سخندان فارس 12

نایاب

لائبریرین
SukhandanFaras_page_0016.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 12

جو چیخنے چلانے کی خاصیت ہے۔ وہ باہمی ضرورتوں اور آپس کے برتاؤ سے اصلاح اور ترقی کرتے کرتے تقریر ہو گئی۔ اور رفتہ رفتہ یہ رُتبہ پیدا کیا۔ کہ جس طرح ایک مصور کامل کسی انسان یا باغ یا محل کا نقشہ کھینچ کر اُس کی کیفیت آنکھوں کے رستے سمجھاتا ہے۔ صاحب زبان اپنے مافی الضمیر اور حرکتِ اعضا کے مجموعہ کو آواز کے رنگ میں کانوں کے رستے سمجھاتا ہے۔ پس گویائی گویا ایک عمدہ آلہ ادائے خیال کا ہے۔ لیکن نامکمل۔ کیونکہ کونسا قادر الکلام ہے۔ جو دل کے خیال کو جوں کا توں پورا پورا اپنے لفظوں میں ادا کر دے۔ عمدہ سے عمدہ کلام دل کے خیالات کی تصویر ہے۔ لیکن جو نیچے پانی میں ہے جو گدلا ہے۔ یا عکس ہے ایسے آئینہ میں جو دھندلا ہے۔

تم نے خیال کیا! زبان یعنی تقریر گویا انسان کے دل۔ انسان کی خواہش اور اُس کے حرکات اعضائی کا مجموعی خلاصہ ہے۔ اسی خیال سے زبان عرب کے ابتدائی محققوں میں عباد بن سلیمان ضمیری نے کہہ دیا۔ کہ "الفاظ اپنے حروف۔ اعرا اور آوازوں کے ذرعیے سے خود بخود اپنے معنی بتلاتے ہیں۔ مگر یہ رائے عموما درست نہیں۔ اصفہانی نے شرح منہاج بیضاوی میں لکھا ہے کہ جمہور اہل لغت اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں۔ اگر یہی بات ہوتی تو ہر شخص ہر لفظ کے معنی سمجھتا۔ بتانے اور لغت میں دیکھنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ دوسرے اکثر دیکھا جاتا ہے۔ کہ ایک لفظ کے دو معنی ہوتے ہیں۔ جو باہم مخالفت ہیں۔ اگر الفاظ بالطبع اپنے معنوں پر دلالت کرتے تو یہ کیونکر ہو سکتا تھا۔ البتہ لفظ بھی بعض جگہ اپنے معنوں پر آپ اشارہ کرتا ہے۔ دیکھو۔

تندر ( ) کو خیال کرو۔ اس لفظ میں گرج زور و شور سُنائی دیتا ہے یا نہیں؟
درشت کو دیکھو۔ کرخت پر خیال کرو۔ سختی اور کُھردرا پن نہیں پایا جاتا؟
تیرکی ی کو مد کی کشش میں دیکھو۔ صاف نظر آتا ہے کہ کوئی تیز چیز تیز رو ہے کہ سیدھی چلی جاتی ہے۔
 
Top