سفرِ سوات۔ 2016

یاز

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوات کو ہم نے آخری بار سنہ 2000 میں زمانہِ طالبعلمی میں دیکھا تھا۔ اس سال جون کے بالکل آغاز میں ہم پھر سے عازمِ سوات ہوئے۔ چار دن کے اس ٹرپ میں کالام سے پہلے پہلے بے تحاشا گرمی کھائی۔ البتہ کالام میں موسم شاندار اور خوشگوار تھا۔ کالام کے علاوہ مہوڈنڈ جھیل کی سیر بھی کی اور واپسی پہ شانگلہ پاس کے راستے سے آئے۔ شانگلہ پاس والا راستہ میں نے پہلی بار دیکھا اور یہ بلاشبہ بہت خوبصورت علاقہ ہے۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ کالام سے مہوڈنڈ جھیل کے راستے کے علاوہ اس پورے سفر میں خوبصورت ترین علاقہ شانگلہ پاس خصوصاً الپوری کے آس پاس کا تھا تو کچھ ایسا غلط نہ ہو گا۔

سفر کی تفصیل کچھ یوں رہی۔
پہلا دن: صبح راولپنڈی سے براستہ موٹروے روانگی۔ رشکئی انٹرچینج پہ موٹروے سے اتر کر مردان، تخت بھائی، درگئی، مالاکنڈ پاس سے ہوتے ہوئے مینگورہ میں فضاگٹ پارک گئے، جس کو دیکھ کے ازحد مایوسی ہوئی۔ مینگورہ سے کچھ آگے ایک ہوٹیل میں رات گزاری۔

دوسرا دن: صبح اٹھ کر میاندم گئے جہاں 16 سال قبل بھی گئے تھے۔ تاہم حیرانی، مایوسی اور کچھ خوشی بھی ہوئی کہ میاندم میں ایک بھی سیاح نہیں تھا۔ نیز یہ کہ گرمی بھی کافی تھی۔ میاندم سے نکلے تو مدین، بحرین سے ہوتے ہوئے کالام کی راہ لی۔ بحرین تک سڑک شاندار ہے۔ البتہ بحرین سے آگے کالام تک سڑک کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ بحرین سے آگے 34 کلومیٹر کا یہ سفر پونے تین گھنٹے میں طے ہوا۔ میں نے اس سے بدترین سڑک کبھی نہیں دیکھی۔ ہماری گاڑی نے ہمیں کافی بددعائیں دی ہوں گی۔
مزید المناک بات یہ سامنے آئی کہ کالام کی اپنی حالت بھی غیر تھی۔ وہاں بھی صرف گنتی کے ٹورسٹ دکھائی دے رہے تھے۔ کالام کے مین بازار کا کافی حصہ 2010 کے سیلاب میں دریا برد ہو گیا تھا، اور ابھی تک اسی حالت میں ہے۔ جو حصہ بچ گیا تھا، وہ بھی کافی حد تک ویران دکھائی دے رہا تھا۔ یہ وہ کالام نہیں تھا جو ہم نے جون 2000 میں دیکھا تھا۔ اس وقت تو یہاں ایسی رونق دیکھی تھی جیسی اب ناران وغیرہ میں ہوتی ہے۔

تیسرا دن: یہ سارا دن مہوڈنڈ جھیل کے لئے وقف تھا۔ اس راستے پہ بہت سے گلیشیئر ابھی بھی موجود تھے تو اپنی گاڑی پہ جانا ہنوز ممکن نہ تھا، لہٰذا جیپ ہائر کی گئی۔ ہم چونکہ سیاحتی سیزن کے آغاز سے قبل ہی آ گئے تھے اور مہوڈنڈ کا راستہ کھلے ہوئے بھی تقریباً دو ہفتے ہی ہوئے تھے تو ابھی زیادہ رش بھی نہیں تھا اور ابھی تک یہ علاقہ اس گند اور کوڑا کرکٹ سے بھی بچا ہوا تھا جو کہ سیاحت کے سیزن کے دوران ہمارے تمام خوبصورت علاقوں میں ضرور دکھائی دیتا ہے۔ یہ دن بہت شاندار رہا۔ موسم بھی شاندار تھا اور یہ علاقہ بھی جنت سے کم نہیں۔

چوتھا دن: اس دن واپسی کی راہ لی۔ اللہ اللہ کر کے کالام سے بحرین کا سفر اڑھائی گھنٹے سے کچھ کم میں مکمل کیا۔ بحرین سے خواضخیلہ اور وہاں سے بائیں جانب یعنی شانگلہ پاس کو جانے والی سڑک پکڑی۔یہ بہت ہی شاندار سڑک تھی۔ شانگلہ ٹاپ تک جانے کا تو گویا پتا ہی نہیں چلا۔ شانگلہ ٹاپ کے بعد اصل خوبصورت علاقہ شروع ہوتا ہے۔ ضلع شانگلہ کے صدر مقام یعنی الپوری کی لوکیشن تو کمال کی ہے۔ خیر تقریباً 3 گھنٹے میں خواضخیلہ سے بشام پہنچے۔ بشام کے مقام پہ آ کے ہم قراقرم ہائی وے سے آ ملے۔ قراقرم ہائی وے سے راولپنڈی کا سفر شروع کیا جو کہ تقریباً 8 گھنٹے میں مکمل ہوا۔ بشام سے راولپنڈی کے راستے میں تھاکوٹ، بٹگرام، چھتر پلین، شنکیاری، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور، حسن ابدال وغیرہ آتے ہیں۔ نیز یہ کہ ان مہینوں میں شنکیاری سے حسن ابدال تک اس سڑک پہ بے تحاشا بلکہ بے تحاشا ترین رش ہوتا ہے۔

تصویری کوریج: سالِ گزشتہ کے تلخ تجربے (جس میں ہمارے پھسڈی کیمرے کی بیٹری وفات پا گئی تھی) اس دفعہ ہم کافی پہلے ہی ایک عدد ڈی ایس ایل آر کیمرہ یعنی نائیکون D5200 لے چکے تھے۔ لینز سادہ سا ہی تھا یعنی mm 18-55 ۔ اگرچہ ڈی ایس ایل آر کے استعمال میں ہم ابھی مبتدی کی سٹیج پہ ہی ہیں۔ تاہم اس ٹرپ کے دوران زیادہ تر فل آٹو میٹک موڈ کی مدد سے ہی تصویر کشی کی۔ جس کی وجہ سے کچھ تصاویر اوور ایکسپوز اور کچھ انڈر ایکسپوز بھی ہوئیں، تاہم چونکہ ہم نے تقریباً ہر مقام پہ مختلف سیٹنگز کے ساتھ تصاویر بنائیں تو کافی تصاویر قابلِ قبول یا اس سے کچھ بہتر کوالٹی کی بھی رہیں۔
اگلے مراسلوں میں تصاویر بمعہ مختصر تفصیل پیشِ خدمت ہیں۔
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
پہلے دن اتنی گرمی تھی کہ راستے میں کہیں رکنے کی ہمت نہ ہوئی اور پہلا باقاعدہ سٹاپ عین مینگورہ پہنچ کر فضاگٹ پارک میں ہوا۔ اور سفر کی پہلی تصویر بھی فضاگٹ پارک میں ہی کھینچی۔ فضاگٹ پارک کے بارے میں میں نے مختلف لوگوں کے سفرناموں میں پڑھا تھا اور چونکہ سولہ سال پہلے کے سفر میں یہ پارک نہیں دیکھ سکے تھے تو ابھی تک اس پہ پچھتایا کرتے تھے کہ کیوں ایسا جنت نظیر پارک مس کر دیا۔ میرا خیال تھا کہ یہ کافی بڑا پارک ہو گا اور عین دریا کے کنارے واقع ہو گا۔ اب جو دیکھا تو شدید مایوسی ہوئی۔ ایک تو پارک توقعات سے بہت ہی چھوٹا تھا، یعنی کئی چھوٹے شہروں کی رہائشی کالونیوں کے پارک اس سے بڑے ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ پارک دریا کنارے تو تھا، لیکن دریا سے کافی عمودی بلندی پہ تھا، یعنی دریا میں جانا یا دریا کے پانی کو چھونا اسی صورت ممکن تھا جب کوئی آپ کو پیچھے سے دھکا دے دے، یا آپ خود ہی آتما ہتیا وغیرہ کا ارادہ رکھتے ہوں۔
خیر یہ رہیں فضاگٹ پارک میں لی گئی تصاویر

swat001.jpg

swat002.jpg

swat003.jpg

swat004.jpg
 

زیک

مسافر
1992 میں یونیورسٹی کی بس میں سوات شانگلہ پاس کے راستے ہی گیا تھا۔ کافی خوبصورت راستہ ہے۔

تصاویر کا انتظار رہے گا۔
 

یاز

محفلین
مینگورہ سے کچھ آگے نکلے تو دریا کنارے ایک ریسٹورنٹ دیکھ کر وہیں کھانا کھانے کو رک گئے۔ یہ جگہ فضاگٹ سے بہتر لگی کہ یہاں دریا کے ٹھنڈے ٹھار پانی میں جا کے گرمی دور کرنا ممکن تھا۔

swat005.jpg

swat006.jpg

swat007.jpg
 

یاز

محفلین
اگلے دن پہلے میاندم گئے۔ میاندم جانے کے لئے فتح پور نامی جگہ سے دائیں مڑ کر تقریباً آدھے گھنٹے کی ڈرائیو ہے۔ سڑک کافی بہتر حالت میں ہے، تاہم میاندم بذاتِ خود زیادہ بہتر حالت میں نہیں ہے (سیاحت کے نکتہ نظر سے)۔

swat008.jpg


swat009.jpg

swat010.jpg
 

یاز

محفلین
میاندم سے واپس سوات کی مین روڈ پہ آئے اور کالام کی جانب سفر کا آغاز کیا۔ بحرین تک سڑک بہت شاندار حالت میں ہے۔
swat011.jpg


swat11b.jpg
 

یاز

محفلین
بحرین سے آگے نکلے تو ہمارے اور شاید گاڑی کے بھی چودہ طبق روشن ہو گئے۔ سڑک کا یہ عالم ہے کہ 5 فیصد سڑک ٹوٹی ہوئی ہے، جبکہ باقی 95 فیصد سڑک ٹوٹی ہوئی نہیں ہے۔ کیونکہ سڑک ہو گی تو اس پہ ٹوٹی ہوئی کی تہمت لگ سکے گی۔
swat019.jpg


تاہم سوات کی اصل خوبصورتی اور الپائن سبزہ بحرین سے آگے ہی شروع ہوتے ہیں۔ بعض مقامات پر ایسے خوبصورت مناظر آئے کہ رک کر تصویر لیتے ہی بنی۔
swat020.jpg

swat021.jpg
 

یاز

محفلین
کالام کے نزدیک پہنچتے ہوئے۔
swat022.jpg


سب سے شاندار منظر یہ رہا۔ یعنی جب پونے تین گھنٹے کی بدترین ڈرائیونگ کے بعد کالام میں داخل ہونے ہی کو تھے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا دلکش بورڈ NHA-Committed to Excellence کہتا ہوا ہمارا منہ چڑا رہا تھا :ROFLMAO:۔
swat023.jpg
 

یاز

محفلین
کالام شہر کی حالت غیر تھی۔ تاہم کالام کے چاروں اطراف میں ابھی تک پہاڑوں پہ برف موجود تھی۔ اس کی بڑی وجہ اس سال برف باری کا تاخیر سے ہونا اور کافی زیادہ ہونا بھی ہے۔
swat024.jpg


swat025.jpg

swat026.jpg
 

قیصرانی

لائبریرین
سڑکوں کی عمومی حالت کیا تھی؟ فاصلے کو کیا اس طرح بتا سکتے ہیں کہ کتنے گھنٹے کی ڈرائیو تھی ایک مقام سے دوسرے تک؟ کہاں فور ویل ڈرائیو کی ضرورت تھی اور کہاں عام کار جا سکتی ہے؟
 

یاز

محفلین
سڑکوں کی عمومی حالت کیا تھی؟ فاصلے کو کیا اس طرح بتا سکتے ہیں کہ کتنے گھنٹے کی ڈرائیو تھی ایک مقام سے دوسرے تک؟ کہاں فور ویل ڈرائیو کی ضرورت تھی اور کہاں عام کار جا سکتی ہے؟
قیصرانی بھائی! کچھ تفصیل درج ذیل ہے۔
راولپنڈی سے مینگورہ: تقریباً ساڑھے چار گھنٹے۔ سوائے تخت بھائی کے (سالوں سے) زیرِ تعمیر فلائی اوور کے باقی تمام سڑک کی حالت بہت اچھی ہے۔ صرف کچھ جگہوں پہ رش کی وجہ سے مسئلہ ہو سکتا ہے جیسے مینگورہ، بٹ خیلہ، مردان وغیرہ میں۔
مینگورہ سے بحرین: تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ۔ سڑک زیادہ تر جگہوں پہ بہترین حالت میں ہے۔
بحرین سے کالام: تقریباَ اڑھائی سے پونے تین گھنٹے۔ سڑک کی حالت بدترین ہے۔ تاہم کوئی بھی گاڑی اس پہ جا سکتی ہے۔ فور وہیل ڈرائیو کی خاص ضرورت نہیں ہے۔ سوزوکی ڈبہ تک بآسانی جا سکتا ہے۔
کالام سے مہوڈنڈ: اڑھائی سے تین گھنٹے۔ ٹریک کی حالت سیزن کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتی جاتی ہے۔ جب راستے کے گلیشیئر پگھل جاتے ہیں تو کاریں بھی مہوڈنڈ تک چلی جاتی ہیں۔ اس سے پہلے فور وہیل ڈرائیو ہی بہتر آپشن ہے۔ اس کے باوجود میں نے وہاں لوگوں کو اپنی کاریں حتی الامکان آگے تک لے جاتے دیکھا۔

بحرین سے خواض خیلہ: تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ۔ سڑک کی حالت کافی بہتر۔ یہ وہی سڑک ہے جو مینگورہ سے بحرین تک جاتی ہے۔
خواض خیلہ سے بشام براستہ شانگلہ پاس: اڑھائی سے تین گھنٹے۔ نوے فیصد سے زیادہ جگہ پہ سڑک بہت عمدہ حالت میں ہے۔ بعض مقامات پر سیلاب سے کٹاؤ کی وجہ سے سڑک خراب ہے، لیکن یہ مقامات بہت تھوڑے ہیں اور کوئی بھی تیس چالیس میٹر سے زیادہ طویل نہیں ہے۔
بشام سے راولپنڈی: یہ قراقرم ہائی وے کا راستہ ہے۔ سڑک کی حالت انتہائی شاندار ہے۔ لیکن شنکیاری سے مانسہرہ تک بے تحاشا رش ہوتا ہے، اور مانسہرہ سے ایبٹ آباد تک بے تحاشا ترین رش ہوتا ہے۔ اور ایبٹ آباد سے حسن ابدال تک تو رش ہوتا ہی ہے۔ اسی رش کی وجہ سے یہ راستہ تقریباَ 6 سے 7 گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔

نوٹ: میں تصویری مراسلوں میں سڑکوں کی تصاویر بھی شامل کر رہا ہوں، جس سے سڑک کی عمومی حالت کا کافی حد تک اندازہ لگ سکتا ہے۔
 

یاز

محفلین
کالام شہر سے گزرتا ہوا دریائے سوات۔ عین اسی جگہ پر دریا کے اندر چارپائیاں اور میزیں لگا کر لوگ کھانا کھایا کرتے تھے۔
swat027.jpg


تصویر کے وسط میں بائیں جانب دریا کے دوسرے کنارے پر کٹاؤ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کٹاؤ میں سڑک اور بازار کا کافی حصہ دریا برد ہو گیا تھا۔
swat028.jpg
 

یاز

محفلین
مہوڈنڈ کے لئے کالام سے نکلیں تو شروع میں ہی کالام کا مشہور جنگل آتا ہے۔ ہم اس جنگل میں نہیں رکے کہ واپسی پہ وقت ہوا تو رکیں گے۔ جنگل سے کچھ ہی آگے گئے تو آبشاروں اور گلیشئر کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
swat036.jpg

swat035.jpg
 

یاز

محفلین
جوں جوں آگے جاتے ہیں تو سحر انگیز خوبصورتی دوچند ہوتی جاتی ہے
swat040.jpg


ندی کنارے گلیشئر کے باقیات دیکھے جا سکتے ہیں، جو کہ بارشوں کی وجہ سے سلائیڈ ہوئی مٹی پڑنے سے میلا ہو چکا ہے۔
swat041.jpg
 
Top