سخندان فارس 14

نایاب

لائبریرین
SukhandanFaras_page_0018.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 14

زبان میں کسی کو اپنی طرف سے ایک لفظ بھی ایجاد کرنے کا اختیار نہیں ہے! یہ ہو سکتا ہے کہ میں شادمی کہوں اور اس کے معنی رکھوں آدمی۔ اسے شاید میرے نوکر چاکر یا دوست آشنا سمجھنے بھی لگیں مگر اور سب کب مانینگے! اور مانیں کیا؟ اگر چند لفظ ایسے تصنیف کر لو۔ تو کوئی میری بات بھی نہ سمجھیگا۔

اسی بنیاد پر عرب کے اہل تحقیق نے کہا ہے کہ لغت (لغت کسی زبان کے عام الفاظ جسے ملک مذکعر کے عام رہنے والے سمجھتے تھے یا سمجھتے ہوں یا زبان مذکور کے جاننے والے جانتے ہوں۔ اسی کو کہتے ہیں کہ لفظ کے معنی قوم نے تسلیم کئے اور اصطلاح وہ ہے کہ گروہ خاص میں متعارف ہو۔ مثلا جو بات پہل کی کشت سے ہو اسے ہیلبند کہتے ہیں دیکھو لو نعمت خان عالی نے وقائع میں فرضی مہاجن کا معائنہ کیا۔ اس کا شعر ہے :

آل صوربِ جہاہتِ پیلان ہیستہ بول
مارا بچہ ہستیہ شہایب و کتاب کرد​

جو شخص اہل شطرنج کی اصطلاح کو جانتا ہو گا وہ اس شعر کا لطف اُٹھائیگا غیر کی سمجھ میں نہ آئیگا۔) وہ ہے کہ جس پر جمہور کا اتفاق ہو۔ اصطلاح وہ ہے جس پر خاص گروہ کا اتفاق ہو۔ البتہ کوئی علمی مصنف یا صاحبِ ایجاد و قادر الکلام شخص بھی الفاظ ایجاد کر سکتا ہے۔ لیکن اُن کے قیام عمر کے لئے اسے بھی جمہور کا حسن قبو حاصل کرنا پڑیگا۔

عزیزانِ وطن! ولادتِ الفاظ اور آفرینش زبان کے خیالات مجملاً آپ کے تصور میں آ گئے ہونگے۔ اب یہ سُنئے کہ فلسفی زبان کا منصب کیا ہے؟ اُسکا منصب ہے تقریر کے ہر لفظ کو کُریدنا جس سے کہ زبان مرکب ہے۔ اس سے شاید تم یہ سمجھے ہو گے۔ کہ فلسفی زبان کو اکثر زبانوں کے لفظ اور معنی خوب آتے ہونگے۔ وہ عبارت میں مبتدا۔ خبر۔ مضاف، مضاف الیہ۔ صلہ۔ موصول وغیرہ وغیرہ کو خوب سمجھتا ہو گا۔ نہیں! یہ تو بہت ادنٰے کام ہے۔ وہ لفظ کی اصل و نسل ولادت سے وقتِ موجود تک دریافت کرتا ہے۔ تم نے کسی نیاریئے یا تیزابئے کو دیکھا ہے؟ جب ایک دھات کی ڈلی اُس کے ہاتھ میں آتی ہے تو وہ اُسے دیکھتا ہے اور جانچتا ہے کہ ایک مادہ ہے یا کئی مادے گٹھے ہوئے ہیں۔ تب کبھی تیزاب سے۔ کبھی آنچ کے
 
Top