سخندان فارس 6

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
SukhandanFaras_page_0010.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
لطیفہ میں ادا کرتا ہوں کہ زبان (خواہ بیان) ہوائی سواریاں ہیں جن میں ہمارے خیالات سوار ہو کر دل سے نکلتے ہیں اور کانوں کے رستے اوروں کے دماغوں میں پہنچتے ہیں۔ اس سے رنگین تر مضمون یہ ہے کہ جس طرح تصویر اور تحریر قلم کی دستکاری ہے جو آنکھوں سے نظر آتی ہے اسی طرح تقریر ہمارے خیالات کی زبانی تصویر ہے جو آواز کے قلم نے ہوا پر کھینچی ہے، وہ صورتِ ماجرا، کام، مقام اور ساری حالت کانوں سے دکھاتی ہے۔

خیالات کا مرتبہ زبان سے اول ہے لیکن جب تک وہ دل میں ہیں، ماں کے پیٹ میں ادھورے بچے ہیں، تقریر میں آ کر پورے ہوتے ہیں اور تحریر کا لباس پہن کر بھر پور۔ لوگ جو خیالات سے مطلب نگاری اور نکتہ پردازی میں جان کھپاتے ہیں، اس نکتہ کو انہی کا دل جانتا ہے۔

دنیا میں اظہارِ مراتب کی کاروائی تین طرح سے ہو سکتی ہے، اشارات، تقریر، تحریر۔ ان میں زبان یعنی تقریر اپنی توضیح کی زیادتی اور محنت کی کمی سے اول نمبر ہو گئی ہے اور حق پوچھو تو کاروائی کے لئے سب برابر ہیں۔ اب یہ کہو کہ زبان کیونکر پیدا ہوئی؟ سبحان اللہ، ہر مذہب کی کتاب یہی خبر دیتی ہے کہ ہماری زبان خاص خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے، یہ ہمیں ساتھ لیکر بہشت میں جائیگی، اور اسی کے ذریعے سے ہم اہلِ جنت سے باتین کرینگے (1)۔ لیکن غور کر کے دیکھو تو صانعِ مطلق نے اپنی صنعتِ کاملہ سے انسان ایک ایسا طلسمِ قدرت بنایا ہے کہ وہ خود زبان پیدا کر سکتا ہے اور یہ راز خیال کو وسعت دینے سے کھلتا ہے۔

ہے انساں صانعِ قدرت کا اک صندوقِ سربستہ
ولیکن یہ نہیں کھلتا کہ اس میں بولتا کیا ہے

------------------------------------------
1- یہ بھی درست ہے، یونان کی زبان نے فلسفۂ الٰہی کو پھیلا کر خدا پرست فلاسفر کو بہشت میں پہنچایا، سنسکرت نے ہند میں دھرم گیان، عرب نے معرفتِ الٰہی سکھایا۔
 
Top