زاویہ

ماوراء

محفلین
ایک استاد عدالت کے کٹہرے میں

ایک استاد عدالت کے کٹہرے میں​


علم کے بارے میں انسان ہمیشہ سرگرداں رہا ہے، اور آج کے دور میں حصولِ علم کے لیے بہت سی کوششیں ہیں، یہ انسان کے ایک بہتر مستقبل کی نوید کے لیے یقیناً ممدو معاون ثابت ہوں گی۔
علم حاصل کرنے کے لیے جب ہم بھائی اپنے گاؤں سے لاہور آئے، تو ہمارے ابا جی نے ایک گھر لے کر دیا، فلیمنگ رود پر۔ وہاں اختر شیرانی رہتے تھے۔ میں تو چونکہ فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا، اس لیے ان کے نام سے یا ان کے کام سے اتنا آشنا نہیں تھا، لیکن میرے بڑے بھائی ان کو جانتے تھے اور ان کی بڑی قدرومنزلت کرتے تھے۔ بہرحال جہاں ہمارے ابا جی نے، اور بہت ساری مہربانیاں کی تھیں، وہاں یہ کہ ایک خانساماں بھی دیا تھا جو ہمارا کھانا پکاتا تھا۔ اس کا نام عبدل تھا۔ عبدل کو زندگی میں دو شوق بڑے تھے، ایک تو انگریزی بولنے کا، انگریزی تعلیم حاصل کرنے کا جیسے آج کل بہت زیادہ انگریزی ہی کو علم سمجھا جاتا ہے، اور اگریزی کے حصول کے لیے ہی جان لڑائی جاتی ہے۔ عبدل کو بھی اس کا بڑا شوق تھا۔ دوسرے اس کو اچھی کنوینس کا بڑا چسکا تھا۔ چنانچہ کبھی اسے بھائی خط پوسٹ کرنے کے لیے جی پی او بھیجتے تو وہ کہتا تھا، اگر آپ اپنی سائیکل دے دیں تو میں بڑی خوشی سے جاؤں گا، اور آؤں گا۔ ان کی سائیکل کے قریب سے جب ہم گزرتے تھے سلام کر کے، لیکن ہم نے بھی اسے کبھی ہاتھ نہیں لگایا تھا، تو عبدل پر وہ کبھی مہربان ضرور ہوتے تھے، اور وہ سائیکل لے کر ان کا خط پوسٹ کرنے کے لیے فلیمنگ روڈ سے جی پی او جاتا تھا۔ اور میرے حساب کے مطابق چار ساڑھے چار منٹ میں واپس آ جاتا تھا، اور اس کی حالت میں سانس اس کی پھولی ہوئی اور ماتھے پر پسینہ ہوتا تھا۔
میں اس کی مستعدی سے بہت خوش تھا کہ یہ جو اپنی سائیکل ہے اس کو اتنے شوق سے، اور اتنی مستعدی سے استعمال کرتا ہے۔ ایک مرتبہ اتفاق ایسا ہوا کہ میں نے دیکھا بازار میں وہ واپس آ رہا تھا، جی بی اور سے خط پوسٹ کر کے۔ اسطرح کہ سائیکل کا ہینڈل اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے، اور اس کے ساتھ بڑی تیزی سے بھاگتا ہوا آ رہا تھا۔ اس کے اوپر سوار نہیں تھا۔ تو میں نے اسے روک لیا۔ میں نے کہا، عبدل یہ کیا۔ کہنے لگا، “ میں بھاجی دا خط پا کے آیاں تے جلدی واپس آیاں۔“ میں نے کہا تو سائیکل لے کر گیا تھا۔ کہنے لگا ہاں جی۔ تو میں نے کہا، اس پر سوار کیوں نہیں ہوا۔ کہنے لگا، عزت کی خاطر لے کر جاتا ہوں۔ سائیکل مجھے چلانی نہیں آتی۔ تو آج بھی تقریباً ہمارا معاملہ عبدل جیسا ہی ہے۔ دوسرے اس کو جب چھٹی ملتی تھی، وہ انگریزی فلم دیکھنے جاتا تھا۔ مال روڈ پر یہاں دو سینما تھے، جن میں انگریزی فلم لگتی تھی۔ اس کو اس کی بڑی دیوانگی تھی، انگریزی سیکھنے کا چسکا، اور انگریزی سیکھنے کی لگن۔ آج ہی نہیں اس وقت بھی بہت زیادہ تھی تو جب وہ فلم دیکھ کر آتا تھا تو میرے بھائی پوچھتے، کیسی تھی۔ کہتا بہت کمال کی تھی۔ اس میں ایک مس تھی، وہ تیرتی بہت اچھا تھی۔ ویری بیوٹی۔ لیکن وہ فلمیں دیکھ دیکھ کے اندازے لگاتا مگر اس میں اتنی استعداد نہ تھی کہ سمجھ سکتا۔ کوئی لفظ اسے انگریزی کا سمجھ نہیں آتا تھا۔ نہ ہی وہ اس کا تلفظ ادا کر سکتا تھا، نہ ہی اس کو بیان کر سکتا تھا، لیکن ایک دن میرے بھائی نے پوچھا کہ تو اتنا وقت ضائع کرتا ہے، اتنے پیسے ضائع کرتا ہے، اور اس توجہ، اور لگن کے ساتھ اپنی زندگی مستغرق کی ہوئی ہے۔ اگر تو مجھے انگریزی کے چار حرف بتا دے، پورے چار۔ چار الفاظ، تو مین تمھیں پورا ایک روپیہ دوں گا۔ تو اس نے کہا کہ میٹرو گولڈون میئر۔ انہوں نے کہا یہ تو چار نہیں ہوئے تین ہوئے ہیں۔ کہنے لگا “اوں“ چوتھا بھی اس نے ادا کر دیا۔ تو وہ انگریزی جو جانتا تھا، وہ اس قسم کی تھی اب بھی ہم کوشش کر رہے ہیں، اور انگریزی کے اندر کچھ ایسے ہی پھنسے ہوئے ہیں۔ شیر کی بھوگی مارتے ہیں۔ انگریزی چلتی نہیں۔
یہ تو تھی بات جو برسبیل تذکرہ آ گئی۔ میرا آج کا موضوع تھا وہ بتانا نہیں چاہتا تھا۔ پروفیسر صاحب یہاں آج تشریف فرما ہیں۔ جس زمانے میں میں روم میں لیکچرر تھا، روم یونیورسٹی میں، اور میں سب سے Youngest پروفیسر تھا۔ یونیورسٹیوں میں چھٹیاں تھیں۔ گرمیوں کا زمانہ تھا۔ دوپہر کے وقت ریڈیو سٹیشن پر مجھے اردو براڈ کاسٹنگ کرنی پڑتی تھی۔ لوٹ کے آ رہا تھا تو خواتین و حضرات روم میں دوپہر کے وقت سب لوگ قیولہ کرتے تھے۔ ٤ بجے تک سوتے تھے، اور روم کی سڑکیں تقریباً خالی ہوتی تھیں، اور کارپوریشن نے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ وہاں پر پانی کے حوض لگا کر سڑکیں دھوتے ہیں، اور شام تک سڑکیں ٹھنڈی بھی ہو جاتی ہیں، خوشگوار بھی ہو جاتی ہیں، صاف بھی ہو جاتی ہیں۔ تو وہ سڑکوں کو دھو رہے تھے۔ اکا دکا کوئی ٹریفک کی سواری آ جارہی تھی۔ تو میں اپنی گاڑی چلاتا ہوا جا رہا تھا۔ اب دیکھیے انسان کے ساتھ ایک دیسی مزاج چلتا ہے کہ آدمی کہیں بھی چلا جائے، تو میں گاڑی چلا رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ گول دائرہ ہے اس کے اوپر سے میں چکر کاٹ کے آؤں گا۔ پھر میں اپنے گھر کی طرف مڑوں گا تو یہ بڑی بے ہودہ بات ہے۔ بیچ میں سے چلتے ہیں۔ اس وقت کون دیکھتا ہے، دوپہر کا وقت ہے۔ تو میں بیچ میں سے گزرا وہاں ایک سپاہی کھڑا تھا، اس نے مجھے دیکھا، اور اس نے پروا نہیں کی۔ جانے دیا کہ یہ جا رہا ہے یہ نوجوان تو کوئی بات نہیں۔ جب میں نے دیکھا شیشے میں سے گردن گھما کے کچھ مجھے تھوڑا سا یاد پڑتا ہے۔ میں طنزاً مسکرایا۔ کچھ اپنی فیٹ (Fate) کے اوپر کچھ اپنی کامیابی کے اوپر۔ میں نے خوشی منانے کے لیے ایک مسکراہٹ کا پھول اس کی طرف پھینکا۔ جب اس نے یہ دیکھا کہ اس نے میری یہ عزت کی ہے تو اس نے سیٹی بجا کے روک لیا۔ اب وہاں پر سیٹی بجنا موت کے برابر تھی اور رکنا بھی، میں رکا، وہ آ گیا، اور آ کے کھڑا ہو گیا۔ پہلے سلیوٹ کیا، ولایت میں رواج ہے کہ جب بھی آپ کا چلان کرتے ہیں۔ آپ کو پکڑنا ہوتا ہے تو سب سے پہلے آ کر سلیوٹ مارتے ہیں۔ تو اس نے کھڑے ہو کر سلیوٹ مارا اب میں اندر تھر تھر کانپ رہا ہوں۔ شیشہ میں نے نیچے کیا تو مجھے کہنے لگا کہ آپ کا لائسنس۔ تو میں نے اس سے کہا میں زبان نہیں جانتا۔ اس نے کہا، چنگی بھلی بول رہے ہو۔ میں نے کہا میں نہیں جانتا تم ایسے ہی جھوٹ بول رہے ہو۔ میں تو نہین جانتا۔ اس نے کہا، نہیں آپ اپنا لائسنس دیں۔ تو میں نے کہا، فرض کریں جس کے پاس اس کا لائسنس نہ ہو تو پھر وہ کیا کرے گا۔ اس نے کہا کوئی بات نہیں۔ میں آپ کا چالان کر دیتا ہوں۔ پر چی پھاڑ کے تو یہ آپ لے جائیں اور جرمانہ جمع کروا دیں۔ میں تو ایسے ہی مانگ رہا تھا۔ میں نے کہا، مجھ سے غلطی ہو گئی۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا غلطی ہو گئی تھی تو چلے جاتے۔ اس نے بغیر مجھ سے پوچھے کاپی نکالی اور چالان کر دیا، اور چالان بھی بڑا سخت، بارہ آنے جرمانہ۔ میں نے لے لی پرچی۔ میں نے کہا، میں اس کو لے کر کیا کروں۔ اس نے کہا اپنے کسی بھی قریبی ڈاکخانے میں منی آرڈر کی کھڑکی پر جمع کروا دیں۔ بس وہاں کچہری نہیں جانا پڑتا، دھکے نہیں کھانے پڑتے۔ بس آپ کا جرمانہ ہو گیا، آپ ڈاکخنانے میں دیں گے تو بس۔ میں جب چالان کروا کے گھر آ گیا تو مین نے اپنی لینڈ لیڈی سے کہا، میرا چالان ہو گیا ہے۔ کہنے لگی، آپ کا۔ میں نے کہا، میں کیا کروں۔ اب ان کو ایسے لگا کہ ہمارے گھر میں جیسے ایک بڑا مجرم رہتا ہے۔ اور اس نے اپنی بیٹی کو بتایا کہ پروفیسر کا چالان ہو گیا ہے۔ بڈھی مائی تھی۔ اس کی ایک ساس تھی اس کو بھی بتایا، سارے روتے ہوئے میرے پاس آ گئے۔ میں بڑا ڈرا کہ یااللہ یہ کیا۔ کہنے لگے تو شریف آدمی لگتا تھا۔ اچھے خاندان کا اچھے گھر کا لگتا تھا۔ ہم نے تجھے یہ کرائے پر کمرا بھی دیا ہوا ہے لیکن تو ویسا نہیں نکلا خیر گھر خلای کرنے کو تو نہیں کہا۔ جو بڈھی مائی تھی، ان کی ساس، اس نے کہا۔ ہو تو گیا ہے برخودار چالان۔ لیکن کسی سے ذکر نہ کرنا۔ محلے داری کا معاملہ ہے۔ اگر ان کو پتہ چل گیا کہ اس کا چلان ہو گیا ہے تو بڑی رسوائی ہو گی۔ لوگوں کو پتا چلے گا۔ میں نے کہا، نہیں میں پتا نہیں لگنے دوں گا۔ میری لاابالی طبیعت، ٢٦ سال کی عمر تھی۔ چالان جیب میں ڈالا اور نکل گیا دوستوں سے ملنے۔ اگلے دن مجھے جمع کروانا تھا، بھول گیا۔ پھر سارا دن گزر گیا۔ اس سے اگلے دن مجھے اصولاً جمع کروا دینا چاہیے تھا تو میں نے کپڑے بدلے تو اس پرانے کوٹ میں رہ گیا۔ شام کے وقت مجھے ایک تار ملا کی محترمی جناب پروفیسر صاحب فلاں فلاں مقام پر فلاں چوراہے پر آپ کا چالان کر دیا گیا تھا، فلاں سپاہی نے۔ یہ نمبر ہے آپ کے چالان کا۔ آپ نے ابھی تک کہیں بھی چالان کے پیسے جمع نہیں کروائے یہ بڑی حکم عدولی ہے۔ مہربانی فرما کر اسے جمع کروا دیں۔ آپ کی بڑی مہربانی ہو گی۔ تقریباً ٢١ روپے کا تا ر تھا۔ میں نے سارے لفظ گنے۔ مجھ سے یہ کوتاہی ہوئی کہ میں پھر بھول گیا، اور ان کا پھر ایک تار آیا۔ اگر آپ اب بھی رقم جمع نہیں کروائیں گے تو پھر ہمیں افسوس ہے کہ کورٹ میں پیش کر دینا پڑے گا۔ مجھ سے کوتاہی ہوئی، نہیں جا سکا۔ تب مجھے کورٹ سے ایک سمن آ گیا۔ کہ فلاں تاریخ کو عدالت میں پیش ہو جائیں، اور یہ جو آپ نے حکم عدولی کی ہے، قانون توڑا ہے، اس کے بارے میں آپ سے پورا انصاف کیا جائے گا۔ ان کی بولی، چونکہ رومن لاء وہیں سے چلا ہے تو بڑی تفصیل کے ساتھ۔ اب میں ڈرا، میری سٹی گم ہوئی۔ پریشان ہوا کہ اب میں دیارِ غیر میں ہوں۔ کوئی میرا حامی و ناصر مددگار نہیں ہے۔ میں کس کو اپنا والی بناؤں گا۔ میرا ڈاکٹر تھا۔ ڈاکٹر بالدی اس کا نام تھا، توجوان تھا۔ میں نے اس سے کہا، مجھے وکیل کر دو۔ اس نے کہا، میرا ایک دوست ہے۔ اس کے پاس چلتے ہیں۔ اس کے پاس گئے۔ اس نے کہا، یہ تھوڑا سا پیچیدہ ہو جائے گا۔ اگر میں گیا عدالت میں۔ بہتر یہی ہے پروفیسر صاحب جائیں، اور جا کر خود Face کریں عدالت کی خدمت میں یہ عرض کریں کہ میں چونکہ اس قانون کو ٹھیک طرح سے نہیں جانتا تھا۔ میں یہاں پر ایک غیر ملکی ہوں تو مجھے معافی دی جائے۔ میں ایسا آئندہ نہیں کروں گا۔
میں نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ میں ڈرتا ڈرتا چلا گیا۔ اگر آپ کو روم جانے کا اتفاق ہو تو “پالاس آف دی جستی“ Palace of Justice وہ رومن زمانے کا بہت بڑا وسیع و عریض ہے، اسے تلاش کرتے کرتے ہم اپنے جج صاحب کے کمرے میں پہنچے تو وہاں تشریف فرما تھے۔ مجھے ترتیب کے ساتھ بلایا گیا تو مین چلا گیا۔ اب بالکل میرے بدن میں روح نہیں ہے، اور میں خوفزدہ ہوں، اور کانپنے کی بھی مجھ میں جراءت نہیں۔ اس لیے کہ تشنج جیسی کیفیت ہو گئی تھی، انہوں نے کہا حکم دیا، آپ کھڑے ہوں اس کٹہرے کے اندر۔ اب عدالت نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا چالان ہوا تھا، اور آپ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آپ یہ بارہ آنے ڈاک خانے میں جمع کروائیں، کیوں نہیں کروائے؟ میں نے کہا، جی مجھ سے کوتاہی ہوئی، مجھے کروانے چاہئیں تھے، لیکن میں۔۔۔۔اس نے کہا، کتنا وقت عملے کا ضائع ہوا۔ کتنا پولیس کا ہوا، اب کتنا “جستیک کا“ ہوا (جسٹس عدالت کا ہو رہا ہے) اور آپ کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے تھا۔ ہم اس کے بارے میں آپ کو کڑی سزا دیں گے۔ میں نے کہا، میں یہاں پر ایک فارنر ہوں۔ پردیسی ہوں۔ جیسا ہمارا بہانہ ہوتاہے، میں کچھ زیادہ آداب نہیں سمجھتا۔ قانون سے میں واقف نہیں ہوں۔ تو میرے پر مہربانی فرمائیں۔ انہوں نے کہا، آپ زبان تو ٹھیک بولتے ہیں۔ وضاحت کر رہے ہیں۔ آپ کیا کرتے ہیں تو میں چپ کر کے کھڑا رہا۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ عدالت آپ سے پوچھتی ہے کہ آپ کون ہیں، اور آپ کا پیشہ کیا ہے؟ میں نے کہا، میں ایک ٹیچر ہوں۔ پروفیست ہوں۔ روم یونیورسٹی میں۔ تو وہ جج صاحب کرسی کو سائیڈ پر کر کے کھڑا ہو گیا، اور اس نے اعلان کیا Teacher in the Court. Teacher in the Court. جیسے اعلان کیا جاتا ہے، اور وہ سارے اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ منشی، تھانیدار، عمل دار جتنے بھی تھے، اور اس نے حکم دیا کہ Chair should be brought for the teacher has come to the court.
اب وہ کٹہرا چھوٹا سا، میں اس کو پکڑ کر کھڑا ہوں۔ وہ کرسی لے آئے۔ حکم ہوا کہ تو Teacher ہے، کھڑا نہیں رہ سکتا۔ تو پھر اس نے ایک بانی بڑھنی شروع کی۔ جج نے کہا کہ اے معزز استاد! اے دنیا کو علم عطا کرنے والے استاد! اے محترم ترین انسان! اے محترم انسانیت! آپ نے ہی ہم کو عدالت کا، اور عدل کا حکم دیا ہے، اور آپ ہی نے ہم کو یہ علم پڑھایا ہے، اور آپ ہی کی بدولت ہم اس جگہ پر براجمان ہیں۔ اس لیے ہم آپ کے فرمان کے مطابق مجبور ہیں۔ عدالت نے جو ضابطہ قائم کیا ہے، اس کے تحت آپ کو چیک کریں، باوجود اس کے کہ ہمیں اس بات کی شرمندگی ہے، اور ہم بے حد افسردہ کہ ہم ایک استاد کو جس سے محترم، اور کوئی نہیں ہوتا، اپنی عدالت میں ٹرائل کر رہے ہیں، اور یہ کسی بھی جج کے لیے انتہائی تکلیف دہ موقع ہے کہ کورٹ میں، کٹہرے ایک استادِ مکرم ہو اور اس سے Trail کیا جائے۔ اب میں شرمندہ اپنی جگہ پر یا اللہ یہ کیا شروع ہو رہا ہے۔ میں نے کہا، حضور جو بھی آپ کا قانون ہے، علم یا جیسے کیسے بھی آپ کا ضابطہ ہے، اس کے مطابق کریں، میں حاضر ہوں۔ تو انہوں نے کہا، ہم نہایت شرمندگی کے ساتھ، اور نہایت دکھ کے ساتھ، اور گہرے الم کے ساتھ آپ کو ڈبل جرمانہ کرتے ہیں۔ ڈیڑھ روپیہ ہو گیا۔ اب جب میں اٹھ کے اس کرسی میں اس کٹہرے میں سے نکل کر شرمندہ، باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ جو جج، اس کا عملہ تھا، اس کے منشی تھے، وہ سارے جناب میرے پیچھے پیچھے (Ateacher in the court) جا رہے تھے کہ ہم احترام فائقہ کے ساتھ آپ کو رخصت کرتے ہیں۔ میں کہوں، میری جان چھوڑیں۔ یہ باہر نکل کر میرے ساتھ کیا کریں گے۔ آگے تک میری موٹر تک چھوڑ کے آئے۔ جب تک میں وہاں سے سٹارٹ نہیں ہو گیا، وہ عملہ وہاں پر ایسے ہی کھڑا تھا۔ اب میں لوٹ کے آیا تو میں سمجھا یا اللہ میں بڑا معزز آدمی ہوں، اور محلے والوں کو بھی آکر بتایا کہ میں ایسے گیا تھا، اور وہاں پر یہ یہ ہوا۔ وہ بھی جناب، اور میری جو لینڈ لیڈی تھی، وہ بھی بڑی خوشی کے ساتھ محلے میں چوڑی ہو کے گھوم رہی تھی کہ دیکھو ہمارا یہ ٹیچر گیا، اور کورٹ نے اتنی عزت کی۔ اس کی عزت افزائی ہوئی تو میں یہ سمجھا کہ اس کے ساتھ ساتھ میری تنخواہ میں بھی اضافہ ہو گا، دیسی آدمی جو ہے نا وہ چاہے ٹیچر بھی ہو، وہ گریڈ کا ضرور سعچے گا۔ کتنی بھی آپ عزت دے دیں، کتنا بھی احترام دے دیں، وہ پھر بھی ضرور سوچے گا کہ مجھے کہیں سے چار پیسے بھی ملیں گے کہ نہیں، میں نے اپنے ریکٹر سے پوچھا، تو اس نے کہا، نہیں تنخواہ یہاں پروفیسر کی اتنی ہی ہے جتنی تمہارے پاکستان میں ہے۔ وہ کوئی مالی طور پر اتنے بڑے نہیں ہیں، لیکن عزت کے اعتبار سے بہت بڑے ہیں۔ رتبہ ان کا بہت زیادہ ہے، اور کوئی شخص یہاں کوئی بیورو کریٹ ہو، یہاں کوئی جج ہو۔ آپ نے دیکھ ہی لیا ہے۔ یہاں کا تاجر ہو، یہاں کا فیوڈل لارڈ ہو، وہ استاد کے رتبے کے پیچھے اسی طرح چلتا ہے، جیسے روم کے دنوں میں غلام اپنے آقا کے پیچھے چلتے تھے۔ مالی طور پر وہ بھی بے چارے ہیں۔ یہی ان کا کمال ہے کہ مالی طور پر کمتر ہیں، لیکن رتبے کے اعتبار سے بہت اونچے ہیں۔ جیسے سقراط جو تھا، وہ اپنے کھنڈروں میں، اور فورم میں کھڑا ہو کے ننگے پاؤں بات کرتا تھا، لیکن اس کا احترام تھا۔ وہ کوئی امیر آدمی نہیں تھا۔ میرا باس کہا کرتا تھا۔

You have changes your profession for a handfull silver.
 

فریب

محفلین
چیزوں کی کشش اور ترک دنیا​

ہمارے ہاں ڈیفنس کالونی بہت خوبصورت ہے اور اس میں بڑے شاندار گھر ہیں، جو دید کے قابل ہیں۔ ایک روز ہم وہاں بیٹھے تھے۔ ایک نہایت خوبصورت گھر میں۔ ایک نہایت اعلٰی درجے کے فانوس کے نیچے۔ وہ سامان و اسباب سے بھرا ہوا گھر ہے۔ وہاں بیٹھے ہوئے پتا نہیں کیوں مجھے اچانک یاد آیا کہ ہوائی جہازوں کی ایجاد کا ایک سو سال پورا ہو گیا ہے۔ ہوائی جہاز انسان کی زندگی میں داخل ہوئے تو اس کا جشن منایا گیا۔ اس حوالے سے ہم نے اخباروں میں بھی پڑھا، ٹی وی پر بھی دیکھا اور اور ان گزرے سو برسوں پر ہم اپنے اپنے بیان دے رہے ہیں۔ میں برسوں سے ہوائی سفر کا مسافر ہوں۔ کم لوگ جانتے ہیں کیونکہ بہت خفیہ بات ہے اور آپ تک ہی رہنی چاہیے کہ 1947ء میں جب پاکستان بنا اس کے تین ماہ بعد اگست، ستمبر، اکتوبر اور نومبر میں لاہور میں ایک بہت پڑا رفیوجی پناہ گزین کیمپ تھا۔ میں وہاں پر ہیڈ کلرک کے طور پر ملازم ہو گیا۔ کہیں نوکری ملتی نہیں تھی۔
تقسیم کے بعد بھارت سے بڑی بے چینی کے عالم میں آئے تھے۔ میں اس وقت بی اے کر چکا تھا۔ ایمپلائمنٹ ایکسچینج کا دفتر وہ نوکری نہیں دیتا تھا۔ میں وہاں پر جا کر کہتا تھا کہ جی میں بی اے پاس ہوں۔ وہ کہتے تھے ہم اس کا کیا کریں؟ پھر میں نے ایک ٹرک لیا اور وہاں جا کر کہا کہ جی میں میٹرک پاس ہوں فرسٹ ڈویژن میں، تو انہوں نے کہا کہ بسم اللہ اور فوری مجھے نوکری مل گئی۔ ایک آدھ مہینا کام کیا، پھر نہرو اور لیاقت خان پیکٹ کے مطابق یہ طے پایا کہ جو یہاں کے سکھ اور ہند شرنارتھی( پناہ گزین) ہیں، وہ بذریعہ ہوائی جہاز بھارت جائیں گے، انہیں لیجانے کے لیے ہندوستان سے ہوائی جہاز آتے تھے ہمارے پاس تو تھا کوئی نہیں۔ وہ جہاز وہاں سے مسلمان پناہ گزینوں کو بھی لے کر آئیں گے۔ یہاں مسلمانوں کو اتار دیں گے اور پھر راولپنڈی سے پشاور سے لاہور اور ملتان سے اپنے مطلوبہ مسافر بھر کر لے جائیں گے۔
اس زمانے میں سول ایوی ایشن کا ادارہ تھا اور اعوان صاحب اس کے انچارج تھے۔ والٹن ایئرپورٹ پر ان کا دفتر تھا اور وہ پرمٹ ایشو کرتے تھے کہ جو جہاز بھارت سے آیا ہے اس میں واقعی مسلمان پناہ گزین آئے۔ یہاں پر خالی ہوا اور اب آگے جا رہا ہے۔ پھر لاہور آئے گا اور پھر اسی طرح واپسی جائے گا۔ یہ ایک مشکل کام تھا۔ انہوں نے سارے والٹن کیمپ میں اپنے ادھر ادھر دیکھا، انہیں میں بڑا سمارٹ سا کلرک نظر آیا۔ کہنے لگے، میاں! تم نے میٹرک کی ہوئی ہے۔ بڑے پڑھے لکھے ہو۔ وہ مجھے سول ایوی ایشن میں لے گئے۔ اور میری سروسز ایوی ایشن کے لیے مستعار لے لیں۔ وہاں میری کرسی لگا دی چھا ؤ ں میں اور کہا تمھیں یہ کام کرنا ہے۔ میں بہت محنت سے وہ کام کرتا رہا اور پرمٹ ایشو کرنے لگا۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ خدا کلرک کو اتنی عزت دے تو اس کا دماغ کہاں پہنچ جاتا ہے۔
ونگ کمانڈر اعوان صاحب نے مجھے بتایا کہ یہاں جہاز کا نمبر بھرو ، یہاں یہ کرو، وہ کرو اور پھر پرمٹ ایشو کرو۔ اب میرے پاس بیس، پچیس، تیس پرمٹ ہیں۔ یہ پرمٹ کیا ہے گویا کلاشنکوفیں ہیں۔ اس وقت کینیڈین اور انگریز پائلٹ آتے تھے اور میں انہیں پرمٹ ایشو کرتا تھا۔ دو تین دن تو میں نے دیکھا، پھر میں نے کہا یہ تو میرے مطیع ہیں۔ میں انہیں ایسے کیسے جانے دوں۔ ایک کینیڈین سے کہا کہ پناہ گزینوں کو یہاں ڈراپ کر دیا ہے اور جہاز خالی جا رہا ہے، تو میں تمھارے ساتھ راولپنڈی چلوں گا۔ اس نے کہا" یس سر!" اس کی جان تو میری مٹھی میں تھی۔ اس نے مجھے اعلٰی درجے کی سیٹ دے دی اور کھانے پینے کی چیزیں بھی۔ اس طرح میں آتا جاتا رہا، اور ظلم جو ہوا، جس کی میں معافی مانگتا ہوں کہ میرے وہاں جانے میں اور آنے میں، واپسی پر چار چار جہاز لینڈ ہو کر کھڑے تھے۔ انہیں چونکہ پرمٹ نہیں ملا تھا، وہ کیسے فلائی کرتے۔ تو کلرک بادشاہ جو ہوتا ہے اور اس کی جو طاقت ہوتی ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں۔
میں نے عام طور پر جب بھی ہوائی سفر کیا۔ اس میں اللہ کی مہربانی میرے ساتھ یہ رہی کہ پتا نہیں کیوں منزل مقصود پر خیرو عافیت سے پہنچ جاتا تھا۔ لیکن اکثر و بیشتر میرا سامان نہیں پہنچتا تھا، یہ اکثر و بیشتر ہوا۔ اس میں خاص بات جس کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کروانا چاھتا ہوں، وہ یہ کہ 1950 ء میں، میں روم سے میڈرڈ گیا۔ میڈرڈ پہنچا اور وہاں اترا تو انہوں نے کہا کہ پتا نہیں آپ کاسوٹ کیس کہاں رہ گیا۔ بہرحال ہم اسے ٹریس کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں تو فلاں ہوٹل میں ہوں، مل جائے تو پہنچا دیجئے گا۔ اب میں ہوٹل میں تین کپڑوں میں بیٹھا ہوں۔ ایسے ہی تین کپڑوں میں جیسے خواتین کہتی ہیں میرے خاوند نے مجھے تین کپڑوں میں گھر سے نکلال دیا۔ اسی طرح جہاز نے مجھے گھر سے نکال دیا۔
اس وقت میرے پاس ایک پتلون تھی۔ ایکرلک کی۔ وہ نئ نئ چلی تھی جیسے پیاز کا چھلکا ہوتا ہے۔ بہت پتلی شاید آپ کو یاد ہو۔ وہ کھٹا کھٹ دھل جاتی تھی اور استری کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی اور ایک شرٹ اور ایک بنیان تھی۔ کل تین کپڑے تھے۔ رات کو تو میں زیرجامہ میں ہی سو گیا۔ گرمیوں کے دن تھے۔ صبح اٹھ کر وہ کپڑے پہن لیے اور میڈرڈ کی سڑکوں پر گھومتا رہا۔ شام کو ہوٹل آ کر لیٹ گیا۔ دوسرے دن کپڑے خراب ہونے کی فکر لاحق ہوئی۔ سنک میں ڈال کر پہلے پتلون کو دھویا، پھر شرٹ پھر بنیان کو دھو کر وہاں لٹکا دیا اور سوتے وقت یہ دعا کی کہ یا اللہ ! یہ سبح اٹھنے تک سوکھ جائیں۔
تین دن اسی طرح گزرے۔ مجھے اصل میں قرطبہ جانا تھا۔ وہاں میڈرڈ سے لاری جو پرانی وضع کی تھی، قرطبہ جاتی تھی۔ لاری کے اندر ہی انہوں نے بکرے دنبے وغیرہ رکھے ہوئے تھے۔ اس لاری میں سفر کیا۔ قرطبی پہنچے تو میں نے کہا یا اللہ ! جو میں پہنے ہوئے ہوں اب مجھے قرطبہ میں دنیا کی عظیم ترین مسجد میں جانا ہے۔ کچھ اور طرح کی کپکپی بھی طاری تھی اور میرے پاس صاف کپڑے بھی نہیں۔ وہاں نہا بھی نہیں سکتا تھا۔ مسجد موجود ہے اور میں وہاں پر نماز ادا نہیں کر سکتا۔ حکم ہی نہیں اس کا۔یہ ساری تکالیف میرے ساتھ چلتی رہیں، لیکن ایک بات کا مجھے احساس ہوا جو اب تک ہے، وہ یہ کہ اگر انسان کے پاس چیزیں اور سامان نہ بھی ہو، تو بھی زندگی گزر سکتی ہے اور وہ سات دن میں نے اس خوشی میں اور اس سکون و آرام میں گزارے کہ مجھے کسی چیز کے چوری ہونے کا خوف، نہ مجھے اس بات کی پروا کہ کچھ میرے اوپر کیا گزرے گی۔ اتنی آسودگی کے دن کسی بہت بڑے صوفی نے تو گزارے ہوں گے۔ میری زندگی میں بس وہ سات آٹھ دن ہی تھے۔
میں لوٹ کر روم آیا تو ہوٹل میں میرا سوٹ کیس پہلے ہی آیا ہوا تھا۔ میں پھر انہی لوازمات میں گم ہو گیا جن میں ہم سب غرق ہیں۔ ہمیں ان چیزوں نے پکڑا ہوا ہے۔ اس کے بارے میں ممتاز مفتی صاحب نے یوں لکھا ہے: " حاجی لوگ جو حج کرنے جاتے ہیں' وہ بیچارے چیزوں کے ساتھ اس طرح وابستہ ہوتے ہیں اور ان کی جان عذاب میں ہوتی ہے۔" اور ہم پاکستان کے لوگ اپنی چیزوض کے ساتھ، خواتین خاص طور پر اتنا منسلک ہو جاتی ہیں کہ بس خدا کی پناہ۔ جبکہ دوسرے ملکوں کے لوگ جن کی میں تعریف تو نہیں کیا کرتا، لیکن یہ ماننا پڑتا ہے کہ وہ عام روزمرہ کی چیزیں رکھتے ہیں اور باقی نہ ان کی کوٹھیاں ہیں نہ مربعے ہیں نہ سامان نہ کچھ۔ میں امریکہ میں ایک " روڑی " کچرے سے قیمتی اور بالکل صحیح حالت میں لیپ ٹاپ لایا تھا۔ امریکہ میں ہمارا یہی کام تھا صبح سویرے روڑی پر چلے جاتے۔ ایک اعلٰی درجے کا صوفہ وہاں پڑا تھا، لیکن میں کیا کرتا۔ دیکھ دیکھ کر دکھی ہوتا تھا۔ صوفے پر بیٹھ کر جھولے لے کر آجاتا تھا۔ لیکن لیپ ٹاپ میں اٹھا لایا۔ بالکل چلتا ہوا۔ نیا ماڈل آنے پر کسی نے پھینک دیا ہو گا۔ ہم ابھی تک چیزوں کے ساتھ بہت بری طرح وابستہ ہیں اور آگے پیچھے ہمارے چیزیں ہی چیزیں ہیں، جو جان کا عذاب بنی ہوئی ہیں۔ میں نے جو چند روز چیزوں کے بغیر گزارے، وہ کمال کے دن تھے۔
جب میں اس کوٹھی میں بیٹھا ہوا تھا، جس کا میں نے ابتدا میں ذکر کیا تھا اور جو خوبصورت تھی اور کمرے میں ایک اعلٰی درجے کا فانوس لٹک رہا تھا، جس کے نیچے ایک نوجوان لڑکا اپنے او لیول کی تیاری کر رہا تھا اور اس کا ٹیوٹر اسے پڑھا رہا تھا، تو مالک مکان داخل ہوا۔ اس نے آ کر کہا، دیکھا اشفاق صاحب! اس نے چیزوں سے بھرے کمرے کے بارے میں کہا، کیا کمرہ اور اس کی سجاوٹ پسند آئی؟ میں نے کہا، جی سبحان اللہ ایسی چیزیں تو آدمی خواب میں بھی نہیں دیکھتا۔ وہ ماسٹر سے کہنے لگا، آپ بھی اپنا بوریا بستر اٹھا کر اس کمرے میں آ گئے ہیں۔ اس نے کہا، جی! یہاں روشنی بہت اچھی ہے۔ پڑھانے میں آسانی رہتی ہے۔ میرے دوست نے کہا، وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ بغیر میری اجازت کے آ گئے ہیں۔ یہ اتنا اعلٰی درجے کا فانوس ہے اور ایسی خوبصورت روشنی جو تجلی کی طرح ہے یہ ان کے الفاظ تھے ہمارے اشفاق صاحب بھی گواہی دے رہے ہیں۔
اس نے کہا، ماسٹر صاحب ! یہ ساری روشنی جو آپ کے لیے ہے، یہ صرف ایک سمیسٹر کے لیے ہے، پھر تو آپ نے چلے جانا ہے۔ جتنا انجوائے کرنا ہے کر لیں۔ وہ استاد تھا تو غریب سا آدمی مگر اس نے کہا، صاحب! یہ آپ ٹھیک فرما رہے ہیں۔ یہ ایک سمیسٹر کے لیے ہے، پھر تو میں یہاں نہیں ہوں گا۔ مگر آپ کے لیے بھی یہ سازو سامان زیادہ سے زیادہ چند سمیسٹروں کے لیے ہے۔ آپ کے دو ہو جائیں گے، تین ہو جائیں گے۔ ہم دونوں بھی اسی طرح دراصل ایک ہی کشتی میں سفر کر رہے ہیں۔ اس کی بات مالک کو بری لگی، لیکن بات تھی اتنی مدلل کہ مالک کہنے لگے، کوئی بات نہیں آپ آرام سے بیٹھیں۔ اتنے ناراض نہ ہوں۔
تو جناب! یہ چیزیں انسان کو ایسا پکڑتی ہیں اور ان میں یہ بڑا کمال ہے کہ آدمی انہیں جتنا بھی جھٹکے، جس طرح سے " گوکھڑو" کے کھیت میں " پکھڑا" کپڑوں کے ساتھ چمٹ جاتا ہے۔ آدمی اسے فوری نہیں جانتا، لیکن بعد میں یہ آپ کو تنگ کرتا ہے۔ آدمی طبعی طور پر بہت اچھا ہوتا ہے۔ بڑے پیارے لوگ ہوتے ہیں۔ آپ ان سے مل کر دیکھیں، لیکن ان کے اوپر چیزوں اور دکھاوے کا اتنا بوجھ پڑ جاتا ہے ، جیسے خالی کنستر "چبا " ہو جاتا ہے۔ وہ " چبے" ہو جاتے ہیں۔ آپ لوگوں پر نگاہ ڈالیں وہ لوگ جو طبعا بہت اچھے ہوتے ہیں، مزاجا بھی اچھے ہوتے ہیں۔لیکن دکھلاوے نے ان کے اوپر بوجھ ڈال رکھا ہے اور یہ حیرت کی بات ہے کہ اچھی اور قیمتی، دلکش، خوبصورت چیزوں کا ہی مسئلہ نہیں ہوتا، ایک اور طرح کی چیز بھی اپنا قبضہ جمالیتی ہے۔
جب ہم نور والے ڈیرے پر ہوتے تھے، تو ہمارے بابا جی کے پاس ایک نوجوان آیا۔ بڑا اچھا پڑھا لکھا۔ اس نے کہا، جی! میں نے دنیا ترک کر دی ہے اور میں نے رہبانیت کا راستہ اختیار کر لیا ہے اور میں ان جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہتا۔ آخر یہ سب کچھ ہے کیا؟ میں وہاں بیٹھا تھا۔ نوجوانی کے زمانے میں تمیز نہیں ہوتی کہ بزرگ یا جس کو مخاطب کیا گیا ہے، وہی جواب دے اور وہی جانتے ہیں کیونکہ علم والے ہوتے ہیں۔ بس میں بھی بول پڑا ۔ میں نے کہا، تم کو شرم آنی چاہیے۔ تم نوجوان ہو۔ کچھ کرنا چاہیے۔ ہمت سے جدوجہد سے کوشش سے یہ تم کیا کر رہے ہو، تمہیں پتا ہے تمھارے اسلام میں دنیا ترک کرنے کی اجازت ہی نہیں اور تم ترک دنیا کر رہے ہو۔ کتنی بری بات ہے۔
میری ساری گرمجوشی دیکھ کر بابا جی مسکرائے اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا، بسم اللہ! بسم اللہ!! جو کچھ آپ کرنا چاہتے ہیں ضرور کریں۔ آپ کی راہ میں کوئی حائل نہیں ہو گا۔ میں حیران ہوا کہ اتنے بڑے بزرگ، ایسے بابا جی اور کیا رائے دے رہے ہیں۔ وہ نوجوان چلا گیا۔ مجھ میں جرآت ہوتی تھی بات کرنے کی، میں نے کہا بابا جی! آپ نے یہ کیا کہا؟ کہنے لگے، کوئی بات نہیں۔ ان کو آسانیاں جو عطا کرنی ہیں ، یہ ان کا مقولہ تھا، اس طرح ہی آسانیاں عطا ہوتی ہیں۔ آپ نے جو کہا ٹھیک کہا وہ اپنی جگہ ٹھیک ہے، لیکن آسانیاں عطا کرنی بھی لازم ہیں۔ جیسے وہ نوجوان خوش ہو ایسے ہی ٹھیک ہے۔ دو تین ہفتے بعد وہ نوجوان پھر آیا اور بری خوشی کے انداز میں کہنے لگا، لو بابا جی! اللہ کے فضل سے سارا کام ٹھیک ہو گیا۔ ترک دنیا کے لیے میرا تہیہ اور میری ڈیٹ ساری فکس ہو گئی۔ میرا ایک سوٹ رہ گیا ہے۔ میں نے کہا کون سا سوٹ؟ کہنے لگا، میں نے بوری کا سوٹ ، پاجامہ اور کرتہ باری کا بنایا ہے۔ وہ بن جائے تو اس کے بعد میں جنگل کو نکل جاؤں گا اور پھر کہنے لگا، میرا کشکول بھی آ گیا ہے۔ یہ کالے رنگ کا جو کشکول آپ نے دیکھا ہے یہ جرمنی میں بنتا ہے، جو عام فقیر لیے پھرتے ہیں۔ میں نے ایک بار ڈیپارٹمنٹل سٹور والے سے پوچھا کہ کہاں سے ملتا ہے؟ کہنے لگے، جی ہم جرمنی سے امپورٹ کرتے ہیں۔ میں نے کہا فقیر برے سیانے ہیں۔ برے باذوق ہیں جو جرمنی سے منگواتے ہیں۔ اس نوجوان نے کہا کہ " کھونڈے" لٹھ کو بھی گھنگھرو لگ گئے ہیں۔
جب اس نے یہ چیزیں گنوائیں تو میں نے کہا بابا جی! آپ بہتر سمجھتے ہیں۔ مگر یہ نوجوان تو الٹا عذاب میں پڑ گیا ہے۔ یہ تو چیزوں کے چکر سے نکل ہی نہیں سکا۔ یہ تو الٹا چیزوں کو جمع کر رہا ہے۔ انہی چیزوں کو چھوڑ کر جانا چاہتا ہے۔ اس نے تو دوسری بلا گلے میں ڈال لی ہے۔ جب اس نے چیزوں کی تیاری کی بابت اظہار کیا تو بابا جی نے کہا، اتنی " کھیچل " مشقت جو کرو گے، اتنی مشکل جو اٹھاؤ گے، ایسے ہم سے دوری اختیار کرو گے تو دفع کرو ترک دنیا کو اور دفع کرو رہبانیت کو جیسے بیہودہ ہم ہیں ویسے تم ہو جاؤ۔ یہیں رہا کرو، لنگر کھایا کرو اور چین کی نیند سویا کرو۔ تب اس کی سمجھ میں آئی بات۔
انسان بعض اوقات یہ سوچتا ہے کہ جناب اگر میں یہاں سے جگہ چھوڑ کر اسلام آباد چلا جاؤں، تو ساری مشکلات کا حل نکل آئے گا یا بچے کی شادی ہو جائے تو معاملات حل ہو جائیں گے۔ جب آپ اسلام آباد جائیں گے تو آپ اپنا آپ بھی تو ساتھ لے جائیں گے نا۔ جو ان ساری چیزوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے، کشش رکھتا ہے۔ آپ تو دراصل مقناطیس ہیں اور مشکلات تو وہ لوہے لئ ذرے ہیں، جو آپ سے چمٹے ہیں۔ شہر بدلنے سے، لباس تبدیل کرنے سے، مزاج بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ وہ تو ایک خاص طرح کی رحمت ہوتی ہے، جو بندہ اللہ سے درخواست کرے کہ مجھ پر خصوصی فضل فرمایا جائے، تاکہ میں اس عذاب سے نکلوں۔ تب نجات ملتی ہے، لیکن چیزیں تبدیل کرنے سے یا چھوڑنے سے یا نئ چیزیں اختیار کرنے سے ایسے ہوتا نہیں۔ یہ بات تھی جو میرے ذہن میں آ گئ۔ تو میں نے آپ کے حضور عرض کر دی۔ آپ کی محبت اور توجہ کا بہت بہت شکریہ۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ!!
 

ماوراء

محفلین
مٹکی

مٹکی​

ہم سب کی طرف سے سب کو سلام پہنچے۔
یہ آج ہی کے دن تھے، اور تقریباً ایسا ہی موسم تھا، اور ایسے ہی ماہ و سال تھے، لیکن وقت اس سے بہت پہلے کا تھا، اور ہم اس آرزو کو لے کر چل رہے تھے کہ ایک ایسا ملک بنے گا۔۔۔ایک ایسا سنہرا دیس۔۔۔جس کے اندر لوگوں کو آسانیاں ملیں گی، اور وہ ذہنی طور پر، روحانی طور پر اور نفسیاتی طور پر آسانیوں کے اندر زندگی بسر کریں گے، کیونکہ ہم اس دعویٰٰ کو لے کر چلنے والے تھے کہ یہ ایک ایسا ملک ہو گا جو ایک مثالی دیس کی صورت میں ہو گا۔۔۔اور ہم لوگوں کو، دوسرے ملکوں کو یہ بتا سکیں گے کہ دیکھو پیارو! حکمرانی، جہاں بانی اس طرح سے کی جاتی ہے۔۔۔۔، اور جس طرح سے آپ لوگ اپنے اپنے ملکوں میں کرتے ہیں۔ وہ کوئی زندگی گزارنے کا، زندگی بسر کرنے کا، کوئی ایسا کمال کا فن نہیں ہے جس کا کہ آپ دعویٰ کرتے ہیں۔۔۔یہ ایک ایسا دور تھا، اور ایسا عبد تھا، اور ہم اپنے انداز میں تھے ہماری سرشت میں، اور ہماری سوچ میں، اور ہماری سائیکی میں، اور ہمارے دل میں ایک عجیب بات تھی۔۔۔۔۔جیسا کہ میں نے پہلے ایک دفعہ عرض کیا تھا کہ ہم دیئے میں سے دینے کے عمل پر، اور دیئے میں سے دینے کے فن پر عمل پیرا تھے، اور ہم جانتے تھے، اور ہمیں اس بات کا بہت پکا شعور تھا کہ زراعتی ملک ہونے کی وجہ سے یا زرعی علاقہ ہونے کی وجہ سے جب تک ہاتھ سے، اور پلے سے کچھ نہیں دیا نہیں جائے گا، اس وقت تک کسی بھی قسم کی فلاح، اور ترقی نہیں ہو سکے گی۔
کسان اپنے گھر کے اندر جا کر اپنی بھڑولی کھول کر اس میں سے اناج نکال کر، یا بوری کی تناویں کاٹ کر اس میں سے دانے نکال کے، جھولی بھر کے کھلے میدان میں جاتا تھا، اور وہ اچھے بھلے دانے۔۔۔۔اچھا بھلا اناج جس سے اس کے گھرانے کی زندگی کا سامان بڑی آسانی سے کیا جا سکتا تھا، باہر لے جا کر یا تو پورے کے ذریعے یا بیج در بیج۔۔۔۔۔یا چھٹے کے ذریعے ایک عجیب و ٍریب زمین پر پھینک کر اس امید پر، اور اس سوچ پر چلا آتا تھا کہ اس کے اندر سے اب ایسے ہی بے شمار دانے، ستر، ستر اور سات سات سو، اور سات سات ہزار ہو کر نکلیں گے۔ یہ پہلے دینا ہوتا ہے، پھر اس کے بعد لینا ہوتا ہے۔ یہ تصور ہمارے ساتھ تھا کہ دیں گے، تو ہم دے چکنے کے بعد کیاریوں دروازوں میں سے چھوٹے چھوٹے پودے جھانک کر دیکھتے تھے کہ گھر والے کھیت میں آئے ہوئے ہیں کہ نہیں، یا ہم اکیلے ہی نشوونما پا رہے ہیں۔ تو کبھی کبھی بونے والے وہاں موجود تھے، اور کبھی نہیں بھی ہوتے تھے، لیکن وہ پودے نشونما پاتے چلے جاتے تھے، اور جب وہ بڑے ہوتے تھے، تو وہ اس سے فائدہ اٹھاتے تھے۔
تو دوستو! ہمارے پاس وقت کچھ بھی نہ تھا۔ ہم اپنی دولت، شہرت، عزت، شفقت، محبت، مروت، یہ سب کچھ لے کر اپنے وطن کی بنیادوں میں ڈالنا چاہتے تھے، لیکن ہمارے پاس سوائے ہمارے بدنوں کے، ہمارے وجود کے، اور سوائے ہمارے اپنے خون کے کچھ بھی نہ تھا۔ ہم نے اپنے وجود کو، اپنے جسم کو، اپنے خون کو اس وطن کی بنیادوں کو پیش کیا۔ جو الحمدللہ اس نے بڑی خندہ پیشانی سے قبول کیا اور یوں اس ملک کی بنیاد پڑی۔ یہ تصور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا، اور آہستہ آہستہ اس کے ساتھ ساتھ یہ تصور بھی دھندلانے لگا کہ دینا اتنا ضروری نہیں ہے، اور ان کھیتوں میں ان مرغزاروں میں، ان باغوں میں ایسے لوگ بھی آئے جنہوں نے کاشت میں کوئی مدد نہ کی۔ البتہ اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے کچھ ضرورت سے زیادہ ہی اس کی طرف پل پڑے، اور یہ ہمارے ذہنوں سے نکلتا گیا کہ ہمیں دینا بھی ہے، کیونکہ دیے بغیر کام آگے نہیں چل سکتا، اور جوں ہی دینے سے ہاتھ روکتے ہیں، تو کہیں نہ کہیں اس کا اثر ضرور پڑتا ہے، اور ویرانی، اور بربادی کے سامان ضرور شروع ہو جاتے ہیں۔
چند دنوں کی بات ہے۔ آپ کے اسی ملک میں، میں ایک پروگرام دیکھ رہا تھا، اور میں پوری توجہ اس پر نہیں دے سکا، چونکہ کان میرے تیز ہیں، اور نگاہ اب کمزور ہونے لگی ہے، لیکن وہ بات جو بھی، وہ میں نے ساری کی ساری عمر سن لی تھی۔ کوئی ڈاکٹر شاہ۔ کمپئر نے سوچا تھا کہ یا شاید حقیقت بھی تھی کہ شاہ اتنے عمر رسید ڈاکٹر نہیں ہیں۔ اتنے بوڑھے، Old Sergeon نہیں ہیں، لیکن اس چھوٹی سی عمر میں انہوں نے بہت سارے آپریشن کیے۔ اتنے ہزاروں آپریشن کیے کہ گینز بک میں اس کا نام آتا ہے، یا آنے والا ہے، یا آئے گا۔ تو میری توجہ ان کی طرف ہوئی۔ وہ اچھے سے سمارٹ سے، پیارے سے، اچھی گفتگو کرنے والے ایک ڈاکٹر تھے، اور وہ یہ بتاتے رہے کہ میں نے کتنی تیزی سے، کتنے سارے آپریشن کیے، اور اتنی تیزی سے کیوں کیے۔ میں مال بھی بنانا چاہتا تھا، اور ایک یہ بھی کہتے تھے کہ میری انگلیوں میں بھی کچھ اس قسم کی ایک لگن آباد تھی، ایک Creativity تھی، ایک تخلیق تھی کہ میں جلدی سے جلدی زیادہ سے زیادہ کام کرنے کا خواہشمند ہوں۔ تو کمپیئر نے پوچھا کہ آپ یہ بتائیں کہ آپ کی زندگی کا کوئی بہت مشکل آپریشن تھا؟ تو انہوں نے کہا، یوں تو بہت سارے آپریشن مشکل ہوتے ہیں، لیکن ایک آپریشن بہت مشکل تھا جس نے بہت زیادہ وقت کیا، اور میری بہت زیادہ توجہ لی، اور میں بہت سٹپٹایا، لیکن میں بڑی کوشش کے ساتھ، اور تحمل کے ساتھ اس پر لگا رہا۔
آپ لوگوں سے یہ بات کرتے ہوئے مجھے خواجہ دل محمد کا ایک شعر یاد آیا ہے۔ خواجہ دل محمد ہمارے بہت کمال کے شاعر تھے، اور مجھے بہت افسوس ہے کہ لوگ اب انہیں نہیں جانتے۔ خاص طور پر ہماری نئی نسل تو ان سے بالکل واقف نہیں ہے، لیکن وہ بہت بڑے شاعر تھے۔ وہ ایک جگہ پر سرجن کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سرجن کیا ہوتا ہے۔۔۔۔یعنی آپریشن کرنے والا کیا ہوتا ہے۔ تو ویہ کہتے ہیں کہ “ سرجن کی صفت اور خوبی یہ ہے کہ نظر باز کی، سر فلاطون کا، جگر شیر کا، اور ہاتھ خاتون کا۔۔۔۔“یعنی سرجن وہ ہوتا ہے جس کی نظر باز کی ہوتی ہے۔ Plato کی طرح اس کا سر غور کرتا ہو۔ اس کی نظر باز کی ہو، اور ہاتھ خاتون کا۔۔۔۔تو ان سرجن کو دیکھ کر کچھ ایسا ہی لگتا تھا کہ وہ اس انداز کے ڈاکٹر ہیں۔ کہنے لگے کہ میں اپنے سرجری ہاسپٹل میں تھا کہ اچانک وہاں پر ایک اپاہج آدمی کو جو ابھی اپاہج ہوا تھا۔ کوئی ایک آدھا گھنٹا قبل، اسے چارپائی پر ڈال کر لائے۔ وہ ایک نوجوان تھا جس کی دونوں ٹانگیں، ایک تیز دھار آلے سے کٹ گئی تھیں، اور اس کے ساتھیوں نے اس کی رانوں پر بڑی مضبوطی کے ساتھ اپنے رومال یا کوئی رسیاں باندھی تھیں۔ تاکہ جریانِ خون نہ ہو اور وہ جب میری پاس پہنچا تو میں حیران تھا کہ میں اس کا کیا کروں۔ اس کے فوراً بعد ہی دو آدمی، بھاگے بھاگے آئے، اور انہوں نے کہا کہ جی اس کی دونوں ٹانگیں مل ھئی ہیں جس تیز دھار آلے سے کٹی تھیں، مشین میں کام کرتے ہوئے اس کی دونوں ٹانگیں ران سے نیچے کٹ کر دور جا گری تھیں، تو یہ واقعہ اور یہ سانحہ گزرا تھا، پاکستان سٹیل ملز میں۔ ایک کوئی بڑا تیز چکر گھوم رہا تھا۔ کٹاؤ دار جس میں وہ کام کرتے ہوئے قریب آیا تھا کسی کام کی غرض سے۔ وہ مزہ دور بڑا ذہین، بڑا قابل اور بہت سمجھدار تھا، لیکن وہ اس کی لپیٹ میں آ گیا، اور لپیٹ میں آتے ہی اس کی دونوں ٹانگیں کٹ گئیں، اور بہت جا گریں، اور اس کے ساتھیوں نے تلاش کر لیں، اور وہ اس کو ڈاکٹر صاحب کے پاس لے کر آ گئے۔ تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ وہ میرے لیے بڑے امتحان کا وقت تھا۔ میں، اور میرے ساتھی، اور میرے اسسٹنٹ میرے ساتھ لگے۔ ہم کوئی مسلسل ١٨ گھنٹے اس پر کام کرتے رہے، اور اللہ کا فضل یہ ہوا کہ ہم ان کی دونوں ٹانگیں جوڑنے میں کامیاب ہو گئے۔ اب خطرہ، اندیشہ، شائبہ یہ تھا کہ بہت ممکن ہے کہ Nerves اس کے ساتھ ٹھیک طرح سے نہ جڑی ہوں، جو شریانیں، اور دریدیں ہیں، وہ اپنی جگہ پر نہ لگی ہوں، کیونکہ یہ آپریشن ہی بہت بڑا تھا، لیکن ہم خدا سے دعا مانگ کے اس کام پر لگے ہوئے تھے، اور جب آپریشن ختم ہوا تو ہم ڈاکٹر بیٹھ کر آپس میں باتیں کرنے لگے تو وہ جو اس کے دوسرے ساتھی مزدور تھے انہوں نے بتایا کہ جب ہم اس کو چارپائی پر لے کر چلے ہیں تو وہ صاحب جو تھے، جن کا نام شکور تھا، وہ تھوڑے سے ہوش میں تھے۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو بلا کر کہا کہ مشین بند نہ کرنا، کیونکہ اگر یہ مشین ایک دفعہ بند ہو گئی تو اس کے چلانے میں ١٠ لاکھ کا خرچہ اٹھتا ہے۔ تو اس مشین کو بالکل بند مت کرنا۔ میں نے چاہتا کہ میرے ملک کو یا میرے اس کارخانے کو کوئی نقصان پہنچے۔ تو اس کے بعد وہ نیم بے ہوشی میں چلا گیا۔ اب میرا مقصد اس سارے واقعہ کو سنانے کا یہ ہے کہ وہ کون آدمی ہے، اور وہ کس طرح سے اس ملک کے ساتھ وابستہ ہے، اور ہم کیا کریں، اور کدھر جائیں کہ ہم اس کو سلام کر کے آئیں، اور جب تک وہ زندہ رہے، اور ہم زندہ رہیں، ہمارے اور اس کے درمیان سلام کا یہ سلسلہ قائم رہے۔ اس قسم کے جو لوگ ہیں، انہوں نے پاکستان بنایا ہے۔ اس کو آگے بڑھایا ہے۔ وہ اس کو لے کر چلے اور اس کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ پھر ایک دردناک بات جو میں آپ کی خدمت میں ضرور عرض کروں گا۔ وہ یہ کہ اس کارخانے میں، اس سٹیل مل میں، اسی قسم کے پاکستانیوں نے جو اس سے بہتر تعلیم یافتہ تھے، وہاں سے اتنا کچھ کھسوٹا، اور جس شدت کے ساتھ لوٹا، اس کی خبریں آپ نے اخباروں میں پڑھی ہوں گی، اور خاتون جنہوں نے بڑا اعتراض کیا تھا کہ کیوں میری فوٹو کھینچی گئی ہے۔ کیا ہو گیا اگر میں نے ١٠۔١٥ کروڑ نکال لیا ہے تو؟
تو یہ دردناک کہانی بھی ساتھ لے کر چلنی پڑتی ہے۔ ایک بات البتہ ١٤ اگست کے رشتے کے حوالے سے ہے۔ کافی دیر کی بات ہے۔ کبھی کبھی مجھ سے ایسی باتیں سرزد ہو گئی ہیں، اور اب بھی ہوتی ہیں۔ وہ یہ کہ میری بڑی آرزو تھی کہ کبھی کوئی ١٤ اگست ایسا منایا جائے۔ جس میں ان شیر بہادروں، اور ان Creative Person کو جنہوں نے اس کی بنیاد ڈالی، اس کی تعمیر کی ان کو بھی آگے لایا جائے، اور آگے بٹھایا جائے۔ یہ ایک میری بڑی آرزو تھی۔ جب بھی تھی، اور اب بھی ہے۔ یہ آرزو، اور یہ تمنا، اور یہ خواہش لے کر میں وقت کے President کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مجھے خوشی، اور فخر ہے کہ انہوں نے مجھے شرفِ ملاقات بخشا۔ بڑی مہربانی فرمائی یہ ہمارے جنرل ضیاءالحق صاحب تھے میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا۔ میں نے کہا کہ سر اس مرتبہ جب ہم ١٤ اگست منائیں تو کچھ اس طرح سے ہو کہ جہاں آپ جھنڈا چڑھاتے ہیں، اور عمائدینِ ملک، اور غیر ملکوں کے سفیر، اور وزراء، اور نمائندے اکھٹے ہوتے ہیں، وہاں پر ایک Sitting Arrangement کچھ اس طرح کا بھی ہو کہ کرسیوں کے اس Lay Out میں اب کی بار اول قطار جو کرسیوں کی ہو، وہ ان متقی لوگوں کی ہو جو مال و دولت کے اعتبار سے یا نام و نمود کے اعتبار سے جانے، اور پہچانے نہیں جاتے، لیکن ان متقی لوگوں کو دین، اور قرآن کی پروا ہے۔ دین، اور قرآن کہتا ہے کہ “ تم میں کوئی بڑا نہیں، تم میں کوئی Superior نہیں، ماسوائے اس کے کہ تقویٰ رکھتا ہو، “ تو کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم ٢٢ کرسیاں آگے لگائیں، اور ٢٢ تقویٰ والے لوگ ہوں۔ سفید دودھیا چادروں والے۔ چھوٹی چھوٹی ان کی پگڑیاں ہوتی ہیں، وہ باندھ کر وہ تشریف فرما ہوں، اور ان کے بعد غیر ملکی سفیر، اور باہر کے نمائندوں کی ہوں۔ اس کے بعد پھر کوئی، اور تاجر وغیرہ، اور ہم جو آرٹسٹ لوگ خوامخواہ زبانی باتیں کرنے والے ہیں، ہم سب سے آخر میں ہوں، اور ہم سے بھی آخر میں بیورو کریٹس ہوں۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ تو وہ کہنے لگے کہ اشفاق صاحب میری بھی یہی آرزو ہے۔ آپ بہت اچھی Suggestion لے کر آئے ہیں۔ لیکن تقویٰ والے لوگ ہم کہاں سے لیں۔ تو میں نے کہا کہ سر تقویٰ والے لوگ تو ہمارے ارد گرد بہت سے ہیں۔ آپ کے اس محل میں بہت سارے مالی ایسے ہیں۔ بہت سارے بابے ایسے ہیں۔ بہت کمال کے پیارے لوگ ایسے ہیں جن کی وجہ سے میرے پیارے ملک کی بنیادیں استوار بھی ہیں، اور پائیدار بھی ہیں۔ وہ سب دعا دینے والے لوگ ہیں۔
آج سے کوئی پانچ چھ دن پہلے میں لاہور کے میوہاسپٹل میں گیا۔ مجھے کوئی ضرورت تھی۔ وہاں مجھے رکنا پڑا تو اس کے کینسر کے وارڈ میں ایک گاؤں کی اچھی سی، جسے انگریزی میں Well Meaning کہتے ہیں، اچھے سبھاؤ والی، پیاری سی شکل کی ایک خاتون بیٹھی تھیں۔ تو میں نے اس سے پوچھا کہ کیوں آئی ہو یہاں بی بی؟ وہ کہنے لگی، مجھے کینسر کی شکایت ہے، اور مجھے یہاں تھیراپی کے لیے آنا پڑتا ہے۔ کہنے لگی کہ بھا جی یہ بڑا تکلیف دہ عمل ہے۔ جس سے میں گزر رہی ہوں، لیکن میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں، اور جب میں سویرے سب سے پہلے اٹھتی ہوں، تو میں نماز پڑھنے کے بعد دعا میں سب سے پہلے اس دنیا کے بندوں کے لیے دعا کرتی ہوں۔ کہ یا اللہ کل عالم کی خیر ہو۔
ہماری نانیاں، دادیاں اکثر یہی دعا مانگا کرتی تھیں کہ کل عالم کی خیر ہو۔ اللہ ان سب کا بھلا کرے۔ اور پھر یہ کہتی ہوں کہ یا اللہ، میرے پاکستان کی خیر ہو، اور اس کے بعد میں کہتی ہوں کہ یا اللہ حکمرانوں کی خیر ہو۔ تو میں نے ایک اچھے جرنلسٹ کی طرح کہا، حکمرانوں کی خیر کیوں ہو؟ وہ تو بڑے خراب ہوتے ہیں۔ کہنے لگی، بھا جی اگر حکمران ہوں گے۔ جیسے تیسے بھی ہوں، تبھی گاڑی آگے چلے گی نا۔ اللہ ان کی بھی خیر کرے، اور جہاں جہاں ان کی کمیاں ہیں، ان کو بھی اللہ پورا کرے۔ میں ان کے لیے ضرور دعائیں مانگتی ہوں، تو ایسے ایسے بندے بھی موجود ہیں۔ ہاں اگر وہاں کرسیاں رکھی جائیں تو میں ان بی بی کو بھی ضرور تشریف لانے کے لیے کہتا، تو یہ آرزو تھی کہ یہ کرسیاں ہوتیں تقویٰ کی بھی۔ تو اللہ نے ہی تعریف کی ہے، اور اللہ نے ہی اس کو پسند فرمایا ہے۔ تو جنرل ضیاءالحق نے کہا کہ آپ نے بالکل ٹھیک کہا ان لوگوں کو آگے لانا چاہیے لیکن اشفاق صاحب یہ Tradition نہیں رہی۔ یہ رسم نہیں رہی۔ ہم کیا کریں، اور کیسے کریں۔ آپ مل کر ہمارے ساتھ کام کریں۔ میں نے کہا کہ جی میں ہر طرف سے حاضر ہوں۔ تو ہم نے یعنی میں نے، اور مرحوم نے بھی(اللہ ان کے درجات بلند کرے) اپنے طور پر زور لگایا۔ یہ سوال پیش کیا، لیکن وہ جو بڑے لوگ ہوتے ہیں نا، انہوں نے کہا کہ سر آپ کیا فضول بات کرتے ہیں۔ یہ تو طے شدہ ہے، پلان سارا تیار ہو گیا ہے، اس کے چارٹ بن گئے ہیں۔
یہ لوگ جو آپ کے ارد گرد موجود ہیں، اور جن سے آپ لوگ استفادہ کر رہے ہیں، لیکن آپ کو علم نہیں ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ اپنی ذات سے، اپنے علم سے، اپنی تعلیم سے، اپنی خوبصورتی سے، اپنی پاور سے اس ملک کو فائدہ پہنچا رہے ہیں نہیں۔ وہ لوگ جو خاموش رہ کر کام کر رہے ہیں۔ وہ لوگ جو آپ کے قریب سے گزر جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو دعائیں دیتے ہیں، اور دعائیں سمیٹتے ہوئے آپ کے اردگرد چکر کاٹتے رہتے ہیں وہ لوگ، تقویٰ والے ہیں جن متقی لوگوں سے ہم واقف نہیں ہیں اور جن سے ہم واقفیت حاصل کرنا نہین چاہتے۔ تو میں آخر میں یہ عرض کروں گا کہ جب تک گھر سے دانا دانا لا کر بکھیرا نہیں جائے گا، واپس نہیں ملے گا۔
پیارے لوگو! ہم سندھ کے مشہور Desert تھر پارکر میں تھے، اور کافی دور نکل گئے تھے۔ صحرا کو تو آپ جانتے ہیں کہ جب وہاں کوئی آدمی پھنس جائے تو بڑی پیاس لگتی ہے۔ ننگر پارکر ایک جگہ ہے۔ اس کے بعد انڈیا کی سرحد شروع ہو جاتی ہے۔ اس کے سامنے رن کچھ ہے، دلدلی قسم کی جگہ ہے، تو ہم راستہ بھول گئے۔ میں، اور ممتاز مفتی۔ ہم کافی عمر کے تھے، مگر جو ہمارا گروپ تھا، وہ Younger تھا۔ اب پیاس بڑی شدت کی لگی، اور خطرہ بھی پیدا ہو گیا کہ شاید Desert کے اس کارنر میں کوئی پانی بھی ایسا نہ ملے گا جو کہ پینے کے قابل ہو۔ دلدلی علاقہ تھا۔ چل تو ہم رہے تھے، اور مشکل بھی ہمارے ساتھ تھی، اور علاقہ بھی ایسا تھا جو کہ نہایت نامانوس تھا۔ وہاں ایک بڑا سا درخت تھا۔ ایک بڑی عجیب قسم کا درخت، جو شاید صحرا کے اس دلدلی علاقے میں ہی ہو سکتا تھا، اور اسعلاقے کی سرحد کے قریب ہی سرخ رنگ کے پہاڑ تھے۔ وہ پہاڑ جن سے ہماری بادشاہی مسجد بنی ہوئی ہے۔ عجیب جگہ تھی۔ ہم خوفزدہ بھی تھے۔ تو جب ہم نیچے پہنچے تو آپ سن کر حیران ہوں گے کہ وہاں ایک ہینڈ پمپ لگا ہوا تھا تو میں نے کہا کہ ممتاز یہ تو پانی ہے۔ یہ اللہ نے ہی ایسا لگایا ہے۔ اس نے کہا کہ کہیں یہ پانی زہریلا نہ ہو۔ خیر وہیں پر ایک پرانی وضع کی مٹکی سی بھی تھی مٹی کی، اور اس پر بہت ساری کائی جمی ہوئی تھی۔ اس کے گلے میں دھاگا ڈال کر ایک کارڈ سا بھی لٹک رہا تھا، جس پر سندھی، اور اردو میں ایک عبارت تحریر تھی کہ خبردار! اس مٹکی کا پانی نہ پینا۔ سب سے پہلے آپ اس مٹکی کو اٹھا کر اس کے پانی کو نلکے میں ڈالیں اور جب وہ پورا بھر جائے تو پھر آپ ہینڈل چلائیں، اور پانی پی لیں۔ چنانچہ ہم نے مٹکی اٹھائی۔ پانی اس میں ڈالا، ہینڈل چلایا، اور پانی فٹافٹ چلنے لگا۔ اور ہم سب نے پیا، لیکن اس کے ساتھ ہی ایک آخری Instruction تھی۔ یاد رکھیے! جاتے وقت اس مٹکی کو پانی سے بھر کر رکھ کر جائیں۔ اگر آپ نے پانی لیا ہے تو آپ کو پانی دینا بھی پڑے گا، اور رکھنا بھی پڑے گا، ورنہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سوکھ جائے گا، اور وہ لوگ جو اس علاقے میں آئیں گے، وہ ٹھنڈے پانی سے محروم ہو جائیں گے۔۔۔۔الحمدللہ۔۔۔۔اس مٹکی کے حوالے سے ایک بات مجھے معلوم ہوئی جو آج مجھے بڑی دیر کے بعد یاد آئی۔ آپ کے سامنے عرض کر دی۔ اللہ آپ کو بہت ہی آسانیاں دے، اور آسانیاں تقسیم کرنے کاشرف بھی عطا کرے، اور وہ مٹکی آپ کے ساتھ جائے۔ ہر وقت، اور ہر گھڑی جس میں سے ٹھنڈا پانی ملتا ہے۔ اللہ حافظ۔
 

شمشاد

لائبریرین
کلچر

زاویہ پروگرام میں بڑی دیر سے ہم بابوں کی باتیں کرتے رہے ہیں، اور یہ بابے اپنے عہد کے فلسفی، اور دانشور، اور ضمیر کے ساتھ گہرا تعلق رکھنے والے لوگ تھے، جنہوں نے اپنے ارد گرد، اپنے ماحول سے، اپنے زمینی ماحول سے، بہت ساری خوشیاں، اور آسانیاں اکٹھی کر کے ہمارے حوالے کیں، اور ورثے میں ہمارے لیئے بہت کچھ چھوڑ گئے۔ مجھ سے خاص طور پر فرمائش کی گئی کہ کلچر کے بارے میں کچھ آپ کی خدمت میں عرض کروں۔ اس اعتبار سے شاید آج کا پروگرام تھوڑا سا مختلف ہو، لیکن میں کوشش ضرور کروں گا کہ آسانی سے ان مشکل مراحل سے گزر جاؤں جو ہماری زندگی کے کلچر کی تلاش کے سلسلے میں یا کلچر کو Define کرنے میں پیش آتے رہے ہیں، یا آتے ہیں۔

خواتین و حضرات کلچر کے بارے میں تقریباٰ 62 کے قریب مختلف Definitions یا اس کے بارے میں باتیں میری نظر سے گزری ہیں، لیکن ماہرینِ علمِ انسان، اور علمِ معاشریات کسی خاص حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ یعنی ہماری بہت لائق اینتھروپالوجسٹ “Benedit“ جیسی خاتون یا فرانس کے بہت بڑے عالم “ لیوی سٹاس “ سے اور پھر ادبی لیول پر “ ٹی ایس ایلیٹ “ ان سب نے اس کی Definition کی ہے لیکن میں، سچی بات یہ کہ حوصلہ کر کے، اور دل پر پتھر رکھ کے بڑی جرات کے ساتھ سمجھتا ہوں کہ مغرب والوں کو کلچر کی صحیح Definition یوں کرنی نہیں آتی کہ وہ کلچر کو انسانی زندگی کے ساتھ ہی وابستہ سمجھتے ہیں۔ یہ زندگی جو ہم گزار رہے ہیں، لیکن اس کے لیئے اس زندگی کو دور تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔ جب تک آپ زندگی کو جس کا تعلق پیدائش اور موت کے درمیانی حصوں سے نہیں، بلکہ زندگی کے اس لامتناہی سفر کے ساتھ ہے، جو Here سے Hereafter تک چلا جاتا ہے تو ان بےچاروں کو یہی زندگی اور اسی کا علم ہے، اور اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ اس لیئے وہ اکثر و بیشتر یہی کہتے رہے کہ کسی طے شدہ، کسی مخصوص، کسی گروہِ انسانی کے آپس کے تعلقات، ان کے اعتقادات، ان کے کھیل کھلونے، ان کا اٹھنا بیٹھنا، ان کی جرات و صداقت۔ ان کے کلچر کا حصہ ہیں۔ اور حصہ بنتے ہیں۔ ہم اس کو تسلیم کرتے ہیں۔ واقعی یہ بات ٹھیک ہے، اور صحیح ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں جب تک زندگی کے ساتھ آپ موت کو شامل نہیں کریں گے۔ اس وقت تک زندگی کا پورا مقصد، وزن واضح نہیں‌ ہوتا۔ یہ بہت اہم چیز ہے، اور خاص طور پر ہمارے لیئے یہ سمجھنا بہت ہی آسان ہے، جہاں پر ہم اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کر کے موت خریدتے ہیں، اور Hearafter پر Believe کرتے ہیں۔ اس Definition میں ہم اگر بہت پیچھے جائیں، اور اس کو ٹٹولنے کی کوشش کریں کہ کلچر دراصل کیا ہے تو آپ مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ میلادِ آدم سے لے کر اب تک انسان قدیم زمانے میں پتھر و دھات کے زمانے سے بھی پہلے زمانے میں انسان پہلی دفعہ اکیلا بیٹھ کے یہ سوچنے پر مجبور ہوا، اور اس نے اپنی ذات کے ساتھ پانچ بہت اہم سوال کیئے، اور اس کا جواب نکالنے کی کوششیں کرتا رہا۔ پہلا سوال اس کا یہ تھا کہ :

“ یہ جو میرے ارد گرد کائنات ہے، یہ سورج، چاند، بادل، ستارے، بجلی، زلزلے، طوفان، سمندر، یہ کیا ہے؟ اور یہ سب چیزیں کہاں سے آئی ہیں؟ اور کیسے آئی ہیں۔“ دوسرے اس نے یہ سوچا کہ “ میں خود کون ہوں، اور میں کہاں سے آیا ہوں، اور ان ساری چیزوں کے ساتھ میرا کیا تعلق ہے؟ اور کس Relatedness کے ساتھ میں ان کے درمیان زندگی بسر کر رہا ہوں۔“

تیسرا سوال اس نے یہ سوچا :

“ ابھی جو میرے ساتھ مچھلی پکڑنے جایا کرتا تھا، میرا ماموں، میری ماں کا بھائی، وہ کہاں چلا گیا اچانک، اور میری ماں کیوں روتی رہتی ہے، اور ہم اس کو پتھروں میں رکھ کے واپس چلے آئے ہیں۔ وہ کیا ہوا۔ اور اگر وہ اس طرح کا زندہ نہیں رہا، تو کیا اس طرح کا زندہ ہے جس کا میں شعور نہیں رکھتا اور اگر وہاں اس کی زندگی بھی کچھ ہے، تو کیا اس زندگی میں کوئی Audit Objection ہوتا ہے کہ پیچھے کیسی زندگی بسر کر کے آیا ہوں یا نہیں۔

یہ پانچ سوال انسان کی زندگی کے گرد گھومتے ہیں۔ میرے، آپ کے، ہمارے، ہمارے پرکھوں کے، ہمارے بزرگوں کے، اور انہوں نے ان پانچ سوالوں کے جواب اپنی اپنی استعداد، اور اپنی اپنی سوچ، اور اپنے اپنے مشاہدے، اور تجربے کے مطابق نکالے۔

اب خواتین و حضرات ! میں یہ سمجھتا ہوں کہ جس گروہِ انسان نے ان پانچ سوالوں کے جواب ایک طرح کے نکالے ہیں۔ ان کا کلچر ایک ہے، اور جنہوں نے اس کے جواب، اور طرح سے نکالے ہیں۔ ان کا کلچر مختلف ہے۔ یہ سیدھی سی ایک تقسیم ہو گی۔ ہم سے کوتاہی یہ ہوئی ہے، اور ہوتی رہی ہے، کہ ہم طرزِ بودوباش کو، زندگی بسر کرنے کو، رہن سہن کو، معاشرت کو، کلچر سمجھتے ہیں، اور آج تک یہی سمجھتے آئے ہیں کہ معاشرت یہ ہے کہ ہم کیسے رہ رہے ہیں۔ گانا بجانا مہندی بیاہ اسی کو کلچر سمجھتے ہیں۔ یہ یقیناً کلچر کا ایک حصہ ہو سکتا ہے، لیکن سارا نہیں ہے۔ کیونکہ وہ پانچ سوال جو ہیں، وہ اس سے مختلف ہیں، اور اس سے ماورا ہیں۔ اب جب پانچ سوالوں کے جواب آپ نے تو نہیں نکالے، آپ کے بڑوں نے نکالے ہیں، اور ورثے کے طور پر دے دیئے تو پھر آپ کے لیئے یہ بہت مشکل ہو جائے گا کہ آپ ان لوگوں کے ساتھ مل کر رہیں اس طرح سے، جس طرح سے، ان لوگوں کے گروہ نے سوالوں کے جواب نکالے۔ آپ کے اپنے ہیں، اُن کے اپنے ہیں۔ آپ ایک زمین پر بڑی آسانی کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں، لیکن سوالوں کے جواب کے حساب سے آپ کا کلچر اور ہو گا۔ ان کا کلچر اور ہو گا۔ ہم یہ سمجھنے لگتے ہیں۔ کوئی کہے گا کہ بابا دیکھو ہم بھی وہی گانے گاتے ہیں۔ ہمارے فوک Folk Songs بھی وہی ہیں۔ ہم بھی گانا گاتے ہیں۔ “ جتی کھل دی مروڑا نہیں جھل دی۔“ وہ بھی یہی گاتے ہیں۔ ہم بھی مہندی پر وہی گاتے ہیں تو ہمارا کلچر ایک ہی ہوا۔ نہ نہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے فوک گیت ایک جیسے ہیں۔ آپ کے رہنے سہنے کا آپ کا بودوباش کا طریقہ ایک ہو سکتا ہے۔ آپ کا لباس، لیکن ہرگز ہرگز آپ کا کلچر جس کو آپ ثقافت کا نام دیتے ہیں، وہ وہ نہیں ہے، اور بالکل مختلف ہے۔

پھر آپ سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ یا آپ خود اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں کہ “ کیا ایک ہی سر زمین میں رہتے ہوئے، اور ایک سا پانی پیتے ہوئے، ایک سے روٹی کھاتے ہوئے، اور ایک ہی معاشرت بسر کرتے ہوئے، اور ایک اندازِ زیست اپناتے ہوئے، کیا ہمارے اندر ایک ہی Intervene نہیں کر جاتا۔ آپ اس میں مدغم نہیں ہو جاتے ان کے ساتھ۔ تو آپ اسے جب کبھی آپ کو موقع ملے۔ غور سے دیکھیں گے کہ باوجود اس کے معاشرتی انداز، رہنے سہنے کا طریقہ، یہ بالکل ایک جیسا ہے، لیکن پیچھے، پس منظر میں ہمارے لاشعور سے بھی بہت پیچھے ہمارے آرکی ٹائپ (Archetype) نے جو طے کیا تھا، ہم اس کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں۔ باوجود اس کے ہمارا روزمرہ کاچلن بظاہر نظر آتا ہے کہ ہم اس طرح کے لوگ لیں، جس طرح کے ہیں۔ اب آپ کے ساتھ ایک عجیب و غریب واقعہ گزرا ہے، اور وہ یہ ہے کہ جب کسی عظیم بڑے کلچر کا دباؤ آپ پر پڑا۔ آپ پر، خاص طور پر اس کمیونٹی پر، جس میں آپ رہ رہے ہیں، اور اس نے قبول کیا، اور اپنے کئی سوالوں کے جواب نکالے ہوئے چھوڑ کے اس نے نئے سوالوں کے جواب اپنا لیئے۔ اور اس نے کہا، آج سے میرا ایمان یہ ہے، جو سوالوں کے جواب ہیں تو آپ میں بالکل تبدیلی پیدا ہو گی۔ اب کتنی بڑی تبدیلی پیدا ہوئی کہ جس طرح سے ایک نہایت ترش آم کے اوپر ثمر بہشت کا پیوند لگتا ہے۔ اکثر لوگ آپ سے یہ کہتے ہیں، ہماری Grass roots ہمارا جو درخت ہے اس کی روٹس تو وہی چلی آ رہی ہیں، اور اس کا تنا بھی وہی ہے لیکن اب ہم پہچانے جاتے ہیں کہ ثمر بہشت کے درخت کا طور پر اب ہم کھٹی امبی نہیں ہیں۔ تو جب بھی کوئی کسی سے کہے گا، یہ ثمر بہشت کا درخت ہے، اور جب آپ پھل لائیں گے، ہر سال پھل دیں گے۔ جب جب بھی دیں گے تو اس کا پھل اُس پھل سے مختلف ہو گا جو پہلے ہوا تھا۔

اب یہ اکثر مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا دوسرے کلچر، اپنے کلچر پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ دوسرے رہن سہن بودوباش تو اثر انداز ہوتے ہیں، اور وہ تو آپ اپنی روزمرہ زندگی میں تبدیلیاں کر لیتے ہیں، لیکن آپ کے کلچر کا جو مضبوط تنا ہے، وہ قائم رہتا ہے۔ باوجود اس کے کہ خواتین و حضرات آپ کی جڑیں جا ہیں، وہ پرانی چلی آ رہی ہیں۔ میں نے پیوند کی مثال دی، یہ ذرا سی آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے۔ اگر کبھی ایک خطہ زمین پر، ایک چھوٹے سے خطہ زمین پر، پانچ مرلے کی جگہ پر دو درخت ہوں، ایک جامن کا ہو اور ایک آم کا ہو، اور دونوں درختوں کے پتے، اور شاخیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی ہوں، اور دونوں درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کھا کے تنومند ہو رہے ہوں، اور آکسیجن چھوڑ رہے ہوں۔ دونوں درخت اتنے قریب ہوں کہ شاید نیچے ان کی جڑیں بھی ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہوں، اور چکر کاٹتی ہوں۔ اتنی قربت اوپر بھی، نیچے بھی، ہوا کے لینے میں بھی، نشوونما حاصل کرنے میں بھی، پانی بھی اُسی جگہ کا لے رہے ہوں، اور یہ سب چیزیں لینے کے باوصف آم جب اپنے سوالوں کے جواب نکالے گا تو، اور نکالے گا، جامن جب اپنے سوالوں کے جواب نکالے گا تو اور نکالے گا۔ حالانکہ وہ ایک ہی جگہ پر ہیں۔ کبھی بھی ایسا نہیں ہو گا کہ جڑوں کے آپس میں ملنے پر کوئی کچھ نہیں ہو گا۔ کوئی فرق، تبدیلی نہیں آ سکتی۔ شکل و صورت، اس کے پتے چھال سب جیسے نظر آئیں گے۔ آپ کہیں گے۔ لیکن جواب نکالنے میں فرق پڑ جائے گا۔ جواب وہی ہو گا اس کا، جو چلا آ رہا ہے۔ مجھ سے یہ بھی کہا گیا، اور کہا جاتا ہے کہ اگر ہم اپنے پرکھوں کو دیکھیں، تو ان میں یہ بات آپ کو نظر آئے گی کہ ان کی تہذیب، ان کا تمدن جو ہے وہ آپ کے اوپر اثر انداز ہوتا ہے ان جڑوں کے ذریعے سے۔

تو ایک روز میں نے اس پاتال میں جانے کی کوشش کی جو Grass Roots کے حوالے سے مجھ کو نیچے لے جا سکتا تھا۔ تو میں بہت نیچے اتر گیا۔ اتنی دور کہ میں ہڑپہ بھی کراس کر گیا۔ موہنجوداڑو بھی کراس کر گیا، اور آگے جا کر میں نے دیکھا، ایک بہت بڑا گیٹ تھا۔ اس کا دروازہ، اور وہاں ایک چوبدار گیٹ پر تھا۔ اس نے کہا، تم کہاں جا رہے ہو، میں نے کہا، میں اندر جا رہا ہوں۔ اس شہر میں داخل ہونے۔ اس نے کہا، نہیں تمہیں پہلے بتانا پڑے گا کہ تم کون ہو۔ میں نے کہا، میں انسان ہوں۔ اس نے کہا، انسان کوئی شناخت نہیں۔ تم بتاؤ تم کس نسل سے، کس ورن سے تعلق رکھتے ہو۔

میں نے کہا، میں انسان ہوں۔ اس نےکہا نہیں، یہاں تم براہمن ہو یا کھتری ہو یا ویش ہو یا شودر۔ تو بتاؤ تم کون ہو؟ تو میں یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ میں براہمن ہوں۔ میں نے کہا، میں ویش ہوں۔ اس نے کہا، ٹھیک ہے۔ اپ اندر چلے جائیں، اور آپ کو اجازت ہے۔ آگے ایک اور چوبدار کھڑا تھا۔ اس نے کہا، بہت اچھا تُو آ گیا۔ مہاراج ادیراج کا جو ہاتھی ہے، وہ نکلنے والا ہے جو چکر لگائے گا تُو اس کے پیچھے ڈھولک بجاتا ٹل بجاتا جا، کیونکہ مہاراج کی پوجا جو ہے۔ وہ ضروری ہے ہمارا حصہ ہے۔ تو میں نے اس کے ہاتھ سے گھڑیال لے لیا، اور اس کے پیچھے پیچھے بجاتا چلا، اور بھی نوجوان لڑکے تھے۔ مہاراج کے ساتھ سارے شہر کا جو چکر تھا، وہ ہم نے پورا کیا۔ واپس آ گئے۔ تھکا ہارا شام کے وقت جب میں اپنے گھر گیا تو میری ماں نے مجھ سے کہا کہ تیری بہن کا شوہر یعنی تیرا بہنوئی فوت ہو گیا تو تیری بہن جوان ہے، طاقتور ہے، تیرا باپ بڈھا ہے۔ ہم نے اس کو اٹھا کر چتا میں پھینکنے کی کوششیں کی ہیں۔ یہ مانتی نہیں ہے۔ تُو آ گیا ہے اس کو پکڑ۔ اس کو چتا میں پھینک، تو میں نے اس کو اٹھایا، میں طاقتور آدمی تھا اور لے جا کر جلتی ہوئی چتا میں اس کے خاوند کے ساتھ بھسم کر دیا۔ اور یہ سین اپنے بہت پاس سے دیکھ رہا تھا۔ جب میں باہر آیا تو میں نے دیکھا، یہ تفریق انسانوں کے ساتھ چلی جا رہی ہے تو میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ مجھ کو یہ حکم مل چکا ہے کہ گورے کو کالے پر، اور کالے کو گورے پر، عجمی کو عربی پر، اور عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے۔ اور آج سے چودہ سو برس قبل، یہ ڈیموکریسی تو آج آئی ہے نا، ہم مانیں یا نہ مانیں۔ اب یہ بات الگ ہے کہ ہم اس پر عمل کر سکیں، یا نہ کر سکیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے۔ جس دن ہمارا پیوند لگا تھا ثمر بہشت کا، اس کے ساتھ ہی یہ پرچی ٹانک دی گئی تھی میں یہ سمجھتا ہوں۔ ہماری امت اتنی مختلف ہے۔ دنیا کی ساری امتوں سے کہ اس کے اوپر ایک، اور ثقافت کا اثر ہوا، اور شدت کے ساتھ ہوا، اور یہ پورے کے پورے ان کے ساتھ 90 ڈگری کے اوپر گھوم گئے، اور انہوں نے اس سوالوں کے جواب کو اپنا لیا۔ اپنی خوشی کے ساتھ، اور اپنی ایمانداری کے ساتھ، اور اپنے دل کی لگن کے ساتھ کہ آج کے بعد ہم سہی۔

اب ایک مشکل پیدا ہوتی ہے۔ مجھ سے کبھی پوچھتے ہیں کہ جی آپ یہ بتائیں اس طرح سے تو بہت دھچکا سا لگتا ہے نا جی، کیونکہ ہم اکثر یہ سوچتے رہے ہیں کہ یہ ہمارا کلچر ہے جو ہمارے ارد گرد کے لوگ ہیں، جن میں ہم رہتے بستے رہے ہیں، وہ کس طرح سے ایک دم سے ہم سے مختلف ہو جائیں گے۔ میں کہتا ہوں، نہیں وہ بالکل مختلف نہیں ہوتے۔ اس کو میں، اور آسانی کے لیئے آپ کو ایک مثال دیتا ہوں کہ فرض کریں ہم جہاز کے اوپر سمندر کا سفر کر رہے تھے، اور اچانک سمندر بپھر گیا، اور طغیانی آ گئی۔ اور لہروں کی لپیٹ میں جہاز آ گیا، اور جیسا کہ کہانیوں میں ہوتا ہے، جہاز بالکل تختہ تختہ ہو گیا، اور ہم لوگ ایک ایک تختے پر چمٹ کر ایک جزیرہ قریب تھا، وہاں آ گئے۔ اب مختلف قوموں کے لوگ مختلف بولیوں کے لوگ وہاں جمع تھے تو ظاہر ہے کہ میں نے اس گروہ کی قربت اختیار کی جو میری بولی سمجھتا تھا۔ اس سے آسانی ہوتی ہے اور میں ان کے پاس جا کر بیٹھا تھا، اور جو یہ گانے پسند کرتے “ جُتی کھل دی مروڑا نہیں جھل دی “ تا کہ مجھے آسانی رہے۔ سارا دن میں ان کے ساتھ گزارتا اور ساری رات۔ تو زندگی اس آس میں اچھی بسر ہو رہی تھی کہ اب کوئی ہمیں آئے گی باہر سے مدد۔ تو ہم شاید اپنے گھروں کو واپس جائیں، لیکن بہت زیادہ وقت وہاں پر گزر رہا تھا۔ میں دن تو ان کے ساتھ گزارتا تھا، اور اپنا سارا وقت بھی ان کے ساتھ گزارتا تھا، لیکن جب مجھے یہ خدشہ محسوس ہوا کہ میرے آخری ایام آ گئے، اچانک مرنے لگا ہوں تو میں نے اپنے انہی لوگوں سے کہا کہ اس گروہ کو جو انڈونیشیا والے ہیں، اور جن کی بولی میں نہیں سمجھتا، ان کے حوالے کر دینا، اور جو سلوک وہ میرے ساتھ کریں مجھے قابلِ قبول ہے، تو وہ ان کے پاس میرا سفر جو Hereafter کی بات کر رہا تھا، وہ میں ان کے حوالے کرتا ہوں، کیونکہ ان لوگوں نے سوالوں کا جواب وہی نکالا ہوا ہے، جو ہم نے نکالا ہوا ہے۔

میں آپ کے ساتھ زبان کے حوالے سے بات چیت کرتا ہوں اور میں بڑا خوش ہوں۔ بڑا احترام بھی کرتا ہوں آپ کا اور آپ سے ملتا جلتا بھی ہوں۔ چنانچہ جب بڑا فیصلہ آئے گا، میرا یا میری نسل کے بڑھنے کا معاملہ ہو گا تو پھر میں ان کے ساتھ تعلق پیدا کروں گا، لیکن جہاں تک بات چیت کرنے کا تعلق ہے۔ میں بسم اللہ حاضر ہوں تو میں یہ سمجھ سکا ہوں کہ کلچر کا مسئلہ ہمارے لیئے یا کم از کم میرے لیئے اتنا پیچیدہ، اور مشکل نہیں ہے، اور سوالوں کے جواب سمجھ جانے کے بعد یا ان کو ذہن نشین کرنے کے بعد ذرا آسانی کے لیئے میں نے یہ عرض کیا ہے۔ یہ آئندہ کے لیئے، اور آپ کے لیئے اس میں کوئی زیادہ الجھن نہیں رہنی چاہیئے۔زندگی کے بارے میں اکثر یہ محاورہ استعمال کرتے ہیں کہ

“Matter of life and death where it is matter of birth and death.“

کیونکہ Life کا جو ریلا ہے، وہ چلتا چلا جا رہا ہے۔ یہ جو موت ہے، میں نے پہلے اس کا ذکر کیا۔ اس کی بڑی اہمیت ہے، جو Warrior (جنگجو) ہوتا ہے، جو صاحبِ سیف ہوتا ہے، وہ بڑا مضبوط آدمی ہوتا ہے، اور وہ اپنی موت کے ساتھ ایک رشتہ، اور ایک تعلق ہر وقت قائم رکھتا ہے۔

خواتین و حضرات ! اگر آپ نے بہت قدیم فرقوں کے بارے میں، بہت قدیم نسلوں کے بارے میں، کچھ اینتھروپالوجیکل سٹڈی کی ہے تو آپ دیکھیں گے کہ جو Red Indian تھے، امریکہ کے اصل باسی، ان میں بڑی عجیب و غریب صلاحیتیں موجود تھیں، وہ ہماری طرح سے یا ہم سے تھوڑا سا زیادہ ہی اپنی موت کے ساتھ وابستہ رہتے تھے۔ ایک اینتھروپالوجسٹ کارلوس کوپینزا جو تھا، وہ گیا کچھ ایسی تحقیق کرنے کے لیئے پرانے ساؤتھ امریکی سے ملنے۔ اپنے دشمن سے۔ یہ لمبی کہانی ہے، مختصر عرض کروں، اس نے جو باتیں بتائی ہیں یا بیان کی ہیں، یہ سب اچھی ہیں۔ اُس کا نام ڈان جوان ہے۔ امریکی اسے کہتا ہے ! میں یہ پوچھتا ہوں۔ ہماری زندگیوں میں ہم جو شہری لوگ ہیں، جن کا تعلق امریکہ کی طرزِ زندگی سے ہے، ہم بہت گھبرا جاتے ہیں۔ ہمارے اندر تضاد پیدا ہو جاتا ہے۔ ہم دو حصوں میں بٹ جاتے ہیں، تو بہت سے سوال ایسے ہوتے ہیں جو ہماری سمجھ میں نہیں آتے تو اس کا کیا کریں، اس ریڈ انڈین نے کہا، سوال اتنے پیچیدہ تو نہیں ہیں جتنے تم نے بنا لیئے ہیں۔ اس نے کہا، دیکھو فرض کرو۔ میں ایک لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں، اور میری زندگی میں ایک دوسری لڑکی آ گئی۔ اب میں فیصلہ نہیں کر پاتا، اور میں اپنے آپ کو بے ایمان بھی نہیں ٹھہرانا چاہتا۔ میں دغدغہ Confusion) میں بھی ہوں۔ میں کیا کروں؟ تو آپ مجھے رائے دیں۔ اس وقت کیسے کرتے ہیں، اور آپ لوگ جو قدیم Red Indian ہیں، اور جو ایک Seprate Reality کے حامل ہیں۔ اس نے کہا، او ہو یہ تو بڑا سیدھا سا معاملہ ہے۔ جب ایسی مصیبت پیش آئے، جب کبھی ایسی دغدغہ میں ہو تو ہمیشہ اپنی موت سے پوچھو۔ اب مسئلہ آ گیا، اس سے وہ کیسے پوچھیں؟ اس نے کہا، ہر آدمی کی موت جو ہے، وہ پانچ فٹ کے فاصلے پر لفٹ ہینڈ سائیڈ پر ساتھ ساتھ چلتی ہے، کیونکہ وہ اسکو protect کرتی ہے۔ جو خدانخواستہ فوت ہو جائے تو موت پاس موجود نہ ہو تو وہ تو مارا گیا۔ لائن حاضر ہو گیا تو اس کی موت کا فرض ہے ساتھ رہے۔ چنانچہ کہنے لگے، اس سے پوچھا جانا بہت ضروری ہے، تو تم کبھی بھی اس سے سوال کر کے پوچھو۔ اس نے کہا، کیسے جواب دے گی۔ تو کہا، پہلے تمہیں Emotionally Vibration کا پتا چلے گا۔ پھر ایسا موقع بھی آنے لگا ہے کہ ہمارے بڑوں کی زندگی کو وہ بالکل Vocal ہو کر بات بتا دیتی ہے کرنا ہے یا نہیں کرنا۔

تو انسانی زندگی کو اس زندگی تک محدود نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ Here، اور Here after جب ملتا ہے تب جا کر یہ سفر مکمل ہوتا ہے یا زندگی یا حیات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ آپ کی بڑی مہربانی، اور شکریہ آپ کا بھی۔ اللہ تعالٰی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
 

شمشاد

لائبریرین
تعریف و توصیف

میں آپ کی خدمت میں اپنا، اور اپنے ساتھیوں کا سلام تو پہنچا دیا کرتا ہوں، لیکن میں نے جائزہ لیا کہ شکریہ ادا کرنے کے معاملے میں میں بھی تھوڑا بخیل ہوں اور جن لوگوں کے درمیان میں رہتا ہوں، ان میں بھی یہ عادت بیدار نہیں کی جا سکی۔ اس کی پتا نہیں کیا وجہ ہے۔ ہم بہت اچھے لوگ ہیں، پیارے لوگ ہیں۔ اچھی خوش بختی کا سامان مہیا کرتے ہیں ایک دوسرے کے لیئے، لیکن تعریف و توصیف کے معاملے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ ہمارے یہاں یہ رواج بھی بن نہیں سکا اور ہم نے اس کے بارے میں غور نہیں کیا کہ تعریف و توصیف بھی واجب ہے۔ کہیں واجب نہیں ہے تو بھی کی جانی چاہیئے تا کہ انسانوں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی، اور ایک Unity پیدا ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں آدمی کے چلے جانے کے بعد اس کی تعریف ہوتی ہے۔ اگر آپ لاہور کے سب سے بڑے قبرستان میانی صاحب میں جا کر دیکھیں تو بہت سے کتبے آپ کو ایسے نظر آئیں گے جن کے اوپر مرحوم کا نام، تاریخ پیدائش، تاریخ وفات لکھی ہو گی۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ توصیفی کلمات بھی ہوں گے۔ اب وہ بیچارہ باہر نکل کر تو نہیں دیکھ سکتا کہ کتبے پر کیا لکھا ہے، یہ تو اس کے کام نہیں آیا۔ بہتر یہی تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے اس کی کچھ تعریف و توصیف ہو جائے تو اس کو کچھ سہارا ہو۔ اس کو پتا چلے کہ میرے ارد گرد رہنے والے لوگ جو ہیں، وہ بہت تقویت عطا کرنے والے لوگ ہیں۔

ایک واقعہ ہے۔ نبی کریم :pbuh: کے پاس کچھ صحابی آئے۔ کچھ صحابی وہاں پہلے تھے۔ نئے آنے والوں نے عرض کی، یا رسول اللہ یہ جو آپ کے صحابی ہیں۔ یہ مجھے بہت پیارے لگتے ہیں اور یہ مجھے اچھے لگتے ہیں۔ میں ان سے زیادہ متعارف تو نہیں ہوں، لیکن یہ بہت دل والے ہیں۔ حضورِ اکرم :pbuh: نے فرمایا کہ کیا آپ نے ان سے یہ بات کہی تھی، انہوں نے کہا کہ جی میں نے تو نہیں کہی تھی۔ کہنے لگے فوراً جایئے۔ ان کے پیچھے، اور ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ کہیئے، آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں، مجھے پیارے لگتے ہیں۔ تو وہ ان کے پیچھے بھاگے، اور جا کے کہا کہ میں آپ سے بڑی محبت کرتا ہوں۔ تو انہوں نے ظاہر ہے، محبت کا جواب محبت سے دیا ہو گا۔ ہمارے ہاں محبت کی کچھ کچھ کمی ہو رہی ہے۔ یہ نہیں کہ ہمارے دلوں میں نہیں ہے، میرے خیال میں ہمارے دلوں میں تو کافی محبت ہے۔ ہمارے لوک گیت، اور لوک داستانیں بتاتے ہیں۔ ہم بڑی محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ لیکن زبان سے اظہار نہیں کر پاتے۔ پتا نہیں کیا وجہ ہے، اور تعریف اور توصیف کا اظہار، بے اختیار، بے ساختہ ہونا چاہیے۔ کتابوں کی رونمائی ہوتی ہے، تعریف و توصیف کی جاتی ہے مصنف کی۔ کتاب کی۔ وہ ایک طرح سے زبردستی کی تعریف ہوتی ہے۔ اچھی بات ہے وہ بھی ہونی چاہیئے۔ اب دیکھیئے کسی نے کتاب لکھی ہے جیسے کہ وہ صاحبِ اولاد ہوا ہے، صاحبِ کتاب جو ہوا ہے، تو جو صاحبِ اولاد ہو، اس کے گھر جا کر ودھائی تو دینی پڑتی ہے نا، اور بعض اوقات تو یہ تعریف و توصیف آپ کا سہارا بھی بنتی ہیں، آپ کی مدد بھی کرتی ہیں۔ آپ کو محفوظ بھی رکھتی ہیں۔

ہمارے ایک پروفیسر تھے۔ وہ یہ کہا کرتے تھے، دیکھو جب آپ ہوٹل میں جائیں یا ریستوران میں جائیں، اور کھانا کھائیں، اور آپ کسی وجہ سے ناراض ہوں تو آپ بلا کر ہوٹل کے منیجر کو جو چاہے کہہ لیں، کوئی اس میں بری بات نہیں ہے۔ ریستوران کے مالک کو بلا کر ذلیل و خوار کر لیجیئے کوئی بات نہیں، لیکن خدا کے واسطے کبھی بیرے کے ساتھ سختی سے پیش نہ آئیے گا، کیونکہ اگر آپ بیرے سے سختی سے پیش آئیں گے تو اس کا نتیجہ بڑا خطرناک نکل سکتا ہے۔ کیونکہ ایک دفعہ میں نے دیکھا، یہاں ایک بڑے ہوٹل میں دو بیرے اپنی اپنی سینی جو ہوتی ہے، تھالی لیئے چوکھٹ کے ساتھ لگے کھڑے تھے، اور ایک صاحب بڑے جنٹلمین کھانا کھا رہے تھے۔ ایک بیرے نے دوسرے بیرے کو بلا کر کہا، وہ دیکھو کھا گیا، کھا گیا۔ پتا ہی نہیں لگا اس کو تو۔ تعریف و توصیف اس اعتبار سے فوائد پہنچانے والی چیز بھی ہے۔ ہمارے ہاں البتہ اس کی بہت کمی ہے۔ جس کی طرف میرا خیال ہے توجہ دی جانے چاہیئے۔ دوکاندار اور گاہک کے درمیان شکریہ کا جو چلن ہے وہ نہیں ہے۔ جب آپ پٹرول لیتے ہیں تو اس لڑکے سے جس نے آپ کا پٹرول ڈالا ہے، کبھی آپ نے شکریہ نہیں کہا۔اس لیئے کہ آپ بڑے آدمی ہیں، تو ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے شکریہ ادا کرنے کی۔ کیونکہ ہمارے یہاں پر بڑے عرصے سے حکمرانی رہی ہے، بڑے بادشاہوں کی، پھر کمپنی بہادر کی، اور ہم نے یہ طریقہ کار، اور چال چلن سیکھا ہی انہی سے ہے۔ شکریہ ادا کرنے سے آدمی مفرح ہوتا ہے، اور اس کی روح پر، اور اس کے وجود پر، اور اس کی شخصیت پر، اور اس کی فردیت پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔ یہ ہمیں ہمارے بڑوں نے ہمارے استادوں نے سکھایا ہی نہیں۔ ان کو Thank You کہنا سکھایا ہی نہیں گیا۔ اگر بتایا جاتا تو ہم یقیناً اس کا پالن کرتے۔ جو ہمارے پروفیسر تھے جن کا میں نے ذکر کیا، وہ پروفیسر نہیں تھے۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں، یعنی استاد الاساتذہ، اور استادِ مکرم تھے، یعنی پروفیسر کے اوپر کی ڈگری تھی، وہ تشریف اسی لیئے لائے تھے کہ سٹاف روم میں پروفیسر حضرات سے ملیں، اور ان کو زندگی آموز، اور زندگی آمیز چیزوں سے روشناس کرائیں۔ تو وہ کہا کرتے تھے کہ دیکھو یہ انسانوں کی بات ہے۔ جب کبھی پودا زمین سے اکھاڑو تو پہلے اس سے اجازت لو کہ میں تمہیں اکھاڑنے لگا ہوں، اور میں تمہارا بڑا احترام کرتا ہوں، اور تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میں تمہیں اکھاڑوں گا، تمہیں اپنے استعمال میں لاؤں گا، لیکن اس کے ساتھ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ میں بھی تمہارے کام آؤں گا۔ میں جب مٹ جاؤں گا، میں جب کھاد بن جاؤں گا تو تیری نسل کے تیرے خانوادے کے کام آؤں گا۔ یہ بڑے لوگوں کی بات ہے۔ تو ہمیشہ اس سے اجازت لے کے کہ اس سے محبت کی گفتگو کر کے اکھاڑو، اور پھر فرماتے تھے کہ اس سے ہمیشہ اونچی آواز میں بات کرو۔ “ مِن مِن “ کر کے نہیں تا کہ اوروں کو بھی سنائی دے کہ آپ اس کے شکر گزار ہو رہے ہیں۔ اسے اکھاڑ رہے ہیں۔ دھنیا کے پودے، پودینہ ہے، بے شمار چیزیں ہیں۔ میں نے کہا، سر کبھی میں نے تو بندوں کا شکریہ ادا نہیں کیا یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی جب میں غور سے دیکھتا ہوں تو ہمارے معاشرے میں ہماری معاشرت میں بھی کبھی کبھی ایسے آدمی مل جاتے ہیں جن کے اندر تشکر کا جذبہ ہوتا ہے۔

کئی سال کی بات ہے، میرے پاس ایک سائیکل ہوتی تھی جو پٹرول سے چلتی تھی۔ جسے N. S. U. Quickly کہتے تھے۔ وہ میں نے 35۔925 میں خریدی تھی، اور وہ بڑی طاقتور تھی۔ آج کل کے موٹرسائیکل سے بہت آگے نکل جاتی تھی۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ جب پٹرول ختم ہو جاتا تھا تو اسے سائیکل کی طرح پیڈل مار کر چلا سکتے تھے۔ جرمنی کی بنی ہوئی تھی۔ مجھے بڑی مہربانی سے ڈائریکٹر آف انڈسٹری نے پرمٹ دیا تو ہم نے 935 روپے اکٹھے کر لیئے، ساتھ کچھ پیسے دیئے اور خریدی۔ یہ کافی دیر کی بات ہے 61-1960 کی تو میں اس کو چلاتا تھا۔ ایک دفعہ چلاتا ہوا اس کو چلا آ رہا تھا۔ بڑے فخر کے ساتھ بڑی اچھی سواری تھی۔ لوگ پیچھے مڑ مڑ کے دیکھتے تھے کہ کتنا عزت والا آدمی ہے۔ اس کے پاس Quickly موٹر سائیکل ہے۔ ایک دفعہ میں آ رہا تھا تو سنٹرل جیل کے پاس ایک نوجوان تھا۔ اس نے مجھے روکا۔ وہ بشرٹ پہنے تھا۔ پاؤں میں اس کے چپل تھی، اور پرانی وضع کی ایک جینز پہنے ہوئے تھا۔ اس نے کہا، جی مجھے آپ جتنی دور تک بھی لے جا سکتے ہیں، لے جائیں۔ میں نےکہا ٹھیک ہے آیئے بیٹھیئے۔ لیکن وہ مجھے تھوڑا سا مشکوک سا لگا تو میں نےکہا، آپ یہاں کہاں تھے؟ تو اس نے کہا، جی میں اپنےکچھ کاغذات لینے آیا تھا۔ یہاں سے جیل سے۔ میں پرسوں رہا ہوا تھا مگر میں اپنی چٹ بھول گیا۔ پتا نہیں کیا چیز تھی۔ میں نے کہا، یہاں آپ قید تھے؟ کہنے لگا، ہاں جی میں بہت مشہور جیب تراش ہوں۔ گرہ کٹ۔ وہ کہنے لگا جی میرا علاقہ جو ہے وہ مصری شاہ ہے۔ مصری شاہ ایک علاقہ ہے لاہور کا میں وہاں کا ہوں۔ مجھے پکڑ کر انہوں نے زبردستی مقدمہ کر دیا میرے اوپر۔ حالانکہ میرے خلاف لوگوں کی گواہیاں بھی نہیں تھیں۔ میں نے کہا۔ تم گرہ کٹ ہو تو سہی۔ کہنے لگا، ہاں ہوں تو سہی لیکن اس مقدمے میں میرے ساتھ بے انتہا ناانصافی ہوئی، اور مجھے نو مہینے کی سزا دے دی تو میں نو مہینے کی سزا پوری کر کے اب گھر جا رہا ہوں۔ میں نے کہا، اچھا پھر تو آپ بڑے معزز آدمی ہیں۔ جب آپ نے شرافت کے ساتھ دیانت داری کے ساتھ یہ سارا واقعہ سنایا ہے۔ اپ بیٹھیں۔ وہ پیچھے بیٹھ گیا تو ہم چلتے رہے۔ جب ہم فیروزپور روڈ پر وہاں پہنچے جہاں فیروزپور روڈ آگے جا کر لٹن روڈ میں تبدیل ہو جاتی ہے، تو وہاں پر جا کر اس نے کہا، آپ ادھر سے چلیں ٹمپل روڈ کی طرف سے۔ میں ادھر چلا آگے۔ درمیان میں پہنچے۔ اس سڑک پر تو سپاہی کھڑا تھا سیٹی بجا کے روک لیا۔ تو اس نے کہا، یہ تو ون وے ہے۔ میں نے کہا، سر یہاں کوئی بورڈ وغیرہ تو ہے نہیں۔ اس نے کہا، نہیں، سرکار کا یہ کام نہیں کہ بورڈ لگائے۔ اس کا کام حکم دینا ہے۔ سرکار نے حکم دیا ہے۔ یہ ون وے ہے تو آپ ادھر سے کیوں آئے۔ میں تو آپ کا چالان کروں گا۔ میں نے بڑی ان کی منت خوشامد کی کہ آپ چالان نہ کریں، وہ جو تھا میرا ساتھی، وہ بھی اتر کے کھڑا ہو گیا۔ اس نے کہا، سنتری بادشاہ جانے دیں۔ یہ کیا ہے۔ غلطی ہو گئی ہم سے، پتا نہیں تھا۔ اس نے کہا، نہیں میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا۔ میں نے کچھ بحث کرنے کی کوشش کی کہ آپ کو باہر بورڈ لگانا چاہیے تھا۔ اپ نے بورڈ نہیں لگایا۔ اس نے کہا بورڈ لگانا ہمارا کام نہیں ہے۔ یہ کسی اور محکمے کا کام ہے۔ اپ کو پتا ہونا چاہیے۔ اس نے کہا، قانون سے ناآشنائی جو ہے، وہ ہمارا قصور نہیں ہے۔ آپ کا قصور ہے۔ آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ لاہور کی کون سی سڑکیں ون وے ہیں اور کون سی نہیں ہیں۔ تو میں نےکہا، اب کیا کیا جا سکتا ہے۔ کافی بحث مباحثے کے بعد اس نے کاپی نکالی۔ کاربن رکھا، اور میرا نام پوچھ کے لکھ کے چالان کر کے بھاڑ کے کاغذ مجھے دے دیا، اور کاربن اگلے کاغذ کے نیچے رکھ کے وہ کاپی جو تھی، اپنی بشرٹ کی جیب میں ڈال لی۔ اب وہ جو میرا ساتھی تھا، جس کو میں پیچھے بٹھا کے لا رہا تھا، وہ بےچارہ ظاہر ہے بڑا پریشان ہوا کہ میری وجہ سے۔ یہ ہوا تو اس نے ہاتھ باندھ کر کہا، سنتری بادشاہ یہ صاحب کا قصور نہیں ہے۔ یہ میرا قصور ہے۔ میں ان کو اس طرف لے آیا تھا، تو آپ ان کو خدا کے واسطے معاف کر دیں۔ اس نے کہا، نہیں، قانون قانون لے۔ وہ میرا ساتھی اس کے گلے لگ کے جپھی ڈال کے پھر کھسک کے نیچے پاؤں میں بیٹھ گیا۔ پاؤں سے پھر اونچا اٹھا، پھر اس کو دیئے خدا کے واسطے، اس نے پرے دھکیل دیا۔ تو اس نے کہا، ٹھیک ہے تمہاری مرضی۔ کوئی بات نہیں۔ سپاہی نے بتا دیا کہ فلاں مجسٹریٹ کی عدالت میں بدھ کے روز حاضر ہونا ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ تو جب پھر میں موٹر سائیکل چلانے لگا تو ہم دونوں ہی بڑے پژمردہ تھے۔ پھر اس نےکہا مجھے بھاٹی کی طرف لے چلیں۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے، جہاں چاہو لے چلو۔ بھاٹی کے باہر اتار دیں۔ پھر وہاں سے میں اپنا کوئی بندوبست کر کے چلا جاؤں گا۔ جو جب میں بھاٹی پہنچا۔ تو اس نے کہا، میں آپ کا بڑا شکر گزار ہوں۔ آپ نے بڑی محبت کے ساتھ، محنت کے ساتھ، اور بڑی دید کے ساتھ مجھے یہاں تک پہنچایا۔ میں نے کہا، کوئی بات نہیں، اور اس نے کہا، میں آپ کی خدمت میں کیا شکرانہ پیش کروں، اور پھر اس نے جیب سے نکال کر سپاہی کی کاپی مجھے دے دی، وہ جس کے اوپر چالان لکھتے ہیں نا، جس میں نیا کاربن بنا کے رکھا ہوا تھا، جس میں میرے بھی چالان کی نقل تھی، یہ آپ کی۔ یہ آپ کی۔ جب وہ جپھی ڈال رہا تھا، اس کے نیچے اوپر ہو رہا تھا۔ اب گرہ کٹ بھی کمال کا تھا۔ انہوں نے کہا، جی میری یہ یادگار آپ رکھیں۔ سارے چالان پاس رکھیں۔ ایسے ہی مجھے یہ واقعہ یاد آ گیا۔ ایک آدمی کے اوپر جب کسی نے کوئی چھوٹا سا معمولی سا بھی کرم کیا ہو، اسکا ایک بوجھ پڑتا ہے۔ اس بوجھ کی ادائیگی جو ہے، فوری طور پر بہت ضروری ہے کہ کر دی جانے چاہیئے۔ کم از کم شکریہ ادا کرنا چاہیئے۔ جی بالکل کم از کم شکریہ ادا کرنا چاہیئے۔ ہمارے ہاں رواج نہیں ہے جی، سکھایا نہیں کسی نے۔ اگر ہمیں سکول میں سکھایا گیا تو ٹیچر، اور سٹوڈنٹ کا جو تعلق ہے یا بڑوں کے ساتھ ہے یا کہیں سے آپ کا کام ہو گیا ہے، لیکن ان چھوٹی چھوٹی جگہوں کے اوپر جہاں میں نے دیکھا ہے، دکانوں کے اوپر کبھی ہم نے شکریہ ادا کیا ہی نہیں۔

اگر ہمیں یہ بات بتائی جائے تو ہم کیا کریں گے۔ جیسے ہمیں السلام علیکم کہنا بتایا گیا ہے۔ وہ اب بھی آپ دیکھتے ہیں، میں صبح سیر کرنے جاتا ہوں تو آدمی سلام کیئے بغیر ایک دوسرے کے قریب سے گزر جاتے ہیں۔ ورنہ آپ جا کر دیکھیں فرانس میں خاص طور پر جانتے نہیں ہیں ایک دوسرے کو، لیکن کہتے چلے جاتے ہیں بدستور۔ بڑی محبت، بڑی دلجمعی کے ساتھ کہتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں میں نہیں سمجھتا کہ کسی قسم کا بوجھ ہے یا کوئی اس کے اوپر ہمارے اندر جیلسی ہے، یا کوئی جھگڑا۔ ہمارے اندر ایک بات البتہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو اس مرتبے کا سمجھتا ہے کہ وہ کہتا ہے، میں اس کا کیا شکریہ ادا کروں۔ مثلاً آپ سڑک سے گزر رہے ہیں تو سڑک پر سے گزرتے ہوئے خاکروب جو ہے وہ جھاڑو دے رہا ہے۔ خاکروب عام طور پر اچھے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ جھاڑو روک لیتا ہے، اور آپ گزر جاتے ہیں۔ تو آپ کبھی اس کو شکریہ مہربانی نہیں کہتے ہیں۔ ہمارے بابا جی نور والے فرماتے ہیں کہ مجھے خاکروب سے بات یاد آئی کہ جب بھی کبھی دھول اڑاتے ہوئے سڑکیں صاف کرتے ہوئے خاکروب یا خاکروبوں کے گروہ کے درمیان سے گزرو تو کبھی ناک کے اوپر رومال نہ رکھو یا ہاتھ نہ رکھو، کیونکہ وہ بھی انسان ہیں جو یہ کام کر رہے ہیں، اور آپ ناک رکھ کے ان کی تذلیل کر رہے ہیں۔ کہ دیکھو میں ایک بڑا سپیریئر آدمی ہوں۔ میں ایک افضل آدمی‌ ہوں۔ میں جب سانس لیتا ہوں تو اس گرد میں نہیں لیتا جس میں تم لیتے ہو تو اس لیئے وہاں سے ویسے ہی گزرو۔ ہم چونکہ ہمیشہ بیچ میں حجت کی بات کوئی نہ کوئی نکالا کرتے تھے، تو ہم کہتے تھے کہ حضور۔ ہمارے بڑے کہتے ہیں کہ آکسیجن کو Inhale کرنا چاہیے، گردوغبار سے بچنا چاہیے۔ کہنے لگے، زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہو کہ جب ان کے درمیان سے گزرو تو سانس روک کر گزرو، لیکن یہ نہیں کرنا چاہیئے کہ آپ اپنی مٹھی بنا کر ناک پر ہاتھ رک کر گزریں۔ ان کو انسان سمجھیں۔ ہمارے لیئے یہ نیا درس تھا کہ ان کو انسان سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ ہمیں یہ بتایا نہیں تھا کسی نے، کیونکہ ہمارا ایک برہمن سسٹم ہے جو ہندوؤں سے مستعار لیا ہے ہم نے۔ کیونکہ برہمن، کھتری، ویش، شودر یہ سلسلے ہیں ارفع آدمی ہونے کے۔ ایک چھوٹا ہوتا ہے، اور ایک اس سے چھوٹا ہوتا ہے، جبکہ ہمارے ہاں یہ جو حکم دیا جا چکا ہے، آج سے ساڑھے چودہ سو برس پہلے کہ بنی نوع انسان ایک نفس، ایک آدمی کی اولاد ہیں، اور عربی کو عجمی پر اور عجمی کر عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ نہ گورے کو کالے پر نہ کالے کو گورے پر، لیکن بدقسمتی سے ہم اس درس کے قریب ایک صاحب حال ہونے کی حثیت سے نہیں گزرے، صرف اکتسابی طور پر ہم نے پڑھا ہے یا کتابوں میں پڑھا ہے۔ اسی کو لے کر آگے چلتے رہے ہیں۔ مجھے اپنے وہ استاد ماسترو یاد آ رہے ہیں کہ کئی دفعہ چھٹی کے دن یا جب آدھی چھٹی ہوتی تھی، یونیورسٹی میں، تو ہم پروفیسر ان سے درخواست کرتے تھے کہ آپ ہم کو ساتھ لے کر چلیں، اور ہم اپ کی معیت میں گھومنا چاہتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے پہاڑوں کے اندر سے لے کر گزرتے ایک نالہ آتا تھا۔ ایک برساتی نالہ کہہ لیں، اس کے اوپر کوئی پندرہ بیس فٹ لمبا پل ہو گا۔ پرانی وضع کا جیسے آپ نے دیکھا ہو گا، ہمارے شمالی علاقوں میں۔ تو جب ہم اس کے اوپر سے گزرے باتیں کرتے ہوئے، اٹکھیلیاں کرتے ہوئے، گپیں کرتے ہوئے تو ماسترو بھی ہمارے ساتھ تھے۔ جب ہم گزر چکے اُس پُل پر سے تو وہ گھومے۔ کہنے لگے Thank you very much. Thank you پُل کا شکریہ ادا کیا، تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وہ جب بھی کبھی پل پر سے گزرتے تھے یا کسی ایسی مشکل اوگھٹ گھاٹی سے تو اس کا شکریہ ضرور ادا کرتے تھے۔ میں اس سے گزرا ہوں تو ان کی محبت کہ یہ پہلو، اور ان کی نرت اتنی خوبصورت ہوتی تھی کہ جب وہ پلٹتے تھے نا ہاتھ اٹھاتے شکریہ ادا کرنے کے لیئے، جی چاہتا تھا کہ ہماری راہ میں ایسی مشکلات آتی رہیں کہ شکریہ ادا کرنے کے لیئے کیسے کیسے رموز ہیں، اور اس کے کتنے کتنے زاویئے ہیں، اور کیسے کیسے ان کے پہلو ہیں۔

میں یہ آپ سے عرض کر رہا تھا کہ ہمیں بدقسمتی سے بتایا نہیں گیا۔ ورنہ ہم کافی اچھے لوگ ہیں۔ میں اس لیئے نہیں کہتا کہ میں ان لوگوں سے تعلق رکھتا ہوں۔ ہم میں کافی خوبیاں ہیں، ہم محنتی لوگ ہیں۔ آپ نے دیکھا، چاہے گھر میں ہم محنت نہ کریں، باہر جا کر بحرین، امریکہ، دوبئی میں ہم نے وہاں اپنا سکہ کمال دکھایا ہے۔ یہاں بھی بڑی تیزی کے ساتھ کام کر رہے ہیں، اور انشاء اللہ تعالٰی اپنے ملک کو بھی Build کر کے رہیں گے۔

میں معافی چاہتا ہوں۔ ہمارے سیاستدانوں نے ہماری ایک ہی ٹریننگ کی کہ اپنا حق حاصل کروں اور کرنے کے لیئے لڑو، اور کوشش کرتے رہو۔ کسی نے اپنے فرائض کی طرف توجہ نہیں دلائی۔ اگر آج سے، اس تاریخ سے یعنی 1999ع میں یہ شروع کر لیا جائے کہ کچھ ہمارے حقوق ہیں، کچھ ہمارے فرائض ہیں، اور یہ ہم پورے کریں گے، اور پھر ہم اپنے حقوق مانگیں گے تو فائدہ ہو گا۔ میں پھر دبی زبان میں عرض کروں گا کہ ہمارے سیاستدانوں نے اس کی طرف توجہ نہیں دی، بلکہ اگر دی ہو گی تو دوسری طرف لے جانے کی دی۔ اب اگر ان کو خیال آ جائے، اور ہم پر مہربانی فرمانا چاہیں تو ہم کو فرائض کی طرف بھی متوجہ کریں۔ میں ان کو یقین دلانا چاہتا ہوں، اپ کی طرف سے، اور سارے Viewer's کی طرف سے کہ ہم اپنے حق ادا کرنے میں بھی خدا کے فضل سے فرائض ادا کرنے میں بھی ویسے ہی ثابت ہوں گے جیسے کہ ہم اپنے حقوق مانگنے کے لیئے بے چین رہتے ہیں۔

اکثر کہا جاتا ہے سسٹم میں خرابی ہے۔ سسٹم میں خرابی نہیں۔ سسٹم میں بے خیالی ہے۔ ان ڈیفرنس (Indifference) ہے۔ اگر آپ یہ پورا تہیہ کر لیں ایک فریم ورک کے اندر اندر میں “ آپ“ ہم سارے تو پھر وہ سسٹم جو کہ خراب سسٹم ہے، وہ رہتا ہی نہیں۔ اور وہ رواں دواں قافلہ ہوتا جاتا ہے تخلیقات کی طرف۔ لیکن لڑکیا تو شکریہ ادا کرتی ہیں۔ اپنی سہیلیوں کا شکریہ ادا کرتی ہیں یا نوکروں کا بھی کرتی ہیں۔

آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ یہاں تشریف لائے، اور خواتین و حضرات کا اس سے بھی زیادہ شکریہ کہ آپ نے اس پروگرام کو برداشت کیا۔ پھر انشاء اللہ، اگلی مرتبہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ اور کچھ مزید ایسی ہی باتیں کریں گے۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے، اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
گوما ان ہالینڈ

یہ جو اب بات میں کرنے لگا ہوں، اس کا ہماری محفل ‘زاویہ‘ سے بلا واسطہ تو کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ایک چھوٹا سا تعلق ضرور ہے کہ محنت کرنے سے، اور لگن کے ساتھ پوری دھن کے ساتھ، جس طرح لوگ خدا کو تلاش کر لیتے ہیں، جس طرح دنیا کی تلاش میں ہم لگے رہتے ہیں۔ مجھ سے اکثر اوقات لوگ سڑک پر چلتے ہوئے جب سامنے سرخ بتی ہوتی ہے تو گاڑی روک کر شیشہ اتار کر کہتے ہیں کہ “ اشفاق صاحب بابا ہے کہیں۔“ میں کہتا ہوں ابھی تو نہیں اس وقت موٹر میں۔ میں پھر کبھی ملوں گا تو آپ سے ملاقات ہو گی۔ کہنے لگے بس ٹھیک ہے جی۔ بڑی مہربانی۔ ایسے بھی کہہ کر گزر جاتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو اکثر پوچھتے ہیں کہ کوئی بابا نہیں ملتا۔ میں نے کہا، سر وہ اب آپ کی آرزو نہیں ہے۔ کئی کو میں نے یہ بھی کہا، اس محفل میں بھی یہ بات کی کہ چودہ برس بے اے کرنے میں لگائے، چودہ مہینے اس کی کوشش کرو روحانی دنیا میں جانے کی، کہنے لگا، نہیں چودہ مہینے تو بہت زیادہ ہیں۔ میں نے کہا، چودہ ہفتے، کہنے لگے نہیں یہ بھی زیادہ ہے۔ اتنا ٹائم نہیں ہے ہمارے پاس۔ میں نے کہا کہ اگر کوئی ہے “بابا“ تو میں آپ کی خدمت میں پیش نہیں کروں گا۔ اس لیئے اسے زچ کرنے کے لیئے ذلیل و خوار کرنے کے لیئے اس کا ایڈریس پوچھ رہے ہیں کیونکہ آخر میں آپ نے یہ کہنا ہے کہ ملے تھے وہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اس نے تو تو کوئی کبوتر نکال کر دکھایا ہی نہیں۔ اکثر یہی آرزہ ہوتی ہے نا آدمی کی۔ ہم نے پاس کرنے کے لیئے کہا تھا، وہ تو کیا نہیں، ڈبا پیر جا تھا۔ اکثر جو جعلی قسم کے پیر ہوتے ہیں، وہ اسی طرح بنتے ہیں کہ اپنی زندگی تو بے چارے شروع کرتے ہیں اللہ کی تلاش میں، لیکن ہم لوگ جو ان کی خدمت میں حاضر ہونے والے ہوتے ہیں وہ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو جا کر مجبور کرتے ہیں آہستہ آہستہ کہ وہ ڈبہ پیر بنیں، اور ہماری خواہشات کو پورا کریں۔ ابھی تک کوئی بندہ ایسا نہیں گیا ان کے پاس جو کہے کہ مجھے کچھ روح کی تلاش ہے۔ اللہ کی آرزو ہے۔ میں دنیا کے بارے میں کچھ نہیں جاننا چاہتا۔ اس لیئے میری آپ مدد کریں۔ چونکہ ایسا سوال نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ بے چارے اپنا روپ بھی، اور طرح کا اختیار کر لیتے ہیں۔ تو میں تمہیداً عرض کر رہا ہوں کہ جو بات میں کرنے والا ہوں، اس کا تعلق Struggle سے ضرور ہے۔ کوشش سے، اور جدوجہد سے، لیکن اس کا بلا واسطہ طور پر اس سے تعلق نہیں ہے، لیکن آپ سنیں گے تو چونکہ آپ ہمارے ذہیں ناظرین ہیں، خود بخود اس کے ساتھ جوڑتے چلے جائیں گے۔

سن 49ء کی بات ہے میں یہاں تھا تو ہمارے دوستوں کا اکی گروہ تھا جس میں سے اب سے نمایاں ہمارا دوست نصرت درانی تھا، جو ایک سپلائی کمپنی کا مالک تھا ملٹری کو سامان لے کر دیتا تھا۔ امیر آدمی تھا اس زمانے میں۔ اس کی بیوی بہت ماڈرن تھی۔ ہم اس کو پیار سے نینی کہتے تھے۔ نینی استانی قسم کی خاتون تھی، اور ہر بات میں ہم کو گائیڈ کرتی تھی۔ آرٹسٹ بہت اچھی تھی، اور وہ یہ جو لینڈ سکیپ پینٹنگ ہوتی ہے، واٹر کلر کی، بہت ماہر تھی، اور وہ اکیلی لڑکی تھی سارے لاہور میں جو دوپٹہ نہیں لیتی تھی۔ سارے اس کو حیرانی سے دیکھتے تھے کہ کمال کی بات ہے۔ اس کے بال کٹے ہوئے تھے جو اس زمانے میں نہیں ہوتے تھے، ہم جب اس کے دوستوں میں باہر نکلتے تھے تو سب اس نینی کو دیکھتے تھے۔ اس کا ایک بچہ تھا، بڑا شریر، بڑا ضدی، بڑا ظالم، بوٹ سے ٹھوکریں مارنے والا، بالکل نہ ماننے والا۔ تو ان کے ساتھ، اُس خاندان کے ساتھ ہمارے بڑے تعلقات رہے۔

ہمارا ایک دوست تھا۔ بہت اچھا آرٹسٹ، اب بھی ہے تو ان کے سٹوڈیو میں ہم اکٹھے ہوتے تھے۔ کئی دفعہ ہم اپنی دھماچوکڑی لارنس گارڈن جس کو اب باغِ جناح کہتے ہیں، میں مچاتے تھے۔ ہم چلتے رہے۔ بہت اچھی طرح سے ایک دوسرے کے ساتھ بانہوں میں بانہیں ڈال کر، بڑے اچھے ایام ہمارے گزر رہے تھے کہ اچانک درانی اور نینی کا جھگڑا ہو گیا۔ میاں بیوی کا جھگڑا ہو جایا کرتا ہے۔ وہ اتنی شدت اختیار کر گیا کہ انہوں نے علیحدگی کی بات کر لی کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ بچے کا معاملہ تھا، ہم سب روئے پیٹے۔ درانی سخت آدمی تھا۔ اس نے کہا میں نے نہیں رہنا۔ میں نے کہا، بچے کا کیا کرو گے؟ اس نے کہا بچے کی مرضی ہے، ماں کے پاس رہنا چاہے، ماں کے پاس رہے۔ میرے پاس رہنا چاہے تو میرے پاس رہے۔ تو نینی کو بھی ہم نے سمجھایا۔ وہ کہتی تھی کہ نہیں اگر یہ اتنا زیادہ سخت ہے تو میں اس سے بھی زیادہ سخت ہوں۔ مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ میں اپنے فن میں طاق ہوں۔ لو جی دیکھتے ہی دیکھتے ہماری نظروں کے سامنے ہماری موجودگی میں کاغذ (طلاق) لکھے گئے، اور وہ تو کم روئے، اور ہم زیادہ روئے، اور بڑا دکھ ہوا۔ طلاق ہو گئی۔ بچہ ماں کے ساتھ چلا گیا۔ ویسا ہی ضدی، ویسا روتا، بسورتا، ٹھڈے مارتا ہوا۔ تو درانی سے میں ملا، وہ منتقل ہو گیا تھا GHQ راولپنڈی، وہیں اس کا دفتر تھا۔ اچھا خاصا بڑا دفتر۔ میں نے اس سے کہا کہ اب تمہیں شادی کر لینی چاہیے۔ کہنے لگا نہیں دفع کرو۔ یہ تو پیشہ ہی ایسا نہیں ہے کہ شادی کرو۔ میں شادی کروں ہی گا نہیں ساری عمر۔ میں نے کہا نہیں نہیں تمہیں کرنی چاہیئے، تو نہیں مانا۔ سارے دوستوں نے بھی زور دیا۔ وہ کہتا تھا میں اکیلا بڑا خوش ہوں۔ یہ میری کوٹھی ہے، اور اتنی بڑی کوٹھی بارہ چودہ کنال کی، اور چھاؤنی کا علاقہ ہے، خوش و خرم ہم رہتے ہیں۔ مائی آتی ہے، اماں زین کپڑے دھونے کے لیے، اس کے ساتھ دو بیٹیاں تھیں۔ ایک دارو تھی۔ ایک کا گوما نام تھا۔ وہ کپڑے بھی دھو جاتیں، کھانا بھی پکا جاتیں، جھاڑو واڑو بھی کر جاتیں۔ پھر اس کا خانساماں تھا۔ پھر اس کا گھوڑا تھا۔ گولف کھیلتا تھا۔ امیر آدمی تھا۔ اچانک میں تھوڑا سا اس سے دور ہو گیا کہ میں لاہور میں مصروف ہو گیا۔ کچھ میری مصروفیات آزاد کشمیر ریڈیو میں تھیں۔ جیسا کہ آپ کو پتا ہے وہاں سے تراڑ کھل چلے گئے، تو لوٹ کے آیا تو اس نے کہا، میں نے فیصلہ کر لیا ہے شادی کرنے کا۔ میں نے کہا بڑی اچھی بات ہے۔ کہنے لگا اب کی بار میں شادی کروں گا تو کسی ایسی لڑکی سے کروں گا جو بالکل دیہاتی ہو، الہڑ مٹیار ہو، جس کو زمانے کا پتہ نہ ہو۔ نینی جیسی نہ ہو، نہ پینٹنگ جانتی ہو، نہ ڈانس جانتی ہو، نہ اس کو کچھ زندگی کا آگے کا پتا ہو، نہ پیچھے کا پتا ہو۔ ایک سادہ، پاکیزہ سی لڑکی۔ میں نے کہا، بھئی دیکھ لو تم بہت پڑھے لکھے ہو، اور تمہارا اندازِ زیست مختلف قسم کا ہے، تو تم اس کے ساتھ نباہ کر لو گے؟ اس نے کہا میں کر لوں گا۔ میں نے تہیہ کر لیا ہے۔

تو جناب یہ فیصلہ اس نے دل میں کر لیا ہوا تھا۔ میں نے دوستوں کو اطلاع بھی دی۔ بتا بھی دیا تو انہوں نے کہا، یہ بکواس کرتا ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا، یہ کس طرح سے کرے گا؟ یہ تو بہت ماڈرن قسم کا آدمی ہے۔ میں لوٹ کے آیا کراچی سے، ہمارا وہاں ایک سیمینار تھا، کوئی ایک مہینے کا، مجھے اس نے ڈھونڈا۔ گاڑی اس کے پاس تھی لینڈروور تھی بغیر چھت کے بٹن دباتے تو چھت کھل جاتی تھی، وہ آیا اور کہنے لگا Meet your Bhabi تو وہ ایک چادر میں لپٹی ہوئی بے چاری لڑکی۔ نہ اس کا سر منہ نظر آئے۔ میں نے کہا، کون ہے یہ لڑکی؟ تو میں نے آگے ہو کے کہا، السلام علیکم۔ کہنے لگی وعلیکم السلام بھائی جان۔ تو دیہاتی سی لڑکی تھی تو میں نے آگے ہو کے دیکھا، وہ گوما تھی، جو ان کے کپڑے دھونے آتی تھی۔ اماں جان (کام کرنے والی) کی بیٹی، اس نے اس کے ساتھ شادی کر لی۔ گوما کے ساتھ۔ میں نے سر پر ہاتھ پھیرا۔ میں نے کہا، یہ گوما بیچاری جھاڑو دیتی ہے کچھ نہیں پتا اس کو۔ اس نے کہا، میں بڑا خوش ہوں اس کے ساتھ، اور بہت اچھی زندگی بسر ہو رہی ہے۔ مجھے وہ نخرے والی نہیں چاہیے۔ اچھا بھئی اب کیا کر سکتے تھے۔

خواتین و حضرات پورے ایک سال کے بعد 31 دسمبر کی رات تھی۔ اگلے دن صبح نیو ایئر (New year) تھا۔ چھاؤنی میں وہ تھا، چکلالہ میں۔ بہت لمبا چوڑا انتظام جیسے ہوتا ہے تو اس نےکہا، شام کو باغ میں چلیں گے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے چلیں گے۔ کھانے کا مجھے جب سے شوق تھا، میرے جسم سے بھی ظاہر ہے۔ بڑی اچھی میس تھی، وہاں گئے۔ وہاں غیر ملکی لوگ بھی موجود تھے، اور سفارتخانے کے لوگ، ملٹری کے ایکسپرٹ جو باہر سے آئے تھے، وہ بھی تھے تو جب وہاں گئے تو مجھے اس نے کہا، تم آ جانا میری سیٹیں بک ہیں۔ میں وہاں بیٹھ گیا تو یہ تھا نہیں۔ دور سے آتا دکھائی دیا۔ اس کے ساتھ بڑی خوبصورت لڑکی، اور چھوٹی سی اس کی کمر، پیلے رنگ کا اس نے سویٹر پہنا ہوا۔ اونچی ایڑی کی گرگابی، اس کے بال کٹے ہوئے تھے، وہ چلی آ رہی تھی اس کے ساتھ۔ میں نے کہا، دیکھو میں نے اس کومنع کیا تھا، اب دیکھو کوئی اور لے آیا ہے۔ وہ قریب آئی تو گوما تھی۔ کہنے لگی بھا جی۔ میں نے اسے دیکھا اور اٹھ کے کھڑا ہو گیا۔ تو کہنے لگی آپ کیسے ہیں؟ آپ تو آئے ہی نہیں۔ یہ آپ کا بڑا ذکر کرتے ہیں جی۔ اب میں اس کی باتوں کا کیا جواب دیتا۔ میں اس کو دیکھ رہا ہوں۔ جینز اس نے پہنی ہوئی تھی نیلے رنگ کی اور پیلا سویٹر۔ چائے کافی مجھے پینے کا شوق تھا۔ انہوں نے کہا ابھی پیو گے۔ میں نے کہا ابھی بھی پیوں گا۔ اور کھانے کے بعد بھی پیوں گا۔ کافی پی، لیکن میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ گوما کی طرف۔ میں نے پوچھا داراں کہاں ہے، تو اس نے کہا کہ انہوں نے اس کو مکان لیکر دیا ہے۔ وہ وہاں گاؤں میں ہیں۔ اماں بھی وہیں ہیں۔ میں کبھی کبھی ان سے ملنے جاتی ہوں۔ لیکن اس کے انداز میں، اس کی گفتگو میں ایک بڑی تبدیلی آ گئی تھی، جو کہ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایسی تبدیلی آ سکتی ہے، اور اتنی جلدی۔ لوگ ہلا گلا کرنے لگے، میوزک بجنے لگا۔ اتنے میں ایک کرنل آیا بوڑھا سا آگے بڑھا، اور سلام کیا۔ اس نے گوما کی طرف انگلی اٹھائی وہ پکڑ کر چلی گئی۔ خواتین و حضرات وہ ناچی ہے کوئی۔ یعنی بینڈ کی دھن کے اوپر گوما۔ اپنی ایڑیاں زمین سے اٹھا کر بڑا مشکل ہے دھم دھما دھم، اور وہ کیسے بھمبیری کی طرح گھوم رہی تھی، اور کرنل بیچارہ اچھا بھلا تھا، وہ ہف گیا بوڑھا۔ اس سے چلا نہ جائے۔ تو وہ ایک دو تالیاں بجیں۔ آ کے بیٹھ گیا۔ تو میری سمجھ میں نہ آئے کہ اس کو داد دوں یا بے داد، سمجھ میں نہ آئے۔ پھر ایک بندہ آ گیا تو اس سے آ کر کہنے لگا کہ ایکسکیوزمی۔ گوما کہہ رہی ہے I am really tired' after five minutes I will be refresh. میں نے جب انگریزی سنی اس کی، تو میں نے کہا، یہ تم نے انگریزی کہاں سے سیکھی۔ کہنے لگی گفتگو میں آ جاتی ہے۔ تو میں نے کہا، تم نے پڑھائی شروع کی۔ کہنے لگی نہ بھا جی مجھے پڑھائی اچھی نہیں لگتی میں پڑھی لکھی تو نہیں۔ میں نے پڑھنا لکھنا بالکل نہیں سیکھا۔ تو میں نے کہا، یہ جو تم بولی ہو۔ کہنے لگی، نہیں بول میں ساری ٹھیک ٹھاک لیتی ہوں۔ سمجھ بھی لیتی ہوں۔ میں نے کہا یہ راز کیا ہے؟ کہنے لگی جی زبان کے جاننے کا راز اس کے بولنے میں ہے۔ اچھا لکھنے والا جو ہے نا، اس کی اتنی قدر و منزلت نہیں ہوتی۔ جتنا اچھا بولنے والے کی ہوتی ہے۔ کیونکہ کانونٹ کے پڑھے بچے بچیاں ہیں جو ان کو انگریزی سکھائی جاتی ہے بولنے والی ہے۔ فیض صاحب جو تپڑ سکول کے پڑھے لکھے تھے، ایڈیٹوریل وہی لکھ سکتے تھے۔ وہ یہ راز پا گئی تھی۔ اس نے کہا، بولنے کا کمال ہونا چاہیے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ سیاستدان اکثر کہتے ہیں، یہ تو بولتا نہیں ہے، فلاں آدمی کمال کا بولتا ہے جی۔ اس کے کیا کہنے ہیں جی، تعریف ہوتی ہے اس کی۔ تو وہ چونکہ یہ راز پا گئی تھی، اس نے بولنے پر توجہ دی، اور کھٹا کھٹ بولنے لگی۔ تو اس کے ساتھ کہنے لگی، ہمارا اس کا جائنٹ اکاؤنٹ بھی ہے۔ درانی کا اور میرا، اور میرا سنگل بھی ہے۔ تو میں نے کہا، تم اسے آپریٹ کیسے کرتی ہو۔ کہنے لگی، میں Goma (گوما) لکھتی ہوں۔ گوما لکھنا سیکھ لیا ہے۔ دستخط تو کر لیتی ہوں۔ اور میں نے ہندسے بھی سیکھ لیئے ہیں۔ ایک سے سو تک۔ بڑے اچھے، لیکن یہ کوئی ایسی بات نہیں۔ یہ کوڑا صاف کرنے سے بہت آسان بات ہے۔ میں تھک جاتی تھی اور وہ کپڑے دھونے سے یہ پڑھنا لکھنا بڑی کمال کی چیز ہے۔ اس میں بندے کو بغیر کچھ کیئے عزت مل جاتی ہے۔ عجیب فلسفہ تھا اس کا۔ میں مبہوت رہ گیا۔
اتنے میں ایک اور آدمی آیا، اور اس کے ساتھ جا کر ناچنے لگا اور وہ ساری اس محفل کی جان تھی جو بھی لوگ آتے تھے، خاص طور پر فارنرز وہ اس کے ساتھ ناچنا پسند کرتے تھے، اور اللہ نے اس کو ایسا شعور دیا تھا کہ وہ تو پتا نہیں میں کس کی مثال دوں۔ آپ نے کبھی ایسا ناچ نہیں دیکھا ہو گا۔ پھر ہم نے کھانا کھایا، اور ہم آ گئے۔ درانی مجھے کہنے لگا، شام کو تم جاؤ گے نہیں کہیں۔ میں وہیں رہا، تو صبح جو اس نے ناشتہ ہم کو دیا وہ تو تھا ہی کمال کا، لیکن جس طرح سے اس نے ملازمہ کو کنڈکٹ کیا، یعنی اس کو حکم دیا کہ یہ چیز لیکر آؤ، بھائی جان کے لیئے، یہ چیز واپس لے جاؤ، اور وہ جو میں نے فلاں فریج میں رکھی ہے، اس کو نکال کے لاؤ، وہ دیکھنے والا انداز تھا۔ اس نے کہا، دیکھو اس کو غلام محمد دیکھو، سائیس ہے؟ اس نے کہا جی بیگم صاحب۔ بلاؤ اس کو۔ تو وہ سائیس آ گیا۔ کچھ اور قسم کا آدمی۔ تو اس نے کہا، دیکھو ایک گھوڑا تو میرا ہے، ایک صاحب کا ہے۔ ایک بھائی جان کے لیئے پیدا کرو۔ تو اس نے کہا بہت اچھا۔ میں نے کہا، مجھے کیا کرنا ہے گھوڑا۔ انہوں نے کہا۔ اپ کو بٹھانا ہے اس کے اوپر۔ آپ چلیں گے۔ میں نے کہا، خدا کے لیئے میں گھوڑے پر کبھی نہیں بیٹھ سکتا۔ انہوں نے کہا، کچھ نہیں ہوتا، آپ چلیں ہمارے ساتھ۔ تو جی شام کو اس نے گھوڑے پر چکر لگوایا اور انہوں نے کہا، اگر آپ چاہیں تو ہم انہی گھوڑوں پر مری چلتے ہیں۔ میں نے کہا، اللہ کے واسطے اتنا ہم سے نہیں ہو سکتا۔ یہیں تک کافی ہے۔ اس کے بعد بڑی لمبی کہانی ہے، میں جلدی جلدی سے وائنڈاپ کرنا چاہتا ہوں۔ پھر جناب مجھے ولایت آنا پڑ گیا۔ اور کچھ عرصہ مجھے ان کی کوئی خبر معلوم نہ ہو سکی۔ دو سال کے بعد جب میں واپس گیا، بڑی آرزو تھی درانی سے ملنے کی، گوما سے ملنے کی۔ تو میں ملا درانی سے، اپنے دفتر میں تھا۔ بڑا اچھا خوشحال۔ تو میں نے کہا، سناؤ بھابھی کا کیا حال ہے۔ کہنے لگا دفعہ کرو، لعنت بھیجو اس پر۔ میں وہ گالی نہیں دے سکتا جو اس نے دی تھی، ساری کائنات کو، انسانوں کی انسانیت کو، جس کو بھی جس طرح گنا جا سکتا ہے، اور ساتھ گوما کو بھی۔ میں نے کہا وہ ہے کہاں۔ تم اس طرح کیوں کہہ رہے ہو۔ کہنے لگا، بس یار لعنت بھیجو۔ میں نے کہا، ہوا کیا۔ کہنے لگا وہ اس کا ایک بڑا محبوب دوست تھا ہالینڈ کا تھرڈ سیکرٹری ایمبیسی میں۔ اس نے مجھ سے طلاق لے کر اس سے شادی کر لی اور وہ ہالینڈ چلی گئی۔ وہ یہاں نہیں ہے۔ میں نے کہا، گوما ہالینڈ میں۔ کہنے لگا، ہاں۔ تو میں نے کہا، وہ وہاں کیا کر رہی ہے، کہنے لگا، وہ ہم سے تم سے زیادہ سمجھدار ہے۔ اس کو زندگی گزارنے کا طریقہ بہت اچھی طرح سے آتا ہے، اور وہ اونچ نیچ کو بہت اچھی طرح سمجھتی ہے، اور وہ اپنا آپ اپلائی کرتی ہے۔ اگر کہیں اس نے اپنا آپ روحانیت کی طرف اپلائی کیا ہوتا تو اس وقت پاکستان کی کیا، پورے برصغیر کی ایک بزرگ ترین ہستی ہوتی، لیکن اس کا رُخ دوسری طرف ہے۔ وہ کامیابی کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہے۔ تو میں نے کہا، مجھے جانا ہے ولایت، تو پھر میں اس سے ملے بغیر نہیں رہ سکوں گا۔ اس نے کہا، جاؤ دفع ہو جاؤ تم بھی اس کے ساتھ۔ خیر مجھے وہاں ہالینڈ جانے کا اتفاق ہوا۔ پتا کیا اس کو ڈھونڈ نکالا۔ بڑی خوش و خرم تھی اور اس کا ولایتی خاوند وہ چھوڑ چکا تھا نوکری۔ اس نے کوئی خوشبویات کی Activity چلا لی تھی، اس میں وہ اس کے کام کرتی تھی۔ میں نے کہا، تم نے ابھی تک لکھنا نہیں سیکھا۔ کہنے لگی، نہیں، لکھنا نہیں سیکھا۔ میں بولتی انگریزی ہوں۔ اب میں ڈچ زبان بھی بول لیتی ہوں، کیونکہ مجھے اس کا محاورہ ہے۔ اس نے کہا، ایک فرق میری زندگی میں پڑا ہے، کہ میں نے اپنے نام کے سپیلنگ بدل لیے ہیں۔ میں اس کو Gomant کرتی ہوں فرنچ میں T نہیں بولتے بھائی جان۔ تو گوما لکھتی تھی، یہ بہت اچھا لگتا ہے۔ جب میں دستخط کرتی ہوں پیسے چیک وغیرہ نکالنے ہوتے ہیں۔ تو میں بڑا خوش ہوا۔ کہنے لگی، لیکن مجھے یہ اچھا نہیں لگتا۔ یہ علاقہ جو ڈہناک کا ہالینڈ ہے۔ میں اسے چھوڑنا چاہتی ہوں۔ میں نے کہا تم کہیں اور کام کر لو۔ کہنے لگی نہیں، میں اس پر غور کر رہی ہوں۔ کہنے لگی، اماں کا بہن کا کبھی کوئی خط آتا ہے، ان کو پیسے وغیرہ بھیج دیتی ہوں۔ وہ بہت خوش ہیں۔ میں نے کہا، تمہیں آرزو پیدا نہیں ہوئی، کبھی ان سے ملنے کی، کہنے لگی، ہوتی ہے، لیکن یہاں کام وام اتنے ہیں، مصروفیات ایسی ہیں کہ میں اس میں لگی رہتی ہوں، اور میں اس کی طرف توجہ نہیں دے سکتی، لیکن میں ان کی نگہداشت بہت اچھی طرح سے کر لیتی ہوں۔ مالی طور پر وہ بہت خوش ہیں۔ میں نے کہا، اچھا جی ٹھیک ہو گیا۔ اس سے مل کے، اس کے ہاں کھانا کھا کے پھر اپنے کام کر کے جو میرے ذمے تھے، ہماری یونیورسٹی کی طرف سے میں واپس آیا اور درانی سے ملا۔ بہت خوش و خرم، اور بہت اچھے موڈ میں۔ ہاں جسے کہتے ہیں نا چاگیاں مارتا ہوا۔ بالکل خوش ہوتے ہوئے کہنے لگا، لو دیکھو ہماری بھی مدد ہو گئی۔ میں نے کہا، وہ کیسے؟ کہنے لگا۔ وہ اس بدبخت کے پاس بھی نہیں رہی، ڈچ کے پاس، اس نے اس سے طلاق لے لی ہے۔ برسلز کے ایک بوڑھے کے ساتھ شادی کر لی ہے جو کہ وہاں کی ایلومینیم کی فیکٹری کا مالک ہے۔ اب وہ اس کی فیکٹری Run کرتی ہے کیونکہ بابے سے اتنا نہیں ہوتا کام اب، اس کے ہاں ڈیڑھ ہزار ملازم ہے، گھوگھو بجتا ہے، اور وہ بیچ میں پتلون پہن کے گھومتی ہے۔ ہنٹر پکڑ کر جیسے سرکس نہیں ہوتی، رنگ ماسٹر، وہ سارا کنٹرول کرتی ہے۔ اور اتنا اچھا اس نے کنٹرول کیا ہے کہ اب وہ یورپ ایسوسی ایشن آف ایلومینیم فیکٹری کی اسسٹنٹ صدر ہو گئی ہے۔ یہ یاد رکھیئے پنڈی کے پاس گاؤں ہے دولتالہ اس کے پاس کی رہنے والی تھی، تو یہ اس کا ارادہ تھا، اور یہ اس کا تہیہ تھا۔ اس وقت میں اسے نہیں جانتا، دس سال ہو گئے ہیں۔ مجھے یقین ہے اب بھی وہ انٹرنیشنل ایلومینیم ایسوی ایشن کی صدر ہو گی کیونکہ اللہ نے اسے بڑی صلاحیت دی تھی۔ اور اس نے اپنی ساری صلاحیت ایک رخ کے اوپر چلا دی تھی۔ تو جب لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ صاحب ہمیں کوئی بتائیں کہ بابا کدھر ہوتا ہے، تو مجھے ہمیشہ وہ یاد آ جاتی ہے۔ اس نے کبھی نہیں پوچھا تھا کہ وہ کہاں ہوتا ہے۔ یہ فلاں چیز کہاں ہوتی ہے۔ وہ اپنی دھن کی پکی اور راست رو خاتون تھی، اور جو بات تھی دل میں رکھتی تھی، وہ بہت کم گو تھی، دھارنا دھاری تھی، اس کو پورا کر کے چھوڑا۔ خواتین و حضرات ! اگر آپ تہیہ کرنا چاہتے ہیں تو مجھ سے نہ پوچھیں۔ اپنے آپ سے پوچھیں کہ آپ کا کیا ارادہ ہے۔ جب تک آپ کی کنویکشن نہیں ہو گی۔ باہر کی لائی ہوئی تبدیلی کسی طرح سے بھی آپ کے مدد نہیں کر سکتی۔ اب ہم سارے مل کے اپنی گوما کو ڈھونڈیں گے۔ یعنی ہماری اپنی روح جو ہے، وہ ہمارے لیے گوما کا درجہ رکھتی ہے نا۔ ہم چونکہ روح کے انسان ہیں۔ اللہ میاں نے انسان کو ایک کیفیت دی جو دوسرں کو، کسی جاندار کو نہیں دی۔ انسان کا ایک وجود جو ہے، وہ جسم ہی جسم نہیں ہے۔ اس کے اوپر ایک اور چوبارہ بھی ہے۔ جو Intellact کا چوبارہ ہے۔ اسی وجود کے اوپر۔ وہ انٹلیکٹ کا چوبارہ جو آپ کو مجبور کرتا ہے کہ آپ سردیوں کی یخ بستہ رات کو ٹوٹی ہوئی بائیسکل چلاتے ہوئے نصرت فتح علیخان کا گانا سننے جائیں۔ وہ تقاضا ہے نا۔ بھینس کبھی بھی مشاعرہ سننے نہیں جاتی، اس کو صرف اپنا جسم چاہیے، روٹی، کپڑا، مکان، کوئی جانور ایسا نہیں کرتا۔ شیر نے آج تک کسی قوالی میں شرکت نہیں کی، بندہ کرتا ہے۔ اس کی آرزو ہے جو مرضی کریں۔ یہ جو انٹلیکٹ ہے، ذہن کا چوبارہ، اس کے اوپر ایک اور ہے، اور وہ روح کا چوبارہ ہے، وہ ہمارا بند پڑا ہے۔ گندی ٹوٹی پھوٹی پھوس اس میں پڑی ہے۔ پرانا ٹوٹا ہوا چرخہ ہے۔ پرانی منجیاں (چارپائیاں) بستر پھینکے ہوئے ہیں۔ شیشے اس کمرے کے ٹوٹے ہوئے ہیں؛ کنڈی اس کی Permanently بند ہے۔ کبھی کبھی کوئی آدمی اوپر چڑھتا ہے، اور وہ آواز دے کر پوچھتا ہے کہ یہ کس کا ہے چوبارہ۔ تو نیچے سے آواز دیتی ہے کہ اپنا ہے۔ تو کہتا ہے۔ اس کو کھولیں۔ وہ کہتی ہے، نہ پت دفعہ کر اس میں گند پھوس بھرا ہوا ہے۔ اس کو کھولنے کی کوئی چنداں ضرورت نہیں۔ تو یہ ارادہ سیڑھیاں طے کر کے اوپر چڑھنے والے انسان کا ہوتا ہے کہ آیا میں اس کوٹھڑی کو کھولوں یا نہ کھولوں۔ اب یہ فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے، اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔
 

ماوراء

محفلین
احکامِ الٰہی

احکامِ الٰہی​



جوانی کا زمانہ طاقت ور، منہ زور اور کڑا ہوتا ہے۔ جس وقت ہم جوان تھے، اس وقت اس میں ضد بھی شامل تھی، اور سب سے بڑا فرق یہ تھا کہ ہم کو دنیا بھر کے سوالوں کے جواب آتے تھے۔ کوئی مشکل سے مشکل بات ہو، ہم اس کو سمجھتے ہیں، یہ اس عمر میں ایک خاص طرہ امتیاز ہوتا ہے تو ہم نے ایک دن بابا سے یہ سوال کیا کہ سر آپ یہ بتائیں اور تو ساری باتیں سمجھ میں آگئی ہیں زندگی کی، یہ بتائیں یہ جو برے برے لوگ ہوتے ہیں، ناکارہ لوگ ہوتے ہیں جن کا سوسائٹی کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا، جنہوں نے بہت سے ایسے مظالم ڈھائے ہوتے ہیں لوگوں پر کہ ان کو کوئی معافی نہیں ملنی چاہیے۔ وہ زندگی میں بڑے بڑے کامیاب ہوتے ہیں، اور بہت اونچے درجوں کے ہوتے ہیں، اور بہت اعلٰی رتبے حاصل کرتے ہیں، اور جو لوگ بڑے اچھے ہوتے ہیں، بڑے نیک ہوتے ہیں، بڑے پاکیزہ ہوتے ہیں، وہ دھکے کھاتے رہتے ہیں۔ یہ ایک سوال ہے جو قدرتی طور پر ذہن میں پیدا ہوتا ہے، وہ مسکراتے رہے۔ اس بات کا کوئی جواب نہ دیا، اور ہم بڑے مایوس ہوئے، اور واپس اپنی کوٹھڑی میں آ کر بیٹھ گئے، اور اپنے طور پر غور کرنے لگے کہ یہ عجیب ہے، یہاں بھی دو نمبر کام کرنے والے لوگ ہیں، ان کی بڑی عزت افزائی ہے، اور جو اچھے والے ہیں، وہ بے چارے مارے مارے پھرتے ہیں۔ کچھ معصوم لوگ ہوتے ہیں، ان کو کیوں سزا ملتی ہے زندگی میں۔ ایک تین سال کا بچہ ہے، اور وہ باہر نکلا سڑک پر اپنی گیند کو پکڑنے کے لیے، اور تیزی سے ایک کار آتی ہے، اس کو کچل جاتی، اب اس کا کیا قصور تھا۔ اس طرح کے بے شمار سوالات جو ذہن میں آتے تھے، جب بھی آتے تھے، اب بھی آتے ہیں، اور ان کا جوانی، اور بڑھاپے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، یہ بتدریج آتے چلے جاتے ہیں، اور میں سمجھتا ہوں جب تک انسان زندہ ہے۔ وہ ضرور ان سوالوں کو Face کرتا ہے، اور ان کا جواب نہیں دے پاتا۔
ایک روز میں اور میرا ساتھی بہت بے چین ہوئے۔ اور ہمارے ساتھ ایک ایسا واقعہ گزرا تھا، جو ہمارے ساتھ نہیں گزرنا چاہیے تھا، کیونکہ ہم اپنے “ بھانویں“ بڑے اچھے آدمی تھے۔ لیکن ہم نے بابا جی سے پوچھا کہ سر یہ راز کھول کر ہمیں بتائیں،ایسا کیوں ہوتا ہے، تو انہوں نے کہا، دیکھو آپ لوگ جو ہیں، اللہ کے حکم کے پابند ہیں، احکامِ الٰہی کے پابند ہیں۔ آپ لوگوں نے ایک عجیب صورتِ حال اختیار کر لی ہے کہ آپ فعل اللہ کے اوپر تنقید کرنے لگ گئے ہیں۔ فعل اللہ کے ساتھ آپ کا کوئی تعلق نہیں۔ اللہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے، جو چاہے اس کی مرضی کرے۔ لیکن آپ صرف اس کے احکام تک رہیں، اور فعل اللہ کے ساتھ آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم نے کہا، سر یہ تو پھر کمال کی بات ہے۔ ہم تو پڑھے لکھے لوگ ہیں، اور ہم کالجوں، یونیورسٹیوں میں یہی تعلیم دی جاتی ہے کہ تنقید کریں۔ باقاعدہ Discuss کریں، ڈائیلاگ کریں۔ انہوں نے کہا، نہیں آپ کا، اور ان کا یہ رشتہ ہر گز ایسا نہیں ہے، تو آپ سے ہمیشہ یہ کوتاہی ہوتی ہے کہ آپ احکامِ الٰہی کو شھوڑ کر فعلِ الٰہی کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک نئی بات تھی جو بڑی قابلِ غور اور قابلِ توجہ تھی۔
پھر جب تھوڑا سا وقت اور گزرا، اور ہم نے اپنے اردگرد دیکھنا شروع کیا تو یہ محسوس کیا کہ واقعی ہماری توجہ فعل اللہ پر زیادہ رہتی ہے، اور ہم خوامخواہ اس میں دخل دینے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ ہم ایک دفعہ کلفٹن گئے۔ ارادہ تھا کہ ساحل پر پکنک منائیں گے، بالکل پانی کے قریب جا کے ریت میں۔ وہاں جا کر دری بچھا لی، سامان رکھ دیا اس کے اوپر، تو میں نے کہا تھا، کوئی لہر ایسی بھی آئے گی جو ہمارے اوپر چڑھ جائے گی۔ تو ہم نے کہا کوئی بات نہیں، پھر ہم بھاگ چلیں گے، دری کھینچ لیں گے۔ بڑا مزہ رہے گا۔ جب میری بیوی سارا سامان لگا رہی تھی، چائے وائے کا تو میں نے دیکھا کہ اس دری کے اوپر ایک چھوٹی سی چیونٹی جو ہے، وہ چلی آ رہی ہے۔ بڑا حیران ہوا کہ یااللہ سمندر کے پاس گھونگھا سپی، سنکو ہو سکتے ہیں۔ یہ چیونٹی کا یہاں کیا کام، یہ کدھر سے آگئی۔ پھر میں غور کر کے ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے سوچتا رہا کہ یہ لالو کھیت سے چلتی چلتی تیرہ دن کی مدت میں سفر طے کر کے آج ساحل پر پہنچی ہے۔ لیکن پھر میں سوچنے لگا، اس نے کیوں اتنی مصیبت اختیار کی۔ پھر میرے اندر سے آواز آئی کہ یہ بے چاری بہت بے چین تھی۔ گھر میں بیٹھی۔ اس نے سوچا کہ میں جو یہاں پر رہتی ہوں تو میں جا کر سمندر کی حقیقت معلوم کروں گی۔ تو یہ سمندر کی گہرائی اور اس کی وسعت دیکھنے کے لیے یہاں تشریف لائی ہے، اور کہتی ہے کہ میں سمندر کو اچھی طرح سے سمجھنا چاہتی ہوں۔ تو یہی کیفیت انسان کی ہے کہ وہ اللہ کو اس کی ساری گہرائی، اور گہرائی کو ایک چیونٹی سے بھی کم تر ہونے کے باوصف جاننے کی آرزو رکھتا ہے۔ جاننے کا تجسس، اور شوق ہوتا ہے۔ تو ہم بیٹھے رہے۔ خیر ایک لہر آئی ہے، اور اس چیونٹی کو، ہمارے جائے نماز کو، اور ہماری سب چیزوں کو بھگو کر گزر گئی، تو پھر مجھے خیال آیا کہ واقعی اللہ جو چاہے کرے جس طرح سے مناسب سمجھے لیکن اس کے باوصف دل کے اوپر ایک بوجھ ضرور رہتا ہے، اور آپ بھی اپنی روزمرہ زندگی میں یہ سوال کرتے رہتے ہیں۔ اپنے دوستوں سے اپنے گھر والوں سے اپنے عزیزواقارب کے ساتھ۔ تو ہمارے بابے یہ کہتے ہیں کہ اگر واقعی تم سچے ہو، اور تم جاننا چاہتے ہو، اور اس راز کو معلوم کرنے کی خواہش مند ہو، صرف یہ نہیں سری پائے کھاتے ہوئے یا نہاری کھاتے ہوئے یا بروسٹ کھاتے ہوئے۔ اگر آپ سچ مچ جاننا چاہیں تو پھر اس کا ایک نسخہ ہے بڑا سیدھا اور پائیدار نسخہ ہے۔ وہ یہ کہ آپ احکامِ الٰہی کے اندر پورے کے پورے داخل ہوں، جوں جوں آپ احکامِ الٰہی کے اندر داخل ہوتے جائیں گے، اور اس محیط کے اندر اپنے آپ کو سمیٹے جائیں گے آپ پرسرارِ الٰہی ضرور واضح ہوں گے۔ جس طرح سے آپ ایٹم کا راز معلوم کرتے ہیں کہ یہ چھوٹا سا ایٹم جو آنکھ کو بھی نظر نہیں آتا، خوردبین سے بھی نظر نہیں آتا، وہ کس طرح اتنا بڑا، اور طاقتور ہو سکتا ہے کہ سارے ولاقے کو، ملک کو، جگہوں کو، شہروں کو پھاڑ کر رکھ دے، اور ملیامیٹ کر دے۔ عقل میں آنے والی بات نہیں ہے کہ سب سے پہلے آپ نیوکلیئر فزکس پڑھیں۔ پھر آپ لیبارٹری میں آئیں، اور لیباٹری میں آ کر اس پر تجربہ کریں۔ پھر اس کے بعد کہوٹہ نہ جائیں گے۔ پھر کہوٹہ میں جا کر ان کے ساتھ کام کریں۔ آپ شیشے کی طرح یہ واضح ہونے لگ جائے گا کہ یہ کیسے عمل ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ کے افعال کو جاننے کے لیے اللہ کے احکامات کو ماننا ضروری ہے۔ یہ راستہ ہے۔ جب آپ احکامات کی لیبارٹری میں آ جائیں گے۔ پھر یہ ساری باتیں آپ پر آسانی کے ساتھ واضح ہوتی جائیں گی اور واضح یوں ہوتی ہیں کہ انسان جو ہے، وہ کتنی بھی کوششیں کیوں نہ کرے، ایک سنگل بینڈ کا ریڈیو سیٹ ہے۔ اس پر ایک ہی سٹیشن بجتا ہے، اور اس جگہ جہاں ہم بیٹھے ہیں، بے شمار اور لہریں بھی ہیں، اور ملک بھی بول رہے ہیں، لیکن میں تو ہوں ہی سنگل بینڈ کا ریڈیو، تو مجھ پر وہی ایک بجے گا۔ تو جوں جوں آپ احکامِ الٰہی میں داخل ہوتے جاتے ہیں۔ آپ کا بینڈ میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اور وہ سگنلز جو آپ کو ویسے سنائی نہی دیتے، ویسے محسوس نہیں ہوتے، ویسے ان کا احساس نہیں ہوتا وہ ورتعاش آپ کے اندر داخل ہونے لگے گا۔ وہ اسرار فٹافٹ آپ کے اوپر کھلتے چلے جائیں گے۔ لیکن اس وقت رک جائیں گے، جس وقت آپ احکامِ الٰہی سے ذرا سا بھی منہ پھیر کے کھڑے ہو جائیں گے۔ ہم جیسے آدمی، چھوٹے سے آدمی، بالکل بے حیثیت۔ ہم نے تو ایسے رازوں کو نہ جاننے کی کوشش کی، نہ یہ ہماری حیثیت ہے۔ نہ ہماری برات ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے میں نے دیکھے، اور بہت قریب سے دیکھے ہیں، جنہوں نے اس بات کو دل میں تہیہ کر کے اپنایا۔
پچھلے دنوں میرے بچے مجھ سے لیڈی ڈیانا کی بات کر رہے تھے، آپ جانتے ہیں وہ مر گئی بے چاری فوت ہو گئی۔ ایکسیڈنٹ کا شکار ہو گئی۔ اب جناب اس کا جو جنازہ چلا ہے کل دنیا نے دیکھا، ہر T.V سٹیشن سے۔ اس وقت اگر آپ کے پاس ایسی صلاحیت ہوتی کہ جلدی جلدی دنیا کے سٹیشن بدل کے دیکھ سکتے، جیسا کہ ہم نے یہاں اپنے پی ٹی وی پر لاہور میں دیکھے۔ ہم نے دیکھا سب جگہ پر ایک اسی کا جنازہ چل رہا تھا۔ ساری نیا میں یعنی راؤنڈ گلوب، سارے کرہ ارض پر۔ ہم سب گھر میں بیٹھے حیران ہو رہے تھے، اور اس سے مرعوب بھی تھے۔ وہ بار بار ایک ہی بات دہرا رہے تھے کہ دیکھیں، چونکہ اس کا رویہ مخلوقِ خدا کے ساتھ بہت اچھا تھا، اور اس نے مریض بچوں کو اپنی گود میں بٹھایا تھا، جب یہاں آئی تھی، اور دنیا میں بڑے اس نے کام کیے تھے جو مائنز (بارودی سرنگیں) تھیں ان کو دور کرنے میں بھی مدد دی تھی۔ اسے جسے اللہ نے رتبہ دیا ہے کہ اس کا جنازہ اتنا بڑا ہے، اور رائلٹی، جو شہنشاہیت ہے، جو اپنی بگھی سے پیدل اتر کر چل رہی ہے۔ غالناً زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ رائلٹی ان کے پیچھے پیدل چلے آ رہے تھے، تو سب جب اتنی تعریف کر رہے تھے تو میں مرعوب تھا اس سے، اور تھوڑا سا متاثر بھی تھا کہ شاید ابھی اسے نہیں مرنا چاہیے تھا، اور میں اس بات کا عینی شاہد بھی تھا کہ اس کی طبیعت اور اس کا مزاج بہت اچھا تھا۔ ایک شام یہ لیڈی ڈیانا ہمارے گھر آئی تھی، تو ہم معمولی سے لوگ ہیں، وہاں ایک معمولی سے ڈرائنگ روم میں جب وہ آئی ہے تو بتیاں بجھ گئی تھیں۔ ہمارے ہاں لوڈ شیڈنگ تو ہوتی ہے، تو ہم سب بڑے پریشان تھے، میری بڑی آپا جو تھیں کہنے لگیں کہ ہائے ہائے شہزادی آئی ہے، اس پر بڑا ظلم ہو گیا، بتیاں بجھ گئیں۔ شرمندگی بھی ہوتی ہے، تو وہ کہنے لگی . Never mind Apa, no, it is nothing, candle will do.
کوئی بات نہیں موم بتی جلا لیں۔ کوئی بات نہیں۔ تو ہم نے کہا، بھاگ کے جا، جلدی سے کینڈل لے کر آ صابری کی دکان سے، تو ملازم بے چارہ بھاگا بھاگا گیا تو آ کر کہنے لگا۔ صابری کہتا ہے بتیاں پتہ نہیں کہاں پڑی ہیں، اندھیرا بہت چھایا ہوا ہے۔ پتا نہیں موم بتی کہاں رکھی ہوئی ہیں۔ تو وہ بے چارہ واپس آ گیا۔ تو پھر اس نے کہا، کوئی نہیں، اندھیرے میں ہم نے باتیں ہی کرنی ہیں نا، باتیں کرتے ہیں۔ تو ہم سب بہت متاثر ہوئے، کہ اتنی بڑی شخصیت ہے۔ ایسے ہی بات کرتی چلی جاتی ہے۔ یہ ایک ذاتی مشاہدہ بھی تھا، لیکن یہ جو کچھ بھی ہو رہا تھا، میں اپنے ساتھی دیکھنے والوں سے، اپنے بچوں سے، اپنے بیٹے، پوتوں سے ایک ہی بات کہہ رہا تھا کہ دیکھو یہ اللہ کی شان ہے، اور اللہ کی مرضی ہے، اور وہ جیسے چاہتا ہے ویسے کرتا ہے۔ اس میں یہ خوبیاں جو آپ گنوا رہے ہیں ان کا ہونا یا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ وہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ وہ جیسے چاہے کر سکتا ہے۔ اس کو یہ پسند ہے۔ اس نے تم کو دکھایا ہے کہ دیکھو ہم ایسے بھی کر سکتے ہیں۔ حلانکہ ڈیانا کی دوسری زندگی سے ہم سب لوگ واقف ہیں۔ بہت اچھی طرح سے جانتے تھے، لیکن یہ تو اللہ کا ایک فعل ہے، اور وہ کر رہا ہے۔ لیکن میرے لیے اللہ کا حکم اور ہے یہ میری رول ماڈل نہیں ہے۔ میری رول ماڈل حضرت بی بی فاطمہ ہے۔ یہ نہیں ہو سکتی۔ میں دیکھوں گا۔ اس کا جنازہ چلا جا رہا ہے۔ بڑی شان ہے اس کی، لیکن رول ماڈل نہیں ہے۔ میرے بچوں کے چہروں پر بڑی اداسی سی ہوئی کہ کتنی بری بات ہے۔ یہ کام کرنا کوئی اتنی بڑی بات نہیں۔ اللہ کا پسندیدہ ہونا ایک مختلف بات ہے۔ اچھا پھر میں تھوڑا سا پریشان ہوا، اور غم زدہ دل یوں ہوا کہ سارے بچوں نے میری بہت ٹھکائی کی کہ آپ بابا کمال کی بات کرتے ہیں۔ بہت سخت دل آدمی ہیں۔ تو میں نے کہا، یااللہ تو کچھ ایسے کر کے میری عزت رہ جائے، تو اللہ نے میری بات مان لی۔ کچھ چھٹے ساتویں دن مدرٹریسا فوت ہو گئی۔ اب مدرٹریسا نے تو ٨٠ برس کی عمر تک، شروع سے لے کر لوگوں کی بے شمار خدمت کی تھی، اور ان کو ہر طرح سے مدد اور آسانی دی تھی اور مریض کوڑھی اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر لائی تھی، کلکتہ کی سڑکوں پر مرتے ہوئے، تڑپتے ہوئے، جب وہ فوت ہوئی ہے مدرٹریسا، تو میں اس کا جنازہ دیکھنے کے لیے بھی رکا، اور میں نے ٹی وی آن کیا۔ بی بی سی لگایا، اور دو تین سٹیشن مدرٹریسا کا جنازہ، خواتین وحضرات! ایسا معمولی، ایسا چھوٹا تھا کہ میں اپنی جگہ پر بیٹھا ہوا یہ سوچ رہا تھا کہ یااللہ اس کا جنازہ تو ایسا غیر معمولی ہونا چاہیے تھا۔ نوبل پرائز ملا ہے مدرٹریسا کو امن کا، اس نے سب کچھ قربان کر دیا انسانیت پر، لیکن یہ تیری شان ہے تو جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
احکامِ الٰہی میں داخل ہونے سے وہ فریکونسی ضرور ملتی ہے۔ پھر میں اس نتیجے پر پہنچا جس کے زور پر آدمی اپنے دل اور ذہن پر اٹھے ہوئے سوالوں کو جانچ سکتا ہے، آنک سکتا ہے۔ پرکھ سکتا ہے، اور اس کو اس کا جواب ملتا رہتا ہے۔ لیکن اس میں ایک بات بڑی عجیب سی رہ جاتی ہے کہ کئی دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک بہت بڑا شخص اور ایک بڑے مقام پر پہنچا ہوا آدمی، احکامِ الٰہی میں پورے کا پورا اترا ہوا انسان، کئی دفعہ کسی کوتاہی کی وجہ اس سے کنارہ کش ہو جاتا ہے۔ جانتے ہوئے یا نہ جانتے ہوئے، اپنی مرضی سے، اور اپنی مرضی کے خلاف بھی پھسل جاتا ہے، تو اس کے ساتھ جو ہوتی ہے وہ بھی اپنی طرز کی ایک نئی چیز ہے۔
ایک بہت بڑے صوفی تھے۔ وہ اپنے بچوں کی، اور اپنے متعلقین کی، اور اپنے مریدین کی ٹریننگ کے لیے ڈیرے سے نکل کر باہر جنگل میں چلے گئے۔ ایک ایسے جنگل میں جس کے قریب سمندر تھا۔ لے جا کر ان کو جنگل کے مناظر بھی دکھانا چاہتے تھے، اور اللہ، اور جنگل کا، اور سمندر کا رشتہ بھی کچھ اپنے انداز میں سمجھانا چاہتے تھے۔ ان کو لے جانا اس لیبارٹری میں بہت ضروری تھا۔ مریدین کی ایک لمبی جماعت تھی۔ وہ بابا جی جو تھے، وہ ایک درخت کے ٹنڈ پر بیٹھے ان سے باتیں کرتے رہتے تھے۔ اچانک ایک شام ایسا ہوا کہ ایک اور بزرگ وہاں آگئے اور انہوں نے آ کر اس صوفی کو السلام علیکم کہا۔ یہ صوفی صاحب جو مریدین کی فوج لے کر گئے تھے، اٹھ کھڑے ہو گئے اور دست بدست ان کے سامنے جھکے اور ان کے گھنٹوں کو ہاتھ لگایا۔ تو یہ جوان مرید تھے، وہ تو بے چارے پریشان ہوئے کہ یہ کون صاحب ہیں جن کے آگے ہمارا پیر جو ہے، ہمارا گروجو ہے، ہمارا monitor جو ہے، اس طرح سے جھکتا ہے تو وہ ان کے ساتھ محبت، اور ادب سے باتیں کرتے ہیں۔ ایک مرید جو تھا میرے جیسا، اس کے دل میں کھد بد ہو رہی ہے، اور بدستور ہو رہی ہے۔ اس نے کہا، اس کی کچھ خدمت ہونی چاہیے۔ یہ وقت کے بہت بڑے ولی قطب ہوں گے۔ مرید اپنے پیر صاحب کو ایک طرف لے جا کر کہنے لگا، حضور یہ کون صاحب ہیں۔ انہوں نے کہا یہ ولیوں کے ولی ہیں، اور ہم خوش ہیں کہ ان سے ہماری ملاقات ہو گئ، اور یہ امیر البحر ہیں۔ یہ سمندروں کے قطب ہیں، سمندروں کی ڈیوٹی ان کو سونپی گئی ہے۔ ہم اتفاق سے سمندر کے کنارے آ کر بیٹھے ہیں تو یہ ہم سے ملنے کے لیے آ گئے ہیں۔ اس نے کہا، جی یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے۔ اس سے تو ہماری ترقی ہو گی، اور ان سے کچھ پوچھیں گے۔ وہ بولے ایک بات ہے برخودار کہ تمھاری ترقی نہیں یہ کر سکتے کیونکہ بڑے دکھ کی بات ہے، اور میرا دل اندر سے خون کے آنسو روتا ہے کہ ان کے پپ جو ہیں، کندھوں پر جو سٹار لگے ہوتے ہیں، وہ اتر چکے ہیں، اور ان کو اس کا علم نہیں، اور وہ ابھی تک اپنے آپ کو امیرالبحر سمجھتے ہیں۔ جب یہ بات سنی اس مرید نے تو رونے لگا کہ اتنا بڑا درجہ میرا پیر ان کو دے رہا ہے، اور ان بے چاروں کو پتا نہیں۔ وہ اتنی زور سے رویا کہ انہوں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا کہ تو خاموش رہ، ورنہ ان کو علم ہو گیا تو بڑی تکلیف ہو گی۔ خیر وہ ملے بیٹھے، ان کے ساتھ باتیں کیں۔ پھر انہوں نے کہا، ہم کو اجازت دیجیئے۔ ہمیں اپنی ڈیوٹی پر جانا ہے سمندروں میں۔ تو مرید نے کہا کہ میں ان کو چھوڑ آؤں۔ انہوں نے کہا، ضرور یہ تو ہمارا فرض ہے۔
وہ پیچھے پیچھے ان کے دست بدست چلا۔ اور جو امیرالبحر تھے وہ آگے آگے چلے تو جنگل میں جاتے جاتے جب گھنا جنگل آیا۔ تو اس نے کہا، آگے آ جاؤ میاں ہمارے ساتھ۔ تو اس نے کہا، نہیں حضور ایسے ہی ٹھیک ہے۔ جب بات کی تو اس نے زور سے چیخ ماری، اور رونے لگ گیا۔ انہوں نے کہا، کیا بات ہے۔ تم رونے کیوں لگ گئے ہو۔ اس نے کہا، حضور میرا دل بھر آیا ہے، اور میرے اوپر ایسی افتاد پڑی ہے کہ میں عرض نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا، بے فکر رہو۔ ہم سے بات کرو، ہم تمھارے پیر سے بات کریں گے۔ کوئی الجھن ہے؟ اس نے کہا، ہاں حضور الجھن ہے۔ انہوں نے کہا، کیا الجھن ہے؟ اس نے کہا، حضور الجھن یہ ہے کہ آپ امیرالبحر ہیں، اور آپ کا تصرف ہے سمندروں پر، یہ آپ کی ڈیوٹی ہے۔ انہوں نے کہا ہاں یہ اللہ کا فضل ہے ہم پر، لیکن حضور آپ کے پپ اتر چکے ہیں۔ آپ کے سٹارز کوئی نہیں ہے۔ اب آپ اس ڈیوٹی پر نہیں ہیں۔ تھوڑے دنوں میں آپ کو پتا چل جائے گا۔ انہوں نے کہا، تم کیا بکتے ہو۔ اس نے کہا، مجھے یہ فرمایا گیا ہے جو عرض کیا۔ اور میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ انہوں نے بھی جب ادھر ادھر دیکھا، دونوں کندھوں پر واقعی ان کے سٹارز نہیں تھے وہاں۔ انہوں نے خاک زمین سے اٹھا کر سر میں ڈالنا شروع کی، اور وہ واویلا کیا کہ جنگل میں پرند چرند سب پریشان ہو کر شاخوں سے اڑ گئے۔ انہوں نے کہا، اے پیارے! اے نوجوان! تم نے مجھ پر اتنی بڑی مہربانی کی ہے۔ اب میرے پر ایک مہربانی اور کر کہ میرے پاؤں میں رسی باندھو، اور مجھ کو گھسیٹو زمین پر، اس جنگل میں، اس کڑی سر زمین پر، جہاں کیکر کے کانٹے اور کیا کچھ نہیں ہے۔ آ میں بھی واویلا کرتا ہوں تو بھی کر کہ اللہ کے احکام نہ ماننے والوں کا یہ انجام ہوتا ہے، جو مجھے سے بے خیالی میں ہو گیا۔ اس نے کہا، حضور میں تو یہ بے ادبی کر نہیں سکتا۔ آپ مجھے قتل کر دیں یہ میں نہیں کروں گا۔ انہوں نے کہا، میں تم سے درخواست کرتا ہوں۔ میں کبھی تجھے اس کا بدلہ دوں گا، تو بے چارہ مجبور ہو گیا۔ اس نے کوئی سخت بیل توڑی، اس کو بل دیا، حکم کے مطابق ان کے ٹخنوں پر باندھا کندھے پر بیل کر رکھا اور چیخیں مارتا ہوا خود بھی اس کو بت کی طرح گھسیٹتا ہوا چل پڑا جنگل میں، اور وہ روتے جاتے تھے، اور آہ و بکا کرتے جاتے تھے، اور فریاد کرتے جاتے تھے کہ ہماری کوتاہی، جو گناہ ہے، معاف کیا جائے۔ جب وہ چلتے ہوئے آ رہے تھے، تو بتانے والے بتاتے ہیں جتنے پرندے درختوں میں بیٹھے تھے، انہوں نے بھی چیخ و پکار شروع کر دی، اور رونا شروع کر دیا، اور جنگل کی ہرنیاں اور ہرن اور شیر اور چرند پرند کھڑے ہو گئے اور منہ اوپر اٹھا کر کہنے لگے، یا باری تعالٰی ان کو معافی عطا فرما۔ ہم تیری مخلوق ہیں۔ بیکار سی مخلوق ہیں۔ ہم تو جانور ہیں لیکن تیرے حضور یہ تو درخواست کر سکتے ہیں کہ اس کو معافی عطا کی جائے۔ ان کا رونا، اور چیخنا، اور پرندوں اور جانوروں کا اللہ کو پسند آیا، تو پھر انہوں نے کہا، جا اس کو معاف کیا۔ چنانچہ اٹھ کے کھڑے ہو گئے۔ تو وہ آگئے اپنے عہدے پر واپس۔ تو اس مرید نے کہا، حضور میں تو خوشی سے بے چین ہوا جا رہا ہوں۔ الحمدللہ۔ جب وہ جانے لگے سمندر کا کنارہ نزدیک آ گیا۔ کیونکہ اب انہوں نے اپنی ڈیوٹی پر حاضری دینی تھی۔ مرید نے کہا، حضور میری حیثیت تو نہیں، لیکن میں پوچھتا ہوں کہ آپ سے کیا کوتاہی ہوئی ہے۔ کیا آپ کو یاد ہے۔ کہنے لگا چند روز کی بات ہے کہ میں سمندروں میں اپنی ڈیوٹی دینے جا رہا تھا، کشتی میں بیٹھا تھا، اور حکمِ خداوندی سے چل پھر رہا تھا۔ بڑی تیز بارش ہونے لگی سمندر میں۔ تو میں نے کہا، یا باری تعالٰی اس بارش کو یہاں ضائع کرنے سے کیا فائدہ۔ بھرے سمندر پر یہ بارش۔ اگر سوکھے میدانوں میں ہو تو کچھ فائدہ ہو۔ لوگوں کو اناج ملے، فصلیں اگیں۔ بس اتنی بات، میں نے رائے دی تھی۔ فعلِ اللہ کے اوپر میں نے تنقید کی تھی، تو خواتین وحضرات پھر یہ بات ہو گی۔ فعلِ اللہ اور ہیں، احکامِ اللہ اور ہیں، اور ہم سب احکامِ الٰہی کے پابند ہیں۔
اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے، اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
 

شمشاد

لائبریرین
بابا جناح

پچھلے کئی پرگراموں سے ہم بابوں کے بارے میں بات کرتے رہے ہیں۔ بطورِ خاص، یوں تو زاویہ کے سارے پروگراموں، سارے ہفتوں کے اندر کوئی نہ کوئی بابا آ کے کھڑا ہو جاتا رہا۔ لیکن پچھلے تین چار پروگراموں میں بطورِ خاص اس کا ذکر رہا ہے، کیونکہ مجھ سے بار بار پوچھتے ہیں، اور سوال کرتے ہیں کہ یہ بابا ہوتا کیا ہے، اور اگر کچھ ہوتا ہے تو ہمیں کیوں نہیں ملتا، آپ کو کیسے مل جاتا ہے۔ ہم بھی کیا بابا سے نہیں مل سکتے؟

میں نے جیسے عرض کیا تھا کہ سرخ بتی کے اوپر کئی دفعہ جب کاریں رکی ہوتی ہیں، تو کئی آدمی شیشہ اتار کے مجھ سے پوچھتے ہیں کہ اشفاق صاحب! کوئی بابا ہے؟ میں کہتا ہوں، جیسے کوئی سگریٹ مانگ رہا ہو، میں کہتا ہوں، نہیں۔ بابا اس وقت تو نہیں ہے، لیکن ہوتا ہے۔ کہنے لگے ہمیں تو کوئی نہیں ملتا۔ چلے جاتے ہیں تو جب تک اس کی آرزو تمنا نہ پیدا ہو، اس وقت تک بابا تو نہیں ملا کرتا۔ آرزو کے ساتھ اس کا تعلق ہے۔ میں آپ سے اس آدمی، اور پانی کے گلاس کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں کہ پانی کیا ہوتا ہے، گلاس کیا ہوتا ہے، بابا کیا ہوتا ہے، لیکن ایک شدید پیاسا آدمی یہ سارے سوال نہیں کرے گا۔ اس کو یہ آرزو ہو گی کہ مجھے کہیں سے ٹھنڈا صاف ستھرا پانی ملے، اور میں پی لوں۔ یہ آرزو ذہن میں یا دل کے اندر پیدا ہو جائےکہ مجھے کس چیز کی تلاش ہے، اور میں چاہتا ہوں، پھر ملتا ہے۔ لیکن میں آپ کی آسانی کے لیے عرض کرتا ہوں۔ جیسا کہ اب یہ بچی مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ اتنی ساری باتیں کیسے اکٹھی ہو جاتی ہیں۔ تو اس ضمن میں مجھے یاد اور آپ کی آسانی کے لیے عرض کروں کہ بابا وہ ہوتا ہے، جو لینے کے بجائے دینے کے مقام پر ہو۔ بہت سے زبانوں میں باپ کے لیے بابا کا لفظ استعمال ہوتا ہے، تو تھوڑی سی اس کی شکل بدل جاتی ہے۔ کہیں اسے بابو کہتے ہیں اٹالین میں۔ اسے باپک کہتے ہیں انڈونیشین میں۔ اسے باپو کہتے ہیں انڈیا میں، لیکن اس کا رُوٹ Root جو ہے وہ لفظ بابا سے ہے۔ باپ کی سب سے بنیادی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ گھر کے اندر، اپنے گھروندے کے اندر، اپنے خاندان کے اندر، دینے والا ہوتا ہے، لینے والا نہیں ہوتا۔ جو شخص بھی کسی انسانی گروہ کے درمیان دینے کے مقام پر ہو وہ بابا ہے، اور یہ موٹی سی اس کی نشانی ہے۔ جب بھی آپ کسی آدمی کو ایسے مقام پر دیکھیں تو پھر آپ سمجھیں کہ یہ بابا ہے، اور یہ داتا ہے، عطا کرنے والا آدمی ہے۔ اور لینے والا ہو، سمیٹنے والا ہو، وہ بالکل اس کے الٹ ہوتا ہے، اور عیاری کی بہت ساری منازل طے کر کے ایک گانٹھ کی صورت میں انسان بن کے زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے۔

تو میں عرض کر رہا تھا کہ میری زندگی میں جو سب سے پہلے بابا آیا، وہ دیر کی بات ہے، میں اس وقت سیکنڈ ائیر میں پڑھتا تھا، اور پڑھتا تو میں یہاں لاہور میں تھا، لیکن میرا ایک قصبے کے ساتھ تعلق تھا، جہاں مجھے چھٹیوں میں لوٹ کر جانا پڑتا تھا، آنا پڑتا تھا۔ وہیں سے میں نے میٹرک کیا تھا، تو وہاں کے لوگ دیہاتی لوگ، کسان لوگ، وہ ایک بابے کے عشق میں مبتلا تھے۔ اور وہ بابا ایسا تھا، جسے ان لوگوں نے دیکھا نہیں تھا۔ لیکن وہ جان لیتے تھے، سن لیتے تھے نام کہیں سے، خبر پہنچ جاتی تھی، اور وہ اس کو بہت مانتے تھے۔اور اس تمنا آرزو میں بیٹھے رہتے تھے کہ وہ آئے گا۔ یہ بابا جو ہمارے دکھی دن ہیں، اس کو کسی طرح سے ہماری زندگیوں سے دور کر دے گا، اور ہمیں آسانیاں عطا ہونے لگیں گی۔ لیکن وہ بے چارے اس کے بارے میں زیادہ کچھ جانتے نہیں تھے، تو میں بہت حیران ہو کے ان سے کہتا تھا کہ تمہارا بابا کیسا ہے، جو تمہارے درمیان میں نہیں ہے، اور تمہاری بولی نہیں بولتا، اور تم اس کی بولی نہیں سمجھتے، تو پھر کیسے تمہارا اور اس کا رابطہ ہو۔ وہ کہتے تھے، بھلے ہم اس کی بات نہ سمجھیں، وہ ہماری بات نہ جانیں، لیکن دلوں کے اندر جو آرزوئیں پوشیدہ ہوتیں ہیں، جو تمنائیں ہوتی ہیں، دل کی زبان ایک سانجھی زبان ہے، جو ساری دنیا میں بولی جاتی ہے۔ اس بابے کو وہ بابا قاعدِ اعظم کہہ کر پکارتے تھے۔ اور اس کا نام لے کر وہ اپنی زندگی گزار رہے تھے۔ میں کہتا تھا کہ ایسے بابے کو تم کس طرح سے اپنی زندگیوں میں داخل کرو گے، تمہاری کمیونیکیشن پیردستگیر کے ساتھ ہوتی ہے، جس کی بولی ہم نہیں جانتے، جس گیارھویں والے کی ہر گیارہ تاریخ کو ہم نیاز دیتے ہیں، اور ہم جانتے ہیں کہ وہ ہماری بات سمجھتا ہے، اور وہ جانتا ہے کہ ہماری بات ان تک کیسے پہنچتی ہے؟ یہ جو پیردستگیر کا ایک ادنٰی غلام ہے اور ایک اس کا ماننے والا ہے۔ بھلے اس کی بولی ہم سے مختلف ہو، یہ بات ہماری جانے گا، اور سمجھنے لگے گا۔ بالکل اسی طرح سے، جیسے ہمارے بڑوں کی زبان ہمارے بابوں کی زبان چاہے مختلف ہے، لیکن ہم اس سے اچھی طرح سے واقف ہیں، اور ہمارے درمیان رابطے کا ایک سلسلہ قائم ہے۔ میں بہت حیران ہوتا تھا کہ ان کا یہ ایمان کس قدر پختہ ہے۔ ہم اس وقت تھوڑے سے متزلزل تھے، پڑھے لکھے نوجوان لڑکے تھے، کچھ دبدبے کا شکار تھے کہ کبھی آگے بڑھتے تھے، کبھی پیچھے ہٹتے تھے۔

پھر ایک ایسا وقت آیا کہ انہی لوگوں نے لاہور کے اندر پنجاب یونیورسٹی کی سپورٹس گراونڈ میں، جہاں اب ایک ہوائی جہاز کھڑا ہے، اپنے بابے قائد اعظم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، اور کوئی ایک لاکھ کا مجمع، بالکل Pindrop silence میں، بے حس و حرکت خاموش بیٹھا ہوا ہے، اور وہ اپنی زبان میں بات کر رہا ہے۔ جتنا بھی اس کا گھنٹے کا یا ڈیڑھ گھنٹے کا لیکچر ہو اس میں، اور یہ لوگ سارے کے سارے اس زبان سے واقف نہیں تھے، ایک ایک بات اپنے اندر سمو کے اپنے رگ و پے میں اتار کے وہاں سے اٹھے۔ باوجود اس کے کہ ان پر بہت مشکل وقت آیا ہوا تھا۔ بات یہ تھی کہ وہ ان معنوں میں بابا تھا کہ وہ عطا کرنے والا آدمی تھا، دینے والا آدمی تھا، لینے والی آنکھ نہیں تھی۔ اس نے بڑی چومکھی لڑائی لڑ کے برہمن کے خلاف، اور انگریز کے خلاف، اپنے ماننے والوں کو ایک ملک لے کر دیا، اور جب ملک لے کر دے چکا، تو پھر اس نے اپنا آپ اپنا سرمایہ، اپنا ورثہ ان سے چھپا کر نہیں رکھا، اور جب وہ یہاں سے جانے لگا، تو اس نے اپنی ساری جائیداد سب کچھ اپنی قوم کو دے دیا۔ سب سے بڑا حصہ اس نے پشاور کے اسلامیہ کالج کو دیا، حالانکہ وہ زیادہ وہاں گئے نہیں تھے، لیکن ان کو پسند تھا۔ پھر ایک حصہ علیگڑھ یونیورسٹی کو دیا، پھر سندھ مدرسہ کو دیا جہاں وہ تعلیم حاصل کرتے رہے تھے، اور یوں ہاتھ جھاڑ کے، اور فاطمہ، جو ان کی بہت چہیتی بہن تھی اور بظاہر جس کے لیے انہیں بہت کچھ چھوڑ کے جانا چاہیے تھا، ان کی اتنی پرواہ نہیں کی، اور وہ سب کچھ جو ان کی گاڑھے پسینے کی اپنی کمائی تھی، جو انہوں نے وکالت کر کے کمائی تھی، یہاں سے کچھ نہیں لیا تھا انہوں نے آپ کے اس اکاؤنٹ سے۔ وہ ساری کی ساری رقم اس کو دے کر رخصت ہو گیا، اس لیے آپ کے دلوں میں ہم جو آپ سے بڑے ہیں تھوڑے سے عمر میں، ہمارے دلوں میں ان کی قدر باقی ہے۔

آپ کبھی کبھی دیکھیں گے، یہ ہمارے بابوں کے ساتھ اکثر ہوتا ہے، خواتین و حضرات کہ ان کے مخالف ضرور پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ دینے کے مقام پر ہوتے ہیں، اور عام آدمی لینے کے مقام پر ہوتا ہے۔ اور جب لینے کے مقام پر آدمی ہو تو وہ زیادہ شرمندگی میں گِھر جاتا ہے، کیونکہ اردگرد کے لوگ دیکھتے ہیں، ان کی نگاہیں ہر وقت دینے والے پر لگی رہتی ہیں تو لینے والا ان لوگوں کا دشمن ہو جاتا ہے۔

ہمارے بابے جو ڈیرے قائم کرتے ہیں۔ ان کی ٹریننگ کا بھی یہی حصہ ہوتا ہے کہ وہاں آنے والوں کو دینے کی تعلیم دی جائے، اور ایک عام آدمی کو کس طرح سے بابا بنایا جائے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ میرے مرشد سائیں فضل شاہ صاحب رحمۃ اللہ گوجرانوالہ گئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ میں اپنی گاڑی چلاتا ہوا ان کو ساتھ وہاں لے کر گیا تھا۔ ہم جب وہاں گوجرانوالہ میں پورا دن گزار کر، مولوی یاسین صاحب سے مل کر واپس آ رہے تھے، تو بازار میں ایک فقیر ملا، اس نے میرے بابا جی سے کہا کہ کچھ دے اللہ کے نام پر۔ انہوں نے اس وقت ایک روپیہ بڑی دیر کی بات ہے، ایک روپیہ بہت ہوتا تھا، تو وہ اس کو دے دیا وہ لے کر بڑا خوش ہوا، دعائیں دیں، اور بہت پسند کیا اس بابا جی کو۔

انہوں نے اس سے پوچھا شام ہو گئی ہے کتنی کمائی ہوئی؟ وہ ایک سچا آدمی تھا۔ اس نے کہا، دس روپے بنا لیے ہیں۔ تو دس روپے بڑے ہوتے تھے۔ اس زمانے میں بہت زیادہ۔ تو انہوں نے کہا کہ دس روپے تو بنا لیے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا میں نے آپ سے بات کی تھی، “ دتے میں سے دیا کرو۔“ یہ ان کا فلسفہ تھا نا۔ اس میں سے یہ نہیں ہوتا کہ جو بہت زیادہ رکھتا ہے وہی دے۔ جس کے پاس دو پیسے ہیں، وہ بھی ایک پیسا دے۔ پچھلی بار جب بات کی، تو میں اس کی وضاحت کرنا بھول گیا کہ دتے میں سے دینا۔ اپنے پاس جو کچھ ہے، اس میں سے دینے سے تقویت آتی ہے۔ جب تک Post within نہیں کریں گے،

انہوں نے اس سے پوچھا شام ہو گئی ہے کتنی کمائی ہوئی؟ وہ ایک سچا آدمی تھا۔ اس نے کہا، دس روپے بنا لیے ہیں۔ تو دس روپے بڑے ہوتے تھے۔ اس زمانے میں بہت زیادہ۔ تو انہوں نے کہا کہ دس روپے تو بنا لیے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا میں نے آپ سے بات کی تھی، “ دتے میں سے دیا کرو۔“ یہ ان کا فلسفہ تھا نا۔ اس میں سے یہ نہیں ہوتا کہ جو بہت زیادہ رکھتا ہے وہی دے۔ جس کے پاس دو پیسے ہیں، وہ بھی ایک پیسا دے۔ پچھلی بار جب بات کی، تو میں اس کی وضاحت کرنا بھول گیا کہ دتے میں سے دینا۔ اپنے پاس جو کچھ ہے، اس میں سے دینے سے تقویت آتی ہے۔ جب تک Post within نہیں کریں گے، اپنی جان کے ساتھ چمٹا کے رکھیں گے، جس طرح تپِ محرقہ ساتھ جان کے چمٹ جاتا ہے نا، اور وہ جان نہیں چھوڑتا، اسی طرح سے یہ دولت، اور سرمایہ جو ہے، یہ انسان کو کمزور سے کمزور تر کرتا چلا جاتا ہے۔ جسمانی طور پر چاہے تگڑا کر دے، روحانی طور پر کمزور کر دیتا ہے۔تو انہوں نے کہا اس فقیر سے کو تو نے اتنے پیسے بنا لیے ہیں، تو اپنے دتے میں سے کچھ دے۔ تو اس نے کہا، بابا میں فقیر آدمی ہوں، میں کہاں سے دوں۔ انہوں نے کہا، اس میں فقیر امیر کا کوئی سوال نہیں ہے۔ جس کے پاس ہے اس کو دینا چاہیے، تو اس فقیر کے دل کو یہ بات بڑی لگی۔ بابا جی سے کہنے لگا، “ میں کیہ کراں۔“ انہوں نے کہا، کسی کو تو کچھ دے۔ کہنے لگا، اچھا۔ وہاں دو مزدور کدالیں کندھے پر ڈالے کہیں سے بیچارے دیہاڑی جو ان کو ملتی ہے لے کر گھر کو واپس جا رہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں رسیاں تھیں، غالبًا بنیادیں کھود کر آئے تھے، جو اس کا نشان لگاتے ہیں۔ تو وہ فقیر بھاگا گیا، اس نے چار روپے کی جلیبیاں خریدیں، چار روپے کی ایک کلو جلیبیاں آیا کرتی تھیں، اور بھاگ کے لے آیا، اور آ کر اس نے ان دونوں مزدوروں کو دے دیں۔ کہنے لگا لو آدھی آدھی کر لینا۔ وہ بڑے حیران ہوئے۔ میں بھی کھڑا ان کو دیکھتا رہا تو لے کے، وہ خوش ہو کے چلا۔ اور وہ چلے گئے۔ کہنے لگا، بڑی مہربانی بابا تیری، بابا بڑی مہربانی، شاباش۔

تو وہ جو فقیر تھا کچھ کھسیانا، کچھ شرمندہ سا تھا، زندگی میں پہلی مرتبہ اس نے خیرات دی تھی۔ وہ تو لینے والے مقام پر تھا تو شرمندہ سا ہو کر کھسکا۔ تو میرے بابا جی کہا، “ اوئے لُکیاں کدھر جانا ایں، تینوں فقیر تو داتا بنا دتا اے، خوش ہو، نچ کے وکھا۔“ تو فقیر سے جب داتا بنتا ہے نا، تو اس کا رتبہ بلند ہو جاتا ہے، اور اگر باہر نہین تو اس کا اندر ضرور ناچنے لگتا ہے۔ میرے تو یہ مقدر میں نہیں کہ کبھی دینے کے مقام پر آیا ہوں۔ لیکن میں نے ان لوگوں کو ضرور دیکھا ہے کہ جو دینے کے مقام پر ہوتے ہیں اور ان کی خوشیوں کو دیکھا۔ اسی طرح بابے قائداعظم نے اپنی زندگی میں بہت کچھ دیا، کبھی، اللہ آپ کو وقت دے اور بیٹھ کر اس کو جانچنے لگیں، آنکنے لگیں، تولنے لگیں تو آپ اندازہ نہیں لگا سکیں گے کہ وہ ایک دبلا پتلا تپ دق زدہ، جسے آخر میں کینسر بھی ہو گیا تھا، انہوں نے کسی کو بتائے بغیر کبھی اپنا گلہ کیئے بغیر، کبھی ہائے یا اُف کا لفظ نکالے بغیر، اسی معاملے میں لگا رہا کہ میں دوں گا۔ اور اب آج کے سمجھدار سیاستدان، سیاست کے پنڈت، لکھنے والے، ولایت کے لوگ کہتے ہیں کہ ہندوستان نے پچھلے ایک سو برس میں صرف ایک ہی لیڈر پیدا کیا ہے، اور اس کا نام محمد علی جناح تھا۔ لیڈر ایک ہی تھا، باقی کے لوگ اور بھی بہت سے تھے۔ گاندھی جی کا ہم احترام کرتے ہیں، ٹھیک تھے، لیکن وہ لیڈر نہیں تھے۔ نہرو، ایک لاڈلا بچہ تھا۔ اس کو سیاست میں دلچسپی نہیں تھی، ادب میں البتہ تھی، اس نے خط وغیرہ لکھے، بڑے کمال کے، بہت اچھے لکھے۔ لیکن انگریز کے ساتھ سیاست کی لڑائی میں آج کے سیانے کہتے ہیں، وہ ایک ہی بندہ تھا جس نے انگریزوں سے کہا کہ آؤ اگر تم میرے ساتھ Consitational fight کرنا چاہتے ہو، تو میں، آئین کی جنگ میں لڑنے کے لیے تیار ہوں۔ میں ایک ایک باریک بات کو کھول کر بیان کرون گا۔ ادھر آؤ میں ہنر آزماؤں تو تیر آزما، ہم بھاگنے والے لوگوں میں سے نہیں ہوں گے۔ تو گاندھی جی نے اپنا لباس تبدیل کیا، لوگوں کو دھرنے کی تعلیم دی۔ مرن برت (بھوک ہڑتال) کئی کچھ کرتے تھے۔ ان کا اپنا انداز تھا، لیکن وہ انگریز کے ساتھ آنکھ میں آنکھ ڈال کر ویسی fight ان کو نہ دے سکے، جیسی کہ کرسی کے میدان میں انہی کے مقام پر اس کے چوکھٹے میں لڑائی لڑنے کے لیے یہ تیار تھے۔

قائداعظم کہتے تھے، میں لباس نہیں تبدیل کروں گا، تمہاری زبان میں تم سے بات کروں گا، میں تمہارے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق، میں تمہارے قانون کے مطابق تم سے لڑائی کروں گا، اور پھر بار بار انہوں نے کہا پاکستان تو بعد کی بات ہے۔ اللہ کرئے آپ اس کو پڑھ سکیں، اور پوری تفصیلات کے ساتھ اس کی طرف جا سکیں تو اس بابے نے جو کہ دیہاتیوں، کسانوں، دہقانوں کا بابا تھا، قائداعظم اسے کہتے تھے۔ اس نے دینے کے مقام پر کھڑے ہو کر کیا کچھ عطا کیا، اس کی تفصیلات آپ اپنے طور پر جان سکیں گے، اور وہ جو بابا بابا میں ذکر کیا کرتا ہوں، وہ کہاں سے چل کر کہاں تک بابا آتا ہے۔ اور اس ذیل میں کون کون لوگ آ جاتے ہیں۔ میں نے آپ سے پچھلی مرتبہ گل سعید کا ذکر کیا تھا، جو ہمارے یہاں تھے۔ وہ بھی ایک بابا تھے، زندہ ہیں۔ قائداعظم وہ بھی ایک بابا ہیں، یہ گزر جانے والا فقیر جو داد و دہش کرتا ہے۔ یہ بھی اپنی طرز کا بابا ہے، تو اس میں ایک آخری بات جو بہت عجیب و غریب ہے، وہ یہ میرے بچے، میرے پوتے اور میری پوتیاں، اور بہت ذہین آپ جیسے لڑکے لڑکیاں، تھوڑے دن ہوئے، وہ بیٹھے ہوئے تھے، اور یہ ذکر کر رہے تھے آپس میں کہ اگر اوپر کے لوگ ٹھیک ہو جائیں، تو پھر نیچے کے لوگ خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے، یہ عام خیال ہے۔

میں نے کہا، دیکھا، مجھے اجازت دو گے۔ کہنے لگے نہیں بابا، آپ بالکل الٹی بات کیا کرتے ہیں۔ میں نے کہا، نہیں اتنی سے اجازت دو کہنے کی کہ اگر اوپر کے لوگ ٹھیک ہو جائیں اور خدانخواستہ نیچے کے نہ ہوئے تو پھر ہم کیا کریں گے۔ کہنے لگے نہیں، دیکھیے یہ مفروضہ نہیں، اوپر سے دیکھ کر ہی لوگ متاثر ہوتے ہیں، اور وہی کرتے ہیں۔ میں نے کہا، پیارے بچو یاد رکھو، اور لکھ لو اسے اپنے دل کی ڈائری میں کہ ایک ملک بنام پاکستان اور اس کے رہنے والے پاکستانی دنیا کی اس خوش قسمت ترین قوم میں سے ہیں، جن کو نہایت نیک، نہایت ایماندار، نہایت Honest، نہایت شفاف، نہایت ذہین، نہایت بڑا سائنسدان، نہایت دوسری زبان جاننے والا، نہایت اعلی درجے کا وکیل عطا کیا ہے۔ اور جس نے اس قوم سے تانبے کا ایک پیسہ بھی محنت کے طور پر نہیں لیا، اور کمال کی اس نے لیڈرشپ فراہم کی۔ جو آپ آج مانگ رہے ہیں۔ لیکن قوم نے اس کے جواب میں کیا کیا کہ ائیر پورٹ کے آدھے راستے کے اوپر اس کی موٹر کار کا پیٹرول ختم ہو گیا اور اس نے اپنی جان آدھے راستے میں جانِ آفریں کے حوالے کر دی۔ یہ ہوتا ہے زندگی میں۔ اس بات کی تلاش نہ کرو کہ وہاں سے ٹھیک ہوں گے تو نیچے آئیں گے۔ ہم سب کو اپنے اپنے مقام پر ٹھیک ہونا ہے۔ خدا کے واسطے، یہ مت کہا کرو، اے پیارے مزدور، کسانوں، ان پڑھ لوگو ! کہ اگر بڑے لوگ نماز پڑھیں گے تو ہم پڑھیں گے۔ ورنہ تب تک ہم بیٹھے ہیں۔ نماز تو تمہاری اپنی ہے بابا، اچھے ہونا تو تمہارے اپنے بس میں ہے۔ ذمہ داری تو ہماری اپنی ہے۔ یہ کیا بہانہ لے کر بیٹھ گئے، یہ بات جو میں نے اپنے بچوں سے کہی، یہ میں آپ سے بھی کہنا چاہ رہا تھا، اور کہہ رہا ہوں، اور بڑی در مندی کے ساتھ کہہ رہا ہوں، اور اس دین کو، اس ذمہ داری کو، جو ہمارے کندھوں کے اوپر ہے، اور جس کا ہم مداوا نہیں کر سکتے کہ ہم نے کیا سلوک کیا، وہ شرمندگی ہمارے ساتھ ہے۔ اور ہمارے ساتھ چلتی رہے گی، اور ہم سارے کے سارے اس کے دیندار ہیں۔ کسی ایک بندے کو، یا کسی ایک حکومت کو، یا کسی ایک سسٹم کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جیسا کہ میں نے پچھلے پروگرام میں عرض کیا تھا کہ یہ ملک، یہ پاکستان، یہ حضرت صالح کی اونٹنی ہے۔ اس کا احترام اور اس کا ادب ہم پر واجب ہے۔ حکومت کا بالکل خیال نہ کریں، حکومت والوں کا نہ ادب کریں، ان کو نہ مانیں، جو کہنا چاہتے ہیں، ان کے خلاف کہیں، مجھے اعتراض نہیں، لیکن اس ملک کے اس سر زمین کے، اس دھرتی کے خلاف اگر آپ نے کوئی بات کی تو پکڑے جائیں گے اور بڑے عذاب کی صورت سے گزریں گے۔ الحمدللہ ابھی تک کسی نے ملک کے خلاف کوئی بات نہیں کی، باریکیاں سی نکال کے کچھ سیاست میں سے الٹی پلٹی باتیں بیان کرتے چلے جاتے ہیں اور اگر اپ کو کوئی دریدہ دہن یا ایسا گندا ذہن آدمی ملے، جو قائداعظم کی ذات میں کوئی کیڑے نکالنے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کو ضرور قریب سے جا کر دیکھیں، وہ دینے والوں میں سے نہیں ہو گا، لینے والوں میں سے ہو گا۔ پاکستان کے رہنے والو زندہ رہو، خوش رہو، پائندہ رہو۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے۔ شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
 

ماوراء

محفلین
آروائے خان

آروائے خان​



پچھلی مرتبہ ایک بات چل رہی تھی جو بیچ میں ہی رہ گئی۔ گو وہ اپنے انداز میں تکمیل تک بھی پہنچی۔ وہ یہ کہ لفظ خدا، خدا نہیں ہے، اور اللہ لا تصور اور چیز ہے، اور اللہ کی ذات کا ادراک جو ہے وہ اس سے مختلف چیز ہے۔ انسان کی اچھی عادتوں میں سے اع اس کے مباح کاموں میں سے سب سے اچھی بات جو ہے، وہ عبادت ہے، اچھی عادت ہے عبادت کی آرزو ہے، جس کے لیے روح آپ کی تڑپتی رہتی ہے۔ ہم جو بڑے تھکے ہارے ولایت سے آئے تھے، نوکریاں کر کے، دھکے کھا کے تو ہماری یہ آرزو تھی کہ اپنے وطن واپس جائیں گے، اور ہمارے وطن میں جو ڈیرے ہوتے ہیں، بابے لوگ ہوتے ہیں، اور وہاں رہبانیت ہوتی ہے، جیسے وہاں بھنگ وغیرہ پئیں گے، چرس کے سوٹے لگائیں گے۔ کام وام تو وہاں ہوتا نہیں۔ یہی عام طور پر کیا جاتا ہے۔ عیش وعشرت کی زندگی ہو گی، تو ہم نے اس لیے پر بھی توجہ دی کہ کم سے کم اتنی ساری مشکل کی، پیچیدہ، زندگی گزارنے کے بعد ایسا ماحول بھی میسر آئے کہ آدمی آرام سے رہ سکے۔ لیکن خواتین و حضرات! وہاں پہنچ کے پتہ چلا کہ اس سے زیادہ مشقت سے بھری زندگی، اور جدوجہد، اور کوششیں، اور Struggle، اور کسی جگہ پر ہے ہی نہیں، کیونکہ عبادت کر لینا اور دین کے بارے میں کچھ گفتگو کر لینا، یہ تو بڑا آسان کام ہے، لیکن اس کے اندر اتر کر اسے عملی طور پر اختیار کرنا یہ بڑا مشکل کام ہے۔ یعنی تصوف شریعت سے جدا نہیں ہے۔ یہ وہی نماز روزہ ہے۔ صرف علم کے ساتھ ساتھ عمل پر بھی زور دیا جاتا ہے، اور عمل کے تو ہم ایسے عادی نہیں تھے کہ یہ کیسے کیا جائے۔ اور جس بابے کے متعلق ہم بات کر رہے تھے، بابا نور والے، ان کا اندازہ اپنی طرز کا تھا، اور جو بات وہ کرتے تھے، وہ مختلف ہوتی تھی، جو ہمیں کتابوں میں، کتابی پلندوں میں نہیں ملتیں۔ اور ان کے قریب کے لوگ بڑے شاکی ہوتے تھے۔ یہ بات اندر کی ہے، لیکن آج میں اس کا اظہار کروں گا، کیونکہ ان کے صاحبزادے نے خود مجھ سے شکایت کی کہ دیکھیں بابا جی لوگوں پر اتنی مہربانی کرتے ہیں، لوگوں کے ساتھ اتنے Kind ہیں، ان کو چیزیں بھی دیتے ہیں، رضائیاں بنا کے دیتے ہیں، کھانے کا سامان سب فراہم کرتے ہیں، لیکن میرے اوپر بالکل مہربان نہیں ہیں۔ میں ان سے کوئی چیز مانگتا ہوں تو یہ کنٹرول کر کے اس کے اوپر شرط عائد کر کے، اور جتنا حصہ یا جتنا کچھ مجھے درکار ہوتا ہے، وہ مجھے نہیں دیتے۔ تو ان کی اس بات کا میرے دل پر بھی بڑا اثر ہوا۔ میں نے کہا، یہ ایسے ہونا نہیں چاہیے۔ واقعی یہ جو کہتے ہیں، ٹھیک کہتے ہیں۔ یہ ذرا سی تنگی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں، اور ان کی شاید ٹریننگ ہے، یا شاید تربیت، جو ہو رہی ہے۔ قدرے سختی کی بات ہے۔ میں نے ان سے عرض کیا۔ میں تھوڑا سا منہ چڑھا ہوا تھا۔ میں ان سے بات کر سکتا تھا۔ میں نے کہا، دیکھیے بابا جی یہ صاحبزادے جو ہیں، یہ شکوہ کناں ہیں، اور آپ ان کو وہ کچھ مراعات نہیں دیتے جو کہ مل جانی چاہئیں۔ کہنے لگے، میں جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتا۔ میری آرزو ہے کہ اس کو انسان کی مدد، اور انسان کی آرزو، اور انسان کے سہارے کی عادت نہ رہے۔ یہ بلاواسطہ طور پر خدا سے مانگیں، کیونکہ جوں جوں آدمی دوسرے آدمی پر انحصار کرے گا، اللہ سے اتنا ہی دور ہوتا چلا جائے گا، چونکہ میرا صاحبزادہ ہے میں یہ چاہتا ہوں کہ اس پر سختی کا عمل کیا جائے۔
خیر وہ بات ان تک پہنچا دی لیکن وہ اس سے کچھ راضی نہ ہوئے، لیکن کچھ ایسے بھی آتے تھے کہ اللہ ہے، اور وہ ان کے کاموں میں پورے کا پورا دخل دے رہا ہے، اور حاوی ہے، اور جس سے وہ فرماتا ہے، اور جس طرح سے وہ چاہتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ مڑ کے گھوم کے چلا جاتا ہے۔ بڑے خوش نصیب لوگ تھے۔ مجھے یاد ہے وہاں ایک اشرف لاری آیا کرتا تھا، اشرف کو پتنگ اڑانے کا بڑا شوق تھا۔ نوجوان خوب صورت چادر باندھتا تھا ریشمی، اور کندھے پر پرنا رکھتا تھا اور جب بسنت قریب آتی جاتی تھی اس کی مانگ بڑھتی جاتی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم پتنگ سے اتنی محبت کیوں کرتے ہو۔ کہنے لگا، اگر آپ کبھی پتنگ اڑا کے دیکھیں، اور آپ کو اس کا لپکا پڑے تو آپ اس کو چھوڑ نہیں سکتے۔ اس کے اندر ایک ٹیلی کیمونی کیشن ہوتی ہے۔ تار ہوتی ہے۔ ادھر سے ضرور کوئی Message آتا ہے۔ جو بڑا پتنگ باز ہوتا ہے، ان کو پیغام آتے ہیں۔ تو میں نے کہا، تم یہاں بھی آتے ہو، ڈیرے پر بھی بیٹھتے ہو۔ بابا جی کی باتیں بھی سنتے ہو، اور خدمت بھی کرتے ہو لوگوں کی۔ اللہ رسول کو بھی مانتے ہو، اور ہم سے بہتر مانتے ہو، یہ کیسے؟ تو اس نے کہا، یہ سب کچھ جو مجھے ملتا ہے نا، یہ میری گڈی اڑانے سے ملتا ہے۔ میں نے کہا، یہ کیا راز ہے؟ کہنے لگا جب پتنگ بہت دور چلا جاتا ہے، اور “ ٹکی“ ہو جاتا ہے، وہ لفظ “ ٹکی“ استعمال کرتا تھا۔ یہ کہ ٹک جاتا ہے۔ ایک جگہ پر، اور نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ مجھے دکھائی نہیں دیتا۔ نہ صرف مجھے دکھائی نہیں دیتا ہے بلکہ کسی کو بھی دکھائی نہیں دیتا، اور میرے ہاتھ میں صرف اس کی ڈور ہوتی ہے۔ تو اس نہ نظر آنے والے کی جو کھینچ ہوتی ہے میرے ہاتھ میں، اس نے مجھے اللہ کے قریب کر دیا ہے، کیونکہ میرے دل پر اللہ کی بھی کھینچ ویسی پڑتی ہے جیسے اس پتنگ کی ڈور میرے ہاتھ پر ہوتی ہے۔ اب دیکھیے کیا ہم جو بڑے کتابیں پڑھ کے بڑا علم سیکھ کے بڑے بڑے کیسٹ سن کے، اور ولایت میں، جھگڑے، بحث و مباحثے کر کے آئے، ان کے پاس کچھ نہیں تھا، اور وہ جو ہمارا پتنگ باز سجناں تھا، وہ اسی کے زور پر ٹکی ہوئے پتنگ کو اس کے دباؤ کو محسوس کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے، اشفاق صاحب آپ کو کبھی کھینچ نہیں پڑتی اللہ کی طرف سے۔ میں نے کہا، نہیں۔ ویسی تو نہیں جیسی تم کہہ رہے ہو۔ کہنے لگا، وہ انسان کے دل کو ایسے کرتا ہے۔ میں نے کہا، نہیں اشرف یہ تو ہمارے مقدر میں نہیں ہے۔
ہمارے وہاں ایک صاحب تھے، ڈیرے پر، حاجی صاحب Blue Eye ۔ مجھے ان کا نام بھولتا ہے۔ بہت خوب صورے ان کی آنکھیں تھیں۔ وہ وہاں رہے، اور کچھ تعلیم حاصل کرتے رہے۔ پھر ایک دن کہنے لگے، میں واپس چلا جانا چاہتا ہوں، اپنے رحیم یار خان۔ وہاں جا کر میں کچھ لوگوں کو تبلیغ کروں گا، اور جو جو کچھ میں نے یہاں سیکھا ہے، وہاں جا کر ان کو بتاؤں گا۔ مجھے اجازت دیں۔ آپ نے کہا، بالکل ٹھیک ہے۔ آپ جائیں، لیکن میری آرزو یہ تھی کہ آپ کچھ اور یہاں ٹھہرتے اور ہمیں خوشی ہوتی۔ آپ ہامرے جانی جان ہیں۔ ہم بھی یہ چاہتے تھے کہ حاجی صاحب کچھ دیر رہتے، لیکن وہ مصر تھے، اس بات پر میں جاؤں گا اور بابا جی کا اس پر اصرار ہوتا تھا کہ جب تک تمھارا رابطہ اللہ سے پورے کا پورا سالم کا سالم نہیں ہو گا تب تک آپ دیوار سے ڈھو لگا کر اس کے ساتھ کمیونی کیٹ، اس کے ساتھ گرین لائن پر کچھ بات نہیں کر سکیں گے۔ اس وقت تک آپ عبادت یا آپ کا یہ سچ کا تجربہ ایسا ہی ہو گا شنیدہ، سنا ہو گا۔ تو حاجی صاحب نے کہا، جی میں وہاں جا کر انشاءاللہ یہ جو آپ سب کچھ فرماتے ہیں، بیان کروں گا۔ اور انہوں نے کہا، ٹھیک ہے۔ جب وہ جانے لگے تو تھوڑے سے افسردہ تھے کہ حاجی صاحب جا رہے ہیں، انہوں نے بلایا۔ بابا جی کہنے لگے، تم جاؤ گے اپنے رحیم یار خان تو تمہارا گاؤں کتنی دور ہے۔ اس نے کہا، میرا چک وہاں سے کوئی پانچ چھ میل کے فاصلے پر ہے۔ کہنے لگا، وہاں لوگ بھیڑ بکریاں بہت رکھتے ہیں۔ کہنے لگے، ہاں ہاں تو بھیڑوں کے گلے ہوں گے۔ کہا تو جب تم اپنے گاؤں میں داخل ہو گے تو تم بھیڑوں کے ایوڑ کو کراس کرو گے۔ کہیں نہ کہیں چر، چگ رہے ہوں گے۔ اس نے کہا، ہاں جی ضرور ہوں گے۔ کہنے لگے، جب تم بھیڑوں کے ریوڑ کے پاس پہنچو گے تو اس ریوڑ میں کتے بھی ہوتے ہیں پاسبانی کے لیے، حفاظت کے لیے رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ہاں جی ہوں گے۔ انہوں نے کہا، تم یہاں رہے ہو اتنی دیر تک، اب تک تو واقف نہیں ہو گے۔ آپ ان کتوں کو کس طرح سے عبور کریں گے، کیسے کراس کریں گے۔ اس نے کہا جی کہ اگر کسی کتے نے میرے اوپر حملہ کرنے کی کوشش کی تو میں پتھر اٹھا لوں گا۔ تو بابا جی نے کہا، وہ تو چار کتے ہوں گے، اور آپ ایک کو پتھر مار لیں گے۔ ٹھیک وہ زخمی ہ سکتا ہے، تین آپ کو پکڑ لیں گے۔ حاجی صاحب کچھ پریشان ہو گئے۔ کہنے لگے، میں جی کچھ ایسے کروں گا کہ وہاں سے ایک لکڑی توڑ لوں گا۔ وہاں سے چاروں میرے پیچھے پڑیں تو زور سے گھماتا ہوا چلوں گا اور پھر میں اپنا آپ بچا کر کچھ نہ کچھ کر لوں گا۔ انہوں نے کہا، میں تو تم سے یہ کہہ رہا ہوں کہ وہ تو ایک کتے کو لگ جائے گی، دو کو لگ جائے گی تو تم گزرو گے کیسے۔ یہ تو مشکل پڑ جائے گی تمھارے لیے۔ چاہے لکڑی گھماتے ہوئے گزرو۔ حاجی صاحب تو سوچ میں پڑ گئے۔ ہم بھی سوچ میں پڑ گئے کہ بھئ ان کو کراس کرنا بڑا مشکل کا ہے تو حاجی صاحب ہم سے زیادہ سمجھدار تھے، عمر میں بڑے تھے۔ تو کہنے لگے، حضور آپ فرمائیں کہ ایسی حالت میں ایسے موقع پر کیا ہونا چاہیے۔ تو بابا جی نے کہا کہ صاحب طریقہ یہ ہے کہ ان کو پریشان کیے بغیر، اور ان کو پنا آپ دکھائے بغیر، سب سے پہلے آپ گڈریے کو آواز دیں۔ وہ آپ کی آواز سن کر جھگی سے نکلے گا۔ آپ اس سے کہیں گے، میں یہاں سے گزرنا چاہتا ہوں۔ وہ کتوں کو آواز دے گا، او کالوؤ ڈبوؤ بیٹھ جاؤ، وہ بیٹھ جائیں گے۔ تو آپ گزر جائیں گے۔ جب بھی مشکل وقت ہو گڈریئے کو آواز دیں۔ آپ کا پالن کرنے والے۔ اپنی Efforts کر کے راہ تجویز کر کے کبھی زندگی کے مشکل مقام سے گزرنے کی کوششیں نہ کرو۔ اس وقت اپنے چرواہے کو پکارو۔ تو حاجی صاحب کی سمجھ میں بات آ گئی۔ انہوں نے کہا، ابھی میں چرواہے کو پورے کا پورا آواز دینے کے قابل نہیں ہوا۔ میں ابھی رہوں گا آپ کے پاس، اور میں یہ سیکھوں گا کہ اس کو آواز کس طرح دی جاتی ہے۔ تو وہاں خواتین وحضرات کچھ کچھ لوگ ایسے آتے تھے جن کو آپ صاحبِ حال کہہ کر پکارتے ہیں۔ جن کو ایک ذاتی تجربہ، اور ذاتی مشاہدہ ہوتا ہے، اور وہ اتنے خوش قسمت لوگ ہوتے ہیں، اتنی آسانیوں میں سے گزرنے والے ہوتے ہیں کہ ہر کام کو اس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس کو Endorse کر دیتے ہیں۔ اس کے نام کر دیتے ہیں۔ ہم پڑھے لکھے لوگ جو تھے یا ہوتے ہیں۔ ہم اپنی تجویز ساتھ لے کر چلتے ہیں، اور جب بہت ہی مشکل آئے تو بہت ساری تجویزیں ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ اپنی دنیا بھر کی سلطنتوں، اور حکومتوں کو دیکھیں کوششیں کرتی رہتی ہیں، اور ان کے سارے رخ ٹیڑھے، اور چبے ہوتے رہتے ہیں، اور بنی نوع انسان کو جس چیز کی ضرورت ہے، ان میں کمی نہیں آتی۔ چند روز ہوئے میں اپنی بنیان استری کر رہا تھا۔ میری بنیان کھدر کی ہوتی ہے۔ سلوٹیں پڑ جاتی ہیں۔ ہاتھ کی سلی ہوئی۔ بنی بنائی بنیان مجھے ملتی ہی نہیں، سلوانی پڑتی ہے۔ تو میں چاہ رہا تھا کہ اس کو استری کر کے پھر پہنوں تو خوش دلی کے ساتھ اس کو استری کر رہا تھا۔ ابھی شروع ہی کیا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی تو مجھے ٹیلی فون سننا پڑ گیا۔ اس پر کچھ دیر بات ہو رہی۔ میں استری ویسے ہی چھوڑ آیا، لوٹ کے گیا بات کرنے کے بعد تو پھر میں نے اٹھائی استری۔ اب میں پھر استری کرنے لگا، لیکن اس پر استری کا کوئی اثر نہیں ہوا میری بنیان پر۔ تو پریشانی کے عالم میں میں نے دیکھا کہ یہ کیا ہوا۔ دیکھا تو میں نے اس کا پلگ تو آن ہی نہیں کیا تھا۔ جب تک پلگ کا کنٹیکٹ نہ ہو تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ میری استری پوری تھی، ولایت کی بنی ہوئی اور تھی بھی بالکل نئی۔
بس ایک خرابی تھی کہ وہ کنکشن نہیں لگا، پلگ نہیں لگا تھا۔ اس لیے وہ سلوٹیں تو ویسی کی ویسی رہ گئیں۔ اپنی زندگی میں بھی آپ نے ملاحظہ فرمایا ہو گا، جب کنکشن نہ لگے، تو زندگی کی سلوٹیں نکلتی نہیں ہیں، اور لگانے کے لیے بات اس کی ہوتی ہے کہ پلگ کسی نہ کسی طرح سے ڈائریکٹ لگ جائے۔ ویسے بھی لگائیں جیسے تاروں کو کنڈے لگا دیتے ہیں۔ وہ بھی ٹیڑھی بات ہے، لیکن صیحح طور پر اگر پلگ لگے تو اس کا لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔
فرانس کے ملاح، میں نے دیکھا ہے وہاں South کے خاص طور پر۔ وہ سمندر میں اترنے سے پہلے ایک دعا مانگا کرتے ہیں۔ بڑی مختصر سی، اور وہ دعا یہ ہوتی ہے کہ اللہ تیرا سمندر بہت بڑا ہے، اور میری کشتی بہت چھوٹی ہے۔ بظاہر یہ معمولی سی دعا ہے، لیکن اس میں اتنا اعتراف ہوتا ہے، اور اتنی قربت ہوتی ہے خدا کے ساتھ ان کی، اور اتنا رابطہ ہوتا ہے کہ جب اترنے لگتے ہیں وہ South France کے لوگ کہ اس یقین کے ساتھ اترتے ہیں کہ یہ واقعی اس اللہ کا سمندر ہے، اور وہ اس کا مالک ہے۔ میری کشتی جو ہے، وہ واقعی چھوٹی ہے، اور اتنا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی جتنا کہ اسے کرنا چاہیے۔
ہمارے پاس جانکار لوگ بات سمجھنے والے بھی، اور احساس رکھنے والے بہت سے تھے، اور ہیں اب بھی۔ مجھے ایک واقعہ اور یاد آتا ہے، جانکار لوگوں میں سے ایک کا۔ میرے ایک دوست تھے۔ سلاطان راہی ان کا نام تھا۔ آپ نے ان کی فلمیں دیکھی ہوں گی۔ باوجود اس کے کہ میرا تعلق ریڈیو ٹیلیویژن سے تھا لیکن ہمارا رشتہ فلم سے وہ نہیں تھا۔ ایک، اور حوالے سے ہم ایک دوسرے کو جانتے تھے، اور ہمارا رابطہ اپنے خفیہ انداز کا رہتا تھا۔ اسے اجاگر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ایک روز میرے پاس T.V میں ان کا پیغام ملا کہ آپ آئیں، ایک چھوٹی سی محفل ہے۔ اس میں آپ کی شمولیت بڑی ضروری ہے، اور آپ اسے پسند کریں گے۔ میں نے کہا، بسم اللہ۔ ہمارے یہاں لاہور میں ایک علاقہ ہے نسبت روڈ جہاں پر دیال سنگھ کالج ہے۔ اس کے عقب میں چھوٹی گلیاں ہیں جہاں اچھے اچھے لوگ رہتے ہیں۔ وہاں پر انہوں نے انتظام کیا تھا بڑی اچھی ایک بیٹھک تھی اور جالی والا دروازہ۔ اس کو صاف کر کے اگر بتیاں جلا کے سلطان راہی نے بندوبست کیا تھا۔ سلطان راہی کو شاید آپ جانتے ہیں یا نہین اسے قرات کا بڑا شوق تھا، اور اس کا ایک اپنا انداز تھا۔ اس کا اپنا ایک لہجہ تھا۔ کبھی کوئی فنکشن شروع ہوتا تھا تو لوگ اس نے کہتے تھے کہ آپ قرات کریں وہ کر دیتا تھا۔ لیکن اس کا ایک، اور پہلو جو تھا قرات کے ساتھ وابستگی کا، اسے کم لوگ ہی جانتے تھے۔ تو وہاں ہم بیٹھے تھے تو اس کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا، گاؤں کا پینڈو آدمی۔ اس نے دھوتی باندھی ہوئی تھی۔ کندھے کے اوپر اس کے کھیس تھا۔ سادہ سا آدمی کچھ اتنا زیادہ Imeressive (متاثر کن) بھی نہیں تھا جتنا اس کو ہونا چاہیے تھا۔ تو انہوں نے کہا، ان سے ملیں، یہ بھا رفیق ہے۔ بھا رفیق بھی اس محفل میں شامل تھا۔ ہم دس گیارہ پندرہ لوگ دیوار کے ساتھ ڈھو لگا کے بیٹھے گئے۔ سلطان راہی نے کہا، آپ کو اپنی کچھ قرات سنانا چاہتا ہوں۔ ہم نے کہا بسم اللہ۔ انہوں نے کہا، میں سورہ مزمل پڑھوں گا۔ تو کہا، سبحان اللہ اور کیا چاہیے تھا۔ تو سلطان راہی نے اپنے انداز میں اپنے لہجے میں، اور اپنی آواز میں سورہ مزمل کی تلاوت شروع کی۔ بہت اعلٰی درجے کی، اور لوگوں نے اسے بہت ہی پسند کیا۔ وہ پڑھتے رہے۔ ہم دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر سنتے رہے، اور جب ختم ہو گئی تو سب کے دل میں تھی آرزو کہ کاش ایک مرتبہ پھر اسے پڑھ سکے، لیکن انہوں نے بند کر دیا۔ پھر انہوں نے بھا رفیق کی طرف دیکھا، اور ان سے کہا، جی آپ بھی فرمائیں ہمارا اندازہ نہیں تھا کہ ایسا سیدھا سا آدمی بولے گا۔ تو بھا رفیق نے کہا، جی میری آرزو بھی سورہ مزمل سنانے کی تھی لیکن چونکہ انہوں نے سنانے کی تھی لیکن چونکہ انہوں نے سنا دی۔ ہم نے کہا، نہیں نہیں آپ بھی ہم کو یہی سنائیں۔ اس میں کیا حرج ہے تو آپ اپنا شوق پورا کریں۔ ہم تو یہ آرزو کر ہرے تھے کہ دوبارہ شروع ہوتی۔ اور کہنے لگا بسم اللہ۔ انہوں نے بیٹھ کر خواتین و حضرات اپنے اس انداز میں کھیس کندھے سے اتار کر گود میں رکھ لیا۔ اس کے اوپر کہنیاں رکھ کر بیٹھ گئے۔ اور سورہ مزمل سنانی شروع کی۔
آپ نے بے شمار کیسٹ سنے ہوں گے۔ بے شمار قاریوں کا سنا ہو گا۔ انہوں نے جو سنایا، اس کا اپنا ایک انداز تھا۔ جوں جوں وہ سناتے چلے جا رہے تھے۔ ہم سارے آدمیوں نے جو بیٹھے تھے، یہ محسوس کیا کی اس بیٹھک میں تاریخ کا کوئی اور وقت آ گیا ہے۔ یہ وہ وقت نہیں ہے جس میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں، اور ہم لوگوں کو ایسا لگا کہ ہم قرونِ اولٰی کے مدینہ شریف کی زندگی میں ہوں، اور یہ وہی عہد ہے، اور یہ وہی زمانہ ہے، اور ہم ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں کہ جو اس عہد کی آواز کو ویسے ہی کسی آدمی کے منہ سے سن رہے ہیں۔ یہ سب کا تجربہ تھا۔ عجیب و غریب تجربہ تھا۔ ہم نے یوں محسوس کیا جیسے اس کمرے میں، بیٹھک میں عجیب طرح کی روشنی تھی۔ ہو سکتا ہے یہ ہمارا خیال ہو، لیکن اس کی کیفیت ایسی تھی کہ اس نے سب کے اوپر ایک سحر کر دیا تھا۔ پھر وہ ختم ہو گئی۔ ہم نے زبان سے شکریہ نہیں ادا کیا، کیونکہ ہم سارے اتنے جذب ہو گئے تھے کہ بولا نہیں جا رہا تھا۔ البتہ ہماری نگاہوں میں جھکے ہوئے سروں میں، اور ہماری کیفیت سے یہ صاف طور پر واضح ہوتا تھا کہ یہ جو کیفیت تھی، جو گزری تھی، یہ کچھ اور ہے۔ تو تو کاشش کر کے ہمت کر کے میں نے کہا، راہی صاحب ہم آپ کے بہت شکرگزار ہیں۔ پہلے آپ نے سورہ مزمل سنا کر پھر آپ نے اپنے دوست کو لا کر تعارف کروایا اور قرآن سنوایا۔ یہ کیفیت ہمارے اوپر کبھی پہلے طاری نہیں ہوئی تھی۔ ہم سمجھ سکے تھے۔ تو سلطان راہی نے کہا، بھا جی بات یہ ہے کہ سورہ مزمل جانتا ہوں، اور بہت اچھی جانتا ہوں، لیکن یہ شخص مزمل والے کو جانتا ہے تو اس لیے بڑا فرق پڑا۔ تو جب آپ والی کو جانتے ہیں، اور جاننے لگتے ہیں، زندگی میں خوش قسمتی سے یااللہ سے ایسا رابطہ پیدا ہو جاتا ہے جیسا اس کا تھا، تو پھر وہ کیفیت، اور طرح کی ہوتی ہے، اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ جو کیفیت ہوتی ہے یہ مختلف ہوتی ہے، اور زندگی میں ساری عمر ساتھ چلنے والی ہوتی ہے۔ میں نے اپنی خوش قسمتی کا اظہار جب بھی کیا تھا، اب بھی کرتا ہوں کہ میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جن کی گڈی جو تھی، وہ ٹکی ہو جاتی تھی، جو بظاہر تو گڈی کی بات کرتا ہے لیکن اس کے پیغام کچھ اور ہوتا ہے، میں آپ کا بڑا شکر گزار ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
قول اور عمل

اس محفل میں یہ بات طے نہیں ہوتی یا میں سوچ کے نہیں آتا کہ آج کیا بات کریں گے۔ بیچ میں گفتگو کے دوران ہی کچھ نہ کچھ نکل آتا ہے، اور وہ آپ تک پہنچ جاتا ہے، لیکن آج پہلی مرتبہ مجھ سے فرمائش کی گئی ہے کہ آپ اپنے بابا کے بارے میں بات ضرور کریں۔ پہلے پہلے ابتدا میں تو کی، پھر اس کے بعد کچھ اور موضوعات رہے، پھر کہیں ان موضوعات سے پھسل کر آگے نکل گئے، تو آج یہ فرمائش جو ہے مجھے بھی دل سے پسند آئی ہے۔

اور آپ سب نوجوان ہیں، اور یہ بات میں کئی مرتبہ بتا چکا ہوں کہ بابے کون ہوتے ہیں۔ یہ کیوں ہماری زندگیوں میں آ گئے، اور ان کے ساتھ کیا تعلق ہوتا ہے۔ اور ملتان میں بابے زیادہ کیوں ہوتے ہیں۔ اور شہروں میں کم کیوں ہوتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ، تو چونکہ یہ فرمائش کی گئی ہے تو میں یہ عرض کروں کہ ہمارا ایک ڈیرہ تھا، جہاں میں یونیورسٹی کی تعلیم ختم کر چکنے کے بعد ولایت میں رہنے کے بعد ولایت کی یونیورسٹی میں پڑھانے کے بعد جب لوٹ کے یہاں آیا، تو 1954ء میں میں اس ڈیرے پر گیا۔ اُس ڈیرے والے کا نام حضرت سائیں فضل شاہ صاحب رحمۃ اللہ، نور والوں کا ڈیرہ اسے کہتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی دیواریں تھیں اس کی، اور اندر کچھ بھیڑ بکریاں، اور ایک بھینس بھی ہوتی تھی۔ صفائی کا انتظام ایسا اچھا نہیں تھا، کیونکہ جب آدمی صفائی کی طرف توجہ دینے لگتا ہے تو باہر کی صفائی کی طرف زیادہ توجہ دیتا ہے۔ اندر کی صفائی کی طرف کم ہو جاتی ہے۔ خیر یہ میرے لیے ساری نئی باتیں تھیں، آپ اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کس نوعیت کا، اور کس قسم کا ہو گا۔ ہمارے بابا جی بےچارے تعلیم یافتہ نہیں تھے۔ لکھنا پڑھنا بالکل نہیں آتا تھا، لیکن انہوں نے کہیں سے انگریزی کا لفظ Note سیکھا ہوا تھا۔ جب کوئی بات بہت خیال انگیز ہوتی تھی، نہایت Thought provoking، تو وہ انگلی اٹھا کے کہتے تھے نوٹ۔ تو ہم سب چونک کر متوجہ ہو جاتے تھے کہ کوئی بات نہایت اہم ہو گی، اور ہم اسے سنبھال کر رکھیں اور یہ آئندہ زندگی میں کام آئے گی۔ اسی طرح اس کے اردگرد جو لوگ تھے، ان کو بھی انہوں نے خطاب دے رکھے تھے ماڈرن قسم کے۔ مثلاً وہاں پر ایک ڈاکٹر صاحب تھے اشرف فاضلی صاحب، تو دوسرے جو ان کی خط و کتابت کا کام کرتے تھے، وہاں ڈاک آتی تھی، جو اس کا جواب دیتے تھے ان کو وہ سیکرٹری صاحب کہتے تھے۔ جو حساب و کتاب پسیے ویسے لوگ دے جاتے تھے کھانے وانے کے تو ان کو وہ فنانس سیکرٹری کہتے تھے۔ تو یہ لوگ بڑے خوش ہوتے تھے کہ بیٹھے بٹھائے اتنے بڑے رتبے مل گئے۔ ایک روز ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ یہاں بہت اچھی باتیں ہوتی ہیں، اور بہت توجہ طلب باتیں ہوتی ہیں، کیوں نہ یہاں سے ایک رسالہ نکالا جائے، اور وہ چھاپا جائے، اور چھاپ کے لوگوں میں تقسیم کیا جائے۔ بڑی اچھی بات تھی، ایسے ہی ہوتا ہے۔ تو ہم نے بیٹھکے رسالے کی پوری ایک ڈمی تیار کی، اس کا فارمیٹ سوچا، ڈاکٹر اشرف فاضلی صاحب اس کے ایڈیٹر قرار دیئے۔ سیکرٹری صاحب ظاہر ہے منتظمِ اعلٰی وہی تھے، میں نے کہا، اچھا میں بھی کچھ لکھوں گا، سارا کچھ تیار کیا تو ہم یہ ساری سکیم بنا کے ان کے خدمت میں لے گئے۔ ہم نے کہا جی کہ ہم ایک رسالہ نکالنا چاہتے ہیں، تو انہوں نے کہا، پہلے بھی ایک رسالہ نکلا یہاں سے تھوڑی دیر کے لیے پھر بند ہو گیا۔ تو کہنے لگے، آپ رسالہ کیوں نکالنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا، اس لیئے کہ ہم آپس میں اتحاد اور Unity پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کے قریب آئیں گے، اور ملیں گے، اور ان کو یہ Message جو ہے، یہ دور دور تک پہنچتا رہے گا، اور استفادہ ہو گا، ہماری بڑی آرزو ہے کہ مسلمان ایک ہوں، ان میں Unity ہو، ان میں اتحاد ہو، ان میں یکجہتی ہو۔ تو آپ نے کہا Note۔ جماعت عملاً ایک دوسرے کے کام آنے سے بنتی ہے۔ صرف قول کے اندر رہنے سے فرض، اور حق پورا نہیں ہوتا، کیونکہ اس ساری چیز کا تعلق قول سے ہے اور عمل اس سے مختلف چیز ہے، اگر آپ جماعت بنانا چاہتے ہیں، اور آپ بھی اکثر سوچا کرتے ہیں، اور گھر میں بات بھی ہوتی ہے، تو قول سے، گفتگو سے کبھی نہیں ہو گی۔

دیکھیے ہمارا اللہ ایک ہے، ہمارا رسول ایک ہے، ہمارا نماز پڑھنے کا طریق ایک ہے، ہمارا قیامت کے اوپر ایمان ایک سا ہے، لیکن اس کے باوصف یک جہتی نہیں ہوتی۔ کیوں نہیں ہوتی؟ یہ سوچنے کی بات تھی۔ تو ایسی باتیں بابوں کے ہاں سے ملتی ہیں کہ جب تک ایک دوسرے کا دکھ درد نہیں سنو گے، ایک دوسرے کے بارے میں نہیں جانو گے، کون کس کیفیت سے گزر رہا ہے، تو اس محض گفتگو کر دینے سے کام نہیں بنے گا۔ کہتے تھے Note جماعت عملاً ایک دوسرے کا ساتھ دینے سے وجود میں آتی ہے، خالی قول کے ساتھ جماعت کی یکجہتی کا حق ادا نہیں ہوتا، تو آپ عمل میں داخل ہوں گے تو پھر یہ حق ادا ہو گا، تو پھر یہ کام ہو گا ورنہ نہیں ہو گا۔ ہم اب بھی یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم یہ ایک کتاب رسالہ اخبار نکالتے ہیں، اگر ہم ایک لیکچر دیں، اگر پروفیسر جا کے سٹیج پر کھڑا ہو کر ایک بات بتا دے اور وہ سٹوڈنٹ کے ذہن میں اتر جائے، اس سے ان کے اندر یکجہتی پیدا ہو جائے، ایسا ہوتا نہیں۔ کبھی بھی نہیں ہوا۔ دنیا کے کسی خطے میں ایسا نہیں ہوتا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قول کی اہمیت نہیں ہے۔ کہی جانی والی بات کی اہمیت نہیں ہے۔ یقیناً ہے۔ لیکن بابا جی فرماتے ہیں کہ Note، قول ایک سواری ہے، جو آپ کو عمل کے کنارے پر لے جاتی ہے۔ خرابی یہ ہوتی ہے کہ ہم قول کی سواری کو اختیار کرتے ہیں، اس کشتی میں بیٹھتے ہیں، چپو چلاتے ہیں، عمل کے کنارے پر پہنچتے ہیں، لیکن اس کشتی کو چھوڑتے ہیں ہیں، اس کے اندر رہتے ہیں، وہ وہیں چکر کاٹتی رہتی ہے، عمل کا کنارہ سامنے رہتا ہے، اور ہم اس کر طرف جا نہیں رہے ہوتے، اور ہم کوشش یہ کرتے ہیں پڑھے لکھے لوگ، نوجوان میرے ساتھ ہیں، ہم کوشش صرف یہ کرتے ہیں کہ کمیونیکیشن سے، صرف ڈائیلاگ سے، صرف گفتگو سے بات بن جائے گی، کبھی نہیں بن سکتی۔ کیونکہ انسان کا وجود، اس کی سائیکی، اس کا ہونا، اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ کوئی بندہ میری بات سنے اور میرے دکھ درد میں شریک ہو۔ یہ جو آپ نے اکثر دیکھا ہو گا، آج کل خود کشیاں ہو رہی ہیں، لوگ خود سوزیاں کر رہے ہیں، عام طور پر ایک اچھا جرنلسٹ یہی کہتا ہے کہ چونکہ ملازمتیں نہیں مل رہیں، بھوک ننگ بہت ہے، اس وجہ سے یہ سارا کام ہو رہا ہے۔ میں کہتا ہوں یہ بات نہیں ہے۔ اس وقت آپ کے پاکستان کا نوجوان خاص طور پر ایک عام آدمی اس کندھے کی تلاش میں ہے، جس پر وہ اپنا سر رکھ کر اپنا دکھ بیان کر سکے، اور کوئی کندھا دینے کے لیے تیار نہیں۔ کسی کے پاس وقت ہی نہیں۔ اگلے زمانے میں، ہمارے زمانے میں، ہمارے باپ دادا کے زمانے میں، دکھ سکھ کرنے کے لیے لوگ ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ ان کے پاس اکنامکس کے اتنے مسائل، اور اتنی پرابلمز نہیں تھیں۔ ولایت والوں نے یہ طریقہ نکالا کہ وہ دکھ سننے کے لیے فیس لیتے ہیں۔ یہ سائیکاٹرسٹ جو ہوتے ہیں، سائیکوتھراپسٹ جو ہوتے ہیں، یہ آپ سے تین سو ڈالر فی گھنٹہ لیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں پرسوں پھر آ جانا، تم اپنے دکھ بیان کرو، مجھے پیسے دے دو۔ ہمارے ہاں بھی اب ایسے ادارے قائم ہو گئے ہیں۔ اگر آپ لاہور کی نہر کے کنارے کنارے جائیں تو دو تین بورڈ آپ کو نظر آئیں گے ماہر نفسیات ک۔ جو یہ کہتے ہیں، اگر آپ نے اپنا دکھ بیان کرنا ہے تو دو سو روپے گھنٹہ مجھے دیں۔ دکھ اپنا بیان کر کے چلے جائیں، تو وہ بھی ایک تھراپی ہے، لیکن پہلے زمانے میں ہمارے ہاں مفت اور عام ہوتی تھی۔ اب لوگ اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ کسی وجہ سے پھنس گئے تو جب تک عمل کے اندر آدمی داخل نہیں ہو گا، دوسرے آدمی کو یقین نہیں آئے گا کہ یہ میرا کچھ لگتا ہے، میرا کچھ بھائی بند ہے۔ اگر آپ اس کے سامنے تقریر کر کے چلے جائیں گے، تو اس کی انفرمیشن میں اضافہ ہو جائے گا۔ اور خطرہ یہ ہے کہ وہ یہ ساری انفرمیشن سمیٹ کے ایک اگلے آدمی سے وہ بات کرنے لگ جائے گا۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا، کبھی آپ نے ہمارے ٹیلیویژن کے پروگرام دیکھے ہیں دینی باتیں، سوالوں کے جواب بڑی تیزی سے دیئے جاتے ہیں۔ وہ انفرمیشن ہوتی ہے، اس کا ذات کے ساتھ اپنے وجود کے ساتھ یا اپنی سائیکی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تو آپ نے ہمیں منع کیا کہ دیکھیئے ایسے نہ کریں، رسالہ نہ چلائیں، چھوڑیں اس کام کو۔ کسی کے کام آ سکتے ہیں تو وہ چھوٹا سا کام کریں۔ میں نے کہا، جی کام (اب میں اتنا پڑھا لکھا آدمی جب میں بہت نوجوان تھا، اور سوٹ پہنتا تھا تھری پیس، اور سونے کی پن لگاتا تھا ٹائی میں)۔ میں نے کہا، میں کسی کے کیا کام آ سکتا ہوں، میں تو ایک معزز آدمی ہوں، پروفیسر ہوں، کہنے لگے، نہیں یقیناً آپ کام آ سکتے ہیں، کہنے لگے، یہاں اماں جی رہتی ہیں۔ وہاں صابن کی کچھ دکانیں تھیں، وہاں پر ایک مائی تھی، دائی کا وہ کام کرتی تھی، تو اس کی بیٹی کی شادی ہے تو کہنے لگے، اس کی بیٹی کی شادی ہے اور اس کا جو منگیتر ہے، اماں نے لڑکا چنا ہے۔ وہ سیگنیلر ہے، بابا جی نے پتہ نہیں لفظ کہاں سے سیکھا، سیگنیلر وہ ہوتا ہے جو مورسی کے اوپر تار باندھے، کہنے لگے وہ سیگنیلر ہے محکمہ ڈاک بنگلے میں۔ ڈاک بنگلہ نہر کا بنگلہ۔ انگریز کے زمانے میں یہاں ریل تار ڈاک کا انتظام بہت غضب کا تھا۔ جب یہ نہریں کھودیں انہوں نے ان کے کنارے بڑے اعلٰی درجے کے بنگلے بنوائے، ہچ ٹریز والے بنگلے، ان میں فلمیں بھی بڑی شوٹ ہوتی تھیں، اعلٰی درجے کی اس کے اندر بلڈنگیں ہوتی تھیں، اور وہاں پر ایک آفس بھی ہوتا تھا، جہاں پر سیگنیلر کنڈکٹر تھا۔ خدانخواستہ اگر نہر میں کوئی خرابی ہو، پانی روکنا ہو یا کوئی اور کھٹا کھٹ ہو۔ تو وہ سیگنیلر کو بہت بڑی چیز سمجھتے تھے۔ 60 روپے تنخواہ والا سیگنیلر۔ وہ لڑکا بھی پسند کر لیا تھا۔ تو مجھے کہنے لگے، تمہارے پاس ایک چھوٹی سی گاڑی ہے، وہ سیگنیلر کا ابا جو ہے وہ آ رہا ہے تحقیق و تفتیش کرنے کے لیے کہ لڑکی کتنا کام کرتی ہے، چارپائیوں کو اٹھا کر دیوار کے ساتھ رکھتی ہے کہ نہیں، شام کو بسترے بچھاتی ہے کہ نہیں، گھڑا پانی کا بھر کے لاتی ہے کہ نہیں، تو وہ وہاں رہے گا کچھ دن، وہ جو روٹی کھاتا ہے وہ گندم اور مکئی کا آٹا ملا کے کھاتا ہے، اب نخرہ دیکھیں اس کا۔ تو تمہاری ڈیوٹی یہ ہے کہ تم دس سیر پکا مکئی کا آٹا اپنی موٹر میں رکھ کر اماں جی کے پاس پہنچاؤ۔ میں نے کہا، مجھے کوئی اچھا سا کام دیں لکھنے کا، یہ کیا ہے۔ مجھے کہنے لگے، وہ اس لیے دینا ہے کہ ہم نے اس بابے کی عزت افزائی کرنی ہے۔ اور ہماری بیٹی کی شادی ہے۔ تو میں نے کہا، اچھا جی تو میں گیا بھی، اس سے ملا بھی بابے سے، انہوں نے کہا، خبردار اس کی بہت عزت کرنی ہے، اور اس کو سلام کرنا ہے۔ میں نے کہا جی میں دو مرتبہ کرنے کو تیار ہوں۔ جب میں لوٹ کے آیا اگلے دن۔ تو کہنے لگے وہ حقہ پیتا ہے تو میں نے کیکر کی چھال جو ہے نا جس کو کیکر کے سُکڑے کہتے ہیں، تو اس کا کوئلہ بہت اچھا ہوتا ہے، اور جو پرانے بابے حقہ تمباکو پینے والے ہیں، اس کی آگ دھرتے ہیں، تو یہ سکڑے جو ہیں یہ تھے سیر ڈیڑھ یہ انہیں دے دو۔ میں نے کہا، جی دفع کریں چبا سا آدمی ہے۔ وہ کہنے لگے نہیں نہیں، یہ نہیں کہنا۔ وہ اللہ کی مخلوق ہے، اور وہ انبیا کا بیٹا ہے۔ میں نے کہا، وہ بندہ۔ کہنے لگے، ہاں حضرت آدم کی اولاد جو ہے۔ اچھا وہ ہر ایک کو کہتے تھے کہ نبی کا بیٹا ہے، تو ہماری برکت ہو گی، لو جی یہ نبی کی دھی، ہمارے ڈیرے پر آ گئی ہے۔ خیر ہمارے لیے یہ بات سیکھنی بہت مشکل تھی، تو جب انہوں نے یہ ڈیوٹی لگائی، ہم بہت روئے پیٹے کہ رسالہ چلنے سے رہ گیا۔

امریکہ سے کوئی صاحب آئے ہیں، انہوں نے مجھے ٹیلی فون کیا کہ اشفاق صاحب ! میں پتہ نہیں کتنے ملین ڈالر اکیس برس امریکہ رہنے کے بعد کما کر لایا ہوں، میں نے اسلام آباد میں‌کچھ کام شروع کیا ہے اسلام، یک جہتی، اور ملک و قوم کی خدمت کرنے کے لیے، تو آپ آئیں۔ تو میں نے کہا، سنیں آپ جو بھی کریں گے ٹھیک ہو گا۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو کے کیا کروں گا۔ میں آپ کو کوئی اچھا سا سجھاؤ نہیں دے سکتا۔ کہنے لگے، نہیں آپ ضرور آئیں۔ تو میں نے ٹیلی فون پر ان سے کہا، دیکھیے آپ ایک بہت بڑی ساری بلڈنگ بنائیں گے، پھر اس میں آپ ایک سیکشن رکھیں گے، اس میں درسِ قرآن شروع کریں گے، پھر تجوید کا رکھیں گے، پھر آپ قرآت سکھائیں گے، بس یہی چیزیں ہوں گی۔ یہ آپ کرتے رہیں، اچھی بات ہے، لیکن وہ جو آپ کی آرزو ہے کہ لوگ جو ہیں، وہ ایک جماعت کا رُخ اختیار کریں، تو وہ عملاً کرنے سے ہو گا، اور رسالہ چھاپنے سے نہیں ہو گا۔ اب بھی جو دینی جماعتیں ہیں، وہ بار بار یہی کہتی ہیں، آپ نے دیکھا ہو گا بے شمار لوگ آپ کے پاس بھی آتے ہیں، کتابیں آتی ہوں گی شاید، بڑی اچھی بات ہے۔ وہ کشتی ضرور ہے، وہ ساحل تک ضرور لے جاتی ہے، لیکن ساحل پر خود اس کو اترنا پڑے گا، اب ہمارے لیے یہ بات بڑی مشکل ہو گئی ہے کہ یہ کیسے کریں؟ کہ ہم اس کو چھوڑ کر عمل کی طرف آئیں۔ انہوں نے کہا اگر Unity چاہتے ہیں آپ، اتحاد چاہتے ہیں، تو پھر آپ کو عمل کے اندر داخل ہونا پڑے گا۔ ایسے کام نہیں بنے گا۔

ایک مرتبہ ہم لاری پر جوہرآباد جا رہے تھے، بڑی دیر کی بات ہے، میرے ساتھ لاری میں ایک اور معزز آدمی پرانی وضع کے ریٹائرڈ تھے، گرمی بہت تھی، انہوں نے پگڑی رکھی ہوئی تھی گود میں، ہوا آ رہی تھی۔ تو ایک خاص علاقہ آیا، تو انہوں نے پگڑی اٹھا کے سر پر رکھ لی۔ اور ادب سے بیٹھ گئے، تو میں‌ متجسس آدمی تھا۔ میں نے کہا، جی یہاں کسی بزرگ کا مزار ہے، کہنے لگے، نہیں۔ میں نے کہا، جی کوئی درگاہ ہے یہاں۔ کہنے لگے، نہیں۔ تو میں نے کہا، معاف کیجیئے گا، میں نے یہ دیکھا کہ آپ نے پگڑی جو ہے وہ گود سے اٹھا کر سر پر رکھ لی ہے، تو باادب ہو کے بیٹھ گئے ہیں، کوئی وجہ ہو گی۔ کہنے لگے، بات یہ ہے کہ میں اس علاقے کا واقف ہوں، یہاں ڈیزرٹ تھا، اور ریت تھی، اور کچھ بھی نہیں تھا۔ تو حکومت نے سوچا کہ اس میں کوئی فصل اُگائی جائے۔ تو لوگ آتے نہیں تھے، ایک آدمی آیا، اس نے آ کر جھونپڑا بنایا، اور جھونپڑا بنا کر یہاں پانی کی تلاش میں ٹیوب ویل وغیرہ سنک کرنے کی کوشش کی۔ وہ پہلا آدمی تھا، جس نے یہاں سبزہ اگایا، جس نے عملی صورت میں اس زمین کو ہریالی بخشی۔ جو میں جب بھی یہاں سے گزرتا ہوں، پتا نہیں وہ آدمی کہاں ہو، میں نے اس کے احترام میں یہ پگڑی اٹھا کے رکھ لی۔ دیکھیے یہ ایسی چیزیں ہیں، جو ہماری زندگی کے اوپر عجیب طرح سے اثر انداز ہوتی ہیں، اور اگر آپ اپنی آنکھیں بالکل کھلی رکھیں۔ ماشاءاللہ کھلی رکھتے ہیں، کان بھی، تو آپ کو ارد گرد اتنی کہانیاں ملیں گی، جن کے اوپر آپ نے اس سے پہلے توجہ نہیں دی ہو گی۔ ہمارے استاد تھے پروفیسر صوفی غلام مصطفٰی تبسم صاحب، تو ہم سیانے تھے۔ میں ففتھ ائیر میں پڑھتا تھا، ان کی ایک عادت تھی کہ جب کسی کی شادی ہوتی تھی، لڑکی کے گھر والوں میں، تو ان کے گھر جا کر بارات کو کھانا کھلانے کا بندوبست ان کے سر پر ہوتا تھا۔ تو صوفی صاحب نے ہم کو کہا کہ چلو بھئی فلاں گھر میں کھانا برتانا ہے، دینا ہے، بارات آ گئی ہے۔ مجھے یاد ہے ہم بھاٹی دروازے بتیاں والی سرکار کے پیچھے ایک گھر تھا وہاں چلے گئے۔ انہوں نے کہا، لو جی صوفی صاحب آ گئے، فکر کی کوئی بات نہیں، نائی دیگیں لے آئے۔ اب جو بارات تھی اس کے بارے میں خیال تھا کہ 80 کے قریب بندے ہوں گے۔ وہ 160 کے قریب آ گئے۔ اب صوفی صاحب کی آنکھیں، اگر آپ میں سے کسی کو یاد ہیں، ماشا اللہ بہت موٹی تھیں، گھبرا گئے، اور ان کے ماتھے پر پسینہ اور ناک پر بھی آ جاتا تھا۔ کہنے لگے، اشفاق ہن کیہہ کریئے۔ میں نے کہا، پتا نہیں، دیگوں میں پانی ڈال دیتے ہیں۔ پہلا موقع تھا، میں Fifth year کا سٹوڈنٹ تھا۔ انہوں نے ایک تھپڑ مارا میرے منہ پر۔ زور سے۔ کہنے لگے، بیوقوف آدمی اس میں پانی ڈال کے مرنا ہے۔ وہ تو فوراً ختم ہو جائے گا۔ اس میں گھی کا پیپا ایک اور ڈالنا ہے۔ گاڑھا ہو جائے گا تو کھایا نہیں جائے گا۔ اب ہم اندر سرو کر رہے تھے، اور صوفی صاحب بیچ میں سے نکال کر ڈالتے جاتے تھے۔ ہم باراتیوں سے کہتے اور لائیں۔ وہ کہتے تھے گرم لاؤ جی۔ ہم تو بھاگے پھرتے تھے۔ اب آخر کیفیت یہ آ گئی کہ دیگیں ختم ہو گئیں، اور ان کا چہرہ دیکھنے والا تھا وہ کانپ رہے تھے۔ اگر کسی نے اندر سے کہہ دیا کہ اور کاب بھیجیں، تو ان کے پاس دینے کے لیے صرف ایک رہ گئی تھی، لیکن وہ ڈرے ہوئے تھے۔ جب خوفزدہ تھے تو اندر سے آواز آئی بس۔ جب دوسرے بندے نے کہا، بس جی صوفی صاحب۔ تو صوفی صاحب کے ہاتھ میں جو پکڑا ہوا تھا وہ گرا، اور اتنی شدت سے پیچھے گرے کہ وہ بڑا سا کڑھاؤ تھا، شکر ہے، ان کے سر پر نہیں لگا، تو ہم نے اٹھا کے ان کو بستر پر لٹایا، اور ٹانگیں پاؤں دبائے۔ جب تلی مالش کی تو اٹھ کے بیٹھ گئے۔ میں نے کہا، خدا کے واسطے ایسی ٹینشن کا کام آئندہ نہیں کرنا۔ کہنے لگے، نہیں بالکل نہیں، میری بھی توبہ۔ وہاں سے ہم چل پڑے، پیچھے ہم شاگرد۔ اب آگے آگے صوفی صاحب، کوئی پندرہ بیس گز سے زیادہ گئے ہوں گے۔ ایک مائی باہر نکلی، کہنے لگی، لو غلام مصطفٰی میں تو تینوں لبھ دی پھرنی آں۔ “ تاریخ رکھ دتی اے۔ تیرہ بھادوں دی کاکی دی۔“ تو صوفی صاحب جو توبہ کر کے نکلے، کہنے لگے، کاغذ ہے، ہاں پنسل ہے۔ کہنے لگے۔ لکھ تیرہ سیر گوشت ایک بوری چول صوفی صاحب لکھوا رہے ہیں۔ تو میں نے کہا، جی یہ پھر ہو گا۔ کہنے لگے، نہیں یہ تو ان کی ضرورت ہے۔ میں نے کہا، آپ صرف پڑھایا کریں کتاب کی تشریح وغیرہ۔ تو یہ ان کا کام تھا، تو یہ جو عمل کی دنیا ہے، اس میں داخل ہوتا ضروری ہے۔

عالم لوگ پڑھے لکھے میرے جیسے۔ پروفیسر بات کرنے والے، ایڈیٹوریل لکھنے والے، کہتے ہیں گفتگو اگر ہوتی رہے، اگر اس طرح کا مواس چھپتا رہے، تو لوگ ایک دوسرے کے قریب آ جائیں گے۔ جب میں بہت تنگ آ جاتا تھا، کبھی لاڈ میں ہوتا تھا۔ تو میں پوچھتا تھا ان سے، کہ بابا جی یہ بتائیں کہ دین کیا ہوتا ہے، اسلام کیا ہوتا ہے، مومن کیا ہوتا ہے؟ تو میں نے ایک دن پوچھا ان سے۔ میں نے کہا، جی بابا جی بتائیں کہ مسلمان کون ہوتا ہے؟ کہنے لگے مسلمان وہ ہوتا ہے جس کا دل صاف ہو، اور ہاتھ گندے ہوں۔ میں نے کہا، حضور یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ کہنے لگے، جو بھائیوں کے کام کرتا رہے گا، اس کے ہاتھ تو گندے ہوں گے، جو آرام سے بیٹھا ہو گا دستانے پہن کے، اس کا تو کچھ نہیں خراب ہونا ہے۔ تو مسلمان وہ ہوتا ہے، جو اس کا گارا لگانا ہے، اس کی اینٹ اٹھانی ہے، اس کے لیے لکڑیاں لا کر دینی ہیں، جو روتا ہے اس کے آنسو پونچھنے ہیں۔ وہ ہوتا ہے مسلمان۔ ہم کو تو ایسی Definition کسی کتاب میں نہیں ملتی ہے۔ یہ ان کے پاس بیٹھنے سے ان کی خدمت میں حاضر ہونے سے ایسی چیزیں ملتی ہیں تو اب عمل میں داخل ہونے کے لیے کیا کچھ کیا جائے، کیسے کیا جائے، یا یہ بڑا مشکل کام ہے۔ کیونکہ گفتگو بڑی آسان ہے۔

ہمارے ایک دوست ہیں، احسن صاحب، ٹیلی کمیونیکیشن کے چیف انجینئر ہیں۔ وہ کہتے ہیں جتنی بھی فارن کالز ہوتی ہیں، ان میں اکثر لوگ یہی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہور سناؤ کیہہ حال اے۔ ہور سناؤ جی کہتا رہتا ہے آدمی۔ یا زیادہ سے زیادہ موسم کا حال پوچھتا ہے۔ تو کہنے لگے، اگر ان ٹرنک کال میں سے لانگ ڈسٹنس کالز میں سے “ ہور سناؤ کیہہ حال اے “ جمع کیا جائے اور جتنا ٹائم وہ بنتا ہے، اس ٹائم کے اندر ساڑھے تین میل لمبی سرنگ کھودی جا سکتی ہے۔ وہ عمل میں ٹرانسلیٹ کر رہے ہیں نا اس کو۔ تو اب یہ فیصلہ کرنا آپ کے اختیار میں ہے کہ آپ نے دین کو کس حساب سے اختیار کرنا ہے۔ بابے تو یہ کہتے ہیں کہ کیس کے دکھ درد میں شریک ہوں اور اپنے ہاتھ گندے رکھو، اور دل اپنا صاف ستھرا رکھو، پھر تو مزہ ہے، پھر Unity ہو گی، کہے بغیر، لکھے بغیر۔ یہ مسلمانوں کو کیا ہو گیا کہ آپس میں ملتے نہیں ہیں۔ یہ کیا ہو گیا۔ یہ کرنے سے ہوتا ہے، اور ان کے قریب جانے سے ہوتا ہے، ان کے دکھ درد کی کہانی سننے سے ہوتا ہے۔ نہ بھی کچھ کر سکیں تو ایک کان ان کے ساتھ لگا کر بیٹھیں، ان کو بڑی ضرورت ہے، سارے اس بات کے لیے تقاضا کر رہے ہیں کہ ائیں، اور ہمارے پاس بیٹھیں۔

اللہ تعالٰی آپ سب کو آسانیاں عطا فرمائے، اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
 

ماوراء

محفلین
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں

کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں​


ہم سب کی طرف سے آپ کی خدمت میں سلام پہنچے۔
ہم ایک دن تحریر کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ کوئی ہم سے پوچھ رہا تھا کہ جو تحریر ہے، اس کو آپ کس طرح سے دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں کہ ایک تحریر صحافت کی ہوتی ہے، اور ایک تحریر ادب کی ہوتی ہے، اور ان میں کیا فرق ہے؟ تو میں ان سے یہی عرض کر رہا تھا کہ صحافت کی تحریر ایک وقائع نگار کی تحریر ہوتی ہے۔ وہ جو جو واقعات دیکھتا ہے، انہیں کے ساتھ کو دیکھ پرکھ کر ایک فریم ورک میں موجود کر کے لکھتا ہے، اور وہ سچ کے پیچھے، اور تحقیق کے پیچھے جانے کی پوری کوشش کرتا ہے، اور سعی کرتا ہے، اور ان واقعات کو جو گزرے، وہ واقعات جو آنے والے ہیں، اور جس کے بارے میں وہ ان حال کے واقعات سے اندازہ لگاتا ہے، وہ صحافت کی تحریر کہلاتی ہے۔
اور جو ادیب ہوتا ہے، وہ اس حقیقت سے ایک رمز تلاش کرتا ہے۔ ایک مختلف حقیقت کی طرف جاتا ہے، جسے آپ Separate reality کہتے ہیں۔ ایک Reality تو وہ ہے جو آپ زندگی میں ہر روز ملاحظہ کرتے ہیں۔ لیکن ایک Reality، ایک حقیقت وہ ہے جس کو ایک صاحبِ نظر یا صاحبِ بصیرت آدمی اس کی تہہ تک پہنچ کر تلاش کرتا ہے۔ مثلاً درختوں کے پھل جب پکتے ہیں، اور پکنے کے بعد آخری مرحلے کو پہنچتے ہیں تو شاخوں سے ٹوٹ کر زمیں پر گرنے لگتے ہیں، اور یہ ایک دنیا بھر کے سارے ملکوں میں، سارے علاقوں میں، ساری جگہوں پر ایک طے شدہ معاملہ ہے کہ اشجار پھلوں کو جب وہ پک جاتے ہیں تو چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے لیکن جب نیوٹن ایک بنچ کے اوپر بیٹھ کر اپنے کوٹ کے کالر کھڑے کر کے اس پھل کو جو پک چکا ہے، گرتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ ایک Separate Reality
بیان کرتا ہے۔ اور وہ کہتا ہے کہ اس کی وجہ Gravity ہے۔ ادیب بھی اس رمز کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے، جو بین حقیقت میں موجود نہیں ہوتی۔ آپ سے یہ بات کرتے ہوئے مجھے ایک بہت دیر کا پڑھا ہوا واقعہ یاد آیا، جو شاید ہم سب کو یہ بات سمجھنے میں مدد دے۔ ہمارے یہاں گولڑہ شریف میں مہر علی شاہ تھے۔ ان کا نام سے آپ سب واقف ہیں۔ ان کے صاحبزادے تھے غلام محی الدین صاحب، جن کو عرف عام میں لوگ “بابو جی“ کہتے تھے۔ وہ بابو جی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان کو کوئی اپنی طبع علمی کے اظہار کا اتنا چاؤ نہیں تھا۔ مجھے ان کی خدمت میں حاضری دینے کی بڑی آرزو تھی، ایک دفعہ بڑی کوشش کر کے میں گولڑہ شریف پہنچا، دوپہر کا وقت تھا۔ میں نے کہا کہ میں بابو جی سے ملنا چاہتا ہوں، تو انہوں نے کہا کہ وہ سو رہے ہیں، لیکن چونکہ آپ لاہور سے آئت ہیں، اس لیے ان کو جگا دیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ نہیں، ایسی گستاخی نہیں ہونی چاہیے۔ میرا ملنا نہ ملنا کوئی اتنی اہمیت نہیں رکھنا۔ ان کا سونا، وہ بہت ہی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ چنانچہ میں ان سے مل نہیں سکا، اور یہ حسرت میرے دل میں ہی رہی۔
باؤجی جب بہت چھوٹے تھے، بالکل بچے تھے۔ آپ نے اگر گولڑہ شریف دیکھا ہو، اور اس کے قریب سے گزرے ہوں جو اسلام آباد والے ہیں، وہ تو روز ہی گزرتے ہیں۔ تو آپ دیکھیں گے کہ بستہ کے عین ساتھ ساتھ ایک ریلوے لائن ہے۔ گاڑی بستی کے قریب سے گزرتی ہے، یعنی گولڑہ شریف کا، اور ٹرین کا ایک بڑا گہرا رشتہ ہے۔ گاڑی جب گزرتی تھی تو بابو جی اس گاڑی کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے۔ بہت چھوٹے تھے نا تو وہ گاڑی کی محبت میں مبتلا ہو گئے۔ ایسی گہری محبت میں مبتلا ہوئے کہ دنیا مافیہہ کا کوئی ہوش نہیں رہا۔ وہ گاڑی کے عشق میں ہی مبتلا ہو گےت تھے، اور اسے دیکھتے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ اس کو ایک انگریز چلا رہا ہے۔ پیچھے جو جھنڈی ہلانے والا ہے، وہ بھی انگریز ہے، اور جب وہ جھنڈی ہلاتا ہے تو گاڑی Whistle دیتی ہے، اور پنڈی کی طرف روانہ ہوئی ہے بابو جی۔ پہلے تو کھڑے ہو کر ہاتھ ہلاتے تھے، اور گاڑی گزرتی تھی۔ جب اس چھوٹے بچے کا، اس معصوم کا ہاتھ ہلانا، اور ہر روز اس گاڑی میں استغراق دیکھا، تو جو ڈرائیور تھا وہ بھی جواب میں ہاتھ ہلانے لگا۔ انگریز میں یہ خوبی بڑی تھی، اور آج بھی ہے۔ پھر انہوں نے کیا کیا کہ ایک چھوٹا سا ڈنڈا لیا، اور اس کے اوپر گرین کپڑا باندھ کے اس کی جھنڈی بنائی، اور جیسے ریلوے سٹیشن پر جھنڈی لہرا کر گاڑی کے نکاس کی اجازت دیتے ہیں نا، یہ بچہ بھی وہاں کھڑا ہو کے گرین جھنڈی ہلاتا تھا، اور وہ گاڑی جاتی تھی۔ کچھ دنوں تو یہ کھیل رہا، پھر اس کے بعد جب وہ گرین جھنڈی ہلاتے تھے تو ڈرائیور Whistle دیتا تھا کہ Yes Sir آپ کا Order بھی ہم نے تسلیم کیا، اور ہم گزر رہے ہیں۔ وہ جھنڈی ہلاتے رہے۔ گرین جھنڈی کے ساتھ گاڑی وہاں سے گزرتی رہی۔ پھر ان کو ریلوے سٹیشن پر جانے کے بعد پتا چلا کہ ایک چیز سگنل بھی ہوتی ہے، اور جب سگنل ڈاؤن ہوتا ہے تو گاڑی گزرتی ہے، اور جب Up ہوتا ہے۔تو گاڑی نہیں گزرتی۔ چنانچہ انہوں نے لکڑیاں وکڑیاں جوڑ کے اپنے مریدوں سے کہہ کہلوا کے رسیاں ٹاکیاں لے کے ایک لکڑی کا بڑا سا سگنل بنایا، اور اس کو گھر کے کوٹھے کے اوپر لگا دیا، اور انہوں نے تناؤ باندھ لی۔ اب جب گاڑی آنے کا وقت ہوتا تو وہ رسی ڈھیلی کر دیتے تھے۔ سگنل ڈاؤن ہو جاتا تھا اور گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی، اور Wistle دیتی ہوئی وہاں سے گزر جاتی تھی۔ اس چیز نے ان کو بڑا مشکل میں ڈال دیا، اور ٹائم کا پابند بنا دیا۔۔۔۔ کیونکہ بھئی ظاہر ہے کہ گاڑی تو وقت پر گزرتی ہے، اور ان کو رات کو جاگنے پر بھی مامور کر دیا، کیونکہ رات کو بھی جاگنا پڑتا تھا، تو پھر گاڑی ان کا سگنل Recevie کر کے گزرتی تھی۔
تو ایک دفعہ شام کے وقت جب وہ کھیل رہے تھے تو وہ بھول گئے، اور سگنل up رہ گیا۔ وہ دوستوں کے ساتھ کھیلتے رہے تو وہ جب انگریز نے سگنل up دیکھا تو گاڑی اس نے روک دی کہ سگنل up ہے۔ تو میں کیسے گزر سکتا ہوں، اور اس نے بڑی Wistles دیں، اور جب اس نے وسلیں دیں تو یہ اپنا کھیل چھوڑ کر بھاگے، اور جا کر سگنل کو ڈاؤن کیا، اور گاڑی۔۔۔۔چھکا چھک۔۔۔۔چھکا چھک۔۔۔۔دوڑنے لگی۔ جب تک یہ سگنل ڈاؤن نہیں کرتے تھے۔ وہ اس کی محبت میں مبتلا صاحب جو تھا، وہ ان کو ویسے ہی جواب دیتا تھا جیسا کہ ایک ڈرائیور کو اپنے سگنل مین کا جواب دینا چاہیے، اور وہ اس کے عشق میں مسلسل مبتلا چلے جاتے رہے جو مرید حضرات پیر مہر علی شاہ صاحب کے پاس آتے تھے، اور صاحبزادہ کو دیکھتے تھے ان میں گوالیار کے کوئی صاحب تھے۔ نام تو مجھے ان کا یاد نہیں کیونکہ بڑی دیر کی بات ہے، تو انہوں نے کہا کہ صاحبزادے آپ اس کالے کلوٹے(انجن) کے عشق میں کیوں مبتلا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلہ بات تو یہ ہے کہ یہ آگ کھاتا ہے۔ انگارے ہضم کرتا ہے۔ اپنی جان پر دکھ سہتا ہے، اور یہ دکھ سہہ کر جس منزل کا تہیہ کرتا ہے، اس کی طرف جاتا ہے۔ دوسرے یہ مجھے اس لیے پسند ہے کہ یہ جس منزل کا ارادہ کرتا ہے، اس پر پہنچ کر ہی دم لیتا ہے۔ اب اگر اس نے یہ تہیہ کیا ہے کہ میں سمہ سٹہ جاؤں گا تو کوئی طاقت اس کو نہیں روک سکتی، اور تیسی صفت یہ ہے، اور سب سے پیاری بھی کہ جس نے مجھے اس عشق میں مبتلا کیا کہ یہ First class کے ڈبے کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے، اور Third class کے ڈبے کو بھی، اور گندی بوگی کو بھی لے کر چلتا ہے۔ یہ یہ نہیں کہتا کہ تو یہاں رہ، میں تو First class کے ڈبے کو ساتھ لے کر جاؤں گا۔ اور چوتھی چیز یہ ہے کہ یہ صراطِ مستقیم کا مال ہے۔ نہ ایک انچ ادھر جاتا ہے، نہ ایک انچ ادھر۔ جو راستہ اس نے طے کر لیا ہے، اس کے اوپر چلتا ہے۔ اب انجن تو ہم سب نے دیکھا ہے، لیکن جو Seperate reality اس نوجوان لڑکے نے اس کی بیان کی ہے، وہ ایک اور Reality ہے۔ تو یہ Reality ہے جو ہم لکھنے والے، چھوٹے بڑے درجے کے اس کی تلاش میں رہتے ہیں کہ ایک حقیقت تو یہ ہے جو ہامرے سامنے چلی آ رہی ہے، اور یہ ایک حقیقت وہ ہے جو کہیں، اور پوشیدہ ہے۔ سائنس کے سٹوڈنٹس یہ بات مجھ سے بہتر جانتے ہوں گے کہ جیسے معلوم کی دنیا ہے ایسے ہی نامعلوم کی دنیا بھی ہے۔ اور جو اس کو تسلیم نہیں کرتا، اس کی سوچ بڑی محدود ہو جاتی ہے، کیونکہ لامعلوم کی دنیا پھیل جاتی ہے اور جب کہ اللہ نے فرمایا کہ “ ہم نے آپ کو علم دیا ہے۔ الاقلیلا۔۔۔۔یعنی تھوڑا سا دیا ہے تو باوجود اس کے کہ اس کا Separate Reality سے جس کا کہ میں ذکر کر رہا ہوں، کوئی ایسا قریب کا تعلق نہیں ہے، لیکن کبھی کبھی میں آپ کو تسلیم و رضا کی خو ڈال کے، کچھ ایسے خفیہ راز بھی بتا دیتا ہوں جو میری ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔
میں ایک لکھنے والا ہوں۔ جیسا کیسا بھی ہوں، میں بھی جانتا ہوں، اور آپ بھی جانتے ہیں۔ اس میں ایسی کوئی فخر کی بات نہیں ہے، لیکن انسان کے اندر ایک چیز ہوتی ہے، اور وہ اسے محسوس کرتا ہے کہ شاید مجھ سے بہتر کوئی اور نہیں ہے۔ مجھے ایک دن خیال آیا اور میں نے سوچا کہ میں لکھنے والے کی حیثیت سے, Broadcaster کے انداز سے کچھ تھوڑا سا معروف آدمی ہو گیا ہوں، اور لوگ مجھے جانتے ہیں لیکن میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ میں کتنا معروف ہو گیا ہوں، اور لوگ مجھے کتنا جانتے ہیں، تو میں نے اس کا ایک ٹیسٹ نکالا۔ میں نے ایک کارڈ لیا خالی اور میں نے اس کے اوپر لکھا کہ۔

محترمی جناب اشفاق صاحب!
آپ سے ملنے کو بڑا دل چاہتا تھا۔ اللہ کرے، آپ سے ملنے کا کبھی کوئی موقع ملے وغیری وغیرہ۔۔۔۔!!

جیسے اپنے Fans وغیرہ کو خط لکھے جاتے ہیں نا۔ ویسے ہی میں نے بھی لکھا، تو اب جو میں نے ایڈریس لکھا تو وہ یہ تھا کہ “اشفاق صاحب مشہور ڈرامہ نویس۔ لاہور“ باقی Details نہیں دیں کہ میں کس محلے میں رہتا ہوں۔ لکھ کر میں نے اس کو سپردِ ڈاک کر دیا، تو وہ تقریباً تین دن کے بعد مختلف مہریں لگا ہوا مجھے مل گیا۔ اس میں بہاولپور کی مہر بھی تھی۔ رحیم یار خان کی بھی تھی، اور مختلف جگہوں کی تھیں، تو مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ یا اللہ یہ بڑے کمال کی بات ہے، اور میں ماشاءاللہ کافی معروف آدمی ہوں۔ تین دن کے بعد ملا، لیکن ملا تو سہی۔ اب اتفاق دیکھیے، اور قدرت کی ایک Reality کو اجاگر کرنے کا ایک انداز ملاحظہ فرمائیے۔ تقریباً ایک مہینے بعد یا ١٥۔٢٠ دنوں کے بعد مجھے ایک لفافہ ملا۔ بڑا اچھا سا۔ خوب صورت سا، اور اس کے اوپر لکھا ہوا تھا۔ “اشفاق احمد۔ بکواسی Broad Caster کو ملے“۔۔۔۔۔اس پر نہ لاہور لکھا تھا، اور نہ میرے گلی محلے کا نام۔۔۔اس کے اوپر صبح ٩:٣٠ کی راولپنڈی کی مہر تھی، اور شام ٤:٣٠ کی اس کی Delivery کی مہر تھی۔ یعنی اسی دن وہ مجھے مل گیا، یعنی بظاہر اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن میں کبھی کبھی رمز کے انداز میں سوچتا ہوں کہ جب رمزیں واضح ہونے لگتی ہیں۔ تو کئی کئی طریقوں سے۔۔۔عجیب عجیب انداز سے کھلتی ہیں تو لکھنے والوں کے لیے، اور غور کرنے والوں، اور محسوس کرنے والوں کے لیے اس Separate Reality کی طرف نگاہ کرنا، اور نگاہ رکھنا بہت ضروری ہے، کیونکہ وہ اس Reality، کو اس مختلف حقیقت کو جان کر پھر اپنے لوگوں کے قریب آ سکتے ہیں۔ جو لوگ صرف ایک ہی حقیقت کے مارے ہوئے ہوتے ہیں، وہ پھر ایک ہی لائن پر چل سکتے ہیں۔ ان کو کبھی ان لوگوں کی تکالیف کا اندازہ نہیں ہو سکتا جن کی تکالیف ان سے مختلف ہوتی ہیں، بلکہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ اپنے جیسی تکالیف ہوں تو ان کا بھی اندازہ نہیں ہوتا ہے۔
چونکہ ابھی تحریر کے سلسلے میں گفتگو ہو رہی تھی۔ اس لیے میں نے اسے آپ کی خدمت میں پیش کر دیا، لیکن ہمارے زاویہ میں ہر طرح کی باتیں ہوتی رہتی ہیں، اور ہوتی رہیں گی، اور ہم اس پر ہر ایک زاویہ سے، ایک اور Angle سے غور کرتے رہیں گے۔ یہ تو تھی میری بات، جو میں نے آپ کی خدمت میں عرض کر دی، اور آپ کے سامنے پیش کر دی، لیکن اب میرا بھی ایک مسئلہ ہے جو میں آپ سے پوچھنا چاہوں گا، اور اسے حل کریں گے۔ کوئی ایسا پیچیدہ تو نہیں ہے، لیکن اکثر مختلف مقامات پر، مختلف اوقات میں وہ مجھے، آپ کو، ہم سب کو گھیرے میں لیے ہوتا ہے۔ یہ عام طور پر نوجوان لڑکے، لڑکیاں خاص طور پر اس بات کا اعادہ کرتی ہیں۔ کہ اس دنیا میں مجھے کوئی سمجھ نہیں سکا اور افسوس کہ کسی نے میری حقیقت کو نہیں جانا۔ آپ کی اردو شاعری بھی اس سے بھری پڑی ہے۔
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں​

لوگوں کو یہ شکایت عام ہے کہ میرے دل کو کوئی نہیں سمجھتا۔ تو یہ فرمائیے کہ یہ بات کس حد تک درست ہے؟ کیا واقعی آدمی دوسرے آدمی کو نہیں سمجھتا؟ کیا واقعی نا سمجھے جانے والے انسان کے پاس اتنا کچھ ہوتا ہے کہ جس سے دوسرا آدمی فائدہ نہیں اٹھا رہا ہوتا؟ کیا واقعی ناسمجھے جانے والے انسان کا وجود اتنا قیمتی ہوتا ہے کہ وہ ہر جگہ، ہر مقام پر ہر وقت روتا پھرتا ہے۔ آپ کے خیال میں کیا ہے؟

حاضرین میں سے: اشفاق صاحب! بات یہ ہے کہ اگر آپ نے شاعروں کا حوالہ نہ ہوتا تو میں بڑی سخت بات کرتا لیکن آپ نے شاعری کا حوالہ دیا ہے تو مجھے نسبتاً نرم رویہ اختیار کرنا پڑے گا۔ بات یہ ہے کہ جب آدمی گمراہ ہو تو دوسروں کو بھی جہالت میں مبتلا کر دیتا ہے، اور ان کو اپنی ہی نظروں میں چڑھا دیتا ہے، اور وہ اپنی نظروں میں چڑھتے چلے جاتے ہیں، اور دنیا کی نگاہوں میں گرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ جو لوگ اپنی نگاہ میں خود ہی چڑھتے چلے جاتے ہیں، وہ عموماً سمجھتے ہیں کہ ہم بہت اچھے ہیں مگر دنیا ہمیں نہیں سمجھ پائی، یہ ان کی ایک بہت عجیب سی صورتِ حال ہے۔

اشفاق احمد: آپ اختر عباس! کیا سمجھتے ہیں کہ یہ رویہ درست ہے؟

اختر عباس: سر بات یہ ہے کہ توجہ طلبی کا سارا مسئلہ ہے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے دنیا سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ ہمارا مشاہدہ زیادہ تیز ہے، اور اسے شیئر کرنے والے زیادہ ہونے چاہیئں کیونکہ لوگ ان سے شیئر نہیں کرتے۔ ان سے پوچھتے نہیں ہیں تو پھر وہ شکوے سے بھرے ہوئے بولتے ہیں۔

اشفاق احمد: ویسے یہ گلہ بڑا عام ہے اختر عباس صاحب!

اختر عباس: لیکن سر یہ گلہ بے جا ہے۔ میری اپنی Feeling یہ ہے کہ یہ بے جا ہے۔ اس پر اس طرح سے اصرار کرنا نہیں چاہیے۔

اشفاق احمد: آپ خالد صاحب کیا سمجھتے ہیں؟
خالد صاحب: سر میرا خیال ہے کہ جب ایک فرد اپنے مفادات کے مطابق Society میں عمل کرنا چاہتا ہے اور سامنے والے افراد اپنے مفادات کے مطابق عمل کرنا چاہتے ہیں اور جب دونوں کے مفادات میں ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے تو جو ہارتا ہے یا جس کے مفادات ضرورت کے مطابق پورے نہیں ہو پاتے، تو وہ شکوہ کناں ہو جاتے ہیں۔ لیکن۔۔۔۔میرے خیال میں ایسے آدمی کی اپنی Personality میں کمی ہوتی ہے۔ وہ صیحح طور پر سمجھا نہیں پاتے یا اس کی Personality واضح نہیں ہو پاتی، تو وہ اس کا گلہ عوام الناس سے کرتا ہے کہ مجھے کوئی نہیں سمجھتا ہے۔

اشفاق احمد: آپ لوگوں نے کبھی اپنی ذاتی زندگی میں ایسا اعلان کیا؟

ایک سامع: اشفاق صاحب! ہوتا ہے اکثر۔۔۔۔اس میں کوئی ایسی بات نہیں۔ ہر بندے کی زندگی میں ایسا وقت آتا ہے۔۔۔۔ایسا موڑ آتا ہے کہ جب وہ Emotional ہو جاتا ہے تو وہ سمجھا نہیں پاتا، لیکن جب وہ ٹھنڈے دل سے سوچتا ہے تو وہ خود ہی Realise کرتا ہے کہ اس میں میری ہی خامی تھی۔ تب وہ بندہ خود ہی مصنف ہوتا ہے، لیکن Emotional ہونے کی صورت میں وہ دوسروں کو Blame دیتا ہے۔ کہ اس کے ساتھ زیادتہ ہوئی ہے۔ لیکن میرا مشاہدہ ہے کہ اس میں ضروری نہیں کہ ان میں پڑھے لکھے لوگ ہی شامل ہوں۔ وہ خواتین جو بہت تعلیم یافتہ نہیں ہوتیں، وہ بھی یہ شکایت کرتی ہیں۔ اپنی پڑوسیوں سے کہ مجھے کوئی سمجھنے والا ملا ہی نہیں ہے۔
تو وہ جذباتی ہوتی ہیں نا اس لیے ایسا سوچتی ہیں۔
لیکن(اشفاق صاحب) ہم سب کا جو Angle ہے، وہ شاید بڑا محدود ہو۔ آپ کی نظر مختلف حوالوں سے مختلف چیزوں پر، لوگوں پہ زیادہ پڑی ہے اگر مناسب سمجھیں تو تھوڑا اپنے حوالے سے، اپنے مشاہدے کے حوالے سے بتائیں کہ آپ کو اس کی کیا وجہ لگتی ہے، اور اس کو کس طرح سے دور کیا جا سکتا ہے، تاکہ اس کا عملاً بھی کوئی فائدہ ہو۔

اشفاق صاحب: اختر عباس صاحب! میرے ایک استاد تھے، جب میں روم میں تھا۔ اس کا نام تھا اونگار یتی۔۔۔۔پروفیسر اونگار یتی۔۔۔۔میں ان کی باتیں بیان کرت ارہوں گا۔ ان کو ہم پروفیسر کہتے تھے، لیکن یہ پروفیسر سے اوپر کا درجہ تھا۔
جب وہ تشریف لاتے تھے تو ہم سارے کے سارے، کسی کے پاؤں میں بوٹ ہے، کوئی ننگے پاؤں ہے۔ کوئی پنکھے کے نیچے بیٹھا ہوا ہے۔ سب کھڑئ ہو جاتے تھے، اور سب ایک دوسرے کو کہتے تھے کہ آ گئے ہیں اٹھو سب، پروفیسر اونگار یتی، اور وہ تھے Pop Lorlate اٹلی کے۔۔۔اب ان کے دو کتابیں آئی ہیں ترجمہ ہو کے۔ جب کوئی مشکل ہمیں پڑتی تھی تو ہم ان سے اس قسم کے سوال کرتے تھے جیسا کہ آپ نے پوچھا ہے کہ آپ کا بہت وسیع مشاہدہ ہے۔ ایک دفعہ ایک پروفیسر کا اس بیوی سے بڑا شدید جھگڑا ہو گیا، اور اس میں بہت حد تک وہ خاتون ٹھیک بھی تھیں۔۔۔۔تو جب جھگڑا زیادہ ہو گیا، اور یہ معاملہ سٹاف روم میں پروفیسر اونگا یتی کے پاس پہنچا، تو انہوں نے کہا کہ دیکھو جھگڑا اپنی جگہ، لیکن تم قوت کے سارے اعضاء جو ہیں، ان کو استعمال کیا کرو۔۔۔۔اور خاتون سے کہنے لگے کہ بی بی تم صرف آنکھیں استعمال کرتی ہو، پپوٹے استعمال نہیں کرتیں، تو جب تک یہ نہیں ہو گا ساتھ، اس وقت تک کام نہیں ہو گا۔
تو ہم نے ان سے پوچھا کہ یہ آدمی کہتا ہے کہ زندگی میں مجھے کوئی سمجھا ہی نہیں ہے، اس کی حقیقت کیا ہے تو وہ کہنے لگے کہ اس شخص کو خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے، کیونکہ اس کی کمینگیاں، اور حماقتیں، اور نالائقیاں لوگوں کے سامنے نہیں آئی ہیں۔ اسے اللہ کا شکر ادا کر کے سونا چاہیے، اور یہ شکوہ بھی نہیں کرنا چاہیے کہ لوگ مجھے سمجھتے نہیں۔
آپ کا بہت بہت شکریہ اور جو میرے ساتھی ہیں، وہ بھی شکرئیے کی اس ادائیگی میں میرے ساتھ ہیں۔ اللہ آپ سب کو آسانیاں دے، اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا کرے۔
 

فریب

محفلین
اندر کی تبدیلی


یہ ایک بڑی خوشگوار صبح کا ذکر ہے۔ سردیوں کا موسم تھا۔ بری شدت کا جاڑا تھا اور بڑی روشن صبح طلوح ہو چکی تھی۔ ہم ڈیرے پر موجود، بابا جی نور والے سے ان کی کچھ باتیں سننے کی آرزو لے کر بیٹھے تھے۔ جب میں آپ سے " ڈیرے" کا یا " بابا " کا ذکر کرتا ہوں تو آپ کو سمجھنے میں بڑی دقت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ میں اگر اس کی بجائے یہ کہتا کہ ہم ایک روز انسٹیٹیوٹ آف ہیومن ریلیشن کے لان میں بیٹھے تھے، اور ہمارے ڈائریکٹرمسٹر بشکنی ہم کو Relatedness ٹوہیومن ریس کے بارے میں کچھ بتا رہے تھے تو آپ کو سمجھنے میں غالباً آسانی ہوتی۔ بات یہ ہے کہ الفاظ کی بھی اپنی دنیا ہے۔ پہلے واضع طور پر، الفاظ کے معنی ہوتے ہیں۔ جیسے گل کے معنی پھول ہیں یا آہن کے معنی لوہا ہیں، یا با جبریل کے معنی جبریل کے پر ہیں۔ لیکن الفاظ کے معنی کے ساتھ ساتھ الفاظ کی اپنی شخصیت بھی ہے۔ ان کا ایک قد و قامت بھی ہوتا ہے۔ ان کا ایک مزاج بھی ہوتا ہے۔ ان کی تلخی بھی ہوتی ہے اور ان میں شفقت بھی ہوتی ہے، اور ان کی ساری شخصیت، اور ساری ترتیب جو ہوی ہے، وہ اپنے طور پر پڑھنے والے، اور سننے والے پر اپنا اثر چھوڑتی ہے۔ اس لیے ڈیرے کا لفظ اپنے تمام Connotation کے باوجود ہماری گرفت میں اس لیے نہیں آتا کہ ہم نے دیکھا نہیں، ہم وہاں سے گزرے نہیں۔ وہ ہمارا کبھی مصرف نہیں رہا۔
تو ہم وہاں بیٹھے تھے، اور اپنے اپنے انداز میں پاکستان کی بہتری اور بھلائی کے لیے کچھ تجاویز پیش کر رہے تھے۔ کچھ پروگرام بنا رہے تھے۔ وہاں پر مولوی موسیٰ آف دی مسٹری Mystery ہوتے تھے۔ برے تیز طرار، اور بڑے دانشور، اور اللہ نے ان کو ایسا ذہن رسا دیا تھا کہ بہت جلد بات کو سمجھ جاتے تھے۔ بہت جلد پیش کر دیتے تھے اپنی رائے۔ کونے میں ہمارے ڈاکٹر اشرف صاحب بادام راخن نکال رہے تھے۔ آپ یقین نہیں کریں گے کہ ڈیرے پر چونکہ لوگوں کا علاج بالغدا ہوتا تھا، غدا دے کے بیماری کا علاج کیا جاتا تھا، اور بابا جی یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی غزائیں پیدا کی ہیں، جڑی بوٹیاں پیدا کی ہیں، ان میں سے ہر جڑی بوٹی ہر غدا، ہر اناج ہر گوشت کی قسم ایک خاص بیماری کے لیے مفید ہے، تو بادام روخن جو نکلتا تھا، وہ مشین سے نہیں نکلتا تھا، کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ مشین سے نکالا جائے تو لوہے کے دو پہیوں کے درمیاں آ کر Residue کچھ حصہ لوہے کا شامل ہو جائے گا اور وہ خالص نہیں رہے گا۔ چناچہ وہاں پر بادام روخن ہاتھ سے نکالا جاتا تھا۔ اچھا یہ بات میں نے جب پہلی بار سنی تو یقین نہ آیا، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک پہلوان آتا ہے، بادام کی گریاں لے کر اور یوں دباتا ہے، اور چررر ایک دھار نکلتی ہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا، لیکن وہاں جا کر پتا چلا کہ وہ بادام کو کوٹتے ہیں۔ کوٹ کر ایک خاص ٹمپریچر پر گرم کرتے ہیں۔ پھر اسے پرات میں رکھتے ہیں، اور پرات کا ایک حصہ اونچا کر دیتے ہیں۔ کچھ تو ان گرم ہوئے ہوئے سیدھے باداموں میں سے قطرے ٹپکنے لگتے ہیں خود بخود، اور کچھ ان کو آتا گوندھنے کے انداز میں بعد میں نکالا جاتا ہے، اور تقریباً اتنا ہی نکل آتا ہے جتنا کہ ایک مشین نکالتی ہے لیکن اس کی رنگت، اس کی خوشبو یقیناً بہت اچھی ہوتی ہے۔
یہ تو میں درمیان میں آپ سے ضمنی بات کر گیا، تو وہاں پر جو رائے پیش کی جارہی تھی، ان میں ہم نے بڑے پروگرام بنائے۔ جیسے آپ ہم سب جب مل بیتھتے ہیں، پاکستان کے بارے میں فرکرمندی کا اظہار کرتے ہیں، اور سوچتے ہیں اگر یہ کیا جائے تو بہتر ہو گا، اگر یہ کیا جائے وغیرہ۔ تو بابا جی یہ باتیں سنتے رہے تو انہوں نے کہا انسان کو راستی پر لانے کے صرف دو ہی طریقے ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جو خرابی ہو، جو خطا ہو، جہاں جہاں پر کوئی خامی ہو، جہاں پر کوئی نیگیٹو پوائنٹ ہو، اس کو دور کیا جائے، سیاستدان اور حکمران، اور جہاں بان یہ سارے اس طرح سے علاج کرتے ہیں کہ جہاں پر کوئی خرابہ ہو، اسے دور کرنے کے لیے وہاں پہنچا جائے، اس کو دور کر سکتے ہیں یا نہیں، یہ اب اللہ کے اختیار میں ہے۔ انبیاء کا طریقہ کار، باباجی نے کہا، اس سے مختلف ہے۔ وہ وہاں پر جو خرابی ہوتی ہے اس کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرتے، بلکہ وہاں کے رہنے والے انسانوں کے اندر کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ جب ان کا اندر تبدیل ہو جاتا ہے تو وہ خود بخود اپنی خطا کو ٹھیک کر لیتے ہیں، اپنی خامی کو دور کر لیتے ہیں۔ لیکن اگر آپ ان کو ویسے کا ویسا ہی رہنے دیں اور ان کی کوتاہیاں دور کرنے کی کوشش کرتے رہیں تو باد تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا، اور آپ دیکھتے رہیں گے کہ آپ کے ہاں بڑی خرابی ہے اسے دور کیا جائے۔ تو اندر کا درست کیا جانا بہت ضروری ہے، اور جب تک اندر ٹھیک نہیں ہو گا، اس وقت تک کوئی بھی مشین ٹھیک نہیں چلے گی۔
ہمارے ایک دوست تھے۔ ان کے ابا محدوم صاحب کے پاس ایک کار ہوتی تھی کرائسلر۔ پتا نہیں اب ہے کہ نہیں، ختم ہع گئ ہو گی۔ بڑی سبک، خوبصورت سی اچھی سی۔ مخدوم صاحب کے پاس سارے بہاولپور میں نواب صاحبان کے بعد ان کی کاریں ہوتیں۔ ہمارے دوست رفیق ان کے صاحبزادے تھے۔ وہ کار چلاتے رہے اور ایک عرصہ گزر جانے پر جب اس کا معین وقت آیا تو گاڑی چلنے سے انکاری ہو گئ۔ اب مخدوم صاحب نے اسے احتیاط کے ساتھ، ادب سے ساتھ، عزر افزائی کے ساتھ ایک چھپر کے نیچھے اینتوں کے اوپر کھڑا کر دیا۔۔ کچھ عرصے کے بعد مخدوم صاحب فوت ہو گئے، اور رفیق نے یہ سوچا کہ یہ اتنی اچھی کار ہے، اور اس کا انداز، اور اس کی ساخت بہت بہتر ہے، تو اسے چلایا جانا چاہیے۔ تو وہ کوشش کرتے رہے۔ جہاں سمجھدار لوگ ہوتے ہیں جو برے صاحب کی خوشامد وغیرہ کرتے ہیں تو انہوں نے کہا، صاحب اس کا رنگ بدل دیں۔ جب تک اس کے اوپر اچھا، اور نیا رنگ نہیں ہو گا نا، یہ تھیک نہیں ہو گی۔ ہمارے بھی گروں میں اکثر جب خواتیں اصلاح کریں، سب سے پہلے کہا جاتا ہے ڈرائنگ روم بدل دیں۔ کرسیاں ادھر رکھیں۔ میز ادھر چلا جائے تو پھر سب تھیک ہو جائے گا۔ اکثر آدمی بھی کہتے ہیں۔ انہوں نے بھی یہی رائے دی۔ انہوں نے کہا، یہ بات ٹھیک ہے۔انہوں نے سارا رنگ اتروا کر اس پر نیلا رنگ کروایا تب سٹرٹ کی، لیکن سٹارٹ نہ ہوئی۔ اس لیے کہ نیلے رنگ سے تو کچھ نہیں ہوتا۔ وہاں کے ایک پٹواری تھے انہوں نے کہا کہ کرائسلر کا رنگ نیلا نہیں ہوتا، سٹیل گرے ہوتا ہے، عام طور پہ یا کالا ہوتا ہے، تو آپ اس پر سٹیل گرے کریں تو اچھا ہے۔ تو سٹیل گرے کروایا گیا، تو پتہ یہ چلا جب تک اس کا اندر ٹھیک نہیں ہو گا یہ نہیں چلے گی۔ ہماری بھی یہی کیفیت ہے۔ ہم اپنے اوپر سٹیل گرے رنگ کروا کے گھوم رہے ہیں، اور اب سوچتے ہیں کہ سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ آپ نے دیکھا ہو گا سیسی جماعتیں آتی ہیں، آتی رہتی ہیں، چلی جاتی ہیں، اور ہر ایک یہ دعویٰ کرکے آتی ہے، بڑی راستی سے نیک نیتی سے کہ جناب ہم آئیں گے تو تمہاری کایا پلٹ دیں گے۔ اچھا وہ آتے ہیں تو ان کا بھی طریقہ کار وہی ہوتا ہے۔ اتنا صبر ان میں ہوتا نہیں کہ وہ انبیاء کا راستہ اختیار کر سکیں، اور لوگوں کو تبدیل کر سکیں۔ چھوٹے سے گروہ کو تبدیل کر دیں، نہیں کر سکتے۔ وہ کہتے ہیں چلیے ہم یہ کر دیں گے، یہاں سڑک بنا دیں گے۔ پل تعمیر کر دیں گے یہ کوچے آپ کے ٹھیک کر دیں گے۔ صفائیاں کر دیں گے۔ لگے رہتے ہیں بی چارے لیکن ہو نہیں پاتا، کیونکہ وہ گرہء انسانی جو اس کجی کے مقام پر رہتا ہے، جب تک وہ ٹھیک نہیں ہو گا اس وقت تک وہ مقام ٹیک نہیں ہو گا، چاہیں کچھ بھی کر لیں۔ اور آدمی کو پتا نہیں چلتا کہ اس کے اندر کجی کب، کیسے، کیوں واقع ہوئی۔ وہ یہی سمجھتا رہتا ہے کہ میرے ارد گرد کے ماحول کی ساری خرابی ہے۔ میری کوئی خرابی نہیں۔ اپنی خرابی پر کوئی غور نہیں کرتا اور وہ ساری ذمہ داری دوسروں پر ڈالتا ہے اور کہتا ہے یہ ہونا چاہیے، وہ ہونا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے یہ کرے، ان کو چاہیے وہ کریں۔ بوٹی مافیا کیوں ہوتا ہے۔ اس کو ختم کیا جانا چاہیے۔ فلاں چیز کیوں ہوتی ہے، اس کا ازالہ ہو، لیکن اگر بیٹھ کے آدمی کبھی مراقبے کے انداز میں سوچے اور غور کرے، اور اپنے سلیف کو جانے، اور نکھارنے کی کوشش کرے تو پھر اس کو پتہ چلے گا کہ میرے اگر سیلف Self کی کنڈی اس مچھلی کو پھنسالے تو پتا چلے گا۔ اس کے اندر بہت کوتاہیاں، اور خامیاں موجود ہیں جو میں اگر دور کروں گا، جیسے کہ بابے نے کیا تھا تو میرا ماحول ٹھیک ہو جائے گا۔ آدمی کو یقین نہیں آتا، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اپنا آپ ٹھیک کر لوں، اور اردگرد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
میرے پاس ایک اچھا کلارک تھا۔ پرانی وضع کا۔ میرے ابا جی کا تھا۔ انہوں نے بڑے شوق سے اپنے بچپن میں اپنے باپ سے یا دادا سے کہ کر لیا تھا۔ آبنوس کی لکڑی تھی، اور لمبی لٹکن جو تھی پینڈولم۔ اور ہندسے جو تھے وہ رومن ہندسے تھے، جیسے ریلوے سٹیشنوں پر گھڑیوں میں ہوتے ہیں۔ بالکل کالی سیاہ سوئی، اور لگا ہوا وہ گھر میں بڑا اچھا، اور خوب صورت دیکھائی دیتا ہے، اور اس کا ارتعاش جب وہ گھڑیال بجاتا ہے تو دور دور تک اس کی آواز جاتی ہے۔ اچانک اچھا بھلا چلتا چلاتا وہ کلاک ایک دن رک گیا تو مجھے بڑی تشویش ہوئی، اور پریشانی ہوئی۔ میں نے اس کو کھول کے اس کا جو لٹکن تھا، اس کا جو پینڈولم تھا اس کو ہلایا، جو آدمی کیا کرتا ہے تو وہ چلا، تو سات بجے میں نے ہلایا، سو آٹھ بجے تک چلا۔ پھر بندہوگیا۔ اکثر آپ کو تجربہ ہوا ہو گا۔ پھر مجھے کسی سیانے نے بتایا کہ اس کی اندر کی سوئیاں گھمائیں تو پھر یہ ٹھیک ہو گا۔ تو میں نے پینڈولم کو بھی چلا دیا، سوئیوں کو بھی چھیڑا، وہ بھی چلا تو بجائے ایک گھنٹہ چلنے کے دو گھنٹے چل گیا۔اب سوئیوں کی حرکت سے فرق پڑا لیکن پھر بند ہو گیا۔ تو میں اس کو اتار کر بڑی احتیاط کے ساتھ بڑی محبت کے ساتھ، مزید کوشش بھی کی۔ یا اللہ یہ کیسے ٹھیک ہو گا۔ اس کو پھر میں لے گیا ایک بڑے گھٹی ساز کے پاس جو مال روڈ پر ہے۔ ان کو جا کر میں نے دیکھایا۔ انہوں نے دیکھا اور کہا، اشفاق صاحب یہ بہت پیچیدہ کلاک ہے، اور پرانے زمانے کا ہے، اور اس کی مشینری جو ہے، یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے میں اسے ٹھیک نہیں کر سکتا۔ مجھے افسوس ہے آپ اسے ایک تاریخی چیز سمجھیں اور عجائب گھر کا ایک حصہ بنا لیں۔ یہ چلے گا نہیں اسے نوادرات سمجھیں۔ میں جب بہت مایوس ہوا، اور اس نے میرا اداس چہرہ دیکھا تو اس نے کہا، آپ اسے چھوڑ جائیں، میں اسے دیکھوں گا۔شاید اس میں کوئی صلاحیت ہو کہ خود ہی مجھے بتا دے اپنی طرف سے ورنہ میرے پاس کوئی کاغظ نہیں ہے۔ نہ میرے استاد نے پڑھایا ہے۔ میں اسے چھوڑ ایا۔ دوسرے دن میں شام کو گیا تو اس کی دیوار کے ساتھ لگا ہوا تھا، اور کھٹا کھٹ چل رہا تھا۔ اتنی خوشی ہوئی مجھے، تو میں نے کہا، ٹھیک ہو گیا؟ کہنے لگا ہاں جی۔ میں نے کہا اب تو نہیں رکے گا۔ کہنے لگا، نہیں جی۔ میں نے کہا آپ تو کہ رہے تھے ، پیچیدہ ہے۔ ہاں جی پیچیدہ بدستور ہے۔ تو میں نے کہا، بڑی مہربانی بتائیے اس کی کیا اجرت، کتنے پیسے ہوئے؟ کہنے لگا کوئی پیسہ نہیں۔ میں نے کہا، کیوں، آپ کیا فرما رہے ہیں؟ اتنا پیچیدہ کلاک آپ نے ٹھیک کیا ہے۔ اس کی کوئی اجرت نہیں لے رہے۔ کہنے لگا، دیکھیے میں نے کچھ کیا ہی نہیں۔ میں نے کھول کے دیکھا تو اس کی گراریوں میں " پھوس"، "کھدڑ" جھاڑ دینے سے جو اڑتا ہے، پچیس سالوں کا وہ گروغبار وہ سارے پھنسے ہوئے تھے۔ میں نو وہ صاف کر دیا اور کچھ نہیں کیا۔
حاضرین میں سے: بات تو سر اس کی ہے جو دیدہ بینا کی ہے، جو انسان اپنی خامی دیکھ سکے۔
اشفاق صاحب: بجا، بالکل ٹھیک ہے۔ وہ بھی آپ کو بتا سکتا ہے۔ لیکن یہ آپ کے ارادے پر منحصر ہے، آیا اپنی اصلاح کرنے کو خواہش رکھتے ہیں یا نہیں۔میں اتنی عمر کا، آپ سب سے بڑا ہوں عمر میں۔ میں نے کبھی ایسی خواہش نہیں کی کہ میں تو کہتا ہوں کہ لوگ ٹھیک کریں، لوگ ٹھیک ہوں جائیں۔ میں تو اکثر یہ کہتا رہا۔ اب جا کے مجھے سمجھ آئی لیکن اب ٹائم تھوڑا رہ گیا ہے۔ اب ہم اپنے آپ کو Correct کرنے سے معذور ہوئے ہیں۔ تو جب کلاک چل گیا تو میں نے لگا دیا، گھر آ کے، تو میں بیٹھ کے سوچنے لگا کرسی پر کہ میری ذات کے اندر بھی بڑا کدڑ پھوس جمع ہوا ہوا ہے۔ اس جی وجہ سے نہیں چل رہا ہوں، اور جگہ جگہ رک جاتا ہوں۔
حاضرین میں سے: جب ہر بندہ اپنی ذمہداریوں کو سمجھے تو پھر یہ سارا ہو سکتا ہے، اندر کی صفائی ممکن ہے۔
اشفاق صاحب: میں سمجھتا ہوں کہ جب بندہ تہیہ کر لے، اس کو سمجھنے لگ جاتا ہے۔ بہت سی چیزیں جو ہیں میں سمجھتا ہوں کہ یہ ٹھیک ہے یہ غلط ہے۔ لیکن میرا تہیہ نہیں بن رہا، ارادہ مضبوط، کہ میں نے اب اس کو سیٹ رائٹ کرنا ہے۔ جس طرح ایک جرنیل ہوتا ہے، تو وہ بزن کر کے لشکر میں گھس جاتا ہے۔ وہ ایک ارادہ ایک تہیہ ہوتا ہےایسا نہیں بنتا۔
حاضرین میں سے: مجھے ایک بندے نے کہا، میں اچھا ہونا چاہتاہوں۔ اندر کی جون سی گرد اس کو صاف کرنا چاہتا ہوں، اور معیت کرنا چاہتا ہوں کسی بھی بزرگ کی، اور میں ڈھونڈ رہا ہوں، تو کہاں تک ٹھیک ہے کہ ڈھونڈنے سے یہ ہوتا ہے یا پہلے تہیہ تو بندہ کرے۔
اشفاق صاحب: دیکھیں وہ تو صاحب جو ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ خوانخواسہ کہ جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ ان کو سمجھ نہیں آرہا اور وہ بیت کرنے سے یا کسی آدمی کا ہاتھ پکڑنے سے اپنے آپ کو ٹھیک صحیح کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس ایسا پروگرام پہلے سے موجود ہے جو ٹھیک راستوں پر ان کو لے جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ ساری زندگی مجھے کبھی یہ الجھن نہیں ہوئی کہ کلام پاک میں کوئ چیز ایسی پیچیدہ ہے جو مجھے سمجھ میں نی آتی ہو۔ میں نے اس کی طرف توجہ نہیں کی۔ میرا دکھ یہ ہے کہ جو چیزیں میری سمجھ میں آ گئ ہیں۔ مجھ سے ان پر عمل نہیں ہوتا۔ باقی میں دوسری طرف جاتا ہی نہیں۔ مثلا پچھلے 75 برس سے مجھے ایک بات سمجھ میں آئی ہے کہ قولواللناس حسنا: لوگوں کے ساتھ اچھی بات کرو، اور میری یہ حسرت ہی چلی آ رہی ہے کہ مجھ سے سچھی بات ہو نہیں پاتی۔ غصہ آ جاتا ہے۔ طبیعت میں انقباض پیدا ہو جاتا ہے، اور طرح کا ایک کانٹا تبدیل ہو جاتا ہے تو جب ایک آدمی کا تہیہ ہو جائے کہ میں نے اس راستے سے اس راستے پر جانا ہےتو اللہ پھر اس کو برکت دیتا ہے، اور پھر وہ آدمی جس کی تلاش میں ہوتا ہے، وہ ایک دن خود صبح پانچ بجے آکے اس کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ ڈھونڈنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ تہیہ ہو تو پھر ہوتا ہے۔ اگر نہ ہو، پھر مشکل ہے۔ پھر آدمی ڈھونڈتا رہتا ہے کہ بتائیں اشفاق صاحب کوئی اچھا سا بابا، ہے نا، کیونکہ ابھی اس کا ارادہ نہیں، اس کا صرف پروگرام یہی پوچھنا ہے کہ نارووال کی گاڑی کب جاتی ہے۔ کہیں جانا ہے، کہے گا، میں نے جانا تو نہیں ایسے ہی پوچھ رہا تھا۔
ہمارے بابے جس کو کہتے ہیں تلاوت الوجود، جب آپ اپنے وجود کی تلاوت شروع کرتے ہیں، اور پھر دیکھیں کیا عجیب ٹرم (Term ہے۔ پھر آپ کو پتا چلنے لگتا ہے۔ ہم نے تو کبھی کی نہیں۔ ہم تو اپنے وجود سے ہمیشہ دور رہتے ہیں۔ اس کو قریب نہیں آنے دیتے۔ آپ کبھی اپنے ساتھ اکیلے بیٹھ کے دیکھیں، پندرہ منٹ کوٹھری بند کر کے۔ پتا ہے، قید تنہائی سب سے خوفناک سزا ہوتی ہے۔ اپنے ساتھ بیٹھو گے تو بہت سارے سچ آکر آپ کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے۔ آدمی چینخ مارتا ہے، بھاگتا ہے۔ یہ بڑے ارادے اور تہیے والوں کا کام ہوتا ہے۔ جو ایسی باتیں کریں کہ مجھے اپنے اندر کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے یاد ہے کہ نپولین اعظم جب فریڈرک کی قبر پر گیا تو اس نے دیکھا کہ فریڈرک کی قبر کے اوپر اس کی تلوار لٹک رہی ہے۔ بڑی روشنی اس پر پڑ رہی ہے۔ اس نے حکم دیا اپنے جنریل سے کہ تلوار کو اتار کر پیرس کے عجائب گھر کی نظر کر دو تو وہ تلوار اتاری گئی، اور بعد میں اتار کے نپولین کے حکم پر اس کو پیرس کے عجائب گھر میں رکھوا دیا گیا۔ بہت بڑے بادشاہ کی یہ تلوار ہے۔ جرنیل نے تلوار اتار کر کہا، جیسا کہ ہم کرتے ہیں، خوشامدی انداز میں مہ سر اگر ایسی تاریخی تلوار مجھ کو ملتی تو میں کبھی اپنے پہلو سے جدا نہ کرتا۔ تو نپولین سے زور سے اپنی تلوار پر ہاتھ مارا، اور کہا، کیا میرے پاس میری تلوار نہیں ہے۔ تو آپ کے پاس آپ کی تلوار ہے۔ اس لیے جب تک آپ اس تلوار پر ہاتھ مار کے شدت سے نہیں کہیں گے کہ میں اور یہ میری تلوار ہم دونوں ایک ہیں تو پھر آپ کسی اور طرف نہیں جھانکیں گے۔ تو میں عرض کر رہا تھا، کیا کبھی ایسا ہوا، کیا کبھی ایسا ہو سکے گا۔ میں اسلم صاحب سے جو ہمارے بہت بڑے شاعر ہیں، اور اخبار نویس بھی ہیں، ماشاءاللہ اسلم صاحب کبھی میں اپنے طور پر ایسے سوچتا ہوں کہ ہم لیٹرز تو دا ایڈیٹر ز لکھتےہیں، اور اس میں اکثر و بیشتر شکایات ہوتی ہیں کہ ہمارے ہاں گند کے ڈھیر پڑے ہیں۔ توجہ نہیں دی کارپورہشن والوں نے، حالانکہ انکے الیکشن بھی ہو گئے، اور بالکل بیٹھے ہیں اور کچھ نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں یہاں سسٹم میں یہ خرابی پیدا ہو گئ ہے۔ ہمارے ہاں یہاں پر نقل بہت بڑھ گئ ہے وغیرہ وغیرہ۔ کیا کبھی آپ کے نہاں خانوں یا آپ کے خیال میں یا آپ کی یاداشت میں کبھی کوئی ایسا خط تو ایڈیٹر لکھا گیا ہے۔ محترمی جناب ایڈیٹر صاحب! السلام علیکم، ہمارے یہاں پر گندگی کے ڈھیر پچھلے دس ہفتوں سے پڑے ہیں، اور ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مہربانی فرما کر اپنے سٹاف میں سے کوئی نیک، دردمند بندہ بھیجیں جو آ کر ہمارے دلوں کو تبدیل کر دے، اور ہم گندگی اٹھانے والے کی بجائے خود اس کی صفائی کریں۔ میرے خیال میں ایسا لیٹر کوئ چھپا نہیں کہ ہم دردمندی کے ساتھ کہتے کہ ہمارے ہاں یہ خرابی پیدا ہو گئ۔ آپ ایسا کریں کہ آپ ہم کو ایسا بندہ بھیج دیں جو ہمارے اندر وہ سویا ہوا جوہر جو ہے، اس کو جگا دے، اور پھر ہم اپنے پیروں پر خود کھڑے ہوں۔ کچھ بھی نہیں ہے یہ۔ یہ امتحان دینا، یہ سکعل میں بیٹھنا، یہ آگے چلنا، یہ صفائی رکھنا۔ اب دیکھیں نا سرخ بتی پر کھڑے ہونا ہمارے لیے جان کا عزاب بنا رہتا ہے۔ اب ہم چاہیں گے کہ ہم کسی اخبار کے اڈیٹر کو ضرور خط لکھیں۔ آج کے بعد کہ مہربانی فرما کر کوئی ایسا آدمی ہمارے درمیان بھیجیں جو ہمارے اندر یہ بات پیدا کر دے، جاگزیں کر دے کہ ہم نے سرخ بتی پر کھڑے ہونا ہے۔ بالکل کچھ اس طرح سے۔ میں کچھ عرض کروں جیسا کہ بابا جی نے کہا تھا، انبیا کی تعلیم میں کیا فرق ہے؟ ہم جیسے لوگوں کو جب آپ کے سامنے ہماری کوتاہیاں، خرابیاں، آپ کے پاس موجود ہیں، آپ جانتے ہیں، میں جانتا ہوں، لیکن ان کی تعلیم کا اثر کیسا چلا آ رہا ہے۔ ہم اپنی تمام تر خرابیوں کے باوصف تمام تر کوتاہیوں کے ہوتے ہوئے جب انبیا کے بتائے ہوئے حکم پر روزہ رکھ لیتے ہیں تو ہم کبھی غسل خانے میں، کوٹھری میں جا کر کچھ نہیں کھاتے۔ حالانکہ سپاہی کھڑا ہوتا ہے نہ ہی وہاں پر گورنمنٹ کا ڈر ہوتا ہے اور نہ ہی چلان ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ گرمیوں کے جب روزی آتے ہیں، پیاس سے مر جاتے ہیں، کھپ جاتے ہیں، بری حالت ہو جاتی ہے۔ غسل خانے میں جا کر تین تین مرتبہ نہایا کرتے تھے، لیکن وہاں بڑے مزے سے چلو لگا کر آدمی پانی پی لے، کون دیکھ رہا ہے، کون روک سکتا ہے، لیکن نہیں پیتا۔ وہ یہ کہ اندر تبدیل ہوتا ہے۔ لیکن اب جب آتے ہیں۔ اب جب اندر تبدیل نہیں ہوتا، اور اردگرد تبدیل ہو جاتا ہے۔ تو بابے کہتے ہیں، جب اردگرد تبدیل ہوتا رہے گا، آپ مرہون منت رہیں گے لوگوں کے، اور آپ کی زندگیوں میں وہ استقامت، اور استواری پیدا نہیں ہو گی جو کہ ہوتی ہے۔ تو میں ان سے یہ کہوں گا کہ آئندہ سے ہم ایسے ہی ایک دو لیٹرز تو دا ایڈیٹر لکھیں۔ ہاں ایک رسم پڑنی چاہیے کہ جناب ہم ٹھیک ہونا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ آپ پوچھ رہے تھے کیسے؟ ایک دفعہ کسی بزرگ نے دیکھا کہ بغداد کی دانہ منڈی کے باہر ایک پتھر کے اوپر شیطان بیٹھا رو رہا ہے، تو بزرگ بڑے حیران ہوئے۔ وہ اس کے قریب گئے اور کہنے لگے ابلیس کیا ہے تو رو رہا ہے؟ اس نے کہا، جی میرا بہت برا حال ہے۔ انہوں نے کہا، نہ بھئ نہ تو نہ رو۔ تمھیں تو اتنے کام بگاڑنے ہیں لوگوں کے۔ اگر تو ہی رونے لگ گیا تو کیا ہو گا؟ اس نے کہا، بابا جی میرا دکھ۔ انہوں نے کہا، دکھ کیا ہے؟ کہنے لگا جی میرا دکھ یہ ہے کہ میں اچھا ہونا چاہتا ہوں، اور مجھ سے ہوا نہیں جاتا۔ تو یہ تو دکھ ہم سب کا ہے۔ ہم زور تو لگاتے ہیں، بڑی کمال کی بات کی۔اس نے کہ ہم اچھے ہونا چاہتے ہیں، ہوا نہیں جاتا۔ چاہیے کہ ہم ہونے کی کوشش تو کریں، یہ خواہش تو کریں کہ ہم اچھے ہو جائیں تو اس سے بڑا فرق پڑ جاتا ہے۔
ہماری بات تو ہوتی رہتی ہے۔ گفتگو بھی ہوتی رہتی ہے، لیکن ہم روئے کبھی نہیں۔ ابلیس ہم سے بہتر تھا کہ سچ مچ رویا۔ وہ بازی لے گیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب اس گفتگو کے بعد ہم ضرور یہ کوشش کریں کہ لوٹ کے اپنی ذات تک صرف اپنی ذات تک کہ ہم اپنا کلام جو ہے، اس کے اندر جو کھڈر پھوس پھنس گیا ہے، اس کو نکالیں گے۔
آپ کا بہت شکریہ خواتین و حضرات۔ مہربانی اس پروگرام کو دیکھنے کی۔ آپ کا بھی بہت شکریہ، ہم سب آپ کے بڑے ممنون ہیں۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے، اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
 

شمشاد

لائبریرین
“ احترام آدمیت “

آج تک تو ہم بیشتر بابوں کے بارے میں ذکر کرتے آئے ہیں۔ آج مجھے ایک چھوٹے سے بچے کی یاد بہت ستا رہی ہے۔ جو ایک مرتبہ اپنے ماں باپ کے بغیر، اور شاید ان سے اجازت لیے بغیر ڈیرے پر آ گیا تھا۔ وہ گول مٹول سا، پیارا سا بچہ تھا۔ بڑا بنا ٹھنا تھا، اور آ کے بابا جی سے روتے ہوئے کہنے لگا، کہ مجھے اپنے ابا جی سے اختلاف، شکایت ہے۔ میں شکایت لگانے آیا ہوں۔ تو انہوں نے پوچھا، ابا جی سے ایسی کیا شکایت ہے بیٹا بیٹھو۔ کچھ لو کھاؤ پیو، مٹھائی وغیرہ رکھی تھی نا۔ تو اس نے کہا، نہیں میں کوئی چیز نہیں کھاؤں گا۔ پوچھا شکایت کیا ہے۔ اس نے کہا یہ بھی نہیں بتاؤں گا میں۔ بس مجھے ہے۔ وہ آپ کے پاس آتے ہیں، اور وہ بڑا دعوا کرتے ہیں، محبت کا اور شرافت کا، لیکن وہ ان میں ہے نہیں۔ السلام علیکم کہہ کر وہ وہاں سے چلا جاتا ہے۔ تو بابا جی نے کہا، اس کے پیچھے جائیں اور اس کو منا کر لائیں، لیکن وہ بڑے غصے میں تھا، چوٹھی پانچویں کا لڑکا ہو گا، لیکن رُکا نہیں، اور وہ چلا گیا، اور اس کے بعد کچھ پتہ نہیں چلا، اور نہ یہ پتا چلا کہ اس کے والدین کون ہیں اور کس کے خلاف شکایت لے کر آیا تھا؟ لیکن وہ شکایت ہمارے ذہن کے رجسٹروں میں درج کر گیا، اور ظاہر ہے ہم اس کا کوئی قلع قمع نہ کر سکے، کیونکہ یہ پتا نہیں تھا کہ وہ کدھر سے آیا ہے۔ تو میں اس کی یاد میں جو کہ بڑی دیر کے بعد آئی ہے، اور اب وہ کہیں اللہ کے فضل سے بڑے عہدے پر ہو گا، یا کوئی تاجر ہو گا، یا سیاست میں داخل ہو چکا ہو گا۔ وہ اگر کہیں ہماری پروگرام دیکھ رہا ہو تو اس کو ہمارا سلام پہنچے۔

ہوا یہ کہ ہم پاکستان بنا چکے تھے، اور وہ زمانہ درمیانی مدت کا زمانہ تھا، یعنی ہمیں کچھ آدھا وقت گزر چکا تھا بیس بائیس سال، اور ہم لوگ competition کے میدان میں اتر چکے تھے۔ مسابقت کے میدان میں، مقابلہ کے میدان میں اور ہم competition کو ہی اپنی زندگی کا معیار اور ذریعہ بنا چکے تھے۔ شرافت کا، نجابت کا، آگے بڑھنے کا، یہ جانتے ہوئے کہ competition جو ہے، یہ تخلیقی صلاحیت کی راہ میں ایک بہت بڑا پتھر ہے۔ ایک آدمی کے اندر جو تخلیقی صلاحیتیں ہوتی ہیں نا۔ کچھ کرنے کی، کچھ کر گزرنے کی صلاحیت، لیکن وہ competition میں اپنا آپ بھی بلا چکا ہوتا ہے۔ وہ پھر ایک انسان نہیں رہتا، competition کی ایک مشین بن جاتا ہے، اور دن رات اسی میں الجھا رہتا ہے۔ وہ ساری صلاحیتیں جو انسان میں ہوتی ہیں، وہ ماؤف ہو جاتی ہیں۔ بظاہر یہ بات نظر نہیں آتی۔ وجہ یہ ہے، جب بھی اپ competition کرتے ہیں، وہ انسان کے خلاف کرتے ہیں۔ کبھی بھی کسی پتھر کے، کھمبے کے، سٹریٹ لایت کے، پُل کے خلاف نہیں کرتے ہیں۔ بھینس کے خلاف آپ نے کبھی competition نہیں کیا، جب بھی کرتے ہیں انسان کے خلاف کرتے ہیں۔ اور جب انسان کے خلاف کرتے ہیں، اور آپ کامیاب ہو جاتے ہیں، اور کامیاب ہو کر تیس بندوں کو گرا دیتے ہیں۔ تو پھر پوچھتے ہیں کہ آپ تو کامیاب ہو گئے۔ اسلام میں competition کی یہ Spirit، یہ صورت بالکل منع ہے۔ ایک ہی اجازت ہے، اور وہ ہے تقوی کے لیے، آپ اس میں مسابقت کر سکتے ہیں۔ اعلٰی سے اعلٰی ہونے میں مسابقت، پیسے کمانے میں، حسین بننے میں، شیمپو اعلٰی درجے کا استعمال کرنے میں، کپڑے استعمال کرنے میں، یہ کوئی کمال کی بات نہیں۔ لیکن آدمی اس میں competition کرتا ہے۔ میری بچیاں کہتی ہیں کہ نہیں دادا یہ تو قمیص ہم پہن کے نہیں جائیں گی، یہ تو پہلے بھی ہم پہن کے گئی تھیں، سہیلی کی مہندی کے اوپر۔ یہ ہماری بےعزتی ہے۔ ایک دفعہ پہن لی، کیونکہ یہ competition ہے۔ زندگی کے جو زمینی competition ہیں، وہ انسان کو بڑا تنگ کرتے ہیں، اور اس کی صلاحیتوں کے اوپر ایک جال ڈال دیتے ہیں۔

آپ کو اندازہ نہیں ہو گا، آپ تو سمجھتے ہیں کہ competition بہت Healthy فضا میں پیدا ہوا۔ کوشش، جدوجہد، سٹریئیو Strive، سٹرگل، بھاگ دوڑ، یہ ساری کی ساری آپ کے اندر انا اور تکبر پیدا کرتی ہیں۔ آپ دیکھیے امریکہ کو، آپ کے سامنے مثال ہے، کتنی بھاگ دوڑ کرتا ہے، کتنا تردد کرتا ہے، کتنا competition کرتا ہے، کتنا اعلٰی درجے کا ملک ہے، اور کیسا متکبر ہے۔ کسی کی کوئی بات بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ کہتا ہے، جو میں فیصلہ کرتا ہوں، وہی ٹھیک ہے، جو میں نے حکم دے دیا عراق کے بارے میں، وہ ٹھیک ہے۔ تو یہ بہتر انسان ہونے کی خاصیت نہیں ہے۔ اسی لیے ہمارے یہاں پر حکم ہے کہ آپ competition نہیں کر سکتے ہیں۔ مثلاً ایک عجیب سی بات آپ سے کرنے لگا ہوں، آپ کے چہرے دیکھ کے، امید ہے آپ انشاء اللہ تعالٰی اتنا برا نہیں مانیں گے، جتنا عام لوگ مانتے ہیں۔ ایک بچہ کلاس میں فسٹ آتا ہے۔ کوئی تیس بچوں کی کلاس میں سے اب وہ تو فسٹ آ گیا اور تیس بچے جو ہیں وہ تو Down، وہ تو منہ کے بل گر گئے نا، زمین پر۔ اور ان کو شرمندہ ہونے کا موقع ملا۔ تو میرا دین پوچھتا ہے کہ یہ بھی تو Human being ہیں۔ یہ انسان ہیں۔ ان کا کیا بندوبست آپ نے کیا ہے۔ آپ نے تو ایک دکان بنا لی، اور بڑے کمال کی چلا لی۔ ایک لاکھ روپیہ کمانے لگے اور باقی کے بھی بندے آپ کے اردگرد رہتے ہیں۔ ان کو بھی زندہ رہنا ہے۔ یہ بھی اللہ نے پیدا کیئے ہیں، جس طرح آپ کو حیات ملی ہے، انکو بھی زندگی ملی ہے۔ آپ کون ہوتے ہیں اس کے اوپر تکبر کرنے والے کہ جناب ہم نے بڑا کمال کیا ہے۔ تو یہ بندے کو پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ competition کی دنیا میں داخل ہو کر اپنی انسانی صلاحیت، اور انسانی تخلیقی قوت جو ہے، اس کو دبا دیتا ہے۔ یہ آج میں، بہت عجیب بات آپ سے کر رہا ہوں، جو کہ عام طور پر نہیں کی جاتی ہے۔ اس وقت ہم تو یہی کہتے ہیں کہ competition ہمارا بہت اچھا ہے۔ تو باقی کے بندے کیا کریں؟ کیا وہ مرتے ہیں تو مریں اور یہ بات میں نے اس لیے شروع کی کہ پہلے تو یہ بڑوں میں بات تھی، اب یہ ہمارے گھروں میں پہنچ چکی ہے۔ اور میں نے Recently دیکھا کہ یہ بات بچوں میں بھی اتار دی گئی ہے۔ اور بچے جو پڑھتے ہیں آپ جیسے ان کو بہت شرمندہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح سے شرمندہ کیا جاتا ہے کہ میں آپ کو اس کی مثال یہ دیتا ہوں کہ میرے گھرانے میں جو پڑھے لکھے لوگوں کا گھرانہ ہے۔ میں نے اپنے بہت قریبی عزیز جو میرے بچوں کی طرح مجھے عزیز ہے، وہ لڑکا اپنی بہن سے یہ کہہ رہا تھا اپنے بھانجوں کے بارے میں کہ “ آپا تیرے منڈے دے کنے نمبر آئے نیں۔“ لڑکا بھی وہیں کھیل رہا تھا۔ اس نے کہا اس کے تو 680 نمبر ہیں۔ کہنے لگا، اوہ یہ کوئی نمبر ہیں۔ پھر کہنے لگ، میرے لڑکے نے لیے ہیں اور دبا کے لیے ہیں 730۔ ٹھیک ہے۔ کہنے لگا 730 کیا آپاں نمبر ہی نمبر کر دیئے۔ گھر میں‌ نمبر، اوپر نمبر، چوبارے میں نمبر، وہ کیا سیڑھی پر نمبر، ہمارے برانڈوں میں نمبر ہی نمبر۔ میرے کان کھڑے ہوئے، جب اس نے کہا نا کہ ہر جگہ نمبر ہی نمبر بکھرئے ہوئے ہیں، ہمارے گھر میں۔ میں نے کہا، شاید پتا نہیں یہ کیا بات کر رہا ہے، پھر میں نے اس کی بات غور سے سنی، اور میں نے محسوس کیا کسی خوفناک بیماری کا انجکشن دے کر کوئی اس بیچاری کو جو میری نواسی ہے چلا جا رہا ہے۔ تو میں نے اس کو بلایا اور کہا یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ اس پر میری بھانجی بولی، نانا یہ تو بڑی خوبی کی بات ہے اس نے زیادہ نمبر لیے تو آپ فخر کریں۔ میں نے کہا، اس نے زیادہ نمبر لیے لیکن کسی ایسے باپ پر فخر کرنا نہیں چاہیے، جو اس کی طرح سے ہذیان بکنے لگ جائے، جیسے یہ کر رہا ہے، وہ بھی انسان ہے، وہ تیری سگی بہن ہے، اس کا بھی دل ہے، اس کا بھی گھر ہے، اس کا بھی بچہ ہے، جیسا بچہ تجھے عزیز ہے، ویسے ہی اس کو عزیز ہے۔ اس نے کہا، نہیں جی اگر کوئی کمزور ہو گا تو ہم اس کو شرمندہ کریں گے۔ کہنے لگا، دیکھیں اللہ تعالٰی نے میرے اوپر کتنا فضل کیا ہے۔ میں کم از کم پانچ ہزار روز کا کماتا ہوں اور ہے کوئی ہمارے خاندان میں ایسا آدمی، وہ ایک اکیلا آدمی نہیں ہے۔ آپ اپنے ارد گرد اپنے گھروں کے اندر، اپنے شہر کے اندر دیکھیں۔ لوگ آپ کو، مجھے خوفزدہ کرنے کے لیے اور شرمندہ کرنے کے لیے کیا کیا طریقے استعمال کرتے ہیں، ایسے طریقے جن کی مناہی ہے، جو ہمارے یہاں ایک حرام چیز تصور کیئے جاتے ہیں۔ آپ نے کبھی اس کی طرف دھیان ہی نہیں دیا، آپ نے کبھی انا اور تکبر کے بارے میں سوچا ہی نہیں، آپ یہ competition کرنے والے، مسابقت کرنے والے، یہ سمجھتے ہیں کہ تکبر کا جو گناہ تھا، وہ تو ابلیس نے کر لیا، اللہ تعالٰی کے سامنے، ہم تو بالکل تکبر نہیں کرتے۔ یہ تو جی کھلے میدان ہم کام کرتے ہیں، دوسرا بھی ہے تو میدان میں آئے۔ ہم کہتے ہیں کہ کسی وجہ سے دوسرا نہیں آ سکے گا تو کیا تم اس کو شرمندہ کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہو۔ تمہیں اللہ نے صرف یہ صلاحیت دی ہے، تم اپنا موبائل ٹیلیفون لٹکا کے سارے محلے میں اس لیے چلتے ہو، کی میرے پاس موبائل ہے، اگر ہے اور اس کو سچ مچ استعمال کرتے ہو، تو اسے بند رکھو، اس کو چھپا کے رکھو، کیوں اس غریب کو دکھاتے ہو جس کے پاس نہیں ہے۔ اگر تمہارے پاس اعلٰی درجے کی کار ہے، اور میرے پاس چھوٹی ہے تو تم مجھے کیوں شرمندہ کرتے ہو کہ لا کے میرے منہ کے آگے کھڑی کر دیتے ہو۔ کہ اشفاق صاحب اپنی چھوٹی سی پدی سے گاڑی نا نکال سکیں۔ تو مجھے بھی زندہ رہنے کا حق حاصل ہے، یہ زمین میری بھی ہے، یہ ملک میرا بھی ہے، اور جو نعمت آپ کو اللہ نے عطا کی ہے، وہ مجھے بھی عطا کی ہے، اور پھر بیوقوف لوگو تم یہ سمجھتے ہو یہ سب کچھ تمہاری کوششوں سے، تمہاری جدوجہد سے، تمہارے competition سے، تمہاری بھاگ دوڑ سے تم کو ملا ہے؟ نہیں، یہ خدا کی عطا ہے۔ اس کا شکریہ ادا کرو، اور جوں جوں عطا میں اضافہ ہوتاجائے، توں توں سرنگوں ہوتے جاؤ، نیچے سر جھکاتے چلے جاؤ۔

تو میں جس چھوٹے بچے کا ذکر کر رہا تھا، کوئی تقریباً ایک ہفتے کے بعد اس کا باپ ہمارے ڈیرے پر وہیں آیا، بابا جی کے پاس اور کہنے لگا، میرا بیٹا گھر سے بھاگ گیا ہے۔ برا حال، رو رہا تھا، اور چاروں طرف پولیس کو اطلاع دی، اخباروں میں اشتہار دیا، سلائیڈیں چلائیں، ٹیلی ویژن پر اس کا اعلان کیا، لیکن اس کا کوئی پتا نہیں چل رہا، اور وہ میرا نورِ نظر ہے۔ اس کی ماں کی ظاہر ہے اور بھی بری حالت ہو گی۔ بابا جی نے کہا، وہ تو یہاں آیا تھا۔ کہنے لگا، یہاں آیا تھا؟ کہنے لگا، ہاں کچھ شکایت کرتا تھا، لیکن وہ اتنا دکھی تھا کہ ہمارے قابو نہیں آ سکا۔ ہم نے بہت بہلانے اور پھسلانے کی کوشش کی وہ بیچ مین سے کھسک کر نکل گیا۔ اس نے کہا، جی ہوا کیا، کوئی خاص بات تو ہوئی نہیں، ایسے ہی وہ حساس تھا اور ناراض ہو گیا بغیر سوچے سمجھے۔ بات یہ تھی کہ اس نے امتحان دیا، اس میں اس کے کچھ کم نمبر تھے۔ جیسا ہوتا ہے بچوں کے ساتھ۔ تو سارے اس کو گھر میں عزیز رشتے دار موٹو کہہ کر پکارتے تھے۔ موٹو اس کا نام رکھا ہوا تھا، نِک نیم جیسے ہمارے گھروں میں بے ہودہ چیز ہوتی ہے، تو اس کو موٹو کہہ کر پکارتے تھے۔ تو وہ برداشت کرتا تھا۔ میرے ساتھ اس کا پیار تھا، جیسے باپ کے ساتھ بچے کا پیار ہوتا ہے، تو شام کو میں آیا تو مجھے پتا چلا کہ اس کے نمبر کم آئے ہیں۔ کہنے لگا، میں نے پہلی دفعہ اس کو موٹو کہا، سات سو آدمیوں کے موٹو کہنے سے وہ مائنڈ نہیں کرتا تھا، برا نہیں سمجھتا تھا، لیکن صرف ایک میرے کہنے سے اس کو اللہ جانے کیا ہوا، اس نے اس کو برداشت نہیں کیا، اور وہ گھر سے بھاگ گیا۔ سات آٹھ دن ہو گئے ہیں، ہم اس کو تلاش کرتے پھرتے ہیں، پتا نہیں وہ کہاں ہے۔ تو یہ نمبروں کی کمی، اور اس کی تضحیک اور تذلیل۔ خدا کے واسطے میں اپ سے دست بستہ درخواست کرتا ہوں کہ انسان کی تذلیل نہ کیا کریں، ہمیں اس کا حکم نہیں ہے۔ ہم کسی کو ایسے ہی نام سے پکار دیتے ہیں، ایسے ہی برا بھلا کہہ دیتے ہیں، کچھ نِک نیم رکھے ہوتے ہیں نا۔ ایسے بالکل نہ کریں۔ انسان کو اللہ تعالٰی نے پورے کا پورا ایک جیسا پیدا کیا ہے۔ یہ زندگی جو لے کر آپ پیدا ہوئے ہیں یہ آپ کی محنت، کوشش، جدوجہد سے نہیں ہوئی، یہ جو آپ لے کر بیٹھے ہوئے ہیں، یہ تو اللہ کی عطا کی ہے، اگر آپ یہ کہیں کہ بڑی بھاگا دوڑی کی، پھر میں پیدا ہوا، اور میں نے بڑی کوشش کی، یہ غلط ہو گا۔

سب سے بڑی نعمت تو آپ کو مفت ملی ہوئی ہے۔ یہ زندگی، اور دوسرے کو بھی ایسی ہی زندگی ملی ہے۔ اب ہم کو بھی اس بات کی بڑی فکر ہوئی۔ وہاں مشترکہ دعا ہوئی، سارے لوگ بڑے غمناک ہو گئے اور ہاتھ اٹھا کے دعا کی کہ اللہ اس کو صحیح و سلامت رکھے اور جہاں بھی ہے، وہ واپس آئے، اور یہ کوتاہی جو ان صاحب سے، اس باپ سے ہوئی دوبارہ نہ ہو۔ کہنے لگے آپ تو سمجھدار آدمی ہیں، سیانے آدمی ہیں، یہاں آتے رہتے ہیں۔ کچھ کام کی باتیں آپ کے کان میں پڑتی رہتی ہیں۔ پڑتی رہی ہوں گی۔ آپ کو تو یہ لفظ نہیں استعمال کرنا چاہیے تھا۔ الفاظ گولیوں کے مانند ہوتے ہیں، انہیں استعمال کرنے سے پہلے چیمبر کو صاف کر کے استعمال کریں، جس طرح آپ پستول کو صاف کرتے ہیں اور گولیوں کو ایک طرف رکھ لیتے ہیں، اسی طرح آپ گفتگو کے لیے جب اپنا منہ یا دل استعمال کریں، تو دیکھیں کون سے گولی چلانی ہے، کون سے نہیں چلانی۔ آپ کے اردگرد اگر آپ کے پیارے بیٹھے ہیں خدا کے واسطے اس چیمبر کی طرف ضرور دیکھیں۔ یہ لڑکیاں بے خیالی میں کوئی باتیں کر جائیں، اب یہ بڑی ہوں گی نا، تو ان کی شادیاں ہونی ہیں، تو انہوں نے اپنی وہ کیا ہوتی ہیں نندیں، اور ساسیں ان کے خلاف کیا کیا کچھ باتیں کر دینی ہیں۔ پہلے تو چھپ کر کرتی تھیں، اب تو سیدھے منہ پر ہی کر جاتی ہیں۔ تو پھر جو ظلم ہونا ہے، ان کی ذات پر بھی اور ان بےچاری بوڑھیوں پر بھی اس کا کوئی مداوا نہیں ہو سکتا۔ پھر ہم نے دعا مانگی کہ یااللہ تو مہربانی فرما اور وہ بہت پیارا، اور خوبصورت بچہ تھا تو اس کو واپس لا دے، پھر ہمارے بابا نے یہ کہا، یااللہ آئندہ زندگی میں اس کو نمبر بھی زیادہ ملتے رہا کریں۔ اگر یہی بات ہے کم بخت زندگی میں تو اس کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہم بہت غمناک ہوئے۔ آپ سے بھی میری یہی درخواست ہے کہ جب آپ الفاظ کا استعمال کریں تو دیکھیں یہ گولیاں ہیں، جو آپ نے چیمبر میں ڈالی ہوئی ہیں، اور یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ انہیں چلانا ہے یا نہیں چلانا ہے۔ ہمارے ملک میں خاص طور پر میں محسوس کر رہا ہوں، میرے پیارے ملک میں، جو مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے، لوگ جو ہیں وہ ایک دوسرے کا مان ادرزن نہیں کر رہے ہیں، اور ان کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہو رہا کہ دوسرے لوگ جو ہیں ان کے اندر بھی جذبات ہیں، وہ بھی کچھ ہیں۔ competition میں اور مسابقت، اور مقابلے سے آپ کو روکا گیا ہے اور تقوٰی، نیکی، اچھائی کے لیے آپ کو ابھارا گیا ہے کہ ہاں یہاں پر جتنا ایک مقابلہ ایک دوسرے کا کر سکتے ہیں کرو۔ راز اس میں یہ ہے کہ تقوٰی میں، اچھائی میں، نیکی میں، جب آپ اپنے مدِمخالف کے ساتھ مقابلہ کریں گے تو ہمیں نیچے ہو کر دیکھنا پڑے گا، جوں جوں آپ نیچے ہوں گے، جتنی آپ عاجزی کریں گے، جتنا آپ جھکیں گے، اتنے آپ تقوٰی میں اونچے ہوں گے نا۔ جتنا تکبر کریں گے، جتنا اونچائی میں جائیں گے، جتنا آپ شیخی بگھاریں گے، جتنا آپ اپنے آپ کو انا عطا کریں گے، اتنا ہی آپ کا مسئلہ جو ہے وہ ایک مختلف ردھم اختیار کرتا چلا جائے گا۔ ہاں آپ ضرور competition کریں۔ میں competition سے منع نہیں کرتا۔ میرا دین competition سے منع نہیں کرتا، لیکن صرف تقوٰی کو حد تک لازم ہے، اخلاقی زندگی بسر کرنے کی نیکی اختیار کریں۔

تقوٰی جس میں competition ہو، جس سے دوسرے کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو، تو وہ آپ کا طرہ امتیاز نہیں ہونا چاہیے، کسی بھی کسی صورت میں کسی بھی حال میں۔ آپ نے نام سنا ہو گا، حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ۔ سب سے بڑے ہمارے صوفی، ان سے ابتدا ہوئی، جس کو کہتے ہیں مڈھ لگا، لیکن وہ صوفی نہیں تھے، وہ خلیفہ بغداد کے دربار میں ایک پہلوان تھے۔ ایک بہت بڑے ریسلر تھے، جیسے اپ کے یہاں گاما پہلوان تھا۔ جنید بغدادی بھی مشہور تھے، اتنے بڑے پہلوان کہ کوئی ان کا مقابلہ کرنے کے لیئے تیار ہی نہیں ہوتا تھا۔ ایک دن وہ دربار میں بیٹھے تھے اور خلیفہ تھی تھا وہاں ایک دبلا پتلا کمزور سا آدمی مریل سا فاقہ زدہ بے چارہ شکل و صورت کا بہت پیارا، اور بہت اچھا، آیا اور خلیفہ وقت سے کہنے لگا کہ اے خلیفہ میں جنید رحمۃ اللہ کے ساتھ کشتی لڑنا چاہتا ہوں۔ جو جتنے دربار میں لوگ بیٹھے تھے، ہنس پڑے۔ کہنے لگے کیا پدی کیا پدی کا شوربہ، تو شکل دیکھ اپنی اور اپنا وجود دیکھ، اور تو اتنے بڑے پہلوان کے ساتھ کشتی کرے گا۔ اس نے کہا، نہیں جناب مجھے کچھ داؤ ایسے آتے ہیں، کچھ چیزیں میں ایسی جانتا ہوں جو کہ اور پہلوان نہیں جانتے، اور ہمارے پاس کچھ خاندانی گُر ہوتے ہیں نا، وہ داؤ میں لگاؤں گا اور آپ کا جو اتنا بڑا نامی گرامی رستمِ زماں ہے، یہ چاروں شانے چِت ہو گا۔ حضرت جنید بھی یہ بات سن کر بہت حیران ہوئے، اور تھوڑا سا گھبرائے بھی، اللہ جانے ان کو کچھ ایسا راز آتا ہو گا، تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے، میں تیار ہوں۔ چنانچہ وقت مقرر ہو گیا، جگہ طے کر دی گئی، اور خلیفہ وقت وہاں پہنچ گیا، سارے درباری اور بغداد کے سارے لوگ کہ یہ آج کیا ہونے لگا ہے، وہ بھی خم ٹھونک کے پدہ، کمزور، دبلا، پتلا آدمی مشکل سے کھڑا ہو سکتا تھا، وہ بھی آ گیا میدان میں۔ اور اصل پہلوان جو تھے وہ بھی اپنا لنگر لگوٹ کس کے آ گئے۔ تو اس نے ہاتھ بڑھایا۔ انہوں نے ہاتھ پکڑا، سلام کیا۔ ایک دوسرے سے گلے ملے، سلامی لینا جسے کہتے ہیں، اور جب حضرت جنید بغدادی کا مضبوط ہاتھ آگے بڑھا تو وہ ذرا پیچھے ہٹ گیا، پھر اس نے ایک چھلانگ لگائی۔ دبلا، پتلا، کمزور سات آدمی جو تھا، وہ اچھل کر ان کےگلے سے لپٹ گیا، اب یہ تو کوئی داؤ نہیں ہے کہ آدمی اس کے گلے میں۔۔۔۔ جب لٹک گیا، تو ان کے کان کے پاس منہ کر کے کہنے لگا، میں سید زادہ ہوں، اور سات دنوں سے بھوکا ہوں، میرے پاس روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں، یہ ڈھونگ میں نے اس لیے رچایا ہے۔ اے جنید رحمۃ اللہ تا کہ میں لوگوں کو دیکھا سکوں کہ میری کوئی عزت ہے۔ جنید بغدادی رحمۃ اللہ نے یہ سنا اور زمیں پر دھڑ کر کے گرے، اور اس سے ڈھے گئے۔ وہ ان کے سینے پر چڑھ کر بیٹھ گیا، اور تالی بج گئی، دنیا حیران پریشان ہو گئی، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ انہوں نے (جنید بغدادی) کہا کہ ٹھیک ہے، اس کو ایسا داؤ آتا ہے، جو دینا میں کسی آدمی کو نہیں آتا، اور اس کے سامنے چت ہو گیا ہوں، یہ واقعی طاقتور ہے۔ وہ تو جناب خلیفہ نے جو بھی کچھ انعامات اکرام خلعت وغیرہ دینی تھی دی، اور حضرت جنید جو تولیہ یا جو صافہ گلے میں تھا جھاڑتے ہوئے کہہ رہے ہیں، اے اللہ میں نے زندگی میں کبھی کوئی ایسا بڑا کام نہیں کیا، لیکن تیرے ایک بندے کی عزت رکھی ہے، اس کے بدلے میں مجھے بھی تو کوئی روحانی درجہ عطا فرما، جو تُو اپنے بڑوں کو دیا کرتا ہے۔ تو وہ ولی کامل ہوئے، اور ان کی جو تعلیم ہے، وہ یہی ہے کہ انسان کو کبھی بھی ذلیل، چھوٹا، حقیر نہیں جاننا۔ جوں جوں آپ ایسا جانیں گے، آپ کے درجات کم ہوتے جائیں گے۔ جوں جوں آپ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ کا رویہ اختیار کریں گے، آپ کے درجات بلند ہوتے جائیں گے۔

ہم سے غلطی یہ ہوتی ہے، میں پھر چلتے ہوئے آخری بات کہوں، ہم سوچے سمجھے بغیر پہلے تو کچھ بات منہ سے نکال دیتے ہیں، اور پھر اپنے تکبر میں اضافہ کرنےکے لیےاس چیز کو طرہ امتیاز بنا لیتے ہیں جو آپ کے کمال کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ بچوں کے نمبر آ جانا، آپ کا خوش شکل ہونا، آپ کا چہرہ اچھا ہونا، آپ کی رنگت گوری ہونا، یہ محض عطائے خداوندی ہے۔ اس کو تم اپنی تلوار بنا کر لوگوں کی گردنیں نہ اتارتے رہو، اور خدانخواستہ اگر ایسا وقت آ گیا کہ صرف آپ ہی کی ذات اس کرہ ارض پر رہنے لگی تو آپ یا آپ کے بچے کو یہ زندگی گزرانی بڑی مشکل ہو جائے گی۔ خالی ساری ویران دنیا میں لوگوں کو آباد رہنے دیں، ان کے ساتھ ہنسنے کھیلنے دو۔ ہم چلتے چلتے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ بچہ مل گیا تھا، پھر وہ ہمارے ڈیرے پر بھی آیا، اور پھر جب تک اس نے میٹرک کیا، جب تک وہ آتا رہا، اور پھر ہم سارے اس سے معافیاں مانگتے رہے، اس اس میں میں سب کو آپ کو بھی شامل کرتا چاہتا ہوں کہ جب بھی اس کی یاد آئے پتا نہیں وہ کہاں ہو گا، آپ بھی اس بات کی معافی مانگیں کہ اس کے باپ نے اسے موٹو کیوں کہا تھا۔ یہ ایک بری بات ہے۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین۔
 

شمشاد

لائبریرین
Snap Shot

ہم اہل زاویہ کی طرف سے آپ کی خدمت میں سلام پہنچے۔

زندگی کے اطوار بھی عجیب و غریب ہیں۔ اس میں نشیب و فراز، تاریکی، روشنی، ظلمت، نور کے مظاہر آتے ہی رہتے ہیں، لیکن ہمارے بابے ایک بات سے بطورِ خاص منع فرماتے ہیں کہ اگر کبھی خدا نخواستہ، اللہ نہ کرئے آپ کو دوزخ میں جانے کا اتفاق ہو، تو وہاں سے جلدی فرار اختیار کر لیں۔ اگر مشرق کا دروازہ کھلا ہے تو اس کی طرف منہ کر کے نکل جائیں، پچھم کا، پورب کا، جدھر سے بھی آپ آسانی کے ساتھ نکل سکیں، وہاں سے نکل جائیں، اور ہرگز ہرگز رکیں نہیں۔ زندگی میں ایسے مقام آ جاتے ہیں، آدمی پھنس جاتا ہے۔

لیکن بابے کہتے ہیں، ہمارہ مشاہدہ ہے، اور ہمارا تجربہ ہے کہ جب آدمی دوزخ میں جاتا ہے، اس میں پھنستا ہے تو وہ بجائے وہاں سے بھاگنے کے، دوزخ کے اندر، دوزخ کے فوٹو کھنچنے لگتا ہے، وہ Snap Shot لینے لگ جاتا ہے، اور اس کی تفصیلات اکٹھی کرنے لگ جاتا ہے، اور پھر جب جا کے خوش قسمتی سے اس کو موقع نصیب ہوتا ہے، تو پھر وہ وہاں سے نکلتا ہے، ورنہ وہ دوزخ اور جہنم کی تصویریں ہی اتارتا

رہتا ہے، اور آج تک کوئی آدمی ایسا نہیں گزرا ہو گا، جس نے یہ کام نہ کیا ہو۔ تو ہم بڑے حیران ہوتے ہیں، ان کی اس بات پر، اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ Snap Shot لینے کے بعد وہ بڑی محنت اور محبت کے ساتھ ان تصویروں کو رنگین برمائیڈ کو صورت میں کاغذ پر اتارتا ہے، بلیک اینڈ وائٹ فوٹو تیار کرواتا ہے، اور ان کے البم تیار کر کے زندگی بھر اپنے ساتھ اٹھائے پھرتا ہے۔ اب یہ بات بڑی عجیب و غریب سی لگتی ہے، لیکن جب وہ اس بات کو کھولتے ہیں، تو پھر پتا چلتا ہے کہ بات واقعی حقیقت ہے، اور وہ اعلٰی درجے کی زندگی گزارنے کے باوصف ہمیشہ آپ کی خدمت میں وہ فوٹو پیش کرتا رہتا ہے، جو دکھ اور تکلیف کے زمانے میں ایک لمحے کے لیے چاہے آیا ہو، اس نے گزارے تھے۔ اس لیے وہ کہتا ہے کہ میرے البم کو دیکھیں میں نے کیسی مشکل سے وقت گزارا ہے۔

ہم سارے تقریباً اسی طرح سے کرتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ جب پاکستان بنا، اور میں یہاں آیا تو اکیلا میں یہاں تھا۔ میرے گھر کے لوگ ساتھ نہیں آ سکے۔ ہم بلند شہر کے رہنے والے تھے۔ میں نے الٰہ آباد یونیورسٹی سے بی-اے کیا تھا اور فرسٹ ڈویژن میں کیا تھا اور لائق لڑکا تھا۔ یہاں آ کر میں لاہور میں نہر کنارے، یہ جو نہر ہماری لاہور کے بیچ چلتی ہے، کھڑا تھا اور بےیارومددگار یہ سوچ رہا تھا کہ میں کہاں آ گیا ہوں، اور میری زندگی کس طرح سے یہاں بسر ہو رہی ہے۔ اتفاق ایسا ہے کہ مجھے ایک شخص مل گیا۔ اس نے کہا میرے بیٹے کو تعلیم دو، تم کو میں سو روپیہ مہینا یا پچاس روپیہ مہینا دیا کروں گا، چنانچہ کہنے لگا میں بڑی مشکل میں، تنگ حالی میں ایک چھوٹی سی کوٹھری میں ان کے بچوں کو پڑھاتا رہا۔ روٹی، کپڑا، اور مکان یہ چیزیں مجھے میسر آئیں، لیکن وہ بہت برے دن تھے، اور میرے اوپر بہت بڑا بوجھ تھا، اور میں بڑا دکھی تھا، اور مجھے سب سے بڑا دکھ اس بات کا تھا کہ وہ خوراک، جس کا میں عادی تھا وہ مجھے یہاں نہیں ملتی تھی، یہاں کی کچھ اور ہی کی طرح کی تھی۔ تو کہنے لگا، اس کے بعد میں نے C.S.S کا امتحان دے دیا جو پہلا امتحان ہوا تھا، تو اس میں میں آ گیا، تو پھر میں نے یہاں ٹریننگ لی۔ ٹریننگ لے کر میں یہاں پر ملتان میں A.C لگ گیا، تو وہاں پر زندگی کے دن گزارتا رہا۔ اس کے بعد میری سرگودھا تبدیلی ہو گئی، تو پھر میں تھوڑی دیر بعد شیخوپورہ کا D.C لگ گیا۔ شیخوپورہ کا D.C لگنے کے بعد، میری خدمات جو تھیں، وہ سنٹرل گورنمنٹ نے لے لیں، اور میں منسٹری آف کامرس میں چلا گیا۔ اکنامکس کا کوئی اچھا بندہ تھا۔ وہاں چلا گیا۔ وہاں جانے کے بعد چار پانچ سال کی سروس کے بعد میرے صوبے پنجاب نے مجھے پھر مانگا اور میں یہاں آ گیا۔ خیر وہ ایک زمانے میں لاہور کے کمشنر بھی رہے، لیکن وہ کہتے ہیں میں بڑا دکھی ہوں۔

یہ میرے البم دیکھیں۔ میں جس کسمپرسی کی حالت میں یہاں وقت گزارتا رہا ہوں، یہ بڑا درد ناک، اور تکلیف دہ وقت تھا، اور اللہ کسی کو ایسا وقت نہ دکھائے۔ اس کے بعد وہ یہاں سے ولایت چلے گئے۔ ولایت میں پاکستان کی نمائندگی کی انہوں نے U.N.O میں کی۔ اس کے بعد انہوں نے ورلڈ بنک میں ہماری نمائندگی کی یا انہوں نے خود سروس کر لی، وہاں رہے، وہاں سے ریٹائر ہوئے، پھر ان کی ایک اعلٰی درجے کے گھر میں، کوٹھی یہاں بھی تھی، کراچی میں بھی تھی۔ لیکن جب بھی ان سے ملاقات ہوتی ہے، وہ اپنے دکھ کا ہی ذکر کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں، بہت تکلیف دہ وقت میں نے گزارا۔ ان سے میں نے کہا، اتنا دکھی وقت کیا تھا۔ کہنے لگے، جس گھر میں میں رہتا تھا، وہاں پر ہر تیسرے روز ٹینڈے پکتے تھے اور مجھے ٹینڈے اچھے نہیں لگتے، تو میری زندگی کا دکھ سب سے بڑا یہ ہے کہ مرضی کے خلاف ٹینڈے کھانے پڑے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میں کمشنر بھی رہا لاہور کا، لیکن مجھے ان ٹنڈوں کا دکھ نہیں بھولتا، اگر انہوں نے تھوڑا سا وقت جہنم میں گزارا تھا، تو اس کے پاس اس کے فوٹو گراف بہت تھے۔ آپ کو اکثر آدمی ملتے ہوں گے جو ہر وقت زندگی میں اپنے ان دکھوں کی بات کرتے رہتے ہیں، جو تھوڑے عرصے کے لیے آئے اور پھر گزر گئے اور اب وہ اللہ کے فضل سے ٹھیک ٹھاک ہیں۔

انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا، اللہ نے مجھ پر کیسے اچھے دن لائے، اور میں کس خوش بختی کے ساتھ اپنی زندگی خوش و خرم گزرا رہا ہوں۔ وہ کہتا ہے کہ بھاجی آپ کو کچھ نہیں پتا ہم نے بڑے بڑے دکھ برداشت کیے ہیں۔ بڑے مشکل راستوں سے گزرے ہیں۔ میں سمجھا سکا ہوں نے اپنا مطلب، سمجھ گئے آپ؟ ایک ہماری خاتون مجھے ابھی تھوڑے دن ہوئے ملی کہ وہ بے چاری کہہ رہی تھیں، بھائی جان، میں بھی فیروز پور کی رہنے والی ہوں۔ اور میں ٹینکاں والی بستی میں تھی۔ میں نے کہا، اچھا وہاں تو ہمارے اچھے خاصے مسلمانوں کے گھر تھے۔ کہنے لگی، میں چھوٹی سی تھی میرے والد فوت ہو گئے، میرے والد گارڈ تھے وہ میری چھوٹی عمر میں فوت ہو گئے۔ ہم تین بہن بھائی تھے۔ دو میرے بھائی تھے، ایک اوپر کا، ایک نیچے، میں درمیان میں تھی۔ میری والدہ نے بڑے دکھ سہے ہیں، اور بہت مشکلات میں وقت گزارا ہے۔ اور ہم نے بہت تکلیف دہ دن دیکھے ہیں۔ جب میں ان کو یاد کرتی ہوں، تو روتی رہتی ہوں ہر وقت۔ تو میں نے کہا اب کیسی ہو۔ کہنے لگی ٹھیک ہے، اللہ کا شکر ہے۔ جو بھی وقت گزر رہا ہے، ٹھیک ہے، لیکن اتنے تکلیف دہ حالات سے گزرنا اور گزر کر یہاں پہنچنا یہ ایک ایسا تکلیف دہ عمل ہے کہ اس میں لوگ آسانی کے ساتھ دور تک چل نہیں سکتے۔ میں نے کہا، بی بی اب آپ کہاں ہوتی ہیں۔ کہنے لگی، میں وہاں ہوں چکلالہ میں۔ تو میں نے کہا، آپ کیا کرتی ہیں۔ کہنے لگی میرے خاوند بریگیڈیئر ہیں اور تین میرے بچے ہیں۔ ایک نے C.A کیا ہے، وہ یہاں لگ گیا تھا ایک فارن فرم میں، پھر وہ اس کو امریکہ لے گئے، وہ وہاں پر ہوتا ہے۔ اور جو چھوٹا ہے وہ پروفیسر ہے، وہاں پر راولپنڈی میں، اور جو سب سے چھوٹا ہے وہ کمپیوٹر کا کچھ کر کے چلا گیا ہے باہر۔

تو بھائی جان ہم نے بڑے دکھی دن دیکھے ہیں، ہم بڑے مظلوم لوگ ہیں اور ہمارے اوپر بہت تکلیف دہ وقت گزرا ہے۔ اور بچپن جو تھا میرا اور جوانی، وہ ایسی مشکلات میں گزری تو سارا دکھ کا اظہار کرتی۔ تو میں نے کہا بی بی اب تو ماشاء اللہ بہت اچھی ہیں، بڑی اعلٰی درجے کی، آپ کو کوٹھی بنگلہ ملا ہو گا، کار ہوتی ہے آپ کی بڑی سیاہ رنگ کی، اس کے اوپر ایک سٹار لگا ہوتا ہے۔ کہنے لگی، آئی تو میں اس میں ہوں، وہ باہر کھڑی ہے، لیکن دکھ بڑا ہے جناب، ہم بہت مظلوم ہیں۔ تو جب یہ ساری باتیں میں نے سنیں تو مجھے خیال آیا کہ مجھے بھی کوئی اپنا دکھ یاد کرنا چاہیے۔ میں تو اللہ کے فضل سے بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں۔ تو مجھے بھی ایسے دکھ اکٹھے کرنے چاہیں۔ مجھے بھی کچھ دکھ کے، جہنم کے فوٹو کھینچ کے اپنی البم تیار کرنی چاہیے تھی تا کہ میں بھی بچوں کو بتا سکوں، بیٹا تم کو پتا نہیں ہم نے بڑی مشکل میں وقت گزارا ہے۔

مجھے خیال آیا اور تھوڑا سا اس بات پر میری بیوی نے برا مانا۔ ایک زمانے میں میں ایک پرچہ رسالہ نکالتا تھا ماہنامہ، بڑا خوبصورت رنگین “داستان گو“ اس کا نام تھا، تو ہماری مالی حالت درمیانی تھی۔ لیکن اس پرچے کو نکالنا میں اپنا فرض سمجھتا تھا کہ کیونکہ وہ لوگوں کو بہت پسند آ گیا تھا، تو اتنے پیسے نہیں تھے۔ تو میں ایک دفعہ اس کا کاغذ خریدنے کے لیے گیا۔ یہاں ایک گنپت روڈ ہے، وہاں پر کاغذ کی مارکیٹ ہے۔ وہاں کاغذ خریدنے گیا تو کاغذ کا ایک رم خریدا تو میرے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا کہ میں اس کاغذ کے رم کو کسی تانگے میں، کسی رکشہ میں، یا کسی ریڑھی رکھ کے لے آتا تو میں نے کاغذ کا رم لیا، اس کو دوہرا کیا اور کندھے پر رکھ لیا۔ بائیسکل میں چلاتا تھا بڑی اچھی بائیسکل تھی میرے پاس۔ تو میں سائیکل پر سوار ہو گیا اور جب چلا تو انارکلی میں اس وقت بھی خاصا رش ہوتا تھا۔ تانگے آ رہے ہیں، ریڑھے آ رہے ہیں، سائیکلیں اور جو بھی کچھ اس زمانے کی ٹریفک تھی وہ چل رہی تھی۔ تو کرنا خدا کا کیا ہوا کہ وہ کاغذ‌ کا رم جو ہے، اس کے جو بیٹن لگا ہوتا ہے اوپر کا، مضبوط خاکی کاغذ‌ وہ پھٹ گیا، اور پھر دیکھتے دیکھتے چھر۔ر۔ر۔ر۔ر۔ر کر کے پانچ سو کاغذ جو تھے وہ ساری انارکلی میں پھیل گئے، اور ادھر سے آنے والے جو تانگے تھے، اس کے پہیے ظاہر ہے گیلے ہوتے ہیں ایک کاغذ‌ لپٹ کر چر۔ر۔ر۔ر اور میں دیوانوں کی طرح بھاگ بھاگ کر کہتا ذرا تانگہ روکو ایک کاغذ‌ وہ لے گیا۔ ایک کاغذ‌ وہ لے گیا۔ تو پھر بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا، میں نیچے بیٹھ گیا، اور کاغذ‌ اکٹھے کرنے لگا کہ جتنے بھی بچ جائیں اتنے ہی غنیمت تھے۔ آہستہ آہستہ جتنے بھی کاغذ‌ بچ سکے۔ کچھ تین سو ساڑھے تین سو ان کو میں نے اکٹھا کیا، لپیٹا۔ کسی شخص نے مجھے وہاں ایک چھوٹا سا ستلی کا ٹوٹا دیا، وہ میں نے باندھا، اور باندھ کے پھر اسے کندھے پر رکھ کے چلا، تو پھر مجھے اپنی زندگی کے اوپر، اور اس حالت کے اوپر، اور ہتکِ عزت کے اوپر، اور ذلت کے اوپر، جو سب لوگ تماشا دیکھ رہے تھے، اور میں جھک جھک کے وہاں سے کاغذ اکٹھے کر رہا تھا، بڑی شرمندگی کا بھی احساس ہوا، اور ندامت تو تھی ہی، ساتھ نقصان کا بھی دکھ تھا۔

جب یہ اکٹھے کر کے میں گھر آیا رونی صورت بنا کے تو میں نے یہ سارا واقعہ اپنی بیوی سے بیان کیا۔ اس نے بھی مجھے تسلی دی، لیکن وہ بھی میرے ساتھ اس غم میں شامل ہو گئی۔ یہ واقعہ گزر گیا۔ کئی سال بیت گئے، تو میں نے بھی اپنا ایک البم تیار کر لیا۔ دکھوں کے البم ساروں کے پاس ہوتے ہیں۔ تو میں نے بھی اس البم میں یہ واقعہ جو چھوٹا سا تھا، اور اگرچہ اتنا اہم نہیں رہا تھا کہ شامل کیا جاتا، تو میرے بچے اسے پڑھنے لگے۔ جب میرا بیٹا آٹھویں نویں میں پہنچا تو میں نے اسے کہا، تمہیں پتا نہیں ہم نے کس مشکل سے وقت گزارا ہے۔ میں نے اور تمہاری ماں نے کتنی محنت کی ہے، اور کن دکھوں سے، اور کن مشکل راہوں سے گزرے ہیں۔ ایک دفعہ میں اپنا کاغذ خریدنے گیا، اور میں اسے انارکلی میں کندھے پر رکھ کے۔ اور میرا بیٹا حیرانی سے دیکھ رہا ہے کہ بیچارہ ابو کندھے پر رکھ کے یوں بائیسکل چلاتا ہوا گزرا، اور میں نے سارا واقعہ سنا دیا۔ اس کے دل پر بڑا عجیب سا اثر ظاہر ہے ہوا ہو گا، تکلیف وغیرہ۔ لیکن میں اس کی نظروں میں ایک ہیرو بن گیا، اور میں خود بھی اپنے آپ کو ایک ہیرو سمجھتا گیا کہ دیکھو کن مشکلات اور حالات اور کیسے تکلیف دہ اوقات سے گزرا ہوں، پھر میرا دوسرا بچہ، اس کو بھی میں نے یہ بات سنانی شروع کی، اور جہاں جہاں میں بیٹھتا تھا، اپنا یہ البم کھول کے اس میں سے یہ رنگین تصویر نکال کے سب کو اور پوری تفصیل کے ساتھ سناتا تھا، اس طرح بہت سارے سال گزر گئے۔ تو ایک دن میری بیوی نے مجھ سے کہا (ظاہر ہے وہ بھی بابا جی کے Influence میں آ گئی تھی) یہ نہایت گھٹیا بات ہے جو آپ کرتے ہیں اور جس کے ساتھ میں بھی شامل ہوں، کیا ہوا اگر ایک چھوٹا سا ذرا تکلیف دہ وقت آیا، اور تم نے اس کو اتنا پھیلا کر کے اس کو پورا وہ کو کیا ہوتی ہے پینوراما سکرین کے اوپر سنانا شروع کر دیا، اس کو بند ہونا چاہیے۔ تو میں نے کہا تو پھرمیرے پاس تو یہ جو البم ہے، جس دکھ کی کیفیات میں نے بیان کی ہیں، یہ تو چلنی چاہئیں، کیونکہ ہر شریف آدمی کے پاس اپنی البم ہوتی ہے، اور وہ دکھ کے جو انہوں نے فوٹو کھینچے ہوتے ہیں سکرین پر، وہ کبھی بھی ان کو نہیں چھوڑنا چاہتا، چاہے کتنے اونچے درجے پر پہنچ جائے۔ تو اس نے کہا، نہیں آپ اپنی البم کو دیکھیں۔ میں نے اس میں تبدیلی کر دی ہے، ان تصویروں کو میں نے کارٹون میں بدل دیا ہے، ایک ہنسی کی چیز بنا دی ہے کہ زندگی میں ایک ایسا واقعہ بھی آیا، اور یوں گزر گیا۔ تو یہ ہنسنے والی بات ہے نہ کہ اتنا درد ناک رونے والی۔ خواہ مخواہ آپ توجہ وصول کرتے ہیں، یہ صحت مند ذہن کی نشانی نہیں ہے، تو پھر مجھے خیال آیا کہ ان بات تو ٹھیک ہے۔

اب ہم اس کو ایک کارٹون کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اور میرے بچے، اور پوتے تالیاں بجاتے ہیں کہ دادا کے ساتھ یہ ہوا ہو گا، کیسے کاغذ‌ کے پیچھے بھاگے تھے۔ میں نے کہا، میں ایسے ڈھک ڈھک کرتا ہو بھاگا تھا، تو خوش ہوتے ہیں۔

ہمارے ایک اور دوست ہیں، وہ ہمارے علاقے ہوشیار پور کے رہنے والے ہیں، وہ جب بھی ہم میں بیٹھتے ہیں تو کہتے ہیں، جناب کیا وہ زمانہ تھا، اور کیا گھٹائیں کالے نیلے رنگ کی ہوتی تھیں، کوہ شوالک کے اوپر آتی تھیں، اور ہر گھٹا کے آگے ایک بگلوں کی قطار ہوا کرتی تھی، یہاں پر وہ ساری چیزیں نظر ہی نہیں آتیں، اور ہم کتنے خوبصورت آم وہاں کھایا کرتے تھے۔

خواتین و حضرات، میں آپ کو بتاؤں، اور میرے دوست جو ہوشیار پور کے رہنے والے ہیں، مجھے معاف کریں کہ ہوشیار پور میں آم تو ضرور ہوتے تھے، لیکن اتنے کھٹے، اتنے کھٹے آم کہ آپ نے زندگی میں سلفیورک ایسڈ دیکھا ہو گا، وہ بھی اس سے تھوڑا پھیکا ہو گا۔ میری والدہ مرحومہ کہا کرتی تھیں کہ یہ آم تو ایسے ہیں کہ اگر مردے کے منہ میں نچوڑ دیں، تو اٹھ کر بیٹھ جائے گا، اور کہے گا السلام علیکم۔

تو ایسے آم وہ ہوتے تھے، لیکن وہ وہاں رہتے ہیں، اور وہ ہمیشہ ایک ہی بات کا ذکر کرتے ہیں کہ اشفاق صاحب آپ کو یاد ہے نا کہ وہ آم ہوتے تھے، اور وہ نیلی گھٹائیں، وہ یہاں پر نہیں ہوتیں۔ وہ ایک گھر، ایک چھوٹی سی کوٹھری تھی ہمارے ساتھ، ایک شیش محل، اس کے پاس، بیچارے کرائے پر رہتے تھے۔ اس کو انگریزی زبان میں Nostalgia کہتے ہیں، بہت سے لوگ اس پر کہانیاں بھی لکھتے ہیں، ناول بھی لکھتے ہیں، جو جگہ چھوڑ کر آئے ہوں، اس زمان و مکان کو، جس کو آپ نے ترک کر دیا ہو، یا جو ماضی میں آپ کی زندگی میں سے ہو کر گزرا ہو اور آپ اداسی کی حالت میں اس کو یاد کرتے ہوں، اس کو “ ناسٹلجیا “ کہتے ہیں۔ اور اس کی ایک بڑی پکی نشانی یہ ہے کہ اگر ناسٹلجیا کے مریض سے، جو یادوں کی کہانیاں، افسانے، ناول لکھتا ہے، اس سے اگر یہ کہا جائے کہ چل تجھے اس جگہ واپس لے چلتے ہیں تو کبھی نہیں جائے گا وہاں پر۔ کیونکہ یہاں پر اتنی آسائش کی زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے۔

تو یہ ہمارے دوست ہمیشہ وہی پرانے زمانے کی بات دہراتے رہتے ہیں اور یاد کرتے رہتے ہیں۔ سارے ہوشیارپور میں تین چار یا دس آم میٹھے مل ہی جاتے تھے، لیکن اس وقت تو میں اس سے کہتا ہوں، ناسٹلجیا والے بندے سےکہ تم اس کو یاد کرتے رہتے ہو، اور دکھی ہوتے رہتے ہو، مجھے یہ بتاؤ، اب تم کہاں ہو؟ تو وہ کہتا ہے، آج کل میں ملتان میں ہوں، اور میرے دو آموں کے باغ ہیں۔ سچ، وہ مالک ہے اس کا، ایک تو ثمر بہشت کا باغ ہے اس کا، اور ایک انور رٹول کا باغ ہے۔ تو وہ کہتا ہے کہ میں نے بڑی محنت سے تیار کیا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ یہاں ہم اسے بیچ نہیں سکتے۔ میں اسے ایکسپورٹ کرتا ہوں، لیکن ان دونوں بڑے باغوں کے باوصف جن کا میں مالک ہوں وہ جو آم ہوتے تھے نا، وہ مردے کے منہ میں نچوڑنے والے ہوتے تھے۔ وہ میں ضرور یاد کروں گا، یہ ناشکرگزاری کی بات نہیں ہوتی ہے۔ انسان کے اندر بابوں کے کہنے کے مطابق ایک ایسی خرابی پیدا ہو جاتی ہے کہ اگر وہ کبھی بھی تکلیف سے گزرے ہوتے ہیں، چاہے تھوڑے عرصے کے لیے ہوں، وہ اس کے زیادہ سے زیادہ فوٹو کھینچ کر اپنے پاس محفوظ‌ کر لیتے ہیں، اور جب بھی آپ سے ملتے ہیں، اچھے بھلے ہیں خیریت کے ساتھ ہیں۔ پہلے کے مقابلے میں دو گنا بلکہ سو گنا زیادہ آرام سے ہیں، لیکن وہ دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ کے ساتھ بھی کئی خواتین کرتی ہوں گی۔ کہ بہت مشکل میں وقت گزارہ اس صورت حال سے نکلنے کے لیے پھر ایک صحت مند ذہن، اور ایک صحت مند روح کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ روحیں بھی ماؤف ہو جاتی ہیں، وہ بابے فرماتے ہیں کہ اگر کبھی خدا نخواستہ آپ کو کسی وجہ سے دوزخ میں جانے کا اتفاق ہو تو وہاں سے بھاگ کر گزرنے کی کوشش کریں، وہاں کھڑے ہو کر اس کے فوٹو نہ اتارنے لگ جائیں اور ان کے البم تیار کر کے لوگوں کے سامنے، جیسے فقیر درد ناک نہیں دیکھے آپ نے، کچھ تو ہوتے ہی پٹی لپیٹ کے، ٹنڈے ہاتھ دکھا کے آپ سے رحم کی بھیک مانگتے ہیں، تقریباً تقریباً خواتین و حضرات اسی طرح سے وہ لوگ جو آپ کے دوست ہیں، عزیز ہیں، رشتے دار ہیں، ایسی کہانی سنا کر آپ سے جذبہ ترحم، آپ کی توجہ کی بھیک مانگتے ہیں، میں اور آپ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اے خدا ہم کو اس قسم کی مصیبت میں یا اس قسم کے عارضے میں مبتلا نہ کرنا، اگر ہمارے اوپر کبھی کوئی مشکل وقت آئے تو ہم وہاں سے بھاگ کر گزریں، اور پھر اس کا ذکر نہ کریں کہ آتا ہے وقت، اور پھر گزر جاتا ہے۔ چنانچہ ان بڑے لوگوں کے قصے جب آپ بیان کرتے ہیں ہمارے اوّلون، اور سابقون کے، تو ان کی زندگیوں میں آپ کو سب سے اعلٰی درجے کی سب سے ارفع چیز یہی ملے گی کہ وہ اپنے گزرے ہوئے دکھوں کا، اور تکلیفوں کا ایسے اظہار نہیں کرتے تھے۔ بڑا انسان بننے کے لیے انسان کو وہ مثبت پہلو پیش کرنا چاہیے جو اس کی زندگی کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ ہم میں تھوڑی سی عادت پیدا ہو چکی ہے اب ہمارے ملک کے لوگوں کی، کہ دکھ، تکلیف، ناآسودگی کا اظہار بہت زیادہ Exaggeration کے انداز میں بہت زیادہ مبالغہ آمیز انداز میں بیان کرتے رہتے ہیں۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین۔
 

ماوراء

محفلین
دل کا معاملہ

“دل کا معاملہ“​


“زاویہ“ اب محض پروگرام نہیں رہا۔ اس میں کچھ اندر کی باتیں بھی ہو جاتی ہیں۔ بعض اوقات اندر کی باتیں اتنی اہم اور ضروری نہیں ہوتیں لیکن گھر والے چونکہ گھر والے ہوتے ہیں اس لیے اندر کی باتیں چلتی رہتی ہیں جیسے گھروں میں چلتی ہیں۔ میں آپ کے مقابلے میں شروع ہی سے لالچی اور خود پرست انسان رہا ہوں۔ میری ماں ہم سب بھائیوں کو لوکاٹ، بیر، گنڈیریاں، جامن بانٹا کرتی تھیں تو میری عادت ہوتی تھی کہ مجھے زیادہ ملیں اور کسی نہ کسی طریقے سے میں یہ کوشش بھی کرتا تھا کہ تم کہو تو مجھے یہ چیزیں زیادہ ملیں۔ آج بازار سے گزرتے ہوئے میں سوچتا ہوں کہ تب میں حلوائی کی دکان کے آگے سے بہت آرام اور آہستگی سے گزرتا تھا اور چیزوں کو اس تک گردن گھما کر دیکھتا تھا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہو جاتیں اور عید کے روز تو میں ہر بڑے بزرگ کو خوامخواہ سلام کرتا تھا اورانہیں بھی جنہیں میں جانتا بھی نہیں تھا تاکہ عیدی مل سکے۔ زندگی ایسے ہی چلتی رہی۔ پچھلے سال یہ خواہش بڑے تیزی سے پیدا ہوئی کہ کیا میں بھی کوئی سروس کر سکتا ہوں یعنی میں بھی کسی “خدمت“ کی جانب رجوع کر سکتا ہوں۔ میرے سے چھوٹے بڑے بڑے کام کر رہے ہیں۔ ہسپتال بنا رہے ہیں اور تعلیمی ادارے کھول رہے ہیں اور رفاہی کام کر رہے ہیں۔ مجھ سے آیا یہ کام ہو سکے گا۔ میری قسمت میں ایسا کرنا لکھا ہے یا نہیں۔ مجھے اس بات کا وقت نہیں ملتا تھا۔ اس درخواست کا کوئی جواب نہیں ملتا تھا۔
گزشتہ دنوں بائیس دسمبر کو بہت دھند پڑی اور ساری رات ہمارا علاقہ شدید دھند میں لپٹا رہا۔ لاہور اور سیالکوٹ خاص طور پر۔ میں اپنے کمرے میں رات کے وقت بالکل اکیلا تھا۔ باقی سارے گھر کے لوگ سوئے ہوئے تھے۔ میں کھڑکی کھول کر دھند کا نظارہ کرتا رہا اور میرا خیال تھا اور مجھے یقین تھا کہ جب میں اکیلا ہوں اور بہت ہی اکیلا ہوں اور رات کا وقت جس کی بڑی تعریف کی گئی ہے، ہو تو مجھے میرے سوال کا جواب موصول ہو گا۔ میں اس وقت اپنی محبوب چائے “ کیمو ملاٹی“ پی رہا تھا۔ یہ چائے بڑی مفید ہوتی ہے۔ اس سے ایک تو ذہن کے پردے کھلتے ہیں اور کچھ روح کے پردے بھی کھلتے ہیں اور ان میں کچھ عجیب طرح کی مناسبت پیدا ہو جاتی ہے۔ جب میں اٹلی میں تھا چون، پچپن برس پہلے تو ایک واقعہ پیش آیا۔ میرا کوئی قصور نہیں تھا۔ میرے باس نے مجھے کچھ ایسی باتیں کہہ دیں جو برداشت نہیں ہوتیں۔ دیارِ غیر میں کسی اور حکومت کی نوکری کرتے ہوئے کچھ ایسا تاثر پوچھا جائے کہ “آپ کے قبیل کا کوئی اور شخص آپ کے ملک میں موجود ہے جسے ہم اگلے سال ٹرائی کر سکیں۔“ یعنی مجھ سے ہی پوچھا جا رہا ہے کہ تمھاری جگہ کسی اور کو لا سکیں۔ میں بہت دکھی تھا حلانکہ میں اپنی لیاقت کاپورا اظہار کر رہا تھا، لیکن ہمارے باس کی اپنی محبوبہ سے کچھ لڑائی ہو گئی تھی اور جو پہلا بندہ اس کی راہ میں آیا وہ میں تھا حالانکہ نہ میں نے لڑائی کروائی تھی نہ میرا قصور تھا۔ تو وہ ایک تکلیف دہ شام تھی جب میں گھر آیا تو میں نے اپنی لائن لونگ (Line Living) سے پوچھا کہ مجھے کوئی اچھی سی Sleeping Pill لکھ دیں۔ مجھے تو پتہ نہیں۔ وہ کہنے لگی تمھیں یہ کیوں چاہیے۔ میں نے کہا میں آرام سے سونا چاہتا ہوں۔ میں تکلیف میں ہوں۔ اس نے کہا ہم تو نیند کی گولیاں نہیں استعمال کرتے۔ ہم نہیں جانتے یہ تو ولائتی انگریز لوگ کرتے ہیں۔ میں نے کہا جب تم پر کوئی مشکل آ جائے تو پھر آپ لوگ کیا کرتے ہو، کہنے لگا ہم تو “کیموملاٹی“ پی لیتے ہیں اور آرام سے سو جاتے ہیں۔ تم بھی پیو تمھارے سارے دکھ دور ہو جائیں گے۔ اس نے پنا اوورکوٹ پہنا، اونی جوتے پہن کر نیچے سیڑھیاں اتر گئی اور جا کے کیمو ملاٹی کا ایک ساشے خرید لائی اور مجھے اس میں گرم پانی ملا کر ایک پیالی دے دی۔ میں نے اسے پیا تو نیند آنے سے پہلے، اب یہ تصور کی بات آپ کہہ لیجئے میں بیٹھا تھا اپنی کرسی پر تو مجھے بڑا اچھا سا لگا اور میں نے کہا میں کل صبح اپنے باس کو جا کر بتاؤں گا کہ ہاں میرے جیسے تین آدمی اور بھی ہیں وہاں پر اور آپ انہیں بلا سکتے ہو تو بلا لو۔ میں نے کہا یہ تو کمال کی چیز ہے۔ اس وقت سے لے کر میں اب تک جب کبھی اچھی کیفیت کی ضرورت محسوس کرنا چاہوں تو “ کیمو ملاٹی“ پی لیتا ہوں۔ میرے دوست مجھے وہاں سے بھیجتے ہیں اب یہاں بھی یقیناً ملتی ہوں گی۔ نہ بھی ملت تو میں آپ کو یہ تفصیل سے اس لیے بتا رہا ہوں کہ کیمو ملاٹی آپ خود بھی پی سکتے ہیں۔ یہ ہمارے عطا کے ہاں سے ایک روپے کا اتنا پڑا بھر دیتے ہیں اسے بابونہ کہتے ہیں۔ یہ ہمارے ہاں اگنے والی جڑی بوٹیاں ہیں۔ گل بابونہ آپ مع اس کی شاخوں کے لے کر اسے چورا کر کے ململ کی پوٹلی میں باندھ کر چائے میں غوطہ دیں۔ تو اس دھند کی رات کو میں اپنی پیاری کیمو ملاٹی بھی رہا تھا اور “ بابونہ قہوہ“ بھی۔ پھر بھی وہ کیفیت پیدا نہیں ہو رہی تھی جو آرزو تھی کہ پیدا ہو اور جب کبھی مجھ پر یہ خوایش طاری ہوتی ہے تو دھند کے جو دبیز پردے چھٹ جاتے ہیں۔ کبھی آپ نے دھند کو بہت قریب سے ملاحظہ کیا ہو تو دھند ساری کی ساری ایسے نہیں چھائی رہتی جیسے ہمارے ذہنوں پر چھائی رہتی ہے۔ یہ دھند جو اصلی ہے اس کا رنگ کچھ اور طرح کا ہوتا ہے۔ یہ رول کرتی ہے۔ اور رول کرنے کے بعد اس کی دباذت جب کم ہو جاتی ہے تو درمیاں میں سے ایک لائٹ پیدا ہوتی ہے۔ پتہ نہیں وہ لائٹ کہاں سے آتی ہے۔ آپ دھند کو دیکھیں، چاہے گاڑی میں بیٹھے ہوں، دبیز دھند گہری ہو جائے گی اور آپ کو کچھ نظر نہیں آئے گا۔
دھند کو دیکھنا اور اس کے ساتھ وابستگی پیدا کرنا ان مراحل کو طے کرنے میں بڑی آسانی عطا کرتا ہے، اگر لوگ باطن کے سفر کو اختیار تو نہیں کرتے میری طرح سے بیٹھ کے دیکھتے ضرور ہیں۔ میں جب وہاں بیٹھا تھا تو مجھے میرے سوال کا جواب تو نہیں ملا کہ میں رہنے والوں میں سے بھی ہو سکتا ہوں یا نہیں یا میں کوئی بڑا کام کر سکتا ہوں یا نہیں۔ البتہ مجھے اپنے اندر سے ایک حکمنامہ ضرور جاری ہوتا ہوا محسوس ہوا کہ کوئی لمبا اور بڑا کام نہیں کیا جا سکتا، لیکن تم اپنے افعال کو اپنے ارادوں کو لمحات میں، حصوں میں بانٹ سکتے ہو۔ قدم ایک اٹھانا ہے پھر رکھنا ہے اور پھر اس کے بعد تمھیں نیا قدم ملتا چلا جائے گا۔ لیکن اس ایک قدم میں یہ شرط ہے کہ تمھیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ جو کام کرنے لگو اس کام کے اندر دل بھی ہے کہ نہیں۔ کام ایک وجود والی چیز ہے اور وجود کا ایک دل بھی ہوتا ہے۔ اگر اس کا دل نہیں میں داخل ہونے کی کوشش کرو، بہت کام ایسے ہوتے ہیں جو دل کے بغیر کیے جاتے ہیں اور چلتے ہیں، نہ کام میں دل ہوتا ہے نہ اس فعل میں دل ہوتا ہے نہ آپ کے آگے آنے والی چیز میں دل ہوتا ہے۔ اب تو سائنسدان کہتے ہیں کہ دل مکھی سے لیکر ہاتھی تک ہر ایک میں ہوتا ہے وائرس تک میں ایک چیز ایسی ہوتی ہے جس کو آپ دل سے مشابہ کر سکتے ہیں۔ اگر اس میں دل ہے تو پھر کسی کام میں داخل ہو جاؤ۔ جب تم خلوص اور نیک نیتی سے داخل ہو گے کسی بھی چھوٹے کام میں تو پھر آپ کو ایک Step اور ملے گا چھوٹے انداز میں اور یہ جڑتے جائیں گے اور وہ بڑا کام جس کا تم ذکر کرتے ہو یہ ان سے بھی بڑھ جائے گا۔
میں اس وقت سوچنے لگا میرے چھوٹے کام تو بس اتنے ہی ہیں کہ کبھی کبھی میں دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈال کر اپنے انداز میں کسی کو بتائے بغیر میوزیم میں چلا جاتا ہوں اور ایک کونے سے دوسرے کونے تک گھوم پھر کر سامنے بنچ پر بیٹھ جاتا ہوں۔ وہاں چاہے Fasting Buddha ہو چاہے نہ ہو یہ میرا عمل ہے۔ پھر کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ میں لاہور کے سب سے بڑے قبرستان میانی صاحب میں چلتا جاتا ہوں تھک جاتا ہوں تو کسی قبر کے چبوترے پر بیٹھ جاتا ہوں۔ کبھی کوئی کتبہ پڑھ لیا کبھی نہ پڑھا۔ اس عمل سے مجھے بڑی طمانیت حاصل ہوتی ہے اب تو عمر کی وجہ سے میں اس طرح سے نہیں جا سکتا پھر میں اپنی پوتی مایا جس کا میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا اس کے چھوٹے بھائی کے ساتھ، میرے بڑے بھائی ہیں، کے پوتے پوتیوں کے ساتھ وقت گزار لیتا ہوں۔ بچوں کو اپنے بڑوں کے بارے میں جاننے کا بڑا شوق ہوتا ہے کہ وہ کیسے تھے۔ کیسے رہتے تھے؟ میں انہیں بتاتا ہوں کہ تمھارے دادا کو جانوروں کا بڑا شوق تھا اور انہیں ایک عجیب طرح کی خوشی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ڈیڈی کہتے ہیں کہ انہوں نے کتے رکھے ہوئے تھے میں نے کہا کہ ہاں بڑے خونخوار کتے تھے یہ ان کا شوق تھا اور عام سے سیددھے سادے کتے گلی کے وہ بھی ان کے پاس آ جاتے تھے اور وہ کہتے تھے کہ چلو تم بھی آ جاؤ۔
میں نے کہا وہ تمھارے دادا تھے یعنی میرے بڑے بھائی تھے اب بچے ان کے بارے میں اور جاننا چاہتے ہیں۔ مایا کہتی ہے دادا وہ سنا ہے کتے لڑاتے بھی تھے۔ میں نے کہا ہاں کتے لڑاتے بھی تھے اب میرے اور آپ کے ذہن میں جاگتی ہے کہ ہم رحم دل لوگ ہیں اور اخبار میں ہم پڑھتے ہیں کہ بڑے جاگیردار زمیندار لوگ کتے لڑاتے ہیں اور وہ بڑے خون خوار انداز میں لڑتے ہیں تو بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ کتوں کی لڑائی ایسی نہیں ہوتی جیسے ہماری ذہن میں ہے یہ بات میں مایا کو بھی بتاتا ہوں۔
گاؤں میں تین چار ہزار کا ایک بڑا کھلا “پڑ“ ہوتا ہے۔ کھلا میدان چھوڑا ہوتا ہے، کرکٹ کے میدان جتنا۔ ایک شخص ادھر سے کتا لے کر آتا ہے جو اس نے بڑی محنت کے ساتھ پالا ہوتا ہے۔ بادام چھوہارے، گھی، مکھن کھلا پلا کے۔ دوسرا اپنی طرف سے لے کر آتا ہے لیکن وہ عام سے دیسی کتے ہوتے ہیں جو انہوں نے پالے ہوتے ہیں پھر وہ آپستہ آہستہ آگے بڑھتے ہیں اور پھر وہ ان کی سنگلی ( زنجیر) کھول دیتے ہیں اور کتے آپس میں لڑ پڑتے ہیں۔
میں نے جب تک یہ لڑائی نہین دیکھی تھی کہ کتے جھپٹتے کس طرح سے ہیں اور وہ کیسے ایک دوسرے کی کھال ادھیڑ دیتے ہیں اور برا حال ہو جاتا ہے۔ میرے ذہن اور تصورات میں ایسی تصویریں بنتی تھیں لیکن خواتین و حضرات جب وہ کتے آپس میں لڑتے ہیں تو ایسے لڑتے ہیں جیسے اکھاڑے میں پہلوان لڑتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی گردن میں دانت بھی گاڑتے ہیں جس سے تھوڑا بہت خون بھی نکلتا ہے لیکن وہ کتے بس اکھاڑے کے پہلوانوں کی طرح ہی لڑتے ہیں۔ ایک کتا اپنا دایاں پنجا اٹھا کر دوسرے کے گلے میں ڈالتا ہے اور اسے گرانے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسرا پچھلی دو ٹانگوں پر کھڑا ہو کر اس کو دھکیل کے چیچھے کر دیتا ہے وہ دانتوں سے بہت کم کام لیتے ہیں اور اس طرح پنجوں سے بھی کم کام لیا جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کی جسمانی طاقت سے ٹکراتے ہیں۔ جیتنے اور ہارنے کی یہ شرط یہ ہوتی ہے کہ جو کتا گر جائے اور اس کی زمین پر پیٹھ لگ جائے جسے “کنڈ“ لگ جانا کہتے ہیں وہ ہار جاتا ہے اور دوسرا جیت جاتا ہے، اور پھر ڈگا ڈگ ڈگ ڈھول بجتا ہے اور دوسرا ہارا ہوا کتا شرمندہ سا دم دبا کے مالک کے ساتھ جا رہا ہوتا ہے۔ مالک بھی شرمندہ سا ہو کے جاتا ہے۔ جب میں بچوں کو یہ بتا رہا تھا کہ تمھارے دادا کتوں کے ایسے ہی شوقین تھے اور انہیں اسی قسم کے کتے پسند تھے تو مایا کہتی ہے یہ دادا برا فعل ایسا ہے جو نہیں کیا جانا چاہیے۔ میں نے کہا کہ یہ جانور سے محبت کے انداز اور مظہر ہیں۔ اب دیکھ لو کہ یہ مظہر سچ مچ آپ کے اندر موجود ہے یا کہ نہیں کیونکہ جب تمھارے دادا ایک اور عمر کو پہنچے جو بالکل آخری عمر ہوتی ہے تو بے شمار چڑیاں ان کے ہاتھ پر بیٹھ کر ان کے ہاتھ سے آٹا چھین لیتی تھیں۔ تقریباً تیس تیس چڑیاں ہاتھ کے اوپر بیٹھ کر آٹا کھانے کے لیے لڑائی کر رہی ہوتی تھیں۔ یہ لمبی ساری کہانی سنانے کا میرا مقصد یہ تھا کہ جب آپ بات کرتے ہیں تو ایک تعلق پیدا ہوتا ہے ایک رشتہ بنتا ہے بچے کے ساتھ یا کسی بندے کے ساتھ اور آپ اس بات میں اتنا ڈوب جاتے ہیں کہ وہ اس کہانی کا دل بن جاتا ہے۔ سننے والے کے لیے بھی اور سنانے والے کے لیے بھی۔ تو پھر آپ کو پتہ چلتا ہے کہ ہاں اب آپ کو اس کے بعد ایک نیا Step ملنے والا ہے اور آپ اس نئے Step میں داخل ہو سکتے ہیں ورنہ میری آپ کی روٹین وہی رہے گی جو چلتی آئی ہے اور چلتی آ رہی ہے۔ اس دھند کے اندر یہ ایک سیاہ اور دبیز پردوں کے اندر سے جب یہ روشنی پیدا ہوتی ہے ایسے انسان کی زندگی میں بہت دبیز اور بڑی گہری دھند کے بعد روشنی کا ایک سپاٹ آتا ہے جس میں بڑی آسانی کے ساتھ جا کر وہ اپنی جگہ حاصل کر سکتا ہے۔ کریز کے اندر آ سکتا ہے۔
زندگی میں کام کرنے کے لیے، اپنی کریز کے اندر رہ کر کھیلنے کی ضرورت ہے۔ آپ ہر وقت چھکا نہیں مار سکتے۔ ہر وقت چوکا نہیں مار سکتے لیکن آپ اپنی کریز کے اندر رہ کر بہت محدود کریز کے اندر رہ کر بہت بڑا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ ٢٢ دسمبر کو اس دھند کی وجہ سے یہ بات کھلتی گئی اور چلتی گئی ظاہر ہے کہ اس میں “ کیمو ملاٹی“ کا بھی ضرور اثر تھا اور اس سوچ کا بھی جو میرے ساتھ چمٹی رہتی ہے۔
میں نے اب تہیہ کیا اور میں آپ کی خدمت میں اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ آپ نے بھی تہہ کیا ہو گا۔ جس دن کی میں بات کر رہا ہوں نیا سال شروع ہونے والا تھا جواب شروع ہو گیا ہے۔ تو اس کے لیے کوئی بڑا پلان بنانے کی، کوئی اونچا تاج محل تیار کرنے کی، کوئی عظیم پاسٹیل بنانے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ ہم سب ایسا سفر کر سکتے ہیں۔ اس لیے کہ ہر کوئی یہ کام نہیں کر سکتا۔ بہت ہی چھوٹے کام ایسے ہیں کہ آدمی کتنے دلوں کو خوش کر سکتا ہے “ نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری“ نہ آپ کو زکٰوۃ مانگنی پڑے نہ کسی کے پاس جانا پڑے گا نہ آپ کو کوئی اونچا کام پڑے گا۔ جسمانی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے بڑے کام ہو رہے ہیں تعلیم دی جا رہی ہے، ہسپتال کھل رہے ہیں، ہسپتال ہمیں جسم عطا کر سکتے ہیں ہمیں “جھارا“ “بھولو“ اور “انوکی“ بنا سکتے ہیں لیکن آدمی تو کچھ اور بھی مانگتا ہے۔ آدمی خالی جسم کا تقاضا نہیں کرتا۔ بھیس خالی جسم ہے۔ بندر‘نیولا‘ چوہا‘ ہاتھی‘ زرافہ‘ شیر‘ ببر شیر یہ ایک جسم ہیں۔ انسان جو اشرف المخلوقات کہلاتا ہے یہ خالی جسم نہیں ہے۔
دھند کے اندر سے جو روشنی کا ایک سوال نکلا ہے وہ کہ ہمیں بالکل چھوٹا ایک کام کرنا ہے۔ اپنے اردگرد کے بندوں کو، نہایت چھوٹے بندے کو یہ تسلی اور تشفی عطا کرنی ہے کہ میں تمھارے ساتھ ہوں تم میرے ساتھ ہو اور اس ساتھ کے اندر ایک انکڑا چلا کہ ہمیں آگے چلنا ہے۔ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ ہم نے کچھ بڑا کام نہیں کرنا ہم نے کچھ چندے اکھٹے کر کے پمفلٹ چھپا کے ایسا کچھ نہیں کرنا ہے لیکن ہمیں چلتے رہنا ہے آپ نے کبھی دکانداروں کو دیکھا ہو گا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو دکاندار بہت زیادہ بلیک مارکیٹنگ کرتا ہے اس نے آیتوں کے چھوٹے چھوٹے کارڈ چھپوا کے رکھے ہوتے ہیں ( یہ میں اس رمضان شریف میں دیکھا ہے) اسیک طرف درود شریف چھپا ہوتا ہے کچھ حل المشکلات کی آیات ہیں وہ آپ کو ساتھ ضرور دیتا ہوں۔ ہم نے کارڈ نہیں چھپوانے، ہمارے دل کا کارڈ جب نکلے تب ہی نکلے۔ ضروری نہیں ہر وقت نکلے۔ کئی دفعہ ہم ایسی کیفیت میں بھی ہوتے ہیں جیسے میں تھا اٹلی میں اور اس خاتون نے مجھے چائے پلائی اور مجھے آرام سے بستر میں چھپا کر سلا دیا۔ بڑی مہربانی، اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ!
 

ماوراء

محفلین
بابا رتن ہندی کا سفر محبت

بابا رتن ہندی کا سفر محبت​



یوں تو زندگی کے ہر کام کو پایہ تکمیل پہنچانے کے لیے کوشش کی ضرورت ہوتی ہے اور آدمی بغیر کوشش کے کہیں پہنچ نہیں سکتا لیکن کسی بابے کو پانا یا کسی روحانی شخصیت کو تلاش کرنا سب سے مشکل کام ہے۔ آپ اس طرح نہیں کر سکتے کہ مزے سے پلنگ پر بیٹھے حقہ پیتے یا میز پر بیٹھ کر چائے کی چسکیاں لگاتے رہیں اور بابا چل کے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جائے۔ بابے کو تلاش کرنے کے لیے آپ کو کچھ محنت، کچھ کوشش کرنی پڑے گی اور کچھ بھی آرزو رکھنا پڑیگی اور کچھ نہیں تو ایک یقین محکم اور پختہ ارادہ، ایک سچی تمنا ضرور چاہیے چونکہ تمنا ہو تو پھول کھلتا ہے۔ مجھ سے اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ اشفاق صاحب کسی “ بابے “ کا ٹیلی فون نمبر بتائیں یا اس کا موبائل ہمیں دے دیں۔ بھئی ایسے تو نہیں ہوتا نہ ان کا کوئی نمبر اور نہ پوسٹل ایڈریس۔ آپ حیران ہوں گے اور جب بہت دور آگے نکل جائیں گے تو پتا چلے گا کہ یہ تو اندر سے ہی پیدا ہوتا ہے اور یکا یک سامنے آ جاتا ہے اور آپ کو اندر کی باتیں بتاتا ہے اور اندر ہی کی باتیں سکھاتا ہے اور انسان کے دل میں، ذہن اور روح میں یہ آرزو پیدا ہوتی ہے کہ میں کسی ایسی شخصیت سے ضرور ملوں جو ہر حال میں اور ہر رنگ میں مجھ سے بہتر ہو اور ارفع ہو۔ پھر انسان کے ذہن میں یہ آرزو پیدا ہونے لگتی ہے کہ جیسے لڑکیاں میک اپ کرتی ہیں، میں بھی میک اپ کروں لیکن اندر کا میک اپ ہو۔ ویسے باہر کا بھی ہونا چاہیے، یعنی لپ سٹک، نیل پالش، مسکارہ وغیرہ وغیرہ۔
بسم اللہ، یہ ساری چیزیں بھی استعمال کریں جو بندہ استعمال کرتا ہے کہ اچھا لگے۔ پھر ایک سٹیج ایسی بھی آ جاتی ہے کہ اسکو اپنا اندر اچھا نہیں لگتا اور اس کی آرزو ہوتی ہے کہ میں اندر کا میک اپ کر کے کسی مقام تک پہنچوں اور پھر ایسی روح کے ساتھ ساز اور تعلق رکھوں جو بہت ارفع و اعلٰی ہو۔
ہمارے یہاں قریب ہی بھارت میں ایک جگہ ہے جسے بٹھنڈا کہتے ہیں۔ یہ بڑا مشہور شہر ہے۔کونکہ ریلوے کا بہت بڑا جنکشن ہے۔ تقریباً جتنی بھی گاڑیاں بھارت کے شمالی علاقوں میں چلتی ہیں، وہ سب کی سب یہاں سے ہو کر جاتی ہیں۔ جو میری عمر کے لوگ ہیں وہ اس محاورے کو بھی جانتے ہونگے۔ کہ “اس نے B.A VIA BATHINDA کیا ہے-“ اس لیے وہ آسان بی اے ہوتا تھا۔ کوئی منشی فاضل، مولوی فاضل کر کے صرف انگریزی کا امتحان دیکر ایک لولی لنگڑی بی اے کی سند حاصل کر لیتا تھا اس اعتبار سے بھی بھٹنڈا بہت مشہور تھا، لیکن میری نگاہوں میں اس شہر کا رتبہ ان ساری چیزوں سے بلند ہے۔ کسی زمانے میں، صدیوں پہلے اس شہر میں ریت کے میدان میں شام کو نوجوان اکھٹے ہوتے تھے اور اپنی اس زمانے کی(بہت عرصہ بہت صدیاں پہلے کی بات کر رہا ہوں) کھیلیں کھیلتے تھے اور لٹھ گھماتے“۔ “گدھا کا کھیلتے“ اور “بلم“ کے کھیل دکھاتے تھے۔ پھر تھک ہار کے، کیونکہ یہ جوان اور کڑیل کھیلیں ہوتی تھیں، چاندنی رات میں اسی ریت پر بیٹھ کر کہانیاں کہتے“ ایک دفعہ کہانیاں کہتے کہتے کسی ایک نوجوان لڑکے نے اپنے ساتھیوں سے یہ ذکر کیا کہ اس دھرتی پر ایک “اوتار“ آیا ہے لیکن ہمیں پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہے۔ اس کے ایک ساتھی“ رتن ناتھ نے کہا:“ تجھے جگہ کا پتا نہیں ہے“ اس نے کہا مجھے معلوم نہیں لیکن یہ بات دنیا والے جان گئے ہیں کہ ایک اوتار اس دھرتی پر تشریف لایا ہے۔
اب رتن ناتھ کے دل میں یہ “کھد بد“ شروع ہو گئی کہ وہ کون سا علاقہ ہے اور کدھر یہ اوتار آیا ہے اور میری زندگی میں یہ کتنی خوش قسمتی کی بات ہو گی اور میں کتنا خوش قسمت ہوں گا اگر اوتار دنیا میں موجود ہے اور اس سے ملوں اور اگر نہ ملا جائے تو ئی بہت کمزوری اور نامرادی کی بات ہو گی۔ چنانچہ اس نے اردگرد سے پتہ لیا، کچھ بڑے بزرگوں نے بتایا کہ وہ عرب میں آیا ہے اور عرب یہاں سے بہت دور ہے۔ وہ رات کو لیٹ کر سوچنے لگا کہ بندہ کیا عرب نہیں جا سکتا۔ اب وہاں جانے کے ذرائع تو اس کے پاس تھے نہیں اس کا تہیہ پکا اور پختہ ہو گیا۔ اس نے بات نہ کی اور نہ کوئی اعلان ہی کیا۔ کوئی کتاب رسالہ نہیں پڑھا بلکہ اپنے دل کے اندر اس دیوتا کا روپ اتار لیا کہ میں نے اس کی خدمت میں ضرور حاضر ہونا ہے اور میں نے یہ خوش قسمت آدمی بننا ہے۔ چنانچہ اس نے ایک بڑی مضبوط موٹی “ڈانگ“ لی۔ اس کو تیل پلایا‘ اس پر “ کھر کے“ لگائے اور اس کے آخر پر بلم (برچھی) لگائی، خونخوار، خوفناک جانداروں سے بچنے کے لیے۔ اپنا تھیلا لیا، دو جوتے موٹی کھال کے اور موٹے تلے کے بنوائے اور ڈانگ کندھے پر رکھ کر چل پڑا۔
وہ چلتا گیا، چلتا گیا، راستہ پوچھتا گیا اور لوگ اسے بتاتے گئے۔ کچھ لوگوں نے اسے مہمان بھی رکھا ہو گا لیکن ہمارے پاس اس کی ہسٹری موجود نہیں ہے۔ وہ چلتا چلتا مہینوں کی منزلیں ہفتوں میں طے کرتا ہوا مکہ شریف پہنچ گیا۔ غالباً ایران کے راستے سے اور اب وہ اپنی بولی میں وہاں تڑپتا پھرتا ہے کہ میں نے سنا ہے کہ ایک “اوتار“ آیا ہے۔ اب کچھ لوگ اس بات کو لفظی طور پو تو نہیں سمجھتے تھے لیکن اس کی تڑپ سے اندازہ ضرور لگاتے تھے ایک آدمی نے اسے بتایا کہ وہ یہاں نہیں ہے بلکہ وہ یہاں سے آگے تشریف لے جا چکے ہیں اور اس شہر کا نام “مدینہ“ ہے۔ اس نے کہا میں نے اتنے ہزاروں میل کا سفر کیا ہے یہ مدینہ کون سا دور ہے، میں یہ چھ سو کلو میٹر بھی کر لوں گا۔ وہ پھر چل پڑا اور آخر کار مدینہ منورہ پہنچ گیا۔ بہت کم لوگ اس بات کو جانتے ہیں اور کہیں بھی اس کا ذکر اس تفصیل کے ساتھ نہیں آتا جس طرح میں عرض کر رہا ہوں۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے اپنی کتاب میں ایک جملہ لکھا ہے کہ “بابا رتن ہندی“ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا پھر معلوم نہیں کہ اس کا کیا ہوا“ لیکن غالب گمان ہے اور عقل کہتی ہے اور ہم اندازے سے یقین کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں کہ وہ مدینہ شریف میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم کی خدمت میں رہا اور حضور صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم کے پسندیدہ لوگوں میں سے تھا۔ اب وہ کس زبان میں ان سے بات کرتے ہوں گے، کیسے رابطہ کرتے ہوں گے یہ رستے بھی بڑی آسانی سے کھل گئے ہوں گے اور رتن کس طرح سے مدینہ شریف میں زندگی بسر کرتا ہو گا؟ کہاں رہتا ہو گا، اس کا ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے لیکن وہ رہتا وہیں تھا اور وہ کب تک وہاں رہا اس کے بارے میں بھی لوگ نہیں جانتے۔ اس کی طلب تھی اور اس کی خوش قسمتی تھی اور خوش قسمتی ہمیشہ طلب کے واسطے سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر آپ کی طلب نہ ہو تو خوش قسمتی خود گھر نہیں آتی۔
وہ اتنے معزز میزبان کا مہمان ٹھہرا اور وہاں رہا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب رسول پاک نبی اکرم صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم مدینہ شریف تشریف لے گئے تو وہاں کی لڑکیوں نے اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کر دف پر گانا شروع کر دیا کہ “ چاند کدھر سے چڑھا“ وہ خوش قسمت لوگ تھے، ایک فکشن رائٹر کے حوالے سے میں یہ سوچتا ہوں کہ اس وقت کوئی ایسا محکمہ پبلک سروس کمیشن کا تو نہیں ہو گا نہیں، اس وقت کوئی پبلک ریلیشن یافوک لور کا ادارہ بھی نہیں ہو گا کہ لڑکیوں سے کہا جائے کہ تم ٹیلے پر چڑھ کے گانا گاؤ۔ وہ کون سی خوش نصیب لڑکی ہو گی جس نے اپنے گھر والوں سے یہ ذکر سنا ہو گا۔ رات کو برتن مانجھتے یا لکڑیاں بجھاتے ہوئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم تشریف لا رہے ہیں اور اندازہ ہے کہ عنقریب پہنچ جائیں گے اور پھر اس نے اپنی سہیلیوں سے بات کی ہو گی اور انہوں نے فیصلہ کیا ہو گا کہ جب وہ آئیں گے تو ہم ساری کھڑی ہو کر دف بجائیں گی اور گیت گائیں گی۔ اب جب حضور صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم کے آنے کا وقت آیا ہو گا تو کسی نے ایک دوسری کو بتایا ہو گا کہ بھاگو چلو، محکمہ تو ہے کوئی نہیں کہ اطلاع مل گئی ہو گی، یہ طلب کون سی ہوتی ہے، وہ خوش نصیب لڑکیاں جہاں بھی ہوں گی وہ کیسے کیسے درجات لے کر بیٹھی ہوں گی۔ انہوں نے خوشی سے دف بجا کر جو گیت گایا اس کے الفاظ ایسے ہیں کہ دل میں اترتے جاتے ہیں۔ انہیں آنحضور صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم کو دیکھ کر روشنی محسوس ہو رہی ہے، پھر وہ کون سی جگہ تھی جسے بابا رتن ہندی نے قبول کیا اور سارے دوستوں کو چھوڑ کر اس عرب کے ریتلے میدان میں وہ اپنی لاٹھی لے کر چل پڑا کہ میں تو اوتار سے ملوں گا۔
بہت سے اور لوگوں نے بھی رتن ہندی پر ریسرچ کی ہے۔ ایک جرمن سکالر بھی ان میں شامل ہیں۔ جنہوں نے سب سے زیادہ کام کیا ہے۔ ہمارے ایک دوست اکرام چغتائی ہیں وہ بڑے تحقیق کے آدمی ہیں انہوں نے مجھے جرمن زبان میں رتن ہندی کے بارے ایک ریسرچ سنائی کہ رتن ہندی کون تھے؟ کتنی دیر وہاں رہے، کہاں رہے، کیسے تھے؟ کب چلے۔ دیکھئے یہ باہر کے لوگ بھی کمال کرتے ہیں، ہمیں تو پتہ تک نہیں۔۔۔۔۔رتن ہندی بھی کمال کا آدمی تھا کیوں اس نے خود کو تاریخ میں آنے نہیں دیا؟ کیوں کہ اس نے شور مچا کر نہیں کہا کہ میرا نام درج کرو لیکن یہ تو ضروری نہیں ہے کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم سے محبت ہو تو اونچی آواز میں بولنے لگیں، ایک دوسرے کو بتانے لگیں۔ یہ کام تورتن ہندی ہی کر سکتا تھا۔
جب یہ سب کچھ میں دیکھ چکا اور پڑھ چکا تو میرے دل میں خیال آیا کہ بعض اوقات ایسی حکائتیں بن جایا کرتی ہیں، لیکن دل نہیں مانتا تھا۔ میں بڑی پریشانی میں رہا کیونکہ مجھے ایسا کوئی ذریعہ نہیں ملتا تھا جس کا سہارا لے کر میں ان کے روٹ کو جس راستے سے وہ گئے تھے پہچان سکوں۔ یہ پتہ چلتا تھا جرمن ریسرچ سے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم کے ارشاد پر ان کی اجازت لے کر واپس ہندوستان آ گئے۔ ہندوستان آئے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنے گاؤں ہی گئے ہوں گے اور بٹھنڈا میں ہی انہوں نے قیام کیا ہو گا۔ میری سوچ بھی چھوٹی ہے۔ درجہ بھی چھوٹا ہے، لیول بھی چھوٹا ہے پھر بھی میں نے کہا اللہ تو میری مدد کر کہ مجھے اس بارے میں کچھ پتہ چل جائے۔ اب تو پاکستان بن چکا ہے میں بٹھنڈا جا بھی نہیں سکتا اور پوچھوں بھی کس سے چودہ سو برس پہلے کا واقعہ ہے۔
ایک مرتبہ میری داڑھ میں بلا کا درد ہوا اور رات بھر میں بیٹھا رہا تکلیف کے عالم میں۔ اب ہمیں کسی معروف دندان ساز کا پتہ بھی نہیں تھا۔ بہرحال صبح میری بیوی گلبرگ میں مجھے ڈاکٹر مسعود کے پاس لے گئیں۔ ان سے ملے۔ بڑے خوش اخلاق اور اعلٰی درجے کے سرجب اور اس وقت کی ہماری کرکٹ ٹیم کے ڈاکٹر تھے۔ پھر ان کے ساتھ دوستہ ہو گئی۔ ان سے ملنا ملانا ہو گیا، وہ گھر آتے رہے، ملتے رہے، ان کے والد سے بھی ملاقات ہوئی وہ کسی زمانے میں سکول ٹیچر رہے تھے اور اب بھی اسی سال کی عمر میں سائیکل پر بیٹھ کر ٹویشن پڑھانے جاتے تھے۔ اتنے بڑے سرجن کے باپ، ٹیوشن پڑھاتے تھے لیکن مفت۔ الجبرے کے بہت اچھے ٹیچر تھے میں ان سے کہتا تھا کہ چھوٹی سی گاڑی خرید لیں، کہنے لگے “نہیں، مجھے سے سائیکل چلتی ہے اشفاق میاں میں ٹھیک جاتا ہوں، آپ گھبرائیں نہیں۔“
ایک دن باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ میں کافی سال بٹھنڈا کے گورنمنٹ ہائی سکول میں ہیڈ ماسٹر رہا ہوں۔ میں نے کہا یا اللہ یہ کیسا بندہ آپ نے ملوا دیا، میں نے کہا آپ یہ فرمائیں ماسٹر کہ وہاں کوئی ایسے آثار تھے کہ جن کا تعلق بابا رتن ہندی کے ساتھ ہو۔ کہنے لگے ان کا بہت بڑا مزار ہے وہاں پر وہاں پر اور وہاں بڑے چڑھاوے چڑھتے ہیں۔ ہندو مسلمان عورتیں، مرد آتے ہیں اور تمھارا یہ دوست جو ہے ڈاکٹر مسعود، میرے گھر ١٣ برس تک اولاد نہیں ہوئی، میں نے پڑھا لکھا شخص تھا، ایسی باتوں پر اعتبار نہیں کرتا تھا جوان پڑھ کرتے ہیں، لیکن ایک دن جا کر میں بابا رتن ہندی کے مزار پر بڑا رویا۔ کچھ میں نے کہا نہیں، نہ کچھ بولا، پڑھے لکھے سیانے بندوں کو شرک کا بھی ڈر رہتا ہے، اس لیے کچھ نہ بولا اور مجھے ایسے ہی وہاں جا کر بڑا زبردست رونا آ گیا۔ ان کی کہانی کا مجھے پتہ تھا کہ یہ مدینہ تشریف لے گئے تھے۔ مزار پر جانے کے بعد میں گھر آ گیا۔ رات کو مجھے خواب آیا کہ جس میں ہندوستانی انداز کے سفید داڑھی والے بابا جی آئے اور کہنے لگے “ لے اپنا کاکا پھڑ لے“ (لو، اپنا بچہ لے لو) یہ اللہ میاں نے تمھارے لیے بھیجا ہے۔ میں نے کہا جی یہ کہاں سے آ گیا، ماسٹر صاحب نے بتایا کہ جب میں نے خواب میں وہ بچہ اٹھایا تو وہ وزنی تھا۔ میں نے پوچھا “بابا جی آپ کون ہیں“ تو وہ کہنے لگے “ میں رتن ہندی ہوں، کیا ایسے بیوقوفوں کی طرح رویا کرتے ہیں، صبر سے چلتے ہیں، لمبا سفر کرتے ہیں، ہاتھ میں لاٹھی رکھتے اور ادب سے جاتے ہیں“
ماسٹر صاحب کہنے لگے مجھے سفر اور لاٹھی بارے معلوم نہیں تھا کہ یہ کیا باتیں ہیں، میں نے ان سے کہا کہ جی اس کا مصالحہ میرے پاس ہے اور مجھے یقین ہو گیا کہ وہ لڑکیاں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم کا استقبال کرنے کے لیے موجود تھیں وہ خوش قسمت تھیں۔ ہم کچھ مصروف ہیں۔ کچھ ہمارے دل اور طرف مصروف ہیں۔
ہم اس سفر کو اختیار نہیں کر سکتے لیکن اس سفر کو اختیار کرنے کی “تانگ“ (آرزو) ضرور دل میں رہنی چاہیے اور جب دل میں یہ ہو جائے پکا ارادہ اور تہیہ تو پھر راستہ ضرور مل جاتا ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ کوئی وظیفہ وغیرہ کر لیتے ہیں۔ یہ وظہفہ کرنا اچھا ہے لیکن یہ راستہ نہیں ہے۔ راستہ تو وہی ہو گا جو ایک چھوٹے موٹے ٹوٹے پھوٹے گھروں سے نکل کر اس ٹیلے کی طرف جاتا ہو گا جہاں وہ لڑکیاں کھڑی ہونگی، انہیں کیا علم اور پتہ تھا۔ انہوں نے کوئی کتابیں نہیں پڑھ رکھی تھیں لیکن ان کے دل کے اندر ایک آرزو ضرور تھی جو نور کی صورت میں آگے بڑھتی چلی گئی اور ان کو دنیا میں بھی ایک اونچا مقام ملا اور آخرت میں بھی یقیناً ان کا بہت اونچا مقام ہو گا۔ اس کے لیے میں اپنے آپ سے فارغ اوقات میں یہ ضرور کہتا ہوں اور اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرتا ہوں اور اپنے آپ سے بھی مخاطب ہوتا ہوں کہ پڑھنے سے علم حاصل کرنے سے تو یہ سب کچھ نہیں ہو گا، یہ تو میری معلومات میں اضافہ کرے گا، مجھے معلومات حاصل ہو جائیں گی، لیکن محبت کا راستہ اور ہے جبکہ معلومات کا راستہ اور ہے۔
آپ ملاحظہ کرتے ہوں گے کہ آج کل ہم معلومات کے راستے پر چل رہے ہیں کیونکہ یہ انفارمیشن کی صدی ہے اور ہم اس صدی میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی خواپش مند ہیں، لیکن محبت کا رستہ دوسرا ہے جو ہم کو بہت اوپر لے جاتا ہے اور محبت کا راستہ حاصل کرنے کے لیے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اپنے اردگرد کے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ چلیں محبت نہ کی جائے۔ چلیں انہیں کچھ دیا نہ جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسکراہٹ بھی ایک صدقہ جاریہ ہے۔ کبھی کبھی اسے جاری کر دیا کریں۔ ہنس کے بول پڑو، لیکن ہمارے ہاں یہ بھی مفقور ہو گیا ہے۔ حسد ہو گیا، لڑائی ہوئی، جھگڑے ہو گئے۔ ہم محبت تو ایک طرف رہی مسکراہٹ بھی کسی کو ادا نہیں کر سکتے حالانکہ جب آپ کسی سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں، گھوری ڈالتے ہیں، ماتھے پر سلوٹیں ڈالتے ہیں تو آپ کے چہرے کے ٧٢ مسلز یعنی عضلات کام کرتے ہیں اور اگر مسکرائیں تو صرف دو مسلز ٹینشن میں آتے ہیں یا Tension Feel کرتے ہیں۔ کتنا آسان کام ہے لیکن ہو نہیں پاتا۔
مجھے یہ سارے راز معلام ہیں، لیکن مجھ سے ایسا ہوتا نہیں۔ اندر کی بات چھوڑ کے ہم تو صرف سامان ہی اکٹھا کرنے لگے ہیں، لیکن یہ سامان کم بخت کسی کام نہیں آتا، بالکل کام نہیں آتا، اگر آپ سوچیں تو میرے پاس ایک بار کچھ پیسے جمع ہو گئے ایک لاکھ تیرہ ہزار روپے، اب میں عمر کے آخری حصے میں ہوں، سمجھ میں نہیں آتا کہاں خرچ کروں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں اپنی ذات پر خرچ کروں، دھوپ میں بیٹھ کر مولی کاٹ کر “لون“ لگا کر اسے کھاؤں، مگر ایسا کر نہیں سکتا، ڈاکٹر منع کرتے ہیں۔ تھوڑی سی محبت، تھوڑی سی الفت، تھوڑی سی مسکراہٹ جاری کرتے رہنا چاہیے یہ چیک کیش کرانے پر کوئی خرچہ نہیں آتا۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
 

ماوراء

محفلین
دوستی اور تاش گیم​



میں اس سے پہلے بھی گفتگو کے اسی سلسلے میں عرض کر چکا ہوں اور اب پھر کہوں گا کہ میں میری بیگم بانو قدسیہ درمیانے درجے کے اچھے لوگ ہیں۔ بہت اچھے تو نہیں، لیکن ایک خرابی ایسی ہے جو ہمارے درمیان چلی آ رہی ہے اور اس کا کوئی سدباب نہیں ہو سکتا۔ ہمیں تاش کھیلنے کی عادت ہے۔ مجھ میں تو نہیں تھی اور میں نہیں جانتا ےھا کہ تاش کیسے کھیلی جاتی ہے، لیکن میرے سسرال والے اس کھیل میں بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ میری ساس جو تھیں اگر کوئی ساتھی نہ بھی ہوتا تو وہ اکیلے ہی تاش کھیلتی رہتیں۔ میری بیوی نے بھی سیکھی، لیکن اس کے بعد تاش ہمارے گھرانے میں آگئی۔ ہم دونوں صبح سویرے بیڈ ٹی لیتے ہیں اور ہماری بیڈ ٹی یہ ہے کہ ہم خود ہی چائے بناتے ہیں۔
صبح بچے وئے ہوتے ہیں۔ ہر طرف ہو کا علام ہوتا ہے۔ ہم دونوں اس وقت باورچی خانے میں اکیلے ہوتے ہیں۔ چائے کی ایک ایک پیالی پی کر ہمیں جو وقت ملتا ہے، اس میں ہم تاش کھیلتے ہیں اور بچوں کے جاگنے سے پہلے تاش کھیل کر سمیٹ لیتے ہیں، تاکہ انہیں پتا نہ چلے۔ جب ملازم آتے ہیں تو ان کے آںے سے بھی قبل ہم تاش سمیٹ لیتے ہیں۔ ہمارے پاس ایک خوب صورت ڈبہ ہے جس کے چاروں طرف بہت خوب صورت جنگلی پھول بنے ہوئے ہیں۔ اس ڈبے کے ڈحکنے پر نہایت خوب صورت ایک ہرنی ہے، جو چراگاہ میں چر رہی ہے اور اس ہرنی کے ساتھ اس کا ایک چھوٹا سا بچہ ہے، جو ابھی دودھ پیتا ہے اور گھاس کھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ بہت پیاری تصویر ہے۔ اس کے اندر ہم نے اپنے پتے رکھے ہوئے ہیں۔ میں تو ان پتوں کو پھینٹ نہیں کر سکتا، کیونکہ میری پریکٹس نہیں ہے۔ میری بیوی ہی انہیں پھینٹتی ہے اور وہ پتے چونکہ مختلف قسم کے ہیں اور ان کا سائز ٹھیک نہیں ہے۔ ایک دوسرے کے کے ساتھ ملتا نہیں ہے، اس لیے اس بات کی مشق میری بیوی ہی کو ہے۔ پھر تاش بانٹی جاتی ہے۔ جس کے پاس آخری پتا آتا ہے اس کو حکم ہوتا ہے کہ اس پتے کو دیکھ کر بتائے۔
اس تاش کا میں کچھ حصہ لے آیا ہوں جس کا سائز کچھ اونچا کچھ نیچا ہے۔ یہ جو پتے ہیں میں آپ کے سامنے رکھوں گا اور شاید آپ کو نظر بھی آئیں۔ یہ ہماری تاش ہے جو ہم اپنے پاس رکھ کرہر روز صبح کھیلتے ہیں۔ یہ عید کارڈ ہیں جو پچھلے سال ہمیں موصول ہوئے تھے اور جن کی تعداد تقریباً تین یا ساڑھے تین سو ہے۔ ہر روز ان پتوں کو نکالنا اور چھانٹنا اور پھر اس گیم کو شروع کرنا کافی مشکل اور پیچیدہ کام ہے۔ جب آپ شروع کریں گے تو آپ کو بھی خاصی دقت کا سامنا پڑے گا۔ پھر ایک پتا، جو میری بیوی اٹھاتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ یہ عید کارڈ پچھلے سال یوسفی صاحب نے بھیجا تھا۔ مشتاق یوسفی ہمارے دوست ہیں۔ ہم دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں۔ کہ یا اللہ! یوسفی صاحب جہاں بھی ہوں اور جس مقام پر بھی ہوں اور جیسے کیسے بھی ہوں، ان پر، ان کے گھر والوں پر، ان کی بیگم پر، ان کے بچوں اور پوتوں پر اپنی رحمتوں کا نزول فرما اور پھر اس کے بعد جوان کی ذات سے وابستہ کچھ باتیں یاد آتی ہیں، ان کو بھی ہم دہراتے ہیں تاکہ یہ سلسلہ نہ ٹوٹے اور سال بھر کا کم از کم جو رشتہ ہے، وہ اسی طرح سے قائم رہے۔ پھر میری بیوی مجھے بتاتی ہے کہ جب وہ کسی بڑی تقریب پر قطر گئے تو مشتاق یوسفی نے ان سے بانو قدسیہ سے کہا تھا کہ آپ بڑی رائٹر ہیں۔ لیکن ایک بات کا خیلا رکھئے کہ زوال نعمت سے پہلے ریٹائرڈ ہو جانا ضروری ہے۔ آپ بہت عروج پر پہنچ جاتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ میں اس مقام پر پہنچا تو سمجھدار آدمیوں کا یہ تقاضا ہے کہ اس نعمت کو آخر زوال تو آنا ہی ہے اس سے پہلے ہی یہ فیلڈ چھوڑ دینا چاہیے۔ اور پویلین میں واپس جا کر بلا رکھ دینا چاہیے کہ اللہ تیری مہربانی۔
یونس جاوید نے ہمیں ایک کارڈ بھیجا تھا۔ وہ میں اٹھاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہ بہت اچھا نوجوان ہے اور اس نے ہم کو یاد رکھا اور اس کے اپنے گھر والوں پر بہت احسان ہیں۔ اور اس نے میٹرک سے عملی زندگی شروع کی اور ایم اے تک پہنچا۔ یہ ہمارا ادیب ہے۔ اے اللہ اس کو اس کے دنیاوی مقام پر بھی پہنچا اور دینی مدارج بھی طے کرو اور اس کو دین اور دنیا میں سرخرو کر۔ جتنے بھی ہمیں الفاظ اس وقت یاد آتے ہیں اس تاش کے کھیل میں ہم کھیلتے ہیں اور بڑے شوق اور محبت اور جزبے کے ساتھ، کیونکہ اس وقت کوئی ڈسٹرب کرنے والا، خلل ڈالنے والا نہیں ہوتا۔
پھر بیچ میں سے ایک کارڈ نکل آتا ہے۔ ظہیر کا مہراب پور سندھ ہے۔ یہ کون آدمی ہے؟ ہم نہیں جانتے طہیر کچھ ایسی محبت والا آدمی ہے۔ عجیب و غریب کہ کبھی کبھی اس کی طرف سے ایک پیکٹ بھی موصول ہوتا ہے کہ جو کورئیر کے ذریعے آتا ہے۔ ہم اسے کھولتے ہیں تو سلور کے ایک خوب صورت ڈبے میں گاجر کا حلوہ ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے آپا جی! یہ گاجر کا حلوہ میں نے خود پکایا ہے اور میں نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ آپ چونکہ شوگر کی مریضہ ہیں تو اس میں چینی زیادہ نہ ہو تو آپ تضربہ کر کے مجھے بتائیں کہ مجھے گاجر کا حلوہ بنانا آتا ہے کہ نہیں۔ ہم اس سے ملے تو نہیں، لیکن خط و کتابت یا ٹیلیفون کے ذریعے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ حلوہ بہت اچھا تھا۔
اب ایک رضوانہ ہیں، جس نے لاڑکانہ سے ایک عید کارڈ بھیجا ہے۔ اب رضوانہ کون ہے؟ کہاں ہے؟ پتا نہیں، مگر ظاہر ہے کہ ہماری دعائیں اس کے لیے ہیں۔ وہ کتنی بڑی ہے، کتنی چھوٹی ہے، اس کی شکل صورت کیسی ہے؟ ہم نہیں جانتے۔ اس نے اپنا پتا بھی نہیں لکھا، جیسے عیسٰی خان نے ہائی کوہاٹ سے خط لکھا اور وہ تین چار روز پہلے ڈبے سے نکلا تو میری بیوی، چونکہ سرتاش کی باری اسی کی بنتی تھی تو اس نے کہا کہ یا اللہ! عیسٰی خان جہاں بھی ہوا گر شادی شاہ ہے تو اس کے بیوی بچوں پر تیری رحمتوں کی بارش ہو، اگر ابھی تک کنوارا ہے، دکاندار ہے، پڑھ رہا ہے تو اس اکیلے پر، اس کے ماں باپ پر اپنی رحمت فرما۔
اس قسم کی کہانیاں چھوٹے چھوٹے افسانے بنتے رہتے ہیں اور تاش کی یہ گیم چلتی ہے۔ اب یہ کہ کچھ مانوس لوگ ہوتے ہیں، کچھ نامانوس، کچھ ہمارے دوست ہیں، جن کو ہم اچھی طرح اچھی طرح جانتے ہیں، کچھ دوست نہیں ہیں۔ ان کارڈز کی وجہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دوست کون ہوتا ہے، ملاقاتی کون ہوتا ہے، نامانوس ملاقاتی کون ہوتا ہے؟ لیکن اس کا تعلق اور اس کا رشتہ ویسا ہی ہوتا ہے، جیسا دوست کا!!
پچھلے دنوں ممتاز مفتی صاحب کا ایک کارڈ نکل آیا، پرانا کارڈ آ کر شامل ہو گیا۔ ہم نے کہا کہ وہ تو اس دنیا میں موجود نہیں ہیں اور ان کی بڑی خواہش تھی کہ جب بھی مجھے یاد کرو تو الحمد شریف اور تین مرتبہ قل شریف پڑھ کر مجھے بخشا کرنا۔ تو ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ یہ خواہش تو بہت آسان ہے۔ ہم پوری کر دیتے ہیں تو کر دی۔ پھر میں نے کہا کہ مفتی صاحب مزاج کے بہت سخت تھے۔ جلدی غصے میں آ جاتے تھے۔ ہم اکھٹے کام کرتے تھے۔
خواتین و حضرات میں آزاد کشمیر ریڈیو سے منسلک تھا۔ مری سے ہمیں آرڈر ہو گیا ١٩٥٢ء میں کہ یہ سٹیشن بند ہوتا ہے، شام کی جٹرانسمیشن ہے وہ پنڈی سے چلے گی۔ ہم لوگ بڑے مزے سے وہاں رہتے تھے، ہمارا خیال بھی نہیں تھا کہ سٹیشن میں اتنی جلدی تبدیلی ہو جائے گی۔ بہرحال قرض پر زندگی چل رہی تھی۔ جو لوگ نوکری پیشہ ہوتے ہیں اور ان کی چھوٹی سی نوکری ہوتی ہے، وہ دودھ والے کے مقروض ہوتے ہیں، وہ ہوٹل والے کے بھی مقروض ہوتے ہیں، جہاں سے نان آتے ہیں۔ ہم سارے کے سارے کسی نہ کسی انداز میں قرضے کے بوجھ تلے تھے، تو میں نے ممتاز مفتی سے کہا، کیونکہ وہ احتیاط سے چلتے تھے، ان کو کمرہ بھی الاٹ ہوا تھا، جبکہ ہم ہوٹل میں رہتے تھے۔ ان سے میں نے کہا کہ میں تو گزر نہیں سکوں گا، کیونکہ ہوٹل والے نے کہا تھا کہ ریڈیو کے بندے جا رہے ہیں، اور جہاں سے لاری پر بیٹھتے ہیں، وہاں وہ اپنا بندہ بٹھا دے گا، جو لاٹھی بردار ہو گا۔ لٰہذا سو روپے لیے اور گوالے کا بل ٨٠ یا ٩٠ روپے کا ادا کیا، پھر ہوٹل والے کے ٢٣١ روپے تھے، وہ بھی ادا کر دیئے اور کچھ قرضے دینے تھے، وہ بھی دئیے۔ میرے پاس چالیس روپے بچ گئے، تو خوشی سے مزے سے سیٹی بجاتے راولپنڈی پہنچ گیا اور وہاں رہنے لگا۔ اب جب میں نے چونکہ ان سے قرض لیا تھا لٰہذا ان سے دب کے رہتا تھا۔ وہ میرے بڑے عزیز دوست تھے اور ہماری آپس میں توں تڑاک قسم کی بے تکلفی تھی۔ پھر بھی میں نے یہ محسوس کیا کہ جب وہ کوئی بات کرتے ٹھیک ہوتی یا ٹھیک نہ ہوتی، میں ان کی ہاں میں ہاں ملاتا تھا۔ اب جناب بات یہ ہے کہ ہم ورلڈ بینک سے قرضہ لیا ہے جو آئی ایم ایف کہہ دے کہ جناب بجلی کا بل ٢ روپے ٣٥ پیسے کے بجائے سات روپے لینا ہے، تو ہم کہتے ہیں جی حضور! آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ جس نے بھی خدا نخواستہ قرضہ لیا ہو یہی تکلیف رہتی ہے کہ ہمیشہ اس کے سامنے دم ہلانا پڑتی ہے۔
میں، جب بھی مفتی صاحب کوئی بات کرتے، کہتا سبحان اللہ آپ واقعی ٹھیک کہتے ہیں۔ وہ بہت پڑھے لکھے اور سمجھدار آدمی تھے۔ ایک دن چڑ گئے۔ کہنے لگے، دیکھو تم میری ہر بات کے ساتھ Agree کرتے ہو، ہر بات کو Yes کہتے ہو، تم کبھی میری بات سے نااتفاقی کا اظہار نہیں کرتے اور یہ سمجھتے ہو کہ جو میں کہہ رہا ہوں، ٹھیک کہہ رہا ہوں، تو آئندہ سے اس بات کا خیال رکھو جیسے میرے ساتھ پہلے بولا کرتے تھے جیسے میری سٹیٹ منٹ پر پہلے تنقید کیا کرتے تھے، ویسے ہی کرو ورنہ میری پانچ سو روپے واپس کر دو۔ میں نے کہا کہ میں وہ بھی انشاءاللہ واپس کر دوں گا۔ انہوں نے ایسی دھمکی دی تھی مجھے حوصلہ نہیں ہوا۔ تو ایسے پیارے پیارے پتے ہم کو ایک نئی گیم کھیلنے کے لیے دے جاتے ہیں اور ان سے کوئی نہ کوئی یاد بھی جڑی رہتی ہے۔
میں ذکر کر رہا تھا کہ دوست ملاقاتی اور ساتھی کا جو ایک فرق ہے، وہ سمجھ میں آنے لگا ہے۔ ان عید کارڈوں کی آمد سے کچھ ہمارے صبح سویرے متوجہ ہو کر بیٹھنے سے، کچھ ان لوگوں کے ساتھ ایک رابطہ قائم کرنے سے جسے کمیونی کیشن کہتے ہیں۔ آپ کسی کے لیے بھلائی کا کام کریں۔ کسی کے خلاف آپ کا غصہ ہو جیسے میں اپنی بچیوں سے کہتا ہوں جو اب بہوئیں بنی ہیں کہ اگر ساس کو تم نے سزا دینی ہے۔ اور اس کا بہت بری طرح “مکو ٹھپنا“ ہے تو اس کے حق میں دعا کیا کرو، دیکھو وہ کتنی بے چین ہو گی، بجائے اس کے کہ اس سے جھگڑ کر کے اپنی ماں کے پاس دوڑتی ہوئی جاؤ کہ اماں اس نے مجھے یہ کہا ہے، تو تم تجربہ کر کے دیکھ لو، اس میں کیا حرج ہے، چالیس دن کہو کہ اللہ تعالٰی میری ساس کو سلامت رکھ، حلانکہ ساس بڑی بلا ہوتی ہے اور نند بھی، کیونکہ میں نے تو یہی سنا ہے۔ میری ایک بھانجی کی بیٹی کا بردکھاوا تھا۔ ہم دیکھنے گئے تو اس نے کہا نانا ضرور جائیں۔ میں نے کہا میں تو تجربہ نہیں رکھتا، میں کیا کروں گا؟ تو اس نے کہا، نہیں نانا آپ کو ضرور جانا ہو گا۔ آپ نے جا کر یہ دیکھنا ہے اور خبر لے کر آنی ہے کہ میری نندیں کتنی ہیں۔ میرے لیے بڑا مشکل ہو گیا کہ کیسے پوچھیں کہ بھئی تیری بہنیں کتنی ہیں؟ یہ تو پوچھا جا سکتا ہے کہ آپ کیا کام کرتے ہیں، کہاں ہوتے ہیں؟ پھر میں نے طریقے طریقے سے معلوم کر لیا۔
میں نے واپس آ کر شازیہ کو بتایا کہ بھئی پانچ ہیں۔ وہ کہنے لگی او ہو!! در لعنت میں تو کبھی وہاں شادی نہیں کروں گی۔ پھر مجھے پتا چلا کہ نند واقعی خوفناک چیز ہوتی ہے۔ ہم مردوں کو تو اس سے واسطہ نہیں پڑتا اس لیے میں کہتا ہوں کہ اگر دعا کریں تو دل چاہے کتنا ہی جلا ہوا کیوں نہ ہو، پھر بھی آپ کو فائدہ پہنچ جائے گا، بلکہ زیادہ پہنچے گا، چاہے تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ بجائے غصہ یا نفرت کے اظہار کے اور یہ جو ہم کلاشنکوفوں کے ساتھ لڑائی کرتے ہیں، خواہ کتنی ہی کرتے چلے جائیں، یہ کام ختم نہیں ہو گا۔
ایک دن دعا کے لیے بیٹھ جائیں، بڑا سکون آ جائے گا اور رحمتوں کا نزول ہونا شروع ہو جائے گا۔ اب ان پر رحمتیں رکی ہوتی ہیں۔ جس دن آپ ہاتھ سے کلاشنکوف چھوڑ دیں گے اور دعا شروع کر دیں گے، رحمتوں کا نزول شروع ہو جائے گا۔
ابھی بات ہو رہی تھی کہ دوست کون ہوتا ہے؟ اور ملاقاتی کون ہوتا ہے؟ میں نویں دسویں جماعت میں سکول میں پڑھتا تھا، ہمارے دو ٹیچیرز ماسٹر حشمت علی اور ماسٹر قطب الدین ہوا کرتے تھے۔ دونوں ریاضی کے بہت ماہر تھے۔ انہیں خدا نے اس بارے میں بڑی صلاحیت دی تھی۔ ہمارے ضلع سے باہر اور دور دور کے مقامات سے ہندو، سکھ استاد ان سے الجبرا اور چونکہ یہ ہے ہی مسلمانوں کا علم کے مشکل مسائل پوچھنے آتے تھے۔ اور وہ دونوں استاد سکول ٹائم کے بعد لان میں بیٹھ کر ریاضی کے مسائل حل کیا کرتے تھے جو ہماری سمجھ سے باہر ہوتے تھے۔ ساتھ رہنا، اکھٹے کھانا، ایک دوسرے کے گھر کے ساتھ گھر، سیر کو اکھٹے جانا، اکھٹے سکول آنا۔ کبھی ہم نے انہیں الگ الگ نہیں دیکھا تھا۔ ان کے درمیان اتنی گہری دوستی تھی کہ آپ جتنا بھی ذہن میں اس کا تصور کریں۔ وہ کم ہے۔
پھر اچانک یہ ہوا کہ ڈویژنل انسپکٹر آف سکولز نے ماسٹر حشمت علی کی تبدیلی کر دی اور وہ ہمارے ضلعے کی کسی اور تحصیل میں چلے گئے۔ دونوں دوستوں کے درمیان اس تبدیلی سے جو خلیج پیدا ہوئی، وہ تو ہوئی، ہم جو طالب علم تھے یا جو دوسرا سٹاف تھا، ان کے لیے بھی بہت تکلیف دہ صورت حال تھی۔ ہم سب نے وہ تکلیف وہ لمحات محسوس کیے۔ میں نے ماسٹر قطب الدین سے کہا، کیونکہ میں ذرا سمجھدار بچہ تھا، آپ کی حشمت علی صاحب سے بڑی دوستی تھی؟ کہنے لگے ہاں ٹھیک ہے۔ میں نے کہا ان کے جانے سے آپ کی طبیعت پر بوجھ پڑا؟ کہنے لگے، ہاں پڑا ہے، لیکن زیادہ نہیں۔ میں نے کہا کہ یہ آپ حیران کن بات کرتے ہیں۔ وہ تو آپ کے بہت عزیز دوست تھے، قریب ترین تھے۔ کہنے لگے اشفاق میاں بہت عزیز تھے، بہت قریب ترین تھے۔ لیکن آپ اس کو اعلٰی درجے کی معیاری دوستی قرار نہیں دے سکتے۔ بے شک ہمارے معمولات اکھٹے تھے، اکھٹے کھاتے پیتے تھے اور کوئی لمحہ بھی ایک دوسے کے بغیر نہیں گزارا لیکن یہ دوستی کی نشانی نہیں ہے۔ دوستی کی نشانی یہ ہے کہ جب تک آدمی اکھٹے بیٹھ کر روئے نہ، اس وقت تک دوستی نہیں ہوتی اور ہم کبھی اکھٹے بیٹھ کر روئے نہیں تھے، اس لیے آپ نہیں کہہ سکتے کہ ہم دوست تھے۔
ہمارے پاس جو کارڈز آتے ہیں، ان میں وہ لوگ بھی ہیں، جن کے ساتھ ہم اتنے قریب تو نہیں ہوئے جتنے ماسٹر قطب الدین صاحب نے کہا تھا، یکن ہم ایک اور رشتے سے ایک اور ناتے سے ان کے ساتھ ہیں۔ عید آتی ہے تو ہمارے لیے یہ بڑی خوشیاں بھی لے کر آتی ہے اور ایک طرح کا بوجھ بھی کہ اب نئی تاش نئے ڈبے میں بند ہو گی اور پھر ہم کو یہ گیم کھیلنا پڑے گی، جس کی خوشی بھی ہے، جس کی ذمہ داری بھی ہے اور جس کا بوجھ بھی ہے۔
اب یہ بات میں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ ہم کو یہ گیم جاری رکھنی چاہیے یا اسے بند کر دینا چاہیے؟ آپ بھی حیران ہوتے ہوں گے کہ یہ عجیب سا گھرانہ ہے اور عجیب سا جوڑ ہے۔ یہ کیسی عجیب و غریب باتیں کرتے ہیں۔ یہ ہم اس لیے کرتے ہیں کہ ہم دونوں کافی حد تک خود غرض لوگ ہیں اور ہم نے یہ دیکھا ہے کہ اصلاح کی بات کرنے میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم کے سائے میں رہنے سے ہم بڑی مرادیں پا سکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم کو رحمت للعالمین کا خطاب دنیا والوں نے نہیں دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم کو “کل عالموں کے لیے رحمت“ کا خطاب اوپر سے ملا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم تو ان صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم کے نقش پا کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے۔ لیکن اگر اتنی سی بات کو ہی پکڑ لیا جائے کہ رحمت، شفقت، محبت اور عطا سے میری ذات کو فائدہ ہو گا تو ہم تو خود غرض لوگ ہیں۔ لٰہذااپنی ذات کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہم نے یہ طریقے اختیار کر رکھے ہیں اور اس سے ہمیں واقعی فائدہ ہوا ہے، ہو رہا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہوتا رہے گا۔
میں دنیاوی فائدے کی بات کر رہا ہوں، آگے بھی شاید ہو۔ بے شک اللہ تعالٰی جو چاہتا ہے کرتا ہے، لیکن آگے فائدہ ضرور ہو گا۔ اللہ تعالٰی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
 

شمشاد

لائبریرین
ریفریجریٹر زندگی

ہم سب کی طرف سے آپ سب کی خدمت میں سلام پہنچے۔

یہ جو امریکن قوم ہے اور امریکن لوگ ہیں، یہ بھی بڑے کمال کے آدمی ہیں، اور ان کو کچھ ایسی سوجھتی ہے، اور ان کے دماغ میں اس طرح کے خیالات پیدا ہوتے ہیں، جو عملی صورت اختیار کر کے مختلف کھلونوں کے روپ میں ہمارے سامنے آتے ہیں کہ آدمی حیران ہوتا ہے۔ اب یہ دیکھ لیں ساری دنیا کے اندر کیسی کھدیڑ مچائی ہوئی ہے۔ اپنوں کو کسی شخص کو اور کسی کمیونٹی کو کسی گروہِ انسانی کو آسانی سے زندگی بسر کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ان کا بس ایک وتیرہ ہے۔ ان لوگوں میں سے بہت سے ہمارے دوست بھی ہیں۔ میرے ایک دوست ہیں، وہ یہاں بہت اونچے عہدے پر فائز ہیں، مسٹر مورلک ان کا نام ہے۔ انکے ساتھ ایک جھگڑا رہتا ہے، کبھی لڑائی، کبھی چھینا جھپٹی اور بے قدری، ہم ان کے ساتھ کچھ تھوڑا بہت کر لیتے ہیں۔ جھگڑا لیکن ہمیں کمزور رہنا پڑتا ہے ان کے سامنے۔ اس لیے کہ ان کی سوچ بھی بڑی تیز ہے، اور ان کی پیشرفت بھی بڑی آگے کو بڑھنے والی ہے۔ مورلک ایک دن مجھ سے کہہ رہا تھا کہ تم لوگ جو ہو یہ اچھے لوگ ہو، لیکن تم سارے ریفریجریٹر کے اندر زندگی بسر کرنے کے عادی ہو۔ میں نے کہا، ریفریجریٹر میں کیسے؟

کہنے لگا، تم ہر چیز کو محفوظ کرنے کے لیے ریفریجریٹر میں رکھنے کے عادی ہو۔ اپنی انسانی زندگی کو بھی۔ تمہارے بچے ہیں، مثلاً پیارے پیارے تم ان کو اٹھا کے ریفریجریٹر کے اندر رکھ دیتے ہو کہ یہ فریش رہیں، اور تروتازہ رہیں، اور ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے۔ جب ہم سبزی کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں، پھلوں کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں، ظاہر ہے ان کو ریفریجریٹر میں رکھتے ہیں، لیکن کہنے لگا کہ ریفریجریٹر کے اندر رکھی ہوئی یہ چیزیں جو ہیں، باہر سے تو تروتازہ رہتی ہیں، آپ کا بھی تجربہ ہو گا، سب کا ہے نا۔ اندر سے وہ اتنی اچھی، اور مزیدار اور کھانے کے قابل نہیں رہتیں، نہ لذت میں، نہ تاثیر میں، جتنی کہ تازہ ہوتی ہیں، اس نے کہا۔ میں نے تمہارے ملک کا ایک عجیب و غریب رواج دیکھا ہے کہ والدین یہ چاہیں گے کہ بچے جو ہیں وہ ہم اٹھا کے دن کو ریفریجریٹر میں رکھ دیں، تا کہ وہ تروتازہ رہیں، اور ان کی خوبصورتی جو ہے، وہ بظاہر ٹھیک ٹھاک رہے۔ بچے یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے والدین بوڑھے ہو رہے ہیں، ان کو بھی ہم ریفریجریٹر میں رکھ دیں۔ تو آپ لوگوں نے ایک عجیب سا رویہ زندگی کا اختیار کیا ہوا ہے، جو نہ تو Human ہے، اور نہ بہادر قوم سے اس کا تعلق ہے۔ تو میں نے کہا، تم یہ عجیب بات کر رہے ہو۔ ٹھیک ہے، ریفریجریٹر میں والی بات لیکن اس میں خرابی کی کیا بات ہے۔ اس نے کہا، خرابی کی اس میں یہ بات ہے کہ ریفریجریٹر میں جب چیزیں رکھی جاتی ہیں تو ان کو مجموعی طور پر ایک ہی جگہ پر گھسیڑ ہی نہیں دیا جاتا۔ ان کو الگ الگ کر کے رکھا جاتا ہے، تا کہ ٹماٹر ایک طرف رہیں، بینگن ایک طرف رہیں، مٹھائی ایک طرف رہے، پانی ایک طرف، تو ایسے ہی آپ الگ الگ کر کے رکھتے ہیں اپنے آپ کو۔ تو زندگی میں بھی آپ اپنے دوسرے گروہوں سے الگ الگ رہتے ہیں۔ بیوروکریسی جو آپ کی ہے وہ ایسے فریج میں رہتی ہے کہ اس کے قریب کوئی جا نہیں سکتا۔ آپ کے استاد جو ہیں، ٹیچر جو ہیں، پروفیسر جو ہیں، وہ بھی ایک اپنی خانہ بندی کر کے بیٹھے ہیں، ان کی بھی اپروچ نہیں ہوتی۔ ڈاکٹرز لے لیں، وکیل ہے لیں وہ سارے کے سارے ان لوگوں سے متعلق نہیں ہیں، جن لوگوں سے متعلق یہ ملک ہے۔ ان کو ضرورت پڑتی ہے، مثلاً ڈاکٹرز ہیں، بینگنوں کی طرح پڑے ہیں، اور وہ وہاں سے ہی اپنا آرڈر جاری کرتے ہیں، ہونا یہ چاہیے کہ ان کے، اور مریض کے مابین ایک ارتباطِ باہمی رہے اور وہ ایک دوسرے کو جانتے پہچانتے رہیں۔ ٹیچر جو ہے، استاد جو ہے وہ اپنے طالب علم کے ساتھ ملتا رہے، اور ان کو جانتا پہچانتا رہے، Human Being کے درمیان جب تک تعلق نہیں ہو گا کتاب آپ کو فائدہ نہیں دے گی۔ اگر کتاب ہی فائدہ پہنچا سکتی، تو اللہ تعالٰی ایک رسی کے ذریعے دنیا میں ایک کتاب اتار سکتا تھا ہر گھر میں۔ اس کے لیے کیا مشکل تھا، لیکن نہیں اس کے ساتھ پیغمبر ضرور بھیجنا ہوتا ہے، کیونکہ جب انسان نہیں ہر گا، ان کے سامنے اس کی مثال نہیں ہو گی، اس کی شکل و صورت سامنے نہیں ہو گی، تب تک ان لوگوں کو تقویت نہیں ہو گی کہ یہ ہمارے جیسا انسان ہے۔ مجھ سے اکثر پوچھتے ہیں کہ بابوں کی آپ بڑی بات کرتے ہیں۔ بابوں میں کیا خوبی ہوتی ہے۔ بابوں میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ بادشاہ وقت اپنے جوتے اتار کر ان کی جھونپڑی میں داخل ہوتا ہے، حالانکہ کیا ہوتا ہے ان کے پاس کچھ دینے کو۔ بابا جو ہوتا ہے وہ IMF نہیں ہوتا نا۔ ہم تو IMF کے پاس سر کے بل جاتے ہیں۔ بابے کو پاس دینے کو کچھ نہیں ہوتا۔ مجھے ابھی ایک بی بی کہہ رہی تھی کہ اخلاق کی سربلندی ایسی ہوتی ہے کہ آدمی حیران ہوتا ہے کہ انسانی وقار، اور یہ اشرف المخلوقات کا لیول اتنا اونچا بھی ہو سکتا ہے، اور ہم جو ہوتے ہیں “ ثم رددنہ اسفل سٰفلین “ تو ہم ڈر کے مارے سر جھکا جاتے ہیں کہ ہم چوتھے لیول کے آدمی ہیں۔ تو جیسا میں نے کہا کہ مورلک کی یہ بات مجھے بڑی دل کو لگ رہی تھی۔ اس نے کہا، تم اتنے محتاط ہو کہ اپنے بچوں کے لیے سپیشل اعلٰی درجے کے سکول بنا دیئے، وہ ایک اور طرح کے ریفریجریٹر ہیں کہ یہاں پر میں اپنا بچہ لے جا کر داخل کرا دوں، اور یہ بالکل تروتازہ رہے، اور جب ضرورت پڑے گی تو نکال کر اس کو زندگی کے کاموں میں لے آئیں گے۔ پھر اس نے کہا میری تم سے محبت ہے اور تمہاری وجہ سے پاکستان سے محبت ہے، تم ایسے کرو ریفریجریٹر میں زندگی گزارنے کی بجائے ٹوسٹر میں زندگی گزارہ کرو، تاکہ تھوڑا سا سینک لگے تم کو، اور جو تم میں کچا پن ہے وہ پختگی میں تبدیل ہو اور جب تمہاری ضرورت پڑے چھلانگ مار کر باہر نکلو۔ ٹوسٹ دیکھا ہے، نکلتا ہے ہاں، اور اس کا فائدہ ہوتا ہے۔

تو تم تو ٹوسٹر سے بہت گھبراتے ہو اپنی زندگی کو سینک دینے کو تیار ہی نہیں ہو، تعلیم دلواتے ہو صرف نوکریاں حاصل کرنے کے لیے، وہ بات جو انسانیت پیدا کرتی ہے، وہ تو سینک لگنے کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس کے بغیر نہیں ہوتی، لیکن تم اتنے محتاط ہو اور اتنے خوفزدہ ہو کہ حالات اور زمانہ کو Face کرنے کے لیےتم اس قسم کی صورتِ حال پیدا کرتے رہتے ہو۔ اس نے کہا، میں تو تھوڑا سا خوش ہوں تمہارے ملک میں جو ابھی فوجی ٹریننگ ہے کاکول وغیرہ کی، وہ ٹھیک ہے، باقی کے تو آپ نے سارے ادارے تباہ کر دیئے ہیں، اور مجھے اندیشہ ہے کل کو یہ اس کے ساتھ بھی تم لوگ یہی نہ کرو۔

میں پچھلے دنوں ایک پروگرام دیکھ رہا تھا، پتا نہیں کہاں۔ اس میں بالواسطہ طور پر تو نہیں بلا واسطہ طور یہ بات آتی ہے، اس میں کوئی بتا رہا تھا کہ لڑکیوں کے ساتھ رویہ اچھا نہیں ہوتا۔ آج کل یہی ہے نا، اور لڑکوں کے ساتھ بہت اچھا ہوتا ہے۔ لڑکوں کو کھانے میں ناشتے میں انڈہ پراٹھا ملتا ہے، لڑکیوں کو کہتے ہیں تُو کُڑی ہے کوئی بات نہیں، تُو بعد میں کھانا یا نہ کھانا، ہمارے ہاں ایسا ہوتا رہا ہے۔

ہمارے گھر میں میری ماں کہتی تھی میری بہن سے کہ ابا کے بوٹ پالش کر۔ وہ بیٹھی بوٹ پالش کر رہی تھی اور ہم مزے سے کھانا کھا رہے ہوتے تھے، تو یہ ساری باتیں رہتی ہیں تو میں نے جب یہ دیکھا، میں بڑا حیران ہوا کہ یااللہ یہ تو ہمیں کس طرف کھینچے لئے جا رہا ہے، تو میں نے اپنی ماں سے، جو زندہ تھی۔ اس وقت یہ پوچھا۔

میں نے کہا کہ یہ رویہ جو تھا آپ کا اس کی کیا وجہ تھی۔ انہوں نے کہا، یہ بہت ضروری رویہ تھا، اس لیے کہ اس لڑکی کو آگے جا کر بچے پیدا کرنے تھے، اور ان بچوں کو پالنا تھا، اگر اس کو انڈہ کھانے کی عادت اب پڑ جاتی تو وہ سارے انڈے کھا جاتی اور بچے اس کے بیٹھے رہ جاتے ٹیبل کے اوپر۔ یہ اس کی ٹریننگ تھی، یہ ہم جانتے تھے، اس بات کو، اور کہنے لگی، میرے پیارے بچے کہ اسی طرح سے تھا کل کو تم رونے لگ جاؤ گے کہ جو جنٹل مین کیڈٹ ہوتا ہے، اس کی کاکول میں کتنی سخت ٹریننگ ہوتی ہے۔ صبح سردیوں میں چار بجے اٹھا دیتے ہیں، اس کو پھر پانی میں غوطہ لگواتے ہیں، پھر خاردار تار میں اس کا بدن چھلتا ہے، پھر اس کو کہتے ہیں کراس کنٹری ریس لگاؤ۔ کراس کنٹری بیچارہ لگاتا ہے۔ میں صدقے جاؤں پھر آ کے اس کو ناشتہ ملتا ہے۔ کتنی بری بات ہے لیکن ہرگز بری بات نہیں۔ اس کو تو کارگل کے اوپر Face کرنا ہے، دشمن کو، وہ تو وہاں کھڑا ہے ایسی برفوں میں، جہاں اور کوئی کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اس طرح عورت جو تھی وہ ایک طاقتور Phenomenon تھی، اور اس کو مضبوط ہونا تھا، اور ان کی مضبوطی دشمنی کی بات نہیں ہے۔ یہ جھاکہ جو ولایت والے دیتے ہیں جھوٹ کہتے ہیں۔ ہماری تو عورت بہت عزت دار ہے، اس سے بڑی محبت ہے، اتنی محبت ہے کہ دینا کا واحد ملک ہے، جہاں ہر ایک شے کے پیچھے، ہر گاڑی پر ماں کی دعا لکھا ہے۔ کبھی کسی نے باپ کی دعا نہیں لکھا ہوتا۔ باپ سے نہیں، ہم محبت کرتے ہیں ماں سے کرتے ہیں۔ عورتیں پیاری ہوتی ہیں خیر، یہ ایک بات دوسری طرف بات چلی گئی۔

مورلک کہنے لگا یہ ٹوسٹر کی زندگی جو ہے یہ کامیاب آدمی پیدا کرتی ہے، اور سینک لگنے کی ضرورت ہے، لیکن میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان کے اندر جو رویہ ہے وہ بڑا گڈی گڈی بڑا لیے دیے رہنے کا انداز ہے۔ ہاتھ ملتے رہتے ہیں آپ ہر وقت ڈٹ کر اپنے آپ کو نہیں بتا سکتے کہ آپ پاکستانی ہیں، اور آپ کا، ایک فخر ہے، جیسا کیسا بھی فخر ہے۔ تو میں نے کہا، بھئی ہمارا کیا فخر ہے ہم تو بالکل شرمندہ ہیں۔ مثلاً ہم میں کیا خوبی ہے۔ اس نے کہا کہ دنیا کی واحد قوم ہے جو بڑی مہمان نواز قوم ہے۔ ٹھیک ہے، ہم غریب ہیں ہم چھوڑ رہے ہیں اپنی روایات۔ لیکن آپ سیالکوٹ میں جائیں کہیں گے جی کھانا کھا کے جائیں۔ ہمارے امریکہ میں یہ نہیں ہے، ہالینڈ میں یہ نہیں ہے، آپ اس پر فخر نہیں کر سکتے؟ میں نے کہا، نہیں ہم ڈرے ہوئے لوگ ہیں، اور ہم فخر نہیں کر سکتے۔ اس نے کہا، پھر اپنے آپ کو تھوڑا سا ٹوسٹر میں رکھا کرو۔ سینک لو، پھر فخر کی بات کرو۔ میں نے کہا، یہ یار تم عجیب سی بات کرتے ہو۔

کہنے لگا، جی بڑی دیر کی بات ہے پرانے زمانے میں چائنا میں جب منگ خاندان کے بادشاہ ہوا کرتے تھے، ایک آدمی کو سوئی کی ضرورت پڑی۔ غریب آدمی تھا چائنا کے لوگ بہت غریب بے حد و حساب غریب تھے، تو اسے سوئی نہ مل سکی۔ تو ایک دن چلا جا رہا تھا، خوش قسمتی سے، اس کو ایک لوہے کا اوزار، جس سے مٹی کھودتے ہیں وہ مل گیا، وہ بڑا خوش ہوا۔ ایک پتھر مل گیا اس کو گھسانے والا۔ اس نے کہا لو جی یہ تو بن جائے گی، سوئی ساٹھ ستر سال میں۔ وہ گھسا کے ساری اس نے باریک کر لی تھی۔ تو اس نے ساٹھ سال کے اندر وہ گھسا کے سوئی بنا لی، اور اپنے کام میں لے آیا۔ یہ کرنے والے کا کام ہے، جو بھاگ جائے، شکست خوردہ ہو جائے، ڈر جائے، مرعوب ہو جائے، اس کے لیے پھر بڑا مشکل ہوتا ہے زندگی کا کام کرنا۔ جب اس نے یہ بات کی تو مجھے اپنے کالج کا زمانہ یاد آیا۔ میں سیکنڈ ایئر میں تھا، تو یہاں لاہور میں ایک جگہ فلیمنگ روڈ ہے، وہاں رہتے تھے، ابا نے لیکر دیا تھا، ایک چوبارہ، ایک ملازم اور ایک کمرہ ساتھ تھا جہاں بیٹھ کر پڑھتے تھے، گاؤں سے آئے ہوئے۔ تو وہاں پر پرانی میوہ منڈی میں ایک دکان کو آگ لگ گئی۔ وہ دکان تھی گروسری کی۔ آٹا، دال، نمک۔ بساطی کہہ لیں اس کی دکان تھی۔ اور وہ ایسی ظالم آگ لگی، لوگ بیچارے بھاگے بالٹیاں لے کر، پریشانی کے عالم میں، فائربریگیڈ بھی جیسا تھا اس زمانے میں گڑگڑاتا ہوا پہنچا، لیکن وہ ساری کی ساری دکان بالکل خاکستر ہو گئی۔ ہم اس آدمی کو جانتے تھے، جس کی یہ دکان تھی۔ اگلے دن کالج جانے کے وقت میں وہاں سے گزرا تو میں بڑا حیران ہوا، وہاں جو راکھ کا ڈیر تھا نا سارا، اس کے اوپر ایک میز، اور کرسی لگا کر اس دکان پر بیٹھا ہوا تھا، اس کا مالک۔

اور اس نے ایک گتہ لکھ کر لگایا ہوا تھا “ ساری دکان جل گئی خاک کا ڈھیر بن گیا، بیوی بچ گئی، بچے بچ گئے، الحمد للہ، خدا کا شکر، کام بدستور جاری ہو گا۔ آج کے دن کی معافی چاہتا ہوں، کل دکان اسی میز پر کھولی جائے گی۔“

تو یہ ایک ارادہ اور ایک تہیہ ہوتا ہے۔ ایک مِن مِن ہوتا ہے، رونا، پیٹنا، مارے گئے، لوٹے گئے، جی برباد ہو گئے۔ اب ہم سے یہ کام نہیں ہو سکتا۔ اب ہم اتنی صلاحیت نہیں رکھتے کہ یہ ہم کام کر سکیں۔ تو جب تک آدمی کو زندگی میں سینک نہ لگے، اور وہ مقابلہ نہ کرے نامساعد حالات کا، تو اس وقت تک اس کے اندر پوری صلاحیت پیدا نہیں ہوتی، جیسی ایک ٹرینڈ فوجی کی ہوتی ہے۔ اس میں آپ کتنے بھی نقائص نکال لیں، لیکن اس کا ایک چوکھٹا ہوتا ہے۔ ایک وہ لوگ ہیں جو ایک اور قسم کے سکولوں میں پڑھے، ان کا میرے ساتھ آپ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ بڑے اچھے لوگ ہیں، بہت اعلٰی درجے کی تعلیم دلوا رہے ہیں۔ ایک اس کے درمیان ہے۔ وہ بھی پڑھا رہا ہے، اپنی ترقی کر رہا ہے۔ زندگی کا انداز ان کا، اور ہے۔ ایک، اور ہیں جو دینی تعلیم کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، خاص قسم کی پگڑیاں باندھ کر، خاص قسم کے رومال کندھوں پر رکھ کر، بہت اچھا کر رہے ہیں، ٹھیک کر رہے ہیں، لیکن ان کے درمیان ایک ربطِ باہمی نہیں ہے۔ تعلیم بسم اللہ الگ الگ ہو، بالکل اپنی مرضی کے مطابق ہو، لیکن ان لوگوں کے درمیان نہ صرف پُل بنا ہوا ہو، ان کے اندر سرنگیں بھی چلتی ہوں، تاکہ جب موقع ملے، تو وہ سرنگ سے گزر کر جا کر پوچھ سکیں کہ خان صاحب کیا حال ہے، کس طرح سے ہیں۔ تو جب تک ہم وہ فریج والی زندگی کا اعادہ کرتے رہیں گے، ہماری مشکلات میں اضافہ ہوتا رہے گا، اور ہم جو اپنے آپ کو فریش اور تروتازہ سمجھتے ہیں، اور ہم یہ یقین کیئے بیٹھے ہیں کہ اس طرح کی زندگی بسر کرنے میں ہم کو نہ صرف آسائش میسر آئے گی، بلکہ ہم آگے بڑھ کر نامساعد حالات کا مقابلہ بھی کر سکیں گے۔ ایسا ہو گا نہیں۔

یہ بہت ضروری ہے کہ آپ کے حالات جو ہیں، وہ زمانے کے حالات کے ساتھ ٹکراتے رہیں، ورنہ گھوم پھر کر اسی طرف کو لوٹ کر آتے رہیں گے اور آپس میں جھگڑا کرتے رہیں گے کہ ہماری تعلیم کا مقصد کہ ہونا چاہیے، ہماری تعلیم کو اس طرح سے چلنا چاہیے، ہمارے آپس کے تعلقات اس نوعیت کے ہونے چاہئیں۔ تعلقات تو جب ہوں گے جب آپ ایک دوسرے کے ساتھ ملیں گے۔ اس کے بغیر تو چارہ نہیں ہو سکے گا، پھر تو آپ کی آرزوئیں ہی آرزوئیں رہ جائیں گی۔ اور آرزو جو ہوتی ہے، وہ قال کی بات ہوتی ہے، گفتگو کی ہوتی ہے، گفتگو سے آگے کام بڑھتا نہیں ہے۔ میں آپ کو عرض کروں کہ مجھے بات یاد آ گئی پتا نہیں کرنی چاہیے کہ نہیں۔ ہمارے یہاں پر ایک صاحب تھے، انہوں نے اپنی بیوی کے نام خط لکھے اور اس کمال کے خط وہ تھے، اتنی محبت تھی ان میں، اتنی یگانگت، اتنا پیار کہ میں نے باوجود ایک ادیب ہونے کے ایسی انشاپردازی کے نمونے اردو زبان میں نہیں دیکھے تھے اور اس کی بیوی نے جو بدستور اس کو خط آتے رہے وہ چھاپ دیئے، مجھے تو جبھی پتا چلا۔ ورنہ مجھے اس نے دکھانے تو نہیں تھے۔ کتابی صورت میں چھپ گئے۔ چھپ کے جب سامنے آئے میں نے پڑھے، میری بیوی نے پڑھے، ہم ایک دوسرے سے شرمندہ ہوئے کہ دیکھو محبت تو اسکو کہتے ہیں، اور یگانگت اس چیز کا نام ہے، اور ایک دوسرے کو جاننا۔ وہ صاحب کہیں باہر تھے، دور ملک میں، کہیں ناروے وغیرہ یا کہیں اور۔ ظاہر ہے وہاں سے لکھے تھے۔ تو مجھے تھوڑے دن ہوئے ان کی بیوی ملی، میرے ساتھ متعارف ہوئی۔ میں ان کو جانتا نہیں تھا میں نے ان سے کہا، بھئی ہم نے خط پڑھے تھے، بہت حیران و پریشان ہوئے اور تم نے بہت اچھا کیا جو تم نے اسے کتابی صورت میں شائع کرایا، تو کمال کی چیز ہے وہ۔ کہنے لگی، ہاں سر جب وہ کتابی صورت میں چھپے تھے، اس کے ڈیڑھ مہینے کے بعد ہماری طلاق ہو گئی۔ میں نے کہا، میں تم سے ان خطوں کی بات کر رہا ہوں۔ تو وہ کہنے لگی، سر اصل میں وہ میں بھی آپ ہی کی طرح سمجھتی رہی۔ دراصل اس میں محبت کا شائبہ نہیں تھا۔ اس میں انشا پردازی کا کمال دکھایا تھا صاحب نے۔ ہوتا ہے نا دسویں جماعت میں پرچا آتا تھا خط کشیدہ الفاظ کو اپنے فقروں میں استعمال کریں۔ ٹھیک ہے نا جی۔ مہنگائی، دردمندی، طمطراق وغیرہ۔ عجیب و غریب بات تھی۔ تو اس نے دکھایا تھا کہ دیکھو میں یہ لفظ بھی استعمال کرتا ہوں۔ محبت کے جتنے شعر ہیں۔ وہ بھی استعمال کرتا ہوں۔ تو اس لیے قال سے اور قول سے جو طاقتور لوگ ہوتے ہیں، وہ بڑی ہمت کے ساتھ بڑے طریقے کے ساتھ۔ اور پھر میں یہ کہوں گا، بڑے سبھاؤ کے ساتھ، سبھاؤ ایک خاص رویہ ہوتا ہے جس میں کسی کو تنگ کیئے بغیر Irritate کیئے بغیر، کسی کو کسی کے ساتھ جھگڑا کیئے بغیر، آسانی سے آدمی اس پر سے گزرتا چلا جاتا ہے۔ تو ابھی یہ بات چونکہ چلی تھی تو اس میں میں عرض کر رہا تھا کہ اب ہم کو اللہ کے واسطے اس قال کی دنیا سے کسی حد تک نکل آنا چاہیے۔ یہ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا اخباروں میں، کہ ہم کو چاہیے کہ ہم اسلام کے اصولوں پر عمل کریں۔ یہ “ چاہیے “ جو لفظ ہے نا، یہ اب ختم ہو جانا چاہیے۔ چھوٹے بچے کو ہم کہتے ہیں کہ پیارے بچے تم کو چاہیے کہ سیدھے پاؤں کا بوٹ سیدھے میں ڈالو، الٹے پاؤں کا بوٹ الٹے میں۔ چھوٹے بچے دیکھے ہیں، اکثر الٹا بوٹ پہنتے ہیں تو ان کہ “ چاہیے “ کہہ سکتے ہیں، لیکن ایک قوم میچور ہو جائے باون برس اس قوم کی عمر ہو جائے، اسے بار بار یہ کہتے ہیں، ہم کو چاہیے کہ ہم ساری برائی ترک کر دیں۔ یہ بڑا مضحکہ خیز اور شرمناک سا فقرہ لگتا ہے، یا ہم کو چاہیے ہم ایسا کریں۔

اس طرح کی جب نیوز آتی ہیں تو میں چھوڑ دیتا ہوں کہ یہ تو لفظ چاہیے کا استعمال ہے، جیسے خط کشدہ الفاظ کو استعمال کیا گیا ہے، تو اس لیے اب ہم میچور ہو گئے ہیں، اب ہم بڑے ہو گئے ہیں، اللہ کے فضل سے ہم تریپن سال میں داخل ہو رہے ہیں۔

تو ہمیں مقابلے کی جوت ہے، دوسری قوموں سے مقابلہ کرنا ہے اور سب سے بڑی ذمہ داری کی جو میں بات کرتا ہوں کہ ساؤتھ ایشیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کو دوسرے ملکوں کی Protection کرنی ہے۔ ان کو حفاظت عطا کرنی ہے، ورنہ ایک بہت بڑا ظالم ملک ہے یہاں۔ یہ چھوٹے چھوٹے ملک، نیپال ہے، بھوٹان ہے، سکم ہے، سری لنکا ہے، برما ہے، افغانستان ہے۔ یہ پاکستان کی ذمہ داری ہے، یہ میری اور آپ کی ذمہ داری ہے، ہم طاقتور قوم ہیں، بڑی قوم ہیں، ہم ایک اٹامک انرجی کی مالک قوم ہیں۔ ہمیں تو نہ صرف اپنے آپ کو، بلکہ ساؤتھ ایشیا کی ذمہ داری ہم پر آ گئی ہے۔ اٹامک پاور بننے کے بعد ہم نرم، اور پلپلے ہو کر رہے تو یہ کام نہیں ہو گا۔ پھر تو بہت مشکل پڑ جائے گی۔ ہم بہت پائندہ قوم ہیں، اور ہر آدمی کو ہر وقت چلتے ہوئے، سوچتے ہوئے کوتاہیاں کتنی بھی ہو جائیں گرتا پڑتا رہے آدمی، لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ میرا ٹارگٹ کیا ہے؟

حرم شریف میں مجھے ایک آدمی ملا۔ لمبی کہانی ہے، لیکن اس نے اپنی پگڑی دھو کے زم زم میں ڈالی ہوئی تھی۔ مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی۔ میں نے پوچھا، کون ہے؟ کہنے لگا سائیں ہم پاکستانی ہیں۔ میں نے کہا، کہاں سے آئے ہیں۔ کہا ہم سندھ سے آئے ہیں۔ میں نے کہا، آپ کب سے ہیں یہاں۔ کہنے لگا، مجھے اکیس برس ہو گئے ہیں یہاں رہتے ہوئے۔ میں نے کہا، سبحان اللہ، کیا کرتے ہو؟ کہنے لگا، سائیں ہم منڈی میں بوجھا ڈھوتے ہیں۔ صبح وہاں سے چار پانچ ریال مل جاتے ہیں۔ کھانے پینے کا اللہ کا شکر ہے، پھر ہم حرم میں‌آ کے بیٹھ جاتے ہیں۔ سائیں اس کو دیکھتے ہیں۔ میں نے کہا، سبحان اللہ بڑے خوش نصیب ہو، تو میں نے کہا، سائیں تم یہاں حرم شریف میں اتنی دیر سے کیا کرتے ہو۔ کہنے لگا، سائیں ہم گر پڑتے ہیں اور پھر اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں، پھر گر پڑتے ہیں، پھر اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تو انسان کا یہی کام ہے پھسلتا بھی ہے، گرتا بھی ہے، لیکن پھر اٹھ کر کھڑے ہونے کا کام بھی ہے۔ جو سندھی بابا نے بتایا۔ اس سندھی بابا کو سلام ہو جو مزدور تھا، جس نے لاکھ روپے کی، کروڑ روپے کی بات کی، کھڑے ہو جانے کی، تو ان کو سلام ہو۔ آپ کو سلام ہو۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین۔
 

شمشاد

لائبریرین
قول اور نفس

ہم اہلِ زاویہ کی طرف سے آپ سب کو سلام پہنچے۔

قول کی حد تک نفس راضی رہتا ہے اور خوش ہوتا ہے، لیکن جب عمل کی صورت میں جانا پڑے، تو پھر گھبراتا ہے، اور خدمت کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرتا۔ یہ ایسی بات تھی جو ہم کو سننی پڑی پہلی مرتبہ ڈیرے پر جا کر، تو اس کا مفہوم کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ پہلی بات یہ کہ ہمارے لیے نفس کا تصور ہی نہیں تھا کہ یہ کیا چیز ہے۔ دوسرے یہ کہ قول کیا ہوتا ہے۔ تیسرے یہ کہ خدمت کا صحیح مفہوم کیا ہے۔ ہم نے بابا جی سے پوچھا کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ انہوں نے مجھ سے پوچھا، آپ کیا کرتے ہیں۔ میں نے کہا جی میں ارسانے لکھتا ہوں۔ کہنے لگے وہ کیا ہوتا ہے۔ میں نے کہا، جی کہانیاں۔ میں وہ لکھتا ہوں۔ کہنے لگے یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ بڑی خوشی ہوئی، لوگ پڑھتے ہیں سنتے ہیں۔ میں نے کہا، جی ہاں۔ کہنے لگے، آپ نے کتنی کہانیاں لکھیں، اب تک۔ میں نے کہا کوئی سو کہانیاں لکھیں۔ کہنے لگے یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ کہنے لگے سو کہانیاں تو بہت ہوتی ہیں، اتنی چھوٹی عمر میں آپ نے لکھیں۔ مجھے یہ بتائیں، اس میں حال پر کتنی کہانیاں لکھیں۔ یہ میرے لیے ایک نیا لفظ تھا، جیسے آپ کے لیے بھی نیا ہے کہ “حال پر“ کا کیا مطلب؟ وہاں ان کے سیکرٹری صاحب تھے انہوں نے کہا، بابا جی پوچھتے ہیں آپ کے اوپر حال کی صورت میں گزری ہوئی کہانی جو آپ نے لکھی ہے، یعنی وہ آپ کی زندگی کا ایک حصہ ہو۔ آپ پر گزری ہو اپ کا حال رہا ہو، آپ کی کیفیت رہی ہو، تو میں سوچ میں پڑ گیا۔ میں نے کہا، سر جس بات کا تعلق میرے حال سے ہے میرے مشاہدے سے نہیں، میرے مطالعے سے نہیں، بلکہ میری اندر کی ذات سے ہے وہ تو ان سو میں سے شاید تین بنتی ہیں۔ تین یوں کہ ایک دفعہ مجھے ایف - اے میں ایک لڑکی سے محبت ہو گئی تھی، تو وہ بیچاری فوت ہو گئی تھی۔ وہ کہانی میں نے بڑے دردناک انداز میں لکھی تھی، جی وہ تو میر ایک حصہ تھا۔ اس طرح سے دو اور کیفیات میں سے گزرا ہوں۔ تو کہنے لگے باقی ستانوے آپ نے کیسے لکھیں۔ میں نے کہا پڑھ پڑھا کے، اخبار میں کچھ چھپا کہ ملتان میں یہ ہو گیا، ساہیوال میں یہ کیفیت گزری، پنوں عاقل کے لوگوں کے اوپر یہ ہوا، تو اس کی کہانی بنا ڈالی۔ کہنے لگے، نہیں یہ تو نفس کو دھوکہ دینے والی بات ہے، اور قول کو ایسے ہی پھیلانے والی بات ہے۔ ہم سوچنے لگے غور کرنے لگے کہ نفس ہوتا کیا ہے۔ جناب نفس ایک اہم شے ہے۔ آپ نے کبھی وہ باجا دیکھا ہے جو پرانے زمانے میں ہوتا تھا، جس پر توے لگتے تھے۔ Disk چلتی تھی۔ پرانے گھروں میں ہوتا ہے۔ اس میں ہم چابی بھرتے تھے، تو اس کے اندر ایک چار گٹور والا گورنر چلتا تھا۔ وہ سپیڈ کو باندھ کر رکھتا تھا۔ نہ وہ کم ہونے دیتا تھا، نہ بڑھنے دیتا تھا۔ ایسے ہی جیسے ایک پنکھے کا Regulator ہوتا ہے، اس طرح نفس بھی انسانی وجود کے اندر ایک Regulator ہے، اور وہ اپنی مرضی کے ساتھ وجود کا اتار چڑھاؤ، گرمی سردی، مزاج مقرر کرتا ہے۔ جیسے آپ کے A.C یونٹ میں ہوتا ہے۔ کبھی اس کو فین پر کر دیتے ہیں، کبھی اس کو یونٹ پر کر دیتے ہیں، جیسے آپ کی کار کا سٹیئرنگ ہوتا ہے، جیسے آپ کے ہوائی جہاز کا Telescope ہوتا ہے کہ اونچا نیچا ہونے پر وہ بتاتا رہتا ہے کہ کتنا اونچا گیا ہے۔ اسی طرح انسانی وجود کے اندر اس کا نفس ایک Telescope ایک سٹیئرنگ ہے۔ وہ اس کو بتاتا رہتا ہے کہ تو میری مرضی کے مطابق کام کر۔ اپنی مرضی کے مطابق یا جو تجھے احکام ملے، یہ مت کر، اور پھر ہم سوچتے ہیں یہ بدبخت کدھر سے آ گیا۔ ہم نے نہ اسے بازار سے خریدا، نہ اسے رشتے داروں سے لیا، نہ اسے کہیں سے منگوایا ہے۔ تو دو سال کی عمر تک کے بچے کے اندر تو نفس موجود نہیں ہوتا۔ وہ بڑی خوشی کے ساتھ دوسرے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے کھلونے شیئر کرتا رہتا ہے، اور ان کے ساتھ لڑائی کرتا ہے۔ چھینا جھپٹی، بھاگا دوڑی، لیکن اس کے اندر کسی قسم کی منافقت یا رنجش پیدا نہیں ہوتی، پھر سے دوست بن جاتے ہیں، پھر کھیلنے لگتے ہیں۔ وہاں پر اس کا نفس موجود نہیں، لیکن دو سال کی عمر گزرنے کے بعد ماہرین کہتے ہیں نفس کا بیج بویا جانے لگتا ہے، اور یوں سمجھیں آپ کی آسانی کے لیےکہ یہ نفس کمزور ایسے ہی ہوتا ہے، جیسے آپ اپنے گھر میں مری جاتے ہوئے، سوات جاتے ہوئے، یا صحت افزا مقام پر جاتے ہوئے اپنے ملازم کو چھوڑ گئے ہیں، وہ گھر کی نگہداشت کرے۔ تو جب آپ لوٹ کر آئیں تو وہ ملازم گھر کا مالک بن جائے اور آپ سے پوچھے، جناب آپ کیا چاہتے ہیں؟ کس سے ملنا ہے؟ وہ کہے، میری مرضی کے بغیر، میری اجازت کے بغیر یہاں کوئی داخل نہیں ہو سکتا۔ میں آپ کو کنٹرول کروں گا۔ اس نفس کی جو سب سے زیادہ مرغوب غذا ہے وہ قول ہے، گفتگو ہے۔ گفتگو سے یہ بہت موٹا ہوتا ہے اور یہ اپنی گفتگو کو عام کرنے میں لوگوں کو مرعوب کرتا ہے۔ اس کی مرغوب غذا تو قول ہے، لیکن لوگوں کو اپنے اختیار میں رکھنا، اور ان کو مرغوب کرنا یہ اس کا فعل ہے۔ تو یہ ذرا پیچیدہ سی بات شروع ہو گئی، کیونکہ بابا جی کا خیال آ گیا تھا، قول کے ساتھ جب آدمی وابستہ ہوتا ہے، تو اپنے آپ کو بھی دھوکا دیتا ہے۔ لوگوں کو بھی دھوکہ دیتا ہے، جیسے سیاستدان۔ وہ بڑی نیک نیتی کے ساتھ قول کی بات کرتے ہیں کہ جب میں حکومت میں آ گیا تو میں آپ کی تنخواہ دس ہزار روپیہ فی مہینا کر دوں گا۔ یہاں آ گیا تو گھر بنوا دوں گا۔ آپ کے گھروں میں دیواروں پر کارپٹ اور پردے لگوا دوں گا اور ہم لوگوں سمیت سبھی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کتنی اچھی بات کر رہا ہے۔ وہ شاید خود نہیں کر رہا ہوتا، اس کا نفس اس کے اندر چابی بھر کے کہہ رہا ہوتا ہے کہ کہہ دے، کیونکہ میں نے یہ آزما کے، اور پرتا کے دیکھا ہے کہ گفتگو کر دینا کافی ہوتا ہے۔ اس سے آدمی کبھی بھی تحقیق کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتا، وہ صرف کہتا اچھا لگتا ہے، مجھے ایسے ہی خیال آ گیا، جب ہم مڈل میں تھے تو ہمارے ایک استاد تھے، وہ ہمیں جغرافیہ پڑھاتے تھے، لیکن وہ بہت موٹے تھے۔ ان کا جسم پلپلا تھا۔ کافی قد تھا۔ بچہ انکا کوئی نہیں تھا۔‌ صرف بیوی تھی۔ ڈاکٹر نے ان کو ورزش کرنے کو کہا تو انہوں نے ورزش کرنے کی ایک کتاب خریدی، جس میں ورزش کرنے کے بارے میں ہدایات تھیں۔ تو وہ چارپائی پر لیٹ کر اپنی بیوی سے کہا کرتے تھے کہ میری پیاری بیوی مجھے یہ کتاب پڑھ کر سناؤ اور وہ سناتی تھیں۔ ہم انکے پاس جاتے تھے، تو ہم ان سے پوچھتے تھے ماسٹر صاحب آپ یہ کیوں سنتے ہیں؟ کہنے لگے، ڈاکٹر صاحب نے مجھے ایکسرسائز کرنے کا حکم دیا ہے۔ میری بیوی پڑھتی جاتی ہے، اور میں غور سے سنتا جاتا ہوں۔ اب وہ سمجھتے تھے کہ اس کے قول سے اور اس کے کہنے سے ایکسرسائز ہوتی رہے گی اور میرا وزن کم ہوتا رہے گا اور میں سمارٹ ہوتا رہوں گا۔ لیکن وہ بیچارے اسی موٹاپے میں فوت ہو گئے اور ان کی کوئی ایکسرسائز نہ ہو سکی۔ عمل اور قول میں یہ تضاد جو ہے نا، یہ ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے، اور عام زندگی کا اگر آپ مطالعہ کریں تو لوگوں کو منافق کہنے سے پہلے یا ان کو ڈبل سٹینڈرڈ کا کہنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیں کہ ہمارے اندر بیٹھے ہوئے اس طوطے کا یہ فعل ہے جو ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ قول اور عمل کو ساتھ ملا کر چلنے سے البتہ آدمی کی فلاح کے راستے نکلتے ہیں۔

ایک دفعہ بہت بادل سا چھا گیا لیکن اس میں بادل کا کوئی قصور نہیں تھا۔ میں اور میرا بڑا بھائی جو کہ کلاس میں بھی مجھ سے ایک سال بڑے تھے۔ ہم کتنی دیر سے چلے، اور گھر سے سکول کا فاصلہ ذرا زیادہ تھا۔ جس گاؤں میں ہم رہتے تھے فاصلے پر تھا، اور اساتذہ ہمارے سخت تھے تو اندیشہ اس بات کا تھا کہ ہم دیر سے سکول پہنچیں گے۔ میری عادت تھی کہ جلد پریشان ہو جاتا تھا۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا بھائی صاحب ! سکول تک ہم نہیں پہنچ سکتے، بہتر یہی ہے کہ یہاں بیٹھ کر اللہ سے دعا کریں کہ اے خدا ہماری مدد فرما اور یہاں بیٹھ کر چاروں قُل پڑھیں اس کا اچھا اثر ہو گا۔ تو میرے بھائی نے کہا، اٹھو تیز تیز بھاگتے جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ قُل بھی پڑھتے جاتے ہیں۔ خالی بیٹھ کر پڑھنے سے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ اس کے ساتھ یہ چیز مکس کر دو۔ تو یہ بات نفس پر گراں گزرتی کہ یہ اتنی ساری چیزیں لے کر ساتھ کیسے چلا جائے۔ بلکہ یہ تو زندگی میں چیزیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ اب چونکہ مجھے اپنے گاؤں کی بیک گراؤنڈ یاد آ گئی، وہاں ہماری بہت بڑی منڈی تھی، وہاں ہفتے کو دانہ آتا تھا، کیونکہ Agriculture لینڈ تھی، وہاں ہمارا ایک آڑھتی تھا، وہ بہت “درد مند“ قسم کا آدمی تھا۔ وہ اپنے گوداموں کو موٹے موٹے تالے لگا کر لمبی لمبی چابیاں لگا کر کہتا رہتا تھا کہ بیچارے غریبوں کا بہت برا حال ہے۔ اب بھی آپ نے اکثر سنا ہو گا، جس آدمی کے پاس بھی فارغ وقت ہوتا ہے، کہتے ہیں مہنگائی بہت ہو گئی ہے۔ بیچارے غریب کیا کریں گے۔ آپ بھی روز گفتگو میں کہتے ہیں۔ ایسے ہی وہ کہا کرتا تھا، بیچارے غریبوں کا برا حال ہے۔ ان کو ایک وقت کی روٹی نہیں ملتی کیا کریں۔ وہ قول کی بات کرتا تھا، قول کے ساتھ وابستہ تھا، اس کی زندگی ایسی ہی تھی۔

اس کا بیٹا ہمارا ہمدرد تھا۔ ساتویں آٹھویں میں پڑھتا تھا، اس کو یہ بات بہت ناگوار گزرتی تھی کیونکہ جب بھی کوئی فقیر یا گداگر آتا اور کہتا کہ اللہ کے نام پر مجھے ایک سیر گندم دے یا مکئی دے، اس وقت سیر ہی وزن میں استعمال ہوتا تھا۔ تو وہ کہتا تھا، بھئی یہ اللہ نے کیا کیفیت بنا رکھی ہے، میں بڑا دکھی ہوں، تجھ کو اور تیرے بچوں کو اللہ سلامتی عطا کرے، اور تمہارے گھر پر بارش ہو نعمت کی فراوانی کی۔ فقیر بیچارا چلا جاتا تھا، اس کی باتیں سن کر۔ اس کا بیٹا اس سے ہمدرد تھا، تو اس نے ایک روز اپنے باپ سے کہا، باپو ! تو ایسے کر کہ تو یہ جو لوگوں کی بہتری کا کام کرتا ہے نا، یہ میں کر دوں گا۔ اس نے کہا، تو کیسے کر دے گا۔ کہنے لگا، یہ گودام کی چابی مجھے دے دے، تو دعا مانگتا رہ، میرے پاس چابی ہو گی۔ آڑھتی نے غصے سے کہا خبردار تو نے ایسی بات کی۔ دعا مانگنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ اچھا اللہ بھلا کرے، لیکن چابی جو ہے وہ مضبوطی کے ساتھ لگی رہنی چاہیے۔ تو میں کہہ رہا تھا نفس کو ٹرینڈ کرنے کے لیے اور اس نفس کو صحیح راہ پر رکھنے کے لیےبزرگوں نے، لوگوں نے، سائنسدانوں نے، سائیکوتھراپسٹ نے بڑے طریقے ایجاد کیے ہیں، لیکن یہ قابو میں نہیں آتا، اور ہر وقت آدمی کو Vigilant ہو کے Attentive ہو کے، ہوشیار ہو کے، چوکس ہو کے، اس کی طرف نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے، ورنہ آدمی کا انجام جو ہے، اچھا نہیں ہونے دیتا۔ شیطان اتنا نقصان نہیں کرتا۔ جتنا نفس کرتا ہے۔ اس کا بنیادی تعلق گفتگو کے ساتھ ہے اور بات کے ساتھ ہے اور یہ بات سے نکلنے نہیں دیتا۔ اس لیے آپ نے دیکھا ہو گا اس وقت بھی، اس سے پہلے بھی، جب اخبار نہیں چھپتے تھے، الیکٹرانک میڈیا نہیں تھا۔ میرے جیسا پروگرام نہیں ہوتا تھا تو اتنی گفتگو نہیں ہوتی تھی۔ اب اخبار بھی چھپتے ہیں، ایڈیٹوریل تھی لکھے جاتے ہیں، کالم بھی روز آپ کے سامنے پیش کیئے جاتے ہیں، لیکن وہ سب کچھ جو ہونا چاہیے، وہ ہو نہیں رہا۔ یہ انسانی زندگی جو کہ ایک بڑا تناور وجود ہے، اس کی ایک Entity ہے جس کا ایک بوجھ ہے، اس کا سہارا نہیں ہے۔

ایک بادشاہ تھے، وہ شاید چین کے تھے، یا کسی اسلامی دنیا کے تھے۔ ان کے ایک پیر تھے اور ان کے بہت بہت پیروکار، اور مرید تھے۔ ان کی تعداد ہزاروں میں تھی، تو لوگ حیران ہوتے تھے اور وہ جس راہ سے جس گاؤں قریہ سے گزرتے تھے مریدوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا تھا۔ جو جب وہ دربار، بادشاہ یا خلیفہ کے مقام پر پہنچے تو انہوں نے بڑی آؤ بھگت کی، اور ان کا بڑا جشن منایا تو تقریباً 50 ہزار ان کے پیروکار جو تھے وہ کھلے میدان میں جمع ہو گئے اور وہ سب اپنے مرشد کے درشن کرنے کے لیے دن رات وہاں بیٹھے رہے۔ بادشاہ نے بہت خوش ہو کر اس مرشد سے کہا آپ بہت خوش نصیب آدمی ہیں کہ آپ کے معتقدین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انہیں گنا بھی نہیں جا سکتا، اور دیکھیے کیا جمِ غفیر بیٹھا ہے۔ لوگوں کے سر ہی سر دکھائی دے رہے ہیں۔ تو انہوں نے کہا، یہ جو سارے کے سارے بندے جو میرے مرید ہیں، اور یہ جو میرے معتقدین ہیں، یہ سارے کے سارے قول کے آدمی ہیں۔ ان کا میرے ذات کے ساتھ یا میرے وجود کے ساتھ یا میری روحانی درس و تدریس کے ساتھ کوئی گہرا تعلق نہیں ہے۔ یہ مجھے ماننے والے نہیں ہیں۔ بس چلے آ رہے ہیں میرے پیچھے پیچھے۔ آپ سڑک پر نکل کر کھڑے ہو جائیں اور ایک طرف آنکھیں اٹھا کر دیکھنے لگیں، آہستہ آہستہ ٹریفک رکنے لگے گی اور کوئی نہ کوئی آدمی اپ کے ساتھ ساتھ منہ اٹھا کے ادھر دیکھنے لگے گا پوچھے گا نہیں کہ اپ کیا دیکھ رہے ہیں۔ پھر ایک اور آ جائے گا، اس طرح بے شمار لوگ اکٹھے ہو جائیں گے۔ یہ ویسے ہی لوگ ہیں۔ اسی طرح کے۔ انہوں نے کہا، میں یہ بات نہیں مانتا یہ تو بہت گہرے عقیدت مند نظر آتے ہیں۔ ان کی دل و جان نگاہیں، آپ پر لگی ہوئی ہیں۔ آپ یہ کیسے کہتے ہیں، یہ خالی قول کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا اگر آپ ٹیسٹ کرنا چاہتے ہیں تو یہ لیبارٹری ٹیسٹ ہے، اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ ہاں یہ جو پچاس ہزار آپ کو نظر آتے ہیں میرے مریدین، میرے معتقدین، میری پیروی کرنے والے، ان میں سے صرف ڈیڑھ شخص ایسا ہے جو میری عقیدت والا ہے اور مجھ پر جاں نثاری کر سکتا ہے اور مجھ کو مانتا ہے، اور باقی کے ایسے ہی ہیں۔ بادشاہ بہت حیران ہوا کہ یہ کیسے کہہ رہا ہے۔ یہ ڈیڑھ کیسے کہہ رہا ہے اور اس نے کہا، ٹیسٹ کیسے کریں؟ اس نے کہا ٹیسٹ ایسے کریں کہ ان کے نفس کا ٹیسٹ‌کریں۔ پرانے لوگ اپنے طرز پر ٹیسٹ کرتے تھے۔ انہوں نے کہا، اسی میدان کے اوپر ایک ٹیلا ہے، اور اس ٹیلے کے اوپر مجھے آپ ایک جھونپڑی بنوا دیں، فوراً رات کی رات میں بنوا دیں، جیسے بزرگ لوگ جھونپڑی میں رہتے ہیں۔ میں اس میں رہوں گا۔ تو بادشاہ نے جھونپڑی بنوا دی۔ اس جھونپڑی میں اس بزرگ نے دو بکرے باندھ دیئے اور کسی کو پتا نہیں کہ اس میں دو بکرے باندھے گئے ہیں، اور پھر وہ جھونپڑی سے باہر نکلا اور کچھ دم درود اور وظیفہ کیا، اور اونچی آواز میں کہا، ہے کوئی میرے سارے مریدین میں سے جو مجھ پر جان چھڑکتا ہو؟ میری بات دل کی گہرائیوں سے مانتا ہو، اور میرے ساتھ ہر بری اچھی میں ساتھ دینے والا ہو اگر کوئی ایسا ہے تو وہ میرے پاس آئے اور میرے ساتھ رہے، جو قربانی اس سے مانگوں وہ دے۔ بس سناٹا چھا گیا۔ سب لوگ جہاں بیٹھے تھے دم بخود بیٹھے رہے۔ دم بخود بیٹھے رہے۔ کہ اللہ جانے یہ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ اب اس پچاس ہزار کے جمِ غفیر میں سے صرف ایک آدمی اٹھا، وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا، ڈھیلے پاؤں رکھتے اس کے پاس گیا۔ اس نے کہا تجھ میں یہ دم خم ہے؟ اس نے کہا، ہاں ہے۔ کہا، آ میرے ساتھ۔ اس نے اس کی کلائی پکڑی اس کو جھگی کے اندر لے گیا، اور وہاں کھڑا کر دیا، اور کہا خاموشی کے ساتھ کھڑا رہ۔ پھر اس نے ایک بکرے کو لٹایا، چھری نکالی، اور اسے ذبح کر دیا جھونپڑی کی نالی کے پاس۔ اور جب خون نکلا تو پچاس ہزار کے گروہ نے دیکھا، اور وہ خون آلود چھری لے کر باہر نکلا، اور کہا قربانی دینے والے شخص نے قربانی دے دی۔ میں اس سے پوری طرح سے مطمئن ہیں۔ اس نے بہت اچھا فعل کیا۔ جب لوگوں نے یہ دیکھا تو حیران، اور پریشان ہو گئے۔ اب ان میں سے لوگ آہستہ آہستہ کھسکنے لگے۔ کچھ جوتیاں پہن کر کچھ جوتیاں چھوڑ کر پیچھے بیٹھنے والے سوچتے ہوئے کہ اللہ جانے، یہ میرے ساتھ کیا کرئے گا؟ کم ہونا شروع ہو گئے۔ جب کم ہونے لگے، تو انہوں نے کہا، اے لوگو ! قول کے آدمی نہ بننا صرف مضبوطی، اور استقامت کے ساتھ کھڑے رہنے کو کوشش کرنا۔ یہ تو جو ہوا قربانی دینے والا اس کو تو مانا آپ نے بھی۔ اب میں پھر ایک اور صاحب سے کہتا ہوں، وہ بھی اپنے آپ کو قربانی دینے کے لیے پیش کرئے، اور میرے پاس آئے، کیونکہ یہ اس کے نفس کا ٹیسٹ ہے۔ تو سناٹا چھایا ہوا تھا۔ کوئی آگے نہ بڑھا۔ اس دوران ایک عورت کھڑی ہوئی۔ تو اس نے کہا۔ اے آقا میں تیار ہوں۔ اس نے کہا بی بی آ۔ اس نے کہا، بسروچشم۔ چنانچہ وہ بی بی چلتی چلتی جھگی میں گئی، اس بیچاری کے ساتھ تھی وہی ہوا، جو پہلے کے ساتھ ہوا۔ اندر اسے کھڑا کیا، اور دوسرا بکرا ذبح کر دیا، اور اس کے پرنالے سے خون کے فوارے چھوٹے۔ جب یہ واقعہ ہو چکا تو بادشاہ نے کہا کہ آپ صحیح کہتے تھے، کیونکہ وہ میدان سارا خالی ہو گیا تھا۔ پچاس ہزار آدمی، ان میں سے ایک بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، میں نے کہا تھا تھا میرے ماننے والوں میں سے صرف ڈیڑھ شخص ہے جو مانتا ہے۔ بادشاہ نے کہا، ہاں میں مان بھی گیا اور سمجھ بھی گیا، اور وہ شخص تھا وہ مرد تھا وہ پورا تھا، جبکہ وہ عورت جو عورت تھی وہ آدھی تھی۔ اس نے کہا نہیں بادشاہ سلامت یہ مرد آدھا تھا اور عورت پوری تھی۔ پہلا جو آیا تھا اس نے کوئی خون نہیں دیکھا تھا۔ اس بی بی نے دیکھا تھا، جو واقعہ گزرا، پھر بھی اٹھ کر آنے کے لیے تیار ہوئی تھی، اس لیے وہ سالم Entity پر ہے خاتون، اور آدھا وہ مرد ہے۔ میرے ماننے والوں میں ڈیڑھ لوگ ہیں، باقی سارے نفس کے بندے ہیں۔ تو اس نفس کے ساتھ انسان کی اپنے طرز کی لڑائی رہتی ہے۔ کہیں کامیاب ہوتا ہے کہیں گر جاتا ہے۔ یہ وہ گیند ہے، جب زمین پر مارو تو اچھلتا ہے، پھر زمین کی طرف آتا ہے۔ اللہ ہم آپ کو تقویت عطا کرے۔ ہم اپنے نفس کا معائنہ کر کے اس کو قابو میں لانے کے لیے ان لوگوں کی تعلیم پر علم پیرا ہو سکیں، جنہوں نے ہمیں بنے بنائے نسخے دیئے ہیں کہ اس پر عمل کریں، اور جیسے نبیوں نے، جو انسانوں کی صورت میں نبی ہم کو ملتے رہے ہیں، انہوں نے ہمیں بنا بنایا پروگرام دیا۔ اس پر عمل کرتے رہیے۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین۔ اللہ حافظ۔
 

فریب

محفلین
مایوسی​
یہ جو مایوسی کا بھنور ہوتا ہے۔ یہ بڑا ظالم گرداب ہوتا ہے۔ اس کے کنارے کنارے پر آدمی چلتا رہے تو بچنے کی کچھ امید ہوتی ہے۔
لیکن جب بہت گہرا اتر جائے تو بچنے کی کوئی آس باقی نہیں رہتی۔ میں ابھی ایک ایسی محفل سے اٹھ کر آیا ہوں جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے موجودہ حالات پر تبصرہ کررہے تھے، اور ان کے اندر مایوسی اور نا امیدی کی ویسی کیفیت پیدا ہو گئی تھی جیسی کہ کسی زمانے میں جب ہم ان کے ہم عمر تھے، ہمارے اندر پیدا ہوئی تھی۔ ہمارے زمانے میں چونکہ کوئی Psychiatrist ، کوئی ڈاکٹر، کائی ماہر نفسیات نہیں تھے ، اس لیے ہم اپنے دکھ کا مداوا کرنے کے لیے ان بڑوں کی طرف بھاگتے تھے جن کے پاس کوئی ایسا پوشیدہ نسخہ ضرور ہوتا تھا، جس کو آپ ہمارا "بابا" کہ لیں، تو وہ ہماری مشکلات کے حل ڈھونڈ کر ہمیں دے سکتے تھے۔ جب ہم بابوں سے پوچھتے تھے کہ آپ ایسا نسخہ کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟ تو وہ کہتے تھے کہ آپ بھی یہ فن، طب روحانی کا علم سیکھ سکتے ہیں کیونکہ نسخہ ساءل کے پلے بندھا ہوا ہوتا ہے۔ اس کو صرف کھولنا ہوتا ہے اور اس کے حوالے کر دینا ہوتا ہے۔ آدمی اس کے ساتھ جھگڑا کرتا ہے، تکرار کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ڈائیلاگ میں شریک ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے پلو میں بندھا نسخہ کھولنا مشکل ہو جاتا ہے، اور اس کا پھر کوئی علاج نہیں ہو پاتا۔ ہم بری گہری مایوسی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ تو انھوں نے کہا، آپ کو کم از کم مایوس ہونے نا امید ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔ وہ لوگ جو آپ سے پہلے گزر گئے یا جن کا کوئی نام و نشان باقی نہ رہا، جن کے بارے میں لوگ جانتے نہیں ہیں یا جن کا صفحہ ہستی پر کوئی مواد تحریر نہیں، ان کو تو مایوس ہونے کا حق ہے، لیکن آپ کو حق نہیں ہے۔ میری طرف مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ آپ جو ہیں، آپ کے جو بڑے پردادا تھے وہ پورس کی فوج میں ملازم تھے اور وہ سکندر اعظم سے لڑے، اور انہوں نے بڑی داد شجاعت دی او ان کا ایک بازو کٹ گیا، لیکن زندہ و سلامت گھر پہنچے، اور ان کے گھر جو بیٹا پیدا ہوا، اور اس کٹے ہوئے بازو والے سورما کے گھر میں جو آپ کا جبڑ دادا تھا، وہ اس دنیا میں آیا اور زندہ رہا، سلامت رہا۔ اس کی نسل آگے چلی اور آپ کا جو سکڑ دادا تھا، وہ پانی پت کی دوسری لڑائی میں شامل ہوا۔ اور خوب بے جگری کے ساتھ لڑا اور فاتح ہو کر واپس آیا، لیکن اس کے گھر جو بچہ پیدا ہوا، وہ جوان، توانا، خوبصورت تھا، اور وہ طاعون کے ہاتھوں مارا گیا، لیکن اس کے گھر ایک بچہ پیدا ہو چکا تھا، جو آگے پھلتا پھولتا رہا، اور آپ کے جبڑ دادا کے متوازی ایک اور آپ کا کھگر نانا تھا جس کے گھر ایک عورت، بیٹی پیدا ہوئی جس کی شادی اس پورس والے سے ہوئی۔ ایک سسٹم بنا کے لا رہے ہیں۔ کہتے ہیں قدرت گھیر گھیر کے ان کو زندہ سلامت رکھ رکھ کے آپ کو یہاں تک اس ڈیٹ تک لائی ہے، اور وہ لوگ جو قدرت کو منظور نہیں تھے جنہیں وہ زندہ نہیں رکھنا چاہتا، وہ پیدا ہونے سے پہلے ہی نیست و نابود ہو گئے۔ ان کے والدین پہلے مر چکے تھے، ختم ہو چکے تھے، نابود ہو چکے تھے۔ آپ جو اس دنیا میں میرے ساتھ موجود ہیں، تو آپ نہایت محترم، نہایت اعلیٰ نہایت سپیرہئر نہایت Strong نہایت Important لوگ ہیں۔ ورنہ قدرت ایسی غلطی ایسی حماقت کبھی نہیں کرتی، اور آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا، آپ مایوس ہوں اور اس نعمت کا شکر اس طرح سے ادا کریں جیسے کہ آپ کرتے ہیں۔
ہمارے لیے یہ بڑی حیرانی کی بات تھی۔ انہوں نے کہا آپ اتنی ارفع قوم ہیں، اور آپ کے ارد گرد چلنے والے یہ ٹانگے والے، یکے بان، ویلڈنگ کرنے والا، یہ ترکھان، یہ لوہار، یہ پروفیسر، یہ ڈاکٹر یہ سارے کے سارے اگر یہ موجود ہیں، اگر آج ہیں، تو قدرت چھانٹ چھانٹ کر ان کو لائی ہے، اور کچھ لوگوں کو اپنی چھلنی میں سے گزارتے ہوئے لے آئی، تو آپ کیسے مایوس ہو گئے۔ بڑی بے حیائی کی بات ہے اگر آپ مایوسی میں، نا امیدی میں، یا نامرادی میں داخل ہوں ۔ ہم نے کہا، لیکن ہم تو ہو جاتے ہیں، اور کوئی لمحہ ہم پر ایسا نہیں گزرتا کہ ہم مایوس نہ ہوں، گھبرائے نہ ہوں۔ باوجود اس کے کہ اللہ بار بار فرماتا ہے۔ میری رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ اس میں بڑا کوئی راز ہے تو فرمایا ہے، فرمانے والے نے کہ چونکہ آپ کی زندگیوں میں خواہش، آرزو، Desire اتنی گہری اتر چکی ہے اور آپ سوائے مایوسی کی بیٹری کا چارج لینے کے، اس Desire کو رکھ لیتے ہیں، کیونکہ ہر لمحہ آپ کے اندر کسی نہ کسی شئے کی خواہش پیدا ہوتی ہے، اور وہ ختم نہیں ہوتی۔ اس لیے آپ مایوسی کے ساتھ چلیں گے۔ جب خواہش کم ہوتی چلی جائے گی، اور آپ کی وہ جائز Desires آپ کے ساتھ رہیں گی جو کہ رہنی چاہئیں پھر آپ کو کبھی مایوسی نہیں ہو گی۔ آپ ایسے ہی پھریں گے جیسے ایک بلبل ہوتا ہے، جس طرح ایک چڑیا چہچہاتی ہے۔ آپ کو پتا ہے، بابے کہتے ہیں کہ بلبل کو پتا نہیں ہوتا کہ موت آ رہی ہے۔ وہ گانا گا رہی ہوتی ہے، اور موت آ جاتی ہے۔ آپ ہر روز مرتے ہیں، ہر روز خوفزدہ ہوتے ہیں۔ خوف کے مارے آپ کا دم ہر وقت سے پہلے ہی نکلا ہوتا ہے، بلکہ "Every moment every day you keep on them" چڑیا کو اس کا نہیں پتا، گھوڑے کو نہیں پتا، شیر کو نہیں پتا۔ وہ بڑے مزے سے آزادی کے ساتھ چلے جاتے ہیں، لیکن ان کے اندر یہ Desire نہیں ہے جو ہمارے اندر اشتعال پیدا کرتی ہے۔ یا ہمارے اندر تصویر پیدا کرتی ہے۔ یہ تصویر ہمارے ہاں منع ہے، اور عام طور پر سمجھ دار سیانے، بڑے کہتے ہیں۔ یہ کیوں منع ہے؟ تصویرآپ کے اندر خواہش، اور انگخیت پیدا کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ مجھ سے پوچھتے ہیں میرے بچے کہ بابا تصویر اگر آپ کہتے ہیں، نہیں چاہیے۔ تو ہم پاسپورٹ پر کیا لگائیں گے؟ میں نے کہا وہ تصویر نہیں ہے۔ وہ تمہارے دستخط ہیں، وہ تمہارے تصویری دستخط ہیں۔ یہ وہ تصویر نہیں ہے جو ان رسالوں میں چھپتی ہے جن کا میں نام نہیں لینا چاہتا۔ وہ تصویریں آپ کو مایوس کرتی ہیں۔ بہت خرابیاں گناتی ہیں۔ اگر ان سارے رسالوں سے جو آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں۔ آپ کے گھروں میں بھی ہیں میرے گھر میں بھی ہیں، پڑے ہوئے ہیں۔ بہت بہت رنگین چیزیں ان میں ہوتی ہیں۔ ایک لمحے کو سوچئے ان میں رنگین تصویر بھی نکل گئی، اور صرف متن رہ گیا تو آپ کی زندگیوں میں سے میری کیلکولیشن (Calculation) کے مطابق، میری سوچ کے مطابق، آپ کی زندگیوں میں سے 50،60 فیصد ناامیدی اور مایوسی کم ہو جائے گی۔
خیر یہ بات عرض کر رہا تھا۔ میں نے کہا، ہمارے ساتھ اتنی ساری کالک کیوں لگ جاتی ہے۔ جب ہم اٹھتے ہیں تو اندر باہر کالک لگی ہوتی ہے۔ کہنے لگے اس کالک کو دور کرنے کا فن آپ کو آنا چاہیے۔ اس کے سیاہ دھبے زندگی پر حاوی ہوتے رہتے ہیں۔ کس طرح سے؟ مجھے یاد ہے میرے بچپن میں آپ نے بھی محلوں، گلیوں میں وقت گزارا ہو گا، ہمارے محلے میں دیگچیاں قلعی کرنے والا ایک شخص آیا کرتا تھا۔ وہ عین گلی کے اندر اڈا جما کے گیلی مٹی لگا کےدھونکئ فٹ کر کےاپنے چمڑے کو باندھتا۔ وہ ایک عجیب نظارہ ہوتا تھا، ہم سکول جانے کی بجائے اس کے گرد کھڑے ہو جاتے۔ کالی سیاہ دھونکی۔ کوئی دیگچی جن کی شکل دیکھنا آپ گوارا نہیں کرتے، ان کو ذرا سا دھو کر کوئلوں کے اوپر لٹا کر سوکھنے دیتا۔ دھونکی سے ہوا دے کر وہ قلعی کے ساتھ قلعی کی ایک جھریٹ خراش دیتا تھا، اور اس کے پاس ایک لوگڑ ہوتا تھا جس کو نوشادر کے ساتھ لگا کر وہ اس کا مانجھا دیتا تھا، اور دیگچی دیکھتے دیکھتے بقعہ نور بن جاتی ، اور جی چاہتا کہ آدمی اس کو دیکھتا رہے،اور دیر تک دیکھتا رہے۔ ہماری ساری کالک جو ہے، وہ یوں دور ہو سکتی ہے کہ میں کہوں، اے اللہ میں اس سیاہی کو شکریہ کے برش کے ساتھ، اور شکر گزاری کے لوگڑ کے ساتھ، جس کے ساتھ نوشادر لگا ہے، میری تسلیم و رضا کا، میں اس کو چمکا سکتا ہوں، اور میں ان کو اس جگہ پر رکھ سکتا ہوں، جہاں پر اور چیزیں رکھی جاتی ہیں۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ انسان بہت کچھ جاننے کے باوصف شدید احساس کمتری میں رہنا پسند کرتا ہے۔ میں، اور آپ، اور ہمارے جو ساتھی زندہ سلامت ہیں، جن کو احساس کمتری میں اترنے کا حق نہیں پہنچتا، جو احساس کمتری میں خود اترتے چلے جاتے ہیں۔ کچھ خواہشیں پوری ہوتی ہیں، کچھ نہیں پوری ہوتیں، اور زیادہ بھی آدمی پوری نہ کر سکے تو کوئی بات نہیں، لیکن تھوڑا سا مسکرا تو سکتا ہے۔ مثلا آپ بہت اعلٰی درجے کے صابن سے نہیں نہا سکتے تو لال صابن ہے نا تو اس سے نہا سکتے ہیں۔ اس میں کوئی ایسی خرابی کی بات نہیں ہے، لیکن جب آدمی مجبور کرتا ہے، اور اس کے ساتھ والے جب مجبور کرتے ہیں کہ دیکھو تمھارے پاس یہ ہے۔ اس نے کہا، تم تو کنگلے ہو۔ وہ ڈرتا رہتا ہے، کانپتا رہتا ہے، خوف زدہ رہتا ہے۔ لیکن اس کے پاس بہت ساری صلاحیتیں ہوتی ہیں جن کو سہارا بنا کر وہ بری آسانی کے ساتھ ان لوگوں کا منہ توڑ جواب دے سکتا ہے۔ اپنے وجود سے، اپنے ہونے سے، اپنی Entities سے۔ کہ دیکھیے! یہ بات میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں جو آپ کرتے ہیں۔ اب میں جانتا ہوں، زندگی میں، مایوسی میں، ناامیدی میں اگر بہت زیادہ تاریکی ہے۔ اگر ہم یہ پروگرام دیکھیں اور اس کے بعد سو جائیں گے۔ پھر ایک بڑی کالی ساہ رات ہم پر چھا جائے گی، اور پھر اس کالی سیاہ رات کے اس کنارے سے اس کے کنارے کے اندر سے روشنی کی ایک کرن پھوٹے گی۔ وہ روشنی کی کرن ابھی پہنچی نہیں ہو گی کہ میرے گھر کے پاس نیم کے درخت میں ایک بلبل گھونسلے میں بیٹھی ہے۔ وہ اپنی گردن پیچھے اکڑا لے گی۔ ابھی روشنی نہیں پہنچھی، اور وہ چہچہانا شروع کر دے گی۔ پتا نہیں اس کا کیا کنکشن ہے اس کے ساتھ۔ میں اکثر غور سے دیکھتا ہوں۔ ابھی روشنی آئی نہیں ہے لیکن وہ ہدہد ہے، بڈھا ہو گیا ہے۔ پاکیزہ، نیک لمبی چونچ والا گردن کو پیچھے کھینچتا ہے، اور اس کے بعد چہچہانا شروع کر دیتا ہے۔ اس کی چہچہاہٹ کے ساتھ ہی پھر اس کے دوسرے ساتھی شریک ہو جاتے ہیں چہچہانے میں۔ جیسے مایوس آدمی کی محفل میں بیٹھ ہوئے لوگ بھی ناامیدی مایوسی کے گہرے سمندر میں اترنا شروع کر دیتے ہیں، لیکن اگر آدمی تگڑا ہو ،اور یہ سمجھے کہ میں اتنا لمبا سفر طے کر کے، اتنی مشکلات سے اتنی بیماریوں کو پھلانگتا ہوا، سمندروں کو عبور کرتا ہوا پہاڑوں کو چیرتا ہوا، بے شمار جنگوں میں شریک ہوتا ہوا، نسل در نسل پیڑھی در پیڑھی یہاں تک پہنچا ہو تو میں نہایت اہم ہوں۔ میں نہایت قیمتی چیز ہوں۔ میں اور آپ یقین کریں، اور جتنے آدمی آپ بھی بیٹھے ہیں، اور آپ جو اس پروگرام کو دیکھ رہے ہیں، اتنے قیمتی ہیں۔ آج اگر آپ کاغذ لے کر Calculation کریں تو اپنے فیملی شجرہ نسب ہونے کے باوصف پیچھے چلتے جائیں تو پھر آپ کو پتا چلے گا کہ آپ کتنے اہم ہیں۔
ہمارے وہاں روم کے پاس ایک جھیل تھی "لاگو براشانو" اسے کہتے تھے۔ بڑی خوبصورت جھیل تھی۔ لوگ وہاں سیر و تفریح کے لیے جاتے تھے۔ ہم کو بھی جب دو تین چھٹیاں اکٹھی ہوتی تھیں تو وہاں پہنچ جاتے تھے۔ ایک دن موسم گرما میں بری اچھی ہوا چل رہی تھی۔ بہت سے لوگ وہاں آئے ہوئے تھے اور اٹکھیلیاں کر رہے تھے۔ آپ جانتے ہیں اٹالین لوگ بہت موج میلا کرتے ہیں۔ ایک نوجوان تھا، بڑا اچھا خوبصورت سا۔ وہ کشتی کے پتوار پر چڑھ کر کچھ ڈانس سا کرنے لگا۔ کشتی ڈگمگائی، اور ڈولی، اور وہ اپنا توازن قائم نہ رکھ سکا۔ جھیل میں گر گیا۔ اب اس کو تیرنا نہیں آتا تھا تو اس نے چیخیں مارنا شروع کر دیں۔ اس کو میں نے بھی دیکھا لیکن ہم لوگ زیادہ سمجھ دار ہوتے ہیں۔ بھئ خطرے کا معاملہ ہے، ہم اس میں خوامخواہ کیوں پڑیں تو میرے ساتھ باسٹھ تریسٹھ سال کا ایک بڈھا بیٹھا تھا۔ میں اس وقت جوان تھا۔ میری 27 برس عمر تھی۔ اس نے کوٹ اتارا، اپنی پینٹ سمیت، اور بوٹوں سمیت اس نے چھلانگ لگا دی، اور میں نے اپنی چالاکی لوگوں کو دیکھانے کے لیے اپنے بوٹ کے تسمے کھولنے شروع کر دیئے تاکہ تھوڑی سے شمولیت میری بھی رہے۔ لوگ کہیں گے اچھا آدمی ہے، لیکن مجھ سے بوٹ کے تسمے کھل نہیں سکے۔ اس نے اس کو جا پکڑا۔ الحمدللہ اس کا سر وغیرہ اندر نہیں گیا تھا، بے ہوش نہیں ہوا تھا۔ اس کو ٹھوڑی کے نیچے دیتے ہوے وہ بابا تیرتا ہوا اس کو کشتی کے پاس لے آیا، اور لا کر اس کو سہارے سے کشتی میں داخل کر دیا اور بیٹھ گیا۔ ہم نے بڑے زور زور سے تالیاں بجائیں۔ اب وہ جو گرنے والا تھا، وہ بڑا شرمندہ ہوا، اور پریشان بھی تھا۔ خوفزدہ بھی تھا، تو اس نے بڑی دبی ہوئی مری ہوئی آواز میں کہا، میں آپ کا بڑا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں بہت ممنون ہوں کہ آپ نے اتنی بڑی فیور کی ہے۔ مجھے بچایا۔ تو اس بابے نے کہا، No, No, No ۔ یہ کیا بات تم نے کی، کچھ نہ کہو مجھے۔ اس میں شکریہ ادا کرنے کی کیا بات ہے۔ تم ہو ہی اتنے قیمتی کہ جب تم گرتے کوئی بھی تمہیں بچاتا۔ اس میں کیا بات ہے شکریہ ادا کرنے کی۔ تو مجھے آج آپ سے باتیں کرتے ہوئے یہ واقعہ یاد آ گیا، تو وہ بابا بیٹھ کے آرام کے ساتھ اپنے کپڑے سکھاتا اور نچوڑتا رہا۔ اپنا Underwear زیرجامہ، اور بوٹ کھول کے سکھاتا رہا۔ تو جب آپ کے ذہن میں یہ بات طے پا جائے کہ ہم جب اتنا لمبا سفر کر کے یہاں پہنچے ہیں۔ کسی بھی صورت میں کسی بھی حالت میں کسی بھی صحت کے ساتھ کسی بھی شکل کے ساتھ کسی بھی رنگ و روپ کے ساتھ تو پھر ہم اہم ہیں۔ اللہ تعالٰی نے آدم کی بڑی توقیر فرمائی ہے۔ اور بہت عزت عطا کی ہے۔ یہ غالباً شیطان ہے جو آدمی کو مایوس کرتا رہتا ہے، اور وہ بہت ٹھیک ٹھیک اس میں کامیاب بھی ہوتا ہے لیکن اگر آدمی کو اپنے آج کے اوپر پورا بھروسا ہو، اگر وہ آج سے اپنے صبحانے واے کل، اپنے Tomorrow کو اپنی گرفت میں اچھی طرح کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، پھر اس پر یہ کیفیت طاری نہیں ہوتی ہے۔ مجھے صبحانے کا لفظ اس لیے پسند ہے کہ میں سندھ سے بہت پیار کرتا ہوں۔ سندھ ہمارا ایک بہت پیارا صوبہ ہے۔ اس کے لوگ بڑے پیارے میٹھے لوگ ہیں۔ اچھے سائیں لوگ گانے بجانے والے، ادب کرنے والے۔ میں نے وہاں بڑا وقت گزارا ہے۔ تھر پارکر میں۔ میں انہیں آج بھی یاد کرتا ہوں۔ میرے دوست جومکھی نہال چند پتا نہیں کیسے ہوں گے، کاپری خان تھے۔ انہوں نے مجھے بڑی محبت دی۔ میں اس کا بدلہ نہیں دے سکتا۔ میں کبھی کبھی ایسے الفاظ ڈھونڈھ کے استعمال کرتا ہوں۔ " صبحانے" ایک لفظ ہے جس کے معنی ہیں آنے والی کل۔ ہمارے پاس چونکہ نہیں ہیں اردو میں۔ میں صبحانے لفظ استعمال کرتا ہوں۔ آنے ے والی کل میں، اور یہ اپنے جلو میں، اور اپنی جھولی میں بہت ساری خوشیاں، ڈھیر ساری نعمتیں لے کر تیار رہتی ہے لیکن آدمی صبحانے سے آنے والی کل سے خوفزدہ ہو جائے تو اس کی جھولی میں وہ کچھ نہیں پڑتا جو کچھ پڑنا چاہیے۔ میں ابھی یہاں آنے سے پہلے ایک بڑااچھاسا سیب کھا رہا تھا سیب کھا چکنے کے بعد بڑی براق اور سفید طشتری میں اس کا ایک بیج، سیب کا بیج بڑا چمکدار سا ہوتا ہے، مجھے بڑا اچھا لگا۔ میں اسے بڑے غور سے دیکھنے لگا تو میں نے کہا، دیکھو بی بی یہ تو بیج ہے۔ اس میں صبحانے کا سیب پوشیدہ ہے۔ ایسی باتیں کر رہا تھا۔ وہ کہنے لگی، آپ کون سے سیب کی بات کر رہے ہیں۔ اس میں تو تین چار سو سیب پوشیدہ ہیں، یہ آپ کس سیب کی بات کر رہے ہیں۔ میں نے کہا یہ اچھی بات ہے کہ اس آنے والے کل کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا ہے۔ اور مایوسی کی بات یہ ہے کہ اس میں سے نکلنے کے لیے بہت ساری چالاکیاں اختیار کی جا سکتی ہیں، اور میں یہ سمجھتا ہوں، اور میرے بابوں نے یہی بتایا ہےکہ اگر آپ اپنی خواہش کو، اپنی آرزوں کو، ذرا سا روک سکیں، جس طرح آپ اپنے ڈوگی کو کہتے ہیں، تم ذرا باہر دہلیز پر ٹھرو، میں اپنا کام کرتا ہوں۔ پھر میں تمہیں لے چلوں گا۔ تو Desire کو سنگلی ڈال کر چلیں، اور Desire کو جب تک آپ پیار نہیں کریں گے، کتے کی طرح سنگلی ڈال کر سیر نہیں کروائیں گے۔ اسے نچائیں گے نہیں، اس کو گلستان کی سیر نہیں کروائیں گے، وہ چمٹ جائے گی۔ آپ اس کے ساتھ دیٹیچ رہیں۔ ایک آپ، اور ایک آپ کے محبوب کے درمیان اور ایک چھوٹی سی سنگلی ہوتی ہے، اور ایک عجیب طرح کا فاصلہ ہوتا ہے۔ اسی طرح آپ کی Desire اور آپ کے درمیان ایک فاصلہ ہونا چائیے۔ اس کو کھلائیں، ساتھ ساتھ رکھیں، لیکن Desire کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں۔ یہ سب سے ضروری اور مشکل امر ہے، اگر آپ شروع کر دیں سنگلی تو پھر کوئی مشکل بھی نہیں۔ ایک Pet کی ایک لمبی کہانی یاد آئی تھی۔ پھر کسی وقت عرض کروں گا، لیکن اس کا گہرا تعلق Desire، سے انسان سے انسان کی ذات سے ہے۔ کسی طرح سے وہ پالتو جانور آپ کی مدد کر سکتا ہے۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
 
Top