"سفیدرُو دلہن رتی گلی جھیل" تحریر محمد احسن (مسافر شب)

"سفیدرُو دلہن رتی گلی جھیل"
زمانہ..دو دِن 22/23 اکتوبر 2016
تحریر و عکاسی...مسافرِشَب
ٹِیم:- مسفریال (راول پنڈی)، مس سمرین (رحیم یار خان)، ابوبکر (لاہور)، شہزاد قیوم (لاہور)، مسافرِشَب (اسلام آباد)، درویشنی جِیپ (اِک کائنات)
•••
ایک سفید پیراہن دلہن تھی.. وہ پچھلی تقریب میں تو سُرخ جوڑے میں تخت نشیں تھی مگر اگلے دِن کی تقریب میں وہ سفید جوڑے میں ملبوس تھی مگر ہاں، اپنا سُرخ رنگ قائم رکھنے کے لیے اُس کے ہاتھوں میں سرخ پھولوں کا گلدستہ ضرور تھا.. اور مَیں محفوظ فاصلے سے اُسے دیکھ رہا تھا..
مَیں.. مسافرِشَب ہُوں.. میرا تعلق لیلیٰ کی مانند سیاہ اندھیروں سے ہے.. مگر اُس وقت مَیں لشکارے مارتی سفید ابرق برف پر آخری بلندی عبور کر رہا تھا.. وہ برف ایسی تھی جیسے سفید رو دلہن کا نقش و نگار سے مزین سفید عروسی جوڑا ہوتا ہے.
گویا مَیں اُسی سفید جوڑے پر بلندی کی جانب بڑھتا چلا جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیا یہ جائز ہے؟
مَیں.. مسافرِشَب.. اپنی مہمات کا لیڈر ہوتا ہوں.. کہ ظاہر ہے کہ جب پلان پوسٹ کرتا ہوں تو پھر مجھے ہی اپنے منصوبے کو عملی پاجامہ بھی پہنانا پڑتا ہے.. مَیں فرخ بھائی کو تو لیڈر نہیں بنا سکتا کہ خود بے فکر ہو کر ایک سائیڈ پر ہو جاؤں. ہاں یہ ضرور ہے کہ فطرتی مقامات کی جو مہمات ہوتی ہیں اُن میں اصل لیڈر وہ فطرتی مقام ہوتا ہے جو بصد شکریہ خود اپنے اندر آنے دے تو تبھی ہم جیسوں کی مہمات کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں. ہم مسافر عاجز لوگ ہوتے ہیں، اِس کائنات کو ہماری مدد کرنا ہی پڑتی ہے. اِسی لیے اے لوگو، تُم بھی اِک کائنات کی چاہت میں مبتلا ہو جاؤ.. اور ہاں اپنے ہاتھوں میں چھریاں اور سیب ضرور پکڑے رکھنا.. اللہ بھلی کَر سی.
بحیثیت خودساختہ یا مجبوراً لیڈر بننے کی صورت میں مجھے ایک ایک منٹ کا حساب رکھنا ہوتا ہے کہ کب چلنا ہے، کتنے بجے پہنچ جانا چاہیے، لطیفوں جگتوں کے لیے کتنا وقت دینا ہے، محبوب کے سامنے کتنی دیر رونا ہے، اور اگر محبوب سے وصل ممکن نہیں تو اُس کے فراق میں کتنی دیر تڑپنا ہے، اور ایسے میں نمکیات سے بھرپور چناب رُت پانیوں والے آنسو بہانے ہیں یا آدھ پاؤ خونِ جگر جلانا ہے.. اور ٹیم لیڈر ہونے کی حیثیت سے اپنے لیے کتنا وقت نکالنے کی گنجائش ہے.. بہت سے معمولات ہوتے ہیں..
تو جب مَیں سفید رُو دلہن کے عروسی جوڑے جیسی برف پر رینگتا ہوا اُس جگہ پہنچا جہاں دلہن کا خمارانگیز اور جوانی سے بھرپور چہرہ نظر آ جاتا ہے، اُس چہرے پر لہروں کے جذبات ابھرتے نظر آنے لگتے ہیں تو مَیں نے اپنے موبائل میں وقت دیکھا تاکہ پتا چلے کہ تیرا چہرہ تک پہنچنے میں کتنی دیر لگی ہے.... میرے فون پر وقت تھا 11 بج کر 19 منٹ. 119 نمبر ہرسو ماحول پر طاری ہو گیا. مجھے پیغام دیا گیا کہ یہ برف سفید جوڑے میں ملبوس دُلہن، تیری ہوئی.
•••
رتی گلی کی بلندی 12 ہزار 100 فُٹ ہے.. یعنی باذوق شخص کی سانسیں بے ربط کر دینے پر شدید قادر ہے.
گزشتہ ادوار میں اور آجکل بھی باذوق احباب کاغان میں بڑوائی کے قصبہ سے شروع ہو کر کشمیر کا بارڈر کراس کرتے ہیں تب رتی گلی جھیل سے مل کر دواریاں نیلم میں اتر جاتے ہیں اور پھر شوریدہ دریائے نیلم میں لوہے کی کشتی کے ذریعے مظفرآباد پہنچتے ہیں یا پھر کاغان کی دودی پت سر سے شروع ہو کر سرال جھیل، نوری ٹاپ، ہنس راج جھیل اور رتی گلی جھیل تک ٹریکنگ کرتے ہیں.
کچھ عرصہ قبل دواریاں سے رتی جھیل کے قریب دو ڈھائی کلومیٹر نیچے تک جیپ ٹریک بنایا گیا. اُس جگہ پر کیمپنگ ہوتی ہے. وہاں سے دو تین کلومیٹر کی ٹریکنگ کے بعد جھیل کا چہرہ نظر آتا ہے. ویسے نیچے کیمپنگ سائیٹ سے ہی جھیل کے ماحول نظر آ رہے ہوتے ہیں اور وہاں بلند پہاڑ ایک خاص ترتیب میں کھڑے ہوئے پیغام دیتے ہیں کہ ہماری کوکھ میں اِک کائنات کا بسیرا ہے.
•••
میرا منصوبہ تھا کہ رتی گلی جھیل کو کچھ اِس طرز سے کیا جائے کہ کم سے کم وقت لگے.. تب مَیں نے عرق ریز محنت کر کے تمام معلومات حاصل کرنا شروع کیں. احباب جانتے ہیں کہ مظفرآباد سے دواریاں تک دو بار لائن اوف کَن ٹرول آتی ہیں.. یعنی آپ کو سو فیصد یقین نہیں ہوتا کہ کب ایشوریا رائے اور مِیرا کے درمیان لڑائی ہو جائے اور نتیجتاً نیلم روڈ پر اس کا اثر پڑے. آجکل ایشوریا اور مِیرا ویسے بھی ایک دوسرے کو آنکھیں دکھا رہی ہیں اور ایک دو تپھوں چپیڑوں کا بھی تبادلہ ہو چکا ہے. ایسی صورت میں مجھے شدید فکریں لاحق تھیں.. مگر مجھے یہ مہم سرانجام دینی ہی تھی.. کہ کسی نے اشارہ دیا تھا، اے مسافرِشَب، واٹ اباؤٹ رتی گلی. اور مسافرِشَب نے کہا، جو حکم سائیں.
•••
ویسے چند دن قبل ایشوریا رائے آنکھیں بھی رتی گلی جھیل میں اپنا سحر طاری کر آئی ہیں.. آپ تو جانتے ہی ہیں کہ علی کامی کی آنکھیں اتنی ایشوریا ہیں کہ بس کیا بتاؤں..
•••
درویشنی.. فُلی لوڈڈ.. تقریباً پونے آٹھ بجے.. مری ایکسپریس وے پر ناشتہ کے لیے رکی. فضا میں سردی ہمیں فکرمند کرتی تھی کہ یہ ماحول.. سردیوں والے ہیں.
دریائے کورنگ کے کنارے اُس ریسٹورنٹ میں اوپن ایر کرسیاں میز تھے.. دُور سے مری کا سبز گنبد بھی نظر آ رہا تھا جسے مَیں نے ایک بار رحم سائیں کہا تھا، تب میرے حالات بدل گئے تھے.. ناشتہ تناول فرماتے ہوئے احباب کا آپس میں کچھ تعارف ہوا. ہم سب عرصہ سے ایک دوسرے کے ہمراہ سفر کر رہے تھے.. تعارف اصل میں شہزاد بھائی کا تھا. وہ لاہور کی ایک سنجیدہ کمپنی میں کافی سینیئر منیجر ہیں. فارغ اوقات میں شمال کے اتنے ٹریکس کیے ہیں کہ جن میں سے کچھ کے نام مَیں پہلی بار سُن رہا تھا. اُنہیں ہر جگہ کی تفصیل اتنی شدید یاد تھی جیسے ڈاکٹروں کو ہزاروں دواؤں کے نام یاد ہوتے ہیں. سیاحت کے لیے بیرونِ ملک بھی سفر کرتے رہے. تب مَیں نے کہا کہ سر، اتنی زبردست پروفائل رکھتے ہوئے میرے ہمراہ جانے کی وجوہات تحریر کریں. وجہ یہ تھی کہ اُن کے پاس ویکینڈ فری تھا اور کسی وجہ سے ماضی میں وہ رتی گلی نہ دیکھ سکے تھے حالانکہ باقی نیلم میں جگہ جگہ اُن کے نشانات ہیں. میری عزت افزائی ہے کہ رتی گلی نے اُنہیں میرے ہمراہ بلایا.
مسفریال کو کون نہیں جانتا.. ایک جہاں گرد روح کی حامل ایسی خاتون ہیں کہ دوسری خواتین حیرت میں مبتلا ہو جاتی ہیں کہ یہ خاتون کپڑوں اور کھانوں کی بجائے ہر وقت پہاڑوں جنگلوں صحراؤں کی باتیں کیوں کرتی ہیں. اِن کا اوڑھنا بچھونا ہی سفر ہیں. تبھی مسفریال کے کلوز سرکل میں عام سوچ کی حامل خواتین ذرا کم ہوتی ہیں. شاید جہاں گرد انسان کی کوئی جنس نہیں ہوتی. کائناتی سمندر میں بہنے والے سب لوگ ایک ہی جنس سے تعلق رکھتے ہیں جس کا نام جہاں گردی ہے.
مس سمرین بھی کچھ برسوں سے مسفریال اور میرے ساتھ سفر کر رہی ہیں. مشابروم بیس کیمپ مہم میں بھی ہمارے ہمراہ تِھیں.
ابوبکر کے ساتھ باقاعدہ سفر تو مشابروم مہم میں ہی کیا تھا مگر مستنصر حسین تارڑ صاحب کے حوالے سے میری اِن سے جان پہچان تھی. مشابروم ٹوؤر میں جس اہم شے کی بھی ضرورت ہوتی، آپ لاہور بھول آئے ہوتے، اس لیے آپ "جِینا" مشہور ہوئے.
•••
ہم مری ایکسپریس وے پر لوئرٹوپہ کی جانب مڑنے سے پہلے مظفرآباد روڈ پر داخل ہو گئے. شہزاد بھائی نے کہا کہ اِس سڑک پر کوہالہ تک 126 بڑے بڑے ٹوئے کھڈے آتے ہیں جن کی اوسطاً گہرائی پونا ایک فٹ ہے. 21 سے 25 میٹر کے 206 خراب حصے ہیں. بہتر یہی ہے کہ ہم بھوربن سائیڈ سے چلے جائیں. وہ سڑک اچھی حالت میں ہے. مَیں نے اتفاق کرتے ہوئے جِیپ جھیکاگلی کی جانب موڑ دی جہاں سے براستہ بھوربن کوہالہ کے لیے راستہ نکلتا ہے اور بائیں جانب مکشپوری اینڈ میرانجانی چوٹیاں نظر آتی ہیں.
•••
کوہالہ کے پُل پر دریائے جہلم کو عبور کیا کیونکہ اور کیا کرتے. دوسری جانب ہم آزاد کشمیر میں تھے. ابھی آزادی کے چند سانس ہی بھرے تھے کہ پولیس چوکی آ گئی اور ہم مقبوضہ ہو گئے. کشمیر اور سوات میں میری خوب آؤ بھگت ہوا کرتی ہے. یہی وجہ تھی کہ جب ہمارے شناختی کارڈ کا معائنہ کر کے انہوں نے فیصلہ سنایا کہ تُم لوگ فیملی تو نہیں ہو اسی لیے الگ الگ شہروں سے تعلق رکھتے ہو.. تو سچ سچ بتاؤ کہ نامحرم خواتین کو کہاں لے جا رہے ہو؟ مَیں نے بہت اطمینان سے کہا، رتی گلی جھیل. انہوں نے "جی اچھا" پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آزاد کشمیر میں اسلامی ماحول پر لیکچر دیا. اُن کی پوری کوشش تھی کہ ہم واپس پلٹ جائیں یا پھر پورا ٹرپ اسی چوکی پر گزاریں، جہلم کنارے. جب محسوس ہو گیا کہ شاید واپس جانا پڑے تب ہماری جانب سے کھلی ڈلی گفتگو ہوئی کہ فلائنگ کوچوں میں جو ڈیڑھ ڈیڑھ سو لڑکے لڑکیاں نیلم کے مختلف مقامات پر جاتے ہیں کیا وہ ایک ہی "ابا جی" کی اولاد ہوتے ہیں، والدائیں بے شک چار ہوں!.. تب آپ کا اسلام کیا کہتا ہے؟ حیرت ہوئی کہ ہمیں چھوڑ دیا گیا.
آگے ایک جگہ ٹِیم نے مجموعی طور پر بیت الخلا جانا تھا مگر خلا موجود نہ تھا. ایک گیسٹ ہاؤس کے لان میں بیت الخلا تھا مگر 10 منٹ سے اندر ایک کشمیری نہا گا رہا تھا. جب وہ باہر نہیں نکلا تو ہم نے انکار سمجھتے ہوئے آگے کی راہ لی. تب ایک پٹرول پمپ پر فیول ڈلوا لیا گیا.
•••
اتنی بار مظفرآباد جانے کے باوجود مجھے اِس شہر کے رستے سمجھ نہیں آتے. شہزاد بھائی نے بصد شکریہ بعض غلط ٹرن کرنے سے منع فرمایا.. الحمدللہ ناچیز کی ریپیوٹیشن ہی غلط ٹرن کرنا ہے. مگر میرے نزدیک وہی درست ٹرن ہوتا ہے.. بس یہ ہے کہ میرا رستہ لمبا ہو جاتا ہے.. اور اکثر اُسی رستے پر سرسبز چراگاہیں ہوتی ہیں.
مظفرآباد میں کھانے پینے کا سامان لیا گیا تاکہ ہم رتی گلی یا پھر کسی چوکی پر آرام سے کھا سکیں.
•••
مظفرآباد کے بعد ہم وادئ نیلم میں داخل ہو گئے. ایک دم تو نیلم مناظر شروع نہیں ہو جاتے اس لیے نیلم کا مزید نیلم ہونے کا انتظار کیا گیا. البتہ دریائے نیلم، نیلم رنگ تھا. نیلم روڈ پر چوکیوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا. اس بار صرف ہمارے اندراج ہوتے رہے.. اور یہ عمل قابلِ فہم ہے. سیاح کے گم شد ہونے کی صورت میں یہی چوکیاں سنگِ میل ہوتی ہیں کہ بدقسمت یا خوش قسمت سیاح کو آخری بار کہاں کہاں دیکھا گیا.
•••
دائیں جانب بلند و بالا دھنی آبشار آئی. دو برس قبل یہاں اوپر سے پوری ندی گرتی تھی مگر آج وہ بالکل خشک تھی. بڑی مایوسی ہوئی. دل میں خیال پیدا ہوا کہ اب خشک ہے تو کیا ہوا، اِس خاتون کے ہمراہ اچھا وقت گزارا تھا.. اس سے ملنا چاہیے.
ہم جیپ میں سے اترے. مسفریال نے وضو کرنا تھا. ایک پایپ میں پانی آ رہا تھا.. وہ وہاں چلی گئیں. مَیں آبشار کی جانب چلا گیا. وہاں زمین اور پانی کے گندے تالاب میں تیرتا بے تحاشا گندبلا دیکھ کر محسوس ہوا کہ ٹریول گروپس میں آنے کا یہی فائدہ ہے کہ ہر طرح کا گندبلا چوکیوں میں سے گزر جاتا ہے اور اِن حسین مقامات پر پھیل جاتا ہے.
مَیں آبشار کے بہت بہت قریب ہوا.. اتنا کہ درودیوار کو ہاتھ لگا سکتا تھا. وہ چٹی سفید خُشک تھی. مَیں نے ماضی کو یاد کیا کہ کیسے تُم اِس کے قریب بھی نہ پھٹک سکتے تھے، اتنی جوشیلی تھی.
ابھی مَیں اوپر دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک آبشار کی دیوار گیلی ہونا شروع ہو گئی. میری آنکھوں کے سامنے پانی ظاہر ہو گئے. ایک جھرنا جاری ہو گیا. میرے اوپر پھوار گرنے لگی. درودیوار میں پانی رِسنے لگ گیا. فطرت کی جانب سے اِس اندازِ محبت پر قربان ہوتے ہوئے ایک دو قطرے میری آنکھوں سے بھی اترے اور مجموعی پھوار میں شامل ہو گئے. مَیں ایک آدھ گھنٹہ پہلے یا بعد میں بھی تو یہاں آ سکتا تھا، تب شاید یہ لمحۂ خاص میرے نصیب میں نہ ہوتا جو مَیں نے پا لیا.
کچھ دیر میں مس سمرین اور ابوبکر بھی اِدھر آ گئے اور پھوار پائی. عالمِ بے خودی میں مَیں نے پھوار اور جھرنے کی ایک تصویر لے لی. اور اُس نے بصد خوشی دے دی.. بلکہ مسکرائی بھی.
بعد میں جِیپ ڈرائیو کرتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ کہیں میری موجودگی کے باعث اُس آبشار کی درودیوار میں سے پانی رِسنا نہ شروع ہو گئے ہوں. کیا مَیں اِتنا ہاٹ ہُوں؟
•••
شام ڈھلے ہم کیرن پہنچے. منیجر صاحب سجاد بھائی بہت نفیس انسان ہیں. مزید خوش قسمتی یہ ہوئی کہ وہ شہزاد بھائی کو اچھی طرح جانتے تھے. ویلی ٹریکرز کا ریزورٹ تقریباً خالی تھا اس لیے ہمیں دو کمرے مل گئے. کمرے کی کھڑکیوں میں وسیع لانز، مقبوضہ کشمیر کے پائن جنگل اور نیلمی گاؤں نظر آ رہے تھے اور نشیب میں نیلم رنگ دریائے نیلم بہہ رہا تھا...
•••
شام کی روشنیاں ختم ہونے سے پہلے پہلے ہم نے ویلی ٹریکرز ریزورٹ کے وسیع اور خوبصورت لانز میں شدید چہل قدمی کی.. تصویر کُشی کی. پھر روشنیاں معدوم ہونے لگ گئیں. روشن اندھیرے بڑھنے لگے.
ڈِنر کے بعد مسفریال نے سمرین سے کہا کہ مجھے نیند آ رہی ہے مگر مَیں کمرے میں اکیلے نہیں جانا چاہتی. وہ دونوں چلی گئیں.
شہزاد بھائی، ابوبکر اور مَیں.. ایک بار پھر سے پیک ہو کر لان میں آ گئے اور ماضی کے تجربات پر روشنی ڈالنے لگے. یوں مزید روشنی ہو گئی.
مَیں نے شہزاد بھائی کو برف پوش دلہن سیف الملوک جھیل کے کناروں پر گزاری گئی ایک چاندنی رات کے متعلق خبریں سنائیں جو مَیں نے کبھی تحریر نہیں کیں. شبِ عروسی کا رایٹ اَپ کون لکھتا ہے.
کچھ دیر بعد ہم اپنے اپنے گھروں اور مکانوں میں فون کرنے کے لیے ویلی ٹریکرز کے کال سینٹر چلے گئے جہاں انٹرنیٹ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے. مَیں فون سے فارغ ہوا تو وہاں موجود بہت سے پائیوں میں سے ایک چادر پوش پائی نے مجھ سے پوچھا "کہاں کے ہو؟" مَیں نے کہا "اسلام آباد کا."
•••
فون وغیرہ کے بعد ہم لان میں واپس آ گئے. وہاں خرگوش دوڑتے پھر رہے تھے. مَیں ایک برف سفید خرگوش کے پیچھے دوڑا مگر وہ خرگوش، شدید خرگوش تھا، ہاتھ نہ آیا. ایک جگہ ریزورٹ کا عملہ گھات لگائے بیٹھا تھا. پتا چلا کہ وہ بلی پکڑ رہے ہیں. مَیں نے بلی پکڑنے کی ٹیکنیک سیکھنے کے لیے اُن سے پوچھا کہ بلی کیوں، کاہے کو اور کیسے پکڑ رہے ہو.. ہمیں وی دسو. عمر نکلتی جا رہی ہے. انہوں نے کہا کہ بلی اِدھر ہی ہے اور ہمارے خرگوش اٹھا کر لے جاتی ہے. ہم نے بلی کو تھیلے میں ڈال کر دُور چھوڑ کر آنا ہے. میرے دل سے آہ نکلی.. مَیں نے سوچا کہ انہیں اپنا ایڈریس سمجھا دُوں.
•••
ہم بڑے والے لان میں آ گئے. پہلے تو شہزاد بھائی بھی مختلف ٹریکس کے بارے میں بطاطے رہے مگر پھر اُنہیں نِیند کی پری نے ورغلا دیا. وہ چلے گئے.
•••
اب کی بار ابوبکر پکڑا گیا. مَیں نے اُسے بھی بہت سی اَن کہی اور اَن لکھی باتیں سنائیں. اب مَیں ہر بات نہیں بطاطا.. کہ کتنا ہاٹ ہُوں. مگر ایسا بھی نہیں کہ پرائیویسی کی نیت سے چھپاؤں. اصل میں مَیں پس منظر بننے کا انتظار کیا کرتا ہوں. اگر گہرا پس منظر بن جائے تو مَیں شدید پرائیویٹ بات پر پوری کتاب لکھ ڈالتا ہوں.
ابوبکر نے بھی اپنی بہت سی باتیں سنائیں. یہ واقعی بہت بِیبا انسان ہے.
ایک وقت آیا کہ ابوبکر کی آنکھیں بھی مدہوش ہونے لگ گئیں اور وہ بھی سونے کے لیے چلا گیا.
•••
لان کے کناروں پر دریا کی جانب قطار سے روشن بلب لگے ہوئے تھے. بلبوں کے پس منظر میں جو گُھپ اندھیرا تھا، نیلم کی موجِ رواں وہیں تھیں اور مترنم تھیں. مزید پرے مقبوضہ کشمیر تھا. وہاں پہاڑوں کی بلندی پر بھارتی فوجی میری تاک میں ہو سکتے تھے کہ یہ تنہا شخص کہیں سامنے ہو تو پیناڈول کی دو گولیاں فائر کر دیں. اسی وجہ سے مَیں احتیاط کرتا تھا اور لان کے اندھیروں میں روپوش رہا حالانکہ اتنا خطرہ بھی نہ تھا کیونکہ دریا پار مقبوضہ کا گاؤں کیرن بھی تھا. بھارتی فوجی کبھی نہیں چاہیں گے کہ جوابی فائرنگ اُن کے گاؤں میں ہو. خیر یہ ایک خیال ہی تھا.
اُس شب.. اُس تنہائی میں.. پورا خطہ میرا تھا.. کہ جیسے مَیں مرنے کے بعد ایک برزخ میں موجود ہُوں اور ہرسُو وقت ہی وقت ہے.. اور یہ ہے بھی جنت نظیر کشمیر. غالباً میری قبر میں جنت کی کھڑکی کھل چکی ہے. یہ ایک خیال ایسا ہے جو کیرن کو میرے لیے بہت خاص بنا چکا ہے. دو برس قبل جب مَیں یہیں آیا تھا تو 119 نمبر کی ایک پجارو یہاں کھڑی تھی. یہ نمبر مجھے جب بھی نظر آتا ہے، میرے لیے اشارہ ہوتا ہے کہ یہاں سے تجھے بہت کچھ ملے گا.
اُس شب مَیں نے اپنے فون میں موجود اپنے پسندیدہ گانے سُنے اور اپنے آپ کو خلاؤں میں بھٹکنے کی اجازت دی.. اور پھر حسبِ عادت، خُوب بھٹکا..
لان میں دائیں جانب کے آخری دو بلب میرے لیے بہت خاص ہو چکے ہیں. وہاں کچھ عجب ماحول تھا.. لان ذرا خم کھا کر نیچے کی جانب جاتا ہے. وہاں....... کچھ ایسا تھا جو مجھے سوچوں میں مبتلا کرتا ہے مگر سمجھ نہیں آئی کہ کیا تھا.. کوئی بسیرا تو نہیں!
بہت بعد میں واپسی کے سفر میں مسفریال نے بتایا کہ اسی ریزورٹ میں کچھ پیرانارمل ایکٹیویٹیز کی ذاتی رپورٹ ہے اسی لیے وہ اکیلے کمرے میں نہیں جانا چاہتی تھیں.
•••
اگلے دِن صبح 4.30 بجے بمشکل اُٹھا. بتی گئی ہوئی تھی. ہم نے 5.30 بجے رتی گلی کے لیے نکلنا تھا. سجاد صاحب نے ہماری جیپ بھی ارینج کر دی تھی. پونے پانچ بجے باہر جیپ کی آواز آئی. مَیں جیپ والے کو اپنی خبر دینے کے لیے چلا گیا. باہر آسمانِ شب پر آدھا چاند روشن تھا اور ستارے جھلملا رہے تھے. فضا سرد تھی. دوردراز کے پہاڑی قصبوں میں جب بتی گئی ہو اور آپ شب کے آخری پہر آسمانِ شب کو دیکھ رہے ہوں تو وہ شبِ وصل لگتی ہے.
جِیپ والے بھائی کا نام شبیر تھا.. یقیناً اب بھی ہو گا. مَیں نے اُسے کہا کہ ہم بس آیا چاہتے ہیں.
•••
پانی گرم تھا اور شدت سے نہانے کو دل کیا.. مگر ہم نے سرد ہواؤں میں سفر کرنا تھا اس لیے بیسِک کلیننگ پر اکتفا کیا. البتہ ابوبکر نہا دھو کر باہر نکلا اور ایسی لیدر کی پتلی سی جیکٹ پہن لی جسے دیکھ کر سردی لگتی تھی. مَیں نے کہا کہ بھائی ہم نکل رہے ہیں، اصل جیکٹ پہن لو. اُس نے کہا کہ بڑی جیکٹ تو مَیں لایا ہی نہیں، وہ جگہ گھیر رہی تھی. مَیں نے کہا کہ آہ جِینا کے پاس تو جیکٹ بھی نہیں.. ظاہر ہے کہ پاکٹ میں تو نہیں آ سکتی تھی.. بیگ اسی لیے ہوتے ہیں کہ اُن میں سنجیدہ جیکٹ ڈال لی جائے.
بہرحال ابوبکر دو تین دن کے جو بھی کپڑے لایا تھا اُس نے سارے پہن لیے.
•••
عین 5.30 بجے ہم جیپ میں بیٹھے اور اچھے وقت پر نکل گئے... اب ہم تھے.. جیپ تھی.. اور محوِ انتظار رتی گلی تھی..
•••
ابھی مَیں بلندی کی سوچوں میں تھا کہ فوجی چوکی آ گئی. رجسٹریشن ہوئی. پھر اُس کے بعد تین فوجیوں نے ہماری انوسٹیگیشن کی. انوسٹیگیشن لفظ کا ترجمہ پہلے پہل تو تحقیق کے معنوں میں رہا پھر رفتہ رفتہ بیستی اور مشکوک پن میں بدل گیا. انہوں نے اسلامی لیکچر سے شروع کیا کہ نامحرموں کے ساتھ نہیں جاتے. الغرض مظفرآباد سے پہلے والی چوکی کا کورس ریپیٹ ہوا. مگر یہ والے فوجی کچھ زیادہ ہی فوجی تھے. انہوں نے پتا نہیں کہاں کہاں رابطے کرنا شروع کر دیے. ایک بڑا افسر ٹائپ فوجی بھی آنکھیں ملتا ہوا باہر آ گیا. ہم مردوں کے الگ الگ انٹڑویو ہوئے.. جیپ ڈرائیور شبیر کا بھی انٹرویو ہوا. ایک فوجی نے مجھے غصے سے کہا کہ جب تمہیں رات کو پوچھا تھا کہ کہاں کے ہو تو صرف اسلام آباد کیوں کہا. تم سب تو لاہور، پنڈی اور رحیم یار خان کے بھی ہو. مَیں نے کہا کہ اچھا وہ تُم تھے. ہم ویلی ٹریکرز میں مہمان ہیں. ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیوں کر رہے ہو. ویسے اگر مَیں کہتا کہ مَیں اسلام آباد، لاہور اور رحیم یار خان کا بیک وقت ہوں تو زیادہ مشکوک نہ ہو جاتا؟ وغیرہ وغیرہ. انہوں نے ہمارے دو شناختی کارڈ ضبط کیے اور تب جانے دیا کہ واپسی پر لے لینا.. اگر ہم نے دیے.
جی اچھا.... ہم نے کہا اور نکل گئے.
•••
نیلم روڈ پر ایک چائے کھوکھا ٹائپ دوکان سے ڈیزل ڈلوایا اور دواریاں کے لیے نکل گئے.
ہم چونکہ بے-ناشتہ نکلے تھے اس لیے دواریاں پُل کے پاس ایک کھوکھا ہوٹل میں چائے پی. پُل پر تصاویر بنوائیں اور ٹریک میں داخل ہو گئے. ٹریک تقریباً ایک کلومیٹر تک اچھی سڑک ہے. باقی کے 17 کلومیٹر اچھل کود تھی. مگر ٹریک پھر بھی ایسا تھا کہ جیپ ٹریکس میں موٹروے تھا. میری جیپ یہاں آ سکتی تھی اگر اُس میں لوڈ کم ہوتا.
•••
فُلی پیکڈ ہونے کے باوجود سرد ہوائیں ہڈیوں تک سفر کرتی تھیں. پہاڑوں کی چوٹیاں گولڈن ہو رہی تھیں کیونکہ طلوعِ آفتاب ہو رہا تھا. کچھ دیر بعد جب برف پوش چوٹیاں کندن ہوتی نظر آئیں تو سحر طاری ہو گیا.
•••
جوں جوں بلند ہو رہے تھے، مناظر حیرتناک ہوتے چلے جا رہے تھے. دو دن قبل علاقے میں برف پڑی تھی. گزشتہ روز تک کہیں کہیں پگھل چکی تھی. نتیجتاً بھورے اور سفید پہاڑوں کا خوبصورت امتزاج بن گیا تھا. کچھ پہاڑ اوپر سے سفید تھے اور نیچے سے بھورے.. جیسے صرف چہرے پر میک اَپ کیا ہو، باقی گندمی مہک آور جسم ویسا ہی ہو.
•••
نکتۂ انجماد والی سردی میں بھی تین آبشاریں آئیں جن کے پانی تھمے نہ تھے. اُن میں برف کے ٹکڑے بھی نظر آ رہے تھے.
•••
آخری حصے میں جیپ رکوائی گئی.. فطرت کی جانب سے. ایک تو مناظر اتنے حسین ہو چکے تھے کہ ٹیم عکاسی کرنا چاہ رہی تھی.. دوسرا یہ کہ مجھے ایک فطرتی تقاضے نے آ گھیرا.... اور یہ فطرتی تقاضا سگنیچر ہی ہوتا ہے.. نو پرابلم.
•••
بالآخر ہم کیمپنگ ایریا میں پہنچ گئے جو گِٹے گِٹے برف میں سفید ہو چکی تھی. آس پاس زیادہ تر پہاڑ بھی مکمل سفید پوش تھے جیسے عرش سے فرشتوں کا نزول ہوا ہو اور وہ اپنی اصلی حالت میں نظر آ رہے ہوں، ابھی انسانی قالب میں نہ ڈھلے ہوں. وہاں ایک خیمہ تو تھا مگر نہ بندہ نہ بندے دی ذات. کیمپنگ ختم ہو چکی تھی. اتنی سردی میں کون کیمپنگ کرتا.. وہ تو راتوں رات جَم جاتا. کہہ سکتے ہیں کہ رتی گلی کا علاقہ اُس وقت لاہور تھا.
مَیں نے دو دن قبل رتی گلی کیمپنگ انچارج رئیس بھائی کو فون کیا تھا کہ ہم اِدھر کیمپنگ میں شب بسر کرنا چاہتے ہیں اور گھوڑے بھی چاہئیں. چونکہ اُن کے مطابق دونوں کا سیزن اختتام پذیر ہو چکا تھا مگر انہوں نے ہر تعاون کی یقین دہانی کرائی. اگر ویلی ٹریکرز میں جگہ نہ ہوتی تب مَیں رئیس بھائی کو ضرور زحمت دیتا.
•••
شبیر نے اپنی انگلی آسمان کی جانب اُٹھائی اور کہا "وہ اُدھر جانا ہے."
مَیں نے اتنی صبح صبح تقریباً سومن حالت میں اُس کی اُٹھی ہوئی انگلی کو شدید ناپسند کیا. انگلی تو شہادت والی ہی اُٹھی تھی مگر اتنی برف میں اُس انگلی کی سیدھ میں پہاڑوں کے درمیان موجود ایک شدید بلند درہ کی جانب اُٹھ جانا شہادت ہی تھی.
"اُس درہ سے سیدھے ہاتھ پر رتی گلی ہے.. تُم جاؤ.. ہم اِدھر ای اے.."
مسفریال نے شبیر سے کہا کہ یہاں گھوڑے گدھے تو ہیں نہیں، چلو تُم ہمارے ساتھ چلو. میرا سامان اُٹھا لینا.. الگ سے پیسے بھی دیں گے. شبیر تیار ہو گیا حالانکہ وہ اپنی مرضی سے قائم مقام گھوڑا گدھا ہو رہا تھا. اُس نے کہا، ابھی جِیپ لاک کر کے آتا ہوں.
وادئ کاغان اور نیلم کے مشترکہ بلند پہاڑوں کے درمیان واحد جِیپ یہی تھی.. اور وہ لاک ہو رہی تھی. جیپ کو لاک کرنے کے علاوہ شبیر نے جیپ کی ترپالیں بھی نیچے کِیں تاکہ اندر کی جیپ باہر نہ دیکھ سکے.
ہم سب اپنی اپنی رفتار کے مطابق برف سے لبریز ٹریک پر بلند ہونا شروع ہوئے. صبح کے وقت برف زیادہ ہی جمی ہوئی تھی اس لیے اس پر کرچ کرچ کر چلنے میں مزہ آ رہا تھا. دھوپ نکل چکی تھی مگر ابھی نیچے نہ آئی تھی. ہم سب کی کوشش تھی کہ جلد از جلد دھوپ والے حصے میں پہنچ کر کچھ سکون حاصل کریں. سردی کے باعث کپکپی بھی کپکپا رہی تھی.
•••
برف ٹریک بھی جیپ ٹریک تھا.. یعنی جیپ یہاں بھی آ سکتی تھی مگر یہاں برف زیادہ ہو رہی تھی. کچھ دیر میں پہاڑ کے گرد ایک موڑ کاٹا تو کچھ تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں. ایک تو جیپ ٹریک ختم ہو گیا اور برف سے لبریز 6 انچ چوڑا ٹریک نمودار ہو گیا. اب ٹریک خطرناک ہو چکا تھا. ہلکی سی بے احتیاطی سے پاؤں پھسل سکتا تھا. دوسرا یہ کہ نشیب میں ایک چھوٹی سی گھامڑ سی جھیل نظر آ رہی تھی. اگر کسی دِن میں اپنے گھر کا دروازہ کھولوں اور گردآلود سڑک کی بجائے یہ جھیل موجود ہو تو مَیں شدید پسند کروں گا. چونکہ ہمارے ارادے مِس یونیورس قسم کی رتی گلی جھیل تک پہنچنے کے تھے اس لیے مَیں اِس چھوٹی سی جھیل سے متاثر نہ ہو سکا.. خصوصاً اس لیے بھی کہ تجھے کیا معلوم، شاید میرے گھر سے باہر کچھ بہتر جھیلوں کی جانب راستے نکلتے ہوں.
اور تیسری تبدیلی یہ آئی کہ رتی گلی درہ نظروں میں آ گیا. اُس کے آس پاس سایہ فگن پہاڑ کسی خلا کو گھیرے ہوئے گویا نشریات دے رہے تھے کہ ہمارے دامن میں اِک کائنات موجود ہے.. چل آ جا.
چوتھی تبدیلی یہ تھی کہ ہم براہِ راست دھوپ میں آ گئے اور سردی کی شدت کم ہو گئی. ذوق کی رگیں کُھل کر کام کرنے لگ گئیں. مَیں نے شہزاد بھائی اور ابوبکر سے کہا کہ آپ جھیل تک پہنچیں مَیں اصنافِ نازک کے ہمراہ آتا ہوں.
مس سمرین کی ہارٹ بِیٹ تیز ہو رہی تھی. انہوں نے ڈسپرین کھا کر بہتری محسوس کی. مسفریال شبیر کے ہمراہ رفتہ رفتہ بلند ہو رہی تھیں اور مَیں سوچ رہا تھا کہ کیا شبیر کے بغیر رتی گلی ممکن نہیں؟ پچھلی بار بھی مسفریال ایک اور شبیر کے ہمراہ یہاں آئی تھیں. راکاپوشی ٹریکرز کے شبیر بھائی مسفریال کی مہمات کو ارینج کرتے ہیں.. یوں دوردراز کے مقامات کو کوئی دیکھے نہ دیکھے، شبیر بھائی ضرور دیکھتے ہیں. اور یوں ہم بھی دیکھ لیتے ہیں.
•••
آخری ہائٹ پر حسبِ موقع زِگ زیگ کی سی کیفیت تھی. یہاں کاغان کی جانب کھلتے دروں والے آدھے آدھے برف پوش پہاڑوں کو دیکھ کر جیون رنگین ہو گیا. یہیں سے وہ نیچے والی نکھٹو جھیل ایک زبردست سی جھیل کا منظر پیش کرنے لگی. بعض جھیلیں شروع میں ایویں سی لگتی ہیں مگر کسی اور زاویہ سے دیکھنے پر وہ اپنے پوشیدہ رنگ ظاہر کرتی ہیں اور بے حد دلکش ہو جاتی ہیں. ایسی باحیا ہوتی ہیں.
•••
علی کامی کی ایشوریا رائے آنکھوں کے لیے یہ ٹریک 40 منٹ کا ہے مگر کم از کم مجھے یہاں دو گھنٹے لگے. ایک تو برف بہت تھی، مزید یہ کہ مَیں سمرین کو بھی لے کر آ رہا تھا. البتہ شہزاد بھائی اور ابوبکر نے غالباً ڈیڑھ گھنٹے میں ٹریک کر لیا تھا.
•••
تو جب مَیں سفید رُو دلہن کے عروسی جوڑے جیسی برف پر رینگتا ہوا اُس جگہ پہنچا جہاں دلہن کا خمارانگیز اور جوانی سے بھرپور چہرہ نظر آ جاتا ہے، اُس چہرے پر لہروں کے جذبات ابھرتے نظر آنے لگتے ہیں تو مَیں نے اپنے موبائل میں وقت دیکھا تاکہ پتا چلے کہ تیرا چہرہ تک پہنچنے میں کتنی دیر لگی ہے.... میرے فون پر وقت تھا 11 بج کر 19 منٹ. 119 نمبر ہرسو ماحول پر طاری ہو گیا. مجھے پیغام دیا گیا کہ یہ برف سفید جوڑے میں ملبوس دُلہن، تیری ہوئی.
•••
اُسی وقت سمرین بھی پہنچ گئیں اور 119 کی گواہ بن گئیں.
•••
سامنے.. وہ اپنے گہرے نیلے رنگوں میں برف کی چادر پر اک ادا سے لیٹی ہوئی دلربا تھی.. اور اُس کے گرد تین چار چوٹیوں والے برف سفید پہاڑ تھے جن کے بدنوں پر کہیں کہیں گہری نیلی گھاٹیاں یوں نظر آتی تھیں جیسے یہ تارڑ صاحب کے بوسوں کے نشانات ہوں. یہ تشبیہہ تارڑ صاحب نے شاہ گوری کے لیے استعمال کی تھی.
اگر مَیں اُن گہری نیلی گھاٹیوں کے لیے کوئی مشابہت ڈھونڈتا ہوں تو مایا علی یاد آتی ہے کہ جس کا پیراہن جگہ جگہ سے پاٹا ہوا تھا اور جہاں جہاں سے پاٹا ہوا تھا، وہاں وہاں اصل اور شدید مایا علی نظر آ رہی تھی.
بس جی ہم دونوں.. مرشد و مرید.. ذرا باذوق ہیں.. الحمدللہ.
•••
یہ منظر فیس بک پر گردش کرتی تصاویر سے بڑھ کر وسیع تھا اور مجھے اس کی ہرگز توقع نہ تھی. سیف الملوک کی مانند یہاں بھی گویا پورا منظر کسی خاص ہاتھ سے درست کیا گیا تھا.. اور اُس ہاتھ کے دستخط یہی رتی گلی، سیف الملوک اور کالام سے نظر آتی اوشو کے بھید بھرے جنگل کے پس منظر میں نظر آتی فلک سیر ہیں.
•••
سمرین جانے کہاں تھیں. ابوبکر اور شہزاد بھائی بھی غائب تھے. مسفریال و شبیر ابھی پہنچے نہیں تھے....... اور مَیں اپنی رتی گلی کے ہمراہ اکیلا تھا.
فطرت کی خاموشی میں.. بلندی کی مہک میں.. برف پیراہن سفید دلہن کے بدن پر مَیں اکیلا تھا. بس مجھے یہی کہنا ہے.
~ اک رتی دِل مروڑی دا
~ اک رانجھا مینُوں لوڑی دا
ایک بار بیال کیمپ کے قریب برچ کے جنگل میں مَیں نانگاپربت کے حضور بھی اکیلا ہوا تھا. اُن لمحات کو مَیں نے کبھی قلمبند نہیں کیا. ایسے لمحات مَیں نے دمِ آخر کے لیے سنبھال رکھے ہیں.
•••
جب ٹیم مکمل ہو گئی تو ہماری پوری مہم کامیابی سے ہمکنار ہو گئی. لفظ ہمکنار کا مطلب "جپھی ڈالنا" ہوتا ہے. یہی سمجھ لیجیے.. اتنی خوشی ہوئی اور خواتین کے لیے تالیاں بجائی گئیں.
•••
لنچ کرنے کے لیے جو بند تھے وہ چاقو سے کھولے گئے. درمیان میں ہیپی کاؤ والا پنیر اور جام ڈالا گیا اور جوس کے ہمراہ تناول کیا گیا. یہ جام وہ والا جام نہیں تھا جو یہاں پینا واجب تھا..
بادل بڑھ رہے تھے. اب ہمیں واپسی کی فکر ہو رہی تھی.
مکمل سفید ماحول میں دُور ایک سبز پتلون نظر آئی جو کبھی دائیں بائیں حرکت کرتی تو کبھی لیٹ جاتی. بالآخر تیز رفتاری سے پہاڑ کے بدن پر چڑھنا شروع ہو گئی اور بلندی پر جا کر تشریف فرما ہو گئی.
پہلے محسوس ہوا کہ یہ کوئی چھلاوہ یا جن وغیرہ ہے. یہ علاقہ پیرانارمل ایکٹیویٹی کے باعث مشہور ہے. مسفریال کے گزشتہ ٹرِپ میں اُن کی چیزیں یہیں غائب ہو کر نمودار ہوتی رہیں.
رانا عثمان نے ایک شب یہیں ایک خوبصورت لڑکی کو چہل قدمی کرتے دیکھا اور جب وہ خاتون ذرا غائب ہو گئیں تب رانا صاحب اپنے حواس گُم کر بیٹھے. رانا صاحب بھی ذرا باذوق ہیں.. الحمدللہ.
•••
اب ہمارا ٹریک خطرناک ہو چکا تھا کیونکہ ٹریک پر برف دھوپ کے باعث کافی پگھل چکی تھی. شبیر ہمیں دوسرے رستے سے لے گیا جو ہنس راج اور کاغانی دروں کی جانب جاتا ہے. وہاں برف کم تھی.
اُس راستے پر جھیل کی الگ صورت تھی.. ویسے محبوب کا ہر انگ ہی خوبصورت ہوتا ہے. وہیں برف ڈھلوانوں پر سرخ پھول ایسے لہلہا رہے تھے جیسے برف سفید عروسی جوڑے والی دلہن نے سرخ پھولوں کا گلدستہ پکڑ رکھا ہو.
•••
وہیں ایک جگہ نالہ کراس کرنے سے پہلے سبز پتلون دوبارہ نظر آ گئی. کچھ دیر شبیر اور شہزاد بھائی سے محوِ گفتگو رہی اور پھر نیچے گھاٹیوں میں گُم ہو گئی. مَیں جب وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ اُس سبز پتلون میں رئیس بھائی تھے. کاش اُن سے بات کرنے کا موقع مل جاتا.
رئیس بھائی سے ہی پتا چلا کہ حکومتِ آزاد کشمیر نے رتی گلی جھیل کا نام "برکاتیہ جھیل" کر دیا ہے...... اے حکومت! خدا دا خوف کرو. رتی گلی نام ہی ٹھیک ہے. لگتا ہے کہ ہمارے پیش رو انسان زیادہ باذوق تھے جنہوں نے جھیلوں اور پربتوں کو اتنے خوبصورت نام دیے. یہ نئی نسل کے افسران شدید بدذوق ثابت ہو رہے ہیں. لہذا مَیں کسی برکاتیہ کو نہیں جانتا، نہیں مانتا.
اس راستے میں نیچے والی جھیل اپنی خوشنمائی میں حد سے بڑھ رہی تھی. شہزاد بھائی نے فوراً اعلان کیا کہ.. "آج کے بعد.. اِس جھیل کو 'شاہ زاد جھیل' لکھا اور بولا جاوے.." شاہ زاد جھیل آپ کی ہوئی سر..... کیا گھر سے اجازت مل جاوے گی؟
اس راستے میں رتی گلی سے آتے پانی ایک آبشار کی صورت نظر آئے. اور ہنس راج جھیل کو جاتا راستہ.. واہ وا..
•••
باقی کی کہانی بہت مختصر سی ہے. ہم رفتہ رفتہ جیپ کے پاس پہنچ گئے. اور جو ہم نے دو بجے ویلی ٹریکرز ریزورٹ میں ہونا تھا، پونے چھ بجے پہنچے.. یعنی چند سو منٹ دیر سے پہنچے. ہم فوجی چوکی سے اپنے شناختی کارڈز لینا نہ بھولے. اُس وقت فوجی نے مسکرا کر کہا تھا "رتی گلی کر آئے.. مبارک ہو.. یہ لیں اپنے کارڈ."
ہمیں حیرت ہوئی کہ صبح اسی فوجی کو کیوں آخر آئی ہوئی تھی.
•••
سجاد بھائی نے مجھ سے روئیداد پوچھی. مَیں نے روئیداد کے علاوہ ضمناً ذکر کر دیا کہ فوجیوں نے کافی پریشان کیا اور ہمیں مشکوک بنا دیا.
سجاد بھائی نے دل پر اتنا صدمہ لیا کہ فوراً ویلی ٹریکرز ریزورٹ کے ڈائریکٹرز کو فون کر کے بتا دیا. کچھ دیر میں فوجی چوکی کے نمائندگان آئے اور طیب اردگان کی مانند اعلیٰ کردار کے ذریعے ہم سے معذرت کر گئے.
•••
تب ہمارا واپسی کا سفر شروع ہوا. اللہ کا شکر ہے کہ واپسی پر کوئی چیکنگ نہیں ہوئی. ہم نے پٹِکہ میں کھانا کھایا اور تیز رفتاری سے مظفرآباد، کوہالہ، بھوربن، جھیکاگلی اور مری ایکسپریس وے کو عبور کر کے فیض آباد پہنچے.
شب میں.. خالی خالی سڑکوں پر.. بہت مزہ آیا..
~ بھیگی بھیگی سڑکوں پے مَیں
~ تیرا انتظار کروں
~ دھیرے دھیرے دل کی زمیں کو
~ تیرے ہی نام کروں
~ صنم رے......
•••
جتنی دیر ہمیں ہوئی تھی، لہوری احباب نے شب اسلام آباد میں بسر کرنی تھی مگر خوش قسمتی سے فیصل موورز کی ایک بس رات تین بجے گویا ہمارا ہی انتظار کر رہی تھی..
•••
مَیں صرف آپ کو اور اپنے آپ کو فطرتی محبوبوں کے حضور پیش کرنے کی نیت کرتا ہوں.. باقی کا کام یہ محبوب کرتے ہیں.. یہ ایک بریلوی نظریہ ہے مگر حقیقت یہی ہے..
•••
کسی نے کہا کہ احسن آپ کے تفصیلی رایٹ اَپ نظر نہیں آ رہے.. پلیز تفصیل سے لکھیں.
کیپٹن وحیدہ نے تو باقاعدہ "لکھواؤ مہم" چلا دی کہ مسافرِشَب کا ڈکا کھلواؤ.
کچھ نے لعن طعن بھی کی کہ فری میں کب تک لکھو گے.. اسی لیے رُک گئے.
بات اصل میں صرف اتنی سی ہے کہ قلم بذاتِ خود باشعور ہوتا ہے.. جب اُس کی مرضی ہوتی ہے، لکھوا لیتا ہے.. جب نہیں مرضی ہوتی تو بندہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ اُسے دائیں ہاتھ میں پکڑتے ہیں کہ بائیں ہاتھ میں. اس لیے مَیں مجبور ہوں.. مگر یہ وعدہ ضرور کرتا ہوں کہ قلم کے راستے میں روڑے نہیں اٹکاؤں گا.
ہو سکتا ہے کہ یہ بڑا طوفان آنے سے قبل والا پرامن زمانہ ہو.......
•••
مسفریال... مس سمرین... شہزاد بھائی... ابوبکر... اور درویشنی...
اور قارئین کرام...
آپ سب کا شکریہ..
•••
 
آخری تدوین:
Top