سفرنامے از عمر خیام

تہذیب

محفلین
استنبول۔۔۔۔

یہ بھی ایک یادگار سفر تھا
ہم صبح ھوٹل سے نکلے تھے۔ استنبول کی مشہور بلیو مسجد، سینٹ صوفیہ کا گرجا دیکھ چکا تھا۔ ان دونوں کے سامنے فوٹو بھی بنوا چکا تھا۔
مسجد میں دو نفل بھی پڑھ آیا تھا کہ چلو سفر کی برکت کیلیئےا چھے ہیں۔
استنبول کا مشہور گرینڈ بازار بایاں ھاتھ پر تھا۔ سوچا کہ اس کو بعد میں دیکھیں گے۔ دوپہر کے بعد دھوپ زیادہ ہوگی تو گرینڈ بازار کی چھتوں کے نیچے سکون سے گھومیں پھریں گے۔ اس وقت توپ کاپی میوزیم دیکھ آئیں۔
ہم نے کچھ سال پہلے ایک پاکستانی فلم دیکھی تھی۔ نام یاد نہیں رہا کہ کیا تھا۔ جاوید شیخ کی فلم تھی۔ اس کو ترکی کی کسی حسینہ سے حسب معمول پیار، عشق محبت ہوجاتا ہے۔ کہانی کچھ اتنی یاد نہیں رہی ، بہروز سبزواری کا ایک ڈائیلاگ یاد رہ گیا ہے۔ کہ ہر سین میں کہتا ہے کہ باس لاش ٹھکانے لگا دی ہے۔ لاش ٹھکانے لادوں؟۔۔ ۔۔۔۔۔۔پھر آخر میں وہ خود مرنے والا ہوتا ہے تو اس کے آخری الفاظ بھی یہی ہوتے ہیں۔۔۔ باس میری لاش ٹھکانے لگا دینا۔۔۔۔۔ بہت جذباتی سین ہوتا ہے۔


اس فلم میں ہم نے پہلی بار توپ کاپی میوزیم کے بارے میں جانا کہ اس جگہ پر بہت سی اسلامی یادگاریں ہیں۔ دیکھنے لائق ہیں۔ ضرور جانا چاہیے۔

توپ کاپی میوزیم کے صدر دروازے کے دائیں بائیں سٹال نما دکانیں ہیں۔ ہم اندر جارہے تھے کہ کسی نے آواز دی۔ السلام علیکم۔ ہم نے جواب دیا۔ وہ پندرہ سولہ سال کا لڑکا تھا۔ عام ترک لڑکوں سے زیادہ صاف انگریزی میں بات کررہا تھا۔ بتانے لگا کہ وہ اسلام آباد میں ایک مہینہ رہ کر آیا ہے۔ اس کا انکل اسلام آباد میں ترکی ایمبیسی میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں بہت سیر کی۔ پشاور اور مری بھی دیکھا۔۔ ہمیں دکان کے اندر لے گیا۔ ثبوت کے طور پر فوٹو دکھانے کی پیش کش کی۔

ہمیں باتیں کرتا دیکھ کر ایک اور نوجوان بھی آگیا۔ اس نے کہا کہ اس کی بہن کی شادی ایک پاکستانی سے ہوئی ہے۔ وہ بھی اسلام آباد میں رہتی ہے۔۔ ہمیں ڈر تھا کہ یہ لوگ واقفیت نکال کر اب کوئی شے بیچنے کی کوشش کریں گے۔ ترکی، مصر، تیونس، مراکو۔۔۔۔ ان سب جگہوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ آپ کو برادر۔ بھائی۔ بول کر دگنی تگنی قیمت پر چیز بیچ دیتے ہیں۔ اور آپ اپنے ملک و قوم کے وقار کا جھنڈا بلند کرنے کی خاطر کچھ نہ کچھ خرید ہی لیتے ہیں۔ تاکہ یہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ شاید ہمارا ملک زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا شکار ہے۔۔

لیکن ان لوگوں نے ایسا کچھ نہ کیا۔ صرف پیار اور خلوص کی رشتہ داری جتاتے رہے۔ یہ ہمارے ساتھ ہر جگہ ہوا، ترکی میں جس جگہ بھی گیا۔۔۔ اور ہم چھ سات مختلف شہروں میں گیا۔ ہر جگہ پاکستان کی مناسبت سے بہت عزت کی گئ۔

اب آپ لوگ سوچے گا کہ ان لوگ کو پتہ کیسے چل جاتا تھا کہ یہ بندہ اسی علاقے کا۔۔ اصل میں ہمارے ساتھ ہماری ہمسفر بھی تھی۔ اور اس کے شلوار قمیص کی وجہ سے ہر کسی کو پتہ چل جاتا تھا کہ ہو نہ ہو بے نظیر والے ملک سے اس کا تعلق ہے۔ ویسے ہم بنیادی طور پر بے نظیر کی پالیسیوں سے کبھی متفق نہیں رہا اور نہ ہی اس کی شخصیحت سے متاثر ہوا۔۔۔ لیکن جس بات کا حق بنتا ہمارے خیال میں وہ حق اس کے حقدار کو دیا جانا چاہیے۔۔ بیرونی دنیا میں بے نظیر کو اس حوالے سے جانا جاتا کہ شلوار قمیص ایک پرکشش لباس ہے۔ سلیقے سے پہنا جائے تو ہر جگہ چل جاتا ہے۔

توپ کاپی میوزیم کے اندر جانے سے ہم نے ہمسفر سے پوچھ لیا کہ کیمرے کی کتنی فلمیں ہیں؟ کہنے لگی ایک کیمرے کے اندر ہے اور ایک اس کے علاوہ فالتو بیگ میں۔ ہم نے کہا کہ کچھ اور خرید لیتے ہیں۔ نہ مانی۔ کیا ضرورت ہے۔ ساٹھ ستر فوٹوؤں کی جگہ ہے۔ ہم نے کونسا اتنے زیادہ فوٹو لینے ہیں۔

توپ کاپی کسی زمانے میں عثمانیوں کا محل تھا۔ اب عجائب گھر ہے۔

دائیں طرف کے کمروں سے ہم نے دیکھنا شروع کیا۔

بادشاہوں کے باورچی خانوں کے برتن۔ سونے چاندی کی صراحیاں۔ طشتریاں۔

پھر ملبوسات کی باری آئی۔ بھاری بھاری چوغے۔ سونے کی تاروں سے کڑائی کیے ہوئے۔

ہتھیار، تلواریں، خنجر۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک خنجر چاندی کا۔ جس کے دستے پر بیش قیمت ہیرے، لعل اور جواہرات جڑے ہوئے۔

آگے ایک تخت۔۔ جو سب کا سب سونے کا بنا ہوا

ایک اور تخت جو شاید ساگوان کی لکڑی کا بنا تھا، لیکن اس پر جواہرات، لعل اور یاقوت وغیرہ اتنا تھا کہ لکڑی چھپ گئ تھی۔ یہ تخت کسی عثمانی سلطان کو ایران کے نادر شاہ نے تحفہ دیا تھا۔

ایک پنگھوڑا۔ جس پر ہیرے ، نیلم، یاقوت اور لعل جڑے تھے

سلطنت عثمانیہ اپنے عروج کے دور میں آج کل کے سعودیہ، یمن، عراق، وسطی ایشائی ممالک ( یعنی جورجیا، آرمینیا۔ آذر بائیجان۔ چیچنیا ترکمانستان وغیرہ)، ترکی، شام، بلغاریہ کا آدھا علاقہ۔یوکرائن کا کچھ علاقہ ، رومانیہ، البانیہ، مصر لبنان، اردن فلسطین تک پھیلی تھی۔

ہم آہستہ آہستہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے، ایک دالان سے دوسرے دالان ، ایک برآمدے سے دوسرے تک جارہے تھے۔ خاص خاص چیزوں کے فوٹو لے رہے تھے۔ کچھ جگہوں کے فوٹو فلیش کے ساتھ لینا ممنوع تھا۔ فوٹو بنانے والا شروع شروع کا شوق اب ماند پڑ گیا تھا۔ اب ام کتنے خنجروں، کتنے دیگچوں، یا کتنے کرتوں کے فوٹو بناتے۔ یادگار اور تبرک کی طور پر ایک فوٹو بنالیا تھا۔ ویسے بھی اس خنجر، اور تخت کو دیکھنے کے بعد آنکھوں میں عام چیز جچ بھی نہیں رہی تھی۔

پھر مختلف قسم کے قرآن آگئے۔

باتصویر یعنی نقش و نگار کے ساتھ۔۔۔ ھاتھ سے خطاطی کیے ہوئے قرآن۔ سونے کی تاروں والے۔ ایرانی خطاطی۔ مصری خطاطی۔ سمرقند بخارا سے تحفہ کے ہوئے قرآن۔ چھوٹے چھوٹے ایک ہتھیلی کے برابر نسخے۔ بڑے بڑے ایک ایک گز کے صفحے والے نسخے۔ ہزار سال پہلے کے لکھے ہوئے۔

پھر ایک مدھم روشنی اور تلاوت قرآن کی مدھر اور پرسوز آواز والے کمرے میں ہم داخل ہوئے۔ یہ دیکھنے والی اور یاد رہ جانے والی جگہ ہے۔دنیا میں شاید دو جگہیں ایسی ہیں جہاں ہمہ وقت قرآن مجید کی تلاوت بغیر کسی وقفہ کے تواتر کے ساتھ کی جاتی ہے ، ایک توپ کاپی میوزیم کا یہ کمرہ جہاں ہم کھڑے تھے اور دوسری رباط میں شاہ حسن دوم کے مزار پر ۔۔ اس جگہ پر حضرت محمدﷺ کے دندان مبارک، آپﷺ کا نقش پا۔ آپﷺ کا ایک خرقہ مبارک۔ آپﷺ کی ریش مبارک کا بال۔ آپﷺ کی تلوار اور نیزہ۔ حضرت فاطمہؓ کی چٹائی۔ چاروں خلفائے راشدین کی تلواریں ، نیزے۔ حضرت علی ؓ کی تلوار کا ام بچپن سے ہی بہت شہرہ سنتے آئے ہیں کہ ان کی تلوار اتنی بھاری ہوا کرتی تھی۔ حالانکہ ان کا قد باقی تمام صحابہ کرام سے چھوٹا تھا۔ گو کہ وہاں پر چھوٹی چھوٹی پرچیاں لگی ضرور تھیں کہ جن سے پتہ چلتا تھا کہ کس چیز کی کس صحابی یا مقتدر ہستی سے نسبت ہے لیکن دل کی تسلی کی خاطر ہم نے ایک گاییڈ سے پوچھا کہ ان میں سے حضرت علیؓ کی تلوار کونسی ہے ؟ واقعی وہ بڑی تھی۔ بھاری بھی ضرور ہوگی۔ ہم نے قائرہ کی ایک مسجد کے ایک عجائب گھر میں کسی صحابی کی ایک زرہ دیکھی تھی، بلکہ چھوئی تھی اور ٹٹول کر اس کا وزن جانچنے کی کوشش بھی کی تھی۔ تیس کلو گرام تو ضرور ہوگی۔ اتنی بھاری زرہ ، اتنی گرمی میں پہن کر اتنی بھاری تلواریں چلانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔ آفرین ہے ان سب پر۔ ہم تو نکڑ کی دکان سے ایک دن کا سودا لائیں تو شاپر بیگ کے اٹھانے سے بازو شل ہوجاتے ہیں ۔

قرآن کا وہ خون آلود نسخہ بھی یہیں ہے جس کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت عثمانؓ شہید ہوئے تھے۔ خانہ کعبہ کا ایک بے حد پرانا غلاف، اور لکڑی کا دروازہ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی پگڑی، حضرت داؤد علیہ السلام کی کوئی شے بھی موجود تھی، اب یاد نہی رہا کہ کیا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پیالہ۔

میری ہمسفر جس نے کہا تھا کہ کیمرے کی دو فلمیں بہت ہیں۔ ایسا بھی کیا۔ ۔ ۔ ۔ اس کو چار اور کی ضرورت پڑی ۔

اور ایسی بے شمار نوادرات ہیں کہ جن کے دیکھنے سے ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔ اور بندہ خود کو بے حد خوش قسمت تصور کرتا ہے۔ ہم نے بھی اپنے آپ کو بے خوش قسمت تصور کیا۔ کہ کہاں ہم جیسا پہاڑ کی دامن میں بکریاں چرانے والا آجڑی دیہاتی اور کہاں عثمانی بادشاہوں کے محلات ۔ جو چوتھائی دنیا پر حکمرانی کرتے تھے۔ اورسب سے بڑھ کر کہاں دونوں جہانوں کے بادشاہ اور ان کی زیر استعمال چیزیں۔ اگلے جہاں کو جب حساب کتاب ہوگا تو شاید یہ ہمارے بے حد کام آجائے کہ جس وقت ہم ان سب چیزوں کو دیکھ رہے تھے تو ہمارے دل میں احترام۔ شوق اور محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔
 

تہذیب

محفلین
  1. استنبول میں دیکھنے کو اور بھی بہت کچھ تھا۔ گرینڈ بازار۔ مشرقی تہذیبوں کا میوزیم، غلطہ کا پُل۔ خود استنبول کا شہر۔ شہر کا نظارہ۔ نظارہ بھی ایسا کہ دنیا کا کوئی اور شہر اس جیسا نہیں ۔ یہ شہر دو براعظموں میں موجود، تین سمندروں کے کنارے اور سنگھم پر۔۔۔ بحیرہ اسود ( بلیک سی) مارمورا ، اور باسفورس استنبول کے قدموں میں بچھے رہتے ہیں۔ توپ کاپی (طوپقپی ) میوزیم، نیلی مسجد اور سینٹ صوفیہ کا گرجا اور گرینڈ بازار ساتھ ساتھ ہیں۔ اور یورپی حصے میں ہیں ۔ اور یہ ذرا اونچائی پر ہیں۔ پہاڑی کے نیچے غلطہ کا مشہور پل ہے جو دونوں حصوں یعنی یورپی اور ایشیائی کو ملاتا ہے۔ غلطہ کے پل سے شاخ زریں ( گولڈن ھارن) کے نام کی ایک آبنائے ہے جو سات کلومیٹر تک جاتی ہے۔ توپ کاپی سے باہر نکل کر ایشیائی حصے کو دیکھو تو آپ کو سات مسجدیں نظر آتی ہیں۔ جن کے ڈیزائن بالکل ایک جیسے ہیں۔ مقامی لوگ ان کو سات بہنیں کہتے ہیں۔ یہ مختلف عثمانی سلطانوں نے اپنے اپنے دور میں بنوائیں تھیں۔ پہلے کسی ایک نے بنائی ہوگی بعد میں جو بھی آیا اس نے اپنا نام بنانے کیلیےبنوائی ہوگی۔ یا یہ سوچ کر بنوائی ہوگی کہ اگر نہ بنوائی تو برادری میں ناک کٹ جائے گا۔
    افسوس کہ ہم کو استنبول میں زیادہ دن رہنے کا موقعہ نہیں ملا۔ ہم گیلیپولی کی طرف سے استنبول آیا تھا۔ اگلی منزل برصہ کا شہر تھا۔ استنبول کے بعد ہمیں برصہ سب سے زیادہ پسند آیا۔ شاید ا سکی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ یہ سرسبز و شاداب شہر تھا اور اس کے پس منظر میں پہاڑ تھے۔
    گیلیپولی میں پہلی جنگ عظیم میں بہت ہی زوردار جنگ لڑی گئ تھی۔ گیلیپولی اس پانی کے راستے کے داخلے کا مقام تھا جہاں سے جہاز بحیرہ روم سے بحیرہ اسود میں داخل ہوکر استنبول پہنچ سکتے تھے۔ یہ تنگ سی نہر ترک قوم کیلیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گئ۔ اتحادی فوج میں ہزاروں آسٹریلیائی اور نیوزی لینڈ کے فوجی تھی۔ ہندوستانی فوج کے دو ڈویژن تھے جن میں مسلمان پلٹنیں بھی تھیں۔ پہلے تو ہندوستانی مسلمانوں کو پتہ ہی نہ چلا کہ وہ کس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ان کو بتایا گیا تھا کہ جرمنوں اور اطالویوں سے لڑائی ہورہی ہے۔ لیکن جب ہندوستانی مسلمانوں ( جن کی اکثریت پوٹھوہار اور سرحد سے متعلق تھی) کو پتہ چلا کہ ان کے مقابل ترک ہیں تو اکثر نے لڑنے سے انکار کردیا۔ کورٹ مارشل اور فائرنگ سکواڈ کا سامنا کیا۔ اور کئ بھگوڑے ہو کے ترکوں سے جاملے۔ چند فوجی تو جنگ کے بعد وہیں مستقل رہ گئے۔ وہیں شادیاں کرلیں اور اب وہ اور ان کی بچے ترکوں میں ہی مدغم ہوگئے ہیں۔ مصر میں ہم کو پتہ چلا کہ ایک ہندوستانی مسلمان فوجی نے وہیں شادی کرلی اور وہیں رہ گیا۔ اب اس کی شہریت کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ مصر کا قانون اور ہے۔ عربوں کی طرح وہ کسی کو اتنی آسانی اور جلدی سے خود میں شامل نہیں ہونے دیتے، جبکہ ترکی چونکہ یورپی یونین میں شامل کو کوشاں ہے اس لیے اس کے قانون میں شہریت کا حصول آسان ہے۔ یہی حال انڈونیشیا میں بھی ہوا تھا۔ مسلمان یونٹیں جو جاپانیوں سے لڑنے گئی تھیں ان کو پتہ چلا کہ وہ انڈونیشی مسلمان بھائیوں کی آزادی کی جنگ میں مزاحم ہورہے ہیں تو انہوں نے بھی لڑنے سے انکار کیا تھا۔ اور ایک بڑی تعداد اپنے انڈونیشی بھائیوں کے شانہ بشانہ لڑی تھی۔ اور انڈونیشیا کی سرکار اور عوام کو ہندوستانی مسلمانوں کی اسی قربانی کا احساس تھا کہ جب 65ء کی جنگ چھڑی اور خدشہ ہونے لگا کہ جنگ کے اثرات مشرقی پاکستان تک بھی آجائیں گے۔ تو اس وقت کے صدر سوئیکارنو نےاپنی فضائیہ کو حکم دیا تھا کہ ایسی صورت میں بحرِ ہند میں انڈین ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے اور مشرقی پاکستان میں پاکستان کے تحفظ کیلیئے تیار رہیں۔۔۔۔ 65ء کی جنگ کے حوالے سے ۔۔۔۔ ایران کا کردار بھی بہت حوصلہ مندانہ تھا۔ رات کے پہلے پہر حملہ ہونے کے خبر ملتے ہی پاکستان کی وزارت خارجہ متحرک ہوگئ تھی اور اپنے دوست ممالک سے رابطوں میں مصروف ہوگئ۔ ایک فون کی گھنٹی ایران کے شاہی محل میں بھی بجی۔ پاکستانی سفیر نے شاہ کو بتانے کو کہا۔ محل کے سٹاف نے کہا کہ شاہ رات دیر سے سویا ہے۔ان کو جگانے کی اجازت نہیں ۔ بہت منت ترلا کیا گیا، لیکن محل کا سٹاف نہ مانا۔ پاکستان کیلیئے ایک لمحہ لمحہ قیمتی تھا۔ سفارتی اثرورسوخ بھی چاہیے تھا۔ لیکن بڑی وجہ تیل تھی۔ جنگ نجانے کتنے دن جاری رہتی۔ پاکستان ان دنوں میں بھی آج کی طرح تہی دامن تھا۔ آخر شاہ کی ہمشیرہ ( اشرف پہلوی ) تک رسائی ہوگئ۔ شاہ کی یہ بہن اپنی آزاد اور مغربی طرز معاشرت کی بناء پر بدنامی کی حد تک مشہور تھی۔ بلکہ اندرون محل اس کو خاندان پر دھبہ سمجھا جاتا تھا۔ اور بیرون محل بھی اس کے سکینڈلز کی وجہ سے بے چینی پائی جاتی تھی۔ لیکن قدرت بے نیاز ہے۔ وہی ذات اقدس جانتا ہے کہ کس سے کس وقت کیا کام لینا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہیں لکھا کہ ہمیں خوش فہمی ہے کہ روز قیامت ہم کو حضورﷺ کی اشیاء کو محبت سے دیکھناہمارے لیے باعث بخشش ہوگا ، ایسا ہی خوش گمانی کہ روزمحشر شاہ کی بہن کی یہ نیکی کہ وہ شاہ ایران کی خوابگاہ میں گارڈ ز کے روکنے کی باوجود چلی گئ اور شاہ کو جگایا۔ شاہ نے مفت تیل دینے کا حکم دیا۔ دنیا بھر میں اپنے سفیروں کو کہا کہ پاکستان کے مؤقف کی زبردست حمایت کی جائے۔ ایئر فورس کی طرف کہا گیا کہ وہ پاکستان اپنے ٹیکنیشن بھیجے تاکہ ناکارآمد جہازوں کی مرمت کرسکنے میں مدد کریں۔ سب کو اللہ اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشے۔۔ اللہ کی رحمتوں اور عنایتوں کی بھی بھلا کوئی حد ہے کیا اسے اک بہانہ ہی تو چاہیے۔!!!
    گیلیپولی کے معرکوں کی تفصیلات ادر موجود ایک میوزیم سے ہوجاتی ہے۔ وہیں پر ایک بڑا سا قبرستان بھی بنا ہے۔ جہاں پر اتحادیوں کے کھیت ہوجانے والے سپاہیوں کی قبریں بنی ہیں۔ مصطفی کمال کا ایک فرمان بھی ایک کتبے پر لکھا پڑھا۔ کہ " " ترک مٹی پر جو بھی مرا، دفن ہوا وہ ترک مٹی کا حصہ ہے۔۔اگر ترک دھرتی نے ان بیٹوں کو خواہ وہ ٹامی ہوں یا مہمت۔۔۔ کو بھی اپنے گلے سے لگالیا، ان کے خون کو اپنے اندر جذب کرلیا۔ تو ہمارا فرض بنتا کہ ان کی قبروں کی حفاظت کریں اور ان کو ویسا ہی عزت والا مقام دیں جو ایک بہادر کی دل میں دوسرے بہادر کے لیے ہوتا ہے۔۔۔" "
    گروپ کا سب لوگ اپنے اپنے ملک کے سپاہیوں کی قبروں کی تلاش میں نکل گئے۔ سولہ ہزار سپاہی آسٹریلیا کا اور چار ہزار نوزی لینڈ کا مرا۔ انگلینڈ، آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ کے فوجی بھی ھزاروں میں مرے اور وہیں دفن ہوئے ۔۔۔۔ میں بھی بے دلی سے قبروں کے کتبے دیکھنے لگ گیا۔ کہ گائیڈ نے بتایا کہ تمہاری دلچسپی کی چیز اس کونے میں ہے۔۔ میں سمجھا کہ وہ کہہ رہا ہے کہ ترک مسلمانوں کی قبریں اس طرف ہیں۔ فاتحہ خوانی کرنی ہے تو جا کر کرو۔۔۔ میں اس کے بتائے ہوئے کونے میں گیا۔ تین قبریں تھیں۔۔ امام دین، محمد حسین اور اللہ دتہ کی۔۔۔۔۔ یہ میرے لوگوں کی قبریں تھیں۔یہ دیسی نام تھے ۔ یہ نام ہمارے تھے۔ محمدحسین آپ کو دنیا میں ہر جگہ مل جائیں گے۔ اللہ دتہ اور امام دین نہیں۔
    پوٹھوہار کا علاقہ پتھریلا، کھٹا پھٹا، اونچا نیچا اور بارانی ہے۔ سال میں دو ہی فصلیں ہوتی ہیں۔ سال کے آٹھ ماہ جوان لوگ ویلے رہتے ہیں۔ اس لیے فوج میں جانا ان کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔ فوجی کی بہت ٹوہر ہوتی ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں تاج برطانیہ کو فوجیوں کی ضرورت پڑی تو اس نے برصغیر کی مارشل قوموں کو بھرتی کرنا شروع کیا ۔ دیکھا دیکھی پوٹھوار اور ملحقہ علاقوں سے ہزاروں جوان فوج میں بھرتی ہوئے۔ ہر گاؤں، ہر پنڈ، ہر ڈھوک ، ہر موہڑے اور ہر چک سے ہر جوان جو قدوقامت والا تھااور بھاگ دوڑ سکتا تھا۔ فوج میں گیا۔ اور فوج کی نوکری کی خاطر ہندوستان کے کونے کونے میں پھیل گیا۔ سرکار برطانیہ نے ان فوجیوں کا گھر والوں سے رابطہ کرنے کی خاطر ڈاک کا بے حد اچھا انتظام کیا تھا۔ ڈاکیا پوٹھوہاری لوک گیتوں اور ماہیوں کا ایک اہم حصہ بن گیا۔۔ گاؤں کی بڈھی مائیاں اپنے گھبرو بیٹوں اور مٹیاریں اپنے گھبرؤوں کے خط کے انتظار میں ڈاکیے کا انتظار کیا کرتی تھیں۔۔ جس گھر میں خط آتا تو ڈاکیے کو خوش ہوکر گڑ، مکئ یا چنے کے مرنڈے یا اسی قسم کی دیسی سوغات دی جاتی تھی۔
    لیکن جب جنگ عظیم چھڑی تو خط بھی خون آلود ہوگئے۔ ڈاکیے کو گاؤں کی طرف آتا دیکھ کر مٹیاروں کے دل دھک دھک جاتے، اور دعا کرتے کہ ڈاکیا ان کی گھر کی طرف نہ آئے۔
    خود ہمارے داداجان کا چچا پہلی جنگ عظیم میں بصرہ عراق تک گیا۔ لیکن وہ ٹھیک سلامت واپس آگیا۔ بلکہ ا سکے بعد ساٹھ سال تک زندہ رہا۔ آخر تک بصرہ کے زمانے کی تین یادگاریں ایک المونیم کا مگ، ایک تانبے کے کٹوری اور ایک لکڑی کے دستے والا کمانی دار چاقو ان کے زیر استعمال رہا۔ کٹوری تو ابا جی بھی شیو کا گرم پانی ڈالنے کے لیے کافی عرصہ تک استعمال کرتے رہے۔ دوسری جنگ عظیم میں ان کا ایک کزن برما جاکے لڑا اور ایک بھتیجا کئی سال تک مسقط اومان میں عربوں کو مورس کوڈ کی ٹک ٹک سکھاتا رہا
 
Top