سخندان فارس 22

نایاب

لائبریرین
SukhandanFaras_page_0026.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 22

تغیرات مذکورہ اکثر تغیر سلطنت کے صدمہ سے ہوتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ کم ہوتے ہیں۔ پھر بھی ضرور ہوتے ہیں۔ کیونکہ عادت الٰہی اسی رستہ پر جاری ہے اور رہیگی۔ اور میں عنقریب اُس کی کیفیت دکھاؤنگا۔

امن و عافیت کے زمانہ میں بھی تغیر کی دستکاری الفاظ و عبارت پر اپنا کام کئے جاتی ہے۔ ان میں آفرینش۔ ترقی اور فنا کا عمل جاری رہتا ہے۔ اور بہت چپکے چپکے چلتا ہے۔ لیکن اُسی طاقت اور اُسی انداز سے۔ جیسے دریا کا بہاؤ یا ہوا کا رُخ۔ جس کا پھیر کسی کے اختیار میں نہیں۔ قوم اپنے گھر میں قائم اور ملک برقرار ہوتا ہے۔ پھر بھی تغیر مذکور اپنا کام کئے جاتا ہے۔ نثر میں شیخ بو علی سینا کی حکمت فارسیہ وغیرہ۔ نظم میں دیوان شاہ ناصر خسرو۔ شاہنامہ وغیرہ۔ دیکھو لو۔ صدہا لفظ ہیں۔ کہ اب بولنے میں نہیں آتے۔ صدہا ہیں۔ کہ فرہنگوں میں دیکھے بغیر معنی نہیں معلوم ہوتے۔ صدہا ہیں کہ فرہنگوں میں بھی نہیں ملتے۔ اسی کر مرنا کہتے ہیں۔

جب ایک زبان کی تصانیف مغتلفہ کو عہد بعہد اور سال بسال برابر سجاتے ہیں۔ اور تغیرات مذکورہ پر نظر کرتے ہیں تو زبان کا عالم ایک سرزمین معلوم ہوتی ہے۔ کہ فصل بہ فصل پُرانے نباتات جل کر خاک ہوتے جاتے ہیں اور نئے اُگ کر اُن کی جگہ کو ہرا کرتے ہیں۔ لطف یہ ہے کہ فلسفی زبان خواہ زمین کی طبیعت سے خواہ انسان کی ضروریات اور کاروائی پر نظر کر کے فقط تغیرات زبان کی تاریخ ہی نہیں جان لیتا۔ بلکہ جس طرح ایک تجربہ کار مؤرخ یا سلطنت کا مدبر سابق اور موجودہ حالت کو دیکھکر آئندہ کے واقعات پر پیش بینی کرتا ہے۔ یہ زبان موجودہ کے حالات پر حکم لگاتا ہے اور بتاتا ہے کہ آئندہ کس طرح اور کس انداز میں بڑھیگی۔ یا دب جائیگی۔ چنانچہ فارسی پر ایک زمانہ میں عرب کی چڑھائی تھی۔ اب ممالک یورپ کا زور نظر آتا ہے۔

الفاظ جو سفر و سیاحت کر کے ملک غیر سے آتے ہیں۔ اور زبان میں گھر بناتے ہیں وہ اکثر تجارت کی وکالت یا قوموں کے ارتباط سے راہ پاتے ہیں۔ زبانوں میں عام
 
Top