سترہ اگست ظالم سے نجات کا دن

فرقان احمد

محفلین
اس اصول کی رو سے کیا ضیاء الحق اور ان کے ساتھ موجود لوگ اس سزا کے مستحق تھے؟؟؟
عام حالات میں ایسی اموات کو شہادت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ تاہم، معاملہ اتنا سا ہے کہ ہماری دانست میں ذوالفقار علی بھٹو کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ بہرصورت غاصبانہ عمل تھا۔ یاد رہے، ہماری یہ رائے غلط بھی ہو سکتی ہے۔ :)
 
آپکی بات سے سو فیصد اتفاق لیکن اعمال کو دیکھتے ہوئے ہی ہم کسی کے بارئے اچھا یا برا کہتے ہیں، فیصلہ کرنے والی ذات اللہ تعالی کی ہے۔ تبصرہ کےلیے شکر گذار ہوں۔
جو لوگ جنازے میں آتے ہیں وہ بھی اعمال کو دیکھ کر ہی کونے کونے سے تشریف لاتے ہیں :)
اگر اُس سے انسان کا نہیں پتا چلتا تو پتا اِس سے بھی نہیں چلتا :)
 
پیچھے آپ نے کیا کام کیا اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔۔۔
بات اس مضمون کے حوالے سے ہورہی ہے۔۔۔
رہی بات کوڑھ مغز اور بدتمیز ہونے کی تو۔۔۔
آپ نے کس اعلیٰ اخلاق اور خوش مغزی کا ثبوت دیا۔۔۔
مرنے کے بعد کسی کی لاش بھنبھوڑنا کسی اچھی تہذیب کا خاصہ ہے؟؟؟

اچھا تا آپ اس مضمون تک رہتے لیکن آپ تو بھٹو اور زرداری کا ذکر لے بیٹھے ساتھ ہی آپ کراچی کا کوڑا اٹھانے لگے، آپ ضیاء کے کچھ زیادہ ہی قریبی لگتے ہیں چلیں پھر آپ کو ایک دعا دئے دیتے ہیں کہ خدا کرئے آپکا بھی وہی انجام ہو جو جنرل ضیاء کا ہو۔ خوش۔ ویسے میں نے اپنی پوسٹ سے کوڑھ مغز اور بدتمیز کے الفاظ ہٹادیے تھے لیکن آپ نے دوبارہ اپنے بارئے میں تحریر کردیا کہ واقعی آپ کوڑھ مغز کے ساتھ ساتھ انتہائی بدتمیز بھی ہیں۔۔۔۔۔خوش رہیں
 

Fawad -

محفلین
یہاں کوئی ووٹوں سے مسند نشین نہیں ہوتا...
ہاں مگر امریکہ کی آشیرباد سے...


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ امريکہ نہيں بلکہ پاکستان کی عوام ہے جو خود اپنی ليڈرشپ کے ليے ذمہ دار ہيں۔
کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ دو ممالک کے درميان تعلقات بہتر ہو سکتے ہيں اگر ہم اس قياس اور تاثر کی بنياد پر پاکستان کے منتخب جمہوری قائدين کے ساتھ تعلقات منقطع کر ليں کہ ان کے فيصلے اور پاليسياں پاکستان کے عوام کی اکثريت کی ترجمانی نہيں کرتيں؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 
ایسا کریں کہ ضیاء کی خوبیاں آپ لکھ دیں میرئے پاس تو اس کی صرف برائیاں ہی ہیں۔
اگر آپ نفرت کی عینک لگا کر دیکھیں گے تو آپ کو صرف برائیاں ہی نظر آئیں گی میری رائے میں ایک کالم نگار کو غیر جانبدار ہونا چاہئیے ورنہ کالم محض ایک پراپیگنڈہ کا ٹول لگے گا۔
رہا جنازئے کا سائز تو ممتاز قادری کا جنازہ بھی بہت بڑا تھا، جنازوں سے نہیں لوگوں کے اعمال سے انکے بارئے میں کچھ کہا جاتا ہے۔
میں نے عوامی تاثر کے حوالے سے بات کی تھی کہ عوام ضیاءالحق کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے اگر عوام اتنی نفرت رکھتے جیسی آپ کی تحریر سے جھلک رہا ہے تو اتنی بڑی تعداد میں جنازہ میں شریک نہ ہوتے۔ لوگ اسی کے جنازے میں اتنی بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں جس کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں یہ معاملہ آپ ممتاز قادری کے بارے میں بھی تھا۔ عوام کا کسی شخصیت کے بارے میں اچھی رائے رکھنا بھی اللہ تعالی کی پسندیدگی کی دلیل ہوتا ہے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تاریخ: 17 اگست، 2017

29vc5fl.jpg

سترہ اگست ظالم سے نجات کا دن
تحریر: سید انور محمود

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تین ایسے تاریخی دن5 جولائی 1977، 4 اپریل 1979 اور 17 اگست 1988 ہیں جنہوں نے پاکستان کی سیاست اور سوچ کو بدل ڈالا۔5 جولائی 1977کی صبح جب پاکستانی عوام سوکر اٹھے تو انہیں پتہ چلا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت ختم ہوچکی ہے اورپورئے ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا ہے، یعنی فوج نے سول حکومت سے بغاوت کردی تھی اور ملک پر قبضہ کرلیا تھا۔ جنرل ضیاء نے اپنی پہلی نشری تقریر میں نوے روز میں انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا تھا، اس کا کہنا تھا کہ میرئے والد نے مجھے سچ بولنا سکھایا ہے۔نوئے دن کا وعدہ تو کبھی پورا نہیں ہوا کیونکہ ضیاءالحق ایک منافق اور جھوٹا انسان تھا ،البتہ ایک نام نہاد غیر جماعتی انتخابات 1985 میں ہوئے تھے۔جنرل ضیاء گیارہ سال سے زائد اقتدار پر قابض رہا، اس گیارہ سالہ میں اس نے پاکستان کو اتنا نقصان پہنچا یا جتنا اس سے پہلے یا بعد میں کسی نے نہیں پہنچایا ۔نظریہ ضرورت کا سہارا لیتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انوار الحق نے مارشل لاء کو جائز قرار دے دیا۔ جنرل ضیاء نے بھٹو سے حکومت تو چھین لی لیکن بھٹو کی شہرت اور عوام کی اس سے محبت نہ چھین سکا، سدا کا بزدل تھااس لیے بھٹو کا وجود ہی ختم کرنے میں اپنی عافیت جانی۔ ایک پرانا کیس کھولا گیا، جس میں بھٹو قتل کے ملزم کے طور پر نامزد تھے، احمد رضا قصوری نے بھٹو پر اپنے والد کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔ جنرل ضیاءالحق نے اپنے سے زیادہ خوشامدی اور بزدل جسٹس انوارالحق کو ستمبر 1977 میں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنادیا۔

ضیاءالحق نے جسٹس مولوی مشتاق کو 12 جنوری 1978 کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقررکیا، جس کو بھٹو اس لیے ناپسند تھا کہ بھٹو نے اسے لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس نامزد نہیں کیا تھا۔ اس نے 18 مارچ 1978 کو بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ سنایا ، بعد میں چیف جسٹس انوارالحق کے سپریم کورٹ نےبھی بھٹو کی پھانسی کی سزا برقرار رکھی اور 4 اپریل 1979 کی صبح بھٹو کو سرکاری طور پر پھانسی دینے کا پی ٹی وی کے زریعے اعلان کیا گیا۔دنیا بھر کے تما م جمہوری او راسلامی ممالک نے آمر جنرل ضیاء الحق کو اس ظلم سے باز رکھنے کےلیےاس سے اپیلیں کیں،لیکن بزدل ضیاء جانتا تھا کہ اگر ایک مرتبہ بھٹو اس کی گرفت سے باہر نکل گیا تو پھر خود اس کی خیر نہیں۔ چیف جسٹس انوارالحق کی بینچ کے ایک رکن جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد یہ بات تسلیم کی کہ بھٹو کوپھانسی دینے کا فیصلہ دباو کا نتیجہ تھا، نسیم حسن شاہ نے یہ بھی کہا تھا کہ سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مولوی مشتاق کو یہ مقدمہ نہیں سننا چاہیے تھا کیونکہ ان کی بھٹو سے ذاتی رنجش تھی۔ نسیم حسن شاہ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بھٹو کے مقدمہ میں شک کا فائدہ انھیں ملنا چاہیے تھا۔

افغان حکومت کی دعوت پر روس نے 25 دسمبر، 1979 کو اپنی فوج افغانستان میں اتار دی۔جنرل ضیاءالحق جس کی حکومت کی حمایت دنیا بھر میں کم ہوگئی تھی اس کی تو جیسے عید ہوگئی ، امریکہ کو بھی اس کی ضرورت تھی ، لہذا امریکہ سے سیاسی حمایت کے ساتھ ساتھ ڈالروصول کرکے مذہب فروشی کرتا رہا۔ ڈالر کے بدلے وہ امریکہ کو ڈالر مجاہد مہیا کرتا تھا جو افغانستان جاکر روس سےنام نہاد جہاد کے نام پر لڑتے اور ڈالر کماتے تھے۔امریکا نے جنرل ضیاء کی حکومت کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور ملک میں جہادی کلچر فروغ پایا۔ہزاروں کی تعداد میں مدرسے کھولے گئے اور جہادیوں کی تربیت کے لیے امریکا نے اپنے خزانے کے منہ کھول دیئے، جس سے ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں خاصکر جماعت اسلامی ، جمیت علمائے اسلام کے دونوں دھڑوں کے علاوہ سول اور فوجی افسر شاہی نے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا۔جنرل ضیاء الحق ملک کے عوام پر لاٹھی، کوڑے اور پھانسیوں سے قہر ڈھارہا تھا لیکن انسانی حقوق کے چیمپین امریکا کو اس سے کوئی سروکار نہ تھا وہ تو پاکستان کو استعمال کرتے ہوئے سوویت یونین کو زچ کرنا چاہتے تھا جس میں جنرل ضیاء نےامریکاکا پورا پورا ساتھ دیا۔

جنرل ضیاءبڑا ہوشیار اور مکار شخص تھا لیکن تاثر ایسا دیتا تھا جیسے بہت ہی سادہ لوح ہے۔ اس کی اس خوبی نےہی اس کی مکارانہ سیاست کے مختلف مراحل کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ جھوٹ بولنا جنرل ضیاء کی فطرت تھی۔ 12ا گست 1983کومجلس شوریٰ کے ساتویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس نے ایک جھوٹا دعویٰ کیا کہ نیشنل آرکائیوزمیں محفوظ قائد اعظم کی ایک ذاتی ڈائری ملی ہے جو اب تک شائع نہیں ہوئی۔ اس نے قائد اعظم کی ڈائری کے حوالے سے یہ جھوٹا انکشاف کیا کہ ان کی ایک تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ”قائد اعظم سربراہ ریاست کے منصب کو انتہائی موثر اور مضبوط دیکھنا چاہتے تھے اور جمہوری نظام کے خلاف تھے، ملک بھر کے میڈیا میں یہ بحث چل نکلی لیکن جب ممتاز دولتانہ اور کے ایچ خورشید نے کسی ایسی ڈائری کو موجود ہونے کی پرزور تردید کی تو یہ افسانہ اپنی موت آپ مرگیا۔ اس کے بعد ضیاءالحق یا اسکے حواریوں میں سے کسی نے اس فرضی ڈائری کا کبھی ذکر نہیں کیا۔جنرل ضیاءالحق نے اپنے گیارہ سالہ دور میں آئین میں اپنی مرضی کی ترمیمیں کیں، جمہوریت اور انسانی حقوق کے نظام کو برباد کردیا۔ جنرل ضیاء نےایک نام نہاد ریفرنڈم بھی کرایا اور اپنے آپ کو کامیاب قرار دینے کےخود کو ملک کا جمہوری صدر کہنے لگا۔آٹھ سال تک بلا شرکت غیرے حکومت کرنے کے بعد 1985میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے اور محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم نامزد کیا، مگر ان کو بھی تین سال سے زیادہ نہ چلنے دیا۔جب اپریل1988میں اوجڑی کیمپ کے دھماکے ہوئے تو جونیجو نے اس کی تحقیقاتی رپورٹ عام کرنی چاہی ،جس پر جنرل ضیاء الحق نے جونیجو کو برطرف کرکے گھر بھیج دیا۔

سترہ اگست 1988 کو جنرل ضیاءالحق فوج کے ایک پروگرام میں شریک ہوکر بہاولپور سے واپس اسلام آباد جارہا تھا کہ اس کا طیارہ فضا میں پھٹ گیا اور ساتھ ہی فضا میں وہ خود بھی پھٹ گیا، جنرل ضیاءکی لاش کی شناخت اُس کی بتیسی کی وجہ سے ہوئی تھی۔ اگلے دن جنرل ضیاءالحق کے لیے ایک منافقت کی گئی اور ایک بتیسی کے ساتھ جلے ہوئے گوشت کے لوتھڑوں کو جنرل ضیاءالحق کی باقیات کہہ کر بغیر کسی وجہ کےاسلام آباد کی فیصل مسجد کے احاطے میں دفن کیا گیا۔ بعد میں کچھ لوگوں نے فیصل مسجد کے اسٹاپ کا نام جبڑا چوک رکھ دیا۔ جنرل ضیاء کی موت پرپاکستانی عوام نے سترہ اگست کو ظالم سے نجات کا دن قرار دیا تھا۔ جنرل ضیاء کی گیارہ سالہ آمریت کی قیمت پاکستانی عوام آجتک منشیات، کلاشنکوف کلچر، نام نہادجہاد، فرقہ واریت، لسانی جھگڑوں، طالبان دہشتگرد اور پھر ان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ کی صورت میں چکا رہے ہیں۔آج ضیا ءالحق کی قبر پر کوئی بھی نہیں جاتا، حتیکہ اس کا بیٹا اعجاز الحق بھی نہیں، لیکن ضیا ءالحق کی روحانی اولاد نواز شریف اور ان کے حواری جو ضیاء کی باقیات کہلاتے ہیں آج بھی سیاسی اور ریاستی اقتدار پر قابض ہیں۔
جتنا کچھ ضیاءالحق کے بارے میں تاریخ نے رقم کیا ہےاس لحاظ سے آپ کی تحریر میں بہت کم ذکر ہے جتنا وہ ظالم اور منافق تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر اس کی نحوست بھری حکمرانی پاکستان کے نصیب میں نہ ہوتی۔پاکستان کتنی راہیں طے کرچکا ہوتا ترقی کی اور عوام کے حالات بہتر ہوتے۔

ظلم و بربریت اور دہشتگردی کی جو فصل وہ بو گیا ہے نجانے پاکستان کی کتنی نسلیں اس کا شکار ہوتی رہیں گی اور نہیں معلوم کب تک۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ضیاء الحق نے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دلوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں کئی شخصی خوبیاں پائی جاتی تھیں جن کی طرف فاضل کالم نگار نے توجہ نہ کی۔ اس لیے اس مضمون کو کافی حد تک یک رُخا کہا جا سکتا ہے۔

فرقان بھائی، خاکہ نگاری اور کالم نگاری میں فرق ہے۔ آپ نے جس جانب ذکر کیا اس کا احاطہ خاکہ نگاری میں کرنا ضروری ہے جبکہ کالم نگاری ایک مختلف صنف ہے۔

تاریخ نے یہ بھی رقم کیا ہے کہ ضیاءالحق کی ایک معذور بیٹی تھی۔ حکمران ہونے کے ناطے ہی نہ سہی کم ازکم ایک باپ ہونے کے ناطے ہی سے انسانیت کا یہ دکھ محسوس کیا ہوتا اس نے۔ پاکستان کی معذور عوام کے لیے بھلائی کی ، خودانحصاری کی کوئی راہ ہی کھول گیا ہوتا لیکن ایسا کرنا اس کے نصیب میں نہیں تھا ، برعکس وہ ایک ایسی فصل بو گیا ہے اور نفرت و فرقہ پرستی و دہشتگردی کے ایسے الاؤ جلا گیا ہے کہ جو پاکستان کی عوام کو جسمانی معذور بنانے اور معذور آبادی میں اضافہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
فرقان بھائی، خاکہ نگاری اور کالم نگاری میں فرق ہے۔ آپ نے جس جانب ذکر کیا اس کا احاطہ خاکہ نگاری میں کرنا ضروری ہے جبکہ کالم نگاری ایک مختلف صنف ہے۔
شاید ہمیں ایسے مضمون ہی زیادہ پسند آتے ہیں جس میں کسی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہوئے اس کی اچھی بری صفات کو مجتمع کر دیا جائے۔ مثال کے طور پر، ضیاء الحق بہت کائیاں قسم کی ہستی تھے؛ دیکھیے، انہوں نے کس طرح سیاست دانوں کو لالی پاپ دیے رکھا۔ نوے دن کے لیے آئے اور شاید نوے ماہ سے زیادہ اقتدار کے ایوانوں میں مقیم رہے؛ اتنے لمبے عرصے تک معاملات کو چلائے رکھنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ تاہم، ہم تو صاف بات کہیں گے، بھٹو کے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ اور ان کا عدالتی قتل ضیاء کے دامن پر لگے بدنما دھبوں میں سے ایک ہے۔ ہم ان کی شخصی خوبیوں کے مداح رہے ہیں، تاہم، ایسی شخصی خوبیاں کس کام کی جو ملک کو آگے لے جانے کی بجائے پیچھے کی طرف دھکیل دیں۔ ان کا زیادہ تر زور خود کو اقتدار میں رکھنے تک میں صرف ہوتا رہا۔ اگر یہی وقت بھٹو کو مل جاتا تو وہ ان سے بہتر کارکردگی دکھا سکتے تھے۔
 

سید عمران

محفلین
شاید ہمیں ایسے مضمون ہی زیادہ پسند آتے ہیں جس میں کسی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہوئے اس کی اچھی بری صفات کو مجتمع کر دیا جائے۔ مثال کے طور پر، ضیاء الحق بہت کائیاں قسم کی ہستی تھے؛ دیکھیے، انہوں نے کس طرح سیاست دانوں کو لالی پاپ دیے رکھا۔ نوے دن کے لیے آئے اور شاید نوے ماہ سے زیادہ اقتدار کے ایوانوں میں مقیم رہے؛ اتنے لمبے عرصے تک معاملات کو چلائے رکھنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ تاہم، ہم تو صاف بات کہیں گے، بھٹو کے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ اور ان کا عدالتی قتل ضیاء کے دامن پر لگے بدنما دھبوں میں سے ایک ہے۔ ہم ان کی شخصی خوبیوں کے مداح رہے ہیں، تاہم، ایسی شخصی خوبیاں کس کام کی جو ملک کو آگے لے جانے کی بجائے پیچھے کی طرف دھکیل دیں۔ ان کا زیادہ تر زور خود کو اقتدار میں رکھنے تک میں صرف ہوتا رہا۔ اگر یہی وقت بھٹو کو مل جاتا تو وہ ان سے بہتر کارکردگی دکھا سکتے تھے۔
ہمیشہ اقتدار میں رہنا کس نے نہیں چاہا؟؟؟
ملک توڑنے میں دیگر افراد کی طرح بھٹو صاحب کا بھی اپنا کردار تھا...
اس لیے یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ رہتے تو ملک ترقی کرتا...
بے شک ضیاء الحق نے غاصبانہ قبضہ کیا.. اقتدار پر بھی مرتے دم تک قابض رہے...
لیکن انہوں نے یہ کوئی نیا جرم نہیں کیا تھا... ان سے پہلے ایوب خان... یحیی خان اور بعد میں پرویز مشرف نے بھی بالکل یہی کام کیا...
بھٹوصاحب کے بھی اچھے کام ہیں جیسے جوہری پروگرام... بی سی سی آئی بینک.. او آئی سی کا اجلاس وغیرہ...
اسی طرح ضیاء الحق صاحب نے اچھے کام بھی کیے جن میں سب سے بڑا کام روس کو پاکستان کی سرحدوں سے پرے رکھنا اور بعد ازاں اس سپر پاور کی دھجیاں اڑا دینا...
البتہ ان کا اسلام پسند ہونا اسلام دشمنوں کو سب سے زیادہ کھلتا ہے... اسی لیے وہ ان کو ایسی ننگی گالیاں دیتے ہیں جن کے وہ مستحق نہیں... ان کے سپر پاور کے حصے بخرے کرنے کے کارنامے سے دنیا انگشت بدنداں تھی لیکن ان منافقین نے اس کو بھی پروپیگنڈا سے کچرا بنانے کی کوشش کی... پاکستان میں افیون اور کلاشنکوف کلچر عام ہونے کو ایسا پیش کیا جیسے ضیاء نے گلی گلی جا کر اسے پروموٹ کیا ہو... یہ کام افغانیوں نے کیا... ضیاء صاحب کو چاہیے تھا کہ اہران کی طرح انہیں مخصوص علاقے تک محدود رکھتے...
امریکہ کا انہیں مروانا ثبوت ہے کہ وہ پاکستان کے وفارار اور اسلام کے تابع دار تھے... نہ انگلینڈ میں جائیدادیں تھیں نہ ملک میں کرپشن کا داغ... ان کے دور میں جو امن تھا وہ ہمیں آج تک نصیب نہ ہوا...
نہ میں ضیاء الحق کا پیروکار ہوں نہ بھٹو بیزار...
بات صرف اتنی ہے کہ ہر حکمران کی خوبیوں پر دل خوش اور برائیوں پر غمگین ہوتا ہے...
باقی میرا کسی سے کوئی لینا دینا نہیں...
نہ کسی نے میری جائیدادیں غصب کی ہیں نہ کسی نے عطا کی ہیں!!!
 

سید عمران

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ امريکہ نہيں بلکہ پاکستان کی عوام ہے جو خود اپنی ليڈرشپ کے ليے ذمہ دار ہيں۔
کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ دو ممالک کے درميان تعلقات بہتر ہو سکتے ہيں اگر ہم اس قياس اور تاثر کی بنياد پر پاکستان کے منتخب جمہوری قائدين کے ساتھ تعلقات منقطع کر ليں کہ ان کے فيصلے اور پاليسياں پاکستان کے عوام کی اکثريت کی ترجمانی نہيں کرتيں؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
آپ جو سمجھے میں نے وہ نہیں کہا...
مسائل تعلقات گھٹانے سے نہیں بڑھانے سے حل ہوتے ہیں...
اگر حل کرنے کی نیت ہو!!!
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
ہمیشہ اقتدار میں رہنا کس نے نہیں چاہا؟؟؟
بے شک ضیاء الحق نے غاصبانہ قبضہ کیا.. اقتدار پر بھی مرتے دم تک قابض رہے...
جب آپ یہ بات تسلیم کر چکے ہیں اور ہم بھی اس معاملے کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں تو پھر جھگڑا کاہے کا؟ :) سلامت رہیں! :)
 
ان کا عدالتی قتل ضیاء کے دامن پر لگے بدنما دھبوں میں سے ایک ہے۔
یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ بھٹو کی پھانسی جنرل ضیاءالحق کی خواہش تھی لیکن کیا یہ بات ثابت شدہ ہے کہ بھٹو نے واقعی احمد رضا قصوری کے والد کا قتل نہیں کرایا تھا؟ اور اگر کرایا تھا تو کیا بھٹو کو اس لئے اس جرم کی سزا نہیں دینا چاہئے تھی کہ وہ ایک مقبول سیاسی لیڈر تھا؟
 

فرقان احمد

محفلین
یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ بھٹو کی پھانسی جنرل ضیاءالحق کی خواہش تھی لیکن کیا یہ بات ثابت شدہ ہے کہ بھٹو نے واقعی احمد رضا قصوری کے والد کا قتل نہیں کرایا تھا؟ اور اگر کرایا تھا تو کیا بھٹو کو اس لئے اس جرم کی سزا نہیں دینا چاہئے تھی کہ وہ ایک مقبول سیاسی لیڈر تھا؟
اگر بھٹو نے یہ قتل کروایا تھا تو پھر یہی سزا بنتی تھی۔ یہ معاملہ الگ ہے، اقتدار پر غاصبانہ قبضہ الگ ایشو ہے محترم!
 

سید عمران

محفلین
اگر بھٹو نے یہ قتل کروایا تھا تو پھر یہی سزا بنتی تھی۔ یہ معاملہ الگ ہے، اقتدار پر غاصبانہ قبضہ الگ ایشو ہے محترم!
یہی تو مسئلہ ہے محترم...
ہر ایک نے اقتدار پر قبضے کا جائز ناجائز راستہ اختیار کیا...
پھر صرف ضیاء ہی معتوب کیوں؟؟؟
بھٹو نے اپنے اقتدار کے لیے شیخ مجیب کی اکثریت کو رد کیا...
اپنے اقتدار کے لیے ملک کے دو ٹکڑے کرنے تک گوارا کرلیے...
ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگایا...
بنگلہ دیش جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کا کھلے عام اعلان کیا...
کوڑھ کی اس کاشت میں ہر طرف سڑے ہوئے گوشت کے پھل ہی اگے ہیں!!!
 

سید عمران

محفلین
جب آپ یہ بات تسلیم کر چکے ہیں اور ہم بھی اس معاملے کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں تو پھر جھگڑا کاہے کا؟ :) سلامت رہیں! :)
میرے پیارے بھائی آپ سے تو جھگڑا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا...
یہاں بات پر بات چل نکلنے یا کسی بات پر بحث چھڑنے کا مطلب جھگڑا نہیں... اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کرنا ہے...
اگر تاریخی واقعات... ڈیٹا... اسٹیٹسٹکس وغیرہ کی بنیاد پر بات کی جائے تو سب کو بہت اچھی معلومات گھر بیٹھے مل جاتی ہیں!!!
 
ایک دلچسپ بات یہ سامنے آتی ہے کہ بھٹو کے سیاسی وارثوں نے بھٹو کی پھانسی سے کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی بہت کوشش کی بلکہ فائدہ اٹھایا بھی مگر کسی نے قانونی یا ثبوتوں کی بنیاد پر یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی بھٹو نے احمد رضا قصوری کے والد کا قتل نہیں کرایا۔
 
آخری تدوین:
ایک دلچسپ بات یہ سامنے آتی ہے کہ بھٹو کے سیاسی وارثوں نے بھٹو کی پھانسی سے کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی بہت کوشش کی بلکہ فائدہ اٹھایا بھی مگر کسی نے قانونی یا ثبوتوں کی بنیاد پر یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی بھٹو نے احمد رضا قصوری کے والد کا قتل نہیں کرایا۔
بھائی پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ یہی ہے۔بھٹو صاحب کہ بعد میرمرتضی بھٹو کی پولیس مقابلے میں موت سے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری نے بہت فوائد حاصل کیئے۔
محترمہ کی شہادت سے بھی پیپلز پارٹی نے فوائد حاصل کیئے۔
اور آج تک ان افراد کے خلاف کی گئی سازش بے نقاب ہوئی اور نہ ہی ان کے قاتل پکڑےجاسکے۔
 
Top