سخندان فارس3

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
SukhandanFaras_page_0005.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
کے رنگ روپ، ڈیل ڈول، رسم و رواج بدل دیتی ہے اسی طرح لہجوں، آوازوں اور تلفّظ کے فرق سے اُن کے لفظوں کے ڈیل ڈول اور عبارتوں کے جوڑ توڑ میں فرق آ گیا۔ تم روز دیکھتے ہو کہ ایک دادا کی اولاد سے لڑکے بالے پھیل کر رنگ برنگ کے اشخاص ہو جاتے ہیں، اسی طرح سمجھ لو کہ اُن کی زبان کی ایک اصل تھی جن سے لفظوں کی اولاد اور نسلیں پھیل کر نئی مخلوقات پیدا ہوگئی، جو ایک الگ زبان معلوم ہوتی ہے (دیکھو ایرین قوم کا حال صفحہ ۲۹ و ۶۷ میں)۔

میری غرض یہاں اُس مبارک نسل سے متعلق ہے کہ کسی زمانے میں ایک گھرانے کی ولادت، ایک گھر کے رہنے سہنے والے، ایک بولی کے بولنے والے، ایک مذہب کے ماننے والے، ایک ریت رسم کے برتنے والے، گروہ گروہ اور انبوہ انبوہ وطن چھوڑ کر روانہ ہوئے۔ ایک قطار نے ہند کا رخ کیا، ایک نے ایران کا۔ ان دونوں کی زبانیں گویا ایک ماں کی دو بیٹیاں، جو بہن ہند میں پلی ہندو ہوگئی، جس نے ایران میں پرورش پائی ایرانی کہلائی۔

باوجودیکہ ہزاروں برس کی جدائی اور سلطنتوں کے انقلاب نے رشتوں کو فرسودہ کر دیا، سب رنگ روپ خاک میں مل گئے اور فارسی قدیم کو فارسی حال سے مقابلہ کرو تو ایسی ہوگئی جیسے سنسکرت بھاشا اور اردو۔ اس پر بھی جب ژند پاژند، پہلوی، دری اور پھر سنسکرت میں آگاہی پیدا کرتے ہیں تو قیافہ شناسوں کو بہت سے لفظوں کے چہروں پر ایک نسل کے خط و خال جھلکتے معلوم ہوتے ہیں۔ اہلِ نظر جب ایک فارسی کتاب کے صفحہ پر غور کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ایک خاندان کے لوگ ہیں، ہاں قد و قامت اور رنگوں میں فرق آ گیا ہے، اپنی اپنی وضع کے لباس پہنے سامنے پھرتے ہیں۔

ڈیڑھ سو برس ہوئے کہ ٹیک چند بہار اور خان آرزو دو فلسفی لغتِ فارسی کے دلّی میں پیدا ہوئے۔ یہ فارسی زبان کے ماہر تھے اور ہندی انکے
 
Top