سفر منطقہ غربیہ کے از محمد خلیل الر حمٰن

زیک

مسافر
درست کہتی ہیں بٹیا!

صحارا ریگستان کا رقبہ نو اعشاریہ چار ملین مربع کلو جبکہ رُبع الخالی کا رقبہ چھ سو پچاس ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ ہم اپنے لکھے سے رجوع کرتے ہیں
سب سے بڑا صحرا کونسا ہے یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ صحرا سے کیا مراد لیتے ہیں۔ اگر صحرا کی عام تعریف پر جائیں تو صحارٰی سب سے بڑا ہے۔ اگر ریتلے ٹیلوں والے صحرا کی بات ہو تو ربع الخالی اس سے بھرا پڑا ہے لہذا وہ سب سے بڑا ہوا۔صحارٰی کے کچھ حصے ریتے ٹیلوں پر مشتمل ہیں۔
 
سب سے بڑا صحرا کونسا ہے یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ صحرا سے کیا مراد لیتے ہیں۔ اگر صحرا کی عام تعریف پر جائیں تو صحارٰی سب سے بڑا ہے۔ اگر ریتلے ٹیلوں والے صحرا کی بات ہو تو ربع الخالی اس سے بھرا پڑا ہے لہذا وہ سب سے بڑا ہوا۔صحارٰی کے کچھ حصے ریتے ٹیلوں پر مشتمل ہیں۔
واو!
 

سارہ خان

محفلین
درست کہتی ہیں بٹیا!

صحارا ریگستان کا رقبہ نو اعشاریہ چار ملین مربع کلو جبکہ رُبع الخالی کا رقبہ چھ سو پچاس ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ ہم اپنے لکھے سے رجوع کرتے ہیں
رقبے کے لحاظ سے صحارٰی سب سے بڑا ریت کا صحرا ہے ۔۔۔ اور ریت کی ٹیلوں کے لحاظ سے ربع الخالی ۔۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سب سے بڑا صحرا کونسا ہے یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ صحرا سے کیا مراد لیتے ہیں۔ اگر صحرا کی عام تعریف پر جائیں تو صحارٰی سب سے بڑا ہے۔ اگر ریتلے ٹیلوں والے صحرا کی بات ہو تو ربع الخالی اس سے بھرا پڑا ہے لہذا وہ سب سے بڑا ہوا۔صحارٰی کے کچھ حصے ریتے ٹیلوں پر مشتمل ہیں۔
صحرا کی تعریف میں ایک پانی کی عدم فراہمی کا عنصر بھی بنیاد سمجھا جاتا ہے ۔ اس لحاظ سے کچھ کے نزدیک آرکٹک اور انٹارکٹک بھی صحرا سمجھے گئے ہیں ۔ اگر چہ وہ صاف پانی کا عظیم ذخیرہ ہیں مگر محض منجمدبرف کی شکل میں ۔
 

سارہ خان

محفلین
صحرا کی تعریف میں ایک پانی کی عدم فراہمی کا عنصر بھی بنیاد سمجھا جاتا ہے ۔ اس لحاظ سے کچھ کے نزدیک آرکٹک اور انٹارکٹک بھی صحرا سمجھے گئے ہیں ۔ اگر چہ وہ صاف پانی کا عظیم ذخیرہ ہیں مگر محض منجمدبرف کی شکل میں ۔
پہلے دوسرے نمبر پر یہی دو ہیں صحرا۔۔ صحارٰی تیسرے نمبر پرہے ۔۔ لیکن ریت کے صحراؤں میں پہلے نمبر پرہے۔۔۔
 

ناصر رانا

محفلین
بہت خوب جناب، بہت سی یادیں تازہ کر دیں۔ اگرچہ وہ یادیں صحارا ریگستان اور دبئی سے منسلکہ ہیں۔ لیکن کامن چیز متحدہ عرب امارات اور صحرا ہے۔
 
سفر منطقہ غربیہ کے- قسط نمبر 2

(۲)

ہم دہری اذیّت کے گرفتار مسافر
پاؤں بھی ہیں شل، شوقِ سفر بھی نہیں جاتا​
کہتے ہیں جن لوگوں کے تلوے پر تِل ہوتا ہے ، وہ بہت زیادہ سفر کرتے ہیں۔ ادھر یہ بات بھی درست ہے کہ جس کو یہ لت لگ جائے، اس کے لیے نچلا بیٹھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ پندرہ سال پہلے جب ابوظبی سے واپس گئے تھے، یہ سوچا تھا کہ بہت ہوگئی، اب نہیں ٓئیں گے۔ قسمت کی کرنی دوبارہ اس سرزمین پر موجود تھے ۔ نہ صرف موجود تھے بلکہ ایسے علاقے دیکھ رہے تھے، جو ہم نے اس سے پہلے نہیں دیکھے تھے۔ جبل ظنہ سے گاڑی چلی تو بڑی شاہراہ پر آکر مغرب کی جانب مڑگئی۔ سمندر کے ساحل کے ساتھ چلتے ہوئے ہم نے الحمرا چھاونی کے راستے کو چھوڑا تو آگے دیکھا کہ سڑک دفعتاً چھوٹی ہوگئی۔ دونوں طرف سڑک چوڑی کرنے کے یے زور و شور کے ساتھ کام جاری تھا۔ اس بستی کا نام براکہ ہے اوراس جگہ ابوظبی کا پہلا ایٹمی بجلی گھر تعمیر ہورہا ہے ۔ پہلا گنبد بن چکا ہے اور دوسرا بن رہا ہے۔

یہ سڑک جو خلیج عرب کے کنارے راس الخیمہ سے چلتی ہے سعودی عرب تک جاتی ہے۔ دبئی سے لیکر ابوظبی تک تو چار لین کی بہت چوڑی سڑک ہے لیکن ابوظبی سے سلع تک صفر دولین کی رہ جاتی ہے اور چونکہ یہ متحدہ عرب امارات کو سعودی عرب سے ملانے والی واحد سڑک ہے، اس پر ٹریفک کا دباو کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ بھاری گاڑیوں کے لیے ایک ہی لین ہوتی ہے اور انہیں لین تبدیل کرنے کی اجازت نہیں۔ کاروں وغیرہ کے لیے بھی ایک ہی لین رہ جاتی ہے۔ اکثر اوقات اس سڑک پر حادثات رونما ہوتے ہیں۔ شکر ہے کہ ابوظبی کی انتظامیہ نے اب اس صورتحال کا ادراک کرلیا ہے اور ابوظبی شہر سے لے کر سلع سرحد تک سڑک کو چوڑا کرنے کا کام شروع ہوگیا ہے جو اگلے چند ماہ میں مکمل ہوجائے گا۔

ایک گھنٹے کی مسافت طے کرکے ہم سلع پہنچ گئے۔ السلع ایک سرحدی قصبہ ہے جس کی آبادی تقریباً دس ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ شہر میں اب تک ایک پرانا ہسپتال تھا جبکہ کوئی پٹرول پمپ بھی نہیں تھا۔ ابھی حال ہی میں حکومت نے شہر کی آبادی کی بہبود کی خاطر ایک نیا ہسپتال بنانے کا فیصلہ کیا۔ ساتھ ہی قصبے میں ایک پٹرول پمپ اور ایک ہی عمارت میں ٹیلیفون، بجلی و لوگوں کی دیگر روز مرہ کی سہولیات کے دفتر قائم کردئیے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بقالے اور ریستوران تو کئی ہیں۔ ایک نسبتاً بڑا کوآپریٹیو اسٹور جمعیہ بھی قائم کیا گیا ہے۔

ہسپتال کی عمارت تیار ہے۔ تمام مشینیں بھی لگ چکی ہیں جن کی ٹسٹنگ کاکام جاری ہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ ہسپتال کام شروع کردے گا۔ سنا ہے کہ پرانے ہسپتال میں بھی مریضوں کی تعداد تقریباً دس مریض روزآنہ سے آگے نہیں بڑھتی۔نیا ہسپتال ۳۶ بستروں کا تمام جدید سہولیات سے آراستہ ہسپتال ہے۔ ہسپتال کی سہولیات اور مشینیں اور دیگر نظام دیکھ کر رشک آتا ہے کہ ہمارے ملک میں ہسپتال تو بیماری پھیلانے والے ادارے ہیں محض، اور کچھ نہیں۔ یہاں تمام جدید تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔ہسپتال بنانے اور چلانے کے لیے حکومتی ادارے یعنی ہاد ( ہیلتھ اتھارٹی ابوظبی) سے اجازت لازمی ہوتی ہے جو اس بات کا خیال رکھتی ہے کہ ہسپتال سے متعلق تمام بین الاقوامی قوانین کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے۔ متعدی امراض کے حامل مریضوں کے کمروں میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ان کے جراثیم ادِھر اُدھر پھیلنے نہ پائیں۔

گندے اور صاف کپڑوں اور اوزار کی ترسیل کے لیے علیحدہ علیحد راستے مقرر ہیں۔ گیس کی فراہمی کا نظام ہر ضروری جگہ موجود ہے۔ اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ مریضوں کو بیہوش کرنے والی گیس کہیں اور پھیلنے نہ پائے۔ ہر قسم کے آڈئیو وزول الارم موجود ہیں۔ ہر کمرے میں نرسوں کو بلانے کے لیے مکمل نظام موجود ہے۔ ہمارے ہاں سوائے چند ایک ہسپتالوں کے ،(جن میں کراچی میں شاید صرف آغا خان ہسپتال ہی شامل ہو) اس قسم کی سہولیات کا تصور بھی محال ہے۔ خیال رہے کہ یہ کوئی ٹرشری کیر سہولت نہیں ہے۔ دو سے تین دن تک مریضوں کو اس ہسپتال میں رکھا جائے گا اور پھر قریب ترین بڑےہسپتال مدینہ زاید میں یا پھر مفرق اور ابو ظبی کے ہسپتالوں میں منتقل کردیا ئے گا۔

ہمارے ساتھی نے پہلے تو ہمیں پورے ہسپتال کی سیر کروائی اور تمام شعبہ جات اور ان میں موجود مشینوں سے آگاہ کیا۔ ابھی لفٹیوں نے کام شروع نہیں کیا تھا، لہٰذا پہلی اور دوسری منزل تک زینوں کے ذریعے ہی پہنچا جاسکتا تھا۔ خاصی تھکن ہوگئی۔

باقی دن اپنے ساتھی سے کام اور تمام پس منظر سمجھنے میں گزارا۔ سنیچر کا دن تھا اور چھٹی تھی لہٰذا تین بجے گاڑی ہمیں سلع سے جبل ظنہ کی جانب لے چلی۔ پُر رونق جگہ پر دن گزارنے کے ہمارے تمام خواب چکنا چور ہوچکے تھے۔ جبل ظنہ میں اپنے کیمپ کے گیٹ سے اندر داخل ہوئے تو ایک ساتھی نے ریستوران کی جانب اشارہ کرکے ہمیں اس کے بارے میں بتلا دیا کہ عشائیے کے لیے ہمیں زیادہ تردد کی ضرورت نہیں، بس کمرے سے یہاں تک پیدل چل کر آنا ہوگا۔


رات ریستوران میں پہنچے تو بوفے کا انتظام دیکھ کر کچھ سکون ملا۔ جی بھر کر کھایا۔ ادھر ادھر دیکھا۔ کچھ ہندوستانی اور فلیپینوں حضرات بھی کھانے میں مشغول تھے۔ اسی اثنا میں کیا دیکھتے ہیں کہ اس ویرانے میں بہار آگئی۔ ڈالی ڈالی پھول کھِل اٹھے۔ کچھ شوخ و چنچل فلیپینائیں ( فلپینی زبان میں حسینہ کو فلیپینا کہتے ہیں) ہنستی کھیلتی، چہلیں کرتی ہال میں داخل ہوئیں۔ حیرت اس بات پر بھی ہوئی کہ ہال میں موجود کوئی بھی شخص ان کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔ ہم نے بھی ان کی طرف سے نظریں ہٹا لیں اور ان کی آواز سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنا کھانا مکمل کیا۔

متحدہ عرب امارات میں مقامی لوگوں سے کہیں زیادہ غیر ملکی لوگ پائے جاتے ہیں۔ ان میں سرِ فہرست ہندوستانی وپاکستانی، عرب اور فلپینی شامل ہیں۔ اگرچہ عرب اور ہندوستانی عورتیں بھی کافی تعداد میں نظر آتی ہیں لیکن در حقیقت فلپینی خواتین ہی ہیں جنھوں نے عرب امارات کے بازاروں میں سیلز گرلز اور ہسپتالوں میں نرسوں کی خدمات سنبھالی ہوئی ہیں۔ جہاں ایک طرف حفاظتی اقدامات اس قدر سخت ہیں کہ کسی خاتون کو باہر نکلتے ہوئے کسی قسم کا ڈر یا خوف نہیں ، وہیں یہ خواتین بھی نڈر ہوکر متحدہ امارات کے طول و عرض میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں حتیٰ کہ اس مردم بیزار مقام پر بھی یہ خواتین موجود تھیں۔

دراصل ہمارا یہ کیمپ جبل ظنہ سے کچھ پندرہ کلو میٹر دور ایک ایسے علاقے مین واقع تھا جہاں پر ایک جانب دلما جزیرے کے لیے فیری ٹرمنل تھا جو ہمارے کیمپ سے صرف چند قدم کے فاصلے پر تھا تو دوسری جانب پانی سے نمکیات نکال کر اسے پینے کا پانی بنانے کے پلانٹ کے پیچھے کی سمت صیر بنی یاس جزیرے کے لیے فیری اسٹیشن موجود تھا۔ جبل ظنہ کے خوبصورت ( دروغ بر گردنِ شخصے جس نے ہم پر یہ راز افشاٗ کیا) ساحل کے ساتھ ایک مہنگا ہوٹل ریسورٹ الظفرہ ہوٹل کے نام سے موجود ہے۔ اسی طرح صیر بنی یاس جزیرہ مکمل ایک پارک اور جنگلی حیات کے فروغ اور سیر گاہ کے طور پر ہے جہاں آپ ہوٹل بک کئے بغیر نہیں جاسکتے۔ ادھر دلما جزیرہ ایک عام آبادی والا جزیرہ ہے۔ ان جزیروں کے لیے فیری چلتی ہے جس پر آپ اپنی گاڑی بھی لیجا سکتے ہیں۔

اگلے دن اتوار تھا۔ دبئی اور ابوظبی جانے والے حضرات واپس آرہے تھے۔ ہمیں کہا گیا کہ آج گاڑی نسبتاً دیر سے آئے گی۔ صبح نو بجے نہا دھوکر تیار ہوئے اور باہر نکل کر گاڑی کے انتظار میں کھڑے ہوگئے۔ ایک دوسری گاڑی ہمارے قریب آکر رکی اور اس میں سے پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک غیر مقامی عرب حضرت اترے ، ہماری جانب دیکھا تو کھنچے چلے آئے۔

ہم نےفوراً سلام داغ دیا’’ السلام علیکم‘‘

بہت اہتمام کے ساتھ سلام کا جواب دینے کے بعد یوں گویا ہوئے

’’محمد خلیل الرحمٰن؟ کیا آپ محمد خلیل الرحمٰن ہیں؟‘‘

ہم نے بصد ادب جواب دیا ، ’’ جی ہاں‘‘
انہوں نے ہمیں گاڑی میں بیٹھنے کو کہا اور اپنے کمرے کی جانب چلدئیے۔ یہ ہمارے پراجیکٹ مینیجر یعنی ہمارے باس تھے۔ان کے ساتھ ہم السلع اپنے دفتر پہنچے اور کام شروع کیا۔

سارا ہفتہ اسی مصروفیت میں گزر گیا۔ صبح سویرے سات بجے کیمپ سے نکلتے اور ایک گھنٹہ پانچ منٹ کی مسافت طے کرکے السلع پہنچتے ۔ شام سات بجے تک کام کام اور بس کام کے مقولے پر عمل کرتے۔ تھے ہارے سات بجے وہاں سے روانہ ہوتے اور کیمپ پہنچتے تو رات کے آٹھ بج رہے ہوتے۔ کھانا کھاتے ، موبائل اور لیپ ٹاپ سے کچھ دیر شغل فرماتے اور انٹا غفیل ہوکر سوتے تو صبح کی خبر لاتے۔

ایک دن ہمارے ایک ساتھی نے ہم سے پوچھا کہ کیا ہمیں روزآنہ کی خریداری کے لیے ان کے ساتھ السلع کی مقامی مارکیٹ چلنا ہے؟ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ ہم نے فوراً حامی بھر لی۔ مقصد کچھ تو روزآنہ کے ناشتے کا انتظام تھا اور کچھ السلع شہر کی سیر۔ گاڑی ہمیں لیے ہوئے شہر کے ایک نسبتاً بڑے اسٹور پہنچی اور ہم نے وہاں سے خریداری کی۔ شہر کی سڑکوں پر کبھی کبھی اکا دکا کوئی گاڑی نظر آجاتی یا کہیں کوئی شخص دکھائی دے جاتا ورنہ پورا شہر گھوسٹ ٹاؤن یا بھوتوں کا بسیرا نظر آتا تھا۔ ہم نے حوائج ضروریہ کے لیے خریداری کی اور یہ تہیہ کرلیا کہ اب مزید ریستوران کی سہولت سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اپنے پورٹا کیبن میں موجود کچن کا استعمال کریں گے۔

خدا خدا کرکے جمعرات کا دن آپہنچا۔ ہمارے ساتھی کے بیان کے مطابق آج چھٹی وقتِ مقررہ سے پہلے متوقع تھی۔ دو سے تین بجے کے درمیان ایک گاڑی ابوظبی اور دوسری دوبئی جانے کے لیے تیارتھی۔ ہم نے اپنا پہلا ویک اینڈ ’’جبل ظنہ‘‘ میں ہی گزارنے کا فیصلہ کرلیا تھا تاکہ اردگرد کے علاقے کو اچھی طرح سے دیکھ سکیں۔ تقریباً ایک گھنٹے دس منٹ کا یہ سفر دلچسپ بھی تھا، ساتھ ہی تکلیف دہ بھی۔ سلع سے کوئی اسی کلو میٹر تک سڑک ابھی زیر تعمیر ہونے کے باعث تیز رفتار گاڑیوں کی حد رفتارکو کم کرکے ایک سو بیس رکھا گیا تھا نیز جہاں ایک لین پر ٹرکوں کا قبضہ ہوتا تھا، کاروں وغیرہ کے لیے صرف ایک ہی لین بچتی ۔بچتے بچاتے اسی کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتے تو براکہ نامی قصبہ آجاتا اور وہاں سے چوڑی سڑک پر گاڑی ایک سو چالیس کی رفتار سے دوڑنے لگتی۔ براکہ کے مقام پر انتہائی خاموشی کے ساتھ ابوظبی کا پہلا ایٹمی بجلی گھر تعمیر کیا جارہا ہے۔ ایک گنبد تعمیر ہوچکا ہے اور دوسرے کی تعمیر تیزی کے ساتھ جاری ہے۔

ساتھیوں نے ہمیں جبل ظنہ کے کیمپ میں چھوڑا اور اتوار کے دن آنے کا وعدہ کرکے ابوظبی روانہ ہوگئے۔ ہم نے وہ شام اپنے کمرے میں آرام کرتے گزاری۔ ایک ہفتے کی مسلسل مشقت کے بعد یوں بلا مقصد لیٹنا بھی اچھا معلوم ہوتا تھا۔ جمعہ کی صبح آرام سے اٹھے۔ ناشتے کا وقت نہ تھا۔ نہا دھوکر نماز کی تیاری کی ، جمعے کی نماز کا اہتمام قریب ہی ایک دوسرے کیمپ میں تھا۔ یہاں زروال کا وقت ختم ہوتے ہی ظہر کا وقت ہوجا تا ہے۔ جمعے کے لیے بارہ بجے ہی مسجد میں پہنچ گئے۔ متحدہ امارات کے طول وعرض میں مساجد میں جمعے کا خطبہ حکومت کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے جسے خطیب حضرات من و عن پڑھ دیتے ہیں۔ کسی قسم کے رد و بدل کی اجازت نہیں۔ نماز سے فارغ ہوئے تو کمرے میں پہنچے اور فوراً ہی باہر جانے کے لیے تیار ہوگئے۔ گیٹ پر پہنچے اور کیٹ کیپر سے بسوں کی آمد رفت کے اوقات کی معلومات بہم پہنچائیں۔ سامنے ہی بس اسٹاپ تھا وہاں جاکر کھڑے ہوگئے۔ یہاں ہر گھنٹے میں ایک بس آتی ہے جو قریب ترین شہر روئیس پہنچاتی ہے۔ بس آئی تو چڑھتے ہی ڈرائیور موصوف سے ٹکٹ حاصل کیا اور پیچھے کی جانب اونچی نشست پر جاکر بیٹھ گئے۔ بس نے تقریباً آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد ہمیں روئیس کے مرکزی بس اسٹاپ پر اتارا۔ بس میں ایک فلپینی محترمہ بھی بیٹھی تھیں۔ بس سے اترتے ہی باقی جو چند مسافر تھے، ادھر ادھر تتر بتر ہوگئے البتہ ہم نے محترمہ کو تاڑ لیا اور ان کے پیچھے ہی راونہ ہوئے۔ چند قدم ہی گئے ہوں گے کہ ہم نے انہیں مخاطب کیا۔

’’سنئے! مال کا راستہ کس جانب ہے؟‘‘

وہ پلٹیں تو ہم سنھبل گئے اور ’’جل تو جلال تو ، آئی بلا کو ٹال تو‘‘ کا ورد کرنے لگے۔ ہمیں یقین تھا کہ اب کچھ سخت سست سننے کو ملے گا۔

اس خوبرو حسینہ نے پلٹ کر ہماری جانب دیکھا اور کہنے لگیں’’ اوہو! تمہیں مال جا نا ہے تو تم فوراً واپس بس کی جانب لوٹ جاؤ۔ بس ابھی اسٹاپ پر ہی ہوگی۔ وہی تمہیں اسی ٹکٹ میں مال لے جائے گی۔‘‘

ہم فوراً پلٹ گئے اور تقریباً دوڑتے ہوئےبس کی جانب آئے۔ بس ابھی ٹرمنل پر موجود تھی۔ہانپتے ہوئے بس پر چڑھے۔ بس میں داخل ہوتے ہوئے ہم نے ٹکٹ دکھایا اور کہا کہ ہمیں لولو اسٹور جانا ہے۔بس ڈرائیور نے انتہائی بے اعتنائی کے ساتھ ہمیں دیکھا اور سر ہلا دیا۔

چند اسٹاپ بعد لولو کا بورڈ نظر آیا تو ہم اسٹاپ پر اتر گئے اور سامنے دیکھا تو ایک چھوٹی سی مارکیٹ نظر آئی۔ صفر چند دکانیں تھیں جن میں سے ایک نسبتاً بڑی دکان لؤ لؤ اسٹور تھا۔ لؤلؤ اسٹور ابوظبی کی مشہور ترین چین ہے جو ہر چھوٹے بڑے قصبے اور شہر میں ، ہر بڑے مال میں موجود ہے۔ ہم نے اطمینان کے ساتھ خریداری کی اور واپس اسٹاپ پر بس کا انتظار کرنے کے بجائے پیدل ہی چل کر ٹرمنس تک پہنچے۔ یہاں پر انتظار گاہ میں بسوں کا شیڈول لگا ہوا تھا۔ تین مقامی بسوں کے علاوہ یہاں پر کئی انٹر سٹی بسیں بھی آتی ہیں جو قریب و دور کے کئی شہروں تک پہنچاتی ہیں۔

روئیس اڈناک کا شہر ہے۔ شہر کیا ہے ایک صاف ستھری کالونی ہے۔ کمپنی کی جانب سے تعمیر شدہ ہونے کے باعث یہاں پر جگہ جگہ بقالے اور مخبز وغیرہ نظر نہیں آتے بلکہ مارکیٹ میں ہی ہر چیز کی دکان موجود ہے۔شہر سے قریب اڈناک کی قابل دید ریفائنری ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کے پیچھے روئیس کی تجارتی بندرگاہ بھی موجود ہے۔شہروں جیسی روائیتی چہل پہل یہاں بھی عنقا ہے۔ چھ مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا یہ شہر خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ ابوظبی سے ۲۴۰ کلو میٹر دور اس شہر کا باقاعدہ افتتاح ۱۹۸۲ ٗ میں شیخ زید بن النہیان نے خود کیا تھا۔ سلفر ہینڈلنگ ٹرمنل کی موجودگی کے باعث اتحاد ریلوے کی ابتدائی مال گاڑی سروس اسی شہر سے شروع ہوئی ہے۔ اتحاد ریلوے سے متعلق باقی تفصیل کچھ دیر بعد بیان کرتے ہیں۔ فی الحال تو ہم نے اپنی خریداری سمیت بس کی سہولت سے فائدہ اٹھایا اور واپس اپنے کمرے میں پہنچ گئے۔اس بیابان میں ہمارا ایک ہفتہ مکمل ہوچکا تھا۔(جاری)


نایاب سید عاطف علی
جاسمن الف عین فرحت کیانی راشد اشرف
محمد وارث سید شہزاد ناصر حمیرا عدنان

 
آخری تدوین:
بہت بہت زبردست ویسے آپ کو راستہ پوچھنے کے لیے فلپئنی ہی ملی تھی اور ہوٹل میں کھانے کے دوران بھی فلپئنی حسینوں کی خفیہ انداز میں تعریف کی تھی سچ کہوں تو فلپئنی حسینوں کا تذکرہ پڑھتے وقت جانے کیوں مجھے آپ کی تحریر میں حسرت اور کچھ ٹھنڈی سانسوں کے بھرے جانے کا احساس ہوا ہے:heehee:

تیسرے حصے کا بے صبری سے انتظار ہے
 
دوسری قسط میں براکہ کا ایٹمی بجلی گھر

image_zpsofueu4vc.jpeg
 
لگتا ہے وہاں کوئی ریڈئیشن لیک ہے کہ تصویر کی رنگت ہی بدل گئی


ارے نہیں جناب،، یہاں کی حکومت ایسی نہیں۔ ہم صحت کے شعبے میں دیکھ ہی رہے پیں کہ رولز اور ریگولیشنز کا کتنا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔

پھر یہ پلانٹ ابھی زیرِ تعمیر ہے۔

ادھر ہم نے یہ تصویر بس کے شیشے دار کھڑکی سے لی ہے۔
 
بہت بہت زبردست ویسے آپ کو راستہ پوچھنے کے لیے فلپئنی ہی ملی تھی اور ہوٹل میں کھانے کے دوران بھی فلپئنی حسینوں کی خفیہ انداز میں تعریف کی تھی سچ کہوں تو فلپئنی حسینوں کا تذکرہ پڑھتے وقت جانے کیوں مجھے آپ کی تحریر میں حسرت اور کچھ ٹھنڈی سانسوں کے بھرے جانے کا احساس ہوا ہے:heehee:

تیسرے حصے کا بے صبری سے انتظار ہے
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائینات میں رنگ
 

فرحت کیانی

لائبریرین
خلیل بھائی، حسب روایت آپ کا سفر نامہ پڑھا نہیں بلکہ گویا آپ کے ساتھ ساتھ سفر کیا. اور اب اگلی قسط کا انتظار شروع ہو گیا.
'لو لو سٹور' کا نام پڑھ کر دھیان پاکستانی بازاروں کی طرف چلا گیا جہاں بڑی چھوٹی تمام دوکانوں والے ہر گزرنے والے کو 'لو بھئی لو' کی ترغیب دیتے ہیں. بلکہ یہ تو شاید دنیا بھر کی ہائی سٹریٹس کا خاصہ ہے.
 

محمد وارث

لائبریرین
خوب لکھا آپ نے خلیل صاحب۔ ایک گذارش یہ کہ سفر ناموں میں کچھ مستنصر حسین تارڑ کا رنگ بھی لائیے، مطلب یہ کہ ہسپتالوں کا ذکر کچھ کم اور فلیپیناؤں کا ذکر "تھوڑا" زیادہ :)
 
Top