جگر ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گيا - جگر مراد آبادی

ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا
لہروں سے کھیلتا ہوا‘ لہرا کے پی گیا

بے کیفیوں کے کیف سے گھبرا کے پی گیا
توبہ کو توبہ تاڑ کے‘ تھرا کے پی گیا

زاہد‘ یہ میری شوخیِ رندانہ دیکھنا!
رحمت کو باتوں باتوں میں بہلا کے پی گیا

سر مستیِ ازل مجھے جب یاد آ گئی
دنیائے اعتبار کو ٹھکرا کے پی گیا

آزردگیِ‌خاطرِ ساقی کو دیکھ کر
مجھ کو یہ شرم آئی کہ شرما کے پی گیا

اے رحمتِ تمام! مری ہر خطا معاف
میں انتہائے شوق میں گھبرا کے پی گیا

پیتا بغیرِ اذن‘ یہ کب تھی مری مجال
در پردہ چشمِ یار کی شہ پا کے پی گیا

اس جانِ مے کدہ کی قسم‘ بارہا جگر!
کل عالمِ بسیط پہ میں چھا کے پی گیا
 

محمد وارث

لائبریرین
اور یہ کوئی "خالی خولی" شاعری ہی نہیں ہے بلکہ جگر اسی طرح لہرا لہرا کے پیتے تھے۔ کیا 'حق الیقین' کی منزل ہے :)

بہت شکریہ سعد صاحب شیئر کرنے کیلیے!


سر مستی ازل جو مجھے آ گئی
دنيائے اعتبار کو ٹھکرا کے پی گيا

'آ گئی' کے بعد کچھ محذوف، کیا آپ دیکھ سکتے ہیں پلیز۔



پيتا بغير اذان يہ کب تھی ميری مجال
در پردہ چشم يار کی شہ پا کے پی گيا

یہ لفظ 'اذن' بمعنی اجازت ہے یعنی

پیتا بغیر اذن یہ کب تھی مری مجال

پلیز درست کر دیں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ جناب دل پاکستانی صاحب! بہت خوبصورت غزل ہے مگر اس غزل کے دو اشعار کھٹک رہے ہیں، ہو سکے تو کتاب سے دیکھ کر تصحیح کر دیں۔
سر مستی ازل جو مجھے آ گئی
دنيائے اعتبار کو ٹھکرا کے پی گيا

میرے خیال میں پہلے مصرعے میں ایک لفظ کم ہے شاید "راس" ہونا چاہیے۔
سر مستی ازل جو مجھے "راس" آ گئی

اور دوسرا شعر۔
پيتا بغير اذان يہ کب تھی ميری مجال
در پردہ چشم يار کی شہ پا کے پی گيا
پہلے مصرعے میں اذان کی بجائے اذن ہونا چاہیے
پيتا بغير اذن يہ کب تھی مری مجال
در پردہ چشم يار کی شہ پا کے پی گيا

بہر کیف کتاب زیادہ بہتر بتا سکے گی۔
 

شاہ حسین

محفلین
جناب دل پاکستانی صاحب لاجوب غزل ہے بس اساتذہ کرام کی نظر شفقت پر غور فرمالیں تاکہ لطف مزید دوبالا ہو جائے
 

mfdarvesh

محفلین
شکریہ میرا خیال ہے کہ یہ شعر بھی اسی غزل کا ہے ، کوئی غلطی ہو تو تصحیح فرما دیں

یہ سارے سمجھانے والے مجھے سمجھاتے رہ گئے
اور میں ایک ایک کو سمجھا کے پی گیا
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ میرا خیال ہے کہ یہ شعر بھی اسی غزل کا ہے ، کوئی غلطی ہو تو تصحیح فرما دیں

یہ سارے سمجھانے والے مجھے سمجھاتے رہ گئے
اور میں ایک ایک کو سمجھا کے پی گیا

ہو سکتا ہے لیکن دونوں مصرعوں میں اوزان کی غلطیاں ہیں۔
 
شکریہ میرا خیال ہے کہ یہ شعر بھی اسی غزل کا ہے ، کوئی غلطی ہو تو تصحیح فرما دیں

یہ سارے سمجھانے والے مجھے سمجھاتے رہ گئے
اور میں ایک ایک کو سمجھا کے پی گیا

یہ شعر جگر کا نہیں ہے بلکہ اسے پڑھ کر تو جگر اچھلتا ہے
 
مکمل غزل حاضر ہے:

شکستِ توبہ

ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا
لہروں سے کھیلتا ہوا‘ لہرا کے پی گیا

بے کیفیوں کے کیف سے گھبرا کے پی گیا
توبہ کو توبہ تاڑ کے‘ تھرا کے پی گیا

زاہد‘ یہ میری شوخیِ رندانہ دیکھنا!
رحمت کو باتوں باتوں میں بہلا کے پی گیا

سر مستیِ ازل مجھے جب یاد آ گئی
دنیائے اعتبار کو ٹھکرا کے پی گیا

آزردگیِ‌خاطرِ ساقی کو دیکھ کر
مجھ کو یہ شرم آئی کہ شرما کے پی گیا

اے رحمتِ تمام! مری ہر خطا معاف
میں انتہائے شوق میں گھبرا کے پی گیا

پیتا بغیرِ اذن‘ یہ کب تھی مری مجال
در پردہ چشمِ یار کی شہ پا کے پی گیا

اس جانِ مے کدہ کی قسم‘ بارہا جگر!
کل عالمِ بسیط پہ میں چھا کے پی گیا

(جگر مراد آبادی)​
 

محمد وارث

لائبریرین
مکمل غزل حاضر ہے:

شکستِ توبہ

ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا
لہروں سے کھیلتا ہوا‘ لہرا کے پی گیا

بے کیفیوں کے کیف سے گھبرا کے پی گیا
توبہ کو توبہ تاڑ کے‘ تھرا کے پی گیا

زاہد‘ یہ میری شوخیِ رندانہ دیکھنا!
رحمت کو باتوں باتوں میں بہلا کے پی گیا

سر مستیِ ازل مجھے جب یاد آ گئی
دنیائے اعتبار کو ٹھکرا کے پی گیا

آزردگیِ‌خاطرِ ساقی کو دیکھ کر
مجھ کو یہ شرم آئی کہ شرما کے پی گیا

اے رحمتِ تمام! مری ہر خطا معاف
میں انتہائے شوق میں گھبرا کے پی گیا

پینا بغیرِ اذن‘ یہ کب تھی مری مجال
در پردہ چشمِ یار کی شہ پا کے پی گیا

اس جانِ مے کدہ کی قسم‘ بارہا جگر!
کل عالمِ بسیط پہ میں چھا کے پی گیا


(جگر مراد آبادی)


واہ واہ واہ، عمران صاحب بہت شکریہ آپ کا، اس پوسٹ سے یہ دو آتشہ ہو گئی ہے :)

آج تک تو نصرت کے منہ سے ہی چند اشعار سنے تھے، 'یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے' میں، لیکن آج پہلی بار مکمل غزل پڑھنے کو ملی، شکریہ!
 

شاہ حسین

محفلین
مکمل غزل حاضر ہے:

شکستِ توبہ

ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا
لہروں سے کھیلتا ہوا‘ لہرا کے پی گیا

بے کیفیوں کے کیف سے گھبرا کے پی گیا
توبہ کو توبہ تاڑ کے‘ تھرا کے پی گیا

زاہد‘ یہ میری شوخیِ رندانہ دیکھنا!
رحمت کو باتوں باتوں میں بہلا کے پی گیا

سر مستیِ ازل مجھے جب یاد آ گئی
دنیائے اعتبار کو ٹھکرا کے پی گیا

آزردگیِ‌خاطرِ ساقی کو دیکھ کر
مجھ کو یہ شرم آئی کہ شرما کے پی گیا

اے رحمتِ تمام! مری ہر خطا معاف
میں انتہائے شوق میں گھبرا کے پی گیا

پینا بغیرِ اذن‘ یہ کب تھی مری مجال
در پردہ چشمِ یار کی شہ پا کے پی گیا

اس جانِ مے کدہ کی قسم‘ بارہا جگر!
کل عالمِ بسیط پہ میں چھا کے پی گیا

(جگر مراد آبادی)​

جناب عمران صاحب بہت شکریہ مکم۔ّل غزل شامل کرنے کا ۔

ایک مصرے میں شاید ٹائپنگ کی غلطی ہو گئی ہے ذرا غور فرمالیں ۔

پیتا بغیرِ اذن‘ یہ کب تھی مری مجال
 
Top