سعادت حسن منٹو منتخب افسانے - کھول دو، کالی شلوار، بلاؤز

الف عین

لائبریرین
کھول دو یہاں ہی پوسٹ کر دیتا ہوں۔ شمشاد، اسے یہاں سے متعلقہ جگہ پوسٹ کر دیں۔
////////////////////////////////////////////////////////////////


کھول دو

سعادت حسن منٹو


امر تسر سے اسپيشل ٹرين دوپہر دو بجے کو چلي آٹھ گھنٹوں کے بعد مغل پورہ پہنچي، راستے ميں کئي آدمي مارے گئے، متعد زخمي اور کچھ ادھر ادھر بھٹک گئے۔
صبح دس بجے ۔۔۔۔کيمپ کي ٹھنڈي زمين پرجب سراج الدين نے آنکھيں کھوليں، اور اپنے چاروں طرف مردوں، عورتوں اور بچوں کا ايک متلاطم سمندر ديکھا تو اس کي سوچنے کي قوتيں اور بھي ضعيف ہوگئيں، وہ دير تک گدلے آسمان کو ٹکٹکي باندھے ديکھتا رہا، يو تو کيمپ ميں ہر طرف شور برپا تھا، ليکن بوڑھے سراج الدين کے کان جيسے بند تھے، اسے کچھ سنائي نہيں ديتا تھا، کوئي اسے ديکھتا تو يہ خيال کرتا تھا، کہ وہ کسي گہري فکر ميں غرق ہے، اسے کچھ سنائي نہيں ديتا ہے، اس کے حوش و حواس شل تھے، اس کا سارا وجود خلا میں معلق تھا۔
گدلے آسمان کي طرف بغير کسي ارادے کے ديکھتے ديکھتے سراج الدين کي نگاہيں سورج سے ٹکرائيں، تيز روشني اس کے وجود کے رگ و ريشے ميں اتر گئي اور وہ جاگ اٹھا، اوپر تلے اس کے دماغ پر کئي تصويريں دوڑ گئيں، لوٹ، آگ۔۔۔۔۔بھاگم بھاگ۔۔۔۔۔اسٹیشن۔۔۔۔گولياں۔۔۔۔رات اور سکينہ۔۔۔سراج الدين ايک دم اٹھ کھڑا ہوا اور پاگلوں کي طرح اس نے اپنے چاروں طرف پھليے ہوئے انسانوں کے سمندر کو کھٹکانا شروع کيا۔ پورے تين گھنٹے وہ سکينہ سکينہ پکارتا کيمپ کي خاک چھانتا رہا، مگر اسے اپني جوان اکلوتي بيٹي کا پتہ نہ چل سکا،چاروں طرف ايک دھاندلي سي مچي ہوئي تھي، کوئي اپنا بچہ ڈھونڈ رہا تھا، کوئي ماں، کوئي بيوي اور کوئي بيٹي، سراج الدين تھک ہار کر ايک طرف بيٹھ گيا، اور حافظے پر زور دينے لگا، کہ سکينہ اس سے کب اور کہاں جدا ہوئي تھي ليکن سوچتے سوچتے اس کا دماغ سکينہ کي ماں کي لاش پر جا کر جم جاتا ہے، جس کي ساري انتڑياں باہر نکلي ہوئي تھيں، اس سے آگے وہ اور کچھ نہ سوچ سکا۔
سکينہ کي ماں مر چکي تھي، اس نے سراج الدين کي آنکھوں کے سامنے دم توڑا تھا، ليکن سکينہ کہاں تھي، جس کے متعلق اس کي ماں نے مرتے ہوئے کہا تھا، مجھے چھوڑ دو اور سکينہ کو لے کر جلدي يہاں سے بھاگ جاؤ۔
سکينہ اس کے ساتھي ہي تھي، دونوں ننگے پاؤں بھاگ رہے تھے، سکينہ کا دوپٹہ گر پڑا تھا، اسے اٹھانے کيلئے سراج الدين نے رکنا چاہا مگر سکينہ نے چلا کر کہا ابا جي ۔۔۔۔۔چھوڑئيے، ليکن اس نے دوپٹہ اٹھا ليا تھا۔۔۔يہ سوچتے سوچتے اس نے اپنے کوٹ کي بھري ہوئي جيب کي طرف ديکھا اور ميں ہاتھ ڈال کر ايک کپڑا نکالا۔۔۔۔۔سکينہ کا وہي دوپٹا تھا۔۔۔۔ليکن سکينہ کہاں تھي؟
سراج الدين نے اپنے تھکے ہوئے دماغ پر بہت زور ديا مگر وہ کسي نتيجہ پر نہ پہنچ سکا، کيا وہ سکينہ کو اپنے ساتھ اسٹيشن لے آيا تھا؟۔۔۔۔کيا وہ اس کے ساتھ ہي گاڑي ميں سوار تھي؟۔۔۔ راستہ ميں جب گاڑي روکي گئي تھي اور بلوائي اندر گھس آئے تھے تو کيا وہ بے ہوش تھا جو وہ سکينہ کو اٹھا کر لئے گئے؟
سراج الدين کے دماغ ميں سوال ہي سوال تھے، جواب کوئي بھي نہيں تھا، اس کو ہمدردي کي ضرورت تھي، ليکن چاروں طرف جتنے بھي انسان پھيلے ہوئے تھے، سب کو ہمدردي کي ضرورت تھي، سراج الدين نے رونا چاہا، مگر آنکھوں نے اس کي مدد نہ کي، آنسو جانے کہاں غائب ہوگئے تھے۔ چھ روز کے بعد جب ہوش و حواس کسي قدر درست ہوئے تو سراج ان لوگوں سے ملا جو اس کي مدد کرنے کيلئے تيار تھے، آٹھ نوجوان تھے، جن کے پاس لاري تھي، بندوقيں تھيں، سراج الدين نے ان کو لاکھ لاکھ دعائيں ديں اور سکينہ کا حليہ بتايا، گورا رنگ ہے، بہت ہي خوبصورت ہے ۔۔۔۔مجھ پر نہيں اپني ماں پر تھي۔۔۔۔عمر سترہ برس کے قريب اکلوتي لڑکي ہے، ڈھونڈ لاؤ، تمہارا خدا بھلا کرے گا۔
رضاکار نوجوانوں نے بڑے جذبے کے ساتھ بوڑھے سراج الدين کو يقين دلايا کہ اگر اس کي بيٹي زندہ ہوئي تو چند ہي دنوں ميں اس کے پاس ہوگي۔
آٹھوں نوجوانوں نے کوشش کي، جان ہتھيلي پر رکھ کر وہ امر تسر گئے، کئي عورتوں کئ مردوں اور کئي بچوں کو نکال نکال کر انہوں نے محفوظ مقاموں پر پہنچايا، دس روز گزر گئے مگر انہيں سکينہ نہ ملي۔
ايک روز وہ اسي خدمت کيلئے لاري پر امر تسر جا رہے تھے، کہ چھ ہرٹہ کے پاس سڑک پر انہيں ايک لڑکي دکھائي دي، لاري کي آواز سن کر وہ بدکي اور بھاگنا شروع کرديا، رضاکاروں نے موٹر روکي اور سب کے سب اس کے پيچھے بھاگے، ايک کھيت ميں انہوں نے لڑکي کو پکڑ ليا، ديکھا تو بہت ہي خوبصورت تھي، دہنے گال پر موٹا تل تھا، ايک لڑکے نے اس سے کہا گھبراؤ نہيں۔۔۔۔۔۔کيا تمہارا نام سکينہ ہے؟
لڑکي کا رنگ اور بھي زرد ہوگيا، اس نے کوئي جواب نہ ديا، ليکن جب تمام لڑکوں نے اسے دم سلاسہ ديا تو اسکي وحشت دور ہوئي اس نے مان ليا کہ وہ سراج الدين کي بيٹي سکينہ ہے۔
آٹھ رضا کار نوجوانوں نے ہر طرح سے سکينہ کي دل جوئي کي، اسے کھانا کھلايا، دودھ پلايا، اور لاري ميں بيٹھا ديا، ايک نے اپنا کوٹ اتار کر اسے دے ديا، کيونکہ دوپٹہ نہ ہونے کے باعث وہ بہت الجھن محسوس کر رہي تھي، اور بار بار بانہوں سے اپنے سينے کو ڈھانکنے کي ناکام کوشش ميں مصروف تھي۔ کئي دن گزر گئے ۔۔۔۔۔۔۔سراج الدين کو سکينہ کي کوئي خبر نہ ملي، وہ دن بھر مختلف کميپوں اور دفتروں کے چکر کاٹتا رہتا، ليکن کہيں سے بھي اسکي بيٹي سکينہ کا پتہ نہ چلا سکا، رات کو وہ بہت دير تک ان رضاکر نوجوانوں کي کاميابي کيلئے دعائيں مانگتا رہا، جنہوں نے اسکو يقين دلايا تھا کہ اگر سکينہ زندہ ہوئي تو چند ہي دنوں ميں وہ اسے ڈھونڈ نکاليں گے۔
ايک روز سراج الدين نے کيمپ ميں ان نوجوان رضا کاروں کو ديکھا، لاري ميں بيٹھے تھے، سراج الدين بھاگا بھاگا ان کے پاس گيا، لاري چلنے والي تھي کہ اس نے پوچھا بيٹا ميري سکينہ کا پتہ چلا؟
سب نے يک زبان ہو کر کہا چلا جائے گا، چل جائے گا اور لاري چلادي۔
سراج الدين نے ايک بار پھر ان نوجوانوں کي کاميابي کيلئے دعا مانگي اور اس کا جي کس قدر ہلکا ہوگيا، شام کے قريب کيمپ ميں جہاں سراج الدين بيٹھا تھا، اس کے پاس ہي کچھ گر بڑ سي ہوئي چار آدمي کچھ اٹھا کر لارہے تھے، اس نے دريافت کيا تو معلوم ہو کہ ايک لڑکي ريلوے لائن کے پاس بے ہوش پڑي تھي، لوگ اسے اٹھا کر لائے ہيں، سراج الدين ان کے پيچھے پيچھے ہوليا، لوگوں نے لڑکي کو اسپتال والوں کے سپرد کيا اور چلے گئے۔
کچھ دير بعد ايسے ہي اسپتال کے باہر گڑے ہوئے لکڑي کے کھمبے کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا، پھر آہستہ آہستہ اندر چلا گيا، کمرے ميں کوئي نہيں تھا، ايک اسٹيريچر تھا، جس پر ايک لاش پڑي تھي، سراج الدين چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کي طرف بڑھا، کمرے ميں دفعتا روشني ہوئي سراج الدين نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہو تل ديکھا اور چلايا، سکينہ۔
ڈاکٹر نے جس نے کمرے ميں روشني کي تھي، سراج الدين سے پوچھا کيا ہے؟
سراج الدين کے حلق سے صرف اس قدر نکل سکا،جي ميں ۔۔۔۔۔ جي ميں۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا باپ ہوں۔
ڈاکٹر نے اسٹريچر پر پڑي ہوئي لاش کي طرف ديکھا، اس کي نبض ٹٹولي اور سراج الدين سے کہا کھڑکي کھول دو۔
سکينہ کے مردہ جسم ميں جنبش پيدا ہوئي ، بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نيچے سرکا ديا، بوڑھا سراج الدين خوشي سے چلايا، زندہ ہے۔۔۔۔۔۔ميري بيٹی زندہ ہے۔۔۔۔ڈاکٹر سر سے پير تک پسينے ميں غرق ہوگيا۔
 

الف عین

لائبریرین
کالی شلوار بھی حاضر ہے۔ جوجو کی تصحیح کردہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کالی شلوار
(سعادت حسن منٹو(

دہلی سے آنے سے پہلے وہ انبالہ چھاؤنی میں تھی، جہاں کئی گورے اس کے گاہک تھے۔ ان گوروں سے ملنے جلنے کے باعث وہ انگریزی کے دس پندرہ جملے سیکھ گئی تھی۔ ان کو وہ عام گفتگو میں استعمال نہیں کرتی تھی لیکن جب وہ یہاں آئی اور اس کا کاروبار نہ چلا تو ایک روزاس نے اپنی پڑوسن طمنچہ جان سے کہا۔ ” دِس لیف.... ویری بیڈ۔“ یعنی یہ زندگی بہت بری ہے، جبکہ کھانے ہی کو نہیں ملتا۔

انبالہ چھاؤنی میں اس کا دھندا بہت اچھا چلتا تھا۔ چھاؤنی کے گورے شراب پی کر اس کے پاس آجاتے تھے اور وہ تین چار گھنٹوں میں ہی آٹھ دس گوروں کو نپٹا کر بیس تیس روپے پیدا کرتی تھی۔ یہ گورے، اس کے ہم وطنوں کے مقابلے میں اچھے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسی زبان بولتے تھے جس کا مطلب سلطانہ کی سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر ان کی زبان سے یہ لاعلمی اس کے حق میں بہت اچھی ثابت ہوتی تھی۔ اگر وہ اس سے کچھ رعایت چاہتے تو وہ کہہ دیا کرتی تھی۔ ”صاحب ہماری سمجھ میں تمہاری بات نہیں آتی۔“ اور اگر وہ اس سے ضرورت سے زیادہ چھیڑ چھاڑ کرتے تو وہ اپنی زبان میں گالیاں دینی شروع کردیتی تھی۔ وہ حیرت میں اس کے منہ کی طرف دیکھتے تو وہ کہتی۔ ”صاحب ! تم ایک دم الو کا پٹھا ہے، حرامزاد ہے، سمجھا۔“ یہ کہتے وقت وہ لہجہ میں سختی پیدا نہ کرتی بلکہ بڑے پیار کے ساتھ ان سے باتیں کرتی۔ گورے ہنس دیتے اور ہنستے وقت وہ سلطانہ کو بالکل الو کے پٹھے دکھائی دیتے۔
مگر یہاں دہلی میں وہ جب سے آئی تھی ایک بھی گورا اس کے یہاں نہیں آیا تھا۔ تین مہینے اس کو ہندوستان کے اس شہر میں رہتے ہو گئے تھے جہاں اس نے یہ سنا تھا کہ بڑے لاٹ صاحب رہتے ہیں مگر صرف چھ آدمی اس کے پاس آئے تھے۔ صرف چھ، یعنی مہینے میں دو اور ان چھ گاہگوں سے خدا جھوٹ نہ بلوائے ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کئے تھے۔ تین روپے سے زیادہ پر کوئی نہ مانتا تھا۔ سلطانہ نے ان میں سے پانچ آدمیوں کو اپنا ریٹ دس روپے بتلایا تھا مگر تعجب کی بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے یہی کہا ”بھئی ہم تین روپے سے ایک کوڑی زیادہ نہیں دیں گے۔“ جانے کیا بات تھی کہ ان میں سے ہر ایک نے اسے تین روپے کے قابل سمجھا۔ چنانچہ جب چھٹا آیا تو اس نے خود اس کہا۔” دیکھو میں تین روپے ایک ٹیم کے لوں گی؛ اس سے ایک دھیلا تم کم کہو تو میں نہ لوں گی۔ اب تمہاری مرضی ہو تو رہو ورنہ جاؤ“۔ چٹھے آدمی نے یہ سن کر تکرار نہ کی اور اس کے ہاں ٹھہر گیا۔ جب دوسرے کمرے میں ....دروازہ بند کرکے اپنا کوٹ اتارنے لگا تو سلطانہ نے کہا ”لایئے ایک روپے دودھ کا۔“ اس نے ایک روپیہ تو نہ دیا لیکن نئے بادشاہ کی چمکتی ہوئی چونی جیب میں سے نکال کر اس کو دے دی اور سلطانہ نے بھی چپکے سے لے لی کہ چلو جو آیا مال غنیمت ہے۔

ساڑھے اٹھارہ روپے ماہوار تین مہینوں میں.... بیس روپے ماہوار تو اس کوٹھے کا کرایہ تھا جس کو مالک انگریزی زبان میں فلیٹ کہتا تھا۔ اس فلیٹ میں ایسا پاخانہ تھا جس میں زنجیر کھینچنے سے ساری گندگی پانی کے زور سے ایک دم نل میں غائب ہو جاتی تھی اور بڑا شور ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو اس شور نے اسے بہت ڈرایا تھا۔ پہلے دن جب وہ رفع حاجت کے لئے اس پاخانہ میں گئی تو اس کی کمر میں شدت کا درد ہو رہا تھا فارغ ہو کر جب اٹھنے لگی تو اس نے لٹکتی ہوئی زنجیر کا سہارا لے لیا۔ اس زنجیر کو دیکھ کر اس نے یہ خیال کیا چونکہ یہ مکان خاص طور سے ہم لوگوں کی رہائش کے لئے تیار کئےکئے گئے ہیں، یہ زنجیر اس لئے لٹکائی گئی ہے کہ اٹھتے وقت تکلیف نہ ہو اور سہارا مل جایا کرے۔ مگر جونہی زنجیر پکڑ کر اس نے اٹھنا چاہا اوپر کھٹ کھٹ سی ہوئی اور پھر ایک دم پانی اس شور کے ساتھ باہر نکلا کہ ڈر کے مارے اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔
خدا بخش دوسرے کمرے میں اپنا فوٹو گرافی کاسامان درست کر رہا تھا اور ایک صاف بوتل میں ہائیڈرو کونین ڈال رہا تھا کہ اس نے سلطانہ کی چیخ سنی۔ دوڑ کر باہر نکلا اور سلطانہ سے کہنے لگا ” کیا ہوا.... چیخ تمہاری تھی۔“
سلطانہ کا دل دھڑک رہا تھا۔ ”یہ موا پیخانہ ہے کیا.... بیچ میں یہ ریل گاڑیوں کی طرح زنجیر کیا لٹکا رکھی ہے۔ میری کمر میں درد تھا۔ میں نے کہا چلو اس کا سہارا لے لوں گی۔ پر اس موئی زنجیر کو چھیڑنا تھا کہ ایسا دھماکا ہوا کہ میں تم سے کیا کہوں۔“
اس پر خدا بخش بہت ہنسا تھا اور اس نے سلطانہ کو اس پیخانہ کی بابت سب کچھ بتا دیا تھا کہ یہ نئے فیشن کا ہے جس میں زنجیر ہلانے سے سب گندگی نیچے زمین میں دھنس جاتی ہے۔

خدابخش اور سلطانہ کا آپس میں کیسے سمبندھ ہوا یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ خدا بخش راولپنڈی کا تھا۔ انٹرنس پاس کرنے کے بعد اس نے لاری چلانا سیکھا۔ چنانچہ چار برس تک وہ راولپنڈی اور کشمیر کے درمیان لاری چلانے کا کام کرتا رہا۔ اس کے بعد کشمیر میں اس کی دوستی ایک عورت سے ہو گئی۔ اس کو بھگاکر وہ لاہور لے آیا۔ لاہور میں چونکہ اس کو کوئی کام نہ ملا اس لئے اس نے اس عورت کو پیشے پر بٹھا دیا۔ دو تین برس تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور وہ عورت کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی۔ خدا بخش کو معلوم ہوا کہ وہ انبالہ میں ہے وہ اس کی تلاش میں انبالہ آیا۔ اس کو سلطانہ مل گئی۔ سلطانہ نے اس کو پسند کیا چنانچہ دونوں کا سمبندھ ہو گیا۔

خدابخش کے آنے سے ایک دم سلطانہ کا کاروبار چمک اٹھا۔ عورت چونکہ ضعیف الاعتقاد تھی اس لئے اس نے سمجھا کہ خدا بخش بڑا بھاگوان ہے جس کے آنے سے اتنی ترقی ہوگئی چنانچہ اس خوش اعتقادی نے خدا بخش کی وقعت اس کی نظروں میں اور بھی بڑھا دی۔

خدا بخش آدمی محنتی تھا۔ وہ سارا دن ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا چنانچہ اس نے ایک فوٹو گرافر سے دوستی پیداکی جو ریلوے اسٹیشن کے باہر منٹ کیمرے سے فوٹو کھینچا کرتا تھا۔ اس سے اس نے فوٹو کھینچنا سیکھ لیا۔ پھر سلطانہ سے ساٹھ روپے لے کر کیمرہ بھی خرید لیا۔ آہستہ آہستہ ایک پردہ بھی بنوایا۔ دو کرسیاں خریدیں اور فوٹو دھونے کا سب سامان لے کر اس نے علیحدہ اپنا کام شروع کردیا۔

کام چل نکلا چنانچہ اس نے تھوڑے ہی عرصہ بعد اپنا اڈا انبالہ چھاؤنی میں قائم کردیا۔ یہاں وہ گوروں کے فوٹو کھینچتا رہتا۔ ایک مہینے کے اندر اندر اس کی چھاؤنی کے متعدد لوگوں سے واقفیت ہوگئی چنانچہ وہ سلطانہ کو وہیں لے گیا۔ یہاں چھاؤنی میں خدا بخش کے ذریعے سے کئی گورے سلطانہ کے مستقل گاہک بن گئے اور اس کی آمدنی پہلے سے دو گنی ہو گئی۔

سلطانہ نے کانوں کے لئے بندے خریدے، ساڑھے پانچ تولہ کی آٹھ کنگنیاں بھی بنوالیں، دس پندرہ اچھی اچھی ساڑھیاں بھی جمع کرلیں۔ گھر میں فرنیچر وغیرہ بھی آگیا۔ قصہ مختصر یہ کہ انبالہ چھاؤنی میں وہ بڑی خوش حال تھی۔ مگر ایکا ایکی نہ جانے خدا بخش کے دل میں کیا سمائی کہ اس نے دہلی جانے کی ٹھان لی۔ سلطانہ انکار کیسے کرتی جبکہ وہ خدا بخش کو اپنے لئے بہت مبارک خیال کرتی تھی۔ اس نے خوشی خوشی دہلی جانا قبول کرلیا بلکہ اس نے یہ بھی سوچا کہ اتنے بڑے شہر میں جہاں لاٹ صاحب رہتے ہیں اس کا دھندا اور بھی اچھا چلے گا۔ اپنی سہیلیوں سے وہ دہلی شہر کی تعریف سن چکی تھی۔ پھر وہاں حضرت نظام الدین اولیاءکی خانقاہ تھی جس سے اسے بے حد عقیدت تھی چنانچہ جلدی جلدی گھر کا بھاری سامان بیچ باچ کر خدا بخش کے ساتھ دہلی آگئی۔ یہاں پہنچ کر خدا بخش نے بیس روپے ماہوار پر ایک چھوٹا سا فلیٹ لے لیا جس میں وہ دونوں رہنے لگے۔
ایک ہی قسم کے نئے مکانوں کی لمبی سی قطار سڑک کے ساتھ ساتھ چلی گئی تھی۔ میونسپل کمیٹی نے شہر کا یہ حصہ خاص کسبیوں کے لئے مقرر کردیا تھا تاکہ وہ شہر میں جگہ جگہ اپنے اڈے نہ بنائیں۔ نیچے دکانیں تھیں اور اوپر دو منزلہ رہائشی فلیٹ تھے۔ چونکہ سب عمارتیں ایک ہی ڈیزائن کی تھیں اس لئے شروع شروع میں سلطانہ کو اپنا فلیٹ تلاش کرنے میں بہت دقت محسوس ہوتی تھی، پر جب نیچے لانڈری والے نے اپنا بورڈ گھر کی پیشانی پر لگا دیا تو اس کو ایک پکی نشانی مل گئی۔ ” یہاں میلے کپڑوں کی دھلائی کی جاتی ہے“۔ یہ بورڈ پڑھتے ہی وہ اپنا فلیٹ تلاش کرلیا کرتی تھی۔
اسی طرح اس نے اور بہت سی نشانیاں قائم کرلی تھیں مثلاً بڑے بڑے حروف میں جہاں کوئلوں کی دکان لکھا تھا وہاں اس کی سہیلی ہیرا بالی رہتی تھی جو کبھی کبھی ریڈیو میں گانے جایا کرتی تھی۔ جہاں ” شرفاءکے کھانے کا اعلیٰ انتظام ہے“ لکھا تھا وہاں اس کی دوسری سہیلی مختار رہتی تھی۔ نواڑ کے کارخانے کے اوپر انوری رہتی تھی جو اس کارخانے کے سیٹھ کے پاس ملازم تھی چونکہ سیٹھ صاحب کو رات کے وقت کارخانے کی دیکھ بھال کرنا ہوتی تھی اس لئے وہ رات کو انوری کے پاس ہی رہتے تھے۔

دکان کھولتے ہی گاہک تھوڑے ہی آتے ہیں۔ چنانچہ جب ایک مہینے تک سلطانہ بیکار رہی تو اس نے یہی سوچ کر اپنے دل کو تسلی دی پر جب دو مہینے گزر گئے اور کوئی اس کے کوٹھے پر نہ آیا تو اسے بہت تشویش ہوئی۔ اس نے خدا بخش سے کہا۔ ” کیابات ہے خدا بخش! دو مہینے آج پورے ہو گئے ہیں ہمیں یہاں آئے ہوئے، کسی نے ادھر کا رخ ہی نہیں کیا.... مانتی ہوں آج کل بازار بہت مندا ہے پر اتنا بھی تو نہیں کہ مہینے بھر میں کوئی شکل ہی دیکھنے نہ آئے۔“ خدا بخش کو بھی یہ بات بہت عرصے سے کھٹک رہی تھی، مگر وہ خاموش تھا پر جب سلطانہ نے خود بات چھیڑی تو اس نے کہا ” میں کئی دن سے اس کی بابت سوچ رہا ہوں۔ ایک بات میری سمجھ میں آئی ہے وہ یہ کہ لوگ باگ جنگ دھندوں میں پڑنے کی وجہ سے بھاگ کر دوسرے دھندوں میں ادھر کا راستہ بھول گئے.... یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ ....“
وہ اس سے آگے کچھ کہنے ہی والاتھا کہ سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آواز آئی۔ خدا بخش اور سلطانہ دونوں اس آواز کی طرف متوجہ ہو ئے۔ تھوڑی دیر کے بعد دستک ہوئی۔ خدا بخش نے لپک کر دروازہ کھولا۔ ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ یہ پہلا گاہک تھا جس سے تین روپے میں سودا طے ہوا۔ اس کے بعد پانچ اور آئے یعنی تین مہینے میں چھ، جن سے سلطانہ نے صرف ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کئے۔

بیس روپے ماہوار تو فلیٹ کے کرایہ میں چلے جاتے تھے۔ پانی کا ٹیکس اور بجلی کا بل جدا تھا۔ اس کے علاوہ گھر کے دوسرے خرچ تھے کھانا پینا کپڑے لتے۔ دوا اور دارو اور آمدن کچھ بھی نہیں۔ ساڑھے اٹھارہ روپے تین مہینوں میں آئیں تو اسے آمدن تو نہیں کہہ سکتے۔ سلطانہ پریشان ہو گئی۔ ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں جو اس نے انبالہ میں بنوائیں تھیں آہستہ آہستہ بک گئیں۔ آخری کنگنی کی جب باری آئی تو اس نے خدا بخش سے کہا۔ ” تم میری سنو اور چلو واپس انبالہ، یہاں کیا دھراہے۔ بھئی ہو گا، پر ہمیں تو یہ شہر راس نہیں۔ تمہاراکام وہاں خوب چلتا تھا، چلو وہیں چلتے ہیں، جو نقصان ہوا ہے اس کو اپنا سر صدقہ سمجھو۔ یہ آخری کنگنی بیچ کر آؤ میں اسباب وغیرہ باندھ کر تیار رکھتی ہوں۔ آج را ت کی گاڑی سے یہاں سے چل دیں گے۔“
خدابخش نے کنگنی سلطانہ کے ہاتھ سے لے لی اور کہا ”نہیں جانِ من! انبالہ اب نہیں جائیں گے یہیں دہلی میں رہ کر کمائیں گے۔ یہ تمہاری چوڑیاں سب کی سب یہیں واپس آئیں گی۔ اللہ پر بھروسہ رکھو، وہ بڑا کارساز ہے۔ یہاں پر بھی کوئی نہ کوئی اسباب بنا ہی دے گا۔“
سلطانہ چپ ہو رہی چنانچہ آخری کنگنی بھی ہاتھ سے اتر گئی۔ بچے ہاتھ دیکھ کر اس کو بہت رنج ہوتا تھا پر کیا کرتی پیٹ کو بھی آخر کسی حیلے بھرنا تھا۔

جب پانچ مہینے گزر گئے اور آمدن خرچ کے مقابلے میں چوتھائی سے بھی کچھ کم رہی تو سلطانہ کی پریشانی اور زیادہ بڑھ گئی۔ خدا بخش بھی سارا دن اب گھر سے غائب رہنے لگا۔ سلطانہ کو اس کا بھی دکھ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پڑوس میں اس کی دو تین ملنے والیاں موجود تھیں جن کے ساتھ وہ وقت کاٹ سکتی تھی۔ پر ہر روز ان کے یہاں جانا اور گھنٹوں بیٹھے رہنا اس کو بہت برا لگتا تھا چنانچہ رفتہ رفتہ اس نے ان سہیلیوں سے ملنا جلنا بالکل ترک کردیا۔ سارا دن وہ اپنے سنسان مکان میں بیٹھی رہتی، کبھی چھالیہ کاٹتی رہتی، کبھی اپنے پرانے اور پھٹے پرانے کپڑوں کو سیتی رہتی اور کبھی بالکونی میں آکر جنگلے کے پاس کھڑی ہو جاتی تھی اور سامنے ریلوے شیڈ میں ساکت اور متحرک انجنوں کی طرف گھنٹوں بے مطلب دیکھتی رہتی۔

سڑک کی دوسری طرف مال گودام تھا جو اس کونے سے اس کونے تک پھیلا ہوا تھا۔ داہنے ہاتھ کو لوہے کی چھت کے نیچے بڑی بڑی گانٹھیں پڑی رہتی تھیں اور ہر قسم کے مال اسباب کے ڈھیر لگے رہتے تھے۔ بائیں ہاتھ کو کھلا میدان تھا جس میں بے شمار ریل کی پٹڑیاں بچھی ہوئی تھیں۔ دھوپ میں لوہے کی یہ پٹڑیاں چمکتیں تو سلطانہ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتی جن پر نیلی نیلی رگیں بالکل ان پٹڑیوں کی طرح ابھری رہتی تھیں۔ اس لمبے اور کھلے میدان میں ہر وقت انجن اور گاڑیاں چلتی رہتی تھیں۔ کبھی ادھر کبھی ادھر۔ ان انجنوں اور گاڑیوں کی چھک چھک اور پھک پھک کی صدائیں گونجتی رہتی تھیں۔ صبح سویرے جب وہ اٹھ کر بالکونی میں آتی تو ایک عجیب سماں اسے نظر آتا۔ دھندلکے میں انجنوں کے منہ سے گاڑھا گاڑھا دھواں نکلتا اور گدلے آسمان کی جانب موٹے اور بھاری آدمیوں کی طرح اٹھتا دکھائی دیتا تھا۔ بھاپ کے بڑے بڑے بال بھی ایک عجیب شور کے ساتھ پٹڑیوں سے اٹھتے تھے اور ہولے ہولے ہوا کے اندر گھل مل جاتے تھے پھر کبھی کبھی جب وہ گاڑی کے کسی ڈبے کو جسے انجن نے دھکا دے کر چھوڑ دیا ہوں اکیلے پٹڑیوں پر چلتا دیکھتی تو اسے اپنا خیال آتا۔ وہ سوچتی کہ اسے بھی کسی نے پٹڑی پر دھکا دے کر چھوڑ دیا ہے اور خود بخود جارہی ہے۔ دوسرے لوگ کانٹے بدل رہے ہیں اور وہ چلی جا رہی ہے.... نہ جانے کہاں۔ پھر ایک روز ایسا آئے گا کہ جب اس دھکے کا زور آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گا اور وہ کہیں رک جائے گی کسی ایسے مقام پر جو اس کا دیکھا بھالا نہ ہو۔
یوں تو بے مطلب گھنٹوں ریل کی ان ٹیڑھی پٹڑیوں اور ٹھہرے اور چلتے ہوئے انجنوں کی طرف دیکھتی رہتی تھی پر طرح طرح کے خیات اس کے دماغ میں آتے رہتے تھے۔ انبالہ چھاؤنی میں جب وہ رہتی تھی تو اسٹیشن کے پاس ہی اس کا مکان تھا مگر وہاں اس نے کبھی ان چیزوں کو ایسی نظروں سے نہیں دیکھا تھا۔ اب توکبھی کبھی اس کے دماغ میں یہ بھی خیال آتا کہ جو سامنے ریل کی پٹڑیوں کا جال سا بچھا ہوا ہے اور جگہ جگہ سے بھاپ اور دھواں اٹھ رہاہے ایک بہت بڑا چکلہ ہے۔ بہت سی گاڑیاں ہیں جن کو چند موٹے موٹے انجن ادھر ادھر دھکیلتے رہتے ہیں۔ سلطانہ کو بعض اوقات یہ انجن سیٹھ معلوم ہوتے جو کبھی کبھی انبالہ میں اس کے ہاں آیا کرتے تھے پھر کبھی کبھی جب وہ کسی انجن کو آہستہ آہستہ گاڑیوں کی قطار کے پاس گزرتا دیکھتی تو اسے ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی آدمی چکلے کے کسی بازار میں سے اوپر کوٹھوں کی طرف دیکھتا جا رہا ہے۔
سلطانہ سمجھتی تھی کہ ایسی باتیں سوچنا دماغ کی خرابی کا باعث ہے، چنانچہ جب اس قسم کے خیالات اس کو آنے لگے تو اس نے بالکونی میں جانا چھوڑ دیا۔ خدا بخش سے اس نے بارہا کہا دیکھو، میرے حال پر رحم کرو۔ یہاں گھر میں رہا کرو ۔ میں سارا دن یہاں بیماروں کی طرح پڑی رہتی ہوں مگر اس نے ہر بار سلطانہ سے یہ کہہ کر اس کی تشفی کردی ”جان من.... میں باہر کمانے کی فکر کر رہا ہوں۔ اللہ نے چاہا تو چند دنوں میں بیڑا پار ہو جائے گا۔“
پورے پانچ مہینے ہوگئے تھے مگر ابھی تک نہ سلطانہ کا بیڑا پار ہوا تھا اور نہ خدا بخش کا۔
محرم کا مہینہ آرہا تھا مگر سلطانہ کے پاس کالے کپڑے بنوانے کے لئے کچھ بھی نہ تھا۔ مختار نے لیڈی ہیملٹن کی ایک نئی وضع کی قمیض بنوائی تھی جس کی آستینیں کالی جارجٹ کی تھیں۔ اس کے ساتھ میچ کرنے کے لئے اس کے پاس کالی ساٹن کی شلوار تھی جو کاجل کی طرح چمکتی تھی۔ انور ی نے ریشمی جارجٹ کی ایک بڑی نفیس ساڑھی خریدی تھی۔ اس نے سلطانہ سے کہا تھا وہ اس ساڑھی کے نیچے سفید بوسکی کا کوٹ پہنے گی کیونکہ یہ نیا فیشن ہے۔ اس ساڑھی کے ساتھ پہننے کو انوری کالی مخمل کا ایک جوتا لائی تھی جو بڑا نازک تھا۔ سلطانہ نے جب یہ تمام چیزیں دیکھیں تو اس کو اس احساس نے بہت دکھ دیا کہ وہ محرم منانے کے لئے ایسا لباس خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔
انوری اور مختار کے پاس یہ لباس دیکھ کر جب وہ گھر آئی تو اس کا دل بہت مغموم تھا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک پھوڑا سا اس کے اندر پیدا ہو گیا ہے۔ گھر بالکل خالی تھا۔ خدا بخش بھی حسب معمول باہر تھا۔ دیر تک وہ دری پر گاؤ تکیہ کو سر کے نیچے رکھے لیٹی رہی پر جب اس کی گردن اونچائی کے باعث اکڑ سی گئی تو وہ اٹھ کر بالکونی میں چلی گئی تاکہ غم افزا خیالات کو اپنے دماغ سے نکال دے۔
سامنے پٹڑیوں پر گاڑیوں کے ڈبے کھڑے تھے۔ پر انجن کوئی بھی نہیں تھا۔ شام کا وقت تھا چھڑکاؤ ہوچکا تھا۔ اس لئے گرد و غبار دب گیا تھا۔ بازار میں ایسے آدمی چلنے شروع ہو گئے تھے جو تانک جھانک کرنے کے بعد چپ چاپ گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک آدمی نے گردن اونچی کر کے سلطانہ کی طرف دیکھا۔
سلطانہ مسکرا دی اور اس کو بھول گئی کیونکہ سامنے پٹڑیوں پر ایک انجن نمودار ہو گیا تھا۔ سلطانہ نے غور سے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یہ خیال دماغ سے نکالنے کی خاطر جب اس نے پھر سڑک کی طرف دیکھا تو وہی آدمی بیل گاڑیوں کے پاس کھڑا نظر آیا۔ وہی جس نے اس کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا تھا۔ سلطانہ نے ہاتھ سے اسے اشارہ کیا۔ اس آدمی نے ادھر ادھر دیکھ کر ہاتھ کے اشارے سے پوچھا ”کدھر سے آؤں؟“ سلطانہ نے اسے راستہ بتا دیا۔ وہ آدمی تھوڑی دیر کھڑا رہا مگر بڑی پھرتی سے اوپر چلا آیا۔
سلطانہ نے اسے دری پر بٹھایا جب وہ بیٹھ گیا تو اس نے سلسلہ گفتگو شروع کرنے کے لئے کہا ” آپ اوپر آتے ہوئے ڈر رہے تھے۔“ وہ آدمی یہ سن کر مسکرایا۔ ”تمہیں کیسے معلوم ہوا.... ڈرنے کی بات ہی کیا تھی؟“ اس پر سلطانہ نے کہا کہ ”یہ میں نے اس لئے کہا کہ آپ دیر تک وہیں کھڑے رہے اور پھر کچھ سوچ کر ادھر آئے“۔ وہ یہ سن کر مسکرا دیا ” تمہیں غلط فہمی ہوئی۔ میں تمہارے اوپر والے فلیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہاں کوئی عورت کھڑی ایک مرد کو ٹھینگا دکھا رہی تھی۔ مجھے یہ منظر پسند آیا پھر بالکونی میں سبز بلب روشن ہوا تو میں کچھ دیر کے لئے اور ٹھہر گیا۔ سبز روشنی مجھے بہت پسند ہے۔ آنکھوں کو اچھی لگتی ہے۔ “ یہ کہہ کر اس نے کمرے کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ سلطانہ نے پوچھا ” آپ جا رہے ہیں“۔ آدمی نے جواب دیا۔ ” نہیں میں تمہارے اس مکان کو دیکھنا چاہتا ہوں.... چلو مجھے تمام کمرے دکھا“۔
سلطانہ نے اس کو تینوں کمرے ایک ایک کر کے دکھا دئے۔ اس آدمی نے بالکل خاموشی سے ان کمروں کا جائزہ لیا۔ جب وہ دنوں پھر اسی کمرہ میں آگئے جہاں پہلے بیٹھے تھے تو اس آدمی نے کہا ” میرا نام شنکر ہے“۔
سلطانہ نے پہلی بار غور سے شنکر کی طرف دیکھا۔ وہ متوسط قد کا معمولی شکل و صورت کا انسان تھا۔ مگر اس کی آنکھیں غیر معمولی طور پر صاف و شفاف تھیں۔ کبھی کبھی ان میں ایک عجیب قسم کی چمک بھی پیدا ہوتی تھی۔ گھٹا اور کسرتی بدن تھا۔ کنپٹیوں پر اس کے بال سفید ہو رہے تھے۔ گرم پتلون پہنے تھا۔ سفید قمیض تھی جس کا کالر گردن پر سے اوپر کو اٹھا ہوا تھا۔
شنکر کچھ اسی طرح دری پر بیٹھا ہوا تھا کہ معلوم ہوتا تھا شنکر کی بجائے سلطانہ گاہک ہے۔ اس احساس نے سلطانہ کو قدرے پریشان کردیا چنانچہ اس نے شنکر سے کہا ”فرمایئے....“
شنکر بیٹھا تھا، یہ سن کر لیٹ گیا۔ ” میں کیا فرماؤں، کچھ تم ہی فرماؤ، بلایا تم نے ہے مجھے۔“ جب سلطانہ کچھ نہ بولی تو اٹھ بیٹھا۔ ” میں سمجھا، لو اب مجھ سے سنو جو کچھ تم نے سمجھا ہے غلط ہے، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کچھ دے جایاکرتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی طرح میری بھی فیس ہے۔ مجھے جب بلایا جائے تو فیس دینی ہی پڑتی ہے۔“
سلطانہ یہ سن کر چکرا گئی۔ مگر اس کے باوجود اسے بے اختیار ہنسی آگئی۔
”آپ کیا کام کرتے ہیں؟“
شنکر نے جواب دیا ”یہی جو تم لوگ کرتے ہو۔“
”کیا؟“
”میں....میں.... کچھ بھی نہیں کرتی۔“
”میں بھی کچھ نہیں کرتا۔“
سلطانہ نے بھنا کر کہا ” یہ کوئی بات نہ ہوئی.... آپ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرتے ہوں گے۔“
شنکر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا ” تم بھی کچھ نہ کچھ ضرورر کرتی ہوگی۔“
”جھک مارتی ہوں۔“
”تو آؤ دونوں جھک ماریں“۔
”میں حاضر ہوں۔ مگر میں جھک مارنے کے دام کبھی نہیں دیا کرتا۔“
”ہوش کی دوا کرو....یہ لنگر خانہ نہیں۔“
”اور میں بھی والنٹیئر نہیں ہو!“
سلطانہ یہاں رک گئی۔ اس نے پوچھا ” یہ والنٹیئر کون ہوتے ہیں؟“
شنکر نے جواب دیا۔ ”الو کے پٹھے۔“
”میں بھی الو کی پٹھی نہیں۔“
”مگر وہ آدمی جو تمہارے ساتھ رہتا ہے ضرور الو کا پٹھا ہے۔“
”کیوں؟“
اس لئے کہ وہ کئی دنوں سے ایک ایسے خدا رسیدہ فقیر کے پاس اپنی قسمت کھلوانے کی خاطر جا رہاہے جس کی اپنی قسمت زنگ لگے تالے کی طرح بند ہے۔“ یہ کہہ کر شنکر ہنسا۔
اس پر سلطانہ نے کہا۔ ” تم ہندو ہو اس لئے ہمارے ان بزرگوں کا مذاق اڑاتے ہو۔“
شنکر مسکرا دیا۔ ”ایسی جگہوں پر ہندو مسلم کا سوال پیدا نہیں ہوا کرتے۔ بڑے بڑے پنڈت مولوی اگر یہاں آئیں تو وہ شریف آدمی بن جائیں۔“
” جانے تم کیا اوٹ پٹانگ باتیں کر رہے ہو....
بولو، رہو گے اسی شرط پر جو میں پہلے بتا چکاہوں۔“
سلطانہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ” تو جاؤ رستہ پکڑو۔“
شنکر آرام سے اٹھا۔ پتلون کی جیبوں میں اس نے اپنے دونوں ہاتھ ٹھونسے اور جاتے ہوئے کہا۔ ” میں کبھی کبھی اس بازار سے گزرتا ہوں۔ جب بھی تمہیں میری ضرورت ہو، بلا لینا.... میں بہت کام کا آدمی ہوں۔“
شنکر چلا گیا اور سلطانہ کالے لباس کو بھول کر دیر تک اس کے متعلق سوچتی رہی۔ اس آدمی کی باتوں نے اس کے دکھ کو بہت ہلکا کردیا تھا۔ اگر وہ انبالہ میں آیا ہوتا جہاں وہ خوش حال تھی تو اس نے کسی اور ہی رنگ میں ا س آدمی کو دیکھا ہوتا اور بہت ممکن ہے کہ اسے دھکے دے کر باہر نکال دیا ہوتا یہاں چونکہ وہ اداس رہتی تھی اس لئے شنکر کی باتیں پسند آئیں۔

شام کو جب خدا بخش آیا تو سلطانہ نے اس سے پوچھا ”تم آج سارا دن کدھر غائب رہے ہو؟“
خدا بخش تھک کر چور چور ہو رہا تھا کہنے لگا ” پرانے قلعے سے آرہا ہوں۔ وہاں ایک بزرگ کچھ دنوں سے ٹھہرے ہوئے ہیں۔ انہی کے پاس ہر روز جاتا ہوں کہ ہمارے دن پھرجائیں۔“
”کچھ انہوں نے تم سے کہا۔“
”نہیں ابھی وہ مہربان نہیں ہوئے.... پر سلطانہ، میں جو ان کی خدمت کر رہاہوں وہ اکارت کبھی نہیں جائے گی۔ اللہ کا فضل شاملِ حال رہا تو ضرور وارے نیارے ہوجائیں گے۔“
سلطانہ کے دماغ میں محرم بنانے کا خیال سمایا ہوا تھا۔ خدا بخش سے رونی آواز میں کہنے لگی۔ سارا سارا دن باہر غائب رہتے ہو۔ میں یہاں پنجرے میں قید رہتی ہوں۔ نہ کہیں جا سکتی ہوں۔ محرم سر پر آگیا ہے۔ کچھ تم نے اس کی بھی فکر کی کہ مجھے کالے کپڑے چاہئیں۔گھر میں پھوٹی کوڑی تک نہیں۔ کنگنیاں تھیں سو وہ ایک ایک کرکے بک گئیں۔ اب تم ہی بتاؤ کہ کیاہوگا؟.... یوں فقیروں کے پیچھے کب تک مارے مارے پھرا کروگے۔ مجھے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہاں دہلی میں خدا نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا ہے۔ میری سنو تو اپنا کام شروع کر دو، کچھ تو سہارا ہو ہی جائے گا۔“
خدابخش دری پر لیٹ گیا اورکہنے لگا۔ ”پر یہ کام شروع کرنے کے لئے بھی تو تھوڑا بہت سرمایہ چاہئے.... خدا کے لئے اب ایسی دکھ بھری باتیں نہ کرو۔ مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتیں۔ میں نے سچ مچ انبالہ چھوڑنے میں سخت غلطی کی تھی۔ پر جو کرتا ہے اللہ ہی کرتاہے اور ہماری بہتری ہی کےلئے کرتاہے۔ کیا پتہ ہے کچھ دیر اور تکلیف برداشت کرنے کے بعد ہم....“
سلطانہ نے بات کاٹ کر کہا۔”تم خدا کے لئے کچھ کرو۔ چوری کرو یا ڈاکہ ڈالو پرمجھے شلوار کا کپڑا لا دو۔ میرے پاس سفید بوسکی کی ایک قمیض پڑی ہوئی ہے اس کو میں کالا رنگوا لوں گی۔ سفید شفون کا ایک دوپٹا بھی میرے پاس موجود ہے۔ وہی جو تم نے دیوالی پر مجھے لا کر دیا تھا۔ یہ بھی قمیض کے ساتھ ہی رنگوا لیا جائے گا۔ ایک صرف شلوار کی کسر ہے سو وہ تم کسی نہ کسی طرح پیدا کردو.... دیکھو تمہیں میری جان کی قسم، کسی نہ کسی طرح ضرور لا دو.... میری بھتی نہ کھاؤ اگر نہ لا۔“
خدابخش اٹھ بیٹھا۔ ” اب تم خواہ مخواہ زور دئے چلی جا رہی ہو.... میں کہاں سے لاؤں گا.... افیم کھانے کے لئے تو میرے پاس پیسے نہیں۔“
”کچھ بھی کرو مگر ساڑھے چار گز کالی شلوار کا کپڑا لا دو۔“
”دعا کرو کہ آج رات ہی اللہ دو تین بندے بھیج دے۔“
”لیکن تم کچھ نہیں کرو گے.... تم اگر چاہو تو ضرور اتنے پیسے پیدا کر سکتے ہو۔ جنگ سے پہلے ساٹن بارہ چودہ آنے گز مل جاتی تھی۔ اب سوا روپے گز کے حساب سے ملتی ہے ساڑھے چار گزوں پر کتنے روپے خرچ ہو جائیں گے؟“
”اب تم کہتی ہو تو میں کوئی حیلہ کروں گا۔“ یہ کہہ کر خدا بخش اٹھا۔ ” لو اب ان باتوں کو بھول جاؤ۔ میں ہوٹل سے کھانا لاتا ہوں۔“

ہوٹل سے کھانا آیا۔ دونوں نے مل کر زہر مار کیا اور سوگئے۔ صبح ہوئی۔ خدابخش پرانے قلعہ والے فقیر کے پاس چلا گیا۔ سلطانہ اکیلی رہ گئی۔ کچھ دیر لیٹی رہی۔ کچھ دیر سوئی رہی۔ ادھر ادھر کمروں میں ٹہلتی رہی۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اس نے اپنا شفون کا دوپٹہ اور سفید بوسکی کی قمیض نکالی اور نیچے لانڈری والے کو رنگنے کے لئے دے آئی۔ کپڑے دھونے کے علاوہ وہاں رنگنے کا کام بھی ہوتا تھا۔

یہ کام کرنے کے بعد اس نے واپس آکر فلموں کی کتابیں پڑھیں جن میں اس کی دیکھی ہوئی فلموں کی کہانی اور گیت چھپے ہوئے تھے۔ یہ کتابیں پڑھتے پڑھتے وہ سو گئی۔ جب اٹھی تو چار بج چکے تھے کیونکہ دھوپ آنگن میں موری کے پاس پہنچ چکی تھی۔ نہا دھو کر فارغ ہوئی تو گرم چادر اڑھ کر بالکونی میں آکھڑی ہوئی۔ قریباً ایک گھنٹہ سلطانہ بالکونی میں کھڑی رہی۔ اب شام ہو گئی تھی۔ بتیاں روشن ہو رہی تھیں۔ نیچے سڑک میں رونق کے آثار نظر آرہے تھے۔ سردی میں تھوڑی سی شدت ہو گئی تھی مگر سلطانہ کو یہ ناگوار معلوم نہ ہوا۔ وہ سڑک پر آتے جاتے ٹانگوں اور موٹروں کی طرف ایک عرصے سے دیکھ رہی تھی۔ دفعتاً اسے شنکر نظر آیا۔ مکان کے نیچے پہنچ کر اس نے گردن اونچی کی اور سلطانہ کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ سلطانہ نے غیر ارادی طور پر ہاتھ کا اشارہ کیا اور اسے اوپر بلا لیا۔
جب شنکر اوپر آگیا تو سلطانہ بہت پریشان ہوئی کہ اسے کیا کہے۔ در اصل اس نے ایسے ہی بنا سوچے سمجھے اسے اشارہ کر دیا تھا۔ شنکر بے حد مطمئن تھا جیسے اس کا اپنا گھر ہے۔ چنانچہ بڑی بے تکلفی سے پہلے روز کی طرح گاؤ تکیہ کو سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا۔ جب سلطانہ نے دیر تک اس سے کوئی بات نہ کی تو اس نے کہا ” تم سو دفعہ مجھے بلا سکتی ہو اور سو دفعہ ہی کہہ سکتی ہو کہ چلے جاؤ.... میں ایسی باتوں پر کبھی ناراض نہیں ہوا کرتا۔“
سلطانہ شش و پنج میں گرفتار ہو گئی کہنے لگی۔ ”نہیں بیٹھو تمہیں جانے کو کون کہتا ہے۔
شنکر اس پر مسکر ادیا۔ ”تو میری شرطیں تمہیں منظور ہیں۔“
”کیسی شرطیں؟“ سلطانہ نے ہنس کر کہا ”کیا نکاح کر رہے ہو مجھ سے ؟“
”نکاح اور شادی کیسی؟....نہ تم عمر بھر میں کسی سے نکاح کروگی، نہ میں.... یہ رسمیں ہم لوگوں کے لئے نہیں....چھوڑو ان فضولیات کو، کوئی کام کی بات کرو۔“
”بولو کیا کروں؟“
”تم عورت ہو....کوئی ایسی بات کرو جس سے دو گھڑی دل بہل جائے.... اس دل میں صرف دکانداری ہی دکانداری نہیں، کچھ اور بھی ہے۔“
سلطانہ ذہنی طور پر اب شنکر کو قبول کر چکی تھی، صاف صاف کہو تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟“
”جو دوسرے چاہتے ہیں“۔ شنکر اٹھ کر بیٹھ گیا۔
”تم میں اور دوسروں میں پھر فرق ہی کیا رہا۔“
” تم میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔ ان میں اور مجھ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایسی بہت سی باتیں ہوتی ہیں جو پوچھنا نہیں چاہئیں خود سمجھنا چاہئیں۔“
سلطانہ نے تھوڑی دیر تک شنکر کی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی، پھر کہا ” میں سمجھ گئی ہوں!“
”تو کہو کیا ارادہ ہے؟“
”تم جیتے، میں ہاری، پر میں کہتی ہوں، آج تک کسی نے ایسی بات قبول نہ کی ہو گی۔“
”تم غلط کہتی ہو.... اسی محلے میں تمہیں ایسی سادہ لوح عورتیں بھی مل جائیں گی جو یقین نہیں کریں گی کہ کیا عورت ایسی ذلت قبول کر سکتی ہے جو تم بغیر کسی احساس کے قبول کرتی رہی ہو لیکن ان کے یقین کرنے کے باوجود تم ہزاروں کی تعداد میں موجود ہو.... تمہارا نام سلطانہ ہے نا“۔
”سلطانہ ہی ہے“۔
شنکر اٹھ کھڑا ہوا اور ہنسنے لگا۔ ”میرا نام شنکرہے.... یہ نام بھی عجب اوٹ پنانگ ہوتے ہیں۔ چلو اندر چلیں۔“
شنکر اور سلطانہ دری والے کمرے میں واپس آئے تو دونوں ہنس رہے تھے جانے کس بات پر۔ جب شنکر جانے لگا تو سلطانہ نے کہا۔ شنکر تم میری ایک بات مانو گے؟“
شنکر نے جواباً کہا۔ ” پہلے بات تو بتاؤ؟“
سلطانہ کچھ جھنیپ سی گئی۔ ”تم کہوگے میں دام وصول کرنا چاہتی ہوں، مگر....“
”کہو کہو، ....رک کیوں گئی ہو؟“
سلطانہ نے جرأت سے کام لے کر کہا۔ ”بات یہ ہے کہ محرم آرہا ہے اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں کالی شلوار بنوا سکوں۔ یہاں کے سارے دکھڑے تو تم سن ہی چکے ہو۔ قمیض اور دوپٹہ میرے پاس موجود تھا جو میں نے آج رنگوانے کے لئے دے دیاہے!“
شنکر نے یہ سن کر کہا”تم چاہتی ہوکہ میں تمہیں کچھ روپے دوں جو تم کالی شلوار بنا سکو۔“
سلطانہ نے فوراً ہی کہا۔ ” نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ اگر ہو سکے تو تم مجھے ایک کالی شلوار بنوا دو۔“
شنکر مسکرایا۔ ” میری جیب میں تو اتفاق ہی سے کبھی کچھ ہوتا ہے۔ بہر حال میں کوشش کروں گا۔ محرم کی پہلی تاریخ کو تمہیں یہ شلوار مل جائے گی۔ لو بس اب تو خوش ہو گئیں۔ پھر سلطانہ کے بندوں کی طرف دیکھ کر شنکر نے پوچھا ” کیا یہ بندے تم مجھے دے سکتی ہو؟“
سلطانہ نے ہنس کر کہا ” تم انہیں کیا کرو گے۔ چاندی کے معمولی بندے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پانچ روپے کے ہو نگے۔“
اس پر شنکر نے ہنس کر کہا ”میں نے تم سے بندے مانگے ہیں ان کی قیمت نہیں پوچھی۔ بولو دیتی ہو؟“
”لے لو“ یہ کہہ کر سلطانہ نے بندے اتار کر شنکر کو دے دئے۔ اس کو بعد میں افسوس ہوا، لیکن شنکر جا چکا تھا۔

سلطانہ کو قطعاً یقین نہیں تھا کہ شنکر اپنا وعدہ پوراکرے گا۔ مگر آٹھ روز کے بعد محرم کی پہلی تاریخ کو صبح نو بجے دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو شنکر کھڑا تھا۔ اخبارمیں لپٹی ہوئی چیز اس نے سلطانہ کو دی اور کہا ” ساٹن کی کالی شلوار ہے۔ دیکھ لینا شاید لمبی ہو.... اب میں چلتاہوں۔“

شنکر شلوار دے کر چلا گیا اور کوئی بات اس نے سلطانہ سے نہ کی۔ اس کی پتلون میں شکنیں پڑی ہوئی تھیں، بال بکھرے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ابھی سو کر اٹھا ہے اور سیدھا ادھر ہی چلا آیاہے۔
سلطانہ نے کاغذ کھولا۔ ساٹن کی کالی شلوار تھی۔ ایسی ہی جیسی کہ وہ مختار کے پاس دیکھ کر آئی تھی۔ سلطانہ بہت خوش ہوئی۔ بندوں اور اس سودے کا جو افسوس اسے ہوا تھا، اس شلوار نے اور شنکر کی وعدہ ایفائی نے دور کردیا۔

دوپہر کو وہ نیچے لانڈری والے سے اپنی رنگین قمیض اور دوپٹہ لے آئی۔ تینوں کالے کپڑے جب اس نے پہن لئے تو دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو مختار اندر داخل ہوئی۔ اس نے سلطانہ کے تینوں کپڑوں کی طرف دیکھا اور کہا۔ ”قمیض اور دوپٹہ تو رنگا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ پر یہ شلوار نئی ہے، کب بنوائی؟“
سلطانہ نے جواب دیا”آج ہی درزی لایا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اس کی نظریں مختار کے کانوں پر پڑیں۔ ” یہ بندے تم نے کہاں سے لئے؟“
مختار نے جواب دیا ” آج ہی منگوائے ہیں۔“
اس کے بعد دونوں کو تھوڑی دیر خاموش رہنا پڑا۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک اور افسانہ جو تمھاری فہرست میں شامل نہیں لیکن دستیاب ہے تو شامل کیا جا سکتا ہے۔
اس طرح منٹو کے منتخب افسانے کے نام سے ایک نئی ای بک بن جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلاؤز

کچھ دنوں سے مومن بہت بے قرار تھا۔ اس کا وجود کچا پھوڑا سا بن گیا تھا۔ کام کرتے وقت، باتیں کرتے ہوئے، حتٰی کہ سوچتے ہوئے بھی اسے ایک عجیب قسم کا درد محسوس ہوتا تھا۔ ایسا درد جس کو اگر وہ بیان کرنا چاہتا تو نہ کر سکتا۔

بعض اوقات بیٹھے بیٹھے وہ ایک دم چونک پڑتا۔ دھندلے دھندلے خیالات جو عام حالتوں میں بے آواز بلبلوں کی طرح پیدا ہو کر مٹ جایا کرتے ہیں مومن کے دماغ میں بڑے شور کے ساتھ پیدا ہوتے اور شور ہی کے ساتھ پھٹتے۔ اس کے دل و دماغ کے نرم و نازک پردوں پر ہر وقت جیسے خار دار پاؤں والی چیونٹیاں سی رینگتی رہتی تھیں۔ ایک عجیب قسم کا کھنچاؤ اس کے اعضا میں پیدا ہو گیا تھا جس کے باعث اسے بہت تکلیف ہوتی تھی۔ اس تکلیف کی شدت جب بڑھ جاتی تو اس کے جی میں آتا کہ اپنے آپ کو ایک بڑے سے ہاون میں ڈال دے اور کسی سے کہے کہ مجھے کوٹنا شروع کردیں۔

باورچی خانے میں گرم مصالحہ جات کوٹتے وقت جب لوہے سے لوہا ٹکراتا اور دھمکوں سے چھت میں ایک گونج سی دوڑ جاتی تو مومن کے ننگے پیروں کو یہ لرزش بہت بھلی معلوم ہوتی۔ پیروں کے ذریعے یہ لرزش اس کی تنی ہوئی پنڈلیوں اور رانوں میں دوڑتی ہوئی اس کے دل تک پہنچ جاتی جو تیز ہوا میں رکھے ہوئے دیےکی لو کی طرح کانپنا شروع کردیتا۔

مومن کی عمر پندرہ برس تھی۔ شاید سولہواں بھی لگا ہو۔ اسے اپنی عمر کے متعلق صحیح اندازہ نہیں تھا۔ وہ ایک صحت مند اور تندرست لڑکا تھا جس کا لڑکپن تیزی سے جوانی کے میدان کی طرف بھاگ رہا تھا۔ اسی دوڑ نے جس سے مومن بالکل غافل تھا اس کے لہو کے ہر قطرے میں سنسنی پیدا کردی۔ وہ اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا مگر ناکام رہتا۔

اس کے جسم میں کئی تبدیلیاں ہو رہی تھیں۔ گردن جو پہلے پتلی تھی اب موٹی ہوگئی تھی۔ بانہوں کے پٹھوں میں اینٹھن سی پیدا ہو گئی تھی۔ کنٹھ نکل رہاتھا۔ سینے پر گوشت کی موٹی تہہ ہو گئی تھی اور اب کچھ دنوں سے پستانوں میں گولیاں سی پڑ گئی تھیں، جگہ ابھر آئی تھی جیسے کسی نے ایک بنٹا اندر داخل کر دیا ہے۔ ان ابھاروں کو ہاتھ لگانے سے مومن کو بہت درد محسوس ہو تا تھا۔ کبھی کبھی کام کرنے کے دورا ن میں غیر ارادی طور پر جب کا ہاتھ ان گولیوں سے چھو جاتا تو وہ تڑپ اٹھتا۔ قمیض کے موٹے اور کھردرے کپڑے سے بھی اس کی تکلیف دہ سرسراہٹ محسوس ہوتی تھی۔

غسل خانے میں نہاتے وقت یا باورچی خانہ میں جب کوئی اورموجود نہ ہوتا۔ مومن اپنے قمیض کے بٹن کھول کر ان گولیوں کو غور سے دیکھتا۔ ہاتھوں سے مسلتا۔ درد ہوتا، ٹیسیں اٹھتیں جیسے جسم پھلوں سے لدے ہوئے پیڑ کی طرح زور سے ہلا دیا گیا ہو۔ کانپ کانپ جاتا مگر اس کے باوجود وہ اس درد پیدا کرنے والے کھیل میں مشغول رہتا۔ کبھی کبھی زیادہ دبانے پر یہ گولیاں پچک جاتیں اور ان کے منہ سے ایک لیس دار لعاب نکل آتا۔ اس کو دیکھ کر اس کا چہرہ کان کی لوؤں تک سرخ ہو جاتا۔ وہ یہ سمجھتا کہ اس سے کوئی گناہ سر زد ہو گیا ہے۔ گناہ اور ثواب کے متعلق مومن کا علم بہت محدود تھا۔ ہر وہ فعل جو ایک انسان دوسرے انسان کے سامنے نہ کر سکتا ہو، اس کے خیال کے مطابق گناہ تھا۔ چنانچہ جب شرم کے مارے اس کا چہرہ کان کی لوؤں تک سرخ ہو جاتا تو وہ جھٹ سے اپنی قمیض کے بٹن بند کرلیتا اور دل میں عہد کرتا کہ آئندہ ایسی فضول حرکت کبھی نہیں کر ے گا لیکن اس عہد کے باوجود دوسرے یا تیسرے روز تخلیے میں وہ پھر اسی کھیل میں مشغول ہو جاتا۔

مومن کا بھی بالکل یہی حال تھا۔ وہ کچھ دنوں سے موڑ مڑتا زندگی کے ایک ایسے راستے پر آنکلا تھا جو زیادہ لمبا تو نہیں تھا مگر بے حد پُرخطر تھا۔ اس راستے پر اس کے قدم کبھی تیز تیز اٹھتے تھے، کبھی ہولے ہولے۔ وہ در اصل جانتا نہیں تھا کہ ایسے راستوں پر کس طرح چلنا چاہئے۔ انہیں جلدی طے کرنا چاہئے یا کچھ وقت لے کر آہستہ آہستہ ادھر ادھر کی چیزوں کا سہارا لے کر طے کرنا چاہئے۔ مومن کے ننگے پاؤں کے نیچے آنے والے شباب کی گول گول چکنی بنٹیاں پھسل رہی تھیں۔ وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکتا تھا۔ اس لئے بے حد مضطرب تھا۔ اسی اضطراب کے باعث کئی بار کام کرتے کرتے چونک کر وہ غیر ارادی طور پر کسی کھونٹی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیتا اور اس کے ساتھ لٹک جاتا۔ پھر اس کے د ل میں خواہش پیدا ہوتی کہ ٹانگوں سے پکڑ کر اسے کوئی اتنا کھینچے کہ وہ ایک مہین تار بن جائے۔ یہ سب باتیں اس کے دماغ کے کسی ایسے گوشے میں پیدا ہوتی تھیں کہ وہ ٹھیک طور پر ان کا مطلب نہیں سمجھ سکتا تھا۔

مومن سے سب گھر والے خوش تھے۔ بڑا محنتی لڑکا تھا۔ جب ہر کام وقت پر کردیتا تو کسی کو شکایت کا موقع کیسے ملتا۔ ڈپٹی صاحب کے یہاں اسے کام کرتے ہوئے صرف تین مہینے ہوئے تھے لیکن اس قلیل عرصے میں اس نے گھر کے ہر فرد کو اپنی محنت کش طبعیت سے متاثر کرلیا تھا۔ چھ روپے مہینے پر نوکر ہوا تھا مگر دوسرے مہینے ہی اس کی تنخواہ میں دو روپے بڑھا دئے گئے تھے۔ وہ اس گھر میں بہت خوش تھا اس لئے کہ اس کی یہاں قدر کی جاتی تھی مگر اب کچھ دنوں سے وہ بے قرار تھا۔ ایک عجیب قسم کی آوارگی اس کے دماغ میں پیدا ہو گئی تھی۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ سارا دن بے مطلب بازاروں میں گھومتا پھرے یا کسی سنسان مقام پر جا کر لیٹا رہے۔

اب کام میں اس کا جی نہیں لگتا تھا لیکن اس بے دلی کے ہوتے ہوئے بھی وہ کاہلی نہیں برتتا تھا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ گھر میں کوئی بھی اس کے اندرونی انتشار سے واقف نہیں تھا۔ رضیہ تھی سو وہ دن بھر باجہ بجانے، نئی نئی فلمی طرزیں سیکھنے اور رسالے پڑھنے میں مصروف رہتی تھی۔ اس نے کبھی مومن کی نگرانی ہی نہ کی تھی۔ شکیلہ البتہ مومن سے ادھر ادھر کے کام لیتی تھی اور کبھی کبھی اسے ڈانٹتی بھی تھی مگر اب کچھ دنوں سے وہ بھی چند بلاؤزوں کے نمونے اتارنے میں بے طرح مشغول تھی۔ یہ بلاؤز اس کی ایک سہیلی کے تھے جسے نئی نئی تراشوں کے کپڑے پہننے کا بے حد شوق تھا۔ شکیلہ اس سے آٹھ بلاؤز مانگ کر لائی تھی اور کاغذوں پر ان کے نمونے اتار رہی تھی چنانچہ اس نے بھی کچھ دنوں سے مومن کی طرف دھیان نہیں دیا تھا۔

ڈپٹی صاحب کی بیوی سخت گیر عورت نہیں تھی۔ گھر میں دو نوکر تھے یعنی مومن کے علاوہ ایک بڑھیا بھی تھی جو زیادہ تر باورچی خانے کا کام کرتی تھی۔ مومن کبھی کبھی اس کا ہاتھ بٹا دیا کرتا تھا۔ ڈپٹی صاحب کی بیوی نے ممکن ہے مومن کی مستعدی میں کوئی کمی دیکھی ہو مگر اس نے مومن سے اس کا ذکر نہیں کیا تھا اور وہ انقلاب جس میں مومن کا دل و دماغ اور جسم گزر رہا تھا، اس سے تو ڈپٹی صاحب کی بیوی بالکل غافل تھی۔ چونکہ اس کا کوئی لڑکا نہیں تھا اس لئے وہ مومن کی ذہنی اور جسمانی تبدیلیوں کو نہیں سمجھ سکی اور پھر مومن نوکر تھا.... نوکروں کے متعلق کون غور و فکر کرتا ہے۔ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک وہ تمام منزلیں پیدل طے کرجاتے ہیں اور آس پاس کے آدمیوں کو خبر تک نہیں ہوتی۔

غیر شعوری طور پر وہ چاہتا تھا کہ کچھ ہو.... کیا ہو؟ .... بس کچھ ہو۔ میز پر قرینے سے چنی ہوئی پلیٹیں ایک دم اچھلنا شروع کریں۔ کیتلی پر رکھا ہوا ڈھکا پانی ایک ہی ابال سے اوپر کو اڑ جائے۔ نل کی جستی نال پر دباؤ ڈالے تو وہ دوہری ہو جائے اور اس میں سے پانی کا ایک فوارہ سا پھوٹ نکلے۔ اسے ایک ایسی زبردست انگڑائی آئے کہ اس کے سارے جوڑ جوڑ علیحدہ علیحدہ ہو جائیں اور اس میں ایک ڈھیلا پن پیدا ہو جائے۔
کوئی ایسی بات وقوع پذیر ہو جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھی ہو۔

مومن بہت بے قرار تھا۔ رضیہ نئی طرز سیکھنے میں مشغول تھی اور شکیلہ کاغذوں پر بلاؤزوں کے نئے نمونے اتار رہی تھی۔ جب اس نے یہ کام ختم کرلیا تو وہ نمونہ جو ان سب میں اچھا تھا، سامنے رکھ کر اپنے لئے اودی ساٹن کا بلاؤز بنانا شروع کردیا۔ اب رضیہ کو بھی اپنا باجہ اور فلمی گانوں کی کاپی چھوڑ کر اس طرف متوجہ ہونا پڑا۔

شکیلہ ہر کام بڑے اہتمام اور چاؤ سے کرتی تھی۔ جب سینے پرونے بیٹھتی تو اس کی نشست بڑی پر اطمینان ہوتی تھی۔ اپنی چھوٹی بہن رضیہ کی طرح وہ افرا تفری پسند نہیں کرتی تھی۔ ایک ایک ٹانکا سوچ سمجھ کر بڑے اطمینان سے لگاتی تھی تاکہ غلطی کا امکان نہ رہے۔ پیمائش بھی اس کی بہت صحیح تھی۔ اس لئے کہ پہلے کاغذ کاٹ کر پھر کپڑا کاٹتی تھی یوں وقت زیادہ صرف ہوتا ہے مگر چیز بالکل فٹ تیار ہوتی تھی۔
شکیلہ بھر ے بھرے جسم کی صحت مند لڑکی تھی، ہاتھ بہت گدگدے تھے۔ گوشت بھری مخروطی انگلیوں کے آخر میں ہر جوڑ پر ایک ننھا گڑھا تھا جب مشین چلاتی تھی تو یہ ننھے گڑھے ہاتھ کی حرکت سے کبھی کبھی غائب ہو جاتے تھے۔

شکیلہ مشین بھی بڑے اطمینان سے چلاتی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کی دو یا تین انگلیاں بڑی صفائی کے ساتھ مشین کی ہتھی گھماتی تھیں۔ کلائی میں ایک ہلکا سا خم پیدا ہو جاتا تھا۔ گردن ذرا ایک طرف کو جھک جاتی تھی اور بالوں کی ایک لٹ جسے شاید اپنے لئے کوئی مستقل جگہ نہیں ملتی تھی نیچے پھسل آتی تھی۔ شکیلہ اپنے کام میں اس قدر منہمک رہتی کہ اسے ہٹانے یا جمانے کی کوشش ہی نہیں کرتی تھی۔

جب شکیلہ اودی ساٹن سامنے پھیلاکر اپنے ماپ کا بلاؤز تراشنے لگی تو اسے ٹیپ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کیونکہ ان کا ٹیپ گھس گھسا کر اب بالکل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا۔ لوہے کا گز موجود تھا مگر اس سے کمر اور سینے کی پیمائش کیسے ہو سکتی ہے۔ اس کے اپنے کئی بلاؤز موجودے تھے مگر اب چونکہ وہ پہلے سے کچھ موٹی ہو گئی تھی اس لئے ساری پیمائش دوبارہ کرنا چاہتی تھی۔

قمیض اتار کر اس نے مومن کو آواز دی۔ جب وہ آیا تو اس سے کہا ”جاؤ مومن دوڑ کر چھ نمبر سے کپڑے کا گز لے آؤ۔ کہنا شکیلہ بی بی مانگتی ہے“۔

مومن کی نگاہیں شکیلہ کی سفید بنیان سے ٹکرائیں۔ وہ کئی بار شکیلہ بی بی کو ایسی بنیانوں میں دیکھ چکا تھا مگر آج اسے ایک عجیب قسم کی جھجک محسوس ہوئی۔ اس نے اپنی نگاہوں کا رخ دوسری طرف پھیر لیا اور گھبراہٹ میں کہا۔ ”کیسا گز بی بی جی۔“

شکیلہ نے جواب دیا” کپڑے کا گز.... ایک گز تو یہ تمہارے سامنے پڑا ہے۔ یہ لوہے کا ہے۔ ایک دوسرا گز بھی ہوتا ہے کپڑے کا۔ جاؤ چھ نمبر میں جاؤ اور دوڑ کے ان سے یہ گز لے آؤ۔ کہنا شکیلہ بی بی مانگتی ہے۔“

چھ نمبر کا فلیٹ بالکل قریب تھا۔ مومن فوراً ہی کپڑے کا گز لے کر آگیا۔ شکیلہ نے اس کے ہاتھ سے لے لیا اور کہا ”یہاں ٹھہر جا۔ اسے ابھی واپس لے جانا۔“ پھر وہ اپنی بہن رضیہ سے مخاطلب ہوئی۔ ان لوگوں کی کوئی چیز اپنے پاس رکھ لی جائے تو وہ بڑھیا تقاضے کر کے پریشان کردیتی ہے.... ادھر آؤ یہ گز لو اور یہاں سے میرا ماپ لو۔

رضیہ نے شکیلہ کی کمر اور سینے کا ماپ لینا شروع کیا تو ان کے درمیان کئی باتیں ہوئیں۔ مومن دروازے کی دہلیز پر کھڑا تکلیف دہ خاموشی سے یہ باتیں سنتا رہا۔

”رضیہ تم گز کو کھینچ کر ماپ کیوں نہیں لیتیں.... پچھلی دفعہ بھی یہی ہوا۔ جب تم نے ماپ لیا اور میرے بلاؤز کا ستیا ناس ہوگیا.... اوپر کے حصہ پر اگر کپڑا فٹ نہ آئے تو ادھر ادھر بغلوں میں جھول پڑ جاتے ہیں۔“

” کہاں کا لوں، کہاں کا نہ لوں۔ تم تو عجب مخمصے میں ڈال دیتی ہو۔ یہاں کا ماپ لینا شروع کیا تھا تو تم نے کہا ذرا اور نیچے کا لو.... ذرا چھوٹا بڑا ہو گیا تو کون سی آفت آجائے گی۔“

”بھئی واہ.... چیز کے فٹ ہونے ہی میں ساری خوبصورتی ہوتی ہے۔ ثریا کو دیکھو کیسے فٹ کپڑے پہنتی ہے۔ مجال ہے جو کہیں شکن پڑے، کتنے خوبصورت معلوم ہوتے ہیں ایسے کپڑے.... لو اب تم ماپ لو....“۔

یہ کہہ کر شکیلہ نے سانس کے ذریعے اپنا سینہ پھلانا شروع کیا۔ جب اچھی طرح پھول گیا تو سانس روک کر اس نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا ” لو اب جلدی کرو۔“

جب شکیلہ نے سینے کی ہوا خارج کی تو مومن کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کے اندر ربڑ کے کئی غبارے پھٹ گئے ہیں۔ اس نے گھبرا کر کہا ”گز لائیے بی بی جی.... دے آؤں۔“
شکیلہ نے اسے جھڑ ک دیا۔ ”ذرا ٹھہر جا“۔
یہ کہتے ہوئے کپڑے کا گز اس کے ننگے بازو سے لپٹ گیا۔ جب شکیلہ نے اسے اتارنے کی کوشش کی تو مومن کو اس کی سفید بغل میں کالے کالے بالوں کا ایک گچھا نظر آیا۔ مومن کی اپنی بغلوں میں بھی ایسے ہی بال اگ رہے تھے مگر یہ گچھا اسے بہت بھلا معلوم ہوا۔ ایک سنسنی سی اس کے سارے بدن میں دوڑ گئی۔ ایک عجیب و غریب خواہش اس کے دل میں پیدا ہوئی کہ یہ کالے کالے بال اس کی مونچھیں بن جائیں۔ بچپن میں وہ بُھٹوں کے کالے اور سنہری بال نکال کر اپنی مونچھیں بنایا کرتا تھا۔ ان کو اپنے بالائی ہونٹ پر جماتے وقت جو سرسراہٹ اسے محسوس ہوتی تھی۔ اسی قسم کی سرسراہٹ اس خواہش نے اس کے بالائی ہونٹ اور ناک میں پیدا کردی۔

شکیلہ کا بازو اب نیچے جھک گیا تھا اور بغل چھپ گئی تھی مگر مومن بھی کالے بالوں کا وہ گچھا دیکھ رہا تھا۔ اس کے تصورمیں شکیلہ کا بازو دیر تک ویسے ہی اٹھا رہا اور بغل میں اس کے سیاہ بال جھانکتے رہے۔

تھوڑی دیر بعد شکیلہ نے مومن کو گز دے دیا اور کہا ”جاؤ، واپس دے آؤ۔ کہنا بہت بہت شکریہ ادا کیاہے“۔

مومن گز واپس دے کر باہر صحن میں بیٹھ گیا۔ اس کے دل و دماغ میں دھندلے دھندلے خیال پیدا ہو رہے تھے۔ دیر تک ان کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا رہا جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو اس نے غیر ارادی طور پر اپنا چھوٹا سا ٹرنک کھولا، جس میں اس نے عید کے لئے نئے کپڑے بنوارکھے تھے۔

جب ٹرنک کا ڈھکنا کھولا اور نئے لٹھے کی بو اس کی ناک تک پہنچی تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ نہا دھو کر یہ نئے کپڑے پہن کر وہ سیدھا شکیلہ بی بی کے پاس جائے اور اسے سلام کرے۔ اس کی لٹھے کی شلوار کس طرح کھڑ کھڑ کرے گی اور اس کی رومی ٹوپی....

رومی ٹوپی کا خیال آتے ہی مومن کی نگاہوں کے سامنے اس کا پھندنا آگیا اور پھندنا فوراً ہی ان کالے کالے بالوں کے گچھے میں تبدیل ہو گیا جو اس نے شکیلہ کی بغل میں دیکھا تھا۔ اس نے کپڑوں کے نیچے سے اپنی نئی رومی ٹوپی نکالی اور اس کے نرم اور لچکیلے پھندنے پر ہاتھ پھیرنا شروع ہی کیا تھا کہ اندر سے شکیلہ بی بی کی آواز آئی۔ ”مومن“

مومن نے ٹوپی ٹرنک میں رکھی، ڈھکنا بند کیا اور اندر چلا گیا جہاں شکیلہ نمونے کے مطابق اودی ساٹن کے کئی ٹکڑے کاٹ چکی تھی۔ ان چمکیلے اور پھسل پھسل جانے والے ٹکڑوں کو ایک جگہ رکھ کر وہ مومن کی طرف متوجہ ہوئی۔ "میں نے تمہیں اتنی آوازیں دیں۔ سو گئے تھے کیا؟“
مومن کی زبان میں لکنت پیدا ہو گئی۔ ”نہیں بی بی جی“۔
”تو پھر کیا کر رہے تھے؟“
”کچھ.... کچھ بھی نہیں“۔
”کچھ تو ضرور کرتے ہوگے۔“ شکیلہ یہ سوال کئے جا رہی تھی مگر اس کا دھیان اصل میں بلاؤز کی طرف تھا جسے اب اسے کچا کرنا تھا۔
مومن نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ جواب دیا۔ ٹرنک کھول کر اپنے نئے کپڑے دیکھ رہا تھا۔
شکیلہ کھل کھلا کر ہنسی۔ رضیہ نے بھی اس کا ساتھ دیا۔
شکیلہ کو ہنستے دیکھ کر مومن کو ایک عجیب تسکین محسوس ہوئی اور اس تسکین نے اس کے دل میں یہ خواہش پیدا کی کہ وہ کوئی ایسی مضحکہ خیز طور پراحمقانہ حرکت کرے جس سے شکیلہ کو اور زیادہ ہنسنے کا موقع ملے چنانچہ لڑکیوں کی طرح جھینپ کر اور لہجے میں شرماہٹ پیدا کرکے اس نے کہا۔ ”بڑی بی بی جی سے پیسے لے کر میں ریشمی رومال بھی لوں گا۔“
شکیلہ نے ہنستے ہوئے اس سے پوچھا۔ ”کیا کرو گے اس رومال کو ؟“
مومن نے جھینپ کر جوا ب دیا۔ ”گلے میں باندھ لو ں گا بی بی جی.... بڑا اچھا معلوم ہو گا۔“
یہ سن کر شکیلہ اور رضیہ دونوں دیر تک ہنستی رہیں۔
”گلے میں باندھو گے تو یاد رکھنا اسی سے پھانسی دے دوں گی“ یہ کہہ کر شکیلہ نے اپنی ہنسی دبانے کی کوشش کی اور رضیہ سے کہا۔ ”کم بخت نے مجھ سے کام ہی بھلا دیا۔ رضیہ میں نے اسے کیوں بلایا تھا؟“
رضیہ نے جواب نہ دیا اور نئی فلمی طرز گنگنانا شروع کردی جو وہ دو روز سے سیکھ رہی تھی۔ اس دوران میں شکیلہ کو خود ہی یاد آگیا کہ اس نے مومن کو کیوں بلا یاتھا۔
”دیکھو مومن میں تمہیں یہ بنیان اتار کر دیتی ہوں۔ دوائیوں کے پاس جو ایک دکان نئی کھلی ہے نا، وہاں جہاں تم اس دن میرے ساتھ گئے تھے۔ وہاں جاؤ اور پوچھ کے آؤ کہ ایسی چھ بنیانوں کے وہ کیا لے گا.... کہنا ہم چھ لیں گے۔ اس لئے کچھ رعایت ضرور کرے.... سمجھ لیا نا؟“
”مومن نے جواب دیا۔ ”جی ہاں“۔
”اب تم پرے ہٹ جاؤ۔“
مومن باہر نکل کر دروازے کی اوٹ میں ہو گیا۔ چند لمحات کے بعد بنیان اس کے قدموں کے پاس آگرا اور اندر سے شکیلہ کی آوازآئی۔ ”کہنا ہم اس قسم کی ہی ڈیزائن کی بالکل یہی چیز لیں گے۔ فرق نہیں ہونا چاہئے۔“
مومن نے بہت اچھا کہہ کر بنیان اٹھا لیا جو پسینے کے باعث کچھ کچھ گیلا ہو رہا تھا جیسے کسی نے بھاپ پر رکھ کر فوراً ہی اٹھا لیا ہو۔ بدن کی بو بھی اس میں بسی ہوئی تھی۔ میٹھی میٹھی گرمی بھی تھی۔ یہ تمام چیزیں اس کو بہت بھلی معلوم ہوئیں۔
وہ اس بنیان کو جو بلی کے بچے کی طرح ملائم تھا، اپنے ہاتھوں میں مسلتا ہوا باہر چلا گیا۔ جب بھاؤ دریافت کر کے بازار سے واپس آیا تو شکیلہ بلاؤز کی سلائی شروع کر چکی تھی۔ اس اودی، اودی ساٹن کے بلاؤز کی جو مومن کی رومی ٹوپی کے پھندنے سے کہیں زیادہ چمکیلی اور لچک دار تھی۔

یہ بلاؤز شاید عید کے لئے تیار کیا جارہا تھا کیونکہ عید اب بالکل قریب آگئی تھی۔ مومن کو ایک دن میں کئی بار بلا گیا۔ دھاگہ لانے کے لئے، استری نکالنے کے لئے، سوئی ٹوٹ گئی تو نئی سوئی لانے کےلئے، شام کے قریب جب شکیلہ نے دوسرے روز پر باقی کام اٹھا دیا تو دھاگے کے ٹکڑے اور اودی ساٹن کی بیکار کترنیں اٹھانے کے لئے بھی اسے بلایا گیا۔

مومن نے اچھی طرح جگہ صاف کردی۔ باقی سب چیزیں اٹھا کر باہر پھینک دیں مگر ساٹن کی چمکیلی کترنیں اپنی جیب میں رکھ لیں.... بالکل بے مطلب کیونکہ اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ ان کا کیا کر ے گا؟

دوسرے روز اس نے جیب سے کترنیں نکالیں اورالگ بیٹھ کر ان کے دھاگے الگ کرنے شروع کردئے۔ دیر تک وہ اس کھیل میں مشغول رہا حتٰی کہ دھاگے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کا ایک گچھا سا بن گیا۔ اس کو ہاتھ میں لے کر وہ دباتا رہا، مسلتا رہا لیکن اس کے تصور میں شکیلہ کی وہی بغل تھی جس میں اس نے کالے کالے بالوں کا ایک چھوٹا سا گچھا دیکھا تھا۔

اس دن بھی اسے شکیلہ نے کئی بار بلایا.... اودی ساٹن کے بلاؤز کی ہر شکل اس کی نگاہوں کے سامنے آتی رہی۔۔
پہلے جب اسے کچا کیا گیا تھا تو اس پر سفید دھاگے کے بڑے بڑے ٹانکے جا بجا پھیلے ہوئے تھے۔ پھر اس پر استری پھیری گئی جس سے سب شکنیں دور ہو گئیں اور چمک بھی دوبالا ہو گئی۔ اس کے بعد کچی حالت ہی میں شکیلہ نے اسے پہنا۔ رضیہ کو دکھایا۔ دوسرے کمرے میں سنگھار میز کے پاس آئینے میں خود اس کو ہر پہلو سے اچھی دیکھا۔ جب پورا اطمینان ہو گیا تو اسے اتارا۔ جہاں جہاں تنگ یا کھلا تھا وہاں نشان لگائے۔ اس کی ساری خامیاں دور کیں۔ ایک بار پھر پہن کر دیکھا جب بالکل فٹ ہو گیا تو پکی سلائی شروع کی۔
اُدھر ساٹن کا یہ بلاؤز سیا جا رہا تھا، اِدھر مومن کے دماغ میں عجیب و غریب خیالوں کے ٹانکے ادھڑ رہے تھے.... جب اسے کمرے میں بلایا جاتا اور اس کی نگاہیں چمکیلی ساٹن کے بلاؤز پر پڑتیں تو اس کا جی چاہتا کہ وہ ہاتھ سے چھو کر اسے دیکھے صرف چھو کر ہی نہیں.... بلکہ اس کی ملائم اور روئیں دار سطح پر دیر تک ہاتھ پھیرتا رہے۔ اپنے کھردرے ہاتھ۔
اس نے ان ساٹن کے ٹکڑوں سے اس کی ملائمت کا اندازہ کرلیا تھا۔ دھاگے جو اس نے ان ٹکڑوں سے نکالے تھے اور بھی زیادہ ملائم ہو گئے تھے۔ جب اس نے ان کا گچھا بنایا تو دباتے وقت اسے معلوم ہوا کہ ان میں ربڑی کی سی لچک بھی ہے.... وہ جب بھی اندر آکر بلاؤز کو دیکھتا تو کا خیال فوراً ان بالوں کی طرف دوڑ جاتا جو اس نے شکیلہ کی بغل میں دیکھے تھے۔ کالے کالے بال۔ مومن سوچتا تھا کہ وہ بھی ساٹن ہی کی طرح ملائم ہوں گے؟

بلاؤز بالآخر تیار ہو گیا.... مومن کمرے کے فرش پر گیلا کپڑا پھیر رہا تھا کہ شکیلہ اندر آئی۔ قمیض اتار کر اس نے پلنگ پر رکھی۔ اس کے نیچے اسی قسم کا سفید بنیان تھا جس کا نمونہ لے کر مومن بھاؤ دریافت کرنے گیا تھا.... اس کے اوپر شکیلہ نے اپنے ہاتھ کا سلا ہوا بلاؤز پہنا۔ سامنے کے ہک لگائے اور آئینے کے سامنے کھڑی ہوگئی۔
مومن نے فرش صاف کرتے ہوئے آئینہ کی طرف دیکھا۔ بلاؤز میں اب جان سی پڑ گئی تھی۔ ایک دو جگہ پر وہ اس قدر چمکتا تھا کہ معلوم ہوتا تھا ساٹن کا رنگ سفید ہو گیا ہے.... شکیلہ کی پیٹھ مومن کی طرف تھی جس پر ریڑھ کی ہڈی کی لمبی جھری بلاؤز فٹ ہونے کے باعث اپنی پوری گہرائی کے ساتھ نمایاں تھی۔ مومن سے رہا نہ گیا۔ چنانچہ اس نے کہا”بی بی جی، آپ نے درزیوں کو بھی مات کر دیا ہے۔“
شکیلہ اپنی تعریف سن کر خوش ہو ئی مگر وہ رضیہ کی رائے طلب کرنے کے لئے بے قرار تھی۔ اس لئے وہ صرف ”اچھا ہے نا“ کہہ کر باہر دوڑ گئی.... مومن آئینے کی طرف دیکھتا رہ گیا جس میں بلاؤزکا سیاہ اور چمکیلا عکس دیر تک موجود رہا۔

رات کو جب وہ پھر اس کمرے میں صراحی رکھنے کے لئے آیا تو اس نے کھونٹی پر لکڑی کے ہینگر میں اس بلاؤز کو دیکھا۔ کمرے میں کوئی موجود نہیں تھا۔ چنانچہ آگے بڑھ کر پہلے اس نے غورسے دیکھا پھر ڈرتے ڈرتے اس پر ہاتھ پھیرا۔ ایسا کرتے ہوئے یوں لگا کہ کوئی اس کے جسم کے ملائم روؤں پر ہولے ہولے بالکل ہوائی لمس کی طرح ہاتھ پھیر رہا ہے۔
رات کو جب وہ سویا تو اس نے کئی اوٹ پٹانگ خواب دیکھے.... ڈپٹی صاحب نے پتھر کے کوئلوں کا ایک بڑا ڈھیر اسے کوٹنے کو کہا جب اس نے ایک کوئلہ اٹھایا اور اس پر ہتھوڑے کی ضرب لگائی تو وہ نرم نرم بالوں کا ایک گچھا بن گیا.... یہ کالی کھانڈ کے مہین مہین تار تھے جن کا گولا بنا ہوا تھا.... پھر یہ گولے کالے رنگ کے غبارے بن کر ہوا میں اڑنے شروع ہوگئے.... بہت اوپر جا کر یہ پھٹنے لگے.... پھر آندھی آگئی اور مومن کی رومی ٹوپی کا پھندنا کہیں غائب ہو گیا.... پھندنے کی تلاش میں نکلا.... دیکھی اور ان دیکھی جگہوں میں گھومتا رہا.... نئے لٹھے کی بو بھی یہیں کہیں سے آنا شروع ہوگئی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا.... ایک کالی ساٹن کی بلاؤز پر اس کا ہاتھ پڑا .... کچھ دیر تک وہ کسی دھڑکتی ہوئی چیز پر اپنا ہاتھ پھیرتا رہا۔ پھر دفعتہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ تھوڑی دیر تک وہ کچھ سمجھ نہ سکا کیا ہوگیاہے۔ اس کے بعد اسے خوف، تعجب اور ایک انوکھی ٹھیس کا احساس ہوا۔ اس کی حالت اس وقت عجیب و غریب تھی.... پہلے اسے تکلیف دہ حرارت محسوس ہوئی۔ مگر چند لمحات کے بعد ایک ٹھنڈی سی لہر اس کے جسم میں رینگنے لگی۔
 
Top