سخندان فارس 13

نایاب

لائبریرین
SukhandanFaras_page_0015.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 13

خُم یا خُنب بولنے میں بھی اپنی پُھلاوٹ اور گلاوٹ کی تصویر دکھاتا ہے۔

یورپ کے دانا کہتے ہیں کہ پہلے طبیعت کی تاشیر نے حالت کے مناسب آوازیں نکالی تھیں۔ پھر استعمال اور تہذیب نے انہی کو لفظ بنا دیا۔ یہ رائے قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔

چہچہہ بُلبُل کی آوازَ مُسلسل کا نام ہوا۔ کوکو۔ فاختہ کی آواز متواتر کا۔
عُرش۔ جانوروں کی خفگی کی آواز۔ قہقہہ۔ انسانی کی ہنسی۔
غوغا۔ غُلغُلہ۔ غُنغُل۔ شور و غُل انسان کا ہوا۔

کوہستان خراسان و ایران کے کوے دیکھے۔ چیل سے ذرا چھوٹے ہوتے ہیں۔ اور بولنے میں صاف کُلغ کُلغ آواز دیتے ہیں۔ کلاغ اُن کا نام ہو گیا۔
چغوک اسی آواز کے سبب سے چڑے کا نام ہوا (یعنی چڑیا کا نر)۔

تم ضرورکہو گے کہ اپنے رنگ آواز۔ اور ادا کے انداز اور دل کی حالت کو ملا کر جو معنی چاہو پیدا کر لو۔ اصلی لفظ میں تو ہمیں کچھ بھی نہیں معلوم ہوتا۔ یہ بھی درست ہے۔ لیکن میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ زبان انسان کی آواز۔ دل اور اشاراتِ اعضائی کا مجموعہ ہے۔ اس صورت میں کسی جُز کو روکنا نہیں چاہیے۔ (اور یہی سبب ہے کہ اگر ایک فصیح صاحب تقریر لیکچر دے رہا ہو۔ اور تم اس پر قید لگا دو۔ کہ کس طرح کی حرکت اعضا میں یا تغیر چہرہ میں نہ آنے پائے تو دیکھو گے کہ بات بھی نہ کر سکیگا۔)

ولادتِ زبان کی بنیاد تم نے دیکھ لی؟ پہلے کچھ اشارے تھے۔ پھر کچھ آوازیں۔ پھر باہمی اتفاق سے کچھ الفاظ آپس کے سمجھنے سمجھانے کے لئے مقرر ہو گئے۔ پش جب آفرینش بڑھے اور آبادی پھیلے۔ تب بھی واجب ہے کہ وہی الفاظ کام میں لائیں۔ کہ سب کی سمجھ میں آئیں۔ اور عام فہمی کے سبب سے اُنہیں سب سے پہلے کام میں لائیں۔ (یہاں سے یہ ثابت ہوا کہ جس لفظ پر محاورہ ۔۔۔۔۔۔ کر دے وہی فصیح ہے وہی درست ہے۔ صحیح لفظ ہو اور محاورہ میں نہ ہوتو ناروا ہے۔ اگر اور کچھ نہیں تو کلام کو بدمزہ ۔۔۔۔۔۔۔ ہی کر دیگا۔)
 
Top