سخندان فارس 21

نایاب

لائبریرین
SukhandanFaras_page_0023.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 21

اسی خیال سے گھوڑے کی اندھیری کا اُجیاری نام رکھا یہ پیش نہ گئی اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جسے اب ہم اندھیری کہتے ہیں اس وقت اسے بھی اندھیاری کہتے تھے۔

جہانگیر نے شراب کا نام رام رنگی رکھا۔ مگر رنگ نہ جما۔

جمعرات کا نام مبارک شنبہ رکھا کہ جو خوشی ہمیں ہوتی ہے اکثر اسی دن ہوتی ہے۔ پیر کا نام گم شنبہ رکھا۔ لکھتا ہے کہ مجھے جو غم یا فکر ہوتا ہے اسی دن ہوتا ہے۔اس کا نام ایام ہفتہ سے گُم ہونا چاہیے۔

محمد شاہ نے بلبل ہندوستان کا نام گلدم رکھا تھا۔ اب تک اسی طرح چلا آتا ہے۔
رنگترہ کو پہلے سنگترہ کہتے تھے۔ محمد شاہ نے کہا کہ اس لطیف میوہ کو پتھر مارنا سخت ستم ہے۔ رنگترہ کہا کرو کہ خوش رنگ بھی ہے۔ تر و تازہ بھی ہے۔
شاہ عالم نے سُرخاب کو گلسرہ کہا مگر شہرت نے نامنظور کیا۔
کنجر اور کنجری ہندی میں زنِ رقاصہ کو کہتے تھے۔ اکبر نے ایک دن خوش ہو کر کہا کہ انہیں کنچنی کہا کرو۔

نواب سعادت علیخاں نے ملائی کا نام بالائی رکھا۔ اہل لکھنؤ اب بھی بالائی کہتے ہیں۔ اور شہروں میں شہرت نہ ہوئی۔

عزیزانِ وطن! تم ضرور کہتے ہو گے کہ زبان کی عمر کیا؟ اور اُس کی تاریخ کیا؟ یہ کچھ تعجب کی بات نہیں۔ عالم میں بہت سے ملک۔ بیشمار اہل ملک اور ہزاروں قومیں ہیں۔ اسی طرح زبانوں کا بھی عالم گروہ در گروہ سمجھو۔ کہ تھا۔ اور ہے۔ اور ہوتا رہیگا۔ جس طرح قومیں بڑھیں۔ چڑھیں۔ ڈھلیں اور فنا ہو گئیں اور ہونگی۔ اسی طرح زبانوں کا عالم ہے۔ کہ اپنے الفاظ کے ساتھ آباد ہے وہ اور اُس کے الفاظ پیدا ہوتے ہیں۔ ملک سے ملک میں سفر کرتے ہیں۔ حروف و حرکات اور معانی کے تخیر سے وضع بدلتے ہیں۔ بڑھتے ہیں۔ چڑھتے ہیں۔ ڈھلتے ہیں اور مر بھی جاتے ہیں۔
 
Top