سخندان فارس 4

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
SukhandanFaras_page_0008.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
وطن کی زبان تھی۔ دونوں زبانوں کے مقابلہ کرنے کا آسان موقع تھا، اس لئے ہزاروں برس کا مٹا ہوا سراغ صاف نکل آیا۔

1783ء میں سر ولیم جونس نے ہندوستان میں آ کر سنسکرت اور فارسی پڑھی۔ خدا جانے صاحب نے اپنی طبیعت کے لگاؤ سے یا ان دونوں کی تصنیفات سے یہ نکتہ پایا۔ غرض انہوں نے ولایت میں جا کر چرچا پھیلایا اور وہاں کے زباں دانوں سے نئی دریافت کا تمغا حاصل کیا۔

مجھے اس تحقیقات کا شوق نہیں، جنون ہے۔ لڑکپن میں بھی لفظوں کے حروف کو ہیر پھیر، ادل بدل کر فارسی اور سنسکرت کے لفظوں کا ملایا کرتا تھا۔ اس زبان میں تھوڑی تھوڑی معلومات بھی پیدا کی، بڑی کوشش سے ژند، پہلوی اور دری کی کتابیں جو مل سکیں، بہم پہنچائیں۔ انہی کے لئے بمبئی گیا پھر ایران تک سفر کیا، موبدوں اور دستوروں سے ملا، ایک برس وہاں رہا لیکن افسوس یہ ہے کہ فائدہ بہت کم حاصل ہوا۔

اہلِ یورپ نے اس تحقیقات کو بہت پھیلایا ہے، شرم کی بات ہے کہ اتنی دُور کے لوگ اتنی کوششیں کریں اور ہم اپنے پیارے وطن اور عالی نژاد بزرگوں کی زبان سے ایسے بے غرض اور بے پروا رہیں۔ جو کچھ آزاد کی ناتمام تحقیق نے میدانِ تلاش میں دانہ دانہ چن کر سرمایہ بنایا ہے، قلم کی معرفت کاغذ کے حوالہ کرتا ہے۔ یہ سینہ صاف امانت دار ہے، دیانت سے اہلِ طلب تک پہنچا دے گا اور چونکہ اس ضروری مطلب کی بنیاد فنِ فیلالوجیا (زبانوں کی فلسفی تحقیقات) پر ہے جو ابھی اکثر عزیزانِ وطن تک نہیں پہنچا اس لئے پہلے اس کے ضروری اصول لکھتا ہوں، اسطرح کہ بیان فضول اور خیالات کو طول نہ ہو لیکن مطلب کی بات رہ بھی نہ جائے۔
 
Top