سال کی کوکھ میں پلتے ہوئے دن - ( سال 2010 کی پہلی نظم)

مغزل

محفلین
’’ سال کی کوکھ میں پلتے ہوئے دن ‘‘
( سال 2010 کی پہلی نظم)

سال کی کوکھ میں پلتے ہوئے دن
سال کی آخری رات - - -
خوف کے کھردرے ہاتھوں سے تولُّد ہوکر
ایک کہرام مچا دیتے ہیں تا شرق و شمال
تا غرب و جنوب - -- -
چاند گہنایا ہوا دیکھ کے خوش ہوتے ہیں
رقص ابلیس کے چیلوں کا دکھاتے ہیں‌مدام
صبح آتی ہے - - - -
تو آنگن میں پڑی لاشوں پر
بین کرتی ہوئی ، شام سے جاملتی ہے
اور اس گھر کے مکینوں کو ندا دیتی ہے
(‌اے مری مانگ کا سیندور مٹانے والے)
چوڑیا ں‌ٹوٹتی ہیں‌ - - -
فرشِ عزاء بچھتا ہے - - - -
سینہ کوبی سے کلیجہ ، کہ پھٹا پڑتا ہے
ہائے ماں ، ہائے پدر، ہائے مرے لختِ جگر
کوئی لوبان جلاتا ہے - - -
تو مرحوم سرا - - -
شیون و ماتم و گریہ سے لرز اٹھتی ہے
ہائے سرتاج - - -
خدا واسطے لوٹ آؤ تم !
دن کسی بات کے سننے کے روادار نہیں
شام اب رات کے آنچل میں سمٹ جاتی ہے
اور اک سانس - - -
مرے سینے میں گُھٹ جاتی ہے !!
سال کی کوکھ میں پلتے ہوئے دن
سال کی آخری رات
خوف کے کھردرے ہاتھوں‌سے تولُّد ہو کر !!!

(م۔م۔مغل)
 
مجھے لگتا ہے ایک بار پھر فون کرکے سننا ہوگا۔ ویسے پچھلی بار کی طرح اس بار رابطہ منقطع نہیں ہونا چاہئے۔
 

نوید صادق

محفلین
سبحان اللہ۔
بھائی، خوب ہے یہ نظم۔
تین بار پڑھ چکا ہوں۔ اچھی بھی لگ رہی ہے۔ لیکن
ایک بات کہنا چاہوں گا۔ یہ محض ایک رائے بھی ہو سکتی ہے اور اس نظم کے اچھا نہ ہونے کی ایک قوی دلیل بھی۔
میں سوچ رہا ہوں کہ جب میں نے اسے پہلی بار پڑھا تو اچھی لگی، دوسری بار تھوڑی کم ہو گئی، تیسری بار پسندیدگی کی پرسنٹیج اور کم۔
یہ کیا ہے؟؟
یہ شاید میری ذاتی پسند ناپسند کا مسئلہ ہو،
لیکن اگر ایسا ہے تو یہ نظم مجھے پہلی بار کیوں بہت بھلی محسوس ہوئی۔
تو یہ کھلا کہ یہ ذاتی پسند ناپسند کا مسئلہ ہرگز ہرگز نہیں۔
بات یہ ہے کہ یہ نظم حالاتَ‌حاضرہ اور ہمارے چاروں طرف پھیلے حادثوں کی دین ہے۔
شاعری شعور کا مسئلہ ہے کہ لاشعور کا؟؟
کچھ ووٹ پہلے کے حق میں‌اور کچھ دوسرے کے حق۔
فرائڈ اسے لاشعور کا کرشمہ بتاتا ہے۔
ماضی کا شعور حال کا لاشعور بن جاتا ہے
اور کوئی جذبہ، کوئی خیال، کوئی واقعہ مچھلی پکڑنے والےکانٹے پر بھرے چارے کی صورت مچھلی پھانس لاتا ہے۔(غالبا" کانٹ کہا کرتا تھا)
میں اس شعور و لاشعور کی بحث میں فرائڈ کا ہم خیال ہوں۔
جی انسانی ذہن ایک اندھیرا تہہ خانہ۔۔۔ اس میں کچھ پڑا ہے۔۔ جو مجھے یاد نہیں ۔۔۔ اچانک مل جاتا ہے۔۔۔۔ خیر یہ ایک لمبی بحث ہے۔
جی نظم کی طرف لوٹتے ہیں۔
نظم اچھی ہے، لیکن یہ نظم بیانیہ بنتے بنتے رہ گئی۔ واضح رہے کہ بیانیہ بنی نہیں ، کچھ استعارے اسے بچا لے گئے ہیں.
اب یہ علامت اور بیان کے سنگم پر کھڑی ہے، (جیسے میں پاک انڈیا بارڈڑ پر کام کر رہا ہوں)۔
یہی اس نظم کی خوبصورتی ہے۔ اس میں ابہام ہے۔۔۔۔۔ بہت کم۔۔۔۔ ذرا سی کاوش سے کھل جانے والا۔۔
اس میں بیان ہے۔۔۔۔۔ تھوڑا چھپ کے رہنے والا۔
جیسے آپ خود۔۔۔۔ صاف چھپتے بھی نہیں۔۔۔۔ سامنے آتے بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔والی بات بن گئی۔
بھیا!! اب نتیجا اس میری بک بک کا کیا نکلتا ہے؟؟
یہ ایک اچھی نظم ہے!!!
پسند آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اسے چوتھی بار پڑھ کر اپنا مزا/ووٹ مزید کم نہیں کروں گا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
میں سوچ رہا ہوں کہ جب میں نے اسے پہلی بار پڑھا تو اچھی لگی، دوسری بار تھوڑی کم ہو گئی، تیسری بار پسندیدگی کی پرسنٹیج اور کم۔
یہ کیا ہے؟؟

ہوسکتا ہے کہ شیون و ماتم و گریہ کی تکرار آپ کی طبیعت پر گراں گزری ہو۔
 

الف عین

لائبریرین
مجھ کو تو اچھی لگی نظم۔ محمود مبارک ہو۔ البتہ یہ اس پائے کی نہیں ہے جیسی ان کی دیگر تخلیقات ہیں۔ شروع میں اٹھان تو زبر دست ہے لیکن پھرپلین بیانیہ کا شکار ہو جاتی ہے۔
 

مغزل

محفلین
, الف نظامی, زین, سخنور, , شمشاد اور محمود احمد غزنوی صاحب۔، بہت شکریہ ۔بندہ سراپا تشکر ہے ۔
 

مغزل

محفلین
سبحان اللہ۔
بھائی، خوب ہے یہ نظم۔
تین بار پڑھ چکا ہوں۔ اچھی بھی لگ رہی ہے۔ لیکن
ایک بات کہنا چاہوں گا۔ یہ محض ایک رائے بھی ہو سکتی ہے اور اس نظم کے اچھا نہ ہونے کی ایک قوی دلیل بھی۔
میں سوچ رہا ہوں کہ جب میں نے اسے پہلی بار پڑھا تو اچھی لگی، دوسری بار تھوڑی کم ہو گئی، تیسری بار پسندیدگی کی پرسنٹیج اور کم۔
یہ کیا ہے؟؟
یہ شاید میری ذاتی پسند ناپسند کا مسئلہ ہو،
لیکن اگر ایسا ہے تو یہ نظم مجھے پہلی بار کیوں بہت بھلی محسوس ہوئی۔
تو یہ کھلا کہ یہ ذاتی پسند ناپسند کا مسئلہ ہرگز ہرگز نہیں۔
بات یہ ہے کہ یہ نظم حالاتَ‌حاضرہ اور ہمارے چاروں طرف پھیلے حادثوں کی دین ہے۔
شاعری شعور کا مسئلہ ہے کہ لاشعور کا؟؟
کچھ ووٹ پہلے کے حق میں‌اور کچھ دوسرے کے حق۔
فرائڈ اسے لاشعور کا کرشمہ بتاتا ہے۔
ماضی کا شعور حال کا لاشعور بن جاتا ہے
اور کوئی جذبہ، کوئی خیال، کوئی واقعہ مچھلی پکڑنے والےکانٹے پر بھرے چارے کی صورت مچھلی پھانس لاتا ہے۔(غالبا" کانٹ کہا کرتا تھا)
میں اس شعور و لاشعور کی بحث میں فرائڈ کا ہم خیال ہوں۔
جی انسانی ذہن ایک اندھیرا تہہ خانہ۔۔۔ اس میں کچھ پڑا ہے۔۔ جو مجھے یاد نہیں ۔۔۔ اچانک مل جاتا ہے۔۔۔۔ خیر یہ ایک لمبی بحث ہے۔
جی نظم کی طرف لوٹتے ہیں۔
نظم اچھی ہے، لیکن یہ نظم بیانیہ بنتے بنتے رہ گئی۔ واضح رہے کہ بیانیہ بنی نہیں ، کچھ استعارے اسے بچا لے گئے ہیں.
اب یہ علامت اور بیان کے سنگم پر کھڑی ہے، (جیسے میں پاک انڈیا بارڈڑ پر کام کر رہا ہوں)۔
یہی اس نظم کی خوبصورتی ہے۔ اس میں ابہام ہے۔۔۔۔۔ بہت کم۔۔۔۔ ذرا سی کاوش سے کھل جانے والا۔۔
اس میں بیان ہے۔۔۔۔۔ تھوڑا چھپ کے رہنے والا۔
جیسے آپ خود۔۔۔۔ صاف چھپتے بھی نہیں۔۔۔۔ سامنے آتے بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔والی بات بن گئی۔
بھیا!! اب نتیجا اس میری بک بک کا کیا نکلتا ہے؟؟
یہ ایک اچھی نظم ہے!!!
پسند آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اسے چوتھی بار پڑھ کر اپنا مزا/ووٹ مزید کم نہیں کروں گا۔

شکریہ نوید بھائی ، آپ کی رائے سر آنکھوں پر ، میر ی خوش قسمتی ہے کہ آپ نے نظم کی کئی بار قراء ت کی، اور اپنی رائے سے آگاہ کیا، (سرخ کئے گئے نکات کی مد میں عرض ہے کہ ) سگمنٹ فرائڈ ہوں یا کانٹ ، ایلیٹ یا کیٹس ۔۔ ان کا نکتہ نظر اپنی جگہ آپکا فرائڈ سے متفق ہونا بھی مگر میرا اختلاف یا یوں کہہ لیجے کہ اتفاق نہ کرنا بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ ارسطو سے ایلیٹ ، علامہ شمس قیس رازی سے ابنِ رشیق اور شبلی و حالی سمیت بیسیوں قابلِ‌قدر اذہان نے ماہیتِ شعر سمجھنے کی کوشش کی مگر مسلمہ معیارات طے کرنے میں یکسر ناکام ہی رہے ، غزل جہاں آمد سے منطبق ہے نظم آورد کی مثال بھی ہے ، ۔۔ پھر یہ کہ یہ کلامِ ربانی نہیں انسانی ہے ، اس کی تفہیم میں تفہیمی رائرے بھی کام کرتے ہیں ، آپ زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ کسی بھی تخلیق پر تخلیق کار کاکام پیش کرنے کے بعد رائے جمع کرنا اور اپنی اصلاح ہی ہوتی ہے ۔اختلاف و اتفاق کی ہر دو صورتوں میں میرے لیے یہ بات خوش آئند ہے کہ کم از کم ناچیز کی تخلیق اس قابل ہے کہ اس پر گفتگو کی جاری ہے ، وگرنہ احباب و آپ محض واہ لاجواب بہت خوب کہہ کر آگے بھی بڑھ سکتے تھے ۔ آپ کی محبتوں کے لیے سراپا تشکر ہوں ،۔۔
مجھ کو تو اچھی لگی نظم۔ محمود مبارک ہو۔ البتہ یہ اس پائے کی نہیں ہے جیسی ان کی دیگر تخلیقات ہیں۔ شروع میں اٹھان تو زبر دست ہے لیکن پھرپلین بیانیہ کا شکار ہو جاتی ہے۔
شکریہ بابا جانی ، یقیناً ایسا ہی ہوگا، آپ کی شفقت کا خواہاں ہوں ، اس مد میں درج بالا سطور میں نوید بھائی سے بھی مکالمہ ہوا ، امید ہے آپ نشاندہی کیجے گا کہ بہتری کی صورت نکل سکے ۔
 

نوید صادق

محفلین
بھائی، بات یہ ہے کہ نظم کا اچھا ہونا یا نہ ہونا چیزے دیگر ہے۔ بزرگوں کی آرا سے متفق ہونا یا نہ ہونا بھی ایک طرف۔
فرائڈ کچھ کہے، کہتا پھرے، حالی اپنی دکان چلاتے رہیں،
باقی ایک لمبی فہرست ہے ناقدین کی۔
ہمارے ذہن میں یہ نام اور ان اصحاب کے کارہائے نمایاں گونجتے کب ہیں۔ جب ہمیں ذرا ذہن میں کسی کے پیش کردہ عقیدہ یا خیال یا منطق کی طرٍف راہ ملتی ہے۔
میں پراپر نقاد نہیں۔ بس تخلیق کا مطالعہ کرتا ہوں، اور پورے سچے دل سے کرتا ہوں۔ پھر پڑھتا ہوں۔ میرے ذہن میں ایک خیال پرورش پاتا ہے۔ اب اس خیال کی پیدائش کے ساتھ پتہ نہیں کیا کچھ دماغ میں در آتا ہے۔اور جب لکھنے بیٹھتا ہوں تو کبھی قلم کو لگام نہیں دی۔
یہ میں اپنی خوبیاں خوب کھول کر بیان نہیں کر رہا۔ اکثر تنقید لکھنے والے اس پروسیس سے گزرتے ہیں۔
یہ اور بات کہ کبھی، کہیں حالی براجمان ہوتے ہیں تو کہیں ایلیٹ۔ ایلیٹ کا عمل انگیز(catalyst) والا پہلو بھی ذہن میں رکھیے۔
آج کا تخلیق کار اگر اپنے اردگرد سے موضوعات نہیں نکالے گا تو یقین کیجے اس میں اور اشک سیتا پوری میں کوئی فرق نہ نکلے گا۔
ہمیں ایک جیسا ماحول ملا ہے۔ آپ بھی وہی دیکھ رہے ہیں ، اور میں بھی وہی، پھر ہم علیحدہ چیزیں کیوں لکھ رہے ہیں.
عمل انگیز مختلف ہے، کٹھالی میں پکائی کا فرق ہے۔ اینٹوں کا بھٹا تو ایک ہوتا ہے، لیکن ایک بھٹے کی اینٹوں کا نہ تو رنگ آُپس میں ملتا ہے اور نہ ہی ان کی کمپریسو سٹرینگتھ۔ ۔ بس یہی فرق ہے ، ہم سب تخلیق کاروں میں۔ اور یاد رہے کہ جو اینٹ آگ کے زیادہ قریب ہوتی ہے وہ اکثر اوقات قابلِ استعمال نہیں رہتی۔Over burn ہو جاتی ہے۔ہم اسے کھنگر جیسے واہیات نام سے پکارتے ہیں۔ بہت دور والی اینٹ کچی رہ جاتی ہے۔ ہاں درمیان کی اینٹ جو نہ تو آگ سے بہت دور ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے سرہانے، بہترین درجے کی اینٹ کہلاتی ہے۔ ہمارا مسئلہ بھی کچھ ایسا اینٹوں والا ہے۔ کبھی ہم آگ سے بہت دور ہوتے ہیں اور کبھی بہت نزدیک، لیکن آئیڈیل فاصلے پر تو کبھی کبھار ہی بیٹھتے ہیں۔ اور اسی ثانیے میں کہیں سے ایک آئیڈیل اینٹ نکل پاتی ہے۔
 

مغزل

محفلین
بھائی، بات یہ ہے کہ نظم کا اچھا ہونا یا نہ ہونا چیزے دیگر ہے۔ بزرگوں کی آرا سے متفق ہونا یا نہ ہونا بھی ایک طرف۔
فرائڈ کچھ کہے، کہتا پھرے، حالی اپنی دکان چلاتے رہیں،
باقی ایک لمبی فہرست ہے ناقدین کی۔
ہمارے ذہن میں یہ نام اور ان اصحاب کے کارہائے نمایاں گونجتے کب ہیں۔ جب ہمیں ذرا ذہن میں کسی کے پیش کردہ عقیدہ یا خیال یا منطق کی طرٍف راہ ملتی ہے۔
میں پراپر نقاد نہیں۔ بس تخلیق کا مطالعہ کرتا ہوں، اور پورے سچے دل سے کرتا ہوں۔ پھر پڑھتا ہوں۔ میرے ذہن میں ایک خیال پرورش پاتا ہے۔ اب اس خیال کی پیدائش کے ساتھ پتہ نہیں کیا کچھ دماغ میں در آتا ہے۔اور جب لکھنے بیٹھتا ہوں تو کبھی قلم کو لگام نہیں دی۔
یہ میں اپنی خوبیاں خوب کھول کر بیان نہیں کر رہا۔ اکثر تنقید لکھنے والے اس پروسیس سے گزرتے ہیں۔
یہ اور بات کہ کبھی، کہیں حالی براجمان ہوتے ہیں تو کہیں ایلیٹ۔ ایلیٹ کا عمل انگیز(catalyst) والا پہلو بھی ذہن میں رکھیے۔
آج کا تخلیق کار اگر اپنے اردگرد سے موضوعات نہیں نکالے گا تو یقین کیجے اس میں اور اشک سیتا پوری میں کوئی فرق نہ نکلے گا۔
ہمیں ایک جیسا ماحول ملا ہے۔ آپ بھی وہی دیکھ رہے ہیں ، اور میں بھی وہی، پھر ہم علیحدہ چیزیں کیوں لکھ رہے ہیں.
عمل انگیز مختلف ہے، کٹھالی میں پکائی کا فرق ہے۔ اینٹوں کا بھٹا تو ایک ہوتا ہے، لیکن ایک بھٹے کی اینٹوں کا نہ تو رنگ آُپس میں ملتا ہے اور نہ ہی ان کی کمپریسو سٹرینگتھ۔ ۔ بس یہی فرق ہے ، ہم سب تخلیق کاروں میں۔ اور یاد رہے کہ جو اینٹ آگ کے زیادہ قریب ہوتی ہے وہ اکثر اوقات قابلِ استعمال نہیں رہتی۔Over burn ہو جاتی ہے۔ہم اسے کھنگر جیسے واہیات نام سے پکارتے ہیں۔ بہت دور والی اینٹ کچی رہ جاتی ہے۔ ہاں درمیان کی اینٹ جو نہ تو آگ سے بہت دور ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے سرہانے، بہترین درجے کی اینٹ کہلاتی ہے۔ ہمارا مسئلہ بھی کچھ ایسا اینٹوں والا ہے۔ کبھی ہم آگ سے بہت دور ہوتے ہیں اور کبھی بہت نزدیک، لیکن آئیڈیل فاصلے پر تو کبھی کبھار ہی بیٹھتے ہیں۔ اور اسی ثانیے میں کہیں سے ایک آئیڈیل اینٹ نکل پاتی ہے۔

متفق ۔۔۔ کوئی دوسری رائے نہیں ، شکریہ ،۔
( ہن میری اینٹ کا مقام تو دسدے جاوو سرکار :battingeyelashes:)
 

نوید صادق

محفلین
میں سول انجینئر ہوں، اینٹ کا بتا سکتا ہوں، نظم چیز ے دیگر ہے۔ یہ تو کوئی نقاد بتائے گا اور میں سمجھتا ہوں کہ وقت سے بڑا نقاد کوئی نہیں۔
 
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ شاعری احساسات کے خوبصورت اظہار کا نام ہے۔یا پھر خوبصورت احساسات کے اظہار کا نام ہے۔ دوسرے یہ کہ مانا کہ شاعر اپنے ارد گرد کے حالات سے متاثر ہوتا ہے لیکن وہ اپنے خوابوں میں جیتا ہے۔ جو بات اس نظم میں کہی گئی ہے وہ تو تلخ حقائق ہیں، آجکل ہر کوئی یہی کچھ دیکھ رہا ہے، کالم نگار یہی کچھ اپنے کالمز میں لکھ رہے ہیں۔ہر طرف مایوسی کا دور دورہ ہے۔ ایسے میں ہم اپنے شاعر سے بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ ہمیں کوئی اچھا خواب دکھائے، کوئی امید جگائے۔ کوئی ایسا خواب جس کے سہارے زندگی گذارنا سہل ہوجائے۔
شاعر کی نوا ہو کہ مغنّی کا نفس ہو۔ ۔ ۔ ۔
جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا​
 

مغزل

محفلین
میں سول انجینئر ہوں، اینٹ کا بتا سکتا ہوں، نظم چیز ے دیگر ہے۔ یہ تو کوئی نقاد بتائے گا اور میں سمجھتا ہوں کہ وقت سے بڑا نقاد کوئی نہیں۔
:noxxx: نوید بھائی فرار نہیں چلے گا ، بڑے عرصے بعد تو آمادگی ہوئی ہے آپ کی محفل میں اس طرح، سول انجینیر اینٹ کے مقام کا تعین بھی کرتا ہے ، یہ بات مجھ ایسا بچہ بھی سمجھتا ہے ، لہذا یہ عذر قابلِ غور بھی نہیں قابلِ قبول تو دور کی بات۔۔۔۔۔ :biggrin:
 

نوید صادق

محفلین
نظم اچھی ہے۔ اینٹ کی جگہ کا تعین بھی ہو جائے گا۔ لیکن اس کے لیے مجھے اس نظم کا دو تین بار اور مطالعہ کرنا پڑے گا۔ لیکن میں وہ ایک دو روز بعد کروں گا۔
 

مغزل

محفلین
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ شاعری احساسات کے خوبصورت اظہار کا نام ہے۔یا پھر خوبصورت احساسات کے اظہار کا نام ہے۔ دوسرے یہ کہ مانا کہ شاعر اپنے ارد گرد کے حالات سے متاثر ہوتا ہے لیکن وہ اپنے خوابوں میں جیتا ہے۔ جو بات اس نظم میں کہی گئی ہے وہ تو تلخ حقائق ہیں، آجکل ہر کوئی یہی کچھ دیکھ رہا ہے، کالم نگار یہی کچھ اپنے کالمز میں لکھ رہے ہیں۔ہر طرف مایوسی کا دور دورہ ہے۔ ایسے میں ہم اپنے شاعر سے بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ ہمیں کوئی اچھا خواب دکھائے، کوئی امید جگائے۔ کوئی ایسا خواب جس کے سہارے زندگی گذارنا سہل ہوجائے۔
شاعر کی نوا ہو کہ مغنّی کا نفس ہو۔ ۔ ۔ ۔
جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا​

محمود بھائی اجازت ہو تو میں‌کچھ عرض کروں ؟؟
 
Top