رومن اردو استعمال کی جائے

col13.gif


جنگ
 

قیصرانی

لائبریرین
مزے کی بات دیکھیئے کہ جو افراد اچھا آئی کیو رکھتے ہیں اور انگریزی نہ جاننے کی وجہ سے "ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں"، وہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اس بات پر ابھی تک میری ہنسی نہیں رک رہی۔ یہ بات صبح پڑھی تھی۔ اس کے علاوہ شاید ساری دنیا کے علوم رومن اردو میں لکھے ہوئے ہیں کہ یہ فیصلہ ہوتے ہی سب کچھ آسان ہو جائے گا :)
 
مزے کی بات دیکھیئے کہ جو افراد اچھا آئی کیو رکھتے ہیں اور انگریزی نہ جاننے کی وجہ سے "ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں"، وہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اس بات پر ابھی تک میری ہنسی نہیں رک رہی۔ یہ بات صبح پڑھی تھی۔ اس کے علاوہ شاید ساری دنیا کے علوم رومن اردو میں لکھے ہوئے ہیں کہ یہ فیصلہ ہوتے ہی سب کچھ آسان ہو جائے گا :)
میرا خیال ہے ڈاکٹر صاحب ائی ٹی کے متعلق فرمارہے ہیں کہ کمپیوٹنگ، پروگرامنگ وغیرہ اسان ہوجائے گی
 

رانا

محفلین
یہ کہنا کہ ترکی لاطینی رسم الخط کی وجہ سے ترقی کی منازل طے کررہا ہے ایک بے بنیاد دعوی ہے۔ اتنی بڑے دعوے کی کوئی ٹھوس دلیل ڈاکٹر صاحب نہیں دے سکے کہ ترکی کی کی ترقی میں اسکے رسم الخط نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ عالم اسلام کی پرانی یادوں کا تذکرہ بعضوں کو برا لگتا ہے کہ کیا پرانے قصے لے کے بیٹھ گئے آج کی بات کرو لیکن صرف اس دلیل کی لغویت دکھانے کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک عرصہ تک سائنس کی ترقی میں مسلمان نمایاں رہے اور عربی رسم الخط کے ساتھ جبکہ انگریزی رسم الخط والا خطہ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا رہا۔ اس وقت لوگ عربی سیکھا کرتے تھے کہ علم کا خزانہ عربی میں ہے لیکن آج ماننے کی بات ہے کہ دنیاوی علم کا خزانہ انگریزی میں ہے اس لئے لوگ اس سے متاثر ہیں۔

یہ کہنا کہ کمپیوٹر اور موبائل فون میں عربی رسم الخط کو استعمال کرنا مشکل کام ہے یہ بھی ایسا لگتا ہے کہ کالم نگار کو اردو ٹائپنگ سے سنجیدگی سے کبھی واسطہ نہیں پڑا۔ جہاں تک بات کمپیوٹر پر عربی رسم الخط کے استعمال کی ہے تو یہاں دوسروں کی کیا بات کرنی خود مجھے تو اردو اور انگریزی لکھنا بالکل یکساں لگتا ہے۔شائد کالم نگار اس بات کو مبالغہ سمجھے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ تمہیں انگریزی یا اردو لکھنے میں سے کون سی زبان آسان لگتی ہے تو شائد میں فیصلہ نہ کرپاؤں کہ کس زبان کے حق میں ووٹ دوں۔ موبائل میں اردو لکھنے کا کبھی تجربہ نہیں کیا لیکن اگر موبائل پر بالفرض اردو لکھنا مشکل ہے بھی تو صرف اس لئے کہ لوگوں کو عادت نہیں ہے اور استعمال سے پہلے ہی یہ سن کر کہ مشکل کام ہے اردو لکھنا لوگ حوصلہ ہی نہیں کرتے ہوں گے۔

جہاں تک بات ہے کہ لوگ اردو کو لاطینی حروف تہجی میں استعمال کو ترجیح دے رہے ہیں تو اسکی وجہ وہی کہ لوگوں کو اردو کمپیوٹنگ میں ہونے والی ترقی سے آگاہی نہیں ہے۔ میں نے اکثر جگہوں بلکہ سافٹ وئیر ہاوسز تک میں دیکھا ہے کہ عربی رسم الخط میں کسی ایپلیکیشن کی ڈیمانڈ آجائے تو ڈیویلپر پریشان ہوجاتے ہیں کہ یہ کیسے ہوگا۔ اپنے آفس میں تو میں دیکھ چکا ہوں کہ انتہائی سینئیرز ڈیویلپرز اس مسئلے پر سوچ بچار کرتے نظر آئے اور جب میں نے انہیں بتایا کہ یہ اب اتنا مشکل نہیں رہا تو تفصیل جان کر حیران ہوگئے صرف ٹائپنگ کی پریکٹس نہ ہونے کا مسئلہ درپیش ہوا۔ تو جب سافٹ وئیر انڈسٹریز میں لوگ اتنے بے خبر ہوسکتے ہیں اردو کمپیوٹنگ میں ہونے والی ترقی سے تو عام لوگوں کیا حال ہوگا۔ وہ تو پھر لاطینی رسم الخط کو ہی اپنائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ وہ اپنے گذشتہ کالموں میں اس حوالے سے درپیش مشکلات پر روشنی ڈال چکے ہیں وہ تو میں نے پڑھے نہیں شائد ان میں کچھ حقیقی مشکلات کا بھی ذکر کیا گیا ہو پڑھنے کو ملیں گے تو ہی کچھ مزید کہا جاسکتا ہے لیکن بہرحال اگر ابھی مشکلات ہیں بھی تو ان سے گھبرا کر اپنے رسم الخط ہی کو چھوڑ دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ یہ فیصلہ تو اس وقت کرنا چاہئے جب اس فیلڈ کے ماہرین ہار مان لیں کہ جناب یہ ناممکن کام ہے۔

یہ کہنا کہ لاطینی رسم الخط سے اردو کو فروغ حاصل ہوگا یہ بات تو کچھ حلق سے نہیں اترتی۔ جب تک اردو رسم الخط یونی کوڈ میں نہیں ملا تھا اس وقت تک جو انٹرنیٹ پر فروغ ہوا وہ دیکھ لیں اور اب یونی کوڈ کے بعد جو فروغ ہوا وہ دیکھ لیں۔ اب تو اردو میں کوئی بھی لفظ سرچ کرلیں اکثر اس کے حوالے سے معلومات نیٹ پر یونی کوڈ میں مل جاتی ہیں۔ اب جبکہ بڑے بڑے اخبار اور چینل بھی اردو رسم الخط پر آرہے ہیں جو اردو کے فروغ کا منہ بولتا ثبوت ہے ایسے میں یہ کہنا کہ لاطینی سے زیادہ فروغ حاصل ہوگا نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ پھر یہ بات کہ کمپیوٹر اور موبائل پر مافی الضمیر اردو میں پیش کرنے میں کسی قسم کی مشکلات کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑے گا تو پتہ نہیں ڈاکٹر صاحب کس قسم کی مشکلات کی بات کررہے ہیں۔ مجھے اور محفل پر مراسلات لکھنے والے سبھی محفلین کو میرے خیال میں ابھی بھی کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اپنا مافی الضمیر بیان کرتے ہوئے۔ یہاں پھر شک پیدا ہوتا ہے کہ شائد ڈاکٹر صاحب نے کبھی کمپیوٹر پر اردو میں لکھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی۔ پاکستان میں انگریزی کیبورڈ کی مہارت کا جہاں تک تعلق ہے تو اس پر میں بتا چکا ہوں کہ صرف آگاہی کی کمی ہے ورنہ اردو کیبورڈ پر بھی ویسی ہی مہارت ہے جاننے والوں کو۔

پھر یہ بات کہ جو انگریزی سے نابلد ہیں وہ بھی لاطینی کی مدد سے کمپیوٹر کو استعمال کرسکیں گے۔ اس بات میں بھی کوئی وزن نہیں ہے۔ آج کل تو آپ عام استعمال کے کئی سافٹ وئیرز بشمول آپریٹنگ سسٹم کے، کو اردو رسم الخط میں کرسکتے ہیں۔ اب جسے انگریزی حروف تہجی سے واقفیت ہے اس کے لئے لاطینی کی بجائے انگریزی کی کمانڈز میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ جبکہ اردو رسم الخط کا یہ فائدہ ہے کہ وطن عزیز میں کسی بندے کو اور کچھ پڑھنا آتا ہو یا نہ لیکن اللہ کے فضل سے اکثریت کو قرآن شریف بچپن میں ہی پڑھایادیا جاتا ہے۔ اب اس نے بھلے سے کبھی اسکول کا منہ ہی نہ دیکھا ہو اس کے لئے انگریزی حروف بالکل انجان ہوں گے لیکن قرآن پڑھے ہونے کی بدولت اردو حروف بلکہ حروف کو ملا کر الفاظ بنانے کی خودکار صلاحیت حاصل ہوگی۔ اب اسکا کمپیوٹر اگر لاطینی میں ہو تو بے کار ہے لیکن اگر اردو رسم الخط میں ہو تو اسے شائد سکھانے کی بھی ضرورت نہ پڑے۔

باقی رہی بات کہ جن کا IQلیول بہت عمدہ ہے وہ انگریزی پر دسترس نہ رکھنے کی وجہ سے کچھ نہیں کرسکتے لیکن لاطینی میں وہ کمپیوٹر کی دنیا میں تہلکہ مچا سکتے ہیں۔ تو میرا ذاتی خیال ہے کہ آئی کیو لیول جتنا بھی عمدہ ہو وہ لاجک بتانے میں تو کمال دکھا سکتا ہے لیکن انگریزی سے نابلد ہونے کی صورت میں کمپیوٹر میں شائد کچھ نہ کرسکے۔ استثنا ہرجگہ ہوتے ہیں لیکن عمومی پہلو کو مد نظر رکھا جائے تو انگریزی کے بغیر نہ آپ نیٹ ورکنگ میں کوئی ریسرچ ورک پیش کرسکتے ہیں اور نہ سافٹ وئیرز میں سوائے اس کے کہ آپ کو کسی انگریزی خوان کمپیوٹر جاننے والے کی خدمات میسر آجائیں جو آپ کے آئیڈیاز پر کام کرکے کچھ پیش کرسکے لیکن دونوں صورتوں میں آپ صرف اپنے آئیڈیاز ہی دے سکتے ہیں لیکن کمپیوٹر کے بنیادی concept جانے بغیر کچھ کردکھانا بہت ہی استثنائی صورت ہے عمومی نہیں۔

آئی فون میں کی بورڈ شامل کرانا کوئی بڑی بات نہیں اس میں حکومت کی سنجیدگی چاہیے اور کچھ نہیں۔
لاطینی رسم الخط کی بدولت شرح خواندگی میں اضافہ ہوجائے گا اس کی بھی کوئی دلیل نہیں۔ اپنے پاکستان میں ہی ایسے شہر موجود ہیں جہاں شرح خواندگی پچانوے فیصد سے زائد ہے۔ اس لئے لاطینی کا اس میں کوئی کام نہیں ہوگا بلکہ اپنے سسٹم کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ اس سسٹم میں تو لاطینی شرح خواندگی کو شائد کم ہی کرے گی۔ ورنہ میں نے پہلے مثال دی کہ ایک بچہ گھر میں سب سے پہلے قرآن شریف پڑھنا سیکھتا ہے اسکے بعد اردو رسم الخط میں اسے ایسی کیا مشکل درپیش ہوگی جو لاطینی دور کرےگی؟

اس کالم میں ڈاکٹر صاحب نے لاطینی رسم الخط کا سب سے زیادہ فائدہ شرح خواندگی اور تعلیم میں ترقی بتایا ہے۔ ان کی یہ خواہش کوئی شک نہیں بہت ہی قابل قدر ہے۔ بلاشبہ ہمیں اس وقت تعلیم کے میدان میں آگے بڑھے کی ضرورت ہے لیکن اس کے لئے لاطینی رسم الخط پر زور دینا میرے خیال میں ایک غلط راستہ ہے۔ جبکہ اس کی بجائے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم تعلیم اپنی زبان میں دیں لیکن اس معاملے میں افراط و تفریط سے بچیں۔ نہ تو تفریط کی راہ پر قدم مارتے ہوئے بالکل ہی انگریزی میں سب کچھ کردیں کہ کلاسز میں بلاوجہ ہر لیکچر انگریزی میں ہی دیا جائے۔ اور نہ ہی افراط کی راہ اختیار کریں کہ اردو میں تعلیم دینے پر آئیں تو ہر اصطلاح کو اردوانے کی فضول کوشش شروع کردیں اور برقیرے اور افقی اور عمودی کے چکروں میں طلباء کو الجھا دیں۔ اصطلاحات اور خاص الفاظ وغیرہ سب انگریزی میں ہی ہونے چاہییں لیکن سمجھانے کے لئے اپنی زبان کو ذریعہ بنایا جائے۔
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
صاحب تحریر سخت قسم کی کنفیوژن کا شکار نظر آتے ہیں اور یہ فیصلہ کرنے میں ناکام ہیں کہ ان کا مدعا کیا ہے- کیا وہ اردو کو لاطینی رسم الخط میں ڈھالنا چاہتے ہیں، یا پھر اردو زبان میں کمپیوٹنگ کو فروغ دینا چاہتے ہیں یا پھر مادری زبانوں میں تعلیم دلوانا چاہتے ہیں؟
بیچ میں چھوڑے گئے شگوفوں کی بھی کچھ کمی نہیں نظر آتی۔
 
آخری تدوین:
اس پر ذرا روشنی ڈالئے۔


یہ میرا نہیں بلکہ صاحب تحریر کا خیال ہے

ورنہ مجھے جاپان، کوریا، اور چائنا کی ترقی کا پتہ ہے جو لاطینی حروف کے بغیر ہی ان کی اپنی زبان میں ہوئی۔ البتہ انگریزی زبان کی افادیت سے انکار نہیں ہے۔
اگر پاکستان کو ترقی کرنی ہے تو ایک زبان کو ترقی دینی ہوگی۔ وہ زبان جو تمام اہل وطن کے لیے کم سے کم اجنبی ہو۔ جیسے عربی یا اردو یا فارسی۔
 
ویسے ایک گروپ بنایا جانا چاہیے محفل پہ جو ایسے کالم سامنے آنے پرباضاطہ اور ذرا بے تکلف سی ایک ملاقات کر آیا کریں ایسے کالمنسٹ سے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
اوپر رانا صاحب نے کافی مضبوط دلائل دے کر موضوع کا مفصل تجزیہ کردیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوکہ رانا صاحب کی یہ شاندار تحریر کالم نگار کے پڑھنے میں آ جائے۔ تاکہ انہیں اپنےکالم میں اٹھائے گئےنکات کا شافی جواب مل سکے۔ گمان غالب ہےکہ یہاں اردومحفل پر تو شاید وہ اس کو نہ پڑھ سکیں۔ اسلئے اگر یہ تحریر ان کو میل کی جا ئے یا جنگ اخبار میں اس کالم کے نیچےکمنٹس کے خانے میں درج کی جا سکے تو بہتر رہے گا۔
 

رانا

محفلین
اوپر رانا صاحب نے کافی مضبوط دلائل دے کر موضوع کا مفصل تجزیہ کردیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوکہ رانا صاحب کی یہ شاندار تحریر کالم نگار کے پڑھنے میں آ جائے۔ تاکہ انہیں اپنےکالم میں اٹھائے گئےنکات کا شافی جواب مل سکے۔ گمان غالب ہےکہ یہاں اردومحفل پر تو شاید وہ اس کو نہ پڑھ سکیں۔ اسلئے اگر یہ تحریر ان کو میل کی جا ئے یا جنگ اخبار میں اس کالم کے نیچےکمنٹس کے خانے میں درج کی جا سکے تو بہتر رہے گا۔
بہت شکریہ تلمیذ صاحب۔ مجھے بھی یہاں تبصرہ کرنے کے بعد یہی خیال آیا تھا کہ جو لوگ بھی اس کالم کو پڑھیں گے وہ اگر اردو کمپیوٹنگ کی ترقی سے ناواقف ہیں تو کہیں متاثر ہو کر واقعی اسے ناممکنات میں سے ہی نہ سمجھ بیٹھیں اس لئے میں نے لیٹرز ٹو دی ایڈیٹر پر مراسلہ تھوڑی سے کمی بیشی کرکے ای میل بھی کردیا تھا۔ اب دیکھیں وہ کالم نگار کو میل کرتے ہیں یا نہیں۔
دوسرا یہ کہ مجھے عربی رسم الخط سے کیونکہ صرف استعمال کی حد تک واقفیت ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ جو دوست اردو کمپیوٹنگ کی ترقی میں خود شامل ہیں وہ زیادہ بہتر ان دلائل کا جواب دے سکتے ہیں۔ اسی لئے میں نے بھی پورے کالم پر تبصرہ نہیں کیا صرف ان باتوں کو لیا جن کے متعلق روزمرہ کا مشاہدہ رہتا ہے۔
 
آخری تدوین:

آدم کا بیٹا

محفلین
اوپر رانا صاحب نے کافی مضبوط دلائل دے کر موضوع کا مفصل تجزیہ کردیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوکہ رانا صاحب کی یہ شاندار تحریر کالم نگار کے پڑھنے میں آ جائے۔ تاکہ انہیں اپنےکالم میں اٹھائے گئےنکات کا شافی جواب مل سکے۔ گمان غالب ہےکہ یہاں اردومحفل پر تو شاید وہ اس کو نہ پڑھ سکیں۔ اسلئے اگر یہ تحریر ان کو میل کی جا ئے یا جنگ اخبار میں اس کالم کے نیچےکمنٹس کے خانے میں درج کی جا سکے تو بہتر رہے گا۔
محترم کالم نگار کو رانا صاحب کا تجزیہ اور اس تھریڈ کا لنک ای میل کر دیا گیا ہے۔ امید کرتا ہوں فرصت ملنے پر یہاں آ کراپنے نظریات کا دفاع کریں گے۔
 

آدم کا بیٹا

محفلین
کالم نگار انقرہ یونیورسٹی شعبہ اردو کے سربراہ چکے ہیں۔ اور آجکل ترکش نیشنل چینل ، ٹی-آر-ٹی اردو ڈویزن کے منتظمین میں ہیں۔
 

تلمیذ

لائبریرین
ا
کالم نگار انقرہ یونیورسٹی شعبہ اردو کے سربراہ چکے ہیں۔ اور آجکل ترکش نیشنل چینل ، ٹی-آر-ٹی اردو ڈویزن کے منتظمین میں ہیں۔

اسی لیے رومن اردو سے بہت متاثر ہیں اور اس کی ترویج کی مہم چلائے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر اردو رسم الخط (اور خصوصاً نستعلیق) کے چاہنے والوں کی طرف سے ان کی حوصلہ شکنی کی مساعی کی جائیں تو شاید وہ اس 'بےکار' محنت سے باز آجائیں۔
 

عؔلی خان

محفلین
مجھے یورپ میں 9 سال رہنے کا موقع ملا ۔ اور مجھےیورپ (خصوصاً جرمنی ، پرتگال اور برطانیہ کا تو میرا ذاتی تجربہ ہے) کی ایک یہ بات بہت پسند آئی کہ وہاں تقریباً دنیا کی ہر کتاب اور ملٹی میڈیا کا مقامی زبان میں فوراً ترجمہ کردیا جاتا ہے - حتیٰ کہ ہالیوڈ کی فلمیں بھی مقامی زبان میں ڈب کی جاتی ہیں۔ انسان کی مادری یا مقامی زبان میں جو چیز سمجھائی یا پڑھائی جائے وہ جلد سمجھ میں آجاتی ہے بہ نسبت ایک غیر ملکی زبان کے۔ اہمارے پیارے وطن پاکستان میں بھی ایسے ادارے موجود ہیں ( مقتدرہ، اردو مرکزی بورڈ وغیرہ) لیکن صد افسوس کہ سیاست کا زہر وہاں پر بھی سرایت کر چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے، پاکستان کے دیگر اداروں کی طرح، کہ ان اداروں میں قابل، مخلص، سنجیدہ اور سیاست کی آلائشوں سے پاک افراد کو مقرر کیا جائے جو کہ یورپ کی طرح تقریباً دنیا کی ہر کتاب اور ملٹی میڈیا کا بچوں اور بڑوں کی مادری یا مقامی زبان میں نہ سہی فی الحال اردو میں ہی فوراً ترجمہ کرنے کا اہتمام کریں۔ حکومت اگر چاہے تو اردو میڈیم اسکولوں اور کالجز میں تمام مضامین کی ٹیکسٹ بکس کو اردہ میں لازمی قرار دیدے اس طرح پرائیوٹ سیکٹر میں بھی ترجمہ ہاؤس فروغ پائیں گے اور اس طرح اردو زبان کے ساتھ ساتھ دیگر مادری و مقامی زبانوں کی ترقی اور ترویج کے راستے ہموار ہوں گے۔ واللہ اعلم۔ شکریہ۔ :)
 
آخری تدوین:
Top