روک سکتی ہو تو روک لو غریدہ فاروقی

لنک جس سے نقل کیا گیا ہے
روک سکتی ہو تو روک لو غریدہ فاروقی - Imran Junior
اللہ تعالی کا اسلوب ہے کہ وہ طاقت کے زعم میں مبتلا شخص کو انتہائی چھوٹی حرکت سے ذلیل کروا دیتا ہے۔۔ ابراہہ کو ابابیل سے مروا یا ،کوئی ڈائناسور نہیں بھیجے،نمرود کو مچھر سے انجام کو پہنچایا اور چیونٹی سے ہاتھی مروا دیتاہے۔۔ نام نہاد اینکر غریدہ فاروقی کیا چیز ہے۔ ہم اکثر مثال سنتے تھے کہ جب گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف رخ کرتا ہے ۔موصوفہ کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔۔ اس نے اودھم مچا رکھاتھا ہر طرف اس کے ظلم و ستم کے چرچے عام تھے چینل کے ورکر بچارے کیا کرتے کوئی پرسان حال نہ تھا۔ہوتا بھی کیسے اتنی جلدی تو وحشیہ بندے نہیں بدلتی جتنی جلدی پروڈیوسرز بدل رہے تھے انتظامیہ نے بھی تنگ آ کر کہا محترمہ تو جان تیرا پروگرام،اپنی ٹیم خود رکھ ۔۔۔روز روز ایچ آر ڈیپارٹمنٹ پروڈیوسر زتو ڈھونڈے سے رہے ۔۔ خیر تب تک یہ کوئی 12 پروڈیوسرز کی بلی چڑھا چکی تھی ۔اب تو “سنچیاں ہوں جان گلیاں وچ مرزا یار پھرے ” والا حساب تھا 13 مزید پروڈیوسرز کی عزت تار تار کی مگر پھر بھی اس کو شرم نہ آئی اور اپنی روش نہ بدلی ۔گھر کے ملازمین کو حبس بے جا میں رکھنا تو موصوفہ کا معمول تھا جو بھی چھٹی یا تنخواہ کا ذکر کرتا متعلقہ تھانے میں ان کے خلاف پرچہ کروا دیتی۔۔دھماکیاں تو ایسے لگاتی کہ جیسے خاتون اول کی امیدوار ہو ۔۔
میں اس کے ستم کے شکار باقی لوگوں کا ذکر فی الحال روکتا ہوں لیکن ایک نام کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس نے پہلی بار اس بدتمیز عورت کو منہ توڑ جواب دیا تھا جس کے بعدیہ سناٹے میں آگئی تھی- یہ نام ہے معروف مزاح نگار اور کالم نگار گل نوخیز اختر کا-
یہ قصہ بڑا دلچسپ ہے-الحمراآرٹس کونسل میں غالبا”2014کی ادبی کانفرنس میں ایک سیشن طنزومزاح پر تھا- غریدہ فاروقی کمپئرنگ کر رہی تھیں، تب تک گل نوخیز اور غریدہ فاروقی ایک دوسرے سے نہیں ملے تھے- جب گل نوخیز اختر کی مضمون پڑھنے کی باری آئی تو غریدہ نے انہیں شرارتا” یہ کہہ کر بلایا کہ “اب تشریف لاتی ہیں محترمہ گل نوخیز اختر”- اس بات پر سب لوگ ہنس پڑے-غریدہ کو نہیں پتا تھا کہ اس کا پالا کس سے پڑا ہے، گل نوخیز اطمینان سے سٹیج پر آئے تو غریدہ نے فورا” کہا” معافی چاہتی ہوں، میں اب تک آپ کو عورت سمجھتی رہی ہوں”- گل نوخیز نے مسکرا کر کہا”کوئی ایسی بات نہیں میں بھی آپ کو عورت ہی سمجھتا رہا ہوں” یہ کہنا تھا کہ پورا ہال قہقہوں سے گونج اٹھا اور پانچ منٹ تک مسلسل تالیاں بجتی رہیں، غریدہ فاروقی کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔۔
جب اس کا پروگرام “جی فار غریدہ ” شروع ہونے لگا تو اس نے مختلف ذرائع سے گل نوخیز اختر سے رابطہ کیا اور پروگرام کے “کانٹینٹ رائٹر” کے طور پر کام کرنے کی درخواست کی-انھوں نے انکار کر دیا کہ میرے پاس تو پہلے ہی کام بہت زیادہ ہے، مجھے بڑی مشکل ہوجائے گی لہذا آپ کسی اور کو رکھ لیں- غریدہ نے بھی ضد پکڑ لی کہ مجھے آپ ہی چاہئیں-مجبورا” گل نوخیز کو حامی بھرنی پڑی۔ یاد رہےاس چینل کا 8 سال سے چلنے والامعروف پروگرام”ڈارلنگ” گل نوخیز ہی لکھتے ہیں – غریدہ اور گل نوخیز اختر کی پہلی ملاقات ایکسپریس نیوز کے میٹنگ روم میں ہوئی – گل نوخیز اختر سے بات چلی تو غریدہ نے پہلا جملہ کہا”آپ اپنا سی وی لائے ہیں؟” یہ سنتے ہی گل نوخیز بے اختیار ہنس پڑے اور کہنے لگے” کیسا سی وی؟ “- غریدہ نے گھور کر کہا” اگر آپ نے نوکری کرنی ہے تو سی وی تو ساتھ لانا چاہیے تھا”- گل نوخیز بے نیازی سے بولے” آپ سے کس نے کہا ہے کہ میں نے نوکری کرنی ہے؟ میں تو آئوٹ سورس کانٹریکٹ پر کام کرتا ہوں”- غریدہ نے کہا ” اس طرح تو پھر ناممکن ہوجائے گا”- گل نوخیز اختر نے کہا” ہوتا رہے، مجھے پھر اجازت دیجئے ” یہ کہتے ہوئے وہ اٹھے اور اسی لمحے غریدہ کو احساس ہوا کہ شکار ہاتھ سے نکل رہا ہے، فورا’ بولی” اوکے۔۔۔ مگر یہ کیسے پتا چلے گا کہ آپ سکرپٹ لکھ بھی سکتے ہیں یا نہیں”- یہ سوال ایک ایسے لکھاری سے کیا جارہا تھا جس کی بارہ کے قریب کتابیں آچکی ہیں، ہزاروں کالم شائع ہوچکے ہیں، بیسیوں ڈرامے چل چکے ہیں اور کئی ایوارڈز مل چکے ہیں- گل نوخیز اختر نے حسب معمول مسکرا کر کہا” اگر ایسی بات ہے تو میں آپ کو آج کے پروگرام کا سکرپٹ لکھ کر ای میل کر دیتا ہوں، پسند آئے تو ٹھیک ورنہ جواب دے دیجئے گا، اور یہ سکرپٹ بلامعاوضہ ہوگا”- یہ سنتے ہی غریدہ کی باچھیں کھل گئیں اور فورا” آمادگی ظاہر کردی- شام تک گل نوخیز کی طرف سے سکرپٹ آگیا، غریدہ نے پڑھا اور گل نوخیز کوفون کر کے تعریفوں کے انبار لگا دیے اور خوشخبری سنائی کہ آج سے آپ پروگرام کے لیے سلیکٹ ہیں۔۔پروگرام شروع ہوگیا اور ریٹنگ کی بلندیوں کو چھونے لگا، دیکھنے والوں کو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ جو کچھ غریدہ فاروقی بول رہی ہے اس کے پیچھے کس کی محنت ہے اور یہ کس کا لکھا ہوا ہے-پی سی آر میں گل نوخیز اختر سارے سٹاف سے انتہائی محبت سے پیش آتے اور کئی دفعہ کرسی پر بیٹھنے کی بجائے جب تک شو آن ائیر رہتا، کھڑے رہتے اور ایک ایک چیز خود نوٹ کرتے- غریدہ فاروقی کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح اپنے سے کئی درجے سینئرمیڈیا پرسن گل نوخیز کو بے عزت کرے لیکن گل نوخیز اس کا موقع ہی نہیں آنے دے رہے تھے، جس قسم کا بھی پیکج ہوتا، سوالات ہوتے ، سکرپٹ ہوتا۔۔۔۔۔وہ ڈیڈ لائن سے پہلے ہی بہترین طریقے سے مکمل کرکے بھیج دیتے-میں اور سارا سٹاف گواہ ہے کہ جتنے دن گل نوخیز اختر اس پروگرام کے ساتھ رہے انہوں نے ایک دن بھی چھٹی نہیں کی اور ہر کام شاندار طریقے سے مکمل کیا- اسی دوران ایک دن غریدہ کو موقع مل گیا- ایم کیو ایم کے خلاف نائن زیرو پر رینجرز نے آپریشن کیا تو اسی حوالے سے پروگرام تھا جس میں کراچی سے نبیل گبول اور لندن سے الطاف حسین کا Beeperبھی شامل تھا-پروگرام لائیو جانے سے چند منٹ پہلے غریدہ فاروقی سیٹ پر پہنچ چکی تھیں، پروڈیوسرز اور دیگر تکنیکی عملہ “پی سی آر” میں موجود تھا، گل نوخیز اختر بھی ہیڈرز اور ٹکرز کا جائزہ لے رہے تھے- اتنے میں “پی سی آر” میں غریدہ کی آواز گونجی ” گل نوخیز۔نبیل گبول کے سوالات کہاں ہیں؟”- گل نوخیز نے مانٹیر پر اسٹوڈیو میں بیٹھی غریدہ کی طرف دیکھا، مائیک کا سوئچ آن کیا اور انتہائی دھیمے لہجے میں بولے ” آپ ہی کو دیے تھے، دوبارہ دیکھ لیجئے ، انہی میں ہوں گے”- غریدہ نے اپنے ہاتھ میں پکڑے کاغذ الٹ پلٹ کر دیکھے ، پھر قدرے غصے سے بولیں” ان میں نہیں ہے”- گل نوخیز دوبارہ مائیک میں بولے” آپ نے ابھی تو اپنے کمرے میں سارے سوالات خود پڑھے تھے، کاغذ بھی آپ کے پاس تھے، ہوسکتا ہے کہیں گر گیا ہو، نیا پرنٹ نکلوا لیں”- یہ سنتے ہی غریدہ کے منہ سے ایک غراہٹ نکلی اور پورے پی سی آر میں ایک چیختی ہوئی آواز آئی “آپ کو اتنی بھی عقل نہیں کہ کاغذ چیک کرلیتے”- یہ سنتے ہی پی سی آر میں خاموشی سی چھا گئی، یہاں ہر بندہ غریدہ سے ذلیل ہوچکا تھا لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ غریدہ ، گل نوخیز سے اس لہجے میں بھی بات کر سکتی ہے- سب منتظر تھے کہ اب کیا ہوگا؟ گل نوخیز اختر نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر مائیک پکڑا اور قدرے سخت لہجے میں کہا”شٹ اپ”- غریدہ کا چہرہ دیکھنے کے قابل تھا، اس نے تو آج تک دوسروں کی ہی بے عزتی کی تھی، یہ جملہ اس کے سر پر بم بن کر گرا اور وہ کچھ دیرسکتے کے عالم میں رہی- گل نوخیز اختر نے سکرپٹ ٹیبل پر پھینکا، مسکراتے ہوئے سٹاف کو خداحافظ کہا اور گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر نکل گئے۔
گھر جاتے ہی انہوں نے وٹس ایپ پر “جی فار غریدہ” کے گروپ میں یہ میسج کیا کہ “تمام محبت کرنے والے دوستوں کا شکریہ جن سے اتنی اچھی رفاقت رہی، تاہم اب میں یہ پروگرام چھوڑ رہا ہوں، انشااللہ ملاقات رہے گی”- میسج غریدہ نے بھی پڑھا اور اسے آگ لگ گئی کہ شکار نکل گیا ہے- اس رات اس نے گل نوخیز کو مسلسل میسج کیے لیکن گل نوخیز اختر کا یہی کہنا تھا کہ میں کام نہیں کرسکتا، بے شک اب تک کے پیسے بھی نہ دیں- غریدہ کو پتا تھا کہ گل نوخیز نے پروگرام چھوڑا تو ریٹنگ کا بیڑا غرق ہوجائے گالہذا اس نے پہلی بار زندگی میں گل نوخیز اختر سے “سوری” کہا- گل نوخیز ضدی انسان نہیں ہے، سوری کا لفظ سنتے ہی اس کے دل سے سارا غبار اتر گیا لہذا وہ اگلے دن واپس آگیا- یہاں ایک اور سین منتظر تھا، غریدہ کا غصہ عروج پر تھا، اس نے آتے ہی گل نوخیز سے پوچھا” آپ نے کس کس کو یہ بتایا ہے کہ میں نے آپ سے سوری کی ہے؟” گل نوخیز نے انگلیوں پر گنتے ہوئے کہا “تقریبا” 43 لوگوں کو بتا چکا ہوں”- غریدہ نے دانت پیسے” کیوں بتایا؟”- گل نوخیز اختر نے کچھ دیر اسے گھورا ، پھر مسکرا کر کہا”کل میں سب کے سامنے یہ پروگرام چھوڑ کر گیا تھا، گروپ میں میسج بھی کر دیا تھا، آج جب واپس آیا تو سب پوچھ رہے تھے کہ کل تو بڑے دھڑلے سے کہہ کر گئے تھے کہ واپس نہیں آئوں گا تو پھر آج واپس کیسے آگئے؟ سو میں نے انہیں بتایا کہ چونکہ آپ نے سوری کرلی ہے اس لیے اب میرا اپنی بات پر اڑے رہنا بنتا نہیں- ویسے بھی سوری کرنا کوئی بری بات نہیں، اس سے انسان کی عزت بڑھتی ہے”- غریدہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن اس نے غصہ دل ہی میں رکھا اور خاموش رہی-اس کے بعد غریدہ نے گل نوخیز اختر پر بلاوجہ کام کا دبائو بڑھانا شروع کر دیااوراس دوران گل نوخیز کے سلام کا جواب دینا بھی چھوڑ چکی تھی- گل نوخیز اختر نے کچھ دنوں بعد پھر پروگرام چھوڑ دیا کہ اس قسم کے ٹینشن کے ماحول میں کام کرنا بہت مشکل ہے لہذا میری طرف سے معذرت- غریدہ فاروقی بدلے کی آگ میں جھلس رہی تھی۔ غریدہ نے چینل کے انتہائی سینئرعہدیدار کو گل نوخیز کے دفتر بھیجا، جنہوں نے درخواست کی کہ آپ واپس آجائیں- گل نوخیز اختر نے ہنستے ہوئے ان سے کہا کہ حضور! میرے آنے سے کچھ نہیں ہوگا، غریدہ صرف مجھے بلا کر خود نکالنا چاہ رہی ہیں تاکہ ان کی انا کی تسکین ہوسکے- تاہم عہدیدار سے دوستی اور محبت نے اتنا مجبور کیا کہ گل نوخیز اختر تیسری بار پھر واپس آگئے- اور پھر وہی ہوا جو گل نوخیز اختر نے کہا تھا۔۔غریدہ فاروقی کا میسج آیا کہ آپ کو ڈس مس کر دیاگیا ہے۔۔ یہ میسج پڑھ کر گل نوخیزاختر نے ایک قہقہہ لگایا، دوستوں کو لے کر سگریٹ کی دوکان پر گئے، سگریٹ سلگایا، دوستوں کا کولڈ ڈرنکس پلائیں، کچھ لطیفے سنائے اور اجازت لے کر روانہ ہوگئے۔۔
اللہ بھلا کرے میڈیا کا جس نے حبس بے جا میں رکھی معصوم سونیا کی خبر کو عوام تک پہنچایا اور غریدہ کی اصلیت کھل کے سامنے آئی ۔۔۔خبر کیا آئی
جیسے کہرام مچ گیا ہو۔۔۔۔۔ ہر طرف غریدہ کے چرچے ۔پھر کیا تھا ہم نے بھی ہمت پکڑئی قلم اٹھایا اور اس کی اصلیت لکھ ڈالی ۔۔کبھی کبھی تو دل چاہتا ہے کہ اس کے ظلم کی ایک ایک بات کو مکمل کتاب کی شکل دے دوں کہ کس طرح اس کی وجہ سے ایک پروڈیوسر کی والدہ موت کی نیند سو گئی اس ظالم عورت نے اسے ماں کے علاج کے لیے بھی چھٹی نہ دی ۔۔۔کس طرح ایک پروڈیوسر کا نونہال پھول اس کی وجہ سے ہسپتال کے بستر پر مرجھا گیا ۔۔ کس طرح سٹاف کی ایک لڑکی جس کی صبح بارات تھی لیکن رات 11 بجے تک اس کو چھٹی نہ دی اور وہ بلک بلک کے روتی رہی کہ میرے گھر سارے سسرال والے آئے ہوے ہیں میری آج مہندی ہے ۔۔۔ آپ ذرا تصور کریں کہ ان غریب والدین پے کیا گزر رہی ہو گی جو بار بار بچی کو فون کر رہے ہوں کہ گھر آ جاو تمارے سسرال والے پوچھ رہے ہیں اور وہ دھاڑیں مار مار کے بتا رہی ہو کہ میڈم چھٹی نہیں دے رہی۔۔
وہ سب لکھوں گا جو لوگ کہنے سے ڈرتے ہیں کہ یہ پنڈی کے ساتھ گہرے رابطوں کی لوگوں پردھونس جماتی پنجاب پولیس میں اثرو رسوخ سے سینہ چوڑا کرتی ،یہ بھی بتاوں گا کہ کس طرح لندن کی ایک میڈیا کانفرنس میں ریحام خان کی آمد پر اس کی چھچھوری حرکتوں کی وجہ وہاں موجود سینئر صحافی اور کالم نگار شرمندہ ہوئے کہ کس طرح سیکورٹی اہلکاروں نے اس کو ذلیل کیا ۔۔اس، بات کا ذکر انھوں نے اپنے کالم میں بھی کیا۔اس کا بھی ذکر کروں گا کہ پاک بھارت وزیراعظم کی ملاقات کے دوران کس طرح چپکے سے سیکورٹی کو چکما دے کے یہ بھارتی وزیراعظم تک پہنچی اور وہاں موجود سیکورٹی نے اسے پکڑا اور اٹھا کے باہر پھنکا۔ وہاں پہ بھی یہ پاکستانی صحافیوں کے لیے بدنامی کا باعث بنی ۔کل ایک بڑی سیاسی شخصیت کا فون آیا اس نے جو اس کی رام لیلا سنائی وہ بھی بیان کرنے کے لائق ہے-
کیا اسں طرح کے نام نہاد اینکر پر آئین کے کسی آرٹیکل کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ آئین کے باسٹھ تریسٹھ کا ورد کرتے نہیں تھکتے کیا یہ خود ان پر پورا اترتے ہیں ۔۔۔کیا ان کی آمدن اور اثاثوں کا توازن نہیں دیکھا جا سکتا؟اس کا بھی ذکر کروں گا کہ کس طرح اس نے پاکستانی قوم کی “بھابھی” بنے کے لیے جتن کیے۔۔روک سکتی ہو تو روک لو۔غریدہ فاروقی۔۔ سچ سامنے آ کے ہی رہے گا-میں اس کی دھمکیوں اور گیدڑ بھبھکیوں سے ڈرنے والا نہیں۔۔
(اسدجعفری)
 
Top