فارسی شاعری ستائشِ خلفائے راشدین - چِترالی شاعر میرزا محمد غفران (مع ترجمہ)

حسان خان

لائبریرین
چِترالی مصنّف میرزا محمد غُفران نے ۱۹۱۹ء میں 'تاریخِ چترار' نامی ایک فارسی کتاب لکھی تھی۔ اُس کتاب کی ابتداء میں جو اُنہوں نے نعتِ رسول نظم کی تھی، یہ ابیات اُسی میں سے ہیں۔

"ابوبکر وی را نخستین یار

که جان را بر او کرده دایم نثار
به صدقِ ارادت برآورده نام
بدو منصبِ صدق گشته تمام
شهِ صادقان سرورِ سابقین
کشیده بسی زحمت از بهرِ دین
بُوَد یارِ ثانیش عادل عمر
کزو کارِ اسلام شد باظفر
ز اسلامِ او گشت دین آشکار
بیستاد در راهِ حق استوار
ز شمشیرِ او جمله رویِ زمین
پذیرفت اسلام از تُرک و چین
ازو سرد شد قبله‌گاهِ مجوس
بیاراست رویِ جهان چون عَروس
ز مصر و ز شام و عجم تا به روم
پذیرفت فرمانِ عدلش چو موم
سوم یارِ پیغمبرِ مصطفیٰ
شهنشاهِ عثمان کانِ حیا
به حلم و حیا و به جود و نثار
بُوَد در جهان سرورِ نامدار
ز سعی‌اش کلامِ خدا جمع شد
فروزان به هر مملکت شمع شد
ز تیغِ جهادش بسا رویِ خاک
پذیرفت رونق ز اسلامِ پاک
خداوندِ دو نور بودش لقب
گرامی‌ترین شاهِ عالی‌نسب
چهارم علی یارِ آن سرور است
امیرِ دلیران شهِ صفدر است
ولایت‌سِتان شاهِ عالی‌مقام
به جود و سخاوت برآورده نام
شهِ شیرمردان حیدرلقب
شهنشاهِ ایران و روم و عرب
وصیِ نبی صاحبِ ذوالفقار
شهنشاهِ نامیِ دُلدُل‌سوار"
(میرزا محمد غُفران)

ترجمہ:
رسول کے اوّلین یار ابوبکر تھے جنہوں نے ہمیشہ اُن پر جان نثار کی۔ اُن کی صِدقِ ارادت کے سبب اُن کا نام بلند ہوا اور اُن کے ذریعے منصبِ صِدق کو تمامیت و کمال حاصل ہوا۔ وہ صادقوں کے شاہ اور سابقینِ اوّلین کے سَروَر ہیں اور انہوں نے دین کی خاطر بِسیار زحمتیں اُٹھائیں۔ رسول کے یارِ دوم عُمَرِ عادل ہیں کہ جن کے ذریعے اسلام کے کاموں کو فتح و ظفر حاصل ہوئی۔ اُن کے اسلام لانے سے دین آشکار ہوا اور وہ راہِ حق میں اُستُواری کے ساتھ ایستادہ رہے۔ اُن کی شمشیر کے سبب تُرک و چین سے لے کر جملہ روئے زمین نے اسلام قبول کیا۔ مجوسیوں کی قبلہ گاہ (یعنی آتش) اُن کے ذریعے سرد ہوئی اور اُنہوں نے روئے زمین کو عَروس کی مانند آراستہ کیا۔ مصر، شام، بلادِ عجم اور رُوم نے اُن کا فرمانِ عدل موم کی طرح [آسانی سے] تسلیم کر لیا۔ پیغمبرِ مصطفیٰ کے یارِ سوم شہنشاہ عثمان ہیں جو کانِ حیا تھے۔ حِلم، حیا، اور جود و ایثار کے لحاظ سے وہ دنیا میں رئیسِ نامدار ہیں۔ اُن کی کوششوں سے کلامِ خدا جمع ہوا اور ہر مملکت میں شمع فروزاں ہوئی۔ اُن کی تیغِ جہاد سے کتنے ہی مُلکوں نے اسلامِ پاک کے باعث رونق حاصل کر لی۔ اُن کا لقب ذوالنورین تھا اور وہ گرامی ترین اور عالی نسب شاہ تھے۔ پیغمبرِ سَروَر کے یارِ چہارم علی ہیں اور جو دلیروں کے امیر اور شاہِ صف شکن ہیں۔ وہ ولایتیں فتح کرنے والے شاہِ عالی مقام ہیں اور جود و سخاوت کے لحاظ سے اُن کا نام بلند ہے۔ وہ شیر مردوں کے شاہ ہیں اور حیدر لقب رکھتے ہیں۔ وہ ایران و روم و عرب کے شہنشاہ ہیں۔ وہ وصیِ رسول اور صاحبِ ذوالفقار ہیں۔ وہ شہنشاہِ نامور اور دُلدُل سوار ہیں۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
واہ واہ بہت ہی زبر دست ۔بہت خوب ۔دل موہ لینے والا کلام ہے ۔
محبت وعقیدت کا دل نشین بیان۔حضرت سعدی کی لازوال کریما کی یاد تازہ ہو گئی ان اشعار سے۔
 

حسان خان

لائبریرین
واہ واہ بہت ہی زبر دست ۔بہت خوب ۔دل موہ لینے والا کلام ہے ۔
محبت وعقیدت کا دل نشین بیان۔حضرت سعدی کی لازوال کریما کی یاد تازہ ہو گئی ان اشعار سے۔
بحرِ متقاربِ مثمنِ محذوف (فعولن فعولن فعولن فعول) مثنوی کے لیے استعمال ہونے والی جملہ بحروں میں میری پسندیدہ ترین بحر ہے۔
 
Top