:::::زلزلہ ::::: احتیاطی تدابیر

زین

لائبریرین
زلزلے کی صورت میں احتیاطی تدابیر



نا گہانی آفات سے بچاﺅکے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد کو معلوم ہو کہ زلزلہ یا کوئی دوسرا سانحہ ہوجائے تو اسے کیا کرنا چاہیئے۔
اس بارے میں، مجھے کچھ معلومات ملیں جو شیئر کررہا ہوں ۔

بلوچستان زلزلہ​
انتیس اکتوبر کی صبح 6.4شدت کے زلزلے نے زیارت وادی کو سب سے زیادہ متاثر کیا ۔ اسی شدت کا ایک اور زلزلہ شام 5بجکر 33منٹ پر آیا۔ زلزلے کے جھٹکے کوئٹہ، خانوزئی، گوگی، احمدون اور وادی زیارت میں محسوس کئے گئے ۔ وام اور زندرہ کا درمیانی10کلو میٹر کا علاقہ سب سے زیادہ متا ثر ہوا ۔ ایک ہفتے بعد تک آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری ہے اور950سے زیادہ جھٹکے ریکارڈ ہوئے ہیں۔ مگر ان میں10بڑے آفٹر شاکس تھے اور اب ان کی شدت میں بتدریج کمی آتی جاری ہے مگر احتیاط لازم ہے ۔
جیالوجیکل سروے آف پاکستان کوئٹہ اور اسلام آباد کے ماہرین ارضیات نے اس نا گہانی قدرت آفت آنے کے فوراً بعد اپنا تحقیق کا سلسلہ شروع کردیا تھا ۔ جی ایس پی کے شائع شدہ ارضیاتی نقشوں میں اس علاقے میں ایکٹیو تھرسٹ فالٹس کی نشاندہی پہلے سے ہی کی ہوئی تھی ۔ جن کے نام پہ ہیں۔ ژوب ویلی تھرسٹ، گوگی اور ببائی تھرسٹ اور گوال باغ فالٹ لائن، جی ایس پی کے ماہرین نے اپنی تحقیقات کا آغاز خانوزئی کے قریب شرن گاﺅں کے زلزلہ مرکز سے کیا جو صبح5بجکر کر15منٹ پر آنے والے زلزلے کا مرکز بتایا گیا تھا ۔ تحقیقاتی ٹیم نے شام کو آنے والے 6.4شدت کے زلزلے کے مرکز گوگی کا بھی دورہ کیا۔ اس کے بعد ٹیم نے وام اور کاس کا درمیانی علاقہ دیکھا جہاں سب سے زیادہ جانی و مالی اموات واقع ہوئیں تھیں۔ صرف وام میں مرنے والوں کی تعداد120بتائی جاتی ہے ۔ ابتدائی تحقیق کے مطابق زلزلے کی لہریں خانوزئی کے شمال سے جنوب میں گوگی اور پھر وام کی طرف بڑھیںجس کی وجہ سے گوگی اور ببائی فالٹ لائننز ہوسکتی ہیں ۔ زلزلے کے جھٹکوں نے وام، کان بنگلہ، ورچوم، کواس اور زندرہ میں کوئٹہ زیارت روڈ کے دونوں اطراف میں غازیج شیل کے( Terraces)پر بنی ہوئی بستیوں کو تباہ کردیا۔ زمین پر دراڑوں کی سمت شمال سے جنوب میں دیکھی گئی ۔یہ بھی دیکھا گیا کہ اگرچہ کچے پکے تمام مکانات ، سرکاری عمارتیں اور دکانیں یا تو گر گئیں یا رہنے کے قابل نہیں رہی مگر جو عمارتیں ڈنگن لائم سٹون کے پہاڑی دامن میں بنی ہوئی تھیں وہاں نقصان نسبتاً کم ہوا ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ عمارتیں زمینی ساخت اور فالٹ کو مد نظر رکتھے ہوئے بہتر تعمیراتی میٹریل سے بنتی جس میں زون چار کے بلڈنگ کوڈز کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا تو اس جانی و مالی نقصان کو کم کیا جاسکتا تھا۔ زندرہ کے پاس کواس تنگی نالہ میں ایک اور ایکٹیو فالٹ موجود ہے ۔ اس کی وجہ سے تمام نقصان زندرہ کے مشرق میں ہوا جبکہ فالٹ کا مغربی علاقہ محفوظ رہا ۔ شاید اسی فالٹ کی بدولت زیارت شہر بھی محفوظ رہا ۔ لیکن چونکہ زلزلے کے مرکز اور کواس تنگی فالٹ کی(Alignment)شمال سے جنوب کی سمت ہے اس لیے ان کا درمیانی علاقہ ہی متاثر ہوا اور کوئٹہ اور زیارت ایک بڑے حادثے بچ گئے ۔ مگر زمینی ارتعاش کے نتیجے میں تو رشور،زرغون،ہرنائی اور پشین ویلی میں بھی کچے مکانات زمین بو س ہوگئے ۔ کواس اور وام کے درمیان واقع تمام چھوٹی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں کیونکہ دونوں زلزلوں کی لہریں اسی3x10کلو میٹر کے علاقے میں سب سے زیادہ شدید تھیں۔
جی ایس پی نے ان جیسے حادثات سے بچنے کے لیے ان علاقوں کی پہلے سے نشاندہی کی ہوئی ہے جہاں ان خطرات کے وقوع پذیر ہونے کے امکانات زیادہ ہیں مگر یہ حادثات کب رونما ہوں گے اس کے بارے میں ابھی ارضیاتی تحقیق بالکل ابتدائی مراحل میں ہے اور وقت کا تعین کرنا فی الحال مشکل ہے مگر قبل از وقت تیاری اور احتیاطی تدابیرسے آگاہی سے بچاﺅ کی صورت نکل سکتی ہے ۔اس میں شک نہیں کہ کائنات میں کوئی واقعہ خدا کی رضا مندی و منشاءکے بغیر ہوہی نہیں سکتا۔ مگر ہر وقت آفت کو عذاب الٰہی کہہ دینا ہماری غیر ذمے داری ہے ۔ بر وقت تیاری نہ ہونے کی وجہ سے ہم ہر آفت آنے پر ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ہمیں اپنی پہلے کوتاہیوں سے سبق لینا چاہیئے ۔ یہ صرف شعور اور آگہی ہی سے ہے جس کی وجہ سے ترقیافتہ ممالک میں مالی و جانی نقصان کم ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں انسانی جان ہی سب سے ارزاں جنس ہے۔



احتیاطی تدابیر


یہاں ان احتیاطی تدابیر کا مفصلاً احاطہ کیا جارہا ہے جن پر عملدرآمد سے جانی نقصانات کو ممکن حد تک کم کیا جاسکتا ہے ۔ ان اقدامات اور قبل از وقت آگاہی سے ہم زلزلوں سے ہونے والے جانی نقصان سے بچ سکتے ہیں ۔ اگر زلزلے کا جھٹکا محسوس کریں تو اپنے ہوش وحواس قابو میں رکھیں ۔ خوفزدہ ہو کر بغیر سوچے سمجھے بھاگنے ،اوپر کی منزل سے چھلانگ لگانے اور چیخنے چلانے کی بجائےا گر با آسانی عمارت سے باہر نکل سکتے ہیں تو نکل آئیں ورنہ بہتر ہوگا کہ جہاں ہیں وہیں رہیں۔ اپنے سر کو دونوں ہاھتوں کو مٹھیوں سے ڈھانپ کر کمرے کی وسط کی بجائے کسی کونے میں نیچے بیٹھ جائیں۔ اگر کوئی مضبوط میز یا بیڈ ہوتو اس کے نیچے پناہ لیں ۔ اگر کوئی بھاری مضبوط فرنیچر نزدیک نہیں تو دروازے کی چوکھٹ کے نیچے یا سیڑھیوں کے نیچے پناہ لیں مرکزی دروازہ کھلا رکھیں کیونکہ جھٹکوں سے بعض اوقات درسازے جام ہوجاتے ہیں ۔ کچن یا لیب میں موجود ہوں تو فوراًوالوبند کردیں جیسے ہی جھٹکے ہلکے ہوں ، باہر نکلنے کی کوشش کریں ۔ اگر اوپر کی منزل پر ہیں تو زلزلوں کے جھٹکوں کے دوران سیڑھیاں مت اتریں ۔ لفٹ ہر گز استعمال نہ کریں۔ جھٹکے5-10سیکنڈ میں ہلکے ہوجاتے ہیں ۔ رکتے ہی اوپری منزل سے نیچے کھلے میدان میں چلے جائیں۔ عمارت سے کم از کم دس فٹ دور رہیں ۔ بھگدڑ سے زیادہ نقصان ہوگا۔گھر ، سکول، دفتر یا ہوٹل کے تمام زمے دار لوگوں کو پتہ ہونا چاہیئے کہ گیس ، بجلی اور پانی کے والو کہاں ہیں۔ اندھیرے میں دیا سلائی ہرگز نہ چلائیں گیس لیکج کی صورت میں آگ بھڑکنے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ باورچی خانے یا لیب میں موجود تو شیلف سے گر کر زخمی کرنے والی کراکری اور بھاری چیزوں سے دور رہیں۔ کھڑکیوں سے دور ہوجائیں ۔ ٹوٹے ہوئے شیشے کے ٹکڑے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں اس لیے ننگے پاﺅں مت چلیں۔ جھٹکے رکنے کے فوراً بعد کیبنٹ اور شیلف کے اوپری خانے مت کھولیں ۔اگر گیس کی بو یا شارٹ سرٹک کا خطرہ محسوس کریں تو مین والو اور فیوز بند کرکے باہر نکل آئیں۔ایمر جنسی میں ان والوز کو بند کرنے، فائر ایکسٹینگیژر کا استعمال اور خدا نخواستہ آگ کی لپیٹ میں آنے کی صورت میں کمبل میں لپیٹ کر فرش پر لوٹ پوٹ ہونے کی مشق خود بھی کریں اور دوسروں کو بھی کروائیں۔
اگر آپ روڈ پر ہیں یا ڈرائیونگ کررہے ہیں تو گاڑی کو سڑک کے ایک نارے کھڑا کرکے اسی میں بیٹھے رہیں ۔ اس بات کا دھیا رہے کہ پل، فلائی اوور کے اوپر یا نیچے نہ ہوں اور نزدیک بجلی کے تار، کھمبے، ٹاور یا اشتہاری ہورڈنگ نہ ہوں ۔ زلزلوں کے دوران اور بعد میں لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ ہوتا ہے ۔ پہاڑ کے دامن اور دراڑوں سے دور رہیں اور اوپر سے گرتے ہوئے پتھروں سے اپنے آپ کو محفوظ بنائیں۔ ساحلی علاقوں میں رہنے والے بڑے زلزلے کے بعد سونامی کی طوفانی لہروں سے بچنے کے لیے ساحل سے دور کسی اونچی جگہ پر پناہ لیں۔
بیٹری سے چلنے والا چھوٹا ٹرانسٹر ریڈیو اپنے پاس رکھیں۔حکومتی اداروں کی طرف سے فراہم کردہ معلومات اور اعلانات پر عمل کریں۔ افواہوں پر یقین نہ کریں۔ غیر مصدقہ اطلاعات آگے نہ پہنچائیں۔اس سے مزید افرا تفری پھیل سکتی ہے ۔
زلزلے آتے رہیں گے لیکن ان کے جھٹکوں سے کوئی نہیں مرتا۔ اموات عمارتوں کے گرجانے اور ملبے تلے دب جانے سے ہوتی ہیں ۔ اگر عمارتیں بلڈنگ کوڈ کے مطابق تعمیر ہوں تو وہ زلزلے کے جھٹکوں کو کسی حد تک سہا لیں گی اور ہم جانی و مالی نقصان سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ اگر خدانخواستہ آپ ملبے تلے دب جائیں تو نہایت احتیاط کے ساتھ اپنے آپ کو محفظ بنانے کی تدابیر کریں ۔ چیخ چلاکر لوگوں کو اپنی مدد کے لیے متوجہ نہ کریں ۔ عمارتوں کے ملبے میں ہوا کے گزر کے لیے سورخ ہوتے ہیں جن سے سانس چلتا رہ سکتا ہے ۔ مگر ملبے کو ہلانے کی صورت میں ائر پاکٹ بند ہوسکتا ہے اور آکسیجن کی کمی سے دم گھٹ سکتا ہے ۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں سونگ کر جان بچانے والے سدھائے ہوئے کتوں،سریا کاٹنے کے اوزار میسر نہیں ہیں اس لیے کوشش کریں کہ کسی پتھر یا لوہے کی چیز سے آواز پیدا کرتے رہیں تاکہ امدادی ٹیموں کو ملبے میں دبے ہوئے زندگی کے آثار کا پتہ چل سکے۔ عام طور پر بغیر کسی امداد کے بھی ان حالات میں انسا بغیر کھائے پیئے چار پانچ روز تک سروائیو کرسکتا ہے ۔ اپنے آپ کو محفظ بناکر آپ مدد کے متلاشی دوسرے لوگوں کی مدد کرسکتے ہیں۔ عمارت سے بلا تخصیص سب کو آہستہ آہستہ باہر نکال کر محفوظ مقامات تک پہنچانے میں دوسروں کا ہاتھ بٹائیں۔
اگر کوئی زخمی ہے تو ابتدائی طبی امداد کا بندوبست کریں ہر گھر، دفتر، تعلیمی ادارے میں فرسٹ ایڈ باکس ہونا چاہیئے جسے نمایاں جوگہ پر سب کی پہنچ میں رکھنا چاہیئے ۔اس میں ابتدائی طبی امداد کا بنیادی سامان موجود ہونا چاہیئے جس میں مختلف سائز کی پٹیاں، سوئس نائف، قینچی، ڈیٹول ٹنکچر آیوڈین،برنول بورک ایسڈ، اسپرٹ، دستانے، نمکول، دافع درد، دست، بخار، سردرد اور پیٹ درد کی ادویات ہونی چاہئیں۔ وقتاً فوقتاً ان کی معیاد بھی چیک کرتے رہنا چاہیئے اور گولیاں اور ادویات بدلتے رہیں۔ اس کے ساتھ ہی پانی بھرا بڑا کینیٹر،خشک راشن،چینی، دلیہ ، نوڈلز، بسکٹ، خشک دودھ،چنے، ریوڑیاں وغیرہ بھی الگ سے ذخیرہ رکھیں تاکہ کسی بھی ہنگامی حالت میں کام آئے۔یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر چھوٹے بڑے کو معلوم ہو کہ کسی بھی نا گہانی آفت کی صورت میں نقصانات سے بچنے کے لیے کیا پلان ہیں۔ انفرادی، اجمتاعی، ادارتی اور محکمانہ سطح پر ان کی مربوط تیاری پہلے سے کرلینی چاہیئے۔خاندان کے تمام لوگوں کو پہلے سے اس بات کا پتہ ہونا چاہیئے کہ ہنگامی صوت حال میں ان سب کو کس جگہ پر جمع ہونا ہے ۔اگر بچے، بوڑھے اور الدین علیحدہ علیحدہ جگہوں پر ہیں تو سب کے ایک طے شدہ مقام پر اکٹھے ہونے کا انتظار کریں۔
کوشش کریں کہ فو ن غیر ضروری طور پر استعمال نہ کریں۔ ٹیلی فون نیٹ ورک مصروف ہونے کی صورت میں ریسکیو ار ریلیف کے کاموں اور حکومتی اداروں کی مربوط کوششوں میں خلل پڑسکتا ہے ۔ہنگامی حالات میں سائرن بجائے جائیں تاکہ لوگ چوکنا ہوسکیں ۔رات کو جگانے کے لیے ہوائی فائرنگ کرنے سے لوگ مزید خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات اندھی گولیوں کے خوف سے تنگ گلی کوچوں میں لوگ باہر نکلنے سے گریزاں ہوتے ہیں۔
ایمر جنسی میں کام آنے والی عام استعمال کی چند چیزیں بغیر تالے والے باکس میں نمایاں جگہ پر ہونی چاہئیں۔ ان میں ٹارچج، وسل، ہتھوڑا،پائپ رینج،چھینی،بیلچہ،باغبانی کے حالت ، چھوٹی آری و دیگر آوزار شامل ہیں۔ رسی کا بنڈل، پلاسٹک شیٹ ، سلیپنگ بیگ اور فالتو کمبل وغیرہ بھی اسی جگہ موجود ہونے چاہئیں۔

نا گہانی آفات سے بچاﺅکے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد کو معلوم ہو کہ زلزلہ یا کوئی دوسرا سانحہ ہوجائے تو اسے کیا کرنا چاہیئے۔
اس مضمون میں جن احتیاطی تدابیر کی نشاندہی کی گئی ہے ، خاندان یا ادارے کے سربراہ سب کو اعتماد میں لیکر ایک جمع کرکے گوش گزار کریں اور یوم آگاہی آفات کے موقع پر کسی بھی نا گہانی صورتحال سے عہدہ برا ہونے کے لیے سب کو پہلے سے تیار رکھیں۔اس قسم کی معلومات دوسرے لوگوں کوبھی فراہم کریں اور ہوسکے تو کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کردیں۔



نوٹ۔ یہ معلومات میں نے جیالوجیکل سروے آف پاکستان سے حاصل کی ہیں۔
 

زین

لائبریرین
یہ پہلے تو کسی نے نہیں‌پڑھا۔ اب جبکہ پنجاب، سرحد اور آزاد کشمیر میں پھر رات کو زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے ۔ تو مجھے یقین ہیں کہ سب غور سے پڑھیں‌گے ۔
:)
 

زین

لائبریرین
آج دیکھیں، یہ دھاگہ سب کو کیسے نظر آگیا
جب یہاں جھٹکے آرہے تھے تو کوئی نہیں پڑھ رہا تھا۔ :grin:

کل تو کراچی کے کچھ علاقوں‌میں بھی جھٹکے محسوس کئے گئے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ارے بھائی میں نے ایسے ہی تو دھاگے مشہور کروانے کا کاربار شروع نہیں کیا ہوا۔ مجھے بتانا تھا نا۔ سستے میں بھی کر دیتا۔
 

زین

لائبریرین
ارےےےےے بھائی ان دنوں تو ہمیں‌اپنی فکر لگی ہوئی تھی ،
یاد ہے نا ایک مہینے کے دوران ایک ہزار سے زائد آفٹر شاکس آئےی۔

ویسے لاہور اور اسلام آباد والے آج محفل میں نظر نہیں‌آئے ایک دو کے علاوہ
 

زین

لائبریرین
اوپر لکھا تو ہے ۔دوبارہ بتادیتا ہوں‌

اسلام آباد ، لاہور سمیت پورے پنجاب، شمالی علاقوں آزاد کشمیر ، پشاور اور صوبہ سرحد کے مختلف علاقوں‌کے علاوہ افغانستان کے کئی علاقوں‌میں بھی زلزلے جھٹکے محسوس کئے گئے، شدت 6.0تھی۔زلزلے کا مرکز کوہ ہندوکش (افغانستان) تھا۔

زلزلے کی شدت تو بہت زیادہ تھی خوش قسمتی رہی کہ کوئی نقصان نہیں‌ہوا
 

زین

لائبریرین
جی ۔ زلزلے کے جھٹکے 6 بجکر 4 منٹ پر محسوس کئے گئے ۔

کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں‌ میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے۔ زلزلہ پیماء مرکز کوئٹہ کے مطابق جمعہ کو 6بجکر 4منٹ پر آنے والے زلزلے کے جھٹکے کوئٹہ کے علاوہ زلزلہ متاثرہ علاقوں پشین اور زیارت میں بھی محسوس کئے گئے جن کی شدت ریکٹر سکیل پر 4.3تھی ۔ زلزلہ پیماء مرکز نے بتایا کہ زلزلے کا مرکز کوئٹہ سے 44 کلو میٹر جنوب میں تھا۔
 
Top