سلام برائے اصلاح

محترم سر الف عین ،
دیگر اساتذۂ کرام اور احباب کی نظر بغرضِ اصلاح


‎فاعلاتن مفاعلن فعلن
‎حق سے بھی ہم قدم نہیں ہوتے
‎سب یہاں اہلِ غم نہیں ہوتے

‎دل کبھی جن کے نم نہیں ہوتے
‎اور ہوتے ہیں وہ ہم نہیں ہوتے

‎ہاتھوں میں بزدلوں کے ہوں تو کیا!
‎ایسی تیغوں میں دم نہیں ہوتے

‎آج بھی ہیں یزید کے حامی
‎خونی جذبے تو کم نہیں ہوتے

‎کٹ کے تن سے جدا ہی تو ہوں گے
‎تیغوں سے سر تو خم نہیں ہوتے

‎ہوں اگر شہ کے غم سے دل غمگیں
‎پھر زمانے کے غم نہیں ہوتے

‎ہوں سپاہی جو کربلا والے
‎پھر بٓہتّر بھی کم نہیں ہوتے
 
‎حق سے بھی ہم قدم نہیں ہوتے
‎سب یہاں اہلِ غم نہیں ہوتے
شعر شعر بنا نہیں، بھیا۔ بات کہی نہیں جا سکی۔
‎دل کبھی جن کے نم نہیں ہوتے
‎اور ہوتے ہیں وہ ہم نہیں ہوتے
دل کا نم ہونا بڑی نامانوس اور ناقابلِ فہم سی بات ہے۔
دوسرا مصرع وزن سے خارج ہے۔ تقطیع کی مشق کی ضرورت ہے۔ لفظ 'اور' سے متعلق ذیل کا نکتہ بھی ذہن میں رکھیے:
قاعدہ اس سلسلے میں یہ ہے کہ اور کا لفظ اگر حرفِ عطف (ایسا حرف جو دو کلموں یا جملوں کو جوڑتا ہے) کے طور پر آئے تو اسے سببِ خفیف (فع) اور وتدِ مفروق (فاع) دونوں کے وزن پر باندھا جا سکتا ہے۔
مثال دیکھیے:
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
(فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)

ادب ہے اور یہی کش مکش تو کیا کیجے
حیا ہے اور یہی گو مگو تو کیونکر ہو؟
(مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن)​
تقطیع کریں گے تو معلوم ہو گا کہ پہلے شعر کے مصرعِ ثانی میں حرفِ عطف کو سببِ خفیف کے وزن پر باندھا گیا ہے اور دوسرے شعر کے دونوں مصرعوں میں وتدِ مفروق کے وزن پر۔ دونوں طرح درست ہے۔
لیکن اگر "اور" بمعنیٰ مزید یا مختلف آئے یا اس قسم کی دلالتیں رکھتا ہو تو لازم ہے کہ اسے وتدِ مفروق کے وزن پر باندھا جائے۔ اساتذہ کے ہاں تو خیر اس کا التزام رہا ہی ہے مگر مستند معاصر شعرا نے بھی اس روایت کا کماحقہٗ لحاظ کیا ہے۔ لہٰذا اس کی رعایت نہ کرنے کو عیب گننا چاہیے۔
مثال ملاحظہ ہو:
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
(مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیل/فعولن)​
مصرعِ اولیٰ میں اور کا لفظ مزید کے معنیٰ میں ہے اور مصرعِ ثانی میں مختلف کے معنیٰ میں۔ دونوں جگہ اس کا وزن وتدِ مفروق یعنی فاع ہی کا ہے۔
ہاتھوں میں بزدلوں کے ہوں تو کیا!
‎ایسی تیغوں میں دم نہیں ہوتے
مصرعِ اولیٰ میں ہاتھوں کی بجائے ہاتھ زیادہ بہتر لگے گا۔ دوسرے مصرع کی بنت بھی توجہ کی محتاج ہے۔ دَم کی اردو میں جمع گو دَم ہی ہے مگر عام طور پر اسے واحد بولا جاتا ہے۔ ردیف کا جبر یہاں بہت کھلتا ہے۔
‎آج بھی ہیں یزید کے حامی
‎خونی جذبے تو کم نہیں ہوتے
ٹھیک۔
‎کٹ کے تن سے جدا ہی تو ہوں گے
‎تیغوں سے سر تو خم نہیں ہوتے
بات کو مختلف طریقوں سے کہہ کے جانچنے کی مشق کیا کیجیے۔ مثال کے طور پر یہی خیال اگر یوں پیش کیا جائے:
کٹ کے گر جائیں سر تو گر جائیں
ورنہ تیغوں سے خم نہیں ہوتے​
تو؟
‎ہوں اگر شہ کے غم سے دل غمگیں
‎پھر زمانے کے غم نہیں ہوتے
جمع غیر ضروری ہے یہاں۔ پہلا مصرع 'ہو اگر شہ کے غم سے دل غمگین' ہو تو زیادہ اچھا لگے گا۔
‎ہوں سپاہی جو کربلا والے
‎پھر بٓہتّر بھی کم نہیں ہوتے
اچھا۔
 
محترم سر الف عین ، محترم سر راحیل فاروق اور دیگر اساتذۂ کرام

سر راحیل فاروق صاحب محنت کر کے چند اشعار نکالے ہیں اور گزشہ بہتر کرنے کی کوشش کی ہے۔

حق سے بھی ہم قدم نہیں ہوتے
جز وہ اہلِ ستم نہیں ہوتے

سر جو حق پر کٹانا ہی ٹھہرا
خوف پھر بیش و کم نہیں ہوتے

غور سے دیکھ اہلِ کوفہ کو
اِن سے اہلِ ارم نہیں ہوتے

غیر سے حُر بنا لیا اپنا
سب پہ ایسے کرم نہیں ہوتے

کر گئے یوں جدا حق و باطل
اب کسی طور ضم نہیں ہوتے
 

عاطف ملک

محفلین
اب اپنی سلطنت کا ولی عہد ؂@راحیل فاروق کو مقرر کر کے میں سنیاس لیتا ہوں۔
استادِ محترم،
ولی عہد میں خوبیاں تو بے شمار ہیں اور آپ کی سلطنت کی توسیع کی صلاحیت بھی بدرجہِ اتم موجود ہے لیکن ایک چھوٹی سی خامی ہے کہ پہلے "عالی دماغ" ہوا کرتے تھے،آجکل نہیں رہے :p
اس واسطے میری آپ سے التجا ہے کہ خدارا ابھی سنیاس نہ لیں :)
راحیل فاروق
 
آخری تدوین:
ل کا نم ہونا بڑی نامانوس اور ناقابلِ فہم سی بات ہے۔
دوسرا مصرع وزن سے خارج ہے۔ تقطیع کی مشق کی ضرورت ہے۔ لفظ 'اور' سے متعلق ذیل کا نکتہ بھی ذہن میں رکھیے:

جناب راحیل فاروق صاحب -آپ کے لفظ "اور" کے بیان نے علم میں اضافہ کیا - اللہ تعالی آپ کو اجر دے - آمین
 
ایک چھوٹی سی خامی ہے کہ پہلے "عالی دماغ" ہوا کرتے تھے،آجکل نہیں رہے
ہاہاہاہا۔ اب خالی دماغ ہیں!
اللہ تعالی آپ کو اجر دے - آمین
ثم آمین۔
اُستادِ محترم راحیل فاروق صاحب صرف پسندیدگی سے تو کام نہیں چلنے والا، آپ کی اصلاح اور نظر کرم کے منتظر ہیں!
سید بادشاہ، سچ کہوں تو مجھے اشعار پسند نہیں آئے۔ ممکن ہے اس میں میرے دماغ کا خلل ہو۔ مگر میں حسبِ ارشاد جو دل میں ہے کہہ دیتا ہوں۔
حق سے بھی ہم قدم نہیں ہوتے
جز وہ اہلِ ستم نہیں ہوتے
دوسرا مصرع تعقید کا شکار ہے۔ "وہ جز اہلِ ستم نہیں ہوتے" کہا جائے تو بہتر ہو جائے گا۔ مگر پورا شعر پھر بھی خوب صورت نہیں۔
حق سے جو ہم قدم نہیں ہوتے
وہ جز اہلِ ستم نہیں ہوتے​
اگر یوں کہا جائے تو نسبتاً زیادہ سریع الفہم ہو جاتا ہے۔
سر جو حق پر کٹانا ہی ٹھہرا
خوف پھر بیش و کم نہیں ہوتے
مصرعِ اولیٰ میں کٹانا ہی کے ٹکڑے میں الف گر رہا ہے۔ ایسی جگہوں پر تو یہ قطعاً نامناسب ہے۔ یہ ذہن میں رکھیے گا کہ چھوٹی بحر تبھی خوب صورت لگتی ہے جب اس میں اسقاطِ حروف کم سے کم ہو۔
دوسرے مصرع کا لغوی مطلب ہے کہ پھر خوف زیادہ یا کم نہیں ہوتے۔ یہ کیا بات ہوئی؟
غور سے دیکھ اہلِ کوفہ کو
اِن سے اہلِ ارم نہیں ہوتے
شداد کے لیے اہلِ ارم کا اشارہ مناسب نہیں۔ ارم کا لفظ ہماری روایت میں خوبصورتی اور زیبائی وغیرہ سے متعلق چلا آتا ہے۔ یہ استعارہ پھبتا نہیں شداد پر۔
غیر سے حُر بنا لیا اپنا
سب پہ ایسے کرم نہیں ہوتے
یہ غالباً کوئی تلمیح ہے۔ میرے علم میں نہیں۔ مگر بظاہر یہ ایک واقعے کا سیدھا سادہ بیان ہے۔ شعر صرف حقائق کو نظم کر دینے کا نام تو نہیں، بھیا۔
کر گئے یوں جدا حق و باطل
اب کسی طور ضم نہیں ہوتے
یہ شعر باقیوں سے اچھا ہے۔ بات بھی نئی ہے اور کہی بھی اچھی طرح گئی ہے۔
 
استادِ محترم راحیل فاروق صاحب بہت شکریہ اظہارِ خیال کا!

سید بادشاہ، سچ کہوں تو مجھے اشعار پسند نہیں آئے۔ ممکن ہے اس میں میرے دماغ کا خلل ہو۔ مگر میں حسبِ ارشاد جو دل میں ہے کہہ دیتا ہوں۔

پسند کے لائق ہوتے تو یقیناً پسند بھی آتے! آپ اِسی طرح سچ کا اظہار کرتے رہا کیجئے۔ آئندہ کوشش کروں گا کہ بہتر اشعار پیش کروں۔


کر گئے یوں جدا حق و باطل
اب کسی طور ضم نہیں ہوتے
یہ شعر باقیوں سے اچھا ہے۔ بات بھی نئی ہے اور کہی بھی اچھی طرح گئی ہے۔

اور میں باقی اشعار کو اس سے بہتر سمجھ رہا تھا! :) شاید آہستہ آہستہ ہمیں بھی سمجھ آنا شروع ہو جائے۔

دُعاگو
 
Top