سر سید کی کہانی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
۔۔۔۔ سید صاحب نے کہا:

" آپ ان کے کھانے پینے کا تو فکر کیجئے نہیں ، خدا رازق ہے، لیکن یہ سمجھ لیجئے کہ اگر آپ نہ چلیں گے تو میں رہتک جانے سے انکار کردوں گا اور اس سے میری آئندہ ترقی رک جائے گی۔ "

آخر مولوی صاحب کو اس کے علاوہ کچھ بن نہ آیا کہ وہ مع طالب علموں کی جماعت کے ان کے ساتھ ہو لئے اور جب تک رہتک رہنا ہوا سب کا خرچ سید صاحب کے ذمہ رہا۔ 26


خانگی اخراجات کا گوشوارہ :

سرسید کے ایک دوست ایک زمانہ میں ان کے خانگی اخراجات کا حساب لکھا کرتے تھے ۔ ان کا بیان ہے کہ جب مہینہ ختم ہوا ، میں تمام اخراجات کا مختصر گوشوارہ بنا کر ان کو دکھانے لے گیا۔ سر سید نے کہا،

" بس مجھے دکھانے کی کچھ ضرورت نہیں ، یوں ہی چلنے دو ، میں دیکھوں گا تو ناحق میرے دل کا صدمہ ہوگا۔"

(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
عقدِ ثانی سے گریز:

جب سر سید کی بی بی کا انتقال ہوا اس وقت ان کی عمر کچھ اُوپر چالیس برس کی تھی اور تین صغیر سن بچے ، جن کی پرورش اور رکھ رکھاؤ اکیلے باپ سے ہونا سخت دشوار تھا ، موجود تھے۔ ہر چند دوستوں نے سمجھایا کہ دوسری شادی کرلو تاکہ اپنی زندگی بھی آسائش سے گذرے اور بچوں کی پرورش میں بھی آسانی ہو، مگر محبت اور وفاداری نے ہرگز اجازت نہ دی ۔ ان کے ایک دوست کا بیان ہے کہ، "میں ان کو ہمیشہ دوسرے نکاح کی ترغیب دیا کرتا تھا ، وہ سن کر ہنسی میں ٹال دیتے تھے ، ایک دن وہ برآمدہ میں ٹہل رہے تھے ، میں نے پھر وہی ذکر چھیڑا ، انہوں نے دردناک لہجہ میں کہا کہ

" محمود کی ماں کہاں سے آئے گی؟"

پھر میں نے یہ ذکر کرنا چھوڑ دیا۔"28


مولوی نذیر حسین اور رفع یدین:

سرسید نے ایک موقع پر دلی کے ایک نہایت مقدس×عالم سے ، جو اپنے شاگردوں اور معتقدوں کو رفع یدین کی تاکید کرتے تھے مگر خود کبھی ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ، کہا کہ

" حضرت نہایت تعجب کی بات ہے کہ آپ باوجود مقتدائے دین ہونے کے صرف طعن و ملامت کے خوف سے جس بات کو دل سے حق جانتے ہیں اس کے موافق کبھی عمل نہیں کرتے ۔ ہم ہزاروں گناہ کرتے ہیں اور دنیا کے مکروہات میں پھنسے ہوئے ہیں ، مگر جو بات حق معلوم ہوتی ہے اس کے کرنے میں ایک لمحہ توقف نہیں کرتے اور لوگوں کے طعن و ملامت سے نہیں ڈرتے۔"

سرسید کے کہنے کا ان کو ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے اسی روز جامع مسجد میں جا کر علی الاعلان رفع یدین کیا ، لیکن معلوم نہیں کہ وہ ہمیشہ اس پر قائم رہے یا نہیں۔ 29


شاہ غلام علی سے عقیدت :

سرسید نے ایک دفعہ شاہ صاحب کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے سامنے یہ کہا تھا کہ

" گو اس قسم کی عقیدت جیسی مریدوں کو اپنے شیخ کے ساتھ ہوتی ہے مجھ کو نہیں ہے ، لیکن نہایت قوی تعلق اور رابطہ اخلاص میرے دل میں شاہ صاحب کے ساتھ ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میری لائف میں اس بات کی تصریح کی جائے۔"30



--------------------------------------------------------------------------------------------
× : سرسید نے اپنے ایک خط میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ان عالم کا نام مولوی نذیر حسین دہلوی بتایا ہے (مکتوبات سرسید ، مجلس ترقی ادب لاہور، 1959ء ، ص - 649)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


تصانیف


آثارالصنادید:

۔ ۔ ۔ سرسید ہمیشہ تعطیلوں میں عماراتِ بیرونِ شہر کی تحقیقات کیلئے شہر کے باہر جاتے تھے اور جب کئی دن کی تعطیل ہوتی تھی تو رات کو بھی اکثر باہر رہتے تھے۔ ان کے ساتھ اکثر ان کے دوست اور ہمدم مولانا امام بخش صہبائی مرحوم ہوتے تھے ۔ ۔ ۔ کتبوں کے چربے اُتارنے اور ہر ایک کتبے کو کو بعینہ اس کے اصلی خط میں دکھانا ، ہر ٹوٹی پُھوٹی عمارت کا نقشہ جوں کا تُوں مصور سے کھچوانا اور اس طرح کچھ اُوپر سواسو عمارتوں کی تحقیقات سے عہدہ برآ ہونا فی الحقیقت نہایت دشوار کام تھا۔ سرسید کہتے تھے کہ:

" قطب صاحب کی لاٹ کے بعض کتبے جو زیادہ بلند ہونے کے سبب پڑھے نہ جا سکتے تھے ، ان کے پڑھنے کو ایک چھینکا دو بلیوں کے بیچ میں ہر ایک کتبے کے محاذی بندھوا لیا جاتا تھا اور میں خود اُوپر چڑھ کر اور چھینکے میں بیٹھ کر ہر کتبے کا چربا اتارتا تھا۔ جس وقت میں چھینکے میں بیٹھتا تھا تو مولانا صہبائی فرطِ محبت کے سبب بہت گھبراتے تھے اور خوف کے مارے ان کا رنگ متغیر ہوجاتا تھا۔"31

رسالہ نمیقہ :

سرسید کی تصنیفات کی فہرست میں جو ایک رسالہ موسوم بہ " نمیقہ" بہ زبانِ فارسی تصور شیخ کے بیان میں ہے اس کی نسبت سرسید کہتے تھے کہ :

" میں نے اسے شاہ احمد سعید صاحب کو دکھایا تھا ، انہوں نے اس کو دیکھ کر یہ فرمایا کہ جو باتیں اس میں لکھی گئی ہیں وہ اہلِ حال کے سوا کوئی نہیں لکھ سکتا۔ بس یہ اس توجہ کی برکت ہے جو شاہ صاحب× کو تمہارے ساتھ تھی اور اب تک ہے۔"32

--------------------------------------------------------------------------------------------
× : شاہ غلام علی صاحب


(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تاریخِ ضلع بجنور:

سرسید نے یہ تاریخ بھی اپنی جبلی عادت کے موافق نہایت تحقیق اور کاوش اور محنت کے ساتھ لکھی ۔ ان کا بیان ہے کہ:

" گو اس تاریخ میں ضلع کے حالات کے سوا کوئی عام دلچسپی کی بات نہ تھی مگر اثنائے تحقیقات بعض قانون گویوں کے پاس اکبر اور عالمگیر کے زمانہ کے ایسے کاغذات ملے جن سے نہایت عمدہ نتیجے نکلتے تھے۔"

ان سب کاغذات کی نقلیں اپنے اپنے موقع پر اس تاریخ میں درج تھیں ۔ ------------- جب یہ تاریخ لکھی جا چکی تو صاحب کلکٹر نے اس کو ملاحظہ کے لئے صدر بورڈ میں بھیج دیا ۔ ابھی وہ بورڈ سے واپس نہ آئی تھی کہ غدر ہوگیا اور آگرہ میں تمام دفتر سرکاری کے ساتھ وہ بھی ضائع ہوگئی۔33


اسبابِ بغاوتِ ہند:

انہوں نے مرادآباد میں آکر اسبابِ بغاوتِ ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں رعایائے ہندوستان کو اور خاص کر مسلمانوں کو ، جن پر سارا نچوڑ انگریزوں کی بدگمانی کا تھا، بغاوت کے الزام سے بری کیا ہے اور اس خطرناک اور نازک وقت میں وہ تمام الزامات جو لوگوں کے خیال میں گورنمنٹ پر عائد ہوتے تھے ، نہایت دلیری اور آزادی کے ساتھ پوست کندہ بیان کئے ہیں اور جو اسباب کہ انگریزوں کے ذہن میں جاگزیں تھے ، ان کی تردید کی ہے اور ان کو غلط بتایا ہے۔۔ ۔ اس کی پانچ سو جلدیں چَھپ کر ان کے پاس پہنچ گئیں ۔ جب سرسید نے ان کو پارلیمنٹ اور گورنمنٹ انڈیا بھیجنے کا ارادہ کیا تو ان کے دوست مانع آئے اور ماسٹر رام چند کے چھوٹے بھائی رائے شنکرداس جو اس وقت مرادآباد میں منصف اور سرسید کے نہایت دوست تھے ، انہوں نے کہا کہ ان تمام کتابوں کو جلا دو اور ہرگز اپنی جان کو خطرے میں نہ ڈالو ۔ سرسید نے کہا:

" میں ان باتوں کو گورنمنٹ پر ظاہر کرنا ملک اور قوم اور خود گورنمنٹ کی خیر خواہی سمجھتا ہوں ۔ پس اگر ایک ایسے کام پر جو سلطنت اور رعایا دونوں کے لئے مفید ہو ، مجھ کو کچھ گزند بھی پہنچ جائے تو گوارا ہے۔"

رائے شنکرداس نے جب سرسید کی آمادگی بدرجہ غایت دیکھی اور ان کے سمجھانے کا کچھ اثر نہ ہوا تو وہ آبدیدہ ہو کر خاموش ہورہے۔34


(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
لارڈ کیننگ نے فرخ آباد میں دربار کیا اور سرسید بھی اس دربار میں بلائے گئے تو وہاں ایک موقع پر مسٹر سسل بیڈن فارن سیکرٹری گورنمنٹ انڈیا سے مڈبھیڑ ہوگئی ۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ سید احمد خان یہی شخص ہے اور اسی نے اسبابِ بغاوت پر وہ مضمون لکھا ہے تو سرسید سے دوسرے روز علیحدہ مل کر اپنی نہایت رنجش ظاہر کی اور بہت دیر تک تلخ گفتگو ہوتی رہی ۔ انھوں نے کہا کہ اگر تم گورنمنٹ کی خیر خواہی کے لئے یہ مضمون لکھتے تو ہرگز اس کو چھپوا کر ملک میں شایع نہ کرتے بلکہ صرف گورنمنٹ پر اپنے یا رعایا کے خیالات ظاہر کرتے ۔

سر سید نے کہا ،

" میں نے اس کتاب کی پانچ سو جلدیں چھپوائی تھیں جن میں سے چند جلدیں میرے پاس موجود ہیں اور ایک گورنمنٹ میں بھیجی ہے اور کچھ کم پانچ سو جلدیں ولایت روانہ کی ہیں جن کی رسید میرے پاس موجود ہے ۔ میں جانتا تھا کہ آجکل بسبب غیظ و غضب کے حاکموں کی رائے صائب نہیں رہی اور اس لئے وہ سیدھی باتوں کو بھی الٹی سمجھتے ہیں ، اس لئے جس طرح میں نے اس کو ہندوستان میں شایع نہیں کیا اسی طرح انگریزوں کو بھی نہیں دکھایا صرف ایک کتاب گورنمنٹ کو بھیجی ہے ۔ اگر اس کے سوا ایک جلد بھی کہیں ہندوستان میں مل جائے تو میں فی جلد ایک ہزار روپیہ دوں گا۔"

مسٹر بیڈن کو اس بات کا یقین نہ آیا اور انہوں نے کئی بار سرسید سے پُوچھا کہ کیا فی الواقع اس کا کوئی نسخہ ہندوستان میں شائع نہیں ہوا ؟ جب ان کا اطمینان ہوگیا پھر انہوں نے اس کا کچھ ذکر نہیں کیا اور اس کے بعد ہمیشہ سرسید کے دوست اور حامی و مددگار رہے۔ 35

انہوں نے زبانی مجھ سے اس طرح بیان کیا کہ

" ولایت میں سرجان ۔ کے۔ فارن سیکرٹری وزیر ہند سے پرائیویٹ ملاقات ہوئی تو ان کی میز پر ایک دفتر کاغذات کا موجود تھا ۔ انہوں نے ہنس کر کہا کہ، " کیا تم جانتے ہو، یہ کیا چیز ہے؟" یہ تمہارا رسالہ اسبابِ بغاوت اصل اور اس کا انگریزی ترجمہ ہے۔ اور اس کے ساتھ وہ تمام مباحثات ہیں جو اس پر پارلیمنٹ میں ہوئے ۔ مگر چونکہ وہ تمام مباحثے کانفیڈنشل تھے اس لئے وہ نہ چھپے اور نہ ان کا ولایت کے کسی اخبار میں تذ کرہ ہوا۔" 36



(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
خطباتِ احمدیہ:

سرسید کہتے تھے کہ

" 1870ء میں جبکہ خطباتِ احمدیہ چھپ کر لندن میں شائع ہوئی تو اس پر لندن کے ایک اخبار میں کسی انگریز نے لکھا تھا کہ عیسائیوں کو ہوشیار ہو جانا چاہیے کہ ہندوستان کے ایک مسلمان نے ان ہی کے ملک میں بیٹھ کر ایک کتاب لکھی ہے جس میں اس نے دکھایا ہے کہ اسلام ان داغوں اور دھبوں سے پاک ہے جو عیسائی اس کے خوش نما چہرے پر لگاتے ہیں۔" 37

تفسیرالقرآن:

قرآن مجید کی تفسیر لکھنے سے سرسید کا مقصد ، جیسا کہ عموماّ خیال کیا جاتا ہے ، یہ ہرگز نہ تھا کہ اس کے مضامین عام طور پر تمام اہلِ اسلام کی نظر سے گذریں ۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک مولوی نہایت معقول اور ذی استعداد ان کے پاس آئے اور کہا کہ، "میں آپ کی تفسیر دیکھنے کا خواہشمند ہوں اگر آپ مستعار دیں تو میں دیکھنا چاہتا ہوں۔" سرسید نے ان سے کہا کہ،

" آپ کو خدا کی وحدانیت اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر تو ضرور یقین ہوگا ؟"

انہوں نے کہا ، " الحمد للہ! "

پھر کہا،

" آپ حشرونشر اور عذاب و ثواب اور بہشت و دوزخ پر اور جو کچھ قرآن میں قیامت کی نسبت بیان ہوا ہے ، سب پر یقین رکھتے ہوں گے؟"

انہوں نے کہا، " الحمد للہ !"

سرسید نے کہا ،

" بس تو میری تفسیر آپ کے لئے نہیں ہے۔ وہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو مذکورہ بالا عقائد پر پختہ یقین نہیں رکھتے یا ان پر معترض یا ان میں متردد ہیں۔"

سرسید نے ایک موقع پر تفسیر کی نسبت کہا کہ

" اگر زمانہ کی ضرورت مجھ کو مجبور نہ کرتی تو میں کبھی اپنے ان خیالات کو ظاہر نہ کرتا بلکہ لکھ کر اور ایک لوہے کے صندوق میں بند کر کے چھوڑ جاتا اور یہ لکھ جاتا کہ جب تک ایسا اور ایسا زمانہ نہ آئے ، اس کو کوئی کھول کر نہ دیکھے۔ اور اب بھی میں اس کو بہت کم چھپواتا اور گراں بیچتا ہوں تاکہ صرف خاص خاص لوگ اس کو دیکھ سکیں ۔ سردست عام لوگوں میں اس کا شائع ہونا اچھا نہیں!"38



-----×××××-----​



۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



واقعات1857ء

انگریزوں کے لئے جاں نثاری:


مسٹر شیکسپیئر جو اس زمانہ میں بجنور کے کلکٹر اور مجسٹریٹ تھے ، گو کہ سرسید کو باعتبار عہدے کے ان سے کچھ تعلق نہ تھا مگر مسٹر شیکسپیئر اور مسز شیکسپیئر سے ان کی بہت راہ و رسم تھی ۔ جب بجنور میں بغاوت کے آثار نمودار ہونے لگے اور حالت خطرناک ہوئی تو مسز شیکسپیئر بہت گھبرائیں ۔ سرسید کو جب یہ حال معلوم ہوا تو جا کر ان کی تشفی کی اور کہا کہ

" جب تک ہم زندہ ہیں آپ کو گھبرانا نہیں چاہیے ۔ جب آپ دیکھیں کہ ہماری لاش کوٹھی کے سامنے پڑی ہے ، اس وقت گھبرانے کا مضائقہ نہیں۔"


مسٹر شیکسپیئر ہمیشہ سرسید کی اس شریفانہ تقریر کے شکرگذار رہے۔ سرسید کا یہ کہنا صرف زبانی نہ تھا بلکہ انہون نے اپنے افعال× سے اس قول کو سچ کردکھایا۔39

--------------------------------------------------------------------------------------------
× : لائل محمڈنز آف انڈیا میں سرسید لکھتے ہیں :

" میں نے اپنی گورنمنٹ کی خیرخواہی اور سرکار کی وفاداری پر چست کمر باندھی، ہرحال اور ہر امر میں مسٹر الیگزینڈر شیکسپیئر صاحب بہادر کلکٹر و مجسٹریٹ بجنور کے شریک رہا ۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنے مکان پر رہنا موقوف کردیا۔ دن رات صاحب کی کوٹھی پر حاضر رہتا تھا اور رات کو کوٹھی پر پہرہ دینا اور حکام کی اور میم صاحبہ اور بچوں کی حفاظت جان کا خاص اپنے ذمہ اہتمام لیا۔ ہم کو یاد نہیں ہے کہ دن رات میں کسی وقت ہمارے بدن پر سے ہتھیار اترا ہو۔" (لائل محمڈنز آف انڈیا حصہ اول مطبوعہ 1860ء، میرٹھ ، صفحہ13، 14 )

آگے چل کر سرسید اپنی جاں نثاری کی آرزو کے دعوے کے ثبوت میں ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں ، " دفعتا 29 نمبر کی کمپنی سہارنپور سے بجنور میں آگئی ۔ میں اس وقت صاحب ممدوح پاس نہ تھا ۔ دفعتا میں نے سنا کہ فوج باغی آگئی اور صاحب کے بنگلہ پر چڑھ گئی ۔ میں نے یقین جان لیا کہ سب صاحبوں کا کام تمام ہوگیا۔ مگر میں نے نہایت بری بات سمجھی کہ اس حادثہ سے الگ رہوں ۔ میں ہتھیار سنبھال کر روانہ ہوا اور میرے ساتھ جو ایک لڑکا صغیرسِن (سرسید کے مرحوم بھائی کا لڑکا محمد احمد جو تنہا ان کے ساتھ رہتا تھا ضیاءالدین) تھا ۔ میں نے اپنے آدمی کو وصیت کی، " میں تو مرنے جاتا ہوں ، مگر جب تو میرے مرنے کی خبر سن لے ، تب اس لڑکے کو کسی امن کی جگہ پہنچا دیجیو۔" مگر ہماری خوش نصیبی اور نیک نیتی کا یہ پھل ہوا کہ اس آفت سے ہم بھی اور ہمارے حکام بھی سب محفوظ رہے مگر مجھ کو ان کے ساتھ اپنی جان دینے میں کچھ دریغ نہ تھا۔" (ایضا ص 14، 15)

کوٹھی پر جا کر سرسید کو معلوم ہوا کہ افواہ غلط ہے اور وہ کمپنی دراصل بطور بدلی مرادآباد جاتی ہے۔(سرکشی ضلع بجنور مطبوعہ1858ء ، آگرہ ، ص7)




(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دوبارہ انگریزی تسلط کی پیش گوئی:

ان کے ایک دوست جو اس وقت بجنور میں موجود تھے ، ان کا بیان ہے کہ عین اس بدعملی کے وقت ، جبکہ تمام روہیل کھنڈ میں کوئی یورپین یا یوریشین باقی نہ تھا ، سید احمد خان ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ

" کم و بیش ایک سال بعد تمام ملک میں انگریزی تسلط قائم ہو جائے گا ۔"

اور گورنمنٹ کے بے شمار خیرخواہوں میں کسی کے چہرہ سے وہ اطمینان اور استقلال ظاہر نہیں ہوتا تھا جیسا سرسید کے چہرہ سے ظاہر ہوتا تھا۔" 40

بغاوت کے نقصان دہ اثرات:

ان کو یقین تھا کہ 57ء کی بغاوت نے ہندوستانیوں کے اعتبار کو سوبرس پیچھے ہٹادیا ہے وہ کہتے تھے کہ

" اگر یہ واقعہ ظہور میں نہ آتا تو آج ہمارے سینکڑوں جوان والنٹیئرز ہوتے ، ایکٹ اسلحہ کبھی وجود میں نہ آتااور ہم میں سے بہت سے لوگ فوج کے کپتان اور کرنیل و جرنیل نظر آتے۔" 41

بجنور میں باغی قرار دئے جانے کا معیار:

بجنور میں انگریزوں کے چلے جانے کے بعد ۔ ۔ ۔ بہت لڑائیاں اور خانہ جنگیاں ہوئی تھیں ۔ کبھی ہندوؤں نے مسلمانوں پر حملے کئے اور کبھی مسلمانوں نے ہندوؤں پر، اور آخر کو محمود خاں سب پر غالب آگیا تھا ، اس لئے کچھ ہندو رئیس نواب سے شکست کھا کر میرٹھ چلے آئے تھے اور کچھ نواب نے قید کر لئے تھے۔ پس جب انگریزی فوج رُڑکی میں پہنچ لی اور روہیل کھنڈ پر چڑھائی کرنے کو تیار ہوئی تو وہاں یہ بحث پیش آئی کہ ضلع بجنور میں جو کہ روہیل کھنڈ کا سب سے پہلا ضلع ہے اور جہاں سب سے پہلے فوج جانے والی ہے ، کون لوگ باغی تصور کئے جائیں ؟ ۔ ۔ ۔ سرسید نے مسٹر شیکسپیئر اور بعض افسرانِ فوج سے اس باب میں گفتگو کی اور کہا کہ

" سرکار کے نزدیک باغی صرف وہی لوگ قرار پانے چاہیئں جو اب سرکار سے مقابلہ کے ساتھ پیش آئیں ۔ باقی جو لڑائیاں اور فسادات رعایا نے ایک دوسرے سے کئے قانون کی رُو سے ان کی نسبت سے جو کچھ تجویز ہو سو ہو مگر انکی وجہ سے کسی کو سرکار کے مقابلہ میں باغی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ میرے نزدیک بوقت داخل ہونے سرکاری فوج کے اگر کوئی مقابلہ نہ کرے اور سب لوگ مع نواب محمود خاں کے حاضر ہو جائیں تو ضلع بجنور کے کسی شخص کو باغی قرار دینا نہیں چاہیے۔"

اس پر بہت بحث ہوئی اور آخر یہ بات قرار پا گئی کہ جو لوگ سرکاری فوج کے مقابلہ میں آئیں ، وہی باغی قرار دئے جائیں لیکن بدنصیبی سے آم سوت ، نجیب آباد اور نگینے پر احمد اللہ خاں اور ماڑے خاں وغیرہ نے خفیف خفیف مقابلے کر کے ہزاروں کو لڑائی میں قتل کرایا اور تمام ضلع کی طرف سے سرکاری افسروں کو بدظن کردیا۔ 42



(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مرادآباد کے ایک رئیس کا بچاؤ:

ایک بہت بڑا فائدہ سرسید کے مرادآباد میں ہونے سے خاص کر مسلمانوں کو یہ پہنچا کہ مولانا عالم علی مرحوم رئیس مرادآباد جو روہیل کھنڈ کے ایک مشہور عالم اور طبیب اور نامور محدث تھے ، انہوں نے چند یورپین عورتوں اور بچوں کو باغیوں کے ظلم سے بچانے کے لئے اپنے مکان میں چھپا لیا تھا ، مگر اتفاق سے باغی سپاہیوں کو خبر ہوگئی اور انہوں نے مولوی صاحب کے مکان میں گُھس کر ان سب کو قتل کرڈالا ۔مولانا موصوف اس خیال سے کہ یہ حادثہ عظیم ان کے مکان میں گذرا تھا اور ان کا کوئی عزیز یا رشتہ دار ان مظلوموں کے ساتھ نہیں مارا گیا تھا ، سرکاری تسلط کے وقت مرادآباد سے کہیں چلے گئے تھے اور حکام ضلع کو ان کی تلاش درپیش تھی ، اور انکی نسبت یہ گمان تھا کہ باغیوں کے ساتھ ان کی ضرور سازش تھی ورنہ ان کے آدمی بھی مقتولوں کے ساتھ یقیناّ مارے جاتے ، مگر سرسید کو یہ معلوم ہو گیا تھا کہ مولوی عالم علی محض بے قصور تھے اور انہوں نے نہایت نیک نیتی سے یورپین عورتوں اور بچوں کو اپنے گھر میں رکھا تھا ۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ باغیوں کو مولوی صاحب سے کوئی وجہ عداوت نہ تھی کہ وہ ان کو یا ان کے رشتے داروں کو بھی مار ڈالتے اور خود ان میں اتنی طاقت نہ تھی کہ باغی سپاہ کا مقابلہ کرتے ۔ چنانچہ سرسید نے مولوی صاحب کی بریت کے لئے صاحبِ ضلع سے ، باوجویکہ وہ نہایت افروختہ تھے ، بڑی دلیری کے ساتھ گفتگو کی اور یہ کہا کہ

" میں مولوی عالم علی کو آپ کے سامنے حاضر کر سکتا ہو ں ، لیکن جب تک کہ آپ یہ وعدہ نہ کریں کہ ان سے کچھ مؤاخذہ نہ کیا جائے گا اس وقت تک میں ان کو بلانے کی جرات نہیں کرسکتا۔"

آخر میں صاحب ضلع نے ان سے یہ وعدہ کرلیا کہ ہم ضابطہ کی تحقیقات تو ضرور کریں گے لیکن چونکہ تمہارے نزدیک وہ بے قصور ہیں ، بعد ضابطہ کی کارروائی کے ان کو بری کر دیا جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ سرسید نے مولوی صاحب کو بلا کر عدالت میں پیش کر دیا اور ضابطہ کی کرروائی کے بعد وہ بالکل بری کر دیئے گئے۔ 43


-----×××××-----​




۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


انگریزی حکومت کا قیام

انگریزوں کی ہندوستان میں آمد اور انگریزی حکومت کا استحکام:

انگریزوں کو انہوں نے نہایت شدومد کے ساتھ رسالہ اسبابِ بغاوت میں متنبہ کیا تھا کہ ان کو ہندوستانیوں کے ساتھ دوستی اور صداقت کا برتاؤ رکھنا ضرور ہے ۔ اس کے بعد ہمیشہ اپنی تحریروں اور پبلک اسپیچوں میں اس بات کی تمنا ظاہر کرتے رہے کہ ہمارے اور انگریزوں کے سوشل تعلقات برادرانہ اور دوستانہ ہونے چاہیئں ، نہ حاکم محکومانہ۔ اس موقع پر ہم سرسید کی ایک مختصر اسپیچ ، جو انہوں نے علی گڑھ میں ایک ڈنر پر مسٹر بلنٹ ممبر پارلیمنٹ کا جامِ صحت پروپوز کرتے وقت 1884 ء میں کی تھی اور جس میں یہی تمنا خاص مسلمانوں کی طرف سے ایک لطیف پیرایہ میں ظاہر کی گئی تھی ، بجنسہ نقل کرتے ہیں ۔



(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سرسید نے کہا ×

"ہم کو نہایت خوشی ہے کہ مسٹر بلنٹ نے ہمارے ملک کو دیکھا، ہماری قوم کے مختلف گروہوں سے ملے ، ہم کو امید ہے کہ انہوں نے ہر جگہ ہماری قوم کو تاجِ برطانیہ کا لائل اور کوئین وکٹوریا ایمپریس آف انڈیا کا دلی خیرخواہ پایا ہوگا ۔ اگر ہماری کسی آرزو سے وہ واقف ہوئے ہوں گے تو وہ صرف انگریزوں کی طرف سے سمپتھی کی خواہش ہوگی جس کی نسبت بلاشبہ میں کہوں گا کہ ہماری وہ خواہش پورے طور پر پوری نہیں ہوئی۔"

" مسلمانوں کی یہ خواہش کہ مسلمانوں میں اور انگلش نیشن میں سمپتھی قائم ہو، کوئی عجیب بات نہیں ہے ۔ کبھی کوئی ایسا زمانہ نہیں گذرا کہ جو ہم مسلمانوں میں اور انگلش نیشن میں کوئی معرکہ ایسا گذرا ہو کہ ہم میں اور ان میں کوئی بنائے مخاصمت قائم ہوئی ہو ، ان کو ہم سے بدلہ لینے کی رغبت ہو اور ہم کو ان کے عروجِ اقبال سے رشک و حسد ہو۔ کروسیڈ کے زمانہ میں ، جو ایک زمانہ ہر قسم کی عداوتوں کے برانگیختہ ہونے کا تھا ، انگلش کو بہت ہی کم ان معرکوں سے تعلق تھا ۔ "

" یہ بات سچ ہے کہ ہم نے ہندوستان میں کئی صدیوں تک شہنشاہی کی ۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کی شان و شوکت کو نہیں بھول سکتے ، لیکن اگر یہ خیال کسی شخص کے دل میں ہو کہ ہم مسلمانوں کو انگلش نیشن کے ساتھ ، اس وجہ سے کہ انہوں نے ہماری جگہ ہندوستان کی حکومت حاصل کی ، کچھ رشک و حسد ہے تو وہ خیال محض بے بنیاد ہوگا ۔ وہ زمانہ جس میں انگریزی حکومت ہندوستان میں قائم ہوئی ، ایسا زمانہ تھا کہ بے چاری انڈیا بیوہ ہو چکی تھی ، اس کو ایک شوہر کی ضرورت تھی ، اس نے خود انگلش نیشن کو اپنا شوہر بنانا پسند کیا تھاتاکہ گاسپل کے عہد نامہ کے مطابق وہ دونوں مل کر ایک تن ہوں۔، مگر اس وقت اس پر کچھ کہنا ضرور نہیں ہے کہ انگلش نیشن نے اس پاک وعدہ کو کہاں تک پورا کیا۔ "

" ہندوستان میں ہم نے اپنے ملک کی بھلائی کے واسطے انگلش حکومت قائم کی ۔ ہندوستان میں انگلش حکومت قائم ہونے میں ہم اور وہ مثلِ قینچی کے دو پلڑوں کے شریک تھے ۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان دونوں میں کس نے زیادہ کام کیا ہے ۔ پس ہم مسلمانوں کی نسبت ایسا خیال کرنا ، کہ ہم انگلش حکومت کو ایک ناگواری سے دیکھتے ہیں ، محض ایک خیال غلط ہوگا۔ "

" انگلش نیشن ہمارے مفتوحہ علاقے میں آئی مگر مثلِ ایک دوست کے ، نہ بطور ایک دشمن کے۔ہماری خواہش ہے کہ ہندوستان میں انگلش حکومت صرف ایک زمانہ دراز تک ہی نہیں بلکہ اپنے ملک کے لئے (ہے) ۔ ہماری یہ آرزو انگریزوں کی بھلائی یا ان کی خوشامد کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اپنے ملک کی بھلائی اور بہتری ہی کے لئے ہے ۔ پس کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم میں اور ان میں سمپتھی نہ ہو ۔ سمپتھی سے میری مراد پولیٹیکل سمپتھی نہیں ہے ۔ پولیٹیکل سمپتھی تانبے کے برتن پر چاندی کے ملمع سے زیادہ کچھ وقعت نہیں رکھتی ۔ اس کا اثر دونوں (فریق) کے دلوں میں کچھ نہیں ہوتا ، ایک فریق جانتا ہے کہ وہ تانبے کا برتن ہے ، دوسرا فریق سمجھتا ہے کہ وہ جھوٹے ملمع کی قلعی ہے ۔ سمپتھی سے میری مراد برادرانہ و دوستانہ سمپتھی ہے ۔"

----------------------------------------------------------------------------------------
× : سرسید کی یہ تقریران کے لیکچرز یا خطبات کے کسی مجموعے میں شامل نہیں ، چونکہ اس تقریر کے بعض الفاظ پر سرسید اور حالی کے تبصروں کا مفہوم سمجھنا اس کے مطالعہ کے بغیر ممکن نہ تھا اس لئے اسے ملفوظات میں شامل کیا گیا ہے ۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سرسید کہتے تھے کہ

" یہ اسپیچ جب اخبار میں سر ایلفرڈ لائل لفٹننٹ گورنر کی نظر سے گذری اور اس کے بعد میں ان سے ملا تو انہوں نے فرمایا کہ تم نے یہ عجب طرح کی اسپیچ دی تھی ۔ میں نے کہا شاید عجب ہو ، مگر غلط نہیں تھی۔"

غالباّ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کو اسپیچ مذ کور کے اس فقرہ پر تعجب ہوا ہوگا کہ “ انگلش حکومت کے قائم ہونے میں ہم اور وہ مثلِ قینچی کے دو پلڑوں کے شریک تھے ۔“ شاید عام لوگ سرسید کی اس تلمیح سے آگاہ نہ ہوں اس لئے اس کا جو مطلب ہم سمجھے ہیں اس کو مختصر طور پر بیان کرتے ہیں۔ غالباّ سرسید نے اس فقرہ میں ہندوستان کے ان تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ممالکِ ہندوستان کی ابتدائی انگریزی فتوحات اور سرکار کمپنی کے رعب و داب اور اس کی پالیسی کو مسلمان امیروں اور حکمرانوں کی تائید اور آشتی سے بہت مدد ملی ہے ، جیسے پلاسی کی لڑائی میں میر جعفر کا بمقابلہ سراج الدولہ کے لارڈکلائیو کا ساتھ دینا ، شاہِ عالم کا مرہٹوں کے مقابلہ کے وقت اپنے تئیں لارڈ لیک کی حفاظت میں سپرد کر دینا اور نظام حیدرآباد کا لارڈ ولزلی کی صلاح ماننا اور تمام فرانسیسوں کی فوج کو اپنی قلمرو سے یک قلم موقوف کرنا وغیرہ وغیرہ ۔44

ان کی نہایت پُختہ رائے تھی کہ ہندوستان کے لئے انگلش گورنمنٹ سے بہتر ، گو کہ اس میں کچھ نقص بھی ہوں ، کوئی گورنمنٹ نہیں ہو سکتی ۔ اور اگر امن و امان کے ساتھ ہندوستان کچھ ترقی کر سکتا ہے تو انگلش گورنمنٹ ہی کے ماتحت رہ کر کرسکتا ہے ۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ:

" گو ہندوستان کی حکومت کرنے میں انگریزوں کو متعدد لڑائیاں لڑنی پڑی ہوں مگر درحقیقت نہ انہوں نے یہاں کی حکومت بزور حاصل کی اور نہ مکروفریب سے ، بلکہ درحقیقت ہندوستان کو کسی حاکم کی اس کے اصلی معنوں میں ضرورت تھی ، سو اسی ضرورت نے ہندوستان کو ان کا محکوم بنا دیا ۔"

انہوں نے کئی موقعوں پر یہ ظاہر کیا ہے کہ:

" میں ہندوستان میں انگلش گورنمنٹ کا استحکام کچھ انگریزون کی محبت اور ان کی ہوا خواہی کی نظر سے نہیں چاہتا بلکہ صرف اس لئے چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی خیر اس کے استحکام میں سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک اگر وہ اپنی حالت سے نکل سکتے ہیں تو انگلش گورنمنٹ ہی کی بدولت نکل سکتے ہیں ۔" 45


(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
انگریز افسروں سے جھگڑا اور معافی:

۔۔۔ سرسید ایک ایسی جُرات کر بیٹھے جس کی بدولت آخرکار ان کو گورنمنٹ سے معافی مانگنی پڑی ۔ فروری 67ء میں جبکہ ڈریمنڈ صاحب اضلاع شمال مغرب میں لفٹیننٹ گورنر تھے ، آگرہ میں ایک بڑی نمائش ہوئی تھی اور سرسید بھی منتظم کمیٹی کے ایک ممبر تھے ۔ اس کمیٹی میں ان کے سوا اور بھی چند معزز ہندوستانی انگریزوں کے ساتھ شامل تھے اور تمام ممبروں کو یکساں اختیار دئے گئے تھے ، کسی طرح کا تفاوت انگریزوں اور ہندوستانی ممبروں میں نہ تھا۔ نمائش کی اخیر تاریخ دربار کے لئے مقرر تھی اور دربار کا انتظام مسٹر پالک کلکٹر ضلع آگرہ کے سپرد تھا ۔ صاحبِ موصوف نے نمائش گاہ کے قریب ایک میدان میں درباریوں کے لئے کُرسیاں اس طرح بچھوائیں کہ جو مقام کسی قدر بلند تھا ، کرسیوں کی ایک لائن تو اس مقام پر لگائی اور اس پر ایک شامیانہ بھی ، جس سے دھوپ کی روک ہو ، کھچوا دیا اور دوسری لائن اسی کے متوازی مگر اس سے ذرا نیچی جگہ پر لگوائی جس پر شامیانہ وغیرہ کچھ نہ تھا ۔ سر سید نے اکثر ہندوستانی درباریوں کو اس بات کا یقین دلایا تھا کہ اس موقع پر گورنمنٹ کو یہ منظور ہے کہ انگریزوں اور ہندوستانیوں میں کچھ تمیز نہ رکھی جائے ، اور سب کے ساتھ یکساں برتاؤ کیا جائے ۔


(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
درباریوں میں سے ایک معزز ہندوستانی شائد دربار سے ایک دن پہلے چلتے پھرتے دربار کے میدان کی طرف جانکلے اور اتفاق سے اُوپر کی لائن میں ایک کُرسی پر بیٹھ گئے ۔ ایک بابُو نے آکر ان کو وہاں سے اُٹھا دیا اور کہا کہ، " آپ کے واسطے نیچے کی لائن لگائی گئی ہے ۔" وہ وہاں سے سیدھے سرسید کے پاس آئے اور حال بیان کیا اور یہ کہا کہ ، " آپ کا خیال انگریزوں اور ہندوستانیوں کی مساوات کے باب میں صحیح نہ تھا۔" سر سید کو نہایت تعجب اور اس کے ساتھ سخت ندامت ہوئی کہ جو کچھ لوگوں کو یقین دلایا گیا وہ غلط ہوگیا ۔


(جاری ۔ ۔ ۔)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ (سرسید) اسی وقت دربار کے میدان میں پہنچے اور قصدا اُوپر کی لائن میں ایک کُرسی پر جا بیٹھے ۔ بابو نے آکر ان کو بھی ٹوکا ۔ یہ وہاں سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور مسٹر جیمس سمسن سیکرٹری گورنمنٹ سے ، جو وہیں دربار کے ٹکٹ بانٹ رہے تھے ، سارا حال بیان کیا ، انہوں نے بھی اس امر کو ناپسند کیا اور سر سید سے کہا کہ آپ اس کا ذکر مسٹر پالک سے کریں ۔ اتنے ہی میں مسٹر تھارن ہل صدر بورڈ کے حاکمِ اعلیٰ وہیں چلے آئے ، جب اُن کو یہ قصہ معلوم ہوا تو وہ سرسید پر نہایت افروختہ ہوئے اور کہا کہ تم لوگوں نے غدر میں کون سی بُرائی تھی جو ہمارے ساتھ نہیں کی؟ اب تم یہ چاہتے ہو کہ ہمارے اور ہماری عورتوں کے ساتھ پہلو بہ پہلو دربار میں بیٹھو؟

سر سید نے کہا

“ اسی سبب سے تو یہ ساری خرابیاں پیدا ہوئیں کہ آپ لوگ ہندوستانیوں کو ذلیل سمجھتے رہے ، اگر ان کو اس طرح ذلیل نہ سمجھا جاتا تو کیوں یہاں تک نوبت پہنچتی۔“

تھارن ہل صاحب اور زیادہ برہم ہوئے ۔ آخر مسٹر جیمس سمسن نے سرسید کو سمجھایا کہ اس گفتگو سے کچھ فائدہ نہیں ۔ سرسید وہاں سے اپنے ڈیرے میں چلے آئے اور دربار میں شریک نہیں ہوئے ۔


(جاری ۔ ۔ ۔ )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
لیکن یہ خبر لیفٹننٹ گورنر کو پہنچی تو انہوں نے بھی دربار کی ترتیب اور انتظام کو ناپسند کیا اور حکم دیا کہ اس وقت زیادہ تبدیلی تو نہیں ہوسکتی لیکن ہر ضلع اور قسمت کے حکام کو چاہیے کہ اپنے اپنے ضلع اور قسمت کے ہندوستانی رئیسوں اور افسروں کے ساتھ نیچے کی لائن میں بیٹھیں ۔

دربار کے بعد جو یورپین افسر سرسید سے ملتا تھا ، اس واقعہ کو پوچھتا تھا اور جب وہ بیان کرتے تھے تو بگڑتا تھا ۔ لاچار انہوں نے وہاں زیادہ ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا اور رات کو وہاں سے سوار ہو کر علی گڑھ چلے آئے۔


(جاری ۔ ۔ ۔ )
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top