سخندان فارس صفحہ 46، 47، 49، 50، 51، 52، 53، 54

شمشاد

لائبریرین
سخندان فارس صفحہ 46

اب تم غور سے خیال کرو۔ ہندوستان میں جو انگریزی روپیہ کے لیے کلدار کا لفظ پیدا ہوا۔ یہ بھی ایک عجیب اور اتفاقی ولادت تھی۔ پھر بھولے بھالے ترک نے جو اس کے لئے وجہ نکالی یہ عجیب در عجیب اتفاق ہے۔

لاٹھ کو اور لارڈ کے معنوں کو دیکھو کہ ہندوستان میں آ کر لفظ میں کیا تغیر پیدا ہوا؟ اور معنی اس کے یہا ں کیا خیال پیدا کرتے ہیں؟ پھر اُس اُزبک کو دیکھو کہ کیا سمجھا۔ اور دلیل کیا خوب پیدا کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اصلیت الفاظ کی تحقیق بہت نازک کام ہے۔ قیاس و انداز ہمارا ہرگز قابل اطمینان نہیں۔ اندھیرے میں تیر پھینکتے ہیں۔ لگا تو لگا ورنہ یا قسمت۔

دیکھو! پہلا قدم اس تحقیق کا یہ ہے کہ۔ جب دو لفظ دریافت طلب تمہارے سامنے آئیں۔ تو اُن کی ملتی ہوئی آواز۔ اور یکساں شکل و شباہت پر نہ بُھولو۔ ہر ایک کو جوڑ بند کو کھولو۔ اور اُن کی اصل کی طرف پیچھے ہٹو۔ اگر دونو بیٹھتے بیٹھتے ایک اصل میں جا پہنچیں تو جانو ایک نسل ہے۔ اور ایک گھر کے لفظ ہیں۔ اور اگر اصلیں جُدا جُدا ہوں تو جانو کہ رشتہ کُچھ نہیں فقط شباہت نے شُبہ ڈالا تھا۔

اشکال حروف
(تحریر بہ تصویر)

یورپ کے محقق کہتے ہیں کہ اگلے زمانہ میں دل کے مطالب تصویروں سے جتایا کرتے تھے اور جہاں اشارہ یا آواز نہ پہنچ سکے وہاں شبیہ سے کام نکالتے تھے۔ چنانچہ جب کسی سے کوئی چیز منگانی ہوتی تو اس کی تصویر کھینچ کر بھیج دیتے تھے۔ اس ترکیب نے ترقی کی۔ کہ تصویروں کو ترکیب دے کر مطالب کی زیادہ توضیح کرنے لگے۔ مصر کی پرانی تحریریں اس بات کی گواہی دیتی ہیں اور وہی تصویریں یہ بھی کہتی ہیں کہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 47

حروف مذکور شمار میں حروف حال سے بہت زیادہ تھے۔ وہ اشخاص۔ عہدہ داروں حیوانوں اور درختوں وغیرہ کی تصویریں ہوتی تھیں۔ چین میں عہد بہ عہد کی اصلاح کے بعد اب تک ایسی تحریر جاری ہے۔ اور یہ سبب ہے کہ اُنکی الف بے تے میں سینکڑوں حروف ہیں۔

یورپ کے اہل تحقیق یہ بھی کہتے ہیں کہ عرب نے حروف تہجی عبرانی سے لئے ہیں۔ یہ بھی حقیقیت میں مختلف تحریروں کے اختصار ہیں۔ مثلا الف کے معنی تھے سرکنڈا یا نرسل۔ دیکھ لو۔ حرف مذکور سرکنڈا ہے۔ کہ ریگستان میں کھڑا ہے۔

ب بیت کا مخفف ہے۔ ابتدائے آبادانی میں گھر بھی سیدھے سادے مختصر ہوتے تھے۔ ب کو غور کر کے دیکھو۔ عرب کے ریگستان میں جنگل میں ایک دیوار کے دو کنارے مڑے ہوئے ہیں وہ گھر ہے۔ گھر والا دیوار کے آگے بیٹھا ہے وہ نقطہ ہے۔

ج جمل کا مخفف ہے۔ یعنی اونٹ۔ یہ پہلے اونٹ کی تصویر تھی۔ اصلاحیں ہوتے ہوتے یہ صورت بن گئی۔

ش شجر کا مخفف ہے۔ پہلے (تصویر) کی شکل کھینچتے تھے۔ کہ ایک درخت ہے۔ 3 نقطے اُس پر 3 پرندے ہیں۔ کوئی بیٹھا ہے۔ کوئی بیٹھنے کو ہے۔ ہوا میں تھرا رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔

رفتہ رفتہ تصاویر مذکورہ یہ رہ گئیں جو دیکھتے ہو۔ اور تلفظ میں آواز کا پہلا حصہ رہ گیا۔ جو سُنتے ہو! اصل اشیا کا جس طرح نام اُڑ گیا۔ اُسی طرح اصل نشان مٹ گیا۔

کیا سبب ہے کہ جس زبان کو دیکھو۔ دوسری زبان کے بعض حرف تہنی تو اس میں نظر آتے ہیں۔ بعض نہیں۔ پھر یہ کہ جو حرف ایک زبان کے لئے خاص ہیں۔ آس حرف ۔۔۔۔۔۔۔۔ لفظ جب دوسرے زبان میں جاتا ہے حرف مذکور کسی اور حرف سے بدل جاتا ہے۔

اول یہ سمجھو کہ حروف تہجی کیا ہیں؟ زبان و دہان کے اختلافَ جُنبش سے جو آوازوں میں فرق پیدا ہوتے ہیں۔ اُن کا نام حرف ہے۔ مُنہ، زبان اور گلے میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 49

اس تحریر میں فاضل عرب کو ایک آواز آئی کہ ب نہ تھی۔ مگر اُس کے قریب قریب ایک آواز تھی۔ اور اسی واسطے اُ س کے پاس آواز مذکور کے لکھنے کے لیے کوئی حرف بھی نہ تھا۔ اصل فارسی میں اس کے لکھنے کے لئے الگ ۔۔۔۔۔۔۔ موجود تھی۔ فاضل مذکور نے اپنی تحریر میں اس کے لیے اپنا حرف ب لکھا ور امتیاز کے لیے 3 نقطے کر کے پ نیا حرف پیدا کیا۔

پھر ایک نئی آواز آئی کہ ج کی آواز نہ تھی۔ اس کے قریب قریب ایک آواز تھی ا کے لئے ج کے نیچے 3 نقطے پیدا کر دیا۔ اسی طرح ژ۔گ ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ فارسی کے 4 حرف عربی میں نہیں آتے۔ اور بات یہی ہے کہ خاک عرب نے جو گلے اور لب و دہان پیدا کئے۔ ان کی ساخت ایسی ہی تھی۔ کہ اُن کے زبان و دہان۔ اور کلہ اور گلے کی حرکت میں جو آوازیں نکلتی تھیں۔ ان میں پ۔ چ۔ ژ۔ گ کی آوازیں نہ تھیں۔ اور اسی واسطے عرب کے لکھنے والوں نے ان کے لئے صورتیں بھی نہیں مقرر کیں۔ جنہیں ہم حرف کہتے ہیں۔

اسی طرح عرب اور فارس کے منہ اور گلوں میں ٹھ۔ ٹ۔ ٹھ۔ ڑھ۔ ڈ۔ ڈھ۔ ڑ۔ ژان۔ کھ۔ گھ وغیرہ کی آوازیں نہیں۔ فارسی مروجہ کی کارگزاری ۔۔۔۔۔۔ عربی کے حروف کر رہے ہیں۔ اس نے ان کی صورت ہندی کے لئے حرف بھی نہیں۔ اب تک کسی عرب یا ایرانی سے باتیں کر کے دیکھ لو۔ حروف مذکورہ اُن کی زبان سے نہیں نکلتے۔ اور خاص خاص حرفوں کے ساتھ خاص خاص ملک کے لوگوں کا یہی حال ہے۔ تم سمجھتے ہو؟ جس طرح ہر ملک کے آدمی کی طبیعت جُدا ہے۔ اسی طرح دہان و زبان کی طبیعت بھی جُدا ہے۔ بعض آوازیں بعض دہانوں سے موافق ہیں۔ بعض منافر۔

خاک ہندوستان کی زبانوں میں خ۔ ذ۔ ز۔ ص۔ ض۔ ط۔ ظ۔ ع۔ غ۔ ف۔ ق کی آواز نہیں ہے۔ جب کوئی ایسے حروف والا لفظ سنسکرت یا کسی ہندی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 50

زبان میں جاتا ہے۔ تو حرف مذکور دوسرے حرف سے بدل جاتا ہے۔ جب سلسلہ کلام یہاں تک پہنچا تو ایک سوال پیدا ہوا ۔ جس کا جواب فلسفی زبان آسان طور پر سمجھاتا ہے :

س : کیا سبب ہے کہ جہاں ایک زبان کا لفظ دوسری زبان میں گیا ہے۔ تو بعض حروف و حرکات اَدَل بَدَل اور اُلٹ پُلٹ ہو گئے ہیں؟

ج : عزیزانِ وطن! دُور کیوں جاتے ہو۔ تم ایک ہی زبان میں پاؤ گے کہ :

||||
سوفار|سوفال||چُست|چُفت
چنار|چنال||باغچہ|باغسہ
لبالب|لمالم||پاس|پاد – اسی سے ہے پادشاہ
بُت|بُد||خروس|خروج - خردہ
توت|تود||رخش|رخت
دُراج|تُراج||خوک|خوگ
ایسے ایسے ہزاروں لفظ ہیں کہ فارسی ہیں اور فارسی ہی میں دونوں طرح مستعمل ہیں۔ یہ نہ سمجھنا کہ جن حرفوں کا مبادہ کتب قواعد میں لکھا ہے۔ کسی شریعت کی کتاب یا ملک کے بادشاہ نے جائز کیا ہے۔ اور باقی ممنوع۔ بات فقط یہ ہے کہ جو حرف قریب المخرج ہیں وہ باہم بدل جاتے ہیں۔ جن حرفوں کے مخرج دُور ہیں۔ اور جن کے مقام بہت پاس پاس ہیں۔ وہ نہیں بدلتے۔ اس مقام پر ممکن ہے کہ ہر حرف کا مخرج لکھ کر پاس اور دُور کا فرق دکھاؤں۔ مگر نہیں چاہتا کہ کتاب کو مشکلات کی پُڑیا بنا کر طبیعتوں کو بدمزہ کروں۔ اس لئے مطلب کی تصویر نئے رنگ سے کھینچتا ہوں۔

مثلا ملک ایران میں قطعہ قطعہ کی آب و ہوا اور مخلوقات کے اعضا کی ساخت میں کہیں بہت کہیں تھوڑا فرق ہے۔ اسی نسبت سے اُن کی جنبشوں میں فرق ہے۔ اسی کے بموجب آوازیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک ملک کے لوگ بعض حرف صفائی اور آسانی سے بعض حرف مشکل سے نکالتے ہیں۔ جو حرف شکل سے نکلتے ہیں۔ جب وہاں ٹھیک زبان
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 51

نہ لگی۔ تو اُس کے پاس کا حرف پیدا ہو گیا۔ یعنی سوفار کا سوفال بن گیا۔

تبریر وغیرہ قطعات ایران کے لوگوں کی زبان سے گ نہیں نکلتا۔ اُس ملک کے لوگ سگ کو سے اور انگور کو اینور کہتے ہیں اور اسی طرح اور صدہا الفاظ۔ اکثر صحرا نشین فرمود کو پرمود کہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ انہی حرفوں کے مبادلے جائز سمجھو۔

کشمیری تازہ وارد سے باتیں کرو۔ جن لفظوں کے اول میں آ ہے۔ ی بولیگا۔ مصرع یلہی غنچہ اُمید بکشا۔ اور ایران کو یزان کہیگا۔ ل کو تالو کے اندر سے اس طرح نکالتا ہے کہ ساری آواز گلے میں گتھل ہو جاتی ہے۔ کیفیت اسکی سُننے پر منحصر ہے۔ تحریر میں نہیں آ سکتی۔ آصف الدولہ مرحوم کے عہد میں بندہ لوکسو کے درمیان موجود تھی۔ وغیرہ۔

اہل پنجاب سے باتیں کرو تو ذرا خیال رکھنا۔ گیارہ کو ہمیشہ یارہ کہتے ہیں۔

اپنے ملک میں سُن لو۔ اہل شہر کے سُنہ سے سارے حرف کیسی صفائی سے نکلتے ہیں۔ ان کی زبان کیسی نرم اور تیز معلوم ہوتی ہے۔ اور گلا گداز۔ باہر والے خصوصا ناخواندوں کی زبان سخت اور موٹی معلوم ہوتی ہے۔ اُس سے ہر حرف آسانی سے نہیں نکل سکتا۔ بعض حرفوں میں زبان ٹھیک جگہ پر نہیں لگتی۔ ذرا ورے پرے لگ جاتی ہے۔ کوئی اور حرف پیدا ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے سکر۔ سُروا۔ ہزاروں لفظ بولتے ہیں۔

زبان کو جبان
حضور کو حجور
خالی کو کھالی
فرمانا کو پھرمانا
آٹا کو اٹا اور آنٹا
روٹی کو روٹی
پانی کو پانریں
مطلب کو مطبل
فصیل کو صفیل
قفل کو قُلف
لعنت کو نالت

کہیں تشدید ۔ کہیں کوئی حرف ہی بڑھا دیتے ہیں۔ کہیں گھٹا دیتے ہیَ

اکثر لفظوں میں حرفوں کو آگے پیچھے کر دیتے ہیں۔ کہیں کہیں شہر کے عوام بھی ان میں مل جاتے ہیں۔ اور اس سے معلوم ہوا کہ ایسی تبدیلیاں زبانِ انسانی کا خاصہ ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 52

اسی خیال کی تصویر ایک اور رنگ سے کھینچتا ہوں۔ ذرا ننھے ننھے بچوں کو دیکھو۔ کیا مزے سے تُتلا تُتلا کر باتیں کرتے ہیں۔ ایک تکیہ پر چڑھ بیٹھا ہے اور کہتا ہے۔ آؤ ہم دولے پل چلے (ہم گھوڑے پر چڑھے) دوسرا کہتا ہے۔ ہمالی لال دیدن، تمالی چھبج دیند (ہماری لال گیند، تمہاری لال گیند)۔ بگڑتے ہیں تو کہتے ہیں۔ مآونگا۔ مالوندا (ماروں گا)۔ بھوک لگتی ہے تو کہتا ہے۔ لوتی تاؤنگا۔ کوئی کہتا ہے۔ اوتی کھاؤنگا۔ بوت لدی ہے (روٹی کھاؤنگا۔ بھوک لگی ہے۔

فلسفی زبان انہی میں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ حروف کے اصول نکالتا ہے۔ بچوں کے مزاج اور اعضا میں رطوبت زیادہ ہوتی ہے۔ غدود اور پٹھے پُھولے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس لئے اُن کے لب و دہان میں تیزی و سُبکی نہیں ہوتی کہ جب کوئی لفظ بولیں۔ ہر حرف کے نئے نقطہ نقطہ زبان کا مُنہ کے ٹھیک اُسی نقطہ پر لگے۔ جو اس کا اصلی مخرج ہے۔ کبھی ذرا آگے کبھی ذرا پیچھے لگ جاتی ہے۔ نتیجہ اس کا وہی۔ کہ اصل حرف کی جگہ اسکا قریب المخرج کوئی اور حرف نکل جاتا ہے۔ تم خود ذرا ذرا ۔ ورے پرے زبان لگا کر د اور ت کا تجربہ کر لو۔ دوچار دفعہ متواتر۔ دل، ول، تل۔ پھر ول۔ تل۔ برابر۔ دل۔ تل کہکر دیکھو۔ خیال کرنے سے کچھ ان کے قریب مخرج کا اثر معلوم ہو گا۔

اسی طرح دو چار دفعہ کہو۔ بار۔ بال۔ اور تار۔ تال۔ تمہیں معلوم ہو گا کہ ر اور ل قریب المخرج ہیں۔ اور ایسے ایسے چند حرف اور ہیں کہ قریب مذکور کے سبب سے بچوں اور بڑوں کی زبانوں پر اَدَل بَدَل ہو جاتے ہیں۔ اور جو حرف ایسے نہیں یعنی ۔۔۔۔۔۔ المخرج ہیں، ان میں اَدَل بَدَل نہیں ہوتی۔ انہی سے فلسفی زبان نے مبادلات حروف کے قواعد باندھے ہیں۔ مختلف زبانوں میں غور کر کے دیکھو۔ وہاں بھی اکثر انہیں حرفوں میں تبدیلی ہوتی ہو گی۔ جو قریب المخرج ہیں۔

س۔ قواعد فارسی میں ایک فصل مفضل مبادلہ حروف کی کیونکر بن گئی؟

ج۔ عہد قدیم سے ایران کے ہر قطعہ زمین میں علم کا چرچا ہے۔ علما خصوصا شعرا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 53

صاحبِ تصنیف ہوتے ہیں۔ اِن کے تلفظ اور لہجے جُدا جُدا ہیں۔ جو الفاظ شعرا کے کلام۔ علما کی تصنیف میں آ گئے۔ اہل لغت کو اُن کا لکھنا۔ اور اہل قواعد کو اپنے سلسلہ میں کھینچنا واجب ہوا۔ وہ مستقل الفاظ بن گئے۔ اور تحریروں اور تقریروں میں دونوں طرح مستعمل ہو گئے۔ ملک اور غیر ملک کے لوگ انہیں بھی لغت جانتے اور مانتے ہیں اور ایساہونا چاہیے۔ کیونکہ جو الفاظ خاص و عام کے استعمال میں اور تحریر تقریر میں عام و تام ہوں۔ اور اقسام اغراض کے پورا کرنے میں کام دیں۔ وہی اُس کے الفاظ و لغات ہیں۔

نکتہ۔ تجربہ اور مشاہدہ نے قانون بتایا۔ کہ اکثر الفاظ ابتدا میں لچر اور غلط شمار ہوتے ہیں۔ پھر اگر محاورہ نے اُنہیں منظور کر لیا۔ اور خواص نے زبان میں جگہ دی۔ اور نظم و نثر نے تحریری سند دیدی۔ تو وہی غلط سلط لفظ مستقل لغت ہو کر اجزائے زبان ہو جاتے ہیں۔ اور جو تبدیلی کہ کوتاہی تکلم یا غلطی مخرج سمجھی جاتی تھی وہی ایک عرصہ کے بعد تعلیل و تبدیل کا قاعدہ ہو جاتی ہے۔ اور اس سےیہ قاعدہ نکلا۔ کہ ملک سخن میں کوئی لفظ صحیح نہیں۔ کوئی لفظ غلط نہیں۔ جس پر قبول عام۔ اور رواج تام مہر کر دے۔ وہ ایک لفظ صحیح ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ نہ ہو تو صحیح بھی مردود۔

اصفہان۔ شیراز وغیرہ اکثر مشہور شہر ایران کے ہیں۔ وہاں کے خاص و علم ایران کو ایرون۔ زبان کو زبون کہتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ مگر قافیہ میں نہیں باندھتے۔ نہ کتاب میں لکھتے ہیں۔ اسی واسطے یہ تبدیل اور اس کا تلفظ غلط ہو کر لغت سے خارج ہوا۔

نقل۔ کسے بے استعداد شاعر ایرانی کے شعر کا ایک مصرع مجھے یاد ہے ع

کار معجون کمونی ہے کند پیکانِ اد​

کمونی : (جودرش کوئی۔ اور معجون کوئی ایک دوزے۔ صنم ہے۔ کمون ۔۔۔۔۔ خراسانی کو کہتے ہیں)

کمان کو تمام ملک ایران کمون کہتا ہے۔ یہ بیچارہ بے علمی کے سبب سے غلط کی اصلیت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 54

سمجھا۔ اور اس سے ایک مضمون شاعرانہ پیدا کر لیا۔ کمون غلط ہے مگر لطف شعر کی بُنیاد اسی پر ہے۔

لطیفہ۔ ایک ایرانی صاحب زبان سے کسی ہندی نے کہا۔ آغا! اکثر اہلِ ایران راویدم بجاے غ۔ ق میگویند۔ ایرانی چمک کر بولا۔ کسے قلط گفتہ باشد۔

فارسی اور سنسکرت کے متحد الاصل لفظوں میں کن اصول کے بموجب تبدیلیاں ہوئی ہیں

عزیزانِ وطن! اب مطلب کا میدان آیا۔ فلسفہ زبان کے تمام خیالات ایک نقشہ کی طرح سامنے کھنچے ہیں۔ اس سے تم خوب سمجھ سکتے ہو کہ دونو زبانوں میں جو تبدیلیاں ہوئیں وہ خود بخود طبیعت ملک اور طبیعت زبان کے زور سے ہوئی ہیں۔ میں ایک ایک حرف کا حال مثالیں دے کر تمہیں دکھاتا ہوں۔ دیکھو زبان کی طبیعت نے کن قواعد کے سلسلہ میں جنبش کی ہے۔ اس کی بعض تبدیلیوں پر تمہیں ضرور تامل ہو گا۔ اور بے شک نقطہ نقطہ پر اٹکنا چاہیے کہ تحقیق میں کسر نہ رہ جائے۔ اور شائد اسی میں کوئی نقطہ نکل ائے۔ مذکورہ بالا بیانوں میں تم نے دیکھا۔ کہ اکثر لفظ اور معنوں میں جو تبدیلیاں ہوئیں کتابوں میں لکھی ہیں۔بلکہ اکثر تغیر ہماری آنکھوں کے سامنے ہوئے ہیں۔ جبکہ وہ تغیر ان تغیرروں سے کم نہیں۔ تو ان لفظوں کی ہڈیوں کو قرابت کے گوشت سے کیوں الگ کرتے ہو۔ ہزاروں برس گزر گئے۔ یہ بہنیں جُدا ہوئیں۔ ہزاروں کوس کے پردیس میں جا پڑیں۔ دونو پر اپنی اپنی جگہ مذہبوں اور سلطنتوں کے انقلاب سے طوفان نوح گُزر گئے۔ ملکوں کی آب وہ ہوا نے آدمیوں کے کلوں اور جبڑوں کی ساخت۔ لب و دہان کی حرکتیں۔
 
Top