت ہیں۔ اور مزید یہ کہ جسے ہم اسلامی نظام کہتے ہیں وہ قرآن کے اجتماعی احکامات ہیں۔ وہ بھی تاریخ ‌اسلام اور احادیث سے ثابت ہیں کہ رسول اللہ نے قران حکیم کے ان احکامات کے مطابق ان اجتماعی اصلاحات کو معاشرے میں قائم کیا۔ ہمارا اسلام اللہ کے وعدے کے مطابق اس قراں حکیم میں موجود ہے۔ ان تواریخ اور احادیث کی کتب کا مطالعہ کرنے کے وقت انتہائی احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اور ان کتب کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔

]دوسرا سوال ۔ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے باقی فعل سنّت میں شامل نہیں ہیں ؟
آپ کے اس سوال کا جواب رسول اللہ کی اس حدیث پاک سے ملتا ہے۔ تین ریفرنس فراہم کر رہا ہوں:

عربی:
From: Kingdom of Saudi Arabia
Ministry of Islamic Affairs, Endowments, Da'wah and Guidance
http://hadith.al-islam.com/Display/Display.asp?Doc=1&Rec=6851

حدثنا ‏ ‏هداب بن خالد الأزدي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن اسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد الخدري ‏
‏أن رسول الله ‏ ‏صلى اللہ عليہ وسلم ‏ ‏قال ‏ ‏لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحہ وحدثوا عني ولا حرج ومن كذب علي ‏ ‏قال ‏ ‏همام ‏ ‏أحسبه قال متعمدا ‏ ‏فليتبوا ‏ ‏مقعدا من النار

اردو:
هداب بن خالد الأزدي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن اسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد
سے مروی ہے کہ یقیناَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے (نسبت کرکے) کچھ نہ لکھو، اور جس کسی نے مجھ سے (نسبت کرکے) کچھ بھی لکھا ماسوائے قران کے، وہ اس کو تلف کردے اور میرے طرف سے بتا دو ایسا کرنے (تلف کرنے) میں کوئی گناہ نہیں اور جس کسی نے مجھ (رسول پرنور) سے کوئی بھی غلط بات منسوب کی - اور حمام فرماتے ہیں کہ انہوں نے "جانتے بوجھتے" ہوئے کا لفظ بھی استعمال کیا - اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

انگریزی:
University of Southern Califofornia
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/muslim/042.smt.html#042.7147
Abu Sa'id Khudri reported that Allah's Messenger (may peace be upon him) said: Do not take down anything from me, and he who took down anything from me except the Qur'an, he should efface that and narrate from me, for there is no harm in it and he who attributed any falsehood to me-and Hammam said: I think he also said:" deliberately" -he should in fact find his abode in the Hell-Fire.
From Printed Book:​
صحیح مسلم کتاب 1، صفحہ 211، حدیث 594
پرنٹر: مکتبہ عدنان، بیروت، 1967

Saheeh Muslim, vol 1 pg 211 Hadith number 594, Printer Maktab a Adnan, Beirut 1967
The Prophet (S) commanded, La taktabu ‘anni ghair-al-Qur’an; wa mun kataba ‘anni ghair-al-Qur’an falyamhah. (Write from me nothing but the Qur’an and if anyone has written, it must be obliterated.) -​
قران کا پیش کیا جانا عقلی طور پر درست ہے، ہمارا ایمان بھی اس پر ہے اور تاریخ سے بھی ثابت ہے۔ یہے وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے 249 سال بعد تک کسی حدیث کی کتاب کا وجود نہیں رہا۔ حدیث کی جملہ کتب فارسی مصنفین نے 249 سال کے بعد لکھی۔

قران اور اس سے پیشتر کتب پر قرآن حکیم کے احکامات کے مطابق ہمارا ایمان ہے کہ وہ جملہ پیغمبرانِ کرام پر نازل ہوئی تھیں۔ قران سے ثابت اِن کتب کے علاوہ اگر ہم سے کوئی کہے کہ آپ مزید بعد میں آنے والی کسی بھی کتاب کو مانئے تو یہ یقیناَ کفر ہے۔ دیکھئے کس کتاب پر ایمان لانا ہے اور اس کی کسوٹی قران ہے۔

[AYAH]2:177[/AYAH]
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں

اللہ کی کتاب جس کے لئے "الکتاب" کا لفظ مندرجہ بالا آیت میں استعمال ہوا ہے، ہی مانی جانی چاہئیے۔ اس کے بعد کوئی کچھ لکھتا ہے تو اسے قران کی کسوٹی سے پرکھیں۔ کہ یہی وہ کتاب ہے جو محمد العربی (ص) کو رسول اللہ بناتی ہے۔

باقی کتب لکھ کر تھوڑے سے دام کمانے والوں کے لئے اللہ تعالی کے واضح احکامات۔
[AYAH]2:78[/AYAH]
اور ان میں سے (بعض) ان پڑھ (بھی) ہیں جنہیں (سوائے سنی سنائی جھوٹی امیدوں کے) کتاب (کے معنی و مفہوم) کا کوئی علم ہی نہیں وہ (کتاب کو) صرف زبانی پڑھنا جانتے ہیں یہ لوگ محض وہم و گمان میں پڑے رہتے ہیں


[AYAH]2:79[/AYAH]
پس ایسے لوگوں کے لئے بڑی خرابی ہے جو اپنے ہی ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے عوض تھوڑے سے دام کما لیں، سو ان کے لئے اس (کتاب کی وجہ) سے ہلاکت ہے جو ان کے ہاتھوں نے تحریر کی اور اس (معاوضہ کی وجہ) سے تباہی ہے جو وہ کما رہے ہیں

اللہ تعالی کے مندرجہ بالا الفاظ رسول پرنور کے ذریعے ہی ہم تک پہنچے۔ اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت فرمانے کا مْقصد ہے، اس کتاب کو جو اللہ نے نازل کی مانا جائے اور باقی کتب جدید و قدیم کو اسی کی روشنی میں پرکھا جائے۔

[AYAH]3:3[/AYAH]
(اے حبیب!) اسی نے (یہ) کتاب آپ پر حق کے ساتھ نازل فرمائی ہے (یہ) ان (سب کتابوں) کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے اتری ہیں اور اسی نے تورات اور انجیل نازل فرمائی ہے

ان حوالہ جات کی فراہمی کے بعد، اس سلسلے میں مزید حوالہ جات فراہم کرنے سے قاصر ہوں، مسلمان کی لئے سرچشمہء ہدایت قرآن حکیم ہے اور ہدایت کے لئے قران کریم سے رجوع کرنا زیادہ بہتر ہے۔

[ARABIC]يأيها الذين امنوا اطيعوا الله واطيعوا الرسول واولي الامر منكم فان ۔۔[/ARABIC]

والسلام
 
محترم ۔ آپ نے میرے دوسرے سوال کو پھر اُلجھا دیا ہے اور خود بھی اُلجھ کر رہ گئے ہیں۔ آپ ایک ہی سانس میں قرآن و حدیث پر عمل کی بات کرتے ہیں اور حدیث کی تمام کتب کو مشتبہ قرار دیتے ہیں ۔کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ وہ احادیث آپ تک کیسے پہنچیں جن پر عمل کرنے کا آپ نے فرمایا ہے ؟

برادر من، آپ نیک انسان ہیں اور سچ کی تلاش میں ہیں اور آپ کی باتوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے، سب سے پہلے بہت ہی شکریہ کہ آپ نے مجھ سے دریافت کیا۔ بہتر تو یہ ہوگا کہ آپ قرآن سے رجوع کرتے کہ میں اپنا نظریہ بالکل نہیں ٹھونستا۔آپ خود اس سلسلے میں قرآن کا مطالعہ فرما لیجئے۔

بہرحال: چونکہ آپ صرف سیاہ یا سفید جواب چاہ رہے ہیں۔ یا سب کتبِ روایات درست یا سب غلط۔ میری ناقص عقل یہ کہتی ہے۔

1۔ کیا ان کتب میں‌احادیث نبوی یعنی فرمانِ رسول موجود ہیں؟
کچھ حد تک موجود ہیں، احتیاط برتنا بہتر ہے اور قرآن سے جانچ کرلی جائے تو اور بہتر ہے کہ ان کتب کا کوئی معیار نہیں ہے۔ کہیں 200 تو کہیں 4000 روایات اور اپنی موجودہ صورت میں تو کچھ کتب میں تو اہانت رسول اور قران کے خلاف روایات کی ایک طویل فہرست ہے۔اس سلسلے مقدمے کی نقل فراہم کرچکا ہوں۔ رسول سے یہ روایت کہ وہ (صلعم) اس طریقے سے ‌اپنے اقوال اور روایات کی کتب کے لکھے جانے کے خلاف تھے، انہی کتب میں موجود ہے۔ گویا یہ کتب خود ہی اپنی تردید بھی کرتی ہیں۔ اب ان پر کیسے مکمل اعتماد کیا جائے۔ ذرا بغور دیکھئے، سنیوں کی روایات ‌میں حضرت علی کی مروی کتنی روایات ہیں؟‌اور شیعوں کی کتب میں حضرت عائشہ سے مروی کتنی روایات ہیں؟

2۔ کیا تمام کی تمام احادیث درست ہیں۔ ؟
خود بخاری صاحب کا بیان پڑھ لیں کہ 6 لاکھ روایات میں سے اس نے صرف 7275 روایات کا انتخاب کیا۔ باقی کو خود ہی ریجیکٹ کر دیں۔ گویا 98.7875٪ روایات خود بخاری نے ریجیکٹ کردیں، اور 1.2125٪ درست محسوس کیں۔ تو حدیث کو پرکھنے کا عمل تو بخاری صاحب سے بھی ثابت ہے۔ اب بخاری صاحب نے کیا لکھاتھا تقریباَ 1100 سال پہلے اور آج کی کتب میں کیا لکھا ہے تو اس کی گارنٹی کون دے سکتا ہے۔ اسےکسی نے حفظ تو کیا ہوا نہیں ہے۔ اس کی کسوٹی یقیناَ قرآن ہے کہ رسول(ص) خلاف قرآن کیسے کچھ فرما سکتے تھے؟

ریفرنس :
http://pak.net/share/ss353637.pdf
انتخاب صحاح ستہ۔ صفحہ 35-36-37
مولوی نیاز علی صاحب۔ پنشنر اسسٹنت انسپکٹر مدارس پنجاب 1925 ع لاہور پرنٹنگ پریس بہ اہتمام محمد صدیق۔

کیا صرف قرآن شریف پڑھنے سے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے تمام احکامات پر مکمل طور سے عمل کیا جا سکتا ہے ؟
درست۔ عبادات مروجہ سنتِ متواترہ سے قائم ہیں اور اجتماعی فرائض قرآن سے ثابت ہیں۔چند ( چلیں 3 احکامات رکھ لیں) ایسی اہم بات جو قرآن میں نہ ملتی ہو۔ عنایت کیجئے، مہربانی ہوگی۔

اس آ یت پر مزید غور کیجئے [ayah]2:79[/ayah] اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت فرمائے۔

والسلام،
 
جنابعالٰی ۔ قرآن شریف تو اول ہے اور اسی میں دیئے گئے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے حُکم کی بجا آوری کے طور پر ہم سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے سنّت پر عمل کرتے ہیں ۔
بجا فرمایا آپ نے۔ قرآن اور سنت برحق ہے۔ اطاعت رسول صلعم ہمارا ایمان ہے۔

آپ کی نصیحت میں نے پلے باندھ لی ہے
بہت شکریہ، خوشی ہوئی، صرف احتیاط کی اور روایات کو قران کی کسوٹی پر پرکھنے کی ضرورت ہر مسلمان کو اور اسلامی حکومت کو ہے۔

لیکن آپ کو یہ کیسے خیال ہوا کہ میں قرآن شریف کو سامنے رکھے بغیر بات کر رہا ہوں ؟ دیگر دوسرے کو اس بات کی تلقین کرنا چاہئیے جو انسان خود کر چکا ہو ۔ یہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا حکم ۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنّت اور قرینِ قیاس بھی ہے ۔
مجھے یقین ہے آپ قران سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں۔ میں آپ کو سچ کی تلاش کرنے والا سمجھتا ہوں، ورنہ آپ یہ تکلیف کیوں کرتے۔

آپ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے 265 سال بعد مرتب کی گئی احادیث کو مشکوک قرار دیتے ہیں
اس کے برعکس درست ہے، ہمارے بزرگوں سے قطعاَ ایسی توقع نہیں‌کی جاسکتی۔ عرض‌ہے کہ اگر آپ 1200 سال کے لگ بھگ، پرانا کوئی ریفرنس آپ کے علم میں ہو اور فراہم کرسکیں تو عنایت ہوگی۔

اور وصال کے بارہ سے سوا چودہ سو سال بعد کے لوگوں کی تحاریر کو مستند سمجھ کر ان کے حوالے دیتے ہیں ۔ جبکہ مسلمان وصال کے ایک ہزار سال بعد عملی طور پر دین اسلام سے بہت دور جا چکے تھے ۔
جو حوالے میں‌نےروایات کے دئیے ہیں‌ان روایات کی کتب سے، اس کی صرف ایک وجہ ہے وہ یہ دکھانا کہ آج کی کتب میں‌ازحد احتیاط کی ضرورت ہے کہ کہیں نہ کہیں، کچھ نہ کچھ غلط ضرور ہے، اب یہی دیکھئے کہ آپ کو تین مقامات پر لکھی ہوئی حدیث غلط لگتی ہے۔ یہی میرا پوائنٹ ہے۔کسی قدیم ترین ریفرنس کا انتظار رہے گا،

محترم ۔ نماز ایک ایسا فرض ہے جو سوائے بیہوشی اور پاگل پن کہ کسی مسلمان کو معاف نہیں ۔ قرآن شریف میں کہیں نماز پڑھنے کا مکمل طریقہ اور نماز میں کیا پڑھا جائے نہیں لکھا ۔ ہو سکتا ہے مجھے سمجھ نہ آیا ہو چنانچہ آپ مجھے وہ آیت یا آیات بتا دیجئے جن میں اس کی تفصیل ہو ۔
بہت اچھی مثال دی آپ نے طریقہ نماز کی۔ ہم سب کی آسانی کے لئے، آپ روایات کی کتاب میں سے اس روایت کی طرف ایک پوائنٹر فراہم کردیجئے جس میں نماز پڑھنے کا وہ پورا طریقہ بتایا گیا ہو جس پر تمام مسلمانوں کے فرقے متفق ہیں۔ ورنہ پھر کسی بھی فرقے کا نماز پڑھنے کے طریقہ کا پوائنٹر فراہم کردیجئے۔ بہت ممنون ہونگا۔ انتظار رہے گا۔ آپ کے علم کی بدولت اور اس دلیل کے پرانے ہونے کے باعث، امید کرتا ہوں کے کل آپ روایات کی کتاب سے نماز کا پورا طریقہ مع ریفرینس فراہم کرسکیں‌گے،

آپ کا اصرار ہے کہ احادیث کو پرکھا جائے ۔ کیا آپ اپنے آپ کو اس قابل سمجھتے ہیں کہ جناب بخاری صاحب یا جناب مسلم صاحب نے آج سے بارہ سو سال پہلے جسے صحیح حدیث قرار دیا آپ اسے غلط قرار دے دیں ؟
روایات کو پرکھنا، کہ یہ حدیثِ رسول ہوسکتی ہے، کوئی مشکل کام نہیں، اسکی ہم معنی یا برعکس آیت کافی ہوتی ہے۔ اگرکوئی بنا پرکھے، کبوتری سے نکاح کو جائز اور خواتین کا مردوں کو نہا کر دکھانا درست سمجھنا چاہے، تو اس شخص کی خوشی ہے۔ اگر ان روایات کی آیات قرآن سے مل جائیں‌تو ضرور عنایت فرمائیے۔

اور آپ کے پاس اسکی سند کیا ہے ؟ اللہ ہمیں سیدھی راہ پر قائم کرے ۔
ہراہِ کرم وہ آیت عنایت کیجئے، جو قران کریم پڑھنے اور اسکی ترویج کے لئے سند مانگتی ہے اور وہ کونسی سند ہے جوقران کو پڑھنے کے لئے درکار ہے۔ اب تک تو میں نے بچوں کے قران مجید شروع کرنے پر صرف" ؛بسم اللہ الرحمٰن الرحیم " ہی پڑھتے دیکھا ہے، اور قران کریم ختم کرنے پر آمین، اور یاد آیا کہ "بسم اللہ " اور آمین کے درمیان صرف قرآن حکیم ہی پڑھایا جاتا ہے، کوئی دوسری کتاب نہیں۔ کیا یہ سنت تبدیل ہو گئی ہے؟

کہنے دیجئے کے سند کا یہ فرسودہ نظام ایک مکاری پر مشتمل سیاسی جھنجھٹ اور شرم کا مقام ہے۔ اور اسلامی معاشرہ میں قانون سازی کے قرآنی احکامات کے خلاف ہے۔ دیکھیئےقرآن کے حوالہ جات:
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=7570

نماز کی تعلیم اللہ تعالی کی طرف سے قرانِ کریم میں ابراہیم علیہ السلام سےحضرت محمد صلی اللہ و علیہ وسلم تک اور حضور کی دہن مبارک سے ان ارشادات و وحی کی صورت ہوئی۔ نماز کی تعلیم قرآن و الفرقان سے، ملاحظہ فرمائیے، جو سند والوں کو "پاژند " کے عدسے سے دیکھنے کے باعث آج تک نظر نہ آئی۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=7952
یہ سنت جاریہ 1400 سال سے مسلمانوں‌میں تعلیم ہے، حرمین شریفین میں جاری ہے، اور عموماَ ٹی وی پر بھی دکھائی جاتی ہے۔ بہر صورت نماز کے طریقے کا روایات کی کتب سے انتظار رہے گا۔ سنتِ رسول کا یہ اعجاز ہے کہ وہ 1400 سال سے سنتِ جاریہ ہے۔ اور دنیا میں ہر جگہ اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

اللہ تعالی فرماتے ہیں:
[AYAH]54:17[/AYAH] [ARABIC]وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ [/ARABIC]
اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے

والسلام،
 
میں آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ آپ کا وقت ضائع کیا ۔ آپ بہت زیادہ پڑھے لکھے ہیں اسلئے میں آپ کو کچھ سمجھا نہیں سکتا ۔ آئندہ انشاء اللہ میں آپ کی کسی بات پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا
محترم دوست، معافی کی قطعاَ ضرورت نہیں۔ آپ کے الفاظ سے مکمل خلوص کی خوشبو آتی ہے۔ یہ مناظرہ میرا اور آپکا ذاتی سلسلہ نہیں ہے بلکہ مناسب اصولوں کا انتخاب ہے۔ آپ کی معافی یا تعریف کا میں‌ قطعاَ طلبگار نہیں۔ اگر میری اور آپ کی اس مشترکہ کوشش سے ہم سب کو ہدایت حاصل ہوتی ہے تو ہم سب آپ کے شکرگزار ہیں۔

معافیوں اور تعریفون سے انا کے پیٹ تو بھرے جاسکتے ہیں، لیکن علم کی پیاس نہیں بجھائی جاسکتی۔ مجھے گراں نہیں‌گزرتا کہ لوگ میری کردار کشی کریں، لیکن یہ گناہ میں نہیں کرتا۔ آپ درد مند دوست ہیں۔ اپنے بھی میرے بھی اور اور تمام دوستوں کے بھی۔ یہاں جو سوال آپ نے بہادری سے کئے، وہ تو احباب پر احسان بن گئے۔ ورنہ آج کے دور میں ان مسائل پر سوال ہی کوئی نہیں کرتا۔

دیکھئے ہمارے اس مناظرے سے کم از کم یہ سامنے آیا کہ، وہ حوالہ جات، جو روایات کی کتب جدید سے یہاں دئے گئے، وہ کم از کم آپ کو (اور مجھے بھی) قابل قبول نہ تھے۔ اور شاید بیشتر لوگوں کو نہ ہوں۔ آپ کا یہ احسان کم ہے کہ آپ کی مدد سے ہمارے بزرگوں کے کام میں کی گئی جدید ترین (ناقبل قبول) ترامیم کی نشاندہی ہوئی۔

میں ذاتی طور پر آپ کا شکر گزار ہوں کہ اتنے صبر سے آپ نے میرا ساتھ دیا قرآن حکیم کی ترویج اور اس کو سمجھنے میں۔ صدق دل سے شکریہ۔

واضح‌کرتا چلوں کہ آج تک روایات کی کتب میں واضح طریقہ نماز ڈھونڈھ رہا ہوں، نہیں ملا، پتہ نہیں کس نے غلط العوام کیا، البتہ قران کریم میں ضرور موجود ہے۔

تائید، تنقید، مخالفت اور تبصرہ کے دوستانہ سلسلہ کا طالب ہوں کہ یہی عمل ہمارے خیالات کو جلا بخشتا ہے۔ اور اسی کا آپ سے وعدہ ہے۔ آنشاء اللہ تعالی آپ کی مدد اور تنقید و تائید و تبصرات سے اور قران حکیم و احادیث کی مدد سے یہ سلسلہ جاری رہے گا، گذارش ہے کہ کڑی نظر رکھئے۔

والسلام،
 

شاکرالقادری

لائبریرین
بھائیو!
لمبے چوڑے اور پیچیدہ معاملات میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے
سیدھی سادی بات جو سمجھ میں آتی ہے
وہ یہ کہ
جو احکام قرآن حکیم نے دیے ہیں وہ فرائض ہیں
اور جو اعمال رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق ہیں وہ سنت ہیں
اب دیکھنا یہ ہے کہ
اگر قرآن کو تو شریعت کا منبع سمجھا جائے لیکن سنت یا حدیث سے انکار کیا جائے
تو ایسی صورت میں
قرآن پر اعتماد کا کیا معیار ہوگا
کیونکہ قرآن بھی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی وساطت سے ہم تک پہنچا
یاد رہے کہ
کوہ صفا پر اولین دعوتی خطاب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےے مشرکین مکہ سے یہی بات تسلم کروائی تھی کہ
اگر م۔۔۔۔۔۔۔یں کہ۔۔۔۔۔وں کہ اس پہاڑ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا تم مان لوگے گے؟
لوگوں نے آپ کو صادق و امین تسلیم کرتے ہوئے اقرار کیا کہ ہاں ہم مان لیں گے
پھر آپ نے بتایا کہ:
قولوا لاالہ تفلحوا

نتیجہ کیا برآمد ہوا؟؟؟؟

قرآن پر ایمان اسی صورت میں لایا جا سکتا ہے کہ پہلے صاحب قرآن کی بات کو درست تسلیم کیا جائے
ورنہ قرآن کی حیثیت ہی مشکوک ہو کر رہ جائے گی

دوسری طرف
قرآن کریم کو پڑھیے اور دیکھیے کہ قرآن حکیم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ، اخلاق، کردار، افعال اور غرضیکہ تمام زندگی کے بارے میں کیا حکم دیا ہے

قرآن کریم تو کہتا ہے کہ تمہارے لیے بہترین نمونہ اخلاق رسول کریم کی ذات ہے
قرآن کو لعمرک کہہ کر آپ کی زندگی کی قسم کھاتا ہے
قرآن کہتا ہے کہ آپ کوئی بات بغیر وحی کے کرتے ہیں نہیں
وغیرہ وغیرہ
قرآن پڑھتے جایئے آپ کو سنت کی حیثیت روشن ہوتی جائے گی

البتہ احادیث کے مجموعوں میں اگر کچھ الحاقی چیزیں آگئی ہوں تو اس کا احتمال ہوسکتا ہے اور علما محدثین اور مفسرین نے اس کے لیے معیارات قائم کر دیے ہیں
روایت و درایت کا سلسلہ جاری ہے
 
البتہ احادیث کے مجموعوں میں اگر کچھ الحاقی چیزیں آگئی ہوں تو اس کا احتمال ہوسکتا ہے اور علما محدثین اور مفسرین نے اس کے لیے معیارات قائم کر دیے ہیں
روایت و درایت کا سلسلہ جاری ہے
درست فرمایا آپ نے، قرآن، سنت و حدیث کے بارے میں، اور درست وضاحت فرمائی آپ نے۔ یقیناَ، موضوع سخن سنت و اقوالِ ذات کریم (صلعم)‌ نہیں بلکہ کتبِ روایات تھیں۔
والسلام۔
 
الحمد للہ، اب ہم جناب شاکر القادری کے پیغام کے بعد ایک متفقہ نتیجے پر پہنچ گئے ہیں۔

روئے سخن کسی ایگ شخص کی طرف قطعا نہیں ہے۔ اور نہ ہی کسی کی دل آزاری مطلوب ہے۔

میری مخلصانہ استدعا ہے کہ اگر ممکن ہو تو میرے گذشتہ سوالات کا جواب عنایت فرمائیے۔ خصوصا سند یافتہ حضرات کے اس دعوٰی کا ثبوت کہ، منظور شدہ طریقہء نماز صرف کتبِ روایات میں ہی پایا جاتا ہے۔ جس سے یہ سکہ بند حضرات، اسناد و تعریفات کے پردے میں، معصوم عوام کو قرآن کریم سے بد گمان کرتے ہیں۔ اور اسلامی نظام کی بنیاد قران کے بجائے، صرف اور صرف روایات کی کتب پر رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اگر طریقہ نماز ان روایات کی کتب میں موجود ہوتا، تو آج اتنے سارے فرقے 2000 سے زائد مختلف طریقوں سے نماز نہ ادا کررہے ہوتے۔ اور پھر اگر یہ درست بھی ہوتا تو بھی قران کا عظیم اسلامی نظام۔ فلاحی ریاست اور اس ریاست کا مختلف نظام، جو قرآن حکیم سے ثابت ہیں، ان کتب روایات میں دور دور تک نہیں پائے جاتے۔ 26 سورات کا تذکرہ کسی بھی کتابِ روایت میں‌ نہیں ہے۔ اس پر انشاء اللہ تفصیل فراہم کروں گا۔ آج مسلمانوں کے کنفیوژن کی بڑی وجہ یہی ہے، میں نے خود دیکھا ہے کی درست انفارمیشن کے بعد لوگوں میں‌قرآن و حدیث جاننے کا اشتیاق بہت بڑھ جاتا ہے۔

ڈاکٹر شبیر احمد، جامعۃ الازھر سے فاضلِ دینیات ہیں اور امریکہ میں تبلیغ و اشاعت اسلام میں مصروف ہیں۔ ان کی کوششوں سے مشرف بہ اسلام ہونے والوں کی تعداد 13،000 سے اوپر پہنچ چکی ہے۔ اسلام کے مجرم کے علاوہ، انہوں نے مدینہ یونیورسٹی اور جامعۃ الازھر اور برِصغیر کے مسلمہ علماٌ کی نظرِثانی کے بعد ثابت شدہ احادیثِ نبوی(ص) پر مشتمل ایک کتاب اور قران کا ایک ترجمہ شائع کیا ہے۔ جو حضرات چاہیں اس سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں۔ آپ ان کے کام سے اندازہ کرسکیں گے کہ کتب روایات میں کس قدر اسرائیلیات در آئی ہیں اور ان اسرائیلی روایت درایت کا ممکنہ دفاع کس طرح کیا جائے۔ اگر موقع ملے تو ضرور پڑھئے۔

والسلام۔
 

باذوق

محفلین
میں نے کافی دن بعد یہاں‌ کا دورہ کیا ہے۔
ذرا کچھ وقت دیں‌ کہ پچھلی تمام پوسٹس تفصیل سے پڑھ لوں ۔
 

سید ابرار

محفلین
انکار حدیث کا فتنہ دور جدید کی ”پیداوار“ ہے ، جو بات مستشرقین کھتے ہیں وہی بات گھما پھرا کر منکرین حدیث کھتے ہیں ،
حقیقتا تو یہ ایک علمی بحث ہے ، لھذا اس میں مستند علماء کرام ہی کی رائے کا اعتبار ہوگا نہ کہ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کا ،

اس موضوع پر میں مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب کی کتاب ” The Authority of Sunnah” کا حوالہ دینا چاہونگا

یہ اصل میں ایک مقالہ ہے جو انگلش میں مفتی صاحب نے لکھا تھا ، اس کا اردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے ،

انگلش زبان میں یہ کتاب آن لائن پڑھی جاسکتی ہے ربط یہ ہے :

The Authority of Sunnah

اور اردو زبان میں اس مقالہ کے ترجمہ کو پڑھنے کے لئے آپ کو یہ پی ڈی ایف فائل ڈاون لوڈ کرنی پڑے گی ، ربط یہ ہے

حجیت حدیث : ڈاون لوڈ کیجئے

اس موضوع پر مولانا مودودی صاحب کی کتاب کا حوالہ یھاں ابو شامل بھائی دے چکے ہیں ، اس کا مطالعہ بھی کرنا چاہئے ،
 
Top