ای بک تشکیل روپ کا کندن۔۔۔۔۔ منیر انور

الف عین

لائبریرین
میں اگر کچھ بھی بولتا یارو
لعل مٹی میں رولتا یارو

مجھ پہ الزام کم نوائی ہے
کوئی سنتا تو بولتا یارو

یہ محبت ہے آپ کی ورنہ
بھید میں دل کے کھولتا یارو؟

اُس پہ کتنا تھا اعتماد ہمیں
کم سے کم وہ نہ ڈولتا یارو

دوست ہوتا تو کیا یہ ممکن تھا
زہر امرت میں گھولتا یارو؟

بات کرنا اگر ضروری تھا
بات اپنی وہ تولتا یارو

دل میں بس ایک ہی تمنا تھی
وہ کبھی ہنس کے بولتا یارو
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
گم گشتہ

آؤ ہم پھر سے نئے خواب بنیں
خواب ایسے کہ جو ماضی کے دریچے کھولیں
خواب،
وہ خواب کہ جو بیتے دنوں کی خوشیاں
پھر اجاگر کریں ان اجڑے ہوئے لمحوں میں
جن میں کوئی بھی تو شاداب ہنسی ساتھ نہیں
عہدِ ماضی کے وہ گم گشتہ رفیق
اس نئے عہد میں اب جن میں سے
کوئی بھی پاس نہیں ساتھ نہیں
میرے ہاتھوں میں ترا ہاتھ نہیں
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
تم نے جو بھی کیا کمال تو تھا
اس طرح سوچنا محال تو تھا

اس کی اس بے ضرر شرارت میں
جاں سے جانے کا احتمال تو تھا

جانے پہچان کیوں نہیں پایا
آئینہ محوِ خدّوخال تو تھا

میں نے پھر بات ہی بدل ڈالی
اس کی آنکھوں میں اک سوال تو تھا

میں تمہارے لئے چلا آیا
راہ میں حادثوں کا جال تو تھا

اس کے انداز میں دمِ رخصت
اور کچھ ہو نہ ہو ملال تو تھا

میں نے کچھ سوچ کر نہیں پوچھا
ایک چبھتا ہوا سوال تو تھا

بھیڑ میں کھو گیا کہیں انورؔ
لفظ اک حاصلِ خیال تو تھا
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
ملا تو دے کے جدائی چلا گیا آخر
ہمارے حصّے میں تنہا سفر رہا آخر

اگر یہ طے تھا کہ ہر بات سے مکرنا ہے
تو ساتھ دینے کا وعدہ ہی کیوں کیا آخر

اسے خیال تھا کتنا جہان والوں کا
اسی خیال میں جاں سے گذر گیا آخر

تضادِ فکر کا الزام کچھ درست نہیں
کہا تھا میں نے جو اوّل، وہی کہا آخر

وہ میرے درد، مرے غم کو بانٹنے والا
اک اور کرب مجھے دان کر گیا آخر

تمہیں یقین تھا ہم دوستی نبھا لیں گے
ہمیں گمان تھا جس کا وہی ہوا آخر

فرازِ دار سے پہلے کا وقت مشکل تھا
کسی کی یاد کے سائے میں کٹ گیا آخر

جب اختیار تھا تم فیصلہ سنا دیتے
تمام عمر تذبذب میں کیوں رکھا آخر

میں اس کے ہاتھ سے نکلا ہوا زمانہ تھا
وہ میری کھوج میں نکلا، بکھر گیا آخر

میں اعتبار کی دنیا سے کٹ گیا انورؔ
کسی کے ساتھ میں اتنا بھی کیوں چلا آخر
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
خول سے اپنے نکل آئیں جناب
اس جہاں پر غور فرمائیں جناب

دوستی اُن کی مبارک آپ کو
ہاں مگر اتنا نہ اِترائیں جناب

چھوڑ دیں یہ ہاتھ پھیلانے کی خو
خود اگائیں اور خود کھائیں جناب

ہے سیاست اور دھوکہ اور ہے
ہو نہیں سکتی ہیں دو رائیں جناب

یہ جہاں گیری کے خواب اچھے تو ہیں
یوں نہ ہو سپنے بکھر جائیں جناب

ہو نہ جائے کچھ غلط فہمی اُنہیں
آئیے اُن سے بھی مل آئیں جناب

ایک سیدھا راستہ موجود ہے
چھوڑئیے یہ دائیں اور بائیں جناب

دوسروں کی بات کب سنتے ہیں آپ
آپ کی محفل میں کیا آئیں جناب
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
وہ خوش ہے اپنا بوجھ مرے سر پہ ڈال کر
میں مطمئن فرار کے رستے نکال کر

تو کیوں چلا گیا مجھے جھنجھٹ میں ڈال کر
دم گھٹ رہا ہے آ مری سانسیں بحال کر

اب منہ چھپائے کس لئے پھرتا ہے شہر میں
میں نے کہا بھی تھا، نہ کسی سے سوال کر

تا دیر لوگ یاد رکھیں تجھ کو پیار سے
کچھ ایسے لفظ بول، کچھ ایسا کمال کر

اب وہ ہے رہ کی تیرگی ہے اور بے کسی
اس نے کیا تھا فیصلہ سکّہ اچھال کر

میں نے دیا حوالہ کتابِ مبین سے
لائے وہ اک ضعیف روایت نکال کر

انورؔ سفر میں ساتھ کسی کا بھلا تو ہے
لیکن کسی کے ساتھ چلو دیکھ بھال کر
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
دائمی روشنی


زندگی درد ہے اور درد کا عنوان وطن
میری پہچان، مری شان، مری آن وطن

اے وطن ہم تری بربادی پہ شرمندہ ہیں
بیچنے، توڑنے والے بھی تجھے زندہ ہیں

ان کی سازش ہے تری رہ میں اندھیرے چھائیں
چاہتے ہیں کہ تجھے بیچ دیں اور کھا جائیں

اے وطن ہم تری حرمت کی قسم کھاتے ہیں
تیری عزت، تیری عظمت کی قسم کھاتے ہیں

نام پہ تیرے کوئی آنچ نہ آنے دیں گے
تجھ پہ ظلمت کی گھٹائیں نہیں چھانے دیں گے

ہم تری رہ میں جلائیں گے سدا خوں کے چراغ
روشنی جن کی کبھی ماند نہ ہو ایسے چراغ
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
پیار کا آخری دیا لے جائے
آنکھ میں ہے جو خواب سا، لے جائے

اپنی راتوں میں روشنی کے لئے
آئے، آ کر مرا دِیا لے جائے

زندگی کے سفر میں کیا معلوم
کون سا پل کہاں بہا لے جائے

میرے دیوار و در مجھے دے دے
اپنے خوابوں کا سلسلہ لے جائے

جل بجھا ہے چمن کا ہر بوٹا
راکھ باقی ہے سو ہوا لے جائے

ہم یہ احساں اٹھا نہیں سکتے
اُس سے کہہ دو کہ یہ گھٹا لے جائے

پھول کب کا بکھر چکا انورؔ
پتّیاں کوئی بھی اٹھا لے جائے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
راستے بند نہ ہونے دیں گے
اپنی منزل نہیں کھونے دیں گے

عام کر دیں گے محبت کا چلن
اپنے بچوں کو نہ رونے دیں گے

راہ گلزار نہیں ہے تو نہ ہو
کم سے کم خار نہ بونے دیں گے

اپنے ماحول پہ رکھیں گے نظر
رہبروں کو نہیں سونے دیں گے

لفظ کے دیپ جلائیں گے سدا
تیرگی عام نہ ہونے دیں گے

دیر تک ذکر کریں گے تیرا
بزم کو آج نہ سونے دیں گے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
کرب کا موسم


اب تو کرب کا موسم
جم گیا ہے آنکھوں میں
امن کے حوالے سب
رہ گئے کتابوں میں

وحشتوں کا جنگل ہے
وحشتوں کے جنگل سے
کون بچ سکا اب تک
وحشتوں کے اپنے بھی
کچھ اصول ہوتے ہیں
اور ان اصولوں سے
کون بچ کے نکلے گا
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
سنی کسی نے کہاں میرے انتظار کی بات
ہر اک زباں پہ رہی اختیارِ یار کی بات

ابھی ہے وقت، چلو رابطہ بحال کریں
دلائیں یاد اسے عہدِ پائیدار کی بات

ابھی ہیں کرب کے کچھ اور مرحلے باقی
ابھی چلی ہی کہاں ہے مرے دیار کی بات

یہاں شجر کا شجر داؤ پر ہے نادانو
تمہارے لب پہ وہی شاخ و برگ و بار کی بات

بڑا بلیغ اشارہ تھا اُس کی باتوں میں
ہمارا ذکر تھا اور راہ کے غبار کی بات

کسی کے دل کے اُجڑنے کی بات ہے انورؔ
خزاں کی بات نہیں ہے، نہیں بہار کی بات
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
دل سے دل کا رابطہ بس اسقدر رکھا گیا
آہنی دیوار میں شیشے کا در رکھا گیا

میں کسی کا راز تھا لیکن نہ جانے کیوں مجھے
صورت نغمہ ہوا کے دوش پر رکھا گیا

بات کہنے کا سلیقہ تو سبھی کو تھا مگر
ایک بس اس کا بھرم پیش نظر رکھا گیا

پھر کسی کی زندگی برباد کر ڈالی گئی
جانے کس کا جرم تھا اور کس کے سر رکھا گیا

چار سو پتھر کی دیواریں اٹھائیں اور پھر
میرے اندر ایک دست شیشہ گر رکھا گیا

خامشی بہتر تھی لیکن بولنا واجب ہوا
مجھ پہ اک الزام جب بارِ دگر رکھا گیا

سارے فتوے سب دلیلیں ہو گئیں نا معتبر
جب کسی سلطان کی چوکھٹ پہ سر رکھا گیا

آدمی مانے نہ مانے ورنہ پہلے روز سے
اس میں انورؔ اک عِیار خیر و شر رکھا گیا
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
فہمائش

اُس طرح کی فہمائش
پھر کبھی نہیں ہو گی
جس طرح مری ماں نے
اپنے پیار کی چادر
میرے سر پہ پھیلا کر
اپنی گود میں بھر کر
مجھ سے یہ کہا، بیٹا!

تم نے جھوٹ بولا ہے
اب اگر کبھی تم نے
جھوٹ جو کہا مجھ سے
تو میں روٹھ جاؤں گی
پھر یہ گود یہ چادر
ڈھونڈتے رہو گے تم۔
میں نے اس کے بعد انورؔ
جھوٹ تو نہیں بولا
پھر وہ پیار کی چادر
ماں کی گود کی گرمی
کیوں بچھڑ گئی مجھ سے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
تو میرے ساتھ نہ چل، میرا اعتبار نہ کر
مگر مجھے کبھی غیروں میں بھی شمار نہ کر

یہ کم نظر نہیں سمجھیں گے داستانِ الم
کسی پہ حالِ دلِ زار آشکار نہ کر

قرارِ خاطرِ جاں کے ہزار رستے ہیں
کسی کے پیار میں راہوں کو خارزار نہ کر

عدو کے ساتھ رہ و رسم ہو تو ہو لیکن
وطن کی عزت و غیرت کو داغدار نہ کر

کبھی کبھی کے تغافل کی بات اپنی جگہ
مرے عزیز مگر بے رخی شعار نہ کر

کسی کے ہاتھ نہ دے اپنی زندگی انورؔ
کسی کے وعدے پہ اس درجہ انحصار نہ کر
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
تیرے بام و در پتھر
پھینک بے خطر پتھر

ایک شخص یاد آیا
آج دیکھ کر پتھر

سنگ کی طرح لہجہ
لفظ سر بسر پتھر

سب سنبھال کر رکھنا
جو گریں ادھر پتھر

دور تک اندھیرا ہے
اور رہ گذر پتھر

خواب اپنے آئینہ
زندگی مگر پتھر

کر دیا ہے وحشت نے
سوچ کا نگر پتھر

لوٹنا تو ہوتا ہے
پھینکئے اگر پتھر

آئینہ گری پیشہ
اور ہے ثمر پتھر

اس طرف نہ پھینکا تھا
جا گرا جدھر پتھر

مت اٹھایئے انورؔ
بات بات پر پتھر
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
یہ تو بس آپ کی محبت ہے
ورنہ کب زندگی کی حاجت ہے

درِ توبہ کھلا ہوا ہے مدام
آخری وقت بھی غنیمت ہے

آپ چلتے تو ہیں مگر سنیے
راہ میں دھوپ ہے تمازت ہے

کاش دنیا میں امن ہو جائے
ایک، بس ایک ہی تو حسرت ہے

جانے والے پلٹ بھی آتے ہیں
جایئے، آپ کو اجازت ہے

اب تو کچھ یاد ہی نہیں رہتا
اک عجب بے خودی کی حالت ہے

آئینے خود چٹخ رہے ہیں یہاں
پتھروں کی کسے ضرورت ہے

دل کا شیشہ سنبھالیئے انورؔ
شہر آذر ہے اور وحشت ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
حرف کی بے بسی کا کیا کہنا
اس کی نکتہ رسی کا کیا کہنا

وہ بہت زود رنج ہے لیکن
لب پہ آئی ہنسی کا کیا کہنا

ہم بھی لفظوں سے کھیلتے ہیں مگر
اس کے دل کی کجی کا کیا کہنا

دل پہ ہیں زخم تیرے لہجے کے
اب تری دل لگی کا کیا کہنا

ذہن اک بحرِ علم ہے لیکن
روح کی کہنگی کا کہنا

شاعری اس پہ بار ہے انورؔ
پھر بھلا شاعری کا کہنا
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
عام سی بات تھی، فسانہ بنی
کتنی آفات کا بہانہ بنی

زندگی کی ہے زندگی کی طرح
گو ہر اک سانس تازیانہ بنی

بات یوں تھی کہ پست ہمت تھا
راہ کی تیرگی بہانہ بنی

چند لوگوں کی خوش خیالی سے
قبر تھی اک جو آستانہ بنی

ایک ڈالی شجر سے پھوٹی تھی
اک پرندے کا آشیانہ بنی

اے محبت ترے اجالے سے
زندگی صبح کا ترانہ بنی

ایک آپس کی بات تھی انورؔ
لے اڑے لوگ اور فسانہ بنی
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
آپ سے بات بھی ہو سکتی ہے
اک ملاقات بھی ہو سکتی ہے

صرف سورج پہ نہ تکیہ کرنا
راہ میں رات بھی ہو سکتی ہے

چھت ضروری ہے مکانوں کے لئے
کبھی برسات بھی ہو سکتی ہے

راہ میں ہے جو سمندر حائل
یہ مری ذات بھی ہو سکتی ہے

آج شدت یہ نفی کی یارو
کل کا اثبات بھی ہو سکتی ہے

کج ادائی کسی لمحے انورؔ
وجہِ آفات بھی ہو سکتی ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
یہ نرم لفظوں کا پہرا ہٹا لے، رہنے دے
یہ سنگ لہجوں کی بارش بھی مجھ کو سہنے دے

تو اپنے سارے ستارے سنبھال کر رکھ لے
مجھے نہیں ہے کوئی بھی ملال، رہنے دے

جو بات آج سرِ بزم کہنے والا ہوں
وہ جان جائے تو شاید کبھی نہ کہنے دے

یہ چند تحفے ہیں تیری محبتوں کے حضور
مری عزیز ! مرے آنسوؤں کو بہنے دے

شمیمِ موسمِ گل اُن سے اختلاف نہ کر
مجھے خزاں کی ہواؤں کی زد میں رہنے دے

غریب بیٹی کا سر برف ہو گیا انورؔ
جہیز کیسے بنے، کون اس کو گہنے دے
٭٭٭
 
Top