سخندان فارس 23

نایاب

لائبریرین
SukhandanFaras_page_0025.jpg
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
او گاڈ شمشاد بھائی ، آپ کو آخر تک پتہ ہی نہیں چلا کہ ایک ہی صفحہ دوبارہ لکھ رہے ہیں ضرور بھابھی یاد آ رہی ہوں گی کہ چائے بنا دیتیں ورنہ دوسری تیسری سطر پر ہی اندازہ ہو جاتا :happy:
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 23

دستور یہ ہے کہ بعض لباس۔ بعض کھانے۔ بعض اجناس۔ بعض علمی مطالب اور اُن کے سامان ملک غیر سے آئے۔ وہ یا تو اپنے نام ساتھ لائے یا یہاں آ کر یہیں کی زبان سے نام پائے۔ فارس میں عرب کا تسلط ہوا۔ اور ملک۔ مملکت۔ مذہب۔ سکونت سب کو روک لیا۔ کہ یہی رستے زبان کے استقلال یا انقلاب کے تھے۔ اہل ملک بہت تو مسلمان ہو گئے۔ بہت سے آوارہ ہو گئے۔ اور جو بھاگنے کے قابل ہی نہ تھے۔ وہ گمنامی کے غاروں اور پہاڑوں میں بیٹھ رہے۔ زبان قومی کی حفاظت کون کرتا؟ علوم۔ فنون۔ کتابیں اور علمی سامان جو یونان سے پہلو مارتے تھے۔ اس طرح فنا ہوئے کہ نام و نشان تک نیست و نابود ہو گئے۔ پھر جو علم۔ ادب اور شائستگی نے رونق پھیلائی۔ وہ علما اور شرفائے عرب سے پھیلی۔ یا اُن نو مسلموں سے جنہوں نے عربیت اور اسلام کا جامہ پہن لیا تھا اور اُسی کر فخر سمجھتے تھے۔ اقبال سلطنت ایک ایسی برکت ہے۔ کہ جس قوم کے ماتھے کو لگ جاتا ہے۔ اُس کے ہر چیز بلکہ بات بات دیکھنے والوں کو بھلی معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے ہزاروں فارسی کے لفظ گم ہو کر فنا ہو گئے۔ ہزاروں رہے۔ مگر بے رغبتی کے سبب بے رواج ہو کر متروک ہو گئے۔

بہت سے نئے الفاظ ہیں کہ سلاطین چغتائی کے عہد میں شیائے مختلف کے لئے ہندوستان کے اہل انشا یا دربار کے اراکین نے پیدا کئے۔ یہاں کی معتبر تاریخوں میں مسلسل ہیں۔ اور اُن شعرا کے کلاموں میں منظوم ہیں۔ جو کہ ہندوستان میں تھے یا آئے اور رہ کر چلے گئے۔

رسد۔ جن معنوں میں بولتے ہیں ایران میں کہو تو کوئی نہ سمجھیگا۔ وہاں سورسات کہتے ہیں۔

منشی۔ ایران میں کسی کو کہیں تو اُس کے لفظی معنی (یعنی انشا پرداز) سمجھے جائینگے اور بس۔ جسے یہاں منشی کہتے ہیں۔ وہاں اُسے میرزا کہتے ہیں۔

تمسک۔ ہندوستان میں جن معنوں میں متعارف ہے ایران میں کہیں تو کوئی نہ سمجھیگا۔

رسید۔ یہاں قبض الوصول کو کہتے ہیں۔ ایران میں کہیں تو کوئی نہیں سمجھتا۔
 
Top