رباعی کے اوزان پر ایک بحث از محمد وارث

محمد وارث

لائبریرین
رباعی بھی خاصے کی چیز ہے، قدما اس کے چوبیس وزن بنا گئے سو عام شعرا کو اس سے متنفر کرنے کیلیے یہی کافی ہے کہ رباعی کے چوبیس وزن ہیں، حالانکہ اگر تھوڑا سا تدبر و تفکر کیا جائے اور ان اوزان کو ایک خاص منطقی ترتیب اور انداز سے سمجھا جائے تو ان اوزان کو یاد رکھنا اور ان پر عبور حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں ہے، اور یہ مضمون بنیادی طور پر اسی موضوع پر ہے جس میں رباعی کے اوزان کو ایک خاص ترتیب سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایک عرض یہ کرتا چلوں کہ ضروری نہیں کہ ایک رباعی میں مخلتف اوزان ہی اکھٹے کیے جائیں، اگر ایک ہی وزن میں چاروں مصرعے ہوں تو پھر بھی رباعی ہے اور اگر ایک ہی وزن میں بیسیوں رباعیاں ہوں تو پھر بھی رباعیاں ہی ہیں لیکن اس میں مختلف اوزان کو اکھٹا کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ شاعر اپنے مافی الضمیر کو بہتر سے بہتر انداز میں اور مختلف الفاظ کے چناؤ کے ساتھ بیان کر سکتا ہے اور پھر بنیادی طور ان اوزان میں فرق بھی بہت تھوڑا ہے، جس سے آہنگ پر فرق نہیں پڑتا، مثال کے طور پر، چوبیس میں سے بارہ اوزان تو صرف فع کو فاع اور فعِل کو فعول سے بدلنے سے حاصل ہو جاتے ہیں، تفصیل انشاءاللہ نیچے آئے گی۔

رباعی کی بحر، افاعیل اور انکی ترتیب

رباعی کی بحر، بحرِ ہزج ہے جسکا بنیادی رکن 'مفاعیلن' ہے اور اسی مفاعیلن کے مختلف وزن ہی، جو مختلف زحافات کے استعمال سے حاصل ہوتے ہیں، اس میں استعمال ہوتے ہیں۔

رباعی میں دس افاعیل آتے ہیں، جو کہ مفاعیلن ہی سے حاصل ہوتے ہیں، زحافات کے نام اور ان کے استعمال کا طریقہ لکھ کر اس مضمون کو بالکل ہی ناقابلِ برداشت نہیں بنانا چاہتا، صرف افاعیل لکھ رہا ہوں۔

1- مفاعیلن
2- مفاعیل
3- مفعولن
4- مفاعلن
5- مفعول
6- فاعلن
7- فعول
8- فَعِل
9- فاع
10- فع

اس میں نوٹ کرنے کی خاص بات یہ ہے کہ 'فعولن' اس فہرست میں نہیں ہے، یعنی فعولن جو کہ مفاعیلن سے حاصل ہونے والا ایک انتہائی مستعمل رکن ہے وہ رباعی میں نہیں آتا، اگر آئے گا تو رباعی کا وزن خراب ہو جائے گا۔

کسی بھی مثمن بحر کی طرح، رباعی کی بحر کے بھی چار رکن ہیں یعنی

صدر (یا ابتدا)، حشو، حشو، عرض (یا ضرب)

اور نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اوپر والے دس افاعیل میں سے جو بھی چار بحر میں استعمال ہونگے انکی اس بحر کی ترتیب میں اپنی اپنی جگہ مخصوص ہے، جیسے

- صدر یعنی پہلے رکن میں ہمیشہ مفعول آئے گا یا مفعولن، کوئی اور رکن نہیں آ سکتا۔

- ضرب یعنی چوتھے رکن میں ہمیشہ فع، فاع، فعِل اور فعول میں سے کوئی ایک آئے گا، اور کوئی رکن نہیں آ سکتا۔

- مفاعلن اور فاعلن ہمیشہ پہلے حشو یعنی دوسرے رکن میں ہی آئیں گے، اور کسی بھی جگہ نہیں آ سکتے۔

- مفاعیلن اور مفاعیل دونوں حشو میں یعنی دوسرے اور تیسرے رکن میں آسکتے ہیں، کسی اور جگہ نہیں آتے۔

- مفاعیلن اور مفاعیل کے علاوہ، مفعولن، مفعول بھی دونوں حشو میں آ سکتے ہیں۔

اسکے علاوہ، رباعی کے مختلف افاعیل کی ترتیب یاد رکھنے میں قدما کا جو کلیہ سب سے اہم ہے وہ کچھ یوں ہے جو کہ مرزا یاس یگانہ نے اپنی کتاب "چراغِ سخن" میں لکھا ہے۔

سبب پئے سبب و وتد پئے وتد

یوں سمجھیے کہ یہی رباعی کے اوزان کی کلید ہے یعنی ایک سبب کے بعد ہمیشہ سبب آئے گا اور ایک وتد کے بعد ہمیشہ وتد آئے گا، مثال کے طور پر، ایک شاعر ایک رباعی شروع کرتا ہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ رباعی یا تو مفعول سے شروع ہوگی یا مفععولن سے۔

فرض کریں، رباعی مفعول سے شروع ہوتی ہے، یعنی پہلا رکن مفعول ہو گیا، اب دوسرے رکن میں جو تمام افاعیل آ سکتے ہیں وہ یہ ہیں

مفاعیلن
مفاعیل
مفاعلن
مفعولن
مفعول
فاعلن

اب اس بنیادی کلیے کو ذہن میں رکھیے کہ سبب کے بعد سبب اور وتد کے بعد وتد، پہلا رکن مفعول ہے جو کہ وتد پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن لازمی وتد سے شروع ہوگا، اوپر والی فہرست میں جو افاعیل وتد سے شروع ہو رہے ہیں وہ یہ ہیں

مفاعیلن
مفاعیل
مفاعلن

یعنی مفعول کے بعد اب صرف ان تین میں سے کوئی رکن آئے گا، فرض کریں مفاعیل آیا اور ہمارے پاس دو رکن ہو گئے یعنی

مفعول مفاعیل

اب مفاعیل بھی وتد پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن بھی لازمی وتد سے شروع ہوگا، یہ پھر تین ہیں، مفاعیلن، مفاعیل، مفاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ مفاعلن تیسرے رکن میں نہیں آ سکتا سو مفاعیلن اور مفاعیل میں سے کوئی آئے گا، فرض کریں مفاعیلن لیا تو اب تین رکن ہو گئے

مفعول مفاعیل مفاعیلن

اب رہ گیا چوتھا رکن، جس میں فع، فاع، فعِل اور فعول ہی آ سکتے ہیں، کلیہ ذہن میں رکھیے، مفاعیلن سبب پر ختم ہو رہا ہے سو اگلا رکن سبب سے شروع ہوگا، وہ فع ہے سو رباعی کا وزن مل گیا

مفعول مفاعیل مفاعیلن فع

اب کسی بھی بحر کی طرح، آخری رکن میں عملِ تسبیغ کی یہاں بھی اجازت ہے سو فع کو فاع کریں اور دوسرا وزن بھی مل گیا

مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع

اوپر والے کلیات کو استعمال کرتے ہوئے ہم نے رباعی کے دو وزن حاصل کر لیے، اب انہی کی مدد سے ہم رباعی کے سارے وزن یعنی چوبیس حاصل کریں گے۔

اساتذہ نے رباعی کو دو شجروں میں تقسیم کیا ہے، جو رباعی مفعول سے شروع ہوتی ہے، اسکے بارہ اوزان کو شجرۂ اخرب کہتے ہیں اور جو رباعی مفعولن سے شروع ہوتی ہے اسکے بارہ اوزان کو شجرۂ اخرم کہتے ہیں، اور یہ دونوں نام بھی زحافات کے نام پر ہیں۔ یہاں ایک وضاحت یہ کہ بعض قدیم اساتذہ نے اخرب اور اخرم اوزان کو ایک ہی رباعی میں باندھنے سے منع کیا ہے، لیکن اس بات کو کوئی بھی رباعی گو شاعر نہیں مانتا اور بلاتکلف اخرب اور اخرم کے اوزان ایک ہی رباعی میں جمع کرتے ہیں۔

شجرۂ اخرب اور اسکے بارہ اوزان

ان اوزان کو شجرہ کہا جاتا ہے لیکن اس خاکسار کے محدود مطالعے میں عروض کی کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جس میں اس کو ایک شجرہ کی طرح واضح کیا گیا ہو، خاکسار یہ کوشش کر رہا ہے، ممکن ہے کسی کتاب میں اسے اس صورت میں لکھا گیا ہو، شجرے کی تصویر دیکھیے، تصویر کو بڑا دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔
Rubai_akhrab.bmp



اب اس شجرہ کو اوپر والے اصولوں کی روشنی میں کھول کر بیان کرتا ہوں۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس شجرہ میں پہلے رکن میں ہمیشہ مفعول آتا ہے جو وتد پہ ختم ہوتا ہے سو اگلا رکن مفاعیلن، مفاعیل اور مفاعلن ہونگے جو کہ وتد سے شروع ہوتے ہیں، سب سے پہلے مفاعیلن کو لیتے ہیں سو

مفعول مفاعیلن

یہ سبب پر ختم ہوا سو اگلا رکن لازمی سبب سے شروع ہوگا جو کہ تین ہیں یعنی مفعولن، مفعول اور فاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ تیسرے رکن میں فاعلن نہیں آ سکتا سو صرف دو رہ گئے، مفعولن اور مفعول اور ان دو افاعیل سے یہ اوزان حاصل ہوئے

مفعول مفاعیلن مفعولن
مفعول مفاعیلن مفعول

اب مفعولن سبب پر ختم ہوا سو اگلا رکن فع ہوگا جو کہ سبب ہے سو پہلا مکمل وزن مل گیا

مفعول مفاعیلن مفعولن فع (وزن نمبر 1)

فع کو فاع سے بدلیں دوسرا وزن حاصل ہو گیا

مفعول مفاعیلن مفعولن فاع (وزن نمبر 2)

اب تیسرے رکن میں مفعول کو لیں تو یہ وتد پر ختم ہوا سو چوتھا رکن وتد سے شروع ہوگا جو فعِل ہے سو

مفعول مفاعیلن مفعول فعِل (وزن نمبر 3)

فعِل کو فعول سے بدل لیں، ایک اور وزن مل گیا

مفعول مفاعیلن مفعول فعول (وزن نمبر 4)

اب پھر دوسرے رکن پر چلتے ہیں اور اگلے چار وزن حاصل کرتے ہیں، مفعول کے بعد مفاعیل لائے یعنی

مفعول مفاعیل

مفاعیل وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن وتد سے شروع ہوگا، مفاعلن یہاں نہیں آ سکتا سو مفاعیلن یا مفاعیل ہونگے یعنی

مفعول مفاعیل مفاعیلن
مفعول مفاعیل مفاعیل

مفاعیلن سبب پر ختم ہوا سو فع آئے گا یعنی

مفعول مفاعیل مفاعیلن فع (وزن نمبر 5)

مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع (وزن نمبر 6)


تیسرے رکن میں مفاعیل لائیے جو وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن فعِل ہوا

مفعول مفاعیل مفاعیل فعِل (وزن نمبر 7)

مفعول مفاعیل مفاعیل فعول (وزن نمبر 8 )


آٹھ وزن مل گئے، اگلے چار دوسرے رکن میں مفاعلن لانے سے ملیں گے یعنی

مفعول مفاعلن

یہ بھی وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن وتد سے شروع ہوگا جو کہ دو ہیں، مفاعیلن اور مفاعیل کیونکہ مفاعلن تیسرے رکن میں نہیں آ سکتا

مفعول مفاعلن مفاعیلن
مفعول مفاعلن مفاعیل

مفاعیلن کے ساتھ فع آئے گا سو

مفعول مفاعلن مفاعیلن فع (وزن نمبر 9)

مفعول مفاعلن مفاعیلن فاع (وزن نمبر 10)

مفاعیل کے ساتھ فعِل آئے گا سو

مفعول مفاعلن مفاعیل فعِل (وزن نمبر 11)

مفعول مفاعلن مفاعیل فعول (وزن نمبر 12)

گویا ایک خاص ترتیب سے چلتے ہوئے ہمیں رباعی کے بارہ وزن مل گئے، اگلے بارہ وزن شجرہ اخرم کے ہیں اور اسی طرح حاصل ہونگے۔


شجرۂ اخرم اور اسکے بارہ اوزان

پہلے اس شجرہ کی تصویر دیکھ لیں، بڑا دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔

Rubai_Akhram.jpg


جیسا کہ ہمیں علم ہے کہ یہ شجرہ ہمیشہ مفعولن سے شروع ہوتا ہے جو کہ سبب پر ختم ہوتا ہے سو دوسرا رکن سبب ہی سے شروع ہوگا، جو کہ تین ہیں، مفعولن، مفعول اور فاعلن۔ مفعولن سے شروع کرتے ہیں

مفعولن مفعولن

یہ بھی سبب پر ختم ہوا سو تیسرا رکن بھی سبب سے شروع ہوگا، وہ دو ہیں، مفعولن اور مفعول کیونکہ فاعلن یہاں نہیں آ سکتا سو

مفعولن مفعولن مفعولن
مفعولن مفعولن مفعول

مفعولن سبب پر ختم ہوا سو لازمی طور پر اگلا رکن سبب سے شروع ہوگا جو فع ہے سو

مفعولن مفعولن مفعولن فع (وزن نمبر 1)

اور فع کو فاع سے بدلیں تو

مفعولن مفعولن مفعولن فاع (وزن نمبر 2)

تیسرے رکن میں مفعول لائیں جو وتد پر ختم ہوا سو چوتھا رکن لازمی فعِل ہوگا سو

مفعولن مفعولن مفعول فعِل (وزن نمبر 3)

اور فعِل کو فعول سے بدلیں تو

مفعولن مفعولن مفعول فعول (وزن نمبر 4)

اب واپس دوسرے رکن پر چلتے ہیں اور مفعولن کے بعد مفعول لاتے ہیں یعنی

مفعولن مفعول

اب مفعول وتد پر ختم ہوا، تیسرا رکن لازمی وتد سے شروع ہوگا، یہ تین ہیں، مفاعیلن مفاعیل اور مفاعلن لیکن ہم جانتے ہیں کہ مفاعلن کبھی بھی تیسرے رکن میں نہیں آئے گا سو دو رہ گئے، مفاعیلن اور مفاعیل یعنی

مفعولن مفعول مفاعیلن
مفعولن مفعول مفاعیل

مفاعیلن کے بعد فع آیا تو

مفعولن مفعول مفاعیلن فع (وزن نمبر 5)

اور

مفعولن مفعول مفاعیلن فاع (وزن نمبر 6)

اب تیسرے رکن میں مفاعیل لائیں تو یہ وتد پر ختم ہوا سو اسکے بعد فعِل آیا یعنی

مفعولن مفعول مفاعیل فعِل (وزن نمبر 7)

اور مفعولن مفعول مفاعیل فعول (وزن نمبر 8 )

اب واپس دوسرے رکن کی طرف چلتے ہیں وہاں ہم فاعلن کو چھوڑ آئے تھے، اس کو لائیں گے تو مزید چار وزن مل جائیں گے۔

مفعولن فاعلن

فاعلن وتد پر ختم ہوا سو اگلا رکن مفاعیلن، مفاعیل یا مفاعلن ہوگا، مفاعلن باہر ہوگیا تو مفاعیلن اور مفاعیل رہ گئے

مفعولن فاعلن مفاعیلن
مفعولن فاعلن مفاعیل

مفاعیلن کے بعد فع آیا تو

مفعولن فاعلن مفاعیلن فع (وزن نمبر 9)

اور

مفعولن فاعلن مفاعیلن فاع (وزن نمبر 10)

تیسرے رکن میں مفاعیل لائے تو اسکے بعد فعِل آیا سو

مفعولن فاعلن مفاعیل فعِل (وزن نمبر 11)

اور مفعولن فاعلن مفاعیل فعول (وزن نمبر 12)

اور یوں ہمیں 'سبب پئے سبب و وتد پئے وتد" کے اصول اور افاعیل و ارکان کی خاص ترتیب پر چلتے ہوئے دونوں شجروں کے بارہ بارہ اوزان یعنی کل چوبیس وزن مل گئے۔

یہ وہ طریقہ جس کو سمجھتے ہوئے اس خاکسار نے رباعی کے اوزان کو سمجھا، اسکے علاوہ بھی کئی ایک طریقے ہیں لیکن میں نے اس میں کوشش کی ہے کہ اوزان کو ایک خاص منطقی ترتیب سے لاؤں، امید ہے قارئین کیلیے یہ طریقہ رباعی کے اوزان سمجھنے کیلیے کارآمد اور فائدہ مند ہوگا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اسی مضمون کے حوالے سے فیس بُک پر ایک دوست نے کچھ استفسارات کیے تھے، میں نے انکے جواب لکھ دیے تھے یہاں بھی دوستوں کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں:

استفسار: یہ جو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ "لا حول ولا قوت الا باللہ " رباعی کا وزن ہے ۔۔ تو کیا یہ چوبیس اوزان میں سے ایک ہے ؟ اور وہ وزن کیا ہے ؟

جواب: دراصل قرآن مجید کی چند ایک آیات اور کچھ احادیث ایسی ہیں جو اتفاقاً کسی نہ کسی وزن پر موزوں ہو جاتی ہیں۔ انہی میں سے یہ حدیث بھی ہے کہ رباعی کے ایک وزن پر آ جاتی ہے۔

اسکی تقطیع کچھ یوں ہے

لا حول و لا قوّۃ الا باللہ

لا حولَ - مفعول
و لا قو وَ - مفاعیل
تَ اِل لا بل - مفاعیلن
لا ہ - فاع

یعنی اسکا وزن 'مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع' ہے۔

بعض لوگ ضرورت شعری کے تحت اللہ کی ہ گرا دیتے ہیں اس صورت میں آخری رکن فاع کی جگہ فع آ جائے گا اور یوں بھی رباعی کا وزن ہی رہے گا لیکن یہاں ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے سو بہتر ہے کہ اللہ کا مکمل وزن لیا جائے۔

یہ رباعی کا ایک انتہائی مستعمل وزن ہے، اور اساتذہ عموماً رباعی کے سلسلے میں سب سے پہلے یہی وزن یاد کروایا کرتے تھے۔

مولانا الطاف حسین حالی کی ایک رباعی جس میں انہوں نے یہ وزن باندھا ہے

کیا پاس تھا قولِ حق کا، اللہ اللہ
تنہا تھے، پہ اعدا سے یہ فرماتے تھے شاہ
میں اور اطاعتِ یزیدِ گمراہ
لا حَولَ و لا قُوّۃَ الّا باللہ

استفسار: غالب کی مشہور رباعی جس پر ماہرین عروض نے اعتراض کیا ہے

دل رک رک کر بند ہوگیا ہے غالب

اور کہا جاتا ہے کہ اس میں ایک " رک " کا لفظ زیادہ ہے ۔۔ اس بارے میں وارث صاحب کی رائے کیا ہے

جواب: غالب کی مذکورہ رباعی کی بھی دلچسپ صورتحال ہے۔

دُکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب
دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سوگند ہو گیا ہے غالب

کہا جاتا ہے کہ رباعی کے اوزان پر گرفت بہت مشکل ہے اور بڑے بڑے شاعر بھی اسکے اوزان کے بارے میں خطا کر جاتے ہیں جیسے کہ غالب سا شاعر بھی کہ اوپر والی رباعی میں دوسرا مصرع رباعی کے وزن سے خارج ہے۔

غالب کے مذکورہ مصرعے پر سب سے پہلے یہ اعتراض علامہ نظم طباطبائی نے اپنی شرح دیوانِ غالب میں کیا تھا اور اسکے بعد سے 'سخن فہموں' اور 'غالب کے طرف داروں' میں اس پر خوب خوب بحث ہوئی ہے۔

میرے لیے حیرت اور مزے کی بات یہ ہے کہ مولانا غلام رسول مہر نے اپنے مرتب کردہ دیوانِ غالب اور اپنی شہرہ آفاق شرح 'نوائے سروش' دونوں میں یہ رباعی لکھتے ہوئے ایک 'رُک' دوسرے مصرعے سے نکال دیا ہے گویا اپنی طرف سے تصحیح کر دی ہے اور اسکی متنازعہ حیثیت پر بالکل بھی بحث نہیں کی ہے حالانکہ مستند یہی ہے کہ غالب نے ' رک رک کر' ہی کہا ہے۔

یہ بات بھی بالکل ٹھیک ہے کہ اگر مذکورہ مصرعے میں سے ایک 'رک' نکال دیا جائے تو مصرعہ وزن میں آ جاتا ہے۔ لیکن اس پر دو اعتراض ہیں ایک تو یہ کہ اگر مصرعہ اس طرح کر دیا جائے

دل رُک کر بند ہو گیا ہے غالب

تو وزن میں ضرور آئے گا لیکن اس مصرعے کی ساری دلکشی ختم ہو جائے گی بلکہ 'فضول سا' مصرعہ ہو جائے گا۔ دوسرا یہ کہ غالب سے قادر الکلام شاعر کو کیا علم نہیں تھا کہ مصرع بے وزن ہو رہا ہے اور رباعی کے اوزان میں نہیں آ رہا؟

مولانا نجم الدین غنی رامپوری نے علمِ عروض پر اپنی شہرہ آفاق کتاب 'بحر الفصاحت' میں بھی یہ اعتراض غالب کے مصرعے پر کیا ہے اور اسکا جواب اس کتاب کے مرتب سید قدرت نقوی نے دیا ہے۔ انہوں نے اس پر ایک علیحدہ سے مضمون بھی لکھا ہے جو کہ افسوس میری نظر سے نہیں گزرا۔

قدرت نقوی صاحب کے بقول لفظ 'بند' گو فارسی کا لفظ ہے اور وتد ہے یعنی اسکا وزن 'فاع' ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ غالب نے اس لفظ کا ہندی استعمال کیا ہے اور 'بند' کی نون کو نون فارسی کی بجائے مخلوط نون سمجھا ہے، اور جیسا کہ اہلِ علم جانتے ہیں کہ نون مخلوط کا کوئی وزن نہیں ہوتا جیسا کہ لفظ 'آنکھ' میں اس نون کا کوئی وزن نہیں ہے سو نقوی صاحب کے بقول غالب نے اس کو سبب باندھا ہے یعنی 'بند' کا وزن 'بد' یا 'فع' لیا ہے۔

اگر نقوی صاحب کے مفروضے کو مان لیا جائے تو پھر غالب کا مصرع وزن میں آ جاتا ہے یعنی

دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب

دل رک رک - مفعولن
کر بد ہُ - مفعول
گیا ہے غا - مفاعیلن
لب - فع

یعنی اسطرح یہ مصرع 'مفعولن مفعول مفاعیلن فع' کے وزن پر آ کر موزوں ہو جاتا ہے۔

اس خاکسار کی بھی رائے میں یہ غالب کی عروضی غلطی نہیں ہے، یہ ماننا بہت مشکل ہے کہ غالب کو رباعی کے اوزان کا علم نہ ہو، بلکہ یہ غالب کی اجتہادی غلطی ہے کہ انہوں نے مصرعے کی دلکشی برقرار رکھنے کیلیے 'بند' کا غلط وزن لے لیا ہے، کیونکہ بہرحال بند میں نون مخلوط نہیں ہے بلکہ یہ لفظ فارسی کا ہے اور اس میں نون فارسی ہے جیسے 'رنگ' جنگ وغیرہ میں۔

استفسار: اقبال کی دو بیتیاں جنہیں عرف عام میں رباعی بھی کہا جاتا ہے اور غالبا" اقبال نے انہیں خود بھی رباعی کہا ہے ۔ اور وہ رباعی کے اوزان میں نہیں آتے ۔کیا ان سے قطعات کو رباعی کہنے کا جواز نکلتا ہے؟ مثلاً "تراشیدم، پرستیدم، شکستم" والا قطعہ۔

جواب: یہ بات تو طے ہے کہ رباعی اور قطعے میں بنیادی فرق وزن کا ہی ہے، باقی فرق ضمنی سے ہیں۔ جو دو شعر رباعی کے مذکورہ چوبیس اوزان میں ہیں وہ رباعی ہے وگرنہ قطعہ۔

اگر اس فرق کو روا نہ رکھیں تو پھر رباعی بہ حیثیت صنف کے ختم ہی جائے گی لہذا اس خاکسار کی ذاتی رائے میں اقبال نے اپنی دو بیتوں یا قطعات کو جو اپنی کتابوں میں رباعی لکھا ہے تو اس سے قطعے کو رباعی کہنے کا جواز نہیں نکلتا۔

لیکن اس بات سے ایک بڑا اہم سوال یہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ پھر اقبال نے ان دو بیتوں یا قطعات کو رباعی کیوں کہا اور ان کی زندگی میں ہی جو اردو اور فارسی کتب طبع ہوئیں ان کو رباعی ہی لکھا ہے گویا یہ انکی اجازت سے لکھا گیا ہے حالانکہ وہ رباعی کے اوزان میں نہیں ہے۔ تو پھر کیا وجہ تھی؟ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ وہ رباعی کے اوزان کو نہ جانتے ہوں۔

خاکسار کے محدود علم میں ایسی کوئی کتاب یا مضمون نہیں گزرا جس میں اقبال سے اس بابت میں استفسار کیا گیا ہو کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ اگر علامہ کا جواب مل جاتا تو بات صاف ہو جاتی ہے لیکن اس کی غیر موجودگی ظاہر ہے ہم صرف قیاس ہی کر سکتے ہیں کہ علامہ نے ایسا کیوں کیا۔

میرے نزدیک، رباعی کا چونکہ لغوی مطلب چار مصرعے والی ہے تو ہو سکتا ہے کہ اقبال نے اس وجہ سے ان قطعات کو رباعی لکھ دیا ہو۔

ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فارسی کے ایک قدیم اور مشہور شاعر ہیں بابا طاہر عریاں، انہوں نے صرف رباعیات ہی کہی ہیں اور انکے کلام کو 'دو بیتی' بھی کہا جاتا ہے اور رباعی بھی حالانکہ وہ رباعی کے مروجہ اوزان میں نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اقبال نے انکے تتبع میں ایسا کیا ہو۔ واللہ اعلم بالصواب

لیکن ایک بات تو طے ہے کہ فارسی کے قدیم شعرا سے لیکر ہمارے عہد کے شعرا تک، جتنے بھی مشہور رباعی گو شعرا ہیں انہوں نے جب بھی رباعی کہی رباعی کے اوزان میں ہی کہی سو رباعی اور قطعہ میں فرق ضروری ہے۔
 
آخری تدوین:
استفسار: یہ جو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ "لا حول ولا قوت الا باللہ " رباعی کا وزن ہے ۔۔ تو کیا یہ چوبیس اوزان میں سے ایک ہے ؟ اور وہ وزن کیا ہے ؟
جواب: دراصل قرآن مجید کی چند ایک آیات ایسی ہیں جو اتفاقاً کسی نہ کسی وزن پر موزوں ہو جاتی ہیں۔ انہی میں سے یہ آٰیۃ کریمہ بھی ہے کہ رباعی کے ایک وزن پر آ جاتی ہے۔
محترم جناب محمد وارث صاحب! کیا یہ قرآن کی آیت ہے؟
یہ تو حدیث کے الفاظ ہیں۔
 
Top