زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

'افغانی' افغانستان کے سکۂ رائج الوقت کا نام ہے۔ مردُمِ افغانستان کو 'افغان' کہتے ہیں، اور اِسے ہی بہتر سمجھا جاتا ہے۔
یعنی یوں کہیں گے کہ ہم نے اسلام آباد میں افغانوں کو "برو بخیر" کہتے ہوئے سنا ہے
 

حسان خان

لائبریرین
'دَه' اور 'دِه'
فارسی میں 'دہ' جب 'دس' کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو اُس کا تلفظ 'د' پر زبر کے ساتھ 'دَه' ہوتا ہے، لیکن جب یہی املاء رکھنے والا دیگر لفظ 'ده'، کہ مصدرِ 'دادن' کا بُنِ مضارع اور فعلِ امر ہے، استعمال ہوتا ہے تو اُس کا تلفظ 'د' پر زیر کے ساتھ یعنی 'دِه' ہوتا ہے۔ اِسی طرح اُس بُنِ مضارع کے دیگر مُشتقّات مثلاً دِهَم، بِدِهَم، می‌دِهَم، می‌دِهَی، دِهَند، دِهَنده وغیرہ میں بھی 'د' پر زیر ہے۔
امّا، یہ قاعدہ صرف کہنہ ادبی فارسی اور تاجکستانی نَوِشتاری فارسی پر صادق آتا ہے۔ موجودہ ایران کی گفتاری و نَوِشتاری زبان میں کئی دیگر الفاظ کی طرح اِس لفظ کا تلفظ بھی بدل گیا ہے اور اب اُس میں صرف 'بِدِه' اور 'می‌دِه' ('می‌دهد' کی گفتاری تہرانی شکل) میں دال پر زیر ہوتا ہے، ورنہ ہر دیگر موقع پر یہ الفاظ دال پر زبر کے ساتھ تلفظ ہوتے ہیں، یعنی معاصر ایرانی فارسی میں مندرجۂ بالا الفاظ کو یوں خوانا جاتا ہے: دَهَم، بِدَهَم، می‌دَهَم، می‌دَهی, دَهَند، دَهَنده. لیکن، اگر یہ بُنِ مضارع 'فرماندِه' جیسے کسی لفظِ مرکّب میں استعمال ہوتا ہے تو تب بھی مردُمِ ایران اِس کا تلفظ دال پر زیر کے ساتھ کرتے ہیں۔

اردو میں 'دادن' کے بُنِ مضارع 'دِه' کا تلفظ کلاسیکی اور تاجکستانی فارسی جیسا ہے، اور ہر مورد میں اِس کا اور اِس سے ترکیب پانے والے الفاظ کا تلفظ دال پر زیر ہی کے ساتھ ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:
شاید اِس کا ترجمہ یوں کرنا ممکن ہو:
اگر میں فریاد پر آہِ حسرت نہ کھینچوں تو میں چرخ کے باعث نالہ کروں گا؛ اگر میں طوفان پر حسرت و افسوس نہ کروں تو میں زمانے پر گریہ کروں گا۔
کیا یوں ترجمہ کیا جا سکتا ہے کہ
اگر مجھے فریاد کے ضائع ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو چرخ کے باعث نالہ کروں اور اگر طوفان آنے کا غم نہ ہو تو زمانے کے باعث نالہ کروں۔
یعنی ستم ہائے زمانہ چرخ سے زائد ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
فردوسی طوسی شاہنامہ میں سلطان محمود غزنوی کی مدح میں کہتے ہیں:
چو کُودک لب از شِیرِ مادر بشُست
به گهواره، محمود، گوید نخُست
(فردوسی طوسی)

جب بچّہ شیرخوارگی کا زمانہ ختم کر لیتا ہے تو وہ گہوارے میں سب سے قبل 'محمود' کہتا ہے۔
(یعنی جب بچّہ بولنا سیکھتا ہے تو اُس کی زبان پر سب سے قبل 'محمود' کا نام آتا ہے۔)
لب از شِیرِ مادر شُستن
از شِیر بازگرفته شدن، دورانِ شِیرخوارگی پُشتِ سر نهادن.
غت‌نامهٔ دهخدا)
لب از شِیرِ مادر شُستن (لفظی ترجمہ: لب کو ماں کے دودھ سے پاک کر لینا یا پونچھ لینا)
[ماں کے] دودھ سے چھڑوایا جانا، شِیرخوارگی کا زمانہ پیچھے چھوڑ دینا

لب شُستن از شِیر

بازگرفته شدنِ کُودک از شِیر
(لغت‌نامهٔ دهخدا)
لب شُستن از شِیر (لفظی ترجمہ: لب کو شِیر سے پاک کر لینا)

کسی طفل کا زمانۂ شیرخوارگی ختم ہونا

ویسے، اِس کنایہ کا استعمال تا حال میں نے صرف فردوسی کی اِس مشہور بیت میں دیکھا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کیا یوں ترجمہ کیا جا سکتا ہے کہ
اگر مجھے فریاد کے ضائع ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو چرخ کے باعث نالہ کروں اور اگر طوفان آنے کا غم نہ ہو تو زمانے کے باعث نالہ کروں۔
یعنی ستم ہائے زمانہ چرخ سے زائد ہیں۔
'دریغ خوردن' کا معنی افسوس و حسرت کھانا اور متأسف ہونا ہے۔
میرے ذہن میں بیت کا یہ مفہوم بن رہا ہے:
اگر میری فریاد ضائع نہ ہو جائے اور مجھے اُس پر افسوس نہ کھانا پڑے تو میں اِس کا مسئول و ذمہ دار چرخ کو ٹھہراؤں گا اور اُس سے شکایت کروں گا کہ کیوں اُس نے میری فریاد ضائع نہ کی، کہ میرا مطلوب یہی تھا۔ اور اگر مجھے طوفان میں گرفتاری پر متأسف نہ ہونا پڑے تو میں دہر کے سامنے شکایتاً گریہ کروں گا اور اُس سے جواب چاہوں گا کہ کیوں نے اُس نے طوفان سے مضائقہ کیا، جبکہ میری خواہش ہی یہ تھی کہ میں گردابِ طوفان میں گرفتار ہو جاؤں۔

اور اگر یہاں 'گرنه' کو 'ورنہ' کے معنی میں تعبیر کیا جائے، تو بیت کا لفظی ترجمہ یہ بنتا ہے:
میں چرخ کے باعث نالہ کروں، ورنہ میں فریاد پر افسوس کھاؤں؛ میں دہر کے سامنے گریہ کروں، ورنہ میں طوفان پر افسوس کھاؤں۔


نظیری نیشابوری کے شعروں کو سمجھنا اور اُن کی تشریح و تفسیر کرنا آسان کار نہیں ہے۔ :)
 
آخری تدوین:

اردو میں 'دادن' کے بُنِ مضارع 'دِه' کا تلفظ کلاسیکی اور تاجکستانی فارسی جیسا ہے، اور ہر مورد میں اِس کا اور اِس سے ترکیب پانے والے الفاظ کا تلفظ دال پر زیر ہی کے ساتھ ہوتا ہے۔

ہم تو اردو کے الفاظ کشادہ، آزمودہ ، خمیدہ بوسیدہ، فرمودہ وغیرہ کو "د" پر زبر کے ساتھ پڑھتے تھے!
 

حسان خان

لائبریرین
ہم تو اردو کے الفاظ کشادہ، آزمودہ ، خمیدہ بوسیدہ، فرمودہ وغیرہ کو "د" پر زبر کے ساتھ پڑھتے تھے!
آپ نے جو الفاظ لکھے ہیں اُن میں دال پر زبر ہی ہے۔ میرا اشارہ فرمان دہ، نقصان دہ، نجات دہندہ، رائے دہندگان وغیرہ الفاظ کی جانب تھا، جن کا تلفظ دال پر زیر کے ساتھ ہوتا ہے، اور جو مصدرِ 'دادن' (دینا) سے تعلق رکھتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
بِگْماز
شاہنامۂ فردوسی میں اور اُس زمانے کی دیگر تخلیقات میں تُرکی الاصل لفظ 'بِگْماز' کئی بار استعمال ہوا ہے جو فارسی میں 'شراب' اور 'شراب خوری و بادہ گُساری' کے معانی رکھتا ہے۔ نیز، فارسی میں یہ لفظ مجازاً 'پیالۂ شراب' کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔

اِس لفظ کے استعمال کی چند مثالیں دیکھیے:
"یکی بزم سام آن گهی ساز کرد
سه روز اندر آن بزم بِگماز کرد"
(فردوسی طوسی)

سام نے اُس وقت ایک بزم ترتیب دی، اور تین روز تک اُس بزم میں بادہ گُساری کی۔

"به بِگماز کوتاه کردند شب"
(فردوسی طوسی)

اُنہوں نے شراب (یا شراب خوری) سے شب کو کوتاہ کیا (یعنی شب گذاری)۔

"به بِگماز بِنْشست یک روز شاد
ز گُردانِ لشکر همی کرد یاد"
(فردوسی طوسی)

وہ بزمِ بادہ نوشی میں (یا بادہ نوشی کی غَرَض سے) ایک روز شاد بیٹھا ہوا تھا اور لشکر کے پہلوانوں کو یاد کر رہا تھا۔

خوش بُوَد بر نوای بلبل و گل
دل سپردن به رامِش و بِگماز
(فرّخی سیستانی)

بلبل و گُل کی نوا پر سُرود و نغمہ اور شراب کو دل سپرد کرنا خوش گوار ہے۔

اِس لفظ کو متروکات میں شمار کرنا چاہیے کیونکہ اب مزید اِس لفظ کا استعمال نہیں ہوتا۔ متأخرین میں سے صرف قاآنی شیرازی کے ایک قصیدے میں اِس لفظ کا استعمال نظر آیا ہے۔

تُرکی زبان میں‌ یہ لفظ 'شراب' کے معنی میں نہیں، بلکہ 'بعض شیریں میووں مثلاً انگور اور خُرما کے مائع جات کو جوش کر کے حاصل کیے جانے والے گاڑھے شِیرے' کے معنی میں مستعمَل ہے۔ آذربائجانی تُرکی اور عثمانی تُرکی میں اِس کا املاء 'بکمز' تھا لیکن جدید استانبولی ترکی میں اِسے pekmez لکھتے اور تلفظ کرتے ہیں، جبکہ آذربائجانی تُرکی کے لاطینی خط میں اِس لفظ کو bəkməz لکھا اور خوانا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی زبان میں لفظِ 'دستہ' گُلدستہ کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ مثلاً:

مَی اندر قدح چون عقیقِ یمن
به پیش اندرون دستهٔ نسترن
(فردوسی)

شراب ساغر میں عقیقِ یمن کی طرح تھی، اور پیش میں نَستَرَن کا گلدستہ پڑا ہوا تھا۔
× پیش میں = آگے، سامنے؛ نَستَرَن = ایک گُل کا نام


در پایِ درختِ گُل نشستم
چیدم همه را و دسته بستم
(هلالی)

میں درختِ گُل کے زیر میں بیٹھا؛ میں نے سب [گُلوں] کو چُن لیا اور [اُن سے] گلدستہ باندھ لیا۔
× زیر/زیر میں = نیچے
 

حسان خان

لائبریرین
تنها نه من جنونیِ ابرویِ اُوستم
آن ماهِ نو که دید که عقلش نزایلید
(طرزی افشار)

صرف میں ہی اُس کے ابرو کا جنونی نہیں ہوں۔۔۔ ایسا کون ہے جس نے اُس ماہِ نو کو دیکھا ہو اور اُس کی عقل زائل نہ ہو گئی ہو؟
× 'زایلیدن' شاعر کا اختراع کردہ مصدر ہے۔
قویمازیدم که بیر قدم از پیِ دلبران رود
اولسایدی اگر کونُل در کفِ اختیارِ من
(طرزی افشار)
اگر دل میرے کفِ اختیار میں ہوتا تو میں اُسے دلبروں کے پیچھے ایک قدم بھی نہیں جانے دیتا۔

× اِس بیت میں استعمال ہونے والے تُرکی الفاظ:
قویمازیدم = میں نہیں اجازت دیتا، میں نہیں ہونے دیتا
بیر = ایک
اولسایدی = اگر ہوتا
کونُل = دل
× صفوی دور کے شاعر طرزی افشار آذربائجانی تُرک تھے۔
با منِ دل‌خسته ای دل‌دار جنگیدن چرا
تو غزالِ گلشنِ حُسنی پلنگیدن چرا
(طرزی افشار)

اے دلدار! مجھ دل خستہ کے ساتھ جنگ کرنا کس لیے؟ تم گُلشنِ حُسن کے غزال ہو، تیندوا بننا کس لیے؟
× 'پلنگیدن' شاعر کا اختراع کردہ مصدر ہے۔
با مسلمانانِ مسکین کافریدن بهرِ چه
با گرفتارانِ مُستَضعَف فرنگیدن چرا
(طرزی افشار)

[اے محبوب!] مسکین مسلمانوں کے ساتھ کافرانہ رویہ اپنانا کس لیے؟ ضعیف و ناتواں اسیروں کے ساتھ فرنگیانہ رویہ اپنانا کس لیے؟
× 'کافریدن' اور 'فرنگیدن' شاعر کے اختراع کردہ مصادر ہیں۔
می‌نگاهی بر من و می‌التفاتی با رقیب
با منِ یک‌رنگ ای رعنا دورنگیدن چرا
(طرزی افشار)
تم نگاہ مجه پر کرتے ہو لیکن اِلتِفات تم رقیب کے ساتھ کرتے ہو؛ اے رعنا! مجھ یک رنگ کے ساتھ دو رنگی کس لیے؟
× 'نگاهیدن'، 'التفاتیدن' اور 'دورنگیدن' شاعر کے اختراع کردہ مصادر ہیں۔
افتاده دل به دامکِ وحشی‌نگاهکی
بی‌رحمکی، ستم‌گرکی، دل‌سیاهکی
(طرزی افشار)

میرا دل ایک وحشی نگاہ [محبوب] کے دام میں گرفتار ہو گیا ہے، جو بے رحم ہے، ستم گر ہے اور دل سیاہ ہے۔
× 'ک' حَرفِ تصغیر ہے۔
از حُسنکِ تو ذرّه‌اَکی کم نمی‌شود
گر بِنْگری به سُویَکِ ما گاه‌گاهکی
(طرزی افشار)

اگر تم گاہ گاہ ہماری جانب نگاہ کر لو تو تمہارے حُسن سے ایک ذرّہ بھی کم نہ ہو جائے گا۔
× 'ک' حَرفِ تصغیر ہے۔
‌نمی‌هندم نمی‌رُومم برایِ جِیفهٔ دنیا
نَیَم چون شاعرانِ دیگر ابله، می‌صفاهانم
(طرزی افشار)
میں دنیا کی مُردار لاش کے لیے ہند اور رُوم نہیں جا رہا؛ میں دیگر شاعروں کی طرح احمق نہیں ہوں، میں اصفہان جا رہا ہوں۔
× 'هندیدن'، 'رومیدن' اور 'صفاهانیدن' شاعر کے اختراع کردہ مصادر ہیں۔
به عزمِ آستان بوسیدنِ شه می‌صفاهانم
پَیِ کُحلیدن از آن خاکِ درگه می‌صفاهانم

(طرزی افشار)
میں شاہ کا آستانہ بوسنے کے ارادے سے اصفہان جا رہا ہوں؛ میں اُس درگاہ کی خاک کو سرمۂ چشم بنانے کے لیے اصفہان جا رہا ہوں۔
× بوسنا = چومنا، بوسہ دینا
× 'صفاهانیدن' اور 'کُحلیدن' شاعر کے اختراع کردہ مصادر ہیں۔
کیفیّتِ عشقت فُقَها را نبُوَد یاد
هرچند که در مدرَسه‌ها کَیف و کَمیدند
(طرزی افشار)

تمہارے عشق کی کیفیّت فقیہوں کو یاد نہیں ہے؛ ہرچند کہ اُنہوں نے مدرَسوں میں [چیزوں کے] چون و چند پر بحثیں [فراواں] کی ہیں۔
× 'کیف و کمیدن' شاعر کا اختراع کردہ مصدرِ مرکّب ہے۔
محرابِ ابروانِ بتی قبله‌ایده‌ام
مِنّت خدای را که نمازم نباطلید
(طرزی افشار)

میں نے ایک بُت کی ابروؤں کی محراب کو قبلہ بنایا ہے؛ خدا کا شکر کہ میری نماز باطل نہ ہوئی۔
× 'قبله‌ایدن' اور 'باطلیدن' شاعر کے اختراع کردہ مصادر ہیں۔
بحری‌ست کار و بارِ جهان پُر ز شور و شر
خُرّم شِناوری که از این بحر ساحلید
(طرزی افشار)

دنیا کا کار و بار اور مُعاملہ شور و شر سے پُر ایک بحر ہے؛ خوشا وہ شِناور کہ جو اِس بحر سے ساحل تک پہنچ گیا۔
× شِناور = تیراک
× 'ساحلیدن' شاعر کا اختراع کردہ مصدر ہے۔
اگر می‌حریرم اگر می‌پَلاسم
به هر حال می‌شُکرم و می‌سِپاسم
(طرزی افشار)
خواہ میں ریشمی لباس پہنوں یا خواہ دُرُشت پَشمی لباس پہنوں؛ میں ہر حال میں [خدا کا] شکر کرتا اور سپاس کہا ہوں۔

× دُرُشت =کُھردرا؛ پَشْمی = اُونی
× 'حریریدن'، 'پلاسیدن'، 'شُکریدن' اور 'سپاسیدن' شاعر کے اختراع کردہ مصادر ہیں۔
جس طرح اردو میں نظری لحاظ سے کس بھی اِسم یا صفت کے ساتھ 'نا' متّصل کر کے مصدر بنایا جا سکتا ہے مثلاً 'فارسیانا، عجمنا، عربنا، کرکٹنا، فٹبالنا، بہترنا، نِجاتنا، لِباسنا، حکومتنا' وغیرہ، اُسی طرح فارسی میں بھی اِس چیز کا امکان موجود ہے کہ کسی بھی اسم یا صفت کے آخر میں مصدر ساز لاحقہ 'یدن' لگا کر مصدرِ جعلی اختراع کر دیا جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ اردو اور فارسی ہر دو زبانوں میں مصدرِ جعلی زیادہ استعمال نہیں ہوتے، بلکہ اُن کی بجائے مرکّب مصادر ہی رائج ہیں اور شعر و ادب کی معیاری زبان میں بھی مرکّب مصادر ہی بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ لیکن فارسی شاعری کی تاریخ میں 'طرزی افشار' کے نام سے ایک منفرد شاعر گذرے ہیں، جن کی تمام شاعری ہی مصادرِ جعلی کے دلچسپ فن کارانہ و ظریفانہ استعمال اور شعری زبان کی معیار شکنی سے عبارت ہے۔ اُنہوں نے تقریباً ہر بیت میں اپنے اختراع کردہ مصادر کو استعمال کیا ہے۔ اور اگرچہ وہ فارسی میں شعر کہنے والے واحد آذربائجانی تُرک نہیں ہیں، لیکن اُنہوں نے فارسی شعروں میں اپنی مادری زبان تُرکی کا بھی آزادانہ استعمال کیا ہے، حتیٰ کئی بار کسی تُرکی لفظ کی مدد سے فارسی کا مصدر جعل کیا ہے۔ یہ چیز بہ ہر حال یقینی ہے کہ اُن جیسی منفرد طرز اور غیر معیاری زبان والا فارسی شاعر کوئی دیگر نہیں گذرا ہے۔ اُن کا دیوان یہاں سے خوانا اور بارگیری کیا جا سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اردو میں عموماً صرف عاشق و معشوق ہی ایک دوسرے کو 'جان' کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ لیکن فارسی گو معاشروں میں دو قریبی دوست بھی اُنس و صمیمیت ظاہر کرنے کے لیے ایک دوسرے کے لیے اِس لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً اگر میں اپنے محترم دوست اریب آغا کو اریب جان کہہ کر پکاروں تو فارسی گو معاشروں میں یہ ایک بالکل عام بات سمجھی جائے گی۔
متشکرم برادر جانِ من۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے ہاں بزرگ افراد محبت میں اپنے چھوٹوں کے نام کے ساتھ جان اور گل کا لاحقہ لگاتے ہیں۔
ماوراءالنہر کی دونوں قومیں تاجک و اُزبک خدا کو محبّت کے ساتھ پکارنے کے لیے اُس کے ساتھ بھی 'جان' کا لاحقہ لگاتی ہیں۔ مثلاً:
مرا دادی عجب یاری، خُداجان،
عجب شوخِ ستم‌گاری، خُداجان.
دلم را دادَمَش بِگْرفت و بِگْریخت،
رسان او را به من باری، خُداجان.
(صَفَر ایوب‌زادهٔ محزون)
اے خدا جان! تم نے مجھے ایک عجب یار دیا؛ اے خدا جان! ایک عجب شوخ و ستم گار [دیا]۔ میں نے اُسے اپنا دل دیا، اُس نے لیا اور [مجھ سے دُور] فرار کر گیا؛ اے خدا جان! اُسے ایک بار مجھ تک پہنچا دے۔
× شاعر کا تعلق تاجکستان سے ہے۔
افغانوں میں بھی یہ چیز مرسوم ہے، لیکن ایرانیوں میں اِس کا استعمال کم ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
واوِ معدولہ کی حکایت یہ ہے کہ جب فارسی زبان لکھی جانی شروع ہوئی تھی تو اُس وقت یہ واو تلفظ کیا جاتا تھا۔ یعنی خواہر کو xâhar کی بجائے xvâhar پڑھا جاتا تھا۔ اسی لیے ایسے الفاظ کے املا میں واو شامل ہے۔ لیکن بعد میں اگرچہ اِس واو کا تلفظ مفقود ہو گیا، لیکن الفاظ کا املا وہی رہا جو شروع سے تھا۔
فردوسی نے مندرجۂ ذیل شعر میں دانہ کَش اور خوش کو ہم قافیہ باندھا ہے کیونکہ اُن کے زمانے میں لفظِ خوش کا قدیم تلفظ خوَش زندہ تھا۔ لیکن اب خوش کا واؤ ساکت ہے۔
میازار موری که دانه‌کَش است
که جان دارد و جانِ شیرین خوَش است
میرا خیال ہے کہ اِس بیت میں شیخ سعدی شیرازی 'خوش' اور 'مشوّش' کو ہم قافیہ لائے ہیں، کیونکہ جن الفاظ میں 'خ' کے بعد واوِ معدولہ آتی ہے، مثلاً خوش، خواب، خواهر، خود وغیرہ، اُن الفاظ میں ابتداءً اُس واو کا تلفظ ہوتا تھا، اِسی لیے اُن کے املاء میں واو آتا ہے۔ یعنی مذکورہ الفاظ کو بالترتیب خْوَش/xwaş، خْوَاب/xwâb، خْوَاهرxwâhar، خْوَد/xwad تلفظ کیا جاتا تھا۔

شعرِ کہن میں اِس طرح کے قافیے کی ایک اور مثال دیکھیے:
پس حکیمش گفت، کای سلطانِ مِه
آن کنیزک را بدین خواجه بدِه
تا کنیزک در وصالش خوش شود

آبِ وصلش دفعِ آن آتش شود

(مولانا جلال‌الدین رومی)
پس حکیم نے [شاہ] سے کہا کہ: اے سلطانِ بزرگ! وہ کنیز اِس خواجہ کو عطا کر دو۔ تاکہ کنیز اِس کے وصال میں خوب و خوش ہو جائے اور اِس کے وصل کا آب اُس آتش کو خاموش کر دے۔
اردو شاعر امام بخش ناسخ بھی قدیم فارسی کی پیروی میں ایک بیت میں 'خوش' کا قافیہ 'مہ وش' لائے ہیں:
آج خلوت میں مرا دل خوش ہے
ساقیِ سیم ساقِ مہ وش ہے

'انتخابِ ناسخ' کے مؤلف 'رشید حسن خاں' یہ شعر پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
"فارسی میں یہ قافیہ بالکل درست ہو گا لیکن اُردو میں خوش صرف بہ ضمِ اوّل مستعمل ہے۔"

لیکن جہاں تک میرے علم میں ہے، حالیہ فارسی میں بھی یہ قافیہ غیر فصیح اور قدیمی مانا جائے گا، کیونکہ اردو کی طرح مُعاصر معیاری فارسی میں بھی 'خوش' کا تلفظ 'xuş' ہے۔ علاوہ بریں، مجھے یاد نہیں کہ میں نے کبھی کسی جدید فارسی شاعر کو ایسا قافیہ استعمال کرتے دیکھا ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
کَرْگَدَن
فارسی زبان میں گینڈے کو کرگَدَن کہتے ہیں۔

ذوالفقارت گر بدیدی کرگَدَن در روزِ جنگ
کاه گشتی در زمان گر کوه بودی کرگَدَن
(سنایی غزنوی)
اگر کرگَدَن (گینڈا) بہ روزِ جنگ تمہاری ذوالفقار دیکھ لیتا تو اگرچہ وہ کوہ ہوتا، فوراً کاہ ہو جاتا۔
کرگَدن = گینڈا؛ کوہ = پہاڑ؛ کاہ = تِنکا

جالب یہ ہے کہ یہ لفظ اردو میں بھی استعمال ہوا ہے:
پناہ ملتی ہے خِلقت کو مرگِ ظالم سے
جو کرگَدَن کو کریں قتل، ہو سپر پیدا

(امام بخش ناسخ)

ظالم کو بعدِ مرگ بھی ہے ظالموں سے ربط
خنجر کا دستہ کیوں نہ بنے کرگَدَن کی شاخ

(امام بخش ناسخ)

تُرکی، عربی اور پشتو میں مذکورہ جانور کے لیے اِسی لفظ کی مختلف شکلیں استعمال ہوتی ہیں، اور یہ اُن زبانوں میں فارسی ہی سے گیا ہے۔
ماوراءالنہری فارسی میں عربی کی طرح کرکَدَن رائج ہے۔
فارسی ادبیات میں اِس جانور کو فِیل کا دشمن اور شکاری مانا جاتا ہے۔ اِسی لیے مولانا رومی اپنی ایک غزل میں آرزومندانہ پوچھتے ہیں کہ وہ لمحہ کب آئے گا کہ جب:
"هر بَرّه ز گُرگ شیر آشامد
هر پیل انیسِ کرگَدَن گردد"

ہر بچۂ گُوسفند گُرگ سے شِیر پیے گا؛ اور ہر فِیل کرگَدَن کا یارِ ہم نشیں بن جائے گا۔
× گُوسْفَند = بھیڑ؛ گُرْگ = بھیڑیا؛ شِیر = دودھ؛ فِیل = ہاتھی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"اگرچہ پشتو افغانستان کی ایک قومی زبان ہے، لیکن مُعاشرتی وقار کے اعتبار سے وہ دری (فارسی کے ایک لہجے) سے زیریں تر ہے۔ شُورَوی قبضے سے قبل، پشتو کو 'برابر و ہم پایہ' کرنے کی چند کوششیں کی گئی تھیں: عوامی مکاتب میں دری گو بچّوں کے لیے پشتو کی تدریس لازمی تھی، اور دری گو سرکاری حُکّام پشتو کے دُرُوس میں حصہ لینے کے پابند تھے۔ البتہ، اِن کوششوں سے صورتِ حال زیادہ تبدیل نہیں ہوئی؛ اِس وقت، قبل کی طرح، افغانستان میں ہر تعلیم یافتہ پشتون دری بولتا ہے، لیکن بہت کم دری گو پشتو بولتے ہیں۔"

کتاب: پشتو کا حوالہ جاتی دستورِ زبان (انگریزی)
نویسندگان: حبيب الله تږی، باربرا رابسن
سالِ اشاعت: ۱۹۹۶ء
 

حسان خان

لائبریرین
کابل اور ہِرات جیسے شہروں میں کئی خانوادے ایسے موجود ہیں جو نسلاً تو پشتون ہیں، لیکن اُن میں گفتاری زبان کے طور پر فارسی مستعمَل ہے۔
"اکثر پشتونوں کو اپنی قبائلی وابستگی کا بہت زیادہ احساس ہوتا ہے، اگرچہ کابُل اور ہِرات نقلِ مکانی کر جانے والے بہت سے پشتونوں کا اپنے قبیلوں سے تعلق منقطع ہو جانے کے بعد اُن کی زندگی سے قبائلی نظام ختم ہو چکا ہے۔ اِن نژادی پشتونوں میں سے کئی افراد اب پشتو نہیں بولتے، اگرچہ وہ پشتون کے طور پر اپنی شناخت کراتے ہیں۔ ایسے پشتون افغانستان میں دری، جبکہ پاکستان میں اردو اور بلوچی بولتے ہیں۔"

کتاب: پشتو کا حوالہ جاتی دستورِ زبان (انگریزی)
نویسندگان: حبيب الله تږی، باربرا رابسن
سالِ اشاعت: ۱۹۹۶ء
 

حسان خان

لائبریرین
نیم‌فاصله
فارسی کے معیاری قواعدِ املاء کے مطابق، 'می‌کُند' جیسے الفاظ میں 'می' اور 'کند' کو نہ 'می کند' کی طرح جدا جدا لکھنا چاہیے اور نہ 'میکند' کی طرح ملا کر لکھنا چاہیے، بلکہ دونوں کے درمیان 'نیم فاصلہ' استعمال کرنا چاہیے، یعنی 'می‌کند' لکھنا چاہیے، جس سے 'می' اور 'کند' ساتھ ساتھ بھی رہیں اور ایک دوسرے میں مدغم بھی نہ ہو جائیں۔ یہی 'نیم فاصلہ' شیرین‌زبان اور نکته‌دان جیسے مرکّب الفاظ اور ماضیِ قریب کے صیغوں مثلاً آمده‌ام، کرده‌اند وغیرہ میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
مجھے 'نیم فاصلہ' کا استعمال فارسی اور تُرکی میں نظر آیا ہے، اور میں نے اردو میں اِسے استعمال ہوتے نہیں دیکھا، اِس لیے یہ معلوم نہیں کہ اردو کلیدی تختوں کے ذریعے 'نیم فاصلہ' ڈالنے کے لیے کیا کرنا ہو گا۔ امّا، فارسی کلیدی تختوں میں اِس کے لیے ایک کلید موجود ہوتی ہے۔ میں فارسی لکھنے کے لیے یہ صوتی کلیدی تختہ استعمال کرتا ہوں۔ اگر آپ 'نیم فاصلہ' ڈالنا چاہیں تو مذکورہ کلیدی تختے کا استعمال کر سکتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
بس تیره‌شبِ فصلِ تَمُوز آخر شد
بس عالَمِ درد و داغ و سوز آخر شد
یک عمرِ دراز انتظارت بودم
نوبت که به ما رسید، روز آخر شد
(صَفَر امیرخان)
موسمِ گرما کی کتنی ہی تاریک شبیں ختم ہو گئیں؛ درد و داغ و سوز کے کتنے ہی عالَم ختم ہو گئے؛ میں ایک طویل عمر سے تمہارا منتظر تھا؛ [لیکن] جب باری ہم تک پہنچی، روز ختم ہو گیا۔
× شاعر کا تعلق تاجکستان سے ہے۔
ماوراءالنہر میں 'انتظار' منتظر کے معنی میں، جبکہ 'انتظاری' انتظار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

"قریب نیم ساعت می‌شود انتظارم، که کَی به زنگم جواب می‌دهی..."
میں تقریباً نیم ساعت سے منتظر ہوں کہ تم کب میری کال کا جواب دو گے۔"

"سرِ رهِ تو نشسته‌ام در انتظاری"
"میں تمہاری راہ کے کنارے انتظار میں بیٹھا ہوا ہوں۔"

لیکن فی زماننا کئی تاجکستانی اہلِ قلم اِن استعمالوں کو، خصوصاً منتظر کے لیے 'انتظار' کے استعمال کو، غیر معیاری اور عامیانہ و گفتاری سمجھتے ہیں، اور اِن پر اعتراض دائر کرتے ہیں۔ اُن کی رائے یہ ہے کہ کہنہ ادبی فارسی اور مُعاصر ایرانی و افغان فارسی کی طرح 'انتظار' کی بجائے 'منتظر' ہی بولنا اور لکھنا چاہیے۔
بین الاقوامی معیاری فارسی میں 'انتظاری' رائج نہیں ہے، لیکن تاجکستان کی گفتاری و نَوِشتاری زبان میں اِس لفظ کا استعمال عام ہے۔
 
آخری تدوین:
Top