ای بک تشکیل روپ کا کندن۔۔۔۔۔ منیر انور

الف عین

لائبریرین
لوگ کتنے اداس ہیں لوگو
زندگی سے نراس ہیں لوگو

میرے بچوں کے دلنشیں چہرے
کس قدر پُر ہراس ہیں لوگو

زندگی میں سکوں کا نام نہیں
حادثے آس پاس ہیں لوگو

جس کو دریا بجھا نہیں سکتے
ہم سمندر کی پیاس ہیں لوگو

آئینے سے گریز کرتے ہیں
وہ بہت خود شناس ہیں لوگو

کون، کس پر اٹھائے گا انگلی
سب کے سب بے لباس ہیں لوگو

یہ وطن ہی ہمارا گلشن ہے
ہم اسی گل کی باس ہیں لوگو
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
نت نئی تہمتیں اٹھاتے ہیں
اہل دل یوں بھی مسکراتے ہیں

بجلیوں سے بھلا شکایت کیا
چل نیا آشیاں بناتے ہیں

رنگ، شبنم سی تازگی، خوشبو
اس کے رخ سے گلاب پاتے ہیں

میں نے دیکھا ہے روبرو اس کے
آئینے خود کو بھول جاتے ہیں

کوئی امید اب بھی ہے باقی
یہ جو زنجیر ہم ہلاتے ہیں

اپنی تکمیل سے ذرا پہلے
جانے کیوں عکس ٹوٹ جاتے ہیں

یہ فقط اشک تو نہیں انورؔ
خواب آنکھوں میں جھلملاتے ہیں
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
اک چہرے سے ایک نقاب اٹھایا ہے
ہم نے ساری محفل کو چونکایا ہے

ہم نے کتنی چاہ سے تانا ہے سینہ
اس نے کتنے پیار سے تیر چلایا ہے

جانے والوں کی مجبوری ہوتی ہے
رونے والوں کو کتنا سمجھایا ہے

اوّل آخر ماتھے پر بل رہتے ہیں
جانے کس مٹی سے بن کر آیا ہے

لگتا ہے پھر کوئی ضرورت آن پڑی
اس نے آج مجھے گھر پر بلوایا ہے

بھوکے ننگے بچوں کی اس بستی میں
ایک کھلونے بیچنے والا آیا ہے

میرے فون پہ لہرایا ہے نام اس کا
لگتا ہے انورؔ وہ راہ پہ آیا ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
وقت وہ بھی رہا ہے محفل پر
چپ تھی ہونٹوں پہ ہاتھ تھے دل پر

سسکیاں تھیں کہ تھم نہیں پائیں
اور آ نسو کہ جم گئے دل پر

میں گرفتارِ لہرِ خود سر تھا
چارہ گر منتظر تھا ساحل پر

میں تو منزل پہ جا کے لوٹ آیا
میری منزل کہاں تھی منزل پر

راہ کی الجھنوں میں مت الجھو
دھیان رکھو سفر کے حاصل پر

چور کے ہاتھ کاٹنے سے قبل
غور کر لیجئے عوامل پر

بہتری کی امید ہے انورؔ
انگلیاں اُٹھ رہی ہیں قاتل پر
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
کہا اُس نے میں ہوں تنہا اُدھر سارا زمانہ ہے
کہا میں نے زمانہ ہر طرح کا بیت جانا ہے

کہا اُس نے کہ تم بھی اور لوگوں کی طرح سے ہو
کہا میں نے تمہارا حوصلہ بھی آزمانا ہے

کہا اُس نے کہ اب تک راستے محفوظ تھے لیکن
کہا میں نے اِسی لیکن کا تو سارا فسانہ ہے

کہا اُس نے کہ میرے خواب میں تم ساتھ تھے میرے
کہا میں نے کہ خوابوں کو حقیقت بھی بنانا ہے

کہا اُس نے کہ دیکھو ظلمتوں کا ساتھ مت دینا
کہا میں نے ہواؤں میں دیا رکھ کر جلانا ہے

کہا اُس نے کہ منزل اور کتنی دور ہے انورؔ
کہا میں نے ہمیں اِس دُھند کے اُس پار جانا ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
تجھے دل سے اتارا ہی نہیں تھا
کہ تیرے بن گذارا ہی نہیں تھا

ہمیں بھی زندگی مشکل لگی تھی
یہ عالم بس تمہارا ہی نہیں تھا

پلٹ کے آ بھی سکتا تھا وہ لیکن
اسے ہم نے پکارا ہی نہیں تھا

ترے لہجے میں تبدیلی چہ معنی
تری جانب اشارہ ہی نہیں تھا

اسے الزام دھرنا تھا کسی پر
کہ کوئی اور چارہ ہی نہیں تھا

یہ صدمہ یوں بھی مشکل ہے کہ پہلے
کبھی میں خود سے ہارا ہی نہیں تھا

کٹے ہیں وہ بھی لمحے زندگی سے
جنہیں ہم نے گذارا ہی نہیں تھا

بہت آسان ہو سکتی تھیں راہیں
ہمیں چلنا گوارہ ہی نہیں تھا

محبت پر یہ وقت آنا تھا انورؔ
کوئی صدقہ اتارا ہی نہیں تھا
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
بھول جانے کا حوصلہ تھا مگر
مجھ میں اک شخص چیختا تھا مگر

بات ہوتی تو حل نکل آتا
بات کرنا ہی مسئلہ تھا مگر

میں نے پتھر اٹھا لیا ہوتا
میرے اندر جو آئینہ تھا مگر

دور تک تیرگی مسلط تھی
ایک جگنو چمک رہا تھا مگر

بند لگتے تو تھے سبھی رستے
تیسرا راستہ کھلا تھا مگر

میں کہاں ہار مان سکتا تھا
اُس کی آنکھوں نے کہہ دیا تھا مگر

یک پل، ایک جست اور منزل
ایک وہ پل ٹھہر گیا تھا مگر

میں بھی ہٹ تو گیا نشانے سے
تیر بھی رخ بدل چکا تھا مگر

آپ جو کہہ رہے تھے ٹھیک تھا وہ
مسئلہ میرا دوسرا تھا مگر

جاں تو جانی ہی تھی وہاں انورؔ
ایک عزت کا راستہ تھا مگر
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
ہوا ہے اُس پہ چاہت کا اثر آہستہ آہستہ
شفق اتری تو ہے رخسار پر آہستہ آہستہ

نہ جانے کون سچ بولے گا اس کے رو برو آ کر
اُٹھے جاتے ہیں سارے با خبر آہستہ آہستہ

فضاء میں نفرتوں کی تابکاری بڑھ گئی ہو گی
جو جھلسے ہیں محبت کے شجر آہستہ آہستہ

نہ جانے آئینے پر گرد تھی کتنے زمانوں کی
میں اپنے آپ کو آیا نظر آہستہ آہستہ

یہی انسان کو کھائے چلا جاتا ہے اندر سے
یہی اندیشۂ شام و سحر آہستہ آہستہ

مسائل ہیں کہ روز اک اور ہی صورت ابھرتے ہیں
بڑھا جاتا ہے میرا دردِ سر آہستہ آہستہ

کوئی عفریت رونق لے گیا ہے میری بستی کی
ہوئے ویران سارے بام و در آہستہ آہستہ

ابھی ابہام غالب ہے مگر کھل جائے گا آخر
کمالِ خوبیِ دستِ ہنر آہستہ آہستہ

ہم اپنے سخت جاں ہونے کا دعویٰ کیا کریں انورؔ
کہ ہو جاتی ہے اکثر چشم تر آہستہ آہستہ
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
سوچ کی کہکشاں سے باہر تھا
میرے وہم و گماں سے باہر تھا

میں ترے ساتھ ہی تو تھا اب تک
ہاں مگر کارواں سے باہر تھا

میرے سر پر رہا ہے ہاتھ ترا
میں بھلا کب اماں سے باہر تھا

اپنے گھر میں سکوں تھا، ٹھنڈک تھی
خوف بس آشیاں سے باہر تھا

میرے سر پر یہ آ گرا کیسے
میں تو شاید مکاں سے باہر تھا

اُس کا تو ذکر ہی نہیں ہے کہ وہ
حلقۂ دوستاں سے باہر تھا

یہ اُسی شخص کی کہانی ہے
جو تری داستاں سے باہر تھا

تھی مجھے جس کی جستجو انورؔ
وہ مرے آسماں سے باہر تھا
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
کہا تو تھا


کہا تو تھا کہ ابھی مجھے کام ہیں بہت سے
ابھی میں زلفوں کی، ابروؤں کی
نظر کے تیر و کمان کی گفتگو کے قابل کہاں ہوا ہوں
کہا تو تھا کہ اگر یہی سب تمہارے اندر کی آرزو ہے
تو لوٹ جاؤ
کہ میں ابھی تک سمندروں کی نظر میں ہوں
اور تمہیں
کناروںکی، ساحلوں کی
ہری بھری خوشبوؤں سے بوجھل حسین راہوں کی آرزو ہے
کہا تو تھا
کہ ابھی تمہاری یہ نرم زلفیں، مہکتی سانسیں، چمکتے عارض،
ہماری راہوں کے ریگزاروں سے بے خبر ہیں
کہا تو تھا
نارسائی کا دکھ نہ سہ سکو گی
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
صبح تھے کچھ اور تیور، اور ہیں کچھ شام میں
زندگی گم ہو گئی ہے سایۂ ابہام میں

ہم شریک انجمن آرائی ہو جاتے مگر
کچھ اشارے اور بھی تھے اس صلائے عام میں

بس وہی لہجہ، تحکم، خود نمائی، خود سری
کچھ نیا ہرگز نہیں تھا آپ کے پیغام میں

تم تو بس یونہی پریشاں ہو گئے ہو دوستو
عمر گذری ہے ہماری قریۂ دشنام میں

کس ہنر مندی سے اس نے پھر بنا لفظوں کا جال
آ گیا ہے دل کا پنچھی پھر کسی کے دام میں

یہ مرے شہرت کے طالب سوچتے کب ہیں مگر
فرق تو ہوتا ہے انورؔ ننگ میں اور نام میں
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
یوں نہیں ہے کہ یہیں کوئی نہیں
سوچنے والا کہیں کوئی نہیں

سب کے سب ذات میں اپنی گم ہیں
کون بولے گا، نہیں، کوئی نہیں

کیسے قسمت کے اندھیرے جائیں
شہر میں ماہ جبیں کوئی نہیں

سر پہ افلاک کا سایہ ہے مگر
پاؤں کے نیچے زمیں کوئی نہیں

ایک بس تُو ہے مرے سینے میں
اور اس دل کا مکیں کوئی نہیں

پھول، پھل، چشمے، ہوائیں کیسے
گر سرِ عرشِ بریں کوئی نہیں

اس کے ہر تازہ ستم کا عنواں
جز مری جانِ حزیں کوئی نہیں

کیسی بستی میں تم آئے انورؔ
ہیں مکاں اور مکیں کوئی نہیں
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
دائرے سے نکال دے کوئی
ہم کو رستے پہ ڈال دے کوئی

سانس رکنے لگی ہے سینے میں
یہ کڑا وقت ٹال دے کوئی

یوں کیا ہے سلام اس نے مجھے
جیسے پتھر اچھال دے کوئی

اُس کی حسرت میں جو گذار دیئے
وہ مرے ماہ و سال دے کوئی

بات کرنا محال لگتا ہے
میرے مولا کمال دے کوئی

کاش میری خطاؤں کو انورؔؔ
اک تبسم سے ٹال دے کوئی
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
ربط باہم بحال کر انورؔ
تو ہی کوئی سوال کر انورؔ

خود میں کتنا سمٹ گیا ہے وہ
اس سے کچھ حال چال کر انورؔ

آ گیا ہے تو مل اسے تو بھی
رنج دل سے نکال کر انورؔ

بات کرنی ہے ظلم سے ہم کو
آنکھ میں آنکھ ڈال کر انورؔ

خود اسے بھی نہیں سکون ملا
ہم پہ کیچڑ اچھال کر انورؔ

لکھ رہا ہے فراقِ یار کی بات
ماہ کو ایک سال کر انورؔ

وہ مجھے چاہتا تو ہے لیکن
اپنے سانچے میں ڈھال کر انورؔ
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
وصل میں ہجر کی بے رحم بلائیں دے کر
آپ خوش ہیں نا ہمیں طرفہ سزائیں دے کر

میرے لوگوں کو نئے خواب دکھائے اُس نے
میرے صحراؤں کو بے فیض گھٹائیں دے کر

جسم کے زخموں کو مرہم کی سنائی ہے نوید
روح کو ڈستی المناک فضائیں دے کر

ہم چھپا جاتے ہیں ہر زخم تمنا اکثر
اپنے احساس کو لفظوں کی قبائیں دے کر

کیوں یہ تنہا سفری راس نہ آئی تم کو
کیوں پشیمان ہوئے اس کو صدائیں دے کر

کس نے بخشا ہے نیا حوصلہ پھر سے ہم کو
کون گزرا ہے یہ جینے کی دعائیں دے کر

کیا بتاتے کہ ہمیں پیار ہے اس سے انورؔ
کیا بلاتے اسے پیچھے سے صدائیں دے کر
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
حدیثِ درد کو آخر بیاں تو ہونا تھا
جو کرب دل میں چھپا تھا عیاں تو ہونا تھا

وہ پاس رہتے ہوئے فاصلوں کا قائل تھا
اس اہتمام کو پھر داستاں تو ہونا تھا

زمیں کا تاج تھا وہ شخص اپنی ہستی میں
زمیں سے بڑھ کے اسے آسماں تو ہونا تھا

دکھوں کی دھوپ کے اس دورِ بے مروّت میں
مجھے کسی کے لئے سائباں تو ہونا تھا

تجھے یہ کس نے کہا تھا حساب مانگ اس سے
اب ایسی بات پہ جاں کا زیاں تو ہونا تھا

جہاں سبھی تھے وہاں پر نہیں تھا میں لیکن
جہاں کوئی بھی نہیں تھا وہاں تو ہونا تھا

جو میں نہ ہوتا سرِ دار، دوسرا ہوتا
کسی کو خلقِ خدا کی زباں تو ہونا تھا

وہ خود پسند، جفا کار شخص تھا انورؔ
نتیجتاً اسے بے کارواں تو ہونا تھا
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
مشورہ


اسے آواز دینے سے ذرا پہلے
یہ اپنے ذہن میں رکھنا
کہ جب کوئی
کسی کو چھوڑ جانے کا ارادہ کر ہی لیتا ہے
تو پھر مغموم آوازیں
کہیں دم توڑتے لہجے
بکھرتے ٹوٹتے لفظوں کی جھنکاریں
بس اک ہارے کھلاڑی سے زیادہ
کچھ نہیں ہوتیں
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
کسی سے بھی نہیں الجھا کریں گے
چلو ہم آج سے ایسا کریں گے

ہمیں ہر حال میں منزل کی دھن ہے
ہر اک دیوار کو رستا کریں گے

ہم اپنی پیاس پر پہرے بٹھا کر
ترے صحراؤں کو دریا کریں گے

مبارک ہوں تمہیں مانگی شرابیں
ہم اپنا خونِ دل صہبا کریں گے

خود اس کے ہاتھ پر لکھیں گے خود کو
لکیروں پر بھروسہ کیا کریں گے

نہیں بیچیں گے اپنے لفظ انور
جو سوچیں گے وہی لکھا کریں گے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
کوئی جتنا سر مارے
کب رکتے ہیں بنجارے

اتنے وہ مختار نہیں
جتنے ہم ہیں بے چارے

شام ڈھلے مل بیٹھیں گے
تیری یادیں، ہم، تارے

ہم نے ایک تری خاطر
کیا کیا روپ نہیں دھارے

دور کھڑے ہو کر تجھ پر
ہم نے کتنے گل وارے

دل میں پیار کے پھول مگر
ذہن میں لاکھوں انگارے

دیکھو ہم نے مان لیا
تم جیتے اور ہم ہارے

میرے گھر میں دھوپ اور دکھ
تیرے آنگن سکھ سارے

اپنی آنکھیں دریا ہیں
تیرے لفظ ندی دھارے

اب کیسے سمجھائیں ہم
ہم کس کو کیسے ہارے

کچھ لکھنے والے انورؔ
لکھ جاتے ہیں شہہ پارے
٭٭٭
 
Top