سخندان فارس 8

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
SukhandanFaras_page_0012.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
طرف جاتی ہو، جب پھِش پھِش کر کے آواز دو گے فوراً دیکھنے لگے گی۔ کُتّا کسی ولایت کا ہو جن تم چُس چُس کر کے آواز دو گے ضرور چوکنّا ہو کر دیکھنے لگے گا بلکہ محبت کی دُم بھی ہلانے لگے گا، یہ عموماً بازاری کتّوں کا حال ہے اور جو تعلیم یافتہ ہیں اُن کا تو کیا کہنا۔

جب یہ بات قرینِ قیاس ٹھیری کہ انسان بھی ابتدائے آفرینش میں اشاروں سے سمجھتا سمجھاتا تھا تو یہ بھی ظاہر ہے کہ سوچنے اور ایجاد کرنے کی لیاقت اُسے خدا نے دی تھی۔ برس دو برس کے بچّوں کو دیکھو فقط چیخیں ہی مارتے ہیں یا مُہمل آوازیں کام میں لاتے ہیں، جس بات کو جی چاہتا ہے یا کچھ چیز مانگتے ہیں یا نہیں کرنا چاہتے ہیں تو انگلیوں کے اشاروں سے، سر کے ہلانے سے اور اُنھ اُنھ نے نے کر کے تمھیں اپنی خواہشیں جتا دیتے ہیں، رفتہ رفتہ کچھ اور آوازیں بھی ٹھیرا لیتے ہیں، مثلاً پانی کے لئے مَم مَم اور کھانے کو پَہ پَہ یا ہپہ وغیرہ وغیرہ۔ تم نے دیکھا، اعضائے تکلّم میں ہونٹ سب سے زیادہ نرم ہیں، ذرا سے ارادہ میں ہل جاتے ہیں، انہی سے یہ صدائیں نکلی ہیں نہ کہ مسوڑوں سے یا ناک سے یا کان سے۔ رفتہ رفتہ کچھ اور آوازیں نکالنے لگتے ہیں یا سیکھ جاتے ہیں۔ البتہ انکے استاد یا رہنما بھی ہوتے ہیں (وہ کون؟ یہی گھر والے) اور یہ آوازیں بھی اوّل ان چیزوں اور ان آدمیوں پر کام آتی ہیں جو ان کے آس پاس ہوتے ہیں۔

اسی طرح فرض کرو کہ آفرینش عالمِ طفولیت میں ہے اور ایک جگہ دو چار ہی آدمی رہتے ہیں۔ اس وقت ان کے کیا معاملات؟ اور کیا سامان ہیں؟ ایک پہاڑ کے بن مانس یا صحرا کے حبشی پر خیال کرو کہ اُس کے پاس ایک ہڈی ہے، وہ اس میں گوشت نوچ نوچ کر کھا رہا ہے۔ فرض کرو ایک ویسا ہی جنگلی اس پر ہاتھ بڑھا کر، آنکھیں نکال کر، گردن کو اینٹھا کر غرّایا۔ تو پہلا جنگلی ضرور سمجھ گیا ہوگا کہ یہ ہڈی چھیننی چاہتا ہے۔ اگر برخلاف پہلی حالت کے اُوں اُوں کر کے، نرم نرم مہین آواز نکالی اور غریبی کا رنگ دکھا کر آنکھیں چندھیائیں اور آہستہ آہستہ ہاتھ
 
Top