سخندان فارس 10

نایاب

لائبریرین
SukhandanFaras_page_0014.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
ایسے اصوات سے مرکّب ہیں جن کا تلفّظ ہونٹوں کی جنبش یا محض منہ کھول کر آواز نکالنے سے ہوتا ہے، مثلاً

انگریزی میں باپ کو پاپا کہتے ہیں، ماں کو ماما
عربی میں باپ کو اب یا ابا کہتے ہیں، ماں کو ام
فارسی میں باپ کو بابا کہتے ہیں، ماں کو مام

اشارات میں دیکھ لو، طبیعتِ انسانی کا اتحاد ہر ملک کے بچّہ سے اشارہ کے لئے پہلے انگلی اٹھواتا ہے پھر آواز سے کہواتا ہے یُہ یُہ، پھر پاس کے لئے یہ اور دُور کے لئے وہ ہو جاتا ہے۔

بچّہ پہلے چیزوں کے نام یعنی اسما سیکھتا ہے، اسی واسطے جب کوئی چیز لینی چاہتا ہے تو فقط اسی کا نام لے کر پکارتا ہے، بھوکا ہوتا ہے تو دُو دُو دُو دُو کہتا ہے، پیاسا ہوتا ہے تو فقط مَم مَم کہتا ہے، مٹھائی کو جی چاہتا ہے تو چیجی بلکہ چی کہتا ہے۔ جب گویائی میں ذرا زورِ رفتار پیدا ہوتا ہے تو فعل بھی لگانے لگتا ہے مگر غلط سلط، رفتہ رفتہ حروف لگا کر باتیں کرنے لگتا ہے۔ زبان کے انجان پردیسیوں کو دیکھا اور خود سیاحتوں میں تجربہ ہوا کہ غیر ملک میں جا کر لین دین، کام کاج میں پہلے فقط اسموں سے کام نکالنا پڑتا ہے، مثلاً روٹی چاہئے تو پیسے دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نان یعنی پیسے موجود ہیں روٹی دو۔ دکان دار روٹی دکھاتا ہے اور انگلی کا اشارہ کرتا ہے یعنی ایک پیسا یا دو پیسے، اسی طرح گھی، نمک وغیرہ۔ چند روز کے بعد کچھ فعل یاد ہو جاتے ہیں، حرف سیکھ لیتا ہے، اسی کہنے سننے میں آدھے سارے جملے جوڑنے لگتا ہے۔ باعتبارِ ولادت کے اشارت کا نمبر اوّل تھا لیکن کلام بہت اچھی کار گزاری کرتا ہے، اس لئے زبان اُس پر چرب ہوئی اور ادائے مطلب کا کام اٹھا لیا۔
 
Top