سخندان فارس 27

نایاب

لائبریرین
SukhandanFaras_page_0029.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 27

زبان کا جینا اور مرنا​

زبان اپنے کمال جوانی اور زور زندگانی پر شمار کی جاتی ہے۔ جبکہ اُس کے ذخیرہ میں ہر علم۔ ہر فن کی تصنیفات ہوں۔ اور ہر قسم کے حالات و مطالب کے ادا کرنے کے واسطے الفاظ و محاورات کے سامان حاضر ہوں۔ اس کا مضائقہ نہیں کہ الفاظ مذکور و خاص اسی کے ملک کی آفرینش ہوں خواہ غیر ملکوں سے آئے ہوں۔ زبان کا استقلال اور آئندہ کی زندگی چار ستونوں کے استقلال پر منحصر ہے۔ (1) قوم کا ملکی استقلال۔ (2) سلطنت کا اقبال (3) اُس کا مذہب (4) تعلیم و تہذیب۔

اگر یہہ چاروں پاسبان پورے زوروں سے قائم ہیں۔ تو زبان بھی زور پکڑتی جائیگی۔ ایک یا زیادہ جتنے کمزور ہونگے اُتنی ہی زبان ضعیف ہوتی جائیگی۔ یہاں تک کہ مر جائیگی۔ مرنا اُس کا یہی کہ خواص و عوام کی زبانیں اس کے بولنے سے اور قلم اُس کے لکھنے سے مُنہ پھیر لیں۔ یعنی نہ کہیں بولی جائے۔ نہ اس میں تصنیف و تالیف کا رواج رہے۔

زبان کا انقلاب کُلی اکثر انقلاب تاریخی وے ہوتا ہے۔ وہ طوفان اُسے چاروں طرف سے تہ و بالا کر دیتا ہے اور اسی میں اکثر زبانیں فنا ہو جاتی ہیں۔ میں اس موقع پر یونان اور روما کی زبانوں کے مرنے کا ذکر نہ کرونگا۔ کیونکہ میں اور میرے ہموطن اُن کے حال سے بے خبر ہیں۔ اُنہی چند زبانوں کا حال سُناتا ہوں۔ جنہیں سب جانتے ہیں۔

سنسکرت کی زندگی

(1) قوم گھر میں قائم ہے اور یہ شکر کا مقام ہے۔

(2) سلطنت کے اقبال کے ساتھ زبان کا اقبال رخصت ہوا۔ زبان کو
 
Top